Rooh ka Makeen full novel in urdu, latest novel rooh ka makeen by beena khan in urdu

 Rooh ka Makeen full novel in urdu, latest novel rooh ka makeen by beena khan in urdu

Rooh ka Makeen
#Rooh_ka_Makeen
Beena_khan❤

#Episode_1

" اففففف.....یار یہ نشاء کہاں چلی گئی مجھے کچن میں چھوڑ کے سارا ملبہ مجھ پہ ڈال دیا سارا کچن پھیلا ہوا ہے ابھی صاحب بہادر آکے مجھ پہ چیخیں گے..... نشاء....نشاء مرو بھی یہاں" وہ اسے مسلسل آوازیں دے رہی تھی مجال ہے جو وہ سن لے سنک میں برتن گندے پڑے تھے کیبنٹ سے چیزیں نکال کے رکھی نہیں گئی تھیں اور ان کے دروازے تک کھلے تھے کچھ مسالے ایسے ہی گرے ہوئے تھے یہ سب نشاء جا سگھڑاپا تھا کھانا بنانے کے شوق میں یہ سب چیزیں پھیلا لیں تھیں اور اب تنگ آ کے کچن چھوڑ کے چلی گئی تھی اب سارا کام مرال کے کندھوں پہ آگیا تھا گھر میں کوئی بھی نہیں تھا ماما اور بڑی ماما لاہور گئی ہوئیں تھیں اور ارسہ اور سارہ پڑھ رہی تھیں اور نمیر اور زیان اپنے دوستوں کی طرف گئے ہوئے تھے دادی اپنے کمرے میں تھیں بابا اور بڑے بابا اور جبران آفس گئے ہوئے تھے آج آفس میں کام زیادہ تھا سو بابا نے فون کر کے بتا دیا تھا کہ دیر ہو جائے گی رات کے کھانے تک ہی پہنچیں گے وہ گھر  وہ کھانا کب کابنا لیتی پر بھلا ہو نشاء کا جس نے اسے دیر کرادی تھی 
" نشاء..... اچھا سنو کھانا میں بنا رہی ہوں تم برتن ہی دھو دو ماسی بھی آج کل چھٹی پہ ہے ورنہ اس سے دھلوا لیتی" وہ لاؤنج میں آکے بولی نشاء کانوں میں ہینڈفری لگائے گانے سن رہی تھی ایک کان سے ہینڈفری نکال کے بولی 
" کیا ہے..... مجھ سے نہیں بنتا کھانا "
" تو پھیلاوا پھیلانے کی کیا ضرورت تھی آج کے دن ہی یہ شوق چڑا تھا تمہیں..... اینی ویز میں تمہیں کھانا بنانے کا نہیں برتن دھونے کا کہہ رہی ہوں اٹھو "
" واااااٹ..... میں اور برتن دھؤوں..... یار میرو نیل پینٹ خراب ہوجائے گا میرا"
" اور آتے ہی تمہارے بھائی کا جو دماغ خراب ہو گا اس کا کیا "
" نو..... میں نہیں کرتی یہ کام" وہ اسے دیکھ کے رہ گئی
"نشاء......" وہ اتنا ہی کہہ سکی نشاء ااٹھی اور روم میں چلی گئی نشاء ویسے تو اپنے گھر کا ہر کام کرتی تھی لیکن جہاں دیکھتی کہ کوئی بڑا موجود ہے کام کے لیے تو پھر تو کوئی اسے اپنی جگہ سے اٹھا کے دکھا دے س ٹائم وہڈھیٹ بن جاتی تھی اور آج اس سے بڑی مرال تھی نا تو وہ کام کیوں کرتی
مرال واپس کچن میں آئی اور برتن چھوڑ کے کھانا بنانے لگی
رات کو بابا والے آئے تو اس نے کھانا لگایا جب سب کھا چکے تو اس نے برتن سمیٹے اور کچن میں آکے برتن دھونے لگی اتنے میں جبران وہاں آیا مرال چونکی جبران نے ناگواری سے اسے دیکھ کے واپس کی راہ لی
" آپ کو کچھ چاہیے" وہ پلٹتا ہی تھا کہ وہ بولی
" کچھ نہیں نشاء کو کافی کا کہنے آیا تھا پر.....چھوڑو" وہ کہہ کر چلا گیا
" ہونہہ صاحب بہادر کے ماتھے کے بل ہی کم نہیں ہوتے..... مجھے کیا ضرورت ہے خدمتِ خلق کی..... مجھ سے تو ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے میں کوئی بدروح ہوں یا مجھے خدانخواستہ کوئی بیماری ہے جو مجھ سے کوئی چیز لینا پسند نہیں کرتے" وہ سر جھٹک کے اپنا کام کرنے لگی پھر دل میں خیال آیا کہ "بیچارہ کافی کے لیے آیا تھا میں ہی پوچھ لیتی..... چلو میں بنا دیتی ہوں" یہ سوچ کر وہ کافی بنانے لگی اسے ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ غصہ نہ ہو جائے اس سے تو وہ ویسے ہی چڑتا ہے
اس نے کافی بنائی اور اوپر والے پورشن کی طرف گئی بڑے بابا اور جبران اپنے پورچن میں ہی سوتے تھے وہاج صاحب نے تو کہا تھا کہ جب تک دونوں خواتین نہیں آجاتیں وہ یہیں رہ لیں پر وہ دونوں اپنگ کمرے کے بغیر نہیں رہتے تھے ورنہ زیان اور سارہ تو نیچے پورشن میں ہی قیام پزیر تھے
وہ اوپر آئی اور اس کے کمرے کے پاس پہنچ کے دروازہ نوک کیا اور اندر داخل ہوئی جبران بیڈ پہ بیٹھا تھا اسے دیکھ کے کھڑا ہوا
" تم...." 
" وہ..... کافی"
"مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے تم سے کہا تھا"
"جج جی..... وہ میں نے سوچا" وہ جھجکی
" آئی ڈونٹ کئیر تم نے کیا سوچا نہیں پینی یہ کافی لے جاؤ" وہ بے رخی سے بولا
" تم جیسی گھریلو لڑکیاں یہ ہی کرتی ہیں اپنے منگیتر یا شوہر کو پھانسنے کے لیے بٹ میں ان میں سے نہیں ہوں اور نہ تمہارے کاموں اور خدمتوں سے امپریس ہونے والا ہوں سو یہ کوششیں ترک کردو بہتر ہے تمہارے لیے..... جاؤ" وہ کھڑی اس کے لفظوں پہ غور کررہی تھی وہ اس کے خلوص کو امپریس کرنے کی ایک ٹرک کہہ رہا تھا
" تم نے سنا نہیں جسٹ گو " جب وہ نہ گئی تو وہ اس کے سامنے آکے بولا اور ساتھ ہاتھ کے اشارء سے باہر کا راستہ بھی دکھایا وہ چلی آئی
کچن میں آکے اس نے کافی سنک میں پھینک دی اور رونے لگی 
" آپی..... آپی" اسے سارہ کی آواز آئی تو اس نے اپنے آنسو صاف کیے " کیا ہوا آپی جبران بھائی نے کچھ کہا ہے"
" نہیں.....نہیں تو..... وہ بس ماما یاد آرہی ہیں "
" ساری زمہ داری مجھ پہ آگئی ہے نا اس لیے میں پریشانی ہورہی ہے..... بس اور کچھ نہیں"
" پکا یہ ہی بات ہے؟؟؟"
" ہاں "
" اچھا میں سمجھی کہ بھائی نے کچھ کہا ہے"
" نہیں وہ مجھے اس ٹائم کیوں کچھ کہیں گے" 
" اچھا ٹھیک ہے"
" تم یہاں؟؟؟"
" جی آپی وہ بھائی آئے تھے نہوں نے کافی بنانے کے لیے کہا ہے مجھے" اس کے دل میں ٹیس سی اٹھی
" میرے ساتھ کچھ دیر کھڑی ہو جائیں گی میں کافی بنا لوں مجھے ڈر لگتا ہے ویسے تو نشاء آپی کھڑی ہوتی ہیں پر وہ سو چکی ہیں"
" کوئی بات نہیں میں کھڑی ہوں" وہ کافی بنانے لگی
" کیا جبران مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ سے کیا گیا کام کو بھی ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے اتنا ناپسندیدہ وجود ہوں میں ان کے لیے..... پر میں کیوں سو تی ہوں ان کے بارے میں اتنا..... وہ میرے کزن ہیں بس اور کچھ نہیں" وہ سوچ رہی تھی
" آپی بن گئی کافی" وہ چونکی
" اچھا چلو " وہ سیڑیوں پہ کھڑی ہوگئی اور سارہ اوپر کافی دینے چلی گئی اسے کافی دے کر وہ آئی اور دونوں کمرے میں چلی گئیں
                             ------
سارہ کافی دے کے چلی گئی تھی وہ گھونٹ گھونٹ کر کے کافی پینے لگا اور مرال کے بارے میں سوچنے لگا وہ کہیں سے بھی اس کا آئیڈیل نہیں تھی اسے بولڈ لڑکیاں پسند تھیں لیکن وہ اس میں کونفیڈینس تو تھا پر وہ بولڈ نہ تھی
اسے وہ لڑکیاں پسند تھیں جو گھر کے بکھیڑوں سے دور رہتیں اور مرال سارا گھر سنبھالتی تھی
وہ ایک کامیاب آدمی تھا اور اسے اس ٹائپ کی ہی ورکنگ ووِمن پسند تھیں جن کے ساتھ چلتے ہوئے فخر محسوس ہوتا
اس کا آئیڈیل ایک ایسی لڑکی تھی جو بولڈ،آزاد ذہن، گھومنے کی شوقین اور ورکنگ وومن ہو وہ خود کامیاب آدمیوں کی فہرست میں شامل تھا اور اسے اپنی ہمسفر بھی ایسی ہی چاہیے تھی 
اور مرال اس کا تو سایہ بھی دور دور تک اس کی آئیڈیل سے نہ ملتا تھا وہ ایک عام سی سادہ سی لڑکی تھی
وہ اپنی پڑھائی کمپلیٹ کر کے بجائے جاب کرنے کے گھر کی ذمہ داریوں میں حصہ لے چکی تھی اور اسے اس بات سے چڑ تھی وہ اس سے شادی کر کے 
مجبوری کی زندگی نہیں گزار سکتا تھا
                            -------
دوپہر کا کھانا کھا کے چاروں لڑکیاں لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں پھر بور ہو کے ارسہ اور سارہ گیم کھیلنے بیٹھ گئیں اور نشاء نیچے کارپیٹ پہ لیٹ کے ٹانگیں صوفے پہ رکھ کے لیٹ گئی مرال ناولز اٹھا کے لے آئی تو نشاء پڑھنے لگی ساتھ ڈرائے فروٹ کا شغل بھی فرمایا جا رہا تھا چاروں اپنے اپنے شغل میں مصروف تھیں کہ نشاء بک سے سر اٹھا کے بولی
" ہائے اللٰہ کہاں ہوتے ہیں یہ پیارے پیارے لڑکے..... رائیٹرز بھی ظلم کرتی ہیں ہم لڑکیوں کے ساتھ دکھاتی کیا ہیں اور ملتا کیا ہے"
" کس کی بات کر رہی ہو آپی" ارسہ بولی
" یہ اپنی عمیرہ احمد کی..... افففف سالار..... کتنا ہینڈسم ہے..... پڑوسی بھی ہے.....اوپر سے بیوی پہ لٹو بھی ہے"
" اوہ اچھا..... پہلی بات تو یہ کہ یہاں کوئی سالار ہے نہیں دوسرا یہ کہ ہمارے پڑوسی اتنے ہینڈسم نہیں اور جو ہیں وہ شادی شدہ ہیں"
" یہ ہی تو مسئلہ ہے قسم سے کاش سالار سکندر میرا ہوتا..... امامہ تو اسے لفٹ ہی نہیں کراتی میں ہوتی نا تو اس کے پاؤں دھو دھو کے پیتی کافی بھی خود بنا کے پلاتی افففف یہ ہمارے خواب " اس کے خیالات سن کے مرال سارہ اور ارسہ ہنسنے لگی
" تم لوگ کیوں ہنس رہی ہو؟؟؟"
" تو کیا روئیں..... وہ امامہ پہ اس لیے لٹو تھا کیونکہ وہ اسے لفٹ ہی نہیں کراتی تھی اور اگر اس کی جگہ تم ہوتی نا تو تم ان دو نمبر لڑکیوں کی طرح اسے چھت پہ چڑ چڑ کے لائین مارتی اور اگر فرض کرو تمہاری شادی ہو بھی جاتی نا تو....." ارسہ مرال کی طرف دیکھ کے بولی " آپ بتاؤ آپی کیا ہوتا"
"وہ تم سے دور بھاگتا رہتا ایک تمہاری شکل دیکھ کے دوسرا تمہارا وزن دیکھ کے" مرال نے کہا تو سب ہنس دیں نشاء کا وزن ان سب میں زیادہ تھا وہ موٹی نہ تھی بس بھری بھری سی تھی سب لوگ اسے "گوشت کی چھوٹی سی پہاڑی" کہتے تھے سب میں جبران شامل نہ تھا جبران سنجیدہ مزاج بندہ تھا ک. ہی گھلتا ملتا تھا
" کیاااااا......."
" اور کیا سچ ہی تو کہہ رہی ہیں آپی " سارہ بھی ہنستے ہوئے بولی نشاء اٹھی 
" تم لوگوں کو تو سوکھے کی بیماری ہے ہونہہ..... صحت مند لوگوں سے جل رہے ہو کیونکہ میں تم میں نمایاں جو رہتی ہوں ہمیشہ اور شکل کی بات تو رہنے ہی دو اس جیسے دس سالار سکندر پاگل ہو جائیں مجھے دیکھ کر" اس نے گویا بدلہ اتارا
" چلو ایک کو پاگل کر کے دکھا دو تو مانیں " مرال ہنستے ہوئے بولی نشاء بوکھلائی پھر سنبھل کے بولی
" میں ایک شریف لڑکی ہوں ایسی حرکتیں مجھے زیب نہیں دیتیں میرے نزدیک ایسی حرکتیں ناقابلِ قبول ہیں"
" آہاں یہ بولو آپی کہ تم کسی لڑکے کو قابلِ قبول نہیں لگیں" سارہ بولی تو سب ہنسنے لگیں نشاء پاؤں پٹختی اندر کمرے میں چلی گئی پیچھے وہ سب ہنستی رہیں
                           -------
#Rooh_ka_Makeen
#Bena khan
#Episode_2

آج سنڈے تھا ماما کا فون آیا تھا کہ آج وہ لوگ آرہے ہیں شام تک انہوں نے پہنچ جانا تھا پر ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے وہ رات میں پہنچے تھے مرال نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ اب اسے گائیڈ کرنے والی دونوں خواتین آگئی تھیں رات کو کھانا کھانے کے بعد سب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ بڑی ماما بولیں
" واہ بھئی مرال نے تو بہت اچھے طریقے سے گھر سنبھال لیا ہے ماشآاللٰہ"
" ہممم میں بھی یہی دیکھ رہی ہوں" ماما نے بھی تائید کی وہ مسکرائی
" آخر بہو کس کی ہے..... بس اب دیر نہیں کرتے جلد سے جلد میں اپنی بہو کو اپنے گھر لے جانا چاہتی ہوں کیوں کیا کہتے ہیں آپ....." انہوں نے ابتہاج صاحب سے پوچھا
" ہمممم ٹھیک کہہ رہی ہو تم کیا کہتے ہو وہاج اسمہ" انہوں نے دونوں سے پوچھا
" ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھائی صاحب آپ کی امانت ہے جب چاہیں لے جائیں" سب بہت اکسائیٹڈ ہو رہے تھے نشاء ارسہ اعر سارہ نے تو تنگ کرنا شروع کرفیا تھا مرال کو جبران کے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھ گیا البتہ مرال سب کے سامنے جھینپ گئی اس نے مرال کا جھینپا جھینپا روپ ناگواری سے دیکھا اسے غصہ آرہا تھا اس کی شکل دیکھ دیکھ کے سمپل سے پنک کلر کے کاٹن کے سوٹ میں سر پہ دپٹہ جمائے وہ ویسے تو وہ بہت پیاری لگ رہی تھی پر جبران کو وہ زہر لگ رہی تھی وہ اٹھ کے وہاں سے چلا گیا
وہ بھی اٹھ کے کچن میں آ گئی چہرہ سرخ ہو رہا تھا وہ مسکرا رہی تھی پتا نہیں کیوں دل اتنا خوش تھا کہ حد نہیں اتنے میں کسی نے غصے سے اس کی کلائی کھینچ کے اس کا رخ اپنی طرف کیا جبران تھا جس کا چہرہ غصے سے لال سرخ ہو رہا تھا
" کیا سمجھتی ہو تم ہاں..... میں تم جیسی دبو اور گھریلو ٹائپ لڑکی سے شادی کروں گا مائے فٹ میرا لیول دیکھو اور اپنے آپ کو دیکھو تم جیسی لڑکی کو کبھی میں اپنی زندگی میں شامل نہیں کروں گا سنا تم نے کبھی نہیں" وہ اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اسے تکلیف ہو رہی تھی
" میری ہاتھ چھوڑیں جبران" اس نے دیکھا وہ تکلیف سے رو رہی تھی اس نے جھٹکے سے کلائی چھوڑی
" تم میرا خواب کبھی بھی نہیں تھیں تم میرا خواب ہو بھی نہیں سکتیں سمجھ آئی میرے خواب میری ترجیحات تم سے بہت الگ ہیں سو بہتر ہو گا تم یہ معاملہ خود ہی ختم کروادو ورنہ......" اس نے انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا وہ بے یقینی سے اس کا یہ روپ دیکھ رہی تھی وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا وہ وہیں بیٹھ کے بے آواز روتی رہی
                            --------
آج جبران کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو بڑی ماما نے آفس سے چھٹی کرادی تھی ارسہ اور سارہ دونوں کالج گئی ہوئی تھیں اور نشاء یونی سو وہی گھر پہ تھی بڑی ماما نے اسے جبران کی شرٹس پریس کرنے کا کہا تھا وہ اپنے کام میں مگن تھی کہ جبران اپنے روم سے باہر نکلا اور اپنی شرٹ اس کے ہاتھ میں دیکھ کے تیزی سے آگے بڑھا اور شرٹ اس کے ہاتھ سے لی
" ہاؤ ڈئیر یو..... ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے کپڑوں کو ہاتھ لگانے کی کس کی اجازت سے تم نے میری چیز کو ہاتھ لگایا" وہ اس کا بازو پکڑ کے بولا
" جبران کیوں غصہ ہو رہے ہو ہٹو....." انہوں نے اس کو پیچھے کیا " میں نے کہا تھا اسے کہ تمہاری شرٹس پریس کردے"
" کیوں..... اگر میرے کپڑے بھاری ہیں تو کل سے میں لانڈری میں دے دوں گا اپنے کپڑے"
" حد ہو گئی جبران کیسی باتیں کر رہے ہو تم..... کل کو اس نے ہی یہ سب کرنا ہے" 
" نہیں ماما میں آپ کو آج صاف لفظوں میں بتا رہا ہوں کہ میں اس رشتے کو نہیں مانتا....." اس نے روتی ہوئی مرال کی طرف دیکھ کے کہا " آپ اسے..... اسے میری بیوی بنانا چاہتی ہیں کہاں سے آپ کو ہہ میرے قابل لگتی ہے" 
" جبران کیا کہہ رہے ہو ہوش میں تو ہو اسمہ سن لے گی کتنا برا لگے گا اسے اور تمہارا یہ رشتہ بچپن سے طے ہے جبران اب نا کی کوئی گنجائش نہیں بچتی"
" ماما میں....."
"بس جبران اگر تم نے منع کیا نا اس رشتے سے تو تمہیں میری لاش سے گزرنا ہوگا" کہہ کر انہوں نے بات ختم کردی وہ خاموش ہو گیا 
" یہ زیادتی ہے ماما"
" یہ زیادتی نہیں اسی میں تمہاری بھلائی ہے بہت جلد تمہیں سمجھ آجائے گی کہ تم غلطی پہ ہو....." مرال برستی آنکھوں سےخاموش کھڑی دونوں ماں بیٹے کو سن رہی تھی
" غلطی؟؟؟ نہیں ماما....." اس نے رخ پھیر لیا
" کیا برائی ہے میری بچی میں جبران کیوں اسے سزا دے رہے ہو بتاؤ"
" کیا اتنا کافی نہیں کہ یہ میرا آئیڈیل نہیں ہے..... میری خواہش نہیں ہے"
" آئیڈیل کچھ نہیں ہوتا جبران جانتی ہوں تمہارے آئیڈیل کو میں..... میرے بچے آئیڈیل کو اپنی خواہش نہیں بناتے جبران"
" میں کچھ نہیں سننا چاہتا ماما بس اس کو بولیں یہ یہاں سے جائے مجھے اس کا وجود اپنے آس پاس برداشت نہیں ہوتا" اور کہہ کر کمرے میں چلا گیا بڑی ماما نے مرال کو دیکھا جو اب پلٹنے لگی تھی انہوں نے اس روکا اور اسے اپنے گلے لگا لیا مرال ان کے گلے لگ کے شدت سے رو دی
" بس میری بچی بس..... مجھے معاف کردو بیٹا"
" نہیں بڑی ماما آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں پلیز مجھے شرمندہ نہ کریں"
" شرمندہ تو میں ہو گئی ہوں تمہارے سامنے بیٹا..... میرا بیٹا آئیڈیل کے پیچھے بھاگ کر اپنے آج اور مستقبل کو تباہ کر رہا ہے..... میں کچھ مانگوں تم سے دو گی؟؟؟" اس نے سر اٹھا کے ان کی طرف دیکھا
" میں جانتی ہوں بیٹا اب میری پوزیشن نہیں ہے تم سے کچھ مانگنے کی پر....."
" جی بڑی ماما بولیں نا"
" تم میرے بیٹے کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑنا.....ایک تم ہی ہو جس پہ مجھے بھروسہ ہے جو میرے بیٹے کو سنبھال لے گی جو اپنی محبت سے جیت لے گی..... بتاؤ بیٹا" 
" پر....."
" بیٹا میں جانتی ہوں یہ مشکل ہے پر ناممکن تو کوئی چیز نہیں ہے نا" وہ پریقین تھیں کہ وہ ان کے بیٹے کو بدل دے گی تو وہ کیوں ان کا یقین توڑتی
" جی بڑی ماما..... میں کوشش کروں گی" انہوں نے اسے گلے لگا لیا وہ جانتی تھیں کہ وہ اس کی زندگی داؤ پہ لگا رہی ہیں پر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ ان کے بیٹے کو اپنی محبت سے اپنا بنا لے گی.
                          -------
وہ پہلے اپنے بچپن میں بہت لونگ کئیرنگ سا تھا وہ کم بولتا تھا لیکن جب وہ بولتا تھا تو اگلے کو اپنا گرویدہ کرلیتا تھا بچپن سے اسکول میں نمایاں رہا اپنے گھر میں سب سے بڑا بچہ ہونے کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بنا اس کے پانچ سال بعد پھر مرال نے آکے سب کی توجہ حاصل کی پھر نمیر اور نشاء آئے اورپھر زیان ارسہ سارہ تو گھر والوں  کی توجہ بٹتی گئی لیکن جبران جبران تھا پھر اسکول سے کالج پھر یونیورسٹی میں وہ توجہ کا مرکز بنا رہا ایک اپنی وجاہت سے دوسرا قابلیت سے وہ اپنے آپ کو منواتا گیا مرال بھی اس سے کم نہ تھی وہ بھی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھی کالج میں آکے جبران کو پتا چلا کہ وہ مرال کا منگیتر ہے اس وقت اسے کوئی اعتراض نہ ہوا وہ کامیابی کی بلندیوں کو چھونے لگا تو اس کی سوچ بدلنے لگی ایک آئیڈیلازم جنم لینے لگا مرال اس کو اس آئیڈیل سے بہت دور لگی اور خیال پہ مہر تب لگی جب ماما اور بڑی ماما کی طبیعت ناساز ہونے لگی تو مرال نے اپنی پڑھائی کمپلیٹ کر کے گھرداری سنبھال لی جبران کو آہستہ آہستہ چڑ ہونے لگی اور وہ اس کے دل سے دن بہ دن اترتی چلی گئی محبت تو اسے پہلے بھی نہ تھی پر جو پسند تھی اب وہ بھی نہیں رہی تھی وہ مرال کے ساتھ اپنے آپ کو مس فٹ محسوس کرتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ سمپل رہتی تھی گھومنے پھرنے کا کوئی شوق نہیں تھا اسے وہ اسے کنویں کی مینڈک لگنے لگی تھی وہ اسے دبو سمجھنے لگا اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا اسے چوٹ دے کے اذیت دے کے..... وہ جب سامنے آتی تب تب وہ اسے زہر لگتی وہ اس کے کسی کام کس ہاتھ لگاتی تو اسے برا لگتا
دوسری طرف مرال کو اپنی بچپن کی منگنی کا پتا چلا تو اس دل ن اسے اسے جی جان سے ایکسیپٹ کرلیا تھا پر جبران کی سنجیدگی اور لیے دیے رویے نے اسے کوئی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کیا تھا پر پھر بھی کیوں اس کا دل اسے دیکھ کے بےترتیب دھڑکتا تھا پر آہستہ آہستہ جبران کے نارواسلوک کی وجہ سے اس کی محبت کہیں دل میں ہی قید ہو کے رہ گئی تھی اسے پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا -------
سب چاہتے تھے کہ جبران اور مرال ایک ہوجائیں آج آمنہ پھپو اور ان کے بچے بھی آئے تھے اور دادی بھی ساتھ ہی آگئی تھیں جو پھپو کے اسرار پہ ان کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے ان کے گھر چلی گئی تھیں دادی تو بہت خوش تھیں انہیں اپنے یہ دو بچے جبران اور مرال دل و جان سے عزیز تھے پھپو بھی بہت خوش ہوئیں یہ سن کے
" بہت اچھا کیا بھائی آپ نے ماشآاللٰہ سے جبران بھی اب شادی کے قابل ہو گیا ہے اور بزنس کے میدان میں بھی اپنے آپ کو منوا چکا ہے اچھا ہے اپنی لائیف میں سیٹل ہو جائے گا ٹائم سے"
" جی میرا بھی یہ ہی خیال ہے" ابتہاج صاحب بولے
" تو پھر دیری کس بات کی ہے ابتہاج وہاج گھر کی ہی تو بات ہے اچھے کام میں دیری کیوں..... کیوں رافعہ؟؟؟" انہوں نے بڑی ماما کو مخاطب کیا جو ان کی بات سن کے  سوچوں میں گم ہو گئی تھیں ایک دم چونکیں
" تم کہاں کھوئی ہوئی ہو رافعہ؟؟؟"
" وہ..... وہ ماجی مم.....میں.... سوچ رہی تھی" وہ اٹکیں تو اسمہ بھی ان کی طرچ دیکھنے لگیں"کہ اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہوں گی" تو دادی اور اسمہ ہنس دیں
" یہ لو یہ اسے دیکھو ابھی تاریخ طے ہوئی نہیں اور یہ ہاتھ پہ سرسوں جمائے بیٹھی ہے" دادی ہنستے ہوئے بولیں
" اماں سوچنا تو پڑتا ہے نا اتنا کام ہوتا ہے" اسمہ بولیں
" ہاں یہ تو ہے اسمہ ٹھیک کہہ رہی ہو بالکل بس سب خیر خیریت سے ہو جائے اور میرے دونوں بچے ہنسی خوشی رہیں بس آمین" وہ بولیں تو دونوں بہوؤں نے آمیں کہا رافعہ بھی ان دونوں کی زندگی کے لیے دل سے دعاگو تھیں.
Admin  محمد وسیم
 #Rooh_ka_Makeen
Beena_khan❤

#Episode_3

ان کی شادی کی ڈیٹ فکس کردی گئی تھی جبران نے بہت ہنگاما کیا تھا پر رافعہ نے اپنی قسم دے کے اسے خاموش کردیا تھا شادی ہی کرنی ہے نا کر لے گا وہ شادی کوئی بات نہیں..... اور اس کے بعد وہ اسے چین سے نہیں رہنے دے گا وہ روز روئے گی تڑپے گی جو اذیت اس نے پل پل برداشت کی ہے وہ اسے روز محسوس ہو گی وہ سوچ چکا تھا
                             ------
" اوہ آپی..... کتنا مزا آئے گا آپ کی شادی پہ....." ارسہ اس کے گلے لگ کے بولی
" ماما اور بڑی ماما تو آج سے تیاریوں میں لگ گئی ہیں" وہ بتانے لگی وہ ہنوز چپ تھی
" کیا ہو آپی.... چپ کیوں ہو"
" ہاں ہممم...." وہ چونکی " کچھ نہیں.... تم بولو" وہ پھر بولنے لگی تھی مرال کا دل اندر سے بہت خالی تھا اس شادی کو لے کر اس کے دل میں کوئی خوشگمانیاں نہیں تھیں کیوں کہ وہ جبران کو جانتی تھی وہ چپ بیٹھنے والا نہ تھا وہ فی الحال چپ تھا تو صرف اپنی ماں کی وجہ سے اسے پتا تھا اس کا کل کیا ہونے والا ہے اور اسی کو سوچ سوچ کے وہ پریشان تھی
عشاءکی نماز پڑھ کے اس نے دعا میں ہاتھ اٹھائے تو آنسو خودبخود امڈ آئے
" اے اللٰہ! کیا یہ ہی شخص میری زندگی میں آنا تھا..... جس کے دل میں میرے لیے کوئی جگہ نہیں ہے.....ایک ایسے بندے کی زندگی میں مجھے شامل کررہا ہے جس کی خواہش میں نہیں جس کی منزل میں نہیں..... اے اللٰہ بڑی ماما مجھ سے امیدیں باندھ کے بیٹھی ہیں کہ میں ان کے بیٹے کو محبت سے جیت لوں گی پر کیسے اللٰہ..... مجھے نہیں معلوم کچھ بھی..... نہیں معلوم اللٰہ..... میں نے سب کچھ تجھ پہ چھوڑ دیا ہے اللٰہ..... ہمیشہ میرا رازدار تو ہی رہا ہے جس سے اپنے دل کی ہر بات کہہ دیتی ہوں ایک تو ہی تو ہے جو میرے بنا کہے میرے دل کا حال جان لیتا ہے تجھے تو معلوم ہے نا میں اس وقت کیا محسوس کر رہی ہوں بس میں نے سب چھوڑ دیا تجھ پہ..... جو بھی ہو میرے حق میں بہتر کرنا اللٰہ....." اس نے آمین کہہ کر منہ  پہ ہاتھ پھیرا اور جائے نماز سمیٹی اور باہر لان میں آگئی اس نے سب اللٰہ پہ چھوڑ دیا تھا اور اب وہ مطمئن تھی وہ آسمان کی طرف دیکھ کے مسکرائی
" بڑا مسکرایا جا رہا ہے" وہ چونکی دیکھا تو جبران سامنے کھڑا تھا اس کی مسکراہٹ سمٹی
" خوش ہو رہی ہو کہ اتنا ہینڈسم ویل ایجوکیٹڈ اور کامیاب انسان تمہاری قسمت بن رہا ہے رشک کررہی ہو خود پہ؟"
" نہیں بکل بھی نہیں....رشک کس بات کا....اگر آپ ہینڈسم ہیں تو کم خوبصورت تو میں بھی نہیں ہوں رہی ایجوکیشن کی بات تو آپ کی طرح میں بھی ویل ایجوکیٹڈ ہوں اور اگر آپ بزنس کی دنیا میں کامیاب و معتبر ہیں تو میں بھی گھر والوں کی نظروں اور ان کے دل میں معتبر ہوں مجھے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کس کے لیے کیا ہوں یا کوئی مجھے کیا سمجھتا ہے بٹ مجھے خوشی ہے کہ اپنے گھر والوں کی نظروں میں میرا ایک رتبہ اور مقام ہے" وہ پہلی بار اس کے سامنے یوں بول رہی تھی
" بہت ہمت آگئی ہے تم میں.... جو کبھی میرے سامنے آنے سے کتراتی تھی آج میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہی ہے یہ جانے بغیر کہ تمہارا فیوچر کیا ہے"
" ہمت تو پہلے بھی تھی مجھ میں پر آپ  کی عزت کرتی تھی اس لیے چپ تھی اور آپ نے مجھے کمزور سمجھ لیا"
" تو کیا اب عزت نہیں کرتیں"
" کرتی ہوں....بہت کرتی ہوں....اور اب تو زیادہ کروں گی آپ کی عزت پتا کے کیوں...؟کیونکہ اب تو آپ میرے ہونے والے شوہر ہیں اور آنے والے دنوں میں میں بھی آپ کی عزت بن جاؤں گی سو کچھ بھی کرنے سے پہلے آپ اپنی عزت کے بارے میں تو ضرور سوچیں گے.... ہیں نا؟؟؟" وہ بول کے جانے لگی کہ جبران نے غصے سے اسـکا ہاتھ پکڑ کے روکا اور بولا
" بہت بولنا آگیا ہے نا تمہیں .... بے فکر رہو ایسی جگہ پہ لا کے تم کو ماروں گا جہاں تمہیں پانی نہیں ملے گا گھٹ گھٹ کے مرو گی تم.... اور رہی عزت کی بات تو وہ تمہیں مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے میں اچھی طرح سے اپنی عزت کو سنبھالن جانتا ہوں میری ماں کی قسم میری کمزوری ہے صرف وہی نبھا رہا ہوں اور اس کے بعد اپنی قسمت پہ رو گی تم" وہ کہہ کر چلا گیا تھا مرال نے آنکھ میں آئی نمی کو صاف کیا اب اسے رونا نہیں تھا اب اسے مضبوط بننا تھا.
                          ------
ماما اور بڑی ماما شاپنگ کر کے آئے تھے اور اب دسکشن جاری تھی نشاء بھی سب دیکھ رہی تھی
" واؤ آپی تو پری لگیں گی جب یہ پہنیں گی" سارہ بلیک ساڑی کو ستائش سے دیکھ کے بولی جس پہ سلور کام ہوا وا تھا
" آپی.... اوہ بہن اب تو بھابی بولو انہیں....ہمارے بھائی کی ہونے والی وہ ہیں یہ" نشاء کے کہنے پہ جہاں ماما بڑی ماما مسکرائیں وہاں مرال جھینپ گئی
"مرال بھابی آپ پہ یہ کلر بہت اچھا لگے گا جبران بھائی تو دیکھ کہ ہی بیہوش ہو جائیں گے آپ کو" نشاء بولی تو مرال نے اسے گھورا بڑی ماما نے مرال کے گلابی ہوتے چہرے کو دیکھا "خدا کرے ایسا ہی ہو" ان کے دل سے دعا نکلی اتنے میں زیان اور نمیر بھی آگئے اب تو مرال پھنس گئی تھی وہ سب مل کے اب مرال کو چھیڑ رہے تھے
"خاموش.....خبردار جو میری بہو کو تنگ کیا اور نشاء خاص کر تم ورنہ تمہیں بھی رخصت کردوں گی میں" نشاء کی تو آنکھیں نکل آئیں
" بالکل ٹھیک ماما اس چڑیل کو جلد رخصت کردیں تاکہ.... اہم اہم.... مابدولت ک بھی نمبر آئے"
" تم تو ٹہرو ذرا کرتی ہوں میں تمہاری شادی"
" رئیلی ماما" زیان چمک کے بولا
"کوئی ضرورت نہیں ہے تمہارا نمبر سب سے لاسٹ میں آئے گا.... میں بڑا ہوں تم سے تو میری ہو گی اور ویسے بھی مرال آپی کے بعد تو میں ہی ہوں تم ابھی کہاں..... پہلے جبران بھائی چلو وہ تو نبٹے پھر نشاء جس کی شادی کے دور دور تک کوئی چانسز نہیں ہیں" نشاء نے نمیر کو گھور کے دیکھا"پھر تم آؤ گے.... بھئی خیال سے کہیں بوڑھے نہ ہو جانا اپنی بہن کے پیچھے..... ذرا سوچو اس چڑیل کے ساتھ ساتھ تم بھی سر جھاڑ منہ پھڑ بیٹھے رہو گے جب ہم اپنے بچوں کو لے کے آیا کریں گے تمہارے پاس تو تم ٹھنڈی آہیں بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکو گے..... سوچو میرے بھائی تم تو گئے " نمیر نے مستقبل کا خاکہ اسے کھینچ کے بتایا
" اللٰہ نہ کرے نمیر میں کیوں بیٹھی رہوں توبہ کرو"
" اوہ بھائی بددعائیں تو نہ دے" زیان بھی بولا
" میں تو تمہاری شکل کی وجہ سے کہہ رہا تھا کہ...." 
" کہ...؟؟؟؟ کیا مطلب ہاں " 
" کچھ نہیں.... ہاں بس تھوڑی سرجری کروالینا بر دکھوے سے پہلے کہیں کوئی معصوم دھوکا نہ کھا جائے.... سرجری سے زیادہ نہیں تو اتنا ضرور ہو جائے گا کہ تم تھوڑی قبول صورت ہو جاؤ گی" نمیر کے بولنے پر سب ہنسنے لگے نشاء کو تو صدمہ ہو گیا
" کیاااااااااا...... چچی آپ دیکھ رہی ہیں اسے"
" نمیر انسان بن جاؤ کیوں میری بچی کو تنگ کررہے ہو اتنی پیاری تو ہے"
" اور کیا ان لوگوں کی تو آنکھیں خراب ہیں ہیرے کی پہچان صرف جوہری کو ہوتی ہے تم ٹہرے کوئلے تمہیں کیا پتا ہونہہ...."
" بندریا تم...."،وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ نمیر کی کال آئی اور وہ اٹھ گیا
" چلو شکر گیا یہ ماما شاپنگ دکھائیں نا" وہ شاپنگ کی طرف متوجہ ہوئی
" تمہیں لڑائی سے فرصت ملے تو تم لوگ دیکھو"
'" چھوڑیں نا بھابی ان سے ہی تو گھر میں رونق ہے" اسمہ بولیں تو رافعہ نے بھی ان کی بات کی تائید کی
                --------
دن ایسی تیزی سے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا آج جبران اور مرال کی شادی ہوئی تھی اور اب وہ جبران کے روم میں بیٹھی اس کا ویٹ کر رہی تھی مرال کو اس سے کوئی اچھی امید نہیں تھی اور نہ اس کے دل میں جبران کے لیے کوئی جذبات تھے وہ سوچوں میں گم تھی کہ جبران دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا وہ سیدھی ہو بیٹھی وہ چلتا ہوا اس تک آیا اور اسے زور سے کھینچ کر بیڈ سے نیچے اتارا اور اس کا گھوگھٹ الٹا دیا ایک بار جو اس کی نظر پڑی تو جیسے پلٹنا ہی بھول گئی اسے سب لوگوں کی باتیں یاد آئیں نشاء کہہ رہی تھی
" مرال تو آج کوئی اور ہی دنیا کی لڑکی لگ رہی ہے" زیان کہہ رہا تھا
" بھائی تو آج گئے مرال آپی آج تمام ہتھیاروں سے لیس ہیں بھائی کی خیر نہیں" اوت سب ہنس رہے تھے
واقعی آج مرال غضب ڈھا رہی تھی ایک مرال کا حسن دوسرا تنہائی اور تیسرا اپنے رشتے کا خیال اسے کمزور کررہا تھا سوچا کہ سب بھلا دے پر..... وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا
" نہیں مرال میری منزل نہیں ہے..... اور خوبصورتی تو صرف ابھی ابھی کی ہے پھر بعد میں....." اس نے سر جھٹکا اسے اپنہ سوچ پہ غصہ آیا اور ایک زور دار تھپڑ کھینچ کے اس کے گال پہ مارا
" کیا سمجھتی ہو تم ہاں کیا سمجھتی ہو..... مجھ سے نکاح کرلیا ہے تو مجھے حاصل بھی کرلو گی غلط فہمی ہے تمہاری مرال مر بھی جاؤ گی نا تو تمہیں پوچھنے تک نہیں آؤں گا میں تمہیں..... مجھے دیکھنے کو میری محبت کو ترسو گی پر جب بھی آؤ گی مایوس لیٹو گی....." وہ پھٹی آنکھوں سے بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی اسے پتا تھا کہ وہ اس شادی سے خوش نہیں ہے پر اتنا خلاف تھا وہ اس شادی کے یہ معلوم نہ تھا اسے
" تم سے آج مجھے جتنی نفرت فیل ہو رہی ہے نا مرال بی بی شاید ہی کسی سے ہو..... اور میری نفرت کبھی محبت میں نہیں بدلے گی ترسو گی تم سمجھی....." کب آنسو آنکھوں کی باڑ توڑ کے گالوں پہ بہنے لگے اسے پتا ہی نہیں چلا جبران بیڈ پہ جا کے
لیٹ گیا وہ وہیں کھڑی سوچنے لگی کتنا سنگدل تھا وہ شخص اسے کسی کے دل کے خیال ہی نہ تھا فکر تھی تو بس اپنے دل کی اپنی خواہشوں کی اپنے سے جڑے رشتوں کی اس کے دل میں کوئی اہمیت کوئی وقعت نہیں تھی.....
" اب کون سے مراقبے میں بزی ہو..... یہ سوچ رہی ہو کہ آکے میں تمہارے آنسو پونچھو گا.....سوچ ہے تمہاری..... لائیٹ آف کردو پھر روتی رہنا جتنا رونا ہے کیونکہ اب تو ویسے بھی ساری زندگی رونا ہی ہے تم نے اچھا ہے ابھی سے اپنے آپ کو سنبھالنا سیکھ لوگی" کہہ کر وہ کروٹ لے کہ لیٹ گیا وہ وہیں کھڑی رہی رہی
" رونا ہے نا اگر تو دفع ہو جاؤ میرے سامنے سے کہیں اور جا کے رو" وہ غصے سے بولا وہ گئی اور لائیٹ آف کردی اور وہیں بیڈ کے پاس بیٹھ کر رونے لگی.
Admin محمد وسیم
: Rooh ka makeen 
Beena khan
#Episode_4

پتا نہیں کب وہ روتے روتے سو گئی تھی اسے پتا نہیں چلا وہ سو رہی تھی کہ کسی نے اس کا کندھا زور سے ہلایا وہ ہڑبڑا کے جاگی
" اٹھو محترمہ صبح ہو گئی ہے" جبران نے کہا وہ یک دم ہڑبڑا کے اٹھی گالو  پہ انگلیوں کے نشان واضح تھے
" اب کیا ہونقوں کی طرح دیکھ رہی ہو اٹھو" وہ بیزاری سے بولا وہ اٹھ گئی تو وہ واشروم چلا گیا وہ وہیں بیڈ پہ بیٹھ گئی اور گزشتہ رات کے بارے میں سوچنے لگی جبران کے الفاظ پھر سے اس کے کانوں میں گونجنے لگے
"کیا سمجھتی ہو تم ہاں کیا سمجھتی ہو..... مجھ سے نکاح کرلیا ہے تو مجھے حاصل بھی کرلو گی غلط فہمی ہے تمہاری مرال مر بھی جاؤ گی نا تو تمہیں پوچھنے تک نہیں آؤں گا میں تمہیں..... مجھے دیکھنے کو میری محبت کو ترسو گی پر جب بھی آؤ گی مایوس لیٹو گی....." اس کی آنکھوں میں پھر سے جلن ہونے لگی بار بار وہ الفاظ اسے تنگ کر رہے تھے
" مجھے دیکھنے کو میری محبت کو ترسو گی..... ترسو گی.....ترسو گی" اس نے تنگ آکے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیے دل چاہا کہ دھاڑے مار مار کے روئے
" اللٰہ..... اللٰہ مر جاؤں گہ میں اللٰہ..... کہاں جاؤں..... کس سے کہوں میں" وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رو رہی تھی کہ جبران واشروم سے نکلا اور اسے روتا دیکھا تو ایک دم غصہ آگیا اور اس کے قریب آکے زور سے اس کا بازو پکڑ کے اپنی اور کھینچا وہ اس کے سینے سے آلگی یہ سب اتنی بے دھیانی میں ہوا کہ کچھ دیر تو وہ بول ہی نا سکا بس اس خوشبو کو محسوس کرتا رہا جو اس کے آس پاس بکھر گئی تھی وہ اس کا بھیگا چہرہ اس کی آنکھیں دیکھتا رہا دل کو پھر کچھ ہونے لگا کل سے یہ کیا ہو رہا تھا کہ دل اس کی اور کھنچا جا رہا تھا شاید نئے رشتے کا احساس تھا یا کچھ اور وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا پھر ایک دم ہوش میں آیا اور اس کو اپنے سے الگ کیا اور بولا
" یہ رونا دھونا بند کرو جو ہوا ہے تمہاری ہی رضا تھی نا اس میں تو پھر رونے کا فائدہ " مرال کا بازو اب بھی سختی سے اس نے پکڑا ہوا تھا
" بکواس لگتی ہیں تم جیسی لڑکیاں مجھے.....اور روتی ہوئی تو ذہر لگتی ہو" وہ تکلیف سے اور رونے لگی تو جبران نے ایک اور تھپڑ اسے مارا "منہ بند نہیں کرو گی تو ایک اور لگے گا..... چپ کرو.... بالکل چپ....." مرال خوفزدہ سی آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی
" دفع ہو جاؤ تم..... اور ہاں گھر والوں کے سامنے یہ روتا بسورتا منہ لے کے گئی تو جان لے لوں گا تمہاری سمجھ آئی" اس نے جھٹکے سے اسے چھوڑا
"ماما نے مجھے تمہیں خوش رکھنے کا کہا ہے سو خوش ہی نظر آنا اور اگر....." وہ دوبرہ اس کے قریب آیا " کسی کے سامنے یہ آنسو باہر آئے تو تمہارا وہ حشر کروں گا کہ یاد رکھو گی" وہ اسے وارن کراتا تیار ہونے لگا
" اب کھڑی کیوں ہو جاؤ فریش ہو کے آؤ نئی دلہن کو پہلی صبح فریش ہی نظر آنا چاہیے نا" وہ گھبرائی " جی " کہہ کر واشروم میں چلی گئی
واشروم سے وہ آئی تو وہ بیڈ پہ بیٹھا تھا اس کے بھیگے لمبے بالوں کو دیکھ کر بولا
" ہمممم گڈ..... عقلمند ہو چلو اب تھوڑا میک اپ بھی کرلو تاکہ رخسار پر سے میری محبت کے نشانات چھپ جائیں" وہ نظریں جھکائے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گئی اور تیار ہونے لگی لائیٹ یلو کلر کی مناسبت سے اس نے ہلا سا میک اپ کیا تو جبران بولا
" اونہہہ..... نئی دلہن کے لیے تو یہ کلر بہت لائیٹ ہے" اور وارڈ روب سے میرون کلر کی فراک نکالی "جاؤ یہ چینج کر کے آؤ"
" پر....." وہ کچھ کہنے لگی تو وہ غصے سے ہاتھ اٹھا کہ بولا
" بس.....زیادہ بولتی عورتیں پسند نہیں مجھے جاؤ" وہ خاموشی سے گئی اور چینج کر آئی
" اب میک اپ کرو اور ہاں تھوڑا ڈارک کرو یہ نشان چھپاؤ میری ماں کو پتا نہ لگے" اپنی ماں کا کتنا خیال تھا اسے اور خود بھول بیٹھ تھا کہ جس کو وہ بیاہ کے لیا ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے اس کی ماں کا بھی تو دل ہے مرال نے سوچ اور خاموشی سے تیار ہونے لگی
" مسکراتی رہنا سمجھی" جبران نے اسے باور کرایا تیار ہو کے وہ دونوں ساتھ ہی روم سے باہر آئے ایک زبردستی کی مسکراہٹ اس نے نے ہونٹوں پہ سجالی تھی سب سے مل کے وہ لوگ ناشتے کے لیے ڈائیننگ ہال میں پہنچے رافعہ کب سے مرال کو دیکھ رہی تھی جو مسکرائے جا رہی تھی اور جبران کو جو خلاف عادت مدکرا رہا تھا
" ماما دیکھیں تو سہی بھابی کے آجانے سے بھائی کی مسکراہٹ کو بریک ہی نہیں لگ رہے ہیں مسکرا ہی رہے ہیں" نشاء چھیڑنے والے انداز میں بولی
" اوہ گوشت کی پہاڑی تم خاموش ہی بیٹھو اب اگر اتنا کھا کے بھی تمہیں نظر نہیں لگتی تو کیا بھائی بھابی کو بھی نہیں لگے گی کیا..... بندہ ماشآاللٰہ ہی بول دیتا ہے بد نظر کہیں کی" زیان بولا تو نشاء چڑ گئی سارہ ہنسنے لگی
" تم چپ کرو تم سے پہلے دل میں بول چکی ہوں میں ماشآاللٰہ..... اور بائے دا وے میری صحت سے جلتے کیوں ہو تم بھی ہو جاؤ میری طرح"
" اللٰہ معافی....." زیان نے ہاتھ جوڑے " تم جیسا ہو کے کنوارا تھوڑی مرنا ہے"
" ماما.....ماما دیکھیں زیان کو" نشاء نے ماما کو آواز لگائی جو کچن میں تھیں سب ہنس رہے تھے سوائے مرال کے کچھ دنوں پہلے وہ بھی تو ان میں ہی شامل تھی اور اب.....
جبران نے اس کا ہاتھ پکڑا وہ چونکی
" مسکراؤ کیا کہا تھا میں نے" وہ کان کے قریب آکے بولا اس نے سر ہلایا
" اوہ ہو بھائی بپلک پلیس ہے یہ تھوڑا آوائیڈ شاوائیڈ کریں اور اگر ضروری بات ہے ےو پلیز روم میں چلیں جائیں یہاں ان میرڈ بچے بیٹھے ہیں" زیان نہیں دیکھ کر بولا تو مرال جھینپ گئی اور وہ مسکرادیا اتنی دیر میں ناشتہ بھی آگیا اور بڑے بابا ماما بھی آگئے اور سب ناشتہ کرنے لگے.
                -------
آج ان کا ولیمہ تھا وہ لوگ گھر پہنچے نشاء مرال کو روم میں لے جانے لگی مرال کا آج کا ڈریس پنک کلر کا تھا دلہن کے لوازمات سے سجی وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی پورے ولیمے میں وہ زبردستی مسکراتی رہی اسے لگ رہا تھا بہت جلد وہ مر جائے گی
" نشاء تم جاؤ میں لے کے چلی جاؤں گی مرال کو روم میں" نشاء سر ہلا کے چلی گئی تو رافعہ نے مرال سے پوچھا
" مرال بچہ سب ٹھیک تو ہے نا..... میرا مطلب ہے جبران کا رویہ....." مرال انہیں دیکھ کر رہ گئی کیا بتاتی انہیں کہ ان کے بیٹے نے اسے قبول ہی نہیں کیا جو اس سے بے حد نفرت کرتا ہے جو اس پہ پہلی رات اور پہلی صبح ہی ہاتھ اٹھا چکا ہے
" مرال بولو نا بیٹا" رافعہ اس کی خاموشی سے گھبرائیں اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اس نے نظریں اٹھئیں تو سامنے جبران کو پایا
" کیا ہو رہا ہے بھئی" وہ ان دونوں.کو دیکھتا ہوا بولا
" مرال اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تم بتاؤ اس نے کچھ کہا تو نہیں تمہیں" ماما بولیں جبران نے مرال کو دیکھا
" بتاؤ مرال میں نے کچھ کہا ہے تمہیں" وہ اس کی.طرف دیکھ کے بولا اور مسکرایا مرال زخمی سا مسکرائی
" نہیں..... نہیں بڑی ماما انہوں نے کچھ نہیں کہا مجھے"
" سہی بتاؤ مرال مجھے یقین نہیں..... جبران تمہیں میں جانتی ہوں تم اور آرام سے مان جاؤ " انہو‍ نے پہلے مرال اور پھر جبران کو دیکھ کے کہا
" میں سچ کہہ رہی ہوں..... سس سب ٹھیک ہے"
" ماما میں مانتا ہوں کہ میں نے وہ سب بولا تھا پر کل تو سیدھا انہوں نے میرے دل پہ انٹری ماری ہے" وہ دل پہ ہاتھ رکھ کے بولا تو روشانے بڑی ماما کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی جھینپ گئی رافعہ نے اس کا گلابی چہرہ دیکھا تو مطمئن ہو گئیں.
                           -------
مان گیا میں تمہیں مرال کیا ایکٹنگ کرتی ہو شرمانے کی ماما کو بھی مطمئن کردیا واہ" وہ روم میں آکے بولا مرال ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے کھڑی جیولری اتار رہی تھی
" ویسے اچھی بات ہے اپنے شوہر کا پردہ رکھنا اچھی طرح آتا ہے تمہیں..... ماما کے سامنے جرم کے کٹہرے میں کھڑا رہنا پڑتا اگر تم مجھے نا بچاتیں خیر تھینک فل تو میں اب بھی نہیں ہوں کیونکہ تھینک فل تمہیں میرا ہونا چاہیے اگر تم کچھ بھی الٹا سیدھا بولتیں ماما کے سامنے تو کھڑے کھڑے طلاق دے دیتا میں تمہیں" مرال طلاق کے نام پہ ایک دم پلٹی اور بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی
" کیا دیکھ رہی ہو ہاں" وہ چلتا ہوا اس قریب آیا " میں ایسا کر سکتا ہوں....." وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا مرال کی آنکھیں بھیگنے لگیں کیا بس یہی اہمیت تھی اس کی..... کیا سوچ کر آئی تھی وہ کہ مضبوط بنے گی روئے گی نہیں جبران کی سوچ بدل دے گی اس کے دل میں اپنی محبت ڈال دے گی اپنی خدمت اپنی محبت سے اسے جیت لے گی پر..... سب الٹ ہو گیا تھا وہ اسء قطرہ قطرہ مار رہا تھا اور وہ قطرہ قطرہ مر رہی تھی وہ کہہ کر واشروم میں چلا گیا تھا پر وہ وہیں کھڑی تھی
" نہیں وہ ہار کیسے مان سکتی ہے.....وہ کیسے کمزور پڑ سکتی ہے وہ اس کا دل جیتنے آئی ہے وہ اس کی بن کے اسے اپنا بنانے آئی ہے نا تو پھر وہ کیوں کر مایوس ہو اللٰہ ہے نا اس کے ساتھ" اس نے آنسو پونچھے وہ اگلے دن کے لیے اب تیار تھی

: روح_کا_مکین💞

از_بینا_خان💞

قسط_نمبر_05💞

ان کی شادی کو چوتھا دن تھا ولیمے کے بعد اس نے ضد کر کے کام میں ہاتھ لگا لیا تھا کہ فارغ بیٹھ کے بھی کیا کرتی جبران کے سر میں آج صبح سے بہت درد تھا ماما نے ڈاکٹر کو چیک اپ کرانے کا کہا بھی پر وہ نہ مانا مرال روم میں آئی تو جبران کو لیٹے پایا  وہ کبھی دن میں اتنی دیر نہیں لیٹتا تھا پر آج تو صبح سے آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا وہ ڈرتے ڈرتے اس کے پاس آئی۔۔۔

" ججبران....." ان تین دنوں میں وہ اس پہ کئی بار ہاتھ اٹھا چکا تھا کہ اب تو وہ اس کے سامنے آنے سے بھی ڈرتی تھی مرال نے اسے پکارا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔

" جبران..... سر میں زیادہ درد ہے" وہ پھر بولی جبران نے صرف سر ہلایا وہ اس کے پاس بیڈ کے سائیڈ پہ بیٹھی اور جبران نے کسی کے نرم ہاتھوں کا لمس اپنے ماتھے پہ محسوس کیا اور پٹ سے آنکھیں کھولیں مرال اس کے پاس بیٹھی اس کا سر دبا رہی تھی وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا وہ اس کے دیکھنے سے کنفیوز ہو رہی تھی چہرہ گلابی ہونے لگا تھا جبران نے پھر سے آنکھیں بند کرلیں سر کا درد ختم ہونے لگا کچھ دیر میں وہ سوگیا تھا۔۔۔

وہ سو کے اٹھا تو اس کا سر  کا درد بالکل ختم تھا وہ اٹھ بیٹھا اتنے میں مرال چائے لے کر آئی۔۔۔

" چائے " اس نے کپ اس کی طرف بڑھایا  جبران نے کپ تھام لیا۔۔۔

" سر کا درد اب کیسا ہے" اس نے پوچھا۔۔۔

" ہمممم ٹھیک ہے" اس نے کہا اور چائے پینے لگا مرال روم سے چلی گئی۔۔۔

                              ------

رات کو پھر جبران کو بہت تیز بخار ہو گیا تھا وامیٹ کر کر کے حالت خراب ہو گئی تھی اس کی.....

 جب اس کی نیند پوری نہیں ہوتی تھی یا کھانا باہر سے کھاتا تھا تو اس کی حالت ایسی ہی ہو جاتی تھی اب تو بخار بھی تھا۔۔۔۔ شاید سردی لگ گئی تھی۔۔۔ مرال نیچے کارپیٹ پہ لیٹی سونے ہی لگی تھی کہ جبران کو واشروم سے آتے دیکھا۔۔۔ اور تھوڑی دیر بعد اسے پھر ابکائیاں لیتے ہوئے واشروم کی طرف جاتے دیکھا۔۔۔ مرال پریشان ہو اٹھی اور اس کو سہارا دے کر واشروم لے کے گئی۔۔۔ اور پھر اسے لا کے بیڈ پہ لٹایا اسے بہت تیز بخار تھا مرال نے جلدی سے سائیڈ ڈرور سے ٹیبلٹس نکالی اور اسے پانی سے کھلائیں۔۔۔ اور اس کے پاس ہی بیٹھ گئی جبران نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے تھے۔۔۔ کبھی اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتا کبھی گردن پہ کبھی گالوں پہ مرال پریشان ہو گئی تھی۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے رات کے دوبجے وہ کس کو مدد کے لیے بلائے۔۔۔ لیکن آہستہ آہستہ ٹیبلٹ کا اثر ہونے لگا مرال اس کے پاس کراؤن سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئی اور اس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگی بخار اترنے لگا تھا وہ پتا نہیں کتنی دیر تک اس کے سر میں ہاتھ پھیرتی رہی اور سوگئی صبح جبران کی آنکھ کھلی تو دیکھا مرال بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سو رہی تھی۔۔۔ اس کا ایک ہاتھ جبران کے سر میں تھا اور ایک ہاتھ جبران نے پکڑا ہوا تھا۔۔۔ جبران کو سب یاد آگیا وہ بہت دیر تک.سوتی ہوئی مرال کو دیکھتا رہا پھر اس نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا اور اٹھا مرال کی بھی آنکھ کھل گئی۔۔۔

" اٹھ گئے آپ..... اب طبیعت کیسی ہے آپ کی" وہ اس کے ماتھے کو چیک کرتے ہوئے بولی وہ ایسے بیہیو کررہی تھی جیسے وہ دونوں نارمل ہزبنڈ وائیف ہوں۔۔۔

" ٹھیک ہوں" کہہ کر وہ واشروم میں چلا گیا۔۔۔

                -------

پچھلے دو دن سے مسلسل اس کی ایسے ہی طبیعت خراب تھی۔۔۔۔

 ڈاکٹرزنے بھی کہا کہ باہر کا کھانا کھانے کی وجہ سے اس کا پیٹ خراب ہو گیا ہے۔۔۔

اور بخار موسمی ہے شادی کے کھانے تو کھائے کھائے اس کے بعد سے وہ باہر ہی کھانا کھانے لگا تھا۔۔۔ گھر پہ تو برائے نام ہی آتا سو نتیجہ اب سامنے تھا۔۔۔ شادی کے چوتھے دن ہی بستر پہ تھا مرال اس کی بہت دیکھ بھال کر رہی تھی ڈاکٹر نے ہلکی پھلکی غذا اسے دینے کا کہا تھا۔۔۔ سو مرال نے اس کے لیے کھچڑی بنائی تھی وامیٹ کر کر کے اس کی پسلیوں میں درد رہنے لگا تھا۔۔۔ کمزوری حد سے زیادہ تھی مرال اتنی دیکھ بھال کرتی پر جبران اس کو یہ ہی کہتا کہ۔۔۔

" تم میری زندگی میں منحوسیت لے کر آئی ہو"

" اس گھر میں جب سے آئی ہو میں بیمار ہی ہوں" اس طرح کی بات کر کر کے اسے ہرٹ کرتا۔۔۔

رات کو بھی وہ بستر پہ لیٹا ہوا تھا کہ مرال اس کے لیے کھچڑی لے آئی۔۔۔

" اٹھ جائیں جبران کھانا کھا لیں " وہ بولی۔۔۔

" کھالوں گا رکھ دو تم" مرال نے خاموشی سے ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی جبران اٹھ بیٹھا۔۔۔

" یکککھھھھھ..... کھچڑی لے جاؤ اسے نہیں کھانی"۔۔۔

" ڈاکٹر نے یہ ہی دینے کا کہا ہے آپ کو"۔۔۔

" چپ..... کتنی بار منع کروں میرے سامنے زبان مت چلایا کرو..... اٹھاؤ اسے اور لے جاؤ" اس نے خاموشی سے ٹرے اٹھائی کہ دروازہ نوک ہوا اور ماما اندر آئیں۔۔۔

" یہ کہاں لے کر جا رہی ہو رکھو اسے مرال.....پتا تھا مجھے یہ نہیں کھائے گا تبھی خود آئی ہوں کھلانے لاؤ مجھے دو" انہوں نے کھچڑی اس کے ہاتھ سے لی۔۔۔

" ماما میں نہیں کھاؤں گا" جبران چڑ کر بولا۔۔۔

" میں نے کچھ نہیں سننا منہ کھولو" وہ اسے کھچڑی کھلانے لگیں۔۔۔

" کھاؤ اسے تمہاری بیگم نے بنائی ہے یہ تمہیں ضرور پسند آئے گی ٹیسٹ تو کرو" وہ بولیں تو جبران نے نا چاہتے ہوئے بھی ایک نوالہ لیا کھچڑی واقعی مزے کی تھی۔۔۔

" کیسی لگی؟؟؟" ماما مسکرا کے بولیں۔۔۔

" ٹھیک ہے بس" وہ صرف اتنا بولا مرال کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔۔۔

                          -------

مرال کے گھر والے بھی جبران کو پوچھنے آئے تھے رافعہ نے انہیں کھانے پہ روک لیا تھا کہ سمدھی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دیورانی جیٹھانی بھی تو ہیں نا تو یہ رشتہ کیوں آڑ بن رہا تھا دو بھابیوں کی محبتوں میں۔۔۔

رات کو سارا کام سمیٹ کے وہ اپنے روم میں آئی واشروم سے فارغ ہو کے وہ اپنا بستر بچھا رہی تھی کہ جبران ایک دم اٹھ بیٹھا اسے متلی ہو رہی تھی وہ اس کی طرف آئی۔۔۔

" کیا ہوا جبران " وہ پریشانی سے بولی وہ کچھ نہ بولا وہ جبران کی کمر سہلانے لگی "

 جبران ٹھیک تو ہیں آپ" جبران کو ایک دم زور سے ابکائی آئی مرال کو سمجھ نہ آئی اور اس نے اپنے ہاتھ آگے کردیے جبران تھم سا گیا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

کیسی لڑکی تھی یہ..... وہ سوچ کر رہ گیا اور اس کے چہرے سے نظریں ہٹائیں اور لیٹ گیا مرال بھی اٹھنے لگی تو وہ بولا۔۔۔

" تمہیں گھن نہیں آتی اگر میں تمہرے ہاتھ پہ وامیٹ کردیتا تو"۔۔۔

" تو کیا ہوا شوہر ہیں آپ میرے اتنا تو فرض ہے میرا کہ آپ کا دھیان رکھوں"۔۔۔

" دھیان رکھنے کا مطلب اس کی وامیٹ بھی ہاتھ میں لے لو یککھھ مرال..... تم جیسی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں شوہر منہ لگائے نا لگائے پر چپکنا ضرور ہے"۔۔۔

" تو کیا شوہر بیمار ہوں تو کیا ان کو اٹھا کے پھینک دیں " وہ بولی انداز سادہ سا تھا پر ایک دم جبران کو غصہ آگیا۔۔۔

" یو جسٹ شٹ اپ اوکے تم سے ذرا سی بات کیا کرلو سر پہ ہی چڑھ جاتی ہو زیادہ مت بولا کرو سمجھیں اتنا بولو جتنا میں اجازت دیا کروں"

 وہ خاموش ہو گئی اور اپنے بستر کی طرف جانے لگی۔۔

"سنو" اس نے پکارا۔۔

"جی"

" سر میں ہاتھ پھیرو میرے نخرے مت دکھاؤ تم جیسی بیویوں پہ نخرے سوٹ نہیں کرتے " وہ تیر برسانے سے باز نہیں آیا تھا وہ کچھ نہ بولی اور خاموشی سے اس کے سر میں ہاتھ پھیرنے لگی اور جبران کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔

                             ------

جبران اب ٹھیک ہو چکا تھا اور آفس جانا بھی اسٹارٹ ہو گیا تھ۔۔۔ سب کو گھر میں یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ بدل چکا ہے مرال کو بھی لگنے لگا تھا کہ اب وہ بدلنے لگا ہے اس کی محبت اثر دکھانے لگی ہے پر کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیا سوچ بیٹھا تھا۔۔۔

: #روح_کا_مکین💞

از_بینا_خان💞

#قسط_نمبر_06💞

وہ ابھی آفس سے پہنچا تھا مرال کچن میں تھی وہ وہیں چلا آیا۔۔۔

"میرے کپڑے نکال دو" وہ بولا تو مرال حیرانی سے ایک دم س کی طرف گھومی۔۔۔

" کیا؟؟؟" اس نے پھر پوچھا۔۔۔

" بہری ہو سنائی نہیں دیتا کپڑے نکال دو" وہ پھر بولا مرال مسکرائی۔۔۔

" آپ کو تو گوارا ہی نہیں تھا کہ میں آپ کے کام کروں پھر آج یہ انقلاب کیوں"۔۔۔

" کیوں جب میں بیمار تھا تب بھی تو تم ہی نکال رہی تھی نا کپڑے تو نکال دو"

" وہ تو تب کی بات تھی نا" مرال مسکرائی جبران کو چڑ ہو رہی تھی اس سے پر کچھ دن کے لیے سہی اچھا تو بننا تھا نا اسے پھر وہ جانے اس کا کام جانے۔۔۔

" زیادہ بولو مت جلدی کرو" کہہ کر وہ چلا گیا مرال آج بہت خوش تھی کہ جبران نے خود اسے اپنے کام کے لیے بولا تھا "یعنی کیا میری محبت رنگ لا رہی ہے" اس نے خود سے کہا اور مسکرا کے چل دی۔۔۔

                            ------

آج تو جبران نے حد ہی کردی تھی۔۔

" جاہل عورت" جبران نے کھینچ کے سب کے سامنے اسے تھپڑ مارا تھا۔۔۔

ہوا یہ تھا کہ مرال سب کو چائے دے رہی تھی کہ جبران کو دیتے ہوئے سارہ سے بات کر رہی تھی اور غلطی سے کپ چھلک گیا اور تھوڑی سی چائے جبران کی شرٹ پہ گر گئی اور اس پہ جبران نے اسے تھپڑ مارا۔۔۔

" جبران یہ کیا کیا تم نے دماغ ٹھیک ہے تمہارا" ماما غصے سے بولیں  ابتہاج صاحب نے مرال کو ایک دم گلے لگایا جو گال پہ ہاتھ رکھے حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

" بالکل ٹھیک کیا میں نے یہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ جبران کی بیوی بنے" وہ بھی غصے سے بولا۔۔۔

" اور تم ذرا سی کوئی نرمی دکھائے فوراً آنسو ٹپکانے لگ جاتی ہو" وہ اب مرال کی طرف دیکھ کے بولا۔۔۔

" جبران ہوش کرو ہمت کیسی ہوئی تمہاری ایسی واہیات حرکت کرنے کی" بابا بھی غصے سے بولے۔۔۔

"واہیات..... یہ اسی قابل ہے"

" چلے جاؤ جبران میری نظروں کے سامنے سے جاہل یہ نہیں تم ہو"

بابا زور سے چیخے تو وہ غصے سے اپنے کمرے چلا گیا آج ایک بار پھر مرال اسے ذہر لگی تھی۔۔۔ اس کی وجہ سے اس کے ہی بابا نے اسے پہلی بار ڈانٹا پہلی بار اس کا ساتھ دینے کے بجائے مرال کا ساتھ دیا کمرے میں آکے وہ چیزیں توڑ پھوڑ رہا تھا غصے سے مٹھیاں بھینچ رہا تھا پر غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا

" بے فکر رہو مرال اپنے قول کا پکا ہوں میں کہا تھا نا وہاں جا کے ماروں گا جہاں تمہیں پانی نہیں ملے گا دیکھنا تم زندگی بھر کا روگ نہ دیا تو نام بدل دینا میرا"

                           ------

رات کے گیارہ بجے وہ روم میں آئی جبران گھر پہ نہیں تھا۔۔۔ اس نے آ کے پھیلا کمرہ سمیٹا جبران کے حوالے سے دل میں ایک ڈر بھی تھا۔۔۔ کمرہ سمیٹتے سمیٹتے ساڑھے گیارہ بج گئے تھے۔۔۔ وہ بستر بچھا کے لیٹی ہی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور جبران داخل ہوا ویسے وہ اگر کبھی لیٹ آتا تو مرال اسے کھانے کا پوچھتی تھی پر آج مرال نے ڈر سے اس سے کچھ نہ کہا اور جبران نے اسے اگنورنیس سمجھا اور آکے کھینچ کے اسے بستر سے اٹھایا۔۔۔

" اگنور کروگی تم مجھے اتنی ہمت کب آئی تم میں" کھینچ کے ایک تھپڑ اسے مارا۔۔۔

" اس وقت مجھے ایک تھپڑ نہیں تین لفظ بول کر تمہیں چلتا کردینا چاہیے تھا کیونکہ تم قابل نہیں میری محبت کے نا میری عزت کے اور نا میرے خلوص کے" اور ایک اور تھپڑ اسے مارا وہ بے تحاشا رورہی تھی۔۔۔

" دفع ہو جاؤ..... نکلو یہاں سے" جبران نے اسے دھکا مارا وہ نیچے جا گری۔۔

" جبران..... جبران نہیں جبران" وہ بول رہی تھی پر وہ سن کب رہا تھا

جبران نے آگے بڑھ کے اس کا بازو پکڑا اور کمرے کا دروازہ کھول کے باہر نکال دیا۔۔۔

"جبران ماما بابا کیا سوچیں گے..... آپ پلیز جبران" وہ منت کررہی تھی۔۔۔

" سوچتے رہیں جو سوچنا ہے مجھے اب کسی کی پرواہ نہیں ہے" کہہ کر اس نے دروازہ بند کردیا۔۔۔

ساری رات وہ سردی میں لاؤنج میں بیٹھی روتی رہی اور وہیں سو گئی صبح ماما اٹھی تو اس کی حالت دیکھ کے چکرا گئ۔۔

" مرال مرال بچہ" وہ جاگی تو رافعہ اس کے منہ پہ نشان دیکھ کر احساسِ ندامت میں گڑھ گئ۔۔

" مجھے معاف کردو مرال معاف کردو مجھے..... نہ میں تمہیں کہتی اور نا تمہاری یہ حالت ہوتی" وہ اسے گلے لگا کر رونے لگی وہ بھی رو رہی تھی۔۔۔

" نہیں ماما آ..آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔ شاید مجھ میں یا میری محبت میں کوئی کمی رہ گئی ہے جو....." اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اور رونے لگی۔۔۔

" نہیں میرا بچہ کمی تو میرے بیٹے میں ہے جو سمجھ نہیں رہا ہے جو غلطی پر ہے" ماما روتے ہوئے بولیں اور مرال کو چپ کرانے لگیں اب دکھ ہو رہا تھا انہیں مرال کی شادی اپنے بیٹے سے کرا کے۔۔۔

                            ------

صبح جبران سے کسی نے بھی بات نہ کی زیان سارہ اور نشاء کی نوک جھونک بھی بند تھی سب خاموشی سے بیٹھے ناشتہ کررہے تھے مرال رافعہ کے کمرے میں تھی اسے تیز بخار تھا رافعہ مرال کے پاس ہی تھیں۔۔۔

ناشتہ کر کے جبران نے مرال کو آواز دی تو بابا بولے۔۔۔

" مرال بیٹی کی طبیعت نہیں ٹھیک کسی اور کو کام بول دو جاؤ نشاء بھائی سے پوچھ لو کیا کام ہے" انہوں نے نشاء سے کہا۔۔۔

"  بیوی میری مرال ہے سو اس کا فرض بنتا ہے میرا کام کرنا.....  یٹھ جاؤ نشاء دیکھتا ہوں میں خود اس ڈرامے باز کو کام سے بچنے کے بہانے" وہ جانے لگا تو بابا بولے۔۔۔۔

" تم اپنے ہر کام کے لیے اس کے محتاج ہو گئے ہو جبران تمہیں پتا نہیں چل رہا پر پتا ہے تم اس کے عادی ہو گئے ہو اور عادتیں اتنی جلدی جان نہیں چھوڑتیں۔۔۔

اور جو تم اپنا تھرڈ کلاس آئیڈیل بنائے بیٹھے ہو نا وہ یہ سب بلکل نہیں کرے گا پچھتاؤ گے تم"

" ایسا وقت میں کبھی اپنے اوپر آنے ہی نہیں دوں گا" کہہ کر وہ جانے لگا اور پھر رکا۔۔۔

" بائے دا وے میں آپ لوگوں کو بتا دوں کہ آج کی فلائیٹ سے میں یو کے جا رہا ہوں واپس نہ آنے کے لیے" کہہ کر وہ چلا گیا سب شاکڈ اسے جاتا دیکھتے رہے۔۔۔

وہ چلتا ہوا مام کے روم میں آیا۔۔۔

" مرال اٹھو کپڑے نکالو میرے" وہ بیڈ کے پاس آکے بولا۔۔۔

" جبران اس کی طبیعت نہیں ٹھیک" 

"جانتا ہوں میں ڈرامے ہے اس کے ڈرامے"

" اٹھو مرال" مرال نقاہت کے باوجود اٹھ بیٹھی۔۔۔

" بیٹا تم....." ماما پریشانی سے بولیں۔۔۔

" ماما آتی ہوں میں" کہہ کر وہ اٹھی اور  جبران کے پیچھے کمرے میں آگئی۔۔۔

جبران کے کپڑے نکال کے وہ جانے لگی تو وہ بولا۔۔۔

" میرا سامان بھی پیک کردو" وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

" کیا دیکھ رہی ہو.....  لو اجازت دی تمہیں دیکھ لو آج مجھے جی بھر کے پھر پتا نہیں کب دیکھو" وہ اس کے سامنے آکے کھڑا ہو گیا اور اسے دیکھنے لگا مرال کا چہرہ بخار کے باعث تپ رہا تھا اس کے ایسا بولنے سے مرال کو دھچکا لگا۔۔۔

" کک... کہاں کہاں جا رہے ہیں آپ" وہ اٹک کے بولی۔۔۔

" یہ پوچھنے والی تم کون ہوتی ہو" مرال نے سر جھکا دیا اور واعڈروب کی طرف بڑھی اور اپنا سامان پیک کرنے لگی۔۔۔

" یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟" وہ اس کے ااس آکے بولا
" میں نے اپنا سامان پیک کرنے کو بولا ہے تمہارا نہیں"

" آپ میری وجہ سے جا رپے ہیں نا..... آپ..... آپ نا جائیں میں چلی جاتی ہوں" مرال کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔۔۔۔

" اوہ شٹ اپ مرال یہ ڈرامے نہیں چلیں گے میرے ساتھ..... ڈرامے بند کرو اور میرا سامان پیک کرو۔۔۔۔ تم نے جانا ہوتا نا تو بہت پہلے جا چکی ہوتیں میرے جانے کی نوبت ہی نا آتی"۔۔۔۔ وہ ناگواری سے بولا وہ رونے لگی اور جبران کو یہ چیز ہی تو سکون دیتی تھی۔۔۔ اس کا رونا اس کی اذیت جبران کے سکون کا باعث ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ جانا تو اس نے تھا ہی پر وہ اسے زندگی بھر کی ندامت دینا چاہتا تھا ساری زندگی کی اذیت دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ جس سے وہ کبھی نہ نکل سکے وہ جب جب اس کمرے میں اس گھر میں آئے اسے صرف یہ یاد آئے کہ جبران صرف اس کی وجہ سے گیا ہے وہ اسے کیسے سکون میں رہنے دیتا جس نے اس کا سکون تباہ کیا تھا۔۔۔

" اب رو کیوں رہی ہو مرال خوشیاں مناؤ کہ اب تمہاری اذیت ختم ہو رہی ہے ۔۔۔۔ نا کوئی تمہیں کچھ بولے گا نا کوئی طنز کرے گا۔۔ نہ کوئی تم پہ ہاتھ اٹھائے گا۔۔۔۔ رہنا تم میرے کمرے میں خوشی سے گلے میں جبران کے نام کا ٹیگ ڈال کے..... تم جیسی عورتیں ایسی ہی کرتی ہیں نا؟؟؟" مرال برستی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔۔

" اگر میں ان عورتوں میں شامل ہوں تو اس میں میرا کیا قصور جبران" پہلی بار اس کے منہ سے شکوہ نکلا تھا۔۔۔۔

" اگر میں ایسی ہوں تو اس میں میری غلطی کیا ہے بولیں..... بہت بہت محبت کی ہے میں نے آپ سے جبران بہت" مرال بولتے بولتے اظہارِ محبت کر گئی تھی جبران اسے دیکھتا رہا اس کی بے بسی پہ ہنوز مسکراتا رہا۔۔۔۔

" مجھے پتا ہے آپ کو میری محبت سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔ میری محبت کی کوئی اہمیت نہیں آپ کے سامنے پر پلیز ایک بار ایک بار مم..میری بات مان لیں ایک بار رک جائیں بدلے میں بھلے مجھے جتنا مار لیں ڈانٹ لیں پر پلیز....." وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی " 

اچھا میں.. میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں گی ہاں میں.. میں کبھی اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گی آپ کو پلیز رک جائیں" وہ رو رہی تھی گڑگڑارہی تھی کہ وہ بولا۔۔۔

" اٹھو" وہ روتی رہی۔۔۔

" اٹھو" اب کے وہ چیخ کے بولا وہ کھڑی ہو گئی۔۔۔

" پیکنگ کرو میری" کہہ کر باہر چلا گیا وہ وہیں بیٹھ کے رونے لگی۔۔۔

جاتے ہوئے اس نے کسی کی نا سنی تھی۔۔۔کسی کا گڑگڑانا رونا پیٹنا کچھ اس نے نا سنا۔۔۔ مرال کے گھر والوں نے بھی بہت روکا پر تب بھی اس نے نظرانداز کردیا۔۔۔ پورچ کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے ایک نظر پیچھے دیکھا سب تھے مرال کے علاوہ..... دل کو کچھ ہوا اور پھر پورچ میں پہنچ کے گاڑی نکالی اور گھر کے اندر سے سامان اٹھانے لگا کہ مرال بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔۔۔ جبران نے دیکھا اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ایک تو بخار اور دوسرا رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں بہت ریڈ ہو رہی تھیں۔۔۔۔ اس کی نظر اس کے گال پہ گئی جہاں تھپڑوں کے نشان تھے۔۔۔۔

" جبران ایک.. ایک حق یوز کرسکتی ہوں اپنا" اس نے ناسمجھی سے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔ مرال آگے بڑھی اور اس کے سینے سے جا لگی اور رونے لگی اردگرد کا خیال کیے بغیر کہ سب گھر والے کھڑے تھے وہاں۔۔۔۔

جبران حیرت زدہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اس وقت اس کی ہارٹ بیٹ پتا نہیں کیوں اتنی تیز ہو گئی تھی۔۔۔۔ اسے خود معلوم نہ تھا مرال کے آنسو اس کی شرٹ بھگو رہے تھے۔۔۔۔ پتا نہیں جبران کو لگ رہا تھا کہ یہ آنسو اس کے دل پہ گر رہے ہیں۔۔۔۔ اور اس کی  شرٹ کو مرال نے مٹھیوں میں جکڑ رکھا تھا۔۔۔۔ جیسے چھوڑنا نہ چاہتی ہو اور پھر جبران نے اپنے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کردیے۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

: روح_کا_مکین💞

از_بینا_خان💞

#قسط.  7

اور پھر وہ چلا گیا تھا۔۔۔ سب کو چھوڑ کے پلین لینڈ کرنے سے پہلے تک دل میں ایک بے چینی سی تھی۔۔۔

 وہ اذیت جو وہ اپنے گھر والوں کو دے کر آیا تھا۔۔۔۔

 وہ دکھ جو اپنی بیوی کو دے آیا تھا۔۔۔ وہ سب اسے بے چین کیے دے رہے تھے۔۔۔ اور پھر سفر بھی کٹ ہی گیا اور اس نے مانچسٹر کی سرزمین پہ قدم رکھا۔۔۔ کچھ دن تک تو اسے دل نے بے چین رکھا پھر آہستہ آہستہ وہ سیٹ ہو گیا۔۔۔۔ ایک اچھی کمپنی میں اسے جب مل گئی تھی۔۔۔۔ وہ خوش تھا پر کبھی کبھی اپنے کام جب خود کرتا تو اسے وہ یاد آتی۔۔۔ اور بہت شدت سے یاد آتی۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ پاگل ہو جائے گا۔۔۔اور پھر وہ گھر سے باہر نکل جاتا۔۔۔ وہاں اس کے کافی دوست بن گئے تھے۔۔۔ دن ایسے ہی گزر رہے تھے کہ اس کے آفس میں ایک لڑکی آئی ۔۔۔ اس کا نام ربیکا تھا وہ بہت خوبصورت تھی۔۔۔ اور خاصی فرینڈلی بھی جلد ہی ان دونوں کی دوستی ہو گئی اب وہ اکثر ہی ساتھ نظر آتے۔۔۔ اس کی سنگت میں وہ مرال کو بھولتا گیا وہ بہت اسٹائیلش تھی الٹرا ماڈل فیملی سے بیلونگ کرتی تھی۔۔۔۔

جبران کو اس میں ایک چیز بے حد پسند تھی وہ تھا اس کا کونفیڈنس وہ بہت زیادہ بولڈ لڑکی تھی۔۔۔۔

آج وہ دونوں ایک پارک میں بیٹھے تھے کہ ربیکا بولی۔۔۔۔

" تم نے بتایا تھا کہ تم میرڈ ہو تو اپنی بیوی کو کیوں نہیں لائے یہاں" وہ اس کی بات پہ بدمزا ہوا۔۔۔

" اس کا یہاں کیا ذکر"

" ویسے ہی پوچھ رہی ہوں" اس نے کندھے اچکا کے کہا۔۔۔

" کیونکہ وہ تمہاری طرح نہیں ہے" جبران مسکرایا تو ربیکا نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔۔

" میرے جیسی مطلب؟؟؟"

" مطلب یہ کہ تم جیسی نہ وہ بولڈ ہے۔۔۔ نہ اس میں تم جیسا کانفیڈنس ہے ۔۔۔۔ نا تم جیسی ڈریسنگ کرتی ہے۔۔۔" جبران نے اس کی ڈریس کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔ جو ریڈ ٹی شرٹ پہ بلیک پینٹ پہنے ہاتھوں میں بریسلیٹ لائیٹ براؤن سلکی بال کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔۔۔۔ سرخ و سفید رنگت والا چہرے پہ میک اپ کر کے اور جازب نظر بنایا ہوا تھا۔۔۔

" اوہ رئیلی"

" یس" جبران مسکرایا

" لائیک کرتے ہو مجھے" اس نے مسکرا کے پوچھا۔۔۔

" بہت..... بہت خوبصورت ہو تم"

" اوہ..... یعنی تم مجھے اپنی گرل فرینڈ بنانا چاہتے ہو..... تاکہ میرے حسن کو سراہ سکو" جبران شاکڈ تھا۔۔۔ وہ اتنی بڑی بات کتنے آرام سے کہہ گئی تھی۔۔۔۔

اسے ایک دم مرال یاد آئی بیوی ہونے کے باوجود اس نے کبھی اپنا حق نا مانگا تھا۔۔۔۔ اس نے لیکن یہ بنا کسی رشتے کے اس طرح بول رہی تھی جبران کو یک دم غصہ آگیا۔۔۔۔

" اوہ یو شٹ اپ ربیکا تم اتنی گری ہوئی بات کیسے کہہ سکتی ہو"

" واٹ اس میں گری ہوئی بات کون سی ہےجبران..... اور ویسے بھی یہ پاکستان نہیں ہے جہاں پہ ان سب چیزوں کی پابندی ہو"

" آئی نو کہ یہ پاکستان نہیں ہے بٹ انسان میں ایک شرم اور لحاظ ہوتا ہے اور خاص کر عورتوں میں"

"اوہ رئیلی؟؟؟" وہ ہنسی " کون سے زمانے کی بات کررہے ہو جبران شرم لحاظ واٹ ایور"

" آئیندہ مجھ سے اس طرح کی بات مت کرنا ربیکا مجھے برداشت نہیں ہو گا" اس نے بات ختم کرنی چاہی۔۔۔

" برداشت..... تم ہوتے کون ہو مجھے میری حدود بتانے والے۔۔۔ میں جیسی ہوں ویسی ہی ٹھیک ہوں تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں..... میں جا رہی ہوں اوکے دماغ ٹھیک ہو جائے تو پھر بات کرلینا" کہہ کر وہ چلی گئی۔۔۔

                --------

دن ایسے ہی بے کیف  گزر رہے تھے۔۔۔زندگی ایسا لگتا تھا جیسے خالی سی ہوگئی ہے۔۔۔ وہ بالکل خاموش ہو کے رہ گئی تھی۔۔۔ نا کچھ بولتی تھی نا کہتی تھی وہ ایسے اچانک گیا تھا کہ دل کو یقین ہی نہیں آتا تھا۔۔۔ بار بار وہ گیٹ کی طرف دیکھتی شاید وہ آجائے شام کے وقت گیٹ کی طرف بھاگتی پر کوئی نا  آتا۔۔۔ ماما بڑی ماما اسے دیکھ کے ہولتی رہتی تھیں۔۔۔ وہ مرجھا کے رہ گئی تھی نا ٹھیک سے کھاتی تھی نا ٹھیک سے سوتی تھی۔۔۔۔

شام میں ماما بڑی ماما لان میں آئیں تو اسے وہاں گم سم بیٹھا دیکھا۔۔۔

" سب میری غلطی تھی اسمہ میں نے تمہاری بیٹی کی زندگی برباد کردی اصل گنہگار تو میں ہوں تمہاری معاف کردو مجھے" رافعہ ان سے غمگین لہجے میں بولیں۔۔۔

" نہیں بھابی کیوں شرمندہ کرتیں ہیں۔۔۔ غلطی کسی کی بھی نہیں ہے شاید میری بچی کی قسمت میں یہ ہی لکھا تھا اگر جبران نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا"

" یہ تمہارا بڑا پن ہے اسمہ کہ تم نے مجھے ایک لفظ شکایت نہیں کی ورنہ بچوں کے پیچھے بہت سے رشتے ٹوٹتے دیکھیں ہیں" رافعہ بولیں تو اسمہ نے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔

" چھوڑیں ان سب باتوں کو بھابی اب ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ مرال کو واپس زندگی کی طرف لے آئیں"

" ہاں اسمہ چلو" وہ دونوں مرال کی طرف بڑھیں۔۔۔

                            ------

کچھ دن پہلے

جبران نے اسے گلے لگایا سب گھر والوں کو لگا کہ مرال جیت گئی اس کی محبت جیت گئی پر.....

جبران نے اس جھٹکے سے الگ کیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔۔۔۔

" آ..آں سویٹی یہ تو ہونا ہی تھا" مرال اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی " میں نہیں رک سکتا بھلے تم جتنے محبت کے واسطے دو آئی ڈونٹ کئیر پتا ہے کیوں؟؟؟ کیوں کہ آئی ہیٹ یو"

" جتنی نفرت پہلے دن سے کرتا تھا اس سے کہیں زیادہ اب کرتا ہوں تمہارے اس چہرے سے" وہ اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کے بولا۔۔۔

" گڈ بائے وائیفی" کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھا اور چلا گیا مرال کو ایک دم زور کا چکر آیا اور لڑکھڑا کے وہیں گر گئی۔۔۔

                            ------

دوسرے دن صبح وہ آفس پہنچا اپنے آفس روم میں آکے وہ بیٹھا تھا۔۔۔ اور ربیکا کا ویٹ کرنے لگا وہ روز آتی تھی حال چال پوچھنے پر آج نہ آئی۔۔۔۔ پہلے تو اگنور کیا پھر کچھ سوچ کے اٹھا۔۔۔ اور اس کے آفس روم میں پہنچا وہ بیٹھی اپنے کام میں مصروف تھی۔۔۔

" ہائے ربیکا" اس نے مسکرا کے کہا۔۔۔

" ہیلو" وہ بولی اور پھر کام میں لگ گئی۔۔۔۔

" ناراض ہو؟؟؟" جبران بولا۔۔۔

" نہیں ہونا چاہیے؟؟؟" اس نے الٹا اس سے سوال کیا۔۔۔

" یار تم نے بات ہی ایسی بولی تھی تو غصہ تو بنتا تھا نا"

" اچھا..... کیا غلط تھا اس میں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ ہونا ایک عام سی بات ہے۔۔۔۔ اس میں ہائیپر ہونے والی کیا بات تھی" وہ کھڑی ہوئی اور چلتے ہوئے اس تک آئی۔۔۔

" اچھا نا یار اب چھوڑو اس بات کو آج ڈنر پہ چلو گی" اس نے آفر کی ربیکا اکسائیٹڈ ہوئی۔۔۔

" شیور یار کیوں نہیں ہینڈسم بوائیز تو میری کمزوری ہیں جانا تو پڑے گا" وہ مسکرائی تو اپنی تعریف پہ جبران کھل کے ہنسا وہ اپنی تعریف میں ربیکا کا ورڈ بوائیز پہ غور کرنا بھول گیا تھا۔۔۔۔

" اور یہ خوبصورت بولڈ اینڈ کانفڈنٹ سی لڑکی میری کمزوری بن گئی ہے" جبران نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کرکہا تو وہ ایک ادا سے مسکرائی۔۔۔

" آئی نو" تو جبران مسکرادیا۔۔۔

                 -----

ان کی دوستی کو ایک سال ہو گیا تھا۔۔۔ اس ایک سال میں اس نے کبھی گھر کی خبر نہ لی تھی نہ کبھی ان کے بارے میں سوچا۔۔۔ جبران کو آج کل ربیکا کے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا۔۔۔ اسے وہ اپنے آئیڈیل پہ پورا اترتی ہوئی لگتی ہاں کچھ باتوں سے اسے اختلاف ضرور تھا اسے پر....."جو بھی ہے اب اتنا تو کمپرومائیز کر ہی سکتا ہوں میں..... بے چاری اب اس کی عادتیں تو نہیں بدل سکتا نا میں" رات کو وہ سونے کے لیے لیٹا تو اس کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔

وہ ربیکا کے بارے میں سہی سے نہیں جانتا تھا نا وہ کبھی بتاتی تھی۔۔۔ نا جبران نے کبھی پوچھا
کہتے ہیں نا ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ربیکا بھی ان چیزوں میں سے ایک تھی جو دکھنے پہ سونا معلوم ہوتی تھی پر اندر سے وہ ایک کھوٹے سکے کے برابر بھی نہ تھی۔۔۔

تو کیا جبران کو اپنے کیے کا انعام ملنے والا تھا؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔۔


 #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_نمبر_8💞

مرال سارا دن گھر میں ایک مشین بن کے رہ گئی تھی۔۔۔ جو کام کرتی کھاتی سوتی بس اس کے علاوہ جیسے اس کی زندگی میں کچھ تھا ہی نہیں نا کوئی مقصد تھا زندگی کا۔۔۔

 وہ دو دن سے اپنے گھر آئی ہوئی تھی آج سنڈے تھا بابا بھی گھر پہ تھے وہ کچن میں کام کر رہی تھی کہ ماما چلی آئیں۔۔۔۔

" مرال بیٹا بات سنو" وہ چونکی جیسے کسی گہرے خیال میں گم ہو۔۔۔

" جی" وہ بولی ماما نے اسے غور سے دیکھا وہ بہت کمزور ہو گئی تھی آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے سرخ و سفید رنگت میں جیسے زردیاں سی گھل گئی تھیں۔۔۔

" آؤ بیٹھو یہاں" وہ اسے لے کر کرسی پہ بیٹھیں۔۔۔۔

" بیٹا کب تک ایسے رہو گی....." انہوں نے اس کے چہرے کو دیکھا جو کبھی صرف ہنستا مسکراتا ملتا تھا اور آج جیسے ہنسنا ہی بھول گیا تھا۔۔۔۔

"کب تک اس کے جانے کا سوگ مناؤ گی بھول جاؤ سب اور ایک نئی زندگی کی شروعات کرو" اس نے ان کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

" ہاں بیٹا اسی میں ہی عقلمندی ہے..... کسی ایک کے چلے جانے سے زندگی نہیں رک جاتی بیٹا....." مرال کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔۔۔۔

" ارے رو رہی ہو..... تم تو میری بہادر بیٹی ہو نا پھر یہ کیوں" وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں۔۔۔

" میں..... میں ماما میں کچھ.. کچھ نہیں کرسکتی ماما میں تو ایک عام سی لڑکی....." وہ رو رہی تھی۔۔۔۔

" کس نے کہا میری بیٹی کچھ نہیں کرسکتی ہاں کس نے کہا میری بیٹی عام لڑکی ہے..... مجھ سے پوچھو میں بتاتا ہوں میری بیٹی کیا ہے" بابا کچن میں آئے وہ مرال کی بات سن چکے تھے۔۔۔۔

" میری بیٹی وہ ہے جس نے اپنے ماں باپ کو تب سنبھالا جب اس کا باپ ہارٹ پیشنٹ بن گیا تھا۔۔۔ ماں بیمار رہنے لگی تھی تو میری بیٹی نے اپنی پڑھائی کمپلیٹ ہونے کے بعد آگے بڑھنے کے بجائے ہمیں امپورٹنس دی..... جو آج تک ہمیں سنبھال رہی ہے۔۔۔ جو ہمیں کبھی تکلیف دینے کا سوچ ہی نہیں سکتی جو ہم ماں باپ کا مان اور فخر ہے" وہ اسے گلے لگا کر رندھی ہوئی آواز میں بولے تو وہ اور رونے لگی۔۔۔۔

" نا میرا بچہ میرا بیٹا" انہوں نے اس کے آنسو صاف کیے اور اس کے ماتھے پہ پیار کیا اور اسے گلے لگایا۔۔۔

" میری ایک بات مانو گی؟؟؟" بابا بولے اس نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔

" صرف ہمارے لیے پھر سے ہماری مرال بن جاؤ گی" وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔

" بابا میں مر گئی بابا" وہ بولی تو ماما بھی رونے لگی۔۔۔

" میرو تم میری پہلی اولاد ہو جس نے سب سے پہلے آکے ہماری زندگی کو مکمل بنایا ہمیں مکمل کیا..... اگر تم ہی مر گئی تو ہم.جی کر کیا کریں بیٹا ہمیں بھی تو پھر....."

" نہیں بابا نہیں" مرال نے ان کو ایک دم روکا " بابا آپ لوگوں کو آپ کی میرو چاہیے نا ضرور ملے گی آپ کو آپ کی میرو"

" پرامس" بابا نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے کہا "

 پرامس" اور نم آنکھوں سے مسکرادی۔۔۔

                           ------

" تم نے شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے ربیکا" وہ دونوں آج لنچ پہ آئے تھے لنچ کے دوران جبران نے اس سے پوچھا۔۔۔

" شادی؟؟؟ ہاہاہااااہاہاہاہا" وہ ہنسنے لگی۔۔۔۔

" آر یو کریزی جبران"

" اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے جسٹ پوچھا ہے میں نے"

" تو کچھ ڈھنگ کا ہی پوچھ لیتے..... پوچھا بھی کیا شادی کا افففففف"

" یار ایک لائیف تو ملی ہے شادی کر کے کون باؤنڈ ہونا چاہے گا"

"اس میں باؤنڈ ہونے کی کیا بات ہے اچھا اور جائز رشتہ ہے"

" اففففف جبران تم ایسی باتیں کر کے کیوں بار بار بتاتے ہو کہ تم پاکستانی ٹپیکل مرد ہو"

" بوائے فرینڈ گرل فرینڈ میں بھی تو وہی رشتہ ہوتا ہے نا جو ہزبینڈ وائف میں ہوتا ہے تو پھر شادی کر کے کیوں زندگی کو خراب کریں"

" ربیکا بوائے اینڈ گرل فرینڈ کا رشتہ ایک ناجائز رشتہ ہوتا ہے شادی شدہ لائف کی اپنی ایک خوبصورتی ہوتی ہے" وہ اسے سمجھانے لگا۔۔۔

" تو یہ خوبصورت لائف اپنی بیوی کے ساتھ گزارتے نا یہاں کیا کر رہے ہو" جبران اس کی بات پہ کچھ دیر تو بول ہی نا سکا پھر بولا۔۔۔

" وہ میرے ٹائپ کی نہیں تھی"

" تو پھر کون ہے تمہارے ٹائپ کی؟؟؟" ربیکا نے پوچھا۔۔۔

" تم....." جبران فوراً بولا۔۔۔

" واااٹ..... میں اور تمہارے ٹائپ کی ہونہہ نو وے"

" کیوں تم کیوں نہیں ہو؟؟؟"

" بیکاز تمہاری سوچ اور میری سوچ بہت الگ ہے"

" سوچ کو ایک جیسا بنایا بھی تو جا سکتا ہے نا"

" کچھ اور بات کرو جبران"

" میں سچ کہہ رہا ہوں ربیکا تم جیسی ہی لڑکیاں مجھے اٹریکٹ کرتی ہیں تم میں ایک بولڈنیس ایک کانفیڈینس ہے جو مجھے اچھا لگتا ہے"

" اففففف انف جبران بس کرو لنچ پہ لائے ہو تو سکون سے لنچ کرنے بھی دو" وہ چڑ گئی تو وہ خاموش ہو گیا۔۔۔

                              -----

"ہاں یار یہ جبران کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے آج کل"

 ربیکا کسی سے فون پہ بات کررہی تھی اور غصے سے جبران کے بارے میں بتا رہی تھی ابھی جبران اسے گھر ڈراپ کر کے گیا تھا کہ اس کا فون بجا آگے سے پتا نہیں کیا کہاں گیا کہ وہ بولی۔۔۔

" آئی نو یار میں بک ہوں بٹ..... میں نے اسے کہا بھی کہ میں تمہاری گرل فرینڈ بن جاتی ہوں بٹ پتا نہیں اسے کیا شادی کا شوق پڑا ہے" پھر کچھ کہا گیا۔۔۔

" اوکے پھر ملتے ہیں رات کو تمہارے ساتھ اور کون آئے گا" وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔

" ہمممم اوکے ٹھیک ہے" کہہ کر اس نے فون رکھ دیا اب رات کے لیے اسے تیار ہونا تھا ۔۔

-----------

سب کے بے حد اصرار پہ مرال نے اپنے بابا کا آفس جوائن کرلیا تھا۔۔۔ جبران تو تھا نہیں سو اب وہ ہی آفس کی زمہ داری سنبھالنے لگی تھی۔۔۔ اس کی لائف ایک دم سے بہت مصروف ہو گئی تھی۔۔۔ اور اس روٹین نے اس کی شخصیت پہ بہت اچھا اثر ڈالا تھا وہ اب پروقار عورتوں میں شمار کی جانے لگی تھی۔۔۔ اس کی ڈریسنگ اس کی گریس اتنی زبردست تھی کہ سامنے والا دیکھتے ہی مرعوب ہو جاتا وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی۔۔۔۔
کمپنی کی باگ ڈور اس نے تھام لی تھی۔۔۔

اب وہ جبران کو اپنا ماضی سمجھ کے بھول جانا چاہتی تھی۔۔۔ اور کافی حد تک کامیاب بھی تھی وہ اب وہ مرال نہیں رہی تھی جو کبھی اک ہاری ہوئی عورت لگتی تھی۔۔۔

ماما بابا نے تو خلع پر بہت زور دیا پر وہ نا مانی بھلا کوئی جانتے بوجھتے جسم سے روح کو جدا کرنے کا سوچ سکتا ہے..... نہیں نا؟؟؟ تو پھر تو وہ اس کی روح کا مکین تھا اسے اپنے سے جدا کردیتی تو وہ خود زندہ رہتی؟؟؟

جاری ہے------
: #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_نمبر_09💞

مرال آج ایک بزنس پارٹی میں آئی تھی۔۔۔ ابتہاج اور وہاج صاحب کے ساتھ وہاں ان کی ملاقات حیدر گروپ آف انڈسٹریز کے ٹائیکون ولید یزدانی اور حیدر یزدانی سے ہوئی۔۔۔۔ حیدر یزدانی ابتہاج صاحب کے بہت اچھے دوست تھے۔۔۔

ولید یزدانی کو مرال بے حد پسند آئی اور اس کے کچھ دن بعد ولید یزدانی نے اپنا پرپوزل اس کے گھر بھیجا۔۔۔

وہاج صاحب اور اسمہ نے مرال کی زندگی کے بارے میں انہیں آگاہ کردیا تھا ولید اور اس کے گھر والوں کو کوئی اعتراض نہ تھا۔۔۔

دن یوں ہی گزرتے جا رہے تھے سب لوگ مرال کو خلع لینے پر فورس کررہے تھے۔۔۔ پر مرال نہیں مان رہی تھی رات کو اسمہ اس کے پاس آئیں اور اسے سمجھانے لگیں۔۔۔

" بیٹا بہت اچھا رشتہ ہے تم ہمیشہ خوش رہو گی"

" میں اب بھی خوش ہوں ماما" وہ بولی " ماما پلیز میں منع کرچکی ہوں پلیز مجھے فورس مت کریں میں یہ رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتی"

" کس رشتے کی بات کر رہی ہو مرال سچ یہ ہے کہ جبران تمہیں چھوڑ کے جا چکا ہے۔۔۔۔ اسے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے..... جب وہ اپنی زندگی میں خوش رہ سکتا ہے تو تم کیوں نہیں"

" بیٹا ہم ماں باپ میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ اپنی اولاد کے دکھوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔۔۔ ہمیں بھی حق ہے کہ ہم اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں" وہ خاموشی سے سنتی رہی پھر بولی۔۔۔

" یس ماما آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ لوگوں کا حق ہے..... پر ماما اپنے دل کا کیا کروں جو مانتا ہی نہیں ہے"

" تو دل کو سمجھاؤ نا بیٹا..... مناؤ اسے..... ڈھائی سال بیت گئے وہ نہیں آنے والا آنا ہوتا تو کب کا آچکا ہوتا میرو"

" بیٹا سوچو اس بارے میں"

" جی ماما بٹ اس پرپوزل کو فی الحال آپ انکار کہےدیں مجھے ٹائم چاہیے"

" اوکے بیٹا" کہہ کر وہ اٹھ گئیں۔۔۔۔

                           ------
جبران آج اسے لے کر ڈنر پہ آیا تھا۔۔۔ ڈنر کر کے جبران کے کہنے پر وہ دونوں ایک پارک میں آگئے۔۔۔ ربیکا ایک بینچ پہ بیٹھنے لگی تھی کہ جبران اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔۔

" جبران.....نیچے کیوں بیٹھے ہو اٹھو"

" ول یو میری می؟؟؟" وہ یک دم بولا۔۔۔

" جبران پاگل ہو؟؟؟"

" ہاں تمہارے پیچھے" وہ مسکرایا۔۔۔

" جبران میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ مجھے شادی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے..... میں باؤنڈ نہیں رہ سکتی"

" تو تمہیں باؤنڈ کون رکھنا چاہتا ہے تم تو ایسے ہی اچھی لگتی ہو..... جیسے چاہو ویسے ہی رہنا" وہ فوراً بولا۔۔۔

" یہ سب شادی سے پہلے کی باتیں ہوتی ہیں..... تم پاکستانی مرد نا عورتوں کے لیے بہت پزیسو ہوتے ہو..... اور میری فرینڈشپ تو مردوں سے بھی ہے"

" ہاں ہوتے ہیں پزیسو..... بٹ تم جیسے چاہو ویسے رہنا دوستی تو میری بھی کافی گرلز سے ہے پر ہر ایک بیوی نہیں بن سکتی" جبران کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی وہ کون سی فرینڈشپ کی بات کررہی ہے عقل پہ پردہ ایسے ہی تو پڑتا ہے کہ انسان اپنا سہی غلط بھول جاتا ہے۔۔۔۔

" دیکھو یار ہم ڈھائی سال سے اچھے دوست ہیں اور ان ڈھائی سالوں نے مجھے تم سے محبت کرادی ہے"

" محبت..... ایک بات بتاؤں جبران میں آج تک تمہیں جتنا بھی جانا ہے مجھے ایسا لگا ہے کہ تمہیں محبت صرف اپنی وائف سے ہے..... تم اکثر اس کی بات کرتے ہو تم اکثر اس کو مجھ سے کمپئیر کرتے ہو..... بھلے اسے برا بی کہو پر ذکر کرتے ضرور ہو"

" اوہ پلیز یار اس وقت اس کی بات تو نا کرو مجھے نہیں ہے اس سے محبت اور رہی کمپئیر کی بات تو میں اسے تم سے کمپئیر نہیں کرتا جسٹ بتاتا ہوں اس کے بارے میں..... اس میں اور تم میں ذمین آسمان کا فرق ہے ربیکا"

" تو یہ بھی بتا دو کون آسمان ہے اور کون ذمین" ربیکا بولی۔۔

" سمپل..... تم آسمان اور وہ ذمین..... تمہیں جب بھی کوئی دیکھتا ہے سر اٹھا کے دیکھتا ہے۔۔۔ اور وہ ذمین ہے جس کو روند کر لوگ آگے نکل نکل جاتے ہیں۔۔۔۔ وہ ساری زندگی لوگوں کا بار اٹھاتی ہے۔۔۔ اور اس میں ہی خوش رہتی ہے۔۔۔ جیسے اس کا کوئی مقصد ہی نہ ہو اور تم وہ آسمان ہو جو لوگوں پہ ہر وقت چھائی رہتی ہو" وہ بولا تو ربیکا ہنسی۔۔۔

" کردیا نا کمپئیر"

" اونہہ ہو‍ں بتاؤ نا ہاں یا ناں"

" ہمممممم..... سوچ کے بتاؤں گی" وہ بولی تو جبران مسکرا دیا شکر اس نے نا نہیں کی تھی سوچنے کا کہا تو سہی۔۔۔

                            ------

"اب میرا اور تمہارا کانٹریکٹ ختم ہو چکا ہے جمی سو اب تم میں فری ہوں ویسے بھی اب تو تمہاری گرل فرینڈ آگئی ہے نا تو اس کے ساتھ انجوئے کرو"" وہ فون پہ کسی جمی سے بات کررہی تھی جمی نے کچھ کہا تو وہ بولی۔۔۔

" آئی نو یار مجھ سے کسی کا دل نہیں بھرتا" وہ ہنسی۔۔۔

" یار میں سوچ رہی ہو‍ں جبران کو ہاں کردوں" تو جمی وہاں سے کچھ بولا

" ارے یار وہ پاگل ہو رہا ہے میرے پیچھے یو نو نا پاکستانی مرد اففففف شادی کے بغیر ٹچ کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں..... مجھ سے شادی پہ زور دے رہا ہے سوچا کر ہی لوں شادی اسے بھی خوش کردوں"

" ارے نہیں وہ مجھ پہ کوئی پابندی نہیں لگائے گا کہا ہے اس نے مجھے اور اگر لگائی بھی تو میں کہاں سننے والی ہوں" وہ ہنسی پھر جمی کچھ بولا تو وہ بولی۔۔۔۔

" ہاں نا میں کیسے اپنے فرینڈز کو چھوڑ سکتی ہوں جب بھی تمہارا یا تمہارے دوستوں کا دل کرے تو بلا لینا مجھے میں حاضر" وہ ایک ادا سے بولی اور ایک دو باتوں کے بعد فون رکھ دیا۔۔۔

                            -----

مرال اپنے آفس میں بیٹھی ایک فائل اسٹڈی کررہی تھی کہ احتشام چلا آیا کچھ باتوں کے بعد وہ بولا۔۔

" مس مرال آئی نو کہ آپ میرڈ ہیں بٹ آپ کے ہزبینڈ..... سوری ٹو سے میرا رائیٹ نہیں بنتا کہ میں آپ کی پرسنلز پوچھوں بٹ....." وہ ہچکچا رہا تھا۔۔۔

" جی احتشام میں سن رہی ہوں آپ مدّے پر آئیں" وہ بولی۔۔۔

" مس مرال آپ نے میرا پرپوزل ریجیکٹ کیوں کیا "

" یہ آپ پوچھنے والے کون ہوتے ہیں" مرال نے گھورا

" سوری بٹ..... کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ کیوں"

" دیکھیں مسٹر احتشام میرا ارادہ نہیں ہے شادی کرنے کا کیونکہ مجھے اپنے ہزبینڈ سے بہت محبت ہے اور میں یہ رشتہ نبھانا چاہتی ہوں"

" پر آپ کے ہزبینڈ تو....."

" ہاں ٹھیک کہا مجھے چھوڑ کے جا چکے ہیں" مرال نے اس کی بات کاٹی۔۔۔

" بٹ پھر بھی احتشام"

" میرا اب دل نہیں مانتا.....ماما کے فورس کرنے پر میں نے کچھ ٹائم کا تو کہہ دیا تھا پر سچ بتاؤں تو میں شادی کا کوئی پروگرام نہیں ہے سو....."

" پر ساری زندگی....." وہ بولنے لگا تو مرال نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔۔۔

" گزر جائے گی زندگی بھی یو ڈونٹ وری احتشام" وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔۔۔

" آئیم امپریسڈ مس مرال..... اگر آپ برا نہ مانے تو ایک ریکویسٹ کروں؟؟؟"

" شیور" وہ بولی

" کیا..... کیا ہم دوست بن سکتے ہیں" مرال نے اسے غصے سے گھورا اور پھر خود کو کنٹرول کر  کے بولی۔۔۔۔

" نو" مرال نے یک لفظی حروف میں بات ختم کردی۔۔۔

" پر....."

" مسٹر احتشام آپ سمجھ دار ہیں کوئی ٹین ایجر نہیں جسے سمجھانا پڑے میں میرڈ لڑکی ہوں اور آپ سے دوستی کر کے میں لوگوں کو موقع نہیں دینے والی کہ وہ مجھ پہ انگلی اٹھائیں..... میں ایسی دوستیوں کی قائل نہیں سو پلیز"

" مجھے فخر ہے مس مرال آپ پہ کہ آج کل کے دور میں اور ہزبینڈ کی بے وفائی کے باوجود آپ اتنی اچھی سوچ رکھتی ہیں ورنہ ہر عورت آپ جیسا نہیں سوچتی..... چلتا ہوں یہ میرا نمبر ہے" اس نے اپنا کارڈ ٹیبل پہ رکھا۔۔۔۔

 " کبھی بھی ضرورت پڑے تو مجھے ضرور یاد کریے گا میں فوراً حاضر ہو جاؤں گا" وہ جانے لگا پھر رکا۔۔۔۔

" اور ہاں اگر کبھی بھی آپ شادی کے لیے سوچیں تو یاد رکھیے گا میں ہمیشہ آپ کا منتظر رہوں گا" اور چلا گیا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔

 #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_نمبر_10

آج سنڈے تھا وہ سو رہا تھا کہ اس کا فون بجا اس نے مندی مندی آنکھوں سے اسکرین کو دیکھا اور نام دیکھ کر مسکرایا۔۔۔

" ہائے سویٹی گڈ مورننگ"

" جبران مجھے ملنا ہے تم سے" وہ چھوٹتے ہی بولی

" ارے پہلے گڈ مورننگ کا جواب تو دو پھر حال چال پوچھو"

" آئی  نو تم ٹھیک ہی ہو گے" وہ لاپرواہی سے بولی " بتاؤ مل رہے ہو یا نہیں"

" خیریت تو ہے سب" وہ فکر مندی سے بولا

" ہاں ٹھیک ہے سب تم نے اس دن شادی کے بارے میں پوچھا تھا نا" وہ بولی تو جبران اٹھ بیٹھا

" ہاں ہاں بتاؤ" وہ بے تابی سے بولا

" ایسے نہیں کہیں باہر چلتے ہیں پھر" وہ بولی تو وہ بیڈ سے اٹھا

" ہاں تم جگہ بتاؤ" وہ اسے ملنے کے لیے جگہ بتانے لگی۔۔۔

                            -----

دن ہفتے ہفتے مہینے اور مہینے سال میں گزر گئے تھے۔۔ کہ ایک دن ابتہاج صاحب کے واٹس ایپ پہ کچھ تصاویر آئی انہوں نے دیکھا کہیں باہر کا نمبر تھا انہوں نے پکس اوپن کیں تو دم سادھے دیکھتے ہی رہ گئے رنگت سفید پڑ گئی وہ پکس جبران کی تھی اور اس کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی وہ ساتھ ایسے کھڑے تھے جیسے نیولی کپل ہوں وہ دیکھ ہی رہے تھے کہ جبران کا میسج آیا۔۔۔

" بابا آپ کی بہو" وہ کافی دیر تو ہل ہی نا سکے جبران کی کال آرہی تھی تین سال بعد ان کا بیٹا انہیں کال کررہا تھا انہوں نے کال ریسیو کی۔۔

" کیسے ہیں آپ بابا..... میں یہاں UK میں ہوں وہاں میرے ساتھ ایک لڑکی تھی" وہ بتا رہا تھا کہ ابتہاج چلائے۔۔۔

" مر گیا تمہارا باپ سمجھے تم مر گیا..... آئیندہ اپنی شکل دکھانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے تم..... مڑ کے بھی میرے گھر کا راستہ مت لینا اس عمر میں تم نے ہم لوگوں کو زلیل کروا دیا اب یہ ہی کسر رہ گئی تھی"

" بابا....." انہوں نے فون رکھ دیا

وہاج صاحب کسی کام سے ان کے آفس روم میں آئے تو دیکھا وہ اپنا سر ہاتھوں گرائے ہوئے تھے۔۔۔

" بھائی کیا ہوا آپ کو طبیعت ٹھیک ہے آپ کی" انہوں نے سر اٹھا کے وہاج  کو دیکھا اور اٹھ کے ان کے سامنے آکر ہاتھ جوڑ دیے ایک شرمندگی اور دکھ تھاا ان کی آنکھوں میں۔۔۔۔

" معاف کردو وہاج.....مجھے معاف کردو..... اگر مجھے پتا ہوتا کہ جبران یہ سب کرے گا تو میں کبھی مرال کی شادی اپنے بیٹے سے نہیں کرتا"
 وہاج صاحب نے ان کے بندھے ہاتھ تھامیں۔۔

" بھائی..... جو ہونا تھا سو ہو گیا گزری باتوں کو یاد کرکے کیا فائدہ جتنا یاد کریں گے تکلیف ہی ہو گی..... اور اب مرال بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئی ہے۔۔۔۔

" نہیں وہاج..... معاف کردو"

" بھائی کیا ہوا ہے آپ ایک دم سے" وہ پریشان ہوئے۔۔۔

" وہاج جبران نے....." وہ رکے" جبران نے شادی کرلی ہے" وہ دکھ سے بولے تو وہاج شاکڈ رہ گئے۔۔۔

" کیاااااا...... بھائی یہ آپ..... آپ کیا کہہ رہے ہیں" وہ بے یقینی سے بولے۔۔۔۔

" سچ کہہ رہا پوں میں وہاج" انہوں نے سیل کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

" دیکھو" انہوں نے سیل اٹھا کے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے کیا یہ دکھ کم تھا کہ ان کی بیٹی کا شوہر ان کی بیٹی کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور اب یہ.....وہ اٹھے اور خاموشی سے باہر چلے گئے۔۔۔

                             -----

وہاج صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا ڈاکٹرز نے انہیں ٹینشنز سے دور رکھنے کا کہا تھا اور خوش رکھنے کا کہا تھا۔۔۔

وہ اب بہت خاموش رہنے لگے تھے سب گھر والوں کو جبران کی شادی کا پتا چل گیا تھا کیا کرتے وہ لوگ جب سب جبران کو جانے سے نہیں روک پائے تھے تو شادی کرنے سے کیسے روکتے۔۔۔

وہاج صاحب کی آنکھوں میں ایک سکوت سا طاری ہو گیا تھا جب جب وہ مرال کو دیکھتے تو آنکھیں بھیگنے لگتیں وہ مرال کو خوش دیکھنا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے مرال کو بلایا۔۔۔

" جی بابا آپ نے بلایا" وہ ان کے پاس آبیٹھی۔۔۔

" میرو..... اگر میں تم سے کچھ کہوں تو مانو گی"

" جی بابا"

" میرو میں جانتا ہوں کہ ایک باپ ہونے کے ناطے مجھے یہ بولنا نہیں چاہیے پر میں تمہاری خوشی چاہتا ہو‍ں"

" بابا کیا بات ہے؟؟؟" وہ بولی۔۔۔

" بیٹا میری زندگی کا کوئی پتا نہیں میں اپنی زندگی میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں"

" ایس  تو نا کہیں بابا اللٰہ آپ کو زندگی صحت دے" وہ تڑپ اٹھی۔۔۔

" بیٹا جبران سے خلع لے لو تاکہ..... ہم کہیں اور تمہاری شادی کرسکیں"

" بابا....." اس کا دل دھڑکا " بابا آپ نے کہا تھا آپ مجھے فورس نہیں کریں گے"

" ہاں کہا تھا میں نے..... پر بیٹا ہمیں بھی تمہاری خوشیاں دیکھنے کا ارمان ہے کیا ہم اہم نہیں تمہارے لیے" مرال کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔۔۔۔

" مانگا بھی تو کیا بابا جو دینا میرےلیے ممکن نہیں"

" میں جانتا ہوں بیٹا پر....."

" پر کیا بابا آپ کیوں ایسا کہہ رہے ہیں"

" بیٹا جبران..... جبران نے..... شادی کرلی ہے" ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے مرال کچھ نا کہہ سکی خاموش رہی وہاج کو اس کی خاموشی سے خوف آنے لگا تو اسے گلے سے لگا لیا وہ ان کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔۔

                             -----
گیٹ ناک ہوا تو جبران نے گیٹ کھولا کورییر آیا اس نے کھولا تو دیکھا کچھ پیپرز تھے اس نے پیپرز کھول کے پڑھے تو شاکڈ سا رہ گیا پاکستان سے اسے خلع کا نوٹس بھیجا گیا تھا جبران کے دل کو کچھ ہوا

" کون ہے جبران؟؟؟" ربیکا بھی آگئی اور اس کے ہاتھ میں پیپرز دیکھ کے پوچھا۔۔۔

" یہ کیا ہیں؟؟؟" وہ کچھ نہ بولا ربیکا نے اس کا کندھا ہلایا۔۔۔

 " جبران یو اوکے؟؟؟" وہ چونکا۔۔۔

" ہاں.. ہاں کیا"

" یہ پیپرز کس چیز کے ہیں " وہ بولی۔۔۔

" خلع کے پیپرز ہیں میری وائف نے خلاع کا نوٹس بھیجا ہے مجھے" ربیکا ہنسی۔۔۔۔

" وائف..... یا ایکس وائف"

" چپ کرو ربیکا پلیز" جبران کو اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اور اندر چلا آیا۔۔۔۔

" تمہیں تو خوش ہونا چاہیے اب تو" وہ بولی وہ خاموش رہا۔۔۔۔

" میں کہتی ہوں نا تم اپنی وائف سے بے حد محبت کرتے ہو"

" اوہ شٹ اپ ربیکا" وہ ناگواری سے بولا۔۔۔۔

" کردوں گا سائن اچھا ہے جان چھوٹے گی اس مجبوری کے بندھن سے"

" جبران سائن سوچ سمجھ کے کرنا کیوں کہ اس سائن کے بعد تمہاری زندگی میں یا تو خوشیاں ہوں گی یا زندگی بھر کے پچھتاوے" کہہ کر وہ چلی گئی۔۔۔ 

جبران نے کچھ دیر سوچا اور پین اٹھا کر سائن کردیے۔۔۔۔ اور اس کے بعد اسے ایسا لگا جیسے وہ خالی ہو گیا ہو جیسے دل اندر سے خالی ہو گیا ہو وہ گھر سے باہر نکل آیا زندگی ایک دم سے پتا نہیں کیوں ویران سی لگنے لگی تھی۔۔۔

                              -----

مرال کی خلع کے بعد احتشام نے پھر اپنا پرپوزل بھیجا اب کی بار مرال انکار نہ کر پائی اور ہاں کر دی سب لوگ اس کے اس فیصلے سے خوش تھے وہاج صاحب کو تو جیسے نئی زندگی مل گئی تھی اب وہ خوش رہنے لگے تھے۔۔۔

مرال تو ہمیشہ سے سب اللٰہ پہ چھوڑتی آئی تھی اب بھی اللٰہ پہ چھوڑ دیا تھا سب۔۔۔۔

پتا نہیں اس کے مقدر میں کیا لکھا تھا جسے  چاہا وہ ملا نہیں اور جس کی چاہ نہیں وہ اس کی آس لگائے بیٹھا ہے۔۔۔

اس کی روح کا مکین تو بس جبران تھا اس کے دل میں صرف جبران تھا وہ کیسے جبران کی جگہ کسی اور کو دے دیتی

اس نے احتشام سے بات کرنے کا سوچا اور اس کے آفس آگئی ریسپشنسٹ نے احتشام کو انفارم کیا تو اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی کچھ دیر بعد وہ اس کے آفس روم میں بیٹھی تھی۔۔۔

" کیا لیں گی آپ چائے یا کافی؟؟؟"

" نہیں کچھ نہیں آپ سے بات کرنی ہے کچھ" وہ بولی۔۔۔۔

" جی کہیں"

" مسٹر احتشام میں نے شادی کے لیے تو ہاں کردی ہے پر....."

" پر کیا؟؟؟"

" پر میری ایک شرط ہے" وہ مسکرایا۔۔۔۔

 " جی بولیں"

" دیکھیں مجھے اپنے شوہر سے....." وہ رکی " آئی مین سابقہ شوہر سے بے حد محبت ہے" سابقہ بولتے ہوئے اس کا دل بری طرح دکھا۔۔۔۔

" جی میں جانتا ہوں" وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔۔

" تو یہ کہ میں کسی سے محبت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی" وہ پھر رکی "شرط یہ ہے کہ شادی کے بعد آپ مجھے فورس نہیں کریں گے کہ میں آپ سے محبت کروں..... بھلے شادی کے بعد آپ میرے  شوہر ہوں گے آپ سے محبت کرنا میرا فرض ہو گا پر..... اس میں ہمیشہ میری طرف سے آپ کو کوتاہی ملے گی" وہ مسکراتا ہوا اس کی بات سن رہا تھا اس کی بات پہ بولا۔۔۔۔

" یہ کس نے کہا آپ سے کہ میں آپ سے جبری محبت کرواؤں گا..... محبت کروائی نہیں جاتی بس ہو جاتی ہے..... آپ بھلے مجھ سے محبت نہ کریں بس میری محبت کی قدر کریں میرے لیے یہ بھی بہت ہے"

کیا مرد ایسے بھی ہوتے ہیں وہ اسے دیکھ کے سوچ رہی تھی۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

: #روح_کا_مکین

#از_بینا_خان

#قسط_نمبر_11

شام کا وقت تھا وہ ابھی ابھی آفس سے آیا تھا تو دیکھا ربیکا کہیں جانے کے کے لیے تیار ہو رہی تھی ربیکا کو نک سک سے تیار ہوتا دیکھ کے اس نے پوچھا۔۔۔

" آج کہیں جا رہے ہیں ہم؟؟؟" وہ اکثر شام میں کہیں نہ کہیں جاتے تھے سو جبران نے پوچھا۔۔۔

" ہم نہیں صرف میں" وہ تیار ہوتے ہوئے بولی۔۔۔

" تم..... پر کہاں؟؟؟"

" میرے کچھ فرینڈز نے بلایا ہے"

" خیریت؟؟؟" اس نے پوچھا تو وہ چڑ گئی۔۔۔

" اففففف کتنے سوال کرتے ہو تم جبران"

" میں شوہر ہوں تمہارا میرا حق ہے پوچھنا کہ میری بیوی کہاں جا رہی ہے"

" سو واٹ..... شوہر ہو تو کیا ہوا میں نے پہلے بھی تم سے کہا تھا کہ مجھے یہ بے جا پابندیاں نہیں پسند"

" میں پابندی نہیں لگا رہا جسٹ پوچھ رہا ہوں"

" بتایا تو ہے ابھی" وہ بیزاری سے بولی۔۔۔

" اچھا....." وہ بولا " میں بھی چلتا ہوں آفس میں آج کوئی اتنا خاص کام بھی نہیں تھا جو....." وہ بول  رہا تھا کہ وہ اس کی بات کاٹ کے بولی۔۔۔۔

" نہیں..... تمہارا کیا کام وہاں"

" واٹ یور مین ربیکا" اس نے ٹٹولتی نظروں سے اسے دیکھا وہ جبران کی نظروں کو خاطر میں لائے بغیر بولی۔۔۔

" جبران کیا میں اپنی لائف کو انجوائے بھی نہیں کرسکتی کیا..... شادی کرکے پھنس گئی میں تو" وہ اچھا خاصا چڑ گئی تھی۔۔۔ جبران نے گہرا سانس لیا اور اس کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ تھام کے بولا۔۔۔

" یار ایسی بات نہیں ہے تمہاری مرضی ہے کہ تم جیسے چاہو ویسے اپنی زندگی گزارو"

" اوکے پھر میں جاتی ہوں دیر ہو رہی ہے" وہ ہاتھ  چھوڑا کر بولی اور جلدی سے اپنا پرس اٹھا کر جانے لگی پھر ایک دم رک کے پوچھا۔۔۔

" تم بڑے خاموش رہنے لگے ہو اپنی بیوی سے علٰیحدگی کے بعد سے"

" ارے نہیں بس ویسے ہی" وہ بولا

" اوکے" وہ لاپرواہی سے کہہ کر چلی گئی فکر کس کو تھی اس کی "رہے اپنی بیوی کی یادوں میں۔۔۔

 مجھے کیا" اس نے سوچا اور سر جٹھک کے چل دی جبران نے اس سے نہ یہ کہا کہ وہ جلدی آئے نہ یہ پوچھا کہ وہ کب آئے گی شاید وہ خود اکیلا رہنا چاہتا تھا۔۔۔

                             -----

کافی دنوں سے ربیکا کی یہ ہی روٹین تھی شام میں اپنے فرینڈز کا کہہ کر پتا نہیں کہا جاتی اور وہ گھر میں اکیلا پڑا رہتا یہ پتا نہیں اس کے کون سے فرینڈز تھے جنہیں اچانک ربیکا یاد آگئی تھی۔۔۔

شام میں جب وہ گھر پہ اکیلا ہوتا تو اسے مرال بہت یاد آتی تھی وہ بیڈ پہ آڑا ترچھا لیٹا ہوا تھا کہ اسے یاد آیا کہ۔۔۔

" جب وہ آفس سے آتا تھا تو وہ پہلے سے ہی اس کے کپڑے واشروم میں رکھ دیتی تھی۔۔۔ پھر اس کے لیے چائے لاتی اس کا حال چال پوچھتی وہ اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔۔ پر وہ پھر بھی اس سے بولتی۔۔۔۔ اور اب اس کی زندگی میں ایک خاموشی نے ڈیرا ڈال دیا تھا۔۔۔۔ وہ کچن میں گیا دوپہر سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔۔۔ وہ چیک کرنے لگا  کچھ بھی نا تھا۔۔۔۔ کچن میں اس نے کھانا ہی نہیں بنایا تھا۔۔۔۔ جبران نے فریج سے فروٹس نکالے اور کھانے لگا ربیکا کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا اسٹارٹ میں تو وہ پھر بھی اس کا خیال کرتی تھی۔۔۔۔ کچھ بنا لیتی تھی پھر آہستہ آہستہ اس نے وہ بھی چھوڑ دیا۔۔۔

یہ ایک رات کی بات ہے جب جبران نے اس سے کھانے کا پوچھا تھا تو وہ بولی۔۔۔

" شادی کی ہے کوئی گود نہیں لیا تمہیں اپنا کام خود کرو"

وہ باہر کے کھانے کھا کھا کر وہ تھک گیا تھا فروٹس کھاتے ہوئے اسے پھر مرال یاد آئی مرال اس کے لیے روز اس کی پسند کا کھانا بناتی تھی اور آفس بھی بھیجتی تھی اسے آج پھر وہ بہت شدت سے یاد آئی تھی۔۔۔

                             ------

مرال کی شادی کی تیاریاں اسٹارٹ ہو گئیں تھیں۔۔۔

 کچھ دن میں اس کی شادی تھی۔۔۔۔ سب خوش تھے اس کے علاوہ۔۔۔۔ پتا نہیں دل کی زمین اتنی بنجر کیوں ہوگئی تھی۔۔۔۔ صرف دل کا ایک حصہ ہرابھرا تھا اور اس حصے میں صرف جبران کی محبت کا پودا لگا تھا۔۔۔۔ جو دن بدن پروان چڑھ رہا تھا باقی ساری ذمین بنجر تھی۔۔۔۔

احتشام اتنا اچھا تھا جبران سے لاکھ گنا اچھا پر پھر بھی وہ اس سے محبت نہیں کرپارہی تھی۔۔۔۔ وہ جب جب احتشام کو دیکھتی اسے جبران یاد آتا
کچھ دنوں میں جبران کی محبت جبران کی یادیں اس کے لیے پرائی ہو جائیں گی۔۔۔۔ اس کے دل اور اس کی یاد پہ کسی اور کا پہرہ ہو گا کسی اور کا حق ہوگا۔۔۔۔ پر اس انسان کے لیے تو اس کے دل میں جگہ ہی نہیں تھی وہ کیا کرے۔۔۔۔ اس کا دل گھبرانے لگا۔۔۔۔

                              -----

" ربیکا پلیز میرے لیے کچھ بنادو پھر چلی جانا باہر کا کھانا کھا کھا کے میری طبیعت خراب ہو گئی ہے۔۔۔۔" وہ آج پھر کہیں جانے کو تیار تھی کہ وہ بولا۔۔۔۔

" جبران کیا تم نے ٹھیکا لے لیا ہے کہ میں کہیں بھی جاؤں تم نے ٹوکنا ہی ہے" وہ بیزاری سے بولی۔۔۔۔

"  میں نے تمہیں نہ ٹوکا ہے نہ روکا ہے بس یہ کہہ رہا ہوں کہ پلیز کچھ بنا کے چلی جاؤ میرے لیے"

" خود بنالو میں لیٹ ہو رہی ہوں" وہ جانے لگی۔۔۔۔

" یار پلیز" وہ کھڑی ہو گئی پھر ٹائم دیکھ کے بولی اوکے آکے بنادوں گی تم ویٹ کرلو میرا"

" آکے۔۔۔۔؟ ربیکا تم پہلے سے ہی میرے لیے کچھ بنا دیا کرو پھر جہاں جانا ہے جاؤ۔۔۔۔ میں کون سا روکتا ہوں تمہیں۔۔۔۔ مرال تو روز میرے لیےکچھ نہ کچھ بناتی تھی اور آفس بھی بھیجتی تھی" اسے آج پھر وہ یاد آئی تھی۔۔۔

" تو نہیں چھوڑنا تھا نا اسے کیوں چھوڑا..... جبران تمہیں بیوی نہیں ایک ماسی چاہیے تھی جو تمہارے کام کرتی یہاں تو تمہیں کوئی ماسی ملی نہیں جس پہ تم بیوی کیطرح حق جتاؤ اور ماسی کی طرح کام کرواؤں..... اس لیے تم نے مجھ سے شادی کرلی ہے نا"

"اسٹاپ اٹ ربیکا" وہ غصہ ہوا۔۔۔

" چیخو مت جبران..... مجھے اپنی مرال ہر گز نہ سمجھنا۔۔۔۔ جو تمہاری ہر بات برداشت کرے گی اور خاموش رہے گی۔۔۔۔ ارے اس نے تو پتا نہیں کیسے تمہیں برداشت کرلیا۔۔۔۔ تمہیں میرے جیسی ہوتی تو تمہیں بتاتی" وہ بھی تیش میں آگئی۔۔۔۔

" اتنی ہی یاد آتی ہے نا تمہیں وہ تو چلے جاؤ اس ماسی کے پاس یہاں کیوں ہو" جبران کو اپنی ذات پہ اس کا بولنا اتنا برا نہیں لگا جتنا مرال کے بارے میں بولنا وہ چیخا۔۔۔۔

" شٹ یور ماؤتھ اوکے ورنہ میں برداشت نہیں کروں گا"

" تو تمہیں برداشت کر کون رہا ہے تنگ آگئی ہوں میں تم سے میرا بس چلے تو تمہیں چھوڑنے میں منٹ نہ لگاؤں ذہنی مریض ہو گئے ہو اپنی ڈائیورس کے بعد۔۔۔"

 جبران کا ہاتھ اٹھا اس سے پہلے کے اسے لگتا ربیکا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور زور سے جھٹکا دے کر نیچے کیا۔۔۔۔

" یہ ہاتھ ابھی تو اٹھ گیا آئیندہ اٹھا نا تو پولیس میں کمپلین کروا دوں گی یہ پاکستان نہیں ہے سمجھ آئی" وہ کہہ کر چلی گئی وہ غصے سے پیچ و تاب کھا کے رہ گیا۔۔۔

                            -----

رات کے دو بج رہے تھے ربیکا کا کوئی اتا پتا نا تھا۔۔۔ اسے اس وقت ربیکا کی فکر کرنے کے بجائے مرال یاد آرہی تھی۔۔۔۔ اس نے خود ہی کچھ نہ کچھ بنا کے کھا لیا تھا۔۔۔۔ کھاتے وقت اسے مرال کی وہ سادہ سی کھچڑی بے حد یاد آئی۔۔۔۔

جب جب وہ وامیٹ کررہا تھا اسے مرال کا سنبھالنا یاد آرہا تھا۔۔۔۔

 وہ بیڈ پہ آکے لیٹا اور آنکھیں موند لیں اسے یاد آیا وہ کیسے اس کے بال سہلاتی تھی جب بیمار تھا تو ساری ساری رات اس کے لیے جاگتی تھی۔۔۔۔

 ناجانے کب اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہ اسے بہت شدت سے یاد آرہی تھی دل چاہ رہا تھا اس تک اڑ کے پہنچ جائے پر جاتا کس کے پاس اس سے تو سب رشتے وہ ختم کر آیا تھا۔۔۔۔۔

وہ جب آفس سے آتا تو وہ اسے اپنے گھر میں اپنے کمرے میں چلتی پھرتی نظر آتی اور اگر اب وہ چلا بھی گیا تو۔۔۔۔۔ وہ تو نہیں ہوگی وہاں اس کا دل گھبرایا وہ اٹھ کے باہر لان میں آگیا۔۔۔۔ وہ اس کی سوچوں میں گم تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس نے چونک کے اس طرف دیکھا اور شاکڈ رہ گیا ربیکا شراب کے نشے میں دھت گھر میں ڈاخل ہو رہی تھی۔۔۔۔ 

جاری ہے ۔۔۔۔۔



 #روح_کا_مکین

#از_بینا_خان

#قسط_12

 وہ شاکڈ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا وہ اب اندر چلی گئی تھی۔۔۔ اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی۔۔۔ وہ غصے سے اس کے پیچھے پیچھے آیا وہ کمرے میں جا رہی تھی کہ اس نے اس کا زور سے بازو پکڑ کے روکا اور اس کے ہاتھ سے شراب کی بوتل لی۔۔۔۔

" تم نے ڈرنک کی ہے؟؟؟" اس نے غصے سے پوچھا۔۔۔۔

" تم کون؟؟؟" وہ بامشکل آنکھیں کھول کے بولی

" تمہارا شوہر..... بولو کیوں کی ڈرنک؟؟؟" اس نے پھر پوچھا۔۔۔۔

" ہاتھ چھوڑو میرا..... میری مرضی..... میں تو ایسی ہی ہوں..... تمہیں نہیں پتا" وہ ہنسی " آں..... بےبی تم کرو گے ڈرنک"

" شٹ اپ ربیکا..... ہوش میں آؤ پھر بات کریں گے"

 وہ ہوش میں نہیں تھی تبھی جبران نے چپ ہونا ہی بہتر جانا کیونکہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔

" ہوش میں...... تم ہوش میں آؤ گے یا میں..... میں تو سب کو بے ہوش کردیتی ہوں اور پھر ان کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہوتی ہے مجھے نہیں..... سب لوگ..... میرے.. دیوانے ہیں" اس نے اپنے ہاتھ کی انگلی چاروں طرف گھمائی شاید اس نے بہت زیادہ ڈرنک کی تھی۔۔۔۔

" تم بھی تو ان ہی میں سے ہو..... ہے نا" وہ بولی

" ہاں میں ان ہی بدنصیب لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنی گھر کی جنت ٹھکرا کر جہنم خرید لی"

 وہ دل ہی دل میں بولا اور اسے لے کر کمرے میں گیا۔۔۔

 بیڈ پہ لٹایا اور اس کے جوتے اتار کے کمبل اس پہ دیا اور خود باہر آگیا۔۔۔

 اب تو یہ روز کا معمول بن گیا تھا وہ روز ڈرنک کر کے آتی شروع شروع میں جبران نے اسے بہت سنائی تھیں۔۔۔۔ پر وہ سننے والی کہاں تھیں وہ جبران کی ایک نہیں سنتی تھی۔۔۔۔ جبران اس سے تنگ آچکا تھا اسے اب اپنی پسند پہ شرمندگی و ندامت ہوتی تھی اور یہ ندامت بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔

                            -----

جبران کی طبیعت آج حد سے زیادہ خراب ہو گئی تھی وامیٹنگ حد سے زیادہ ہورہی تھی۔۔۔۔ ربیکا کمرے میں آئی تو دیکھا وہ بیڈ کے پاس پڑے ڈسٹ بن میں وامیٹ کررہا تھا۔۔۔۔ یہ بھی جبران نے خود رکھا تھا کہ اس میں چلنے کی بالکل ہمت نہیں تھی کہ وہ واشروم ہی چلا جاتا۔۔۔۔

" یییککھھھھ..... جبران یہاں کہاں تم وامیٹ کررہے ہو واشروم میں جاؤ " وہ کمزوری کی وجہ سے کچھ نہ بولا اور ٍڈسٹ بن سائیڈ پہ رکھا اور لیٹ گیا۔۔۔

" جبران اٹھو" وہ بیڈ کی پائینتی کے پاس آکے بولی۔۔۔۔

" میری ہمت نہیں ہو رہی ربیکا پلیز....." وہ نقاہت کے باعث بولا۔۔۔

" سو....؟؟؟ میں کیا کروں اگر تمہاری ہمت نہیں ہورہی تو تمہاری خدمتیں کروں.....

 اٹھو پلیز تمہاری وجہ سے روم میں آنے کا بالکل دل نہیں کرتا" وہ اسے بس دیکھ کے رہ گیا "

مرال تو ایسی نہ تھی..... اسے کیوں مجھ سے کراہیت نہیں آتی تھی..... وہ تو دن رات ایک کر دیتی تھی میرا خیال رکھنے میں" وہ بس سوچ کے رہ گیا۔۔۔

" تم پلیز کسی ڈاکٹر کو بلا دو یا مجھے ہی کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلو"

" واااٹ..... اس کنڈیشن میں میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں دماغ ٹھیک ہے تمہارا..... تم اتنے گندے ہو رہے ہو.....

 میں ایسا کرتی ہوں ڈاکٹر کو بلا لیتی ہوں.....کم از کم تمہاری وامیٹنگ تو رکے دماغ خراب کیا ہوا ہے تم نے" وہ کہہ کر چلی گئی۔۔۔۔

اس طبیعت کی وہی سیم وجہ تھی کہ باہر کا کھانا کھانا اور پھر دو دن سے اس نے کچھ کھایا نہیں تھا۔۔۔۔ 

ربیکا کچھ بناتی نہیں تھی اور ان دو دنوں سے اسے بہت سخت بخار بھی ہو گیا تو ربیکا نے احسان کر کے اسے ٹیبلٹس دے دی تھیں

وہ ہوش میں ہوتا تب بھی مرال کو یاد کرتا بے ہوشی میں بھی اسے پکارتا تھا۔۔۔۔

 یہ شاید اس کے گناہوں کی سزا ہی تھی جو اسے مل رہی تھی۔۔۔۔

 اب وہ سوچتا تھا کہ اس بےچاری مرال کو اس نے کتنا ستایا کتنا برا بھلا کہا نا جانے کتنی بار اس پہ ہاتھ اٹھائے۔۔۔

 پر وہ اک لفظ شکایت منہ پہ نہ لائی بلکہ اس کے بدلے میں اس  کی دیکھ بھال کرتی تھی۔۔۔۔ اس سے بے لوث محبت کرتی تھی اور اس نے کیا کیا  اس کو برباد کرتے کرتے اس نے اپنے آپ کو برباد کرلیا وہ کتنا برا تھا۔۔۔۔

                               ----

ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اسے ریسٹ کا کہا تھا اور سختی سے باہر کے کھانے کھانے سے منع کیا تھا۔۔۔۔

 ربیکا مجبوری میں ہی سہی اسے کچھ نہ کچھ بنا کے دے رہی تھی۔۔۔۔ مگر وہ کچھ بھی بناتی اسے اچھا نہ لگتا اسے مرال کے ہاتھ کے کھانے یاد آتے۔۔۔۔ جو وہ خاص اس کے لیے بناتی تھی وہ اس کے بنائے ہوئے کھانے میں مرال کے ہاتھ کا ذائقہ ڈھونڈنے لگا تھا۔۔۔۔

 ربیکا آتے جاتے اسے باتیں سناتی رہتی تھی اسے لگتا تھا جیسے ربیکا سچ کہتی ہے وہ ذہنی مریض ہی ہے۔۔۔۔

 اور اگر نہیں ہے تو بہت جلد بن جائے گا اکثر رات میں یا وہ جب بھی اکیلا ہوتا اسے مرال کی آوازیں سنائی دیتیں کبھی اس کی درد میں ڈوبی چیخیں۔۔۔

 اور اس وقت وہ دھاڑیں مار مار کے روتا اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔ کہ اپنے ساتھ کرے تو کیا کرے یہ آئیڈیلازم اسے لے ڈوبا تھا۔۔۔۔

وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا ربیکا حسبِ معمول باہر گئی ہوئی تھی۔۔۔۔

 وہ گھر پہ اکیلا تھا ایک تنہائی ہی تو اس کی ساتھی بن گئی تھی۔۔۔۔

 اب جو اس کا دکھ درد بانٹ لیتی تھی وہ شدت سے رو رہا تھا اور روتے ہوئے بار بار یہ ہی کہہ رہا تھا

" ماما آپ..... آپ ٹھیک کہتی تھیں میرا سکون میرا چین وہ ہی تھی اب چلی گئی ماما تو میرا سکون میرا چین سب لے گئی..... آپ نے ٹھیک کہا تھا وہ ہی میرا حاصل..... میری زندگی ہے"

"اے اللٰہ یہ میں نے کیا کردیا " وہ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگا "

میں نے اپنا لک خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا..... اس کو برباد کرتے کرتے میں خود برباد ہو گیا..... تباہ ہو گیا میں" وہ رو رہا تھا گڑگڑا رہا تھا

پر اب کیا فائدہ.....وہ اپنی تباہی کا زمیدار خود تھا اور یہ تباہی اس نے خود اپنے لیے چنی تھی

                            -----

اس کی طبیعت بہتر ہوئی تو اس نے پھر آفس جوئن کرلیا وہ گھر سے زیادہ آفس میں ریلکس فیل کرتا۔۔۔ وہ اب دیر سے گھر جاتا اسے پتا تھا کہ اگر وہ نہ بھی جائے تب بھی ربیکا کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔۔۔

 اس کے دل ودماغ میں ایک پکڑ دھکڑ سی چل رہی تھی وہ سوچ رہا تھا وہ کیسے مرال کو اپنی زندگی میں واپس لائے۔۔۔۔ وہ اس کو کھونا نہیں چاہتا تھا پر کھو چکا تھا اور اب جب کھو دیا تھا تو دوبارہ اسے پانا چاہتا تھا

بوسٹن میں اس کی ایک بہت بڑی میٹنگ تھی بہت سے ملکوں سے بزنس مین نے آنا تھا اور وہ اپنے آفس کی طرف سے اس میٹنگ میں جا رہا تھا

شام میں وہ گھر آیا پیکنگ کرنے لگا تو اسے پھر مرال یاد آئی جب وہ اسے چھوڑ کے جا رہا تھا اور وہ کانپتے ہاتھوں سے اس کی پیکنگ کررہی تھی..... اا

اس نے سر جھٹکا کسی طرح تو اس کی یادیں پیچھا چھوڑیں پر یہ ممکن کہاں تھا وہ اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔۔۔۔

                              -----

احتشام آجکل میٹنگ کے سلسلے میں آؤٹ آف کنٹری تھا۔۔۔۔۔

 ادھر اس کی ملاقات جبران سے ہوگئی اسے جبران بہت پسند آیا۔۔۔

 اور جبران کو بھی وہ اچھا لگا کچھ دنوں میں ہی ان کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔۔۔۔

 نہ وہ جبران کے بارے میں کچھ جانتا تھا نہ جبران اس کے بارے میں..... 

پتا نہیں قسمت اب کیا موڑ لینے والی تھی یہ کوئی نہیں نہیں جانتا تھا۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
: #روح_کا_مکین

#از_بینا_خان

#قسط_نمبر_13

وہ دونوں ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے رات کو احتشام نے اس کے روم کا دروازہ بجایا جبران نے دروازہ کھولا۔۔۔

" ارے..... خیریت؟؟؟"
 
" ہاں یار خیریت ہے بور ہو رہا تھا سوچا تھوڑی گپ شپ ہی لگا لی جائے" احتشام بولا۔۔۔

" ہاں کیوں نہیں آؤ" وہ اندر آیا۔۔۔

" کافی پیو گے؟؟؟" جبران نے پوچھا۔۔۔

" شیور" جبران نے انٹرکام اٹھایا اور دو کافی منگوائیں۔۔۔

" تم کھڑے کیوں ہو بیٹھو..... آجاؤ بالکنی میں چلتے ہیں" وہ دونوں بالکنی کے پاس رکھی چئیر پہ جا کے بیٹھ گئے باتوں باتوں میں احتشام بولا۔۔۔

" کتنا عجیب لگتا ہے نا جب ہم کسی سے محبت کریں اور وہ ایک نظرِ کرم بھی ہم پہ عنایت نہ کرے" جبران چونکا۔۔۔۔

" کیا ہوا خیریت تو ہے؟؟؟"

" ہاں خیریت ہی ہے" وہ بولا۔۔۔

" ہمممم..... اور یہ بھی تو کتنا عجیب ہے نا کہ کوئی ہم سے بے پنہاں پیار کرے۔۔۔ اور ہم اس سے بے رخی برتیں اور اپنی غلطی کا ہمیں تب میں اندازہ ہو۔۔۔۔ جب اس کی طرف جانے والی ہر راہ بند ہو گئی ہو۔۔۔۔اور ہمارے پاس خسارے کے علاوہ کچھ نہ بچے۔۔۔" وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔۔۔

" تم بھی کسی سے؟؟؟" 

احتشام نے پوچھا جبران اپنی جگہ سے اٹھ گیا اور بالکنی میں کھڑا ہو گیا۔۔۔۔

" تو جاؤ جبران ہو سکتا ہے وہ تمہیں معاف کردے " وہ اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔

 " محبت کا دل بہت وسیع ہوتا ہے جبران..... وہ صرف ایک بار ہوتی ہے۔۔۔ اور جو بعد میں ہوتا ہے وہ کمپرومائیز ہوتا ہے۔۔۔۔ محبت نہیں اور اس کی مثال پہ اپنی زندگی میں دیکھ چکا ہوں اپنی منگیتر کی شکل میں" جبران نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔

" سچ کہہ رہا ہوں میں....."

" تو تم اس سے شادی کیوں کررہے ہو"

" محبت جبران محبت..... پر تمہیں پتا ہے جبران میری محبت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔

 تمہیں پتا ہے اس کا شوہر اس کو چھوڑ کے جا چکا ہے وہ اس سے ڈائیورس لے چکی ہےپر۔۔۔۔ پر پھر بھی وہ اس کی جگہ کسی اور کو دینا نہیں چاہتی۔۔۔۔ اپنے ہونے والے شوہر کو بھی نہیں۔۔۔۔

 اس نے اپنے دل کا ایک حصہ اپنے ایکس شوہر کے لیے مختص کیا ہوا ہے۔۔۔۔ جب اس نے مجھے یہ بتایا نا تو مجھے اس کے شوہر سے بے حد جیلس فیل ہوئی۔۔۔۔ اور ایک بار تو میری اس محبت میں ہلکی سی گرہ پڑی دل چاہا چھوڑ دوں اسے پر میں نے وہ گرہ کھول دی۔۔۔۔ اور اس کو اجازت دے دی کہ وہ بھلے کبھی مجھ سے محبت نہ کرے پر کہیں دل ہی دل میں میں یہ چاہتا تھا کہ۔۔۔۔ وہ بھی مجھ سے محبت کرے پر۔۔۔۔" اس نے سر جھٹکا جبران اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ 

" میری ماں کہتی ہے کہ چھوڑ دوں اسے کیونکہ وہ میرڈ ہے کیونکہ اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ 

پر میں پھر بھی کروں گا اس سے شادی کیونکہ وہ مجھے پسند ہے میں زبان دے چکا ہوں اور اپنی زبان کا پکا ہوں میں"

" تم اپنی زبان کے چکر میں پھنس رہے ہو احتشام۔۔۔ میری والی غلطی مت کرو کل کو اگر کسی کو فرق پڑے گا تو وہ تم ہو گے۔۔۔۔ اور اس سے کہیں زیادہ فرق اس لڑکی کو پڑے گا کیونکہ اسے ایک بار پھر کوئی چھوڑ دے گا"

" تم کہتے ہو تمہاری ماں اسے پسند نہیں کرتی تو بتاؤ کیسے رہے گی وہ"

" میں ہوں نا مینج کرلوں گا اینی ویز بہت جلد شادی ہے میری تم چلنا میرے ساتھ پاکستان" آخر میں وہ مسکرایا جبران اسے دکھ سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ 

اسے احتشام سے زیادہ فکر اس لڑکی کی تھی اس نے بھی تو کسی لڑکی کو ایسے ہی چھوڑا تھا۔۔۔۔۔ حالانکہ جانتا تھا کہ وہ اس سے شدید محبت کرتی ہے۔۔۔۔ اور اس کا اظہار کر چکی ہے۔۔۔

" احتشام کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کے اٹھانا"احتشام نے سر ہلایا۔۔۔

"جبران تم بھی اس کے پاس لوٹ جاؤ نا..... کیا پتا معاف کردے وہ تمہیں" جبران نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

" بہت دیر ہو چکی ہے احتشام میں نے اس کی طرف لوٹنے میں بہت دیر کردی اپنی ساری کشتیاں جلا کے آیا تھا میں یہاں اب لوٹنا بھی چاہوں تو کوئی رستہ نہیں"

" میں بہت بد نصیب ثابت ہوا ہوں..... ایک جبران تھا جس کی جھولی میں خدا نے ساری خوشیاں ڈال دیں تھیں اور اس نے کیا کیا جھولی ہی جھٹک دی اپنی سکون اپنی خوشیاں سب پھینک آیا" وہ دکھ سے بولا۔۔۔

" مطلب؟؟؟"

" میری ڈائیورس ہو چکی ہے احتشام"

" اوہ..... ایم سوری" احتشام کو حقیقتاً دکھ پہنچا تھا۔۔۔

" اوں ہوں کوئی بات نہیں..... میں پتا کرتا ہوں کافی کیوں نہیں آئی ابھی تک" وہ انٹرکام کی طرف بڑھا۔۔۔

                           ------

" کہاں ہو ربیکا کچھ دن سے نظر ہی نہیں آرہی تم" جمی کی کال تھی۔۔۔

" یار یہ جبران نے بڑا تنگ کیا ہوا تھا بیمار خود تھا اور پریشان میں..... اب کچھ دن پہلے وہ گیا ہے تو سکون ہو رہا ہے آرام کررہی تھی تم سناؤ"

" یار تم جبران کو چھوڑ دو نا "

" چھوڑ دوں گی..... میں بھی بہت تنگ آچکی ہوں اور سہی بتاؤں تو دل بھر گیا ہے میرا اس سے"وہ بولی تو جمی ہنسا۔۔۔

" آئی نو سویٹی..... تم وہ بھنورا ہو جو کسی ایک پھول پہ بیٹھ ہی نہیں سکتا"

" اور کیا..... "

" پھر کب مل رہی ہو"

" جب تم کہو"

" رات کو تمہارے گھر پہ"

" میرے گھر....."

" ہاں نا اب تو وہ تمہارا سو کولڈ شوہر بھی نہیں ہے گھر پہ سو میں ہی آجاتا ہوں" وہ ہنسا۔۔۔

" اوکے آ جانا میں ویٹ کروں گی" اس نے فون رکھ دیا۔۔۔

                   -----

آج مرال اور نشاء بڑی ماما کے ساتھ شاپنگ پہ گئی تھیں گھر آکے نشاء تو چائے بنانے چل دی تھی۔۔۔ جبکہ بڑی ماما ارسہ اور مرال شاپنگ دیکھ رہی تھیں۔۔۔

" میرو دیکھو یہ کلر تم پہ کتنا سوٹ کرے گا..... چیک کرو" بڑی ماما نے ایک گرین کلر کا سوٹ اس کی بڑھایا۔۔۔ وہ کہیں اور ہی گم تھی اس شادی میں اس کا کوئی انٹریسٹ نہیں تھا۔۔۔

" میرو" انہوں نے پھر کہا وہ چونکی۔۔۔

" جی....." 

" بیٹا یہ چیک کرو" انہوں نے سوٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

" نہیں بڑی ماما ابھی موڈ نہیں ہورہا پھر چیک کرلوں گی"

" اوکے بیٹا" وہ اس کی کیفیت سمجھ رہی تھیں تبھی زیادہ زور نہ دیا۔۔۔

" آپی اچھا یہ بتاؤ یہ مجھ پہ کیسا لگے گا بڑی ماما لائی ہیں میرے لیے" ارسہ پنک کلر کا سوٹ اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی وہ مسکرائی۔۔۔

" تم پہ تو ہر چیز اچھی لگتی ہے" ارسہ خوش ہوئی۔۔۔

" سچی" ارسہ بولی۔۔۔

" مچی" مرال مسکرا کے بولی تو ارسہ نے اس کو زور سے ہگ کیا" 

میری بیسٹ آپی" مرال ہنس دی۔۔۔۔

                    -----
جبران اس سے سب شئیر کرکے اب ریلکس فیل کر رہا تھا۔۔۔۔  گھر جانے کا تو اب اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کیونکہ گھر سے زیادہ اب اسے یہاں سکون مل رہا تھا۔۔۔ پر جانا تو تھا نا ربیکا جیسے بھی سہی اس کی بیوی تھی دو دن بعد ان لوگوں کی واپسی تھی۔۔۔

میٹنگ کے بعد وہ دونوں ساتھ ہی ہوٹل آئے کچھ دیر آرام کیا پھر احتشام کے کہنے پہ وہ دونوں آؤٹنگ کے لیے نکل گئے۔۔۔۔ ڈنر کرتے ہوئے احتشام نے اسے کہا۔۔۔

" سنو میں ایک بار پھر بتادوں تم میری شادی میں آرہے ہو سمجھے" جبران ہنسا۔۔۔۔

" افکورس یار کیوں نہیں"

" انوائیٹ کرنے میں خود آؤں گا تمہارے گھر اپنا ایڈریس بتادو مجھے" اس نے جیب سے پین نکالا اور ایک پیج لیا۔۔۔

" ہوٹل جا کے دے دوں گا کیا یہاں لے کر بیٹھ گئے" جبران بولا۔۔۔۔

" نہیں کل بھی ہماری میٹنگ ہے اور کل کا سارا دن ہم نے بزی رہنا ہے اور پرسوں بھی میٹنگ اور پھر آگے جانے کے لیے پیکنگ کریں گے بالکل ٹائم نہیں ملے گا ابھی دو"

" اففففف احتشام..... لڑکیوں کی طرح ضد کرتے ہوئے ذرا اچھے نہیں لگ رہے" جبران ہنسا تو احتشام نے گھورا۔۔۔

" بڑا جانتے ہو لڑکیوں کے بارے میں تم ہاں......"

" پالا ہی اتنا پڑتا ہے لڑکیوں سے" وہ تفاخر سے بولا تو احتشام ہنس دیا۔۔۔

" اب ٹالو مت ایڈریس لکھو" احتشام نے اس کی طرف پیپر بڑھایا تو جبران ایڈریس لکھنے لگا۔۔۔

جاری ہے____

 

: #روح_کا_مکین

#از_بینا_خان

#قسط_نمبر_14

مرال کے کہنے پر شادی بہت سادہ طریقے سے ہو رہی تھی۔۔۔۔

 احتشام کی ماں خفا تھیں پہلے ہی ان کا بیٹا اک شادی شدہ لڑکی سے شادی کررہا تھا۔۔۔۔

 اور اب وہ لڑکی سادہ طریقے سے شادی کا کہہ رہی تھی۔۔۔۔

 جس کو احتشام نے مان لیا تھا ایک ہی تو بیٹا تھا ان کا وہ سخت خفا تھیں۔۔۔۔

 مرال ایک اچھی لڑکی تھی پر بہو کے طور پہ کبھی اسے سوچا نہ تھا۔۔۔۔

 ان کے سرکل کے لوگ کیا کہیں گے کہ ان کا اکلوتا بیٹا ایک شادی شدہ لڑکی سے شادہ کررہا ہے۔۔۔۔

 وہ بھی سادہ طریقے سے لوگوں کی باتیں سننا ان کو گوارا نہ تھا مسٹر حیدر تو راضی تھے پر وہ نہیں کچھ تو وہ کریں گی پر کیا۔۔۔۔

                             -----

مرال کی شادی میں پندرہ دن رہ گئے تھے سب خوش تھے سوائے اس کے۔۔۔۔

" آپی دیکھیں آپ کی شادی کا جوڑا کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔۔۔۔" 

آج اس کی شادی کا جوڑا آیا تھا سارہ بھاگی بھاگی اسے دکھانے آئی مرال نے ایک نظر دیکھا۔۔۔

 اسے اپنی شادی کا جوڑا یاد آیا کتنی خوبصورت لگ رہی تھی وہ سب اس کو سراہ رہے تھے۔۔۔

 اور جس کے سراہنے کا انتظار تھا اس نے تو ایک نظر غلط بھی نہ ڈالی تھی۔۔۔۔

اسمہ کسی کام سے اس کے کمرے میں آئیں تو وہ بولی۔۔۔

" ماما میں نے آپ کو کہا تھا نا کوئی شور ہنگاما کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ سب سادگی سے ہو تو پھر یہ کیا ہے" وہ برہم ہوئی۔۔۔۔

"بیٹا میں جانتی ہوں پر احتشام کی ماما کے بھی کچھ ارمان ہیں ان کا اکلوتا بیٹا ہے۔۔۔ بیٹا ہم ان کو کیسے منع کرتے۔۔۔۔ ہاں شادی سادگی سے ہو گی پر یہ اس کی ماما نے بھجوایا ہے۔۔۔۔ ان کی خوشی کے لیے بیٹا تمہیں اتنا تو کرنا ہی چاہیے"

 وہ خاموش ہو گئی ماما نے پاس آکے اس ک ماتھا چوما۔۔۔

" خدا اب میری بچی کی زندگی میں خوشیاں ضرور بھر دے گا مجھے یقین ہے۔۔۔"

                   -----

احتشام پاکستان آچکا تھا اس نے سوچا تھا کہ جبران کو انوائیٹ کرنے وہ خود جائے گا۔۔۔

 ایک دو دن تک اس کا ارادہ تھا کہ جا کے جبران کو سرپرائیز دے۔۔۔

وہ شام میں کہیں گیا ہوا تھا جب گھر آیا تو دیکھا ماما سر پکڑے بیٹھی تھیں۔۔۔

" کیا ہوا ماما طبیعت ٹھیک ہے آپ کی" وہ ان کے پاس چلا آیا۔۔۔

" کیا ہونا ہے مجھے ٹھیک ہوں میں مسز باجوہ کا فون تھا انہیں بھی پتا چل گیا ہے تمہاری شادی کا"

" تو کیا ہوا ماما اس میں پریشانی والی کیا بات ہے"

" پریشانی والی بات یہ ہے کہ انہیں پتا ہے کہ جس لڑکی سے تم شادی کررہے ہو وہ طلاق یافتہ ہے" وہ خاموش ہو گیا۔۔۔

" اچھا خاصہ اپنی بیٹی مائرہ کا رشتہ دیا تھا انہوں نے مجھے تمہارے لیے پر تم پہ تو وہ مرال ہی سوار ہے۔۔۔۔ اب دیکھنا سوسائٹی کی ایک ایک عورت کو پکڑ کے بتائیں گی وہ"

" تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ماما"

" فرق..... فرق کی بات کرتے ہو تم میرے اکلوتی اولاد ہو تم احتشام کبھی تم نے سیکنڈ ہینڈ چیز یوز نہیں کی اور شادی تم سیکنڈ ہینڈ سے کررہے ہو"

" ماما پلیز اس کے بارے میں ایسے مت کہیں۔۔۔۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ وہ پہلے میرڈ تھی یا نہیں"

" ابھی فرق نہیں پڑتا نا تمہیں بعد میں پتا چلے گا کہ میں جو کہتی تھی سہی کہتی تھی" کہہ کر وہ روم میں چلی گئیں۔۔۔۔

                  ------

وہ گھر آیا ربیکا گھر پہ نہیں تھی اسے معلوم تھا اس نے اپنا بیگ رکھا اور لیٹ گیا یہ دن جو اس نے بوسٹن میں گزارے تھے اس سے اس کا مائینڈ کافی حد تک فریش ہو گیا تھا۔۔۔

 اس نے تکیہ اٹھایا سر کے نیچے رکھنے لگا تھا کہ اسے ویسٹ نظر آئی اس نے اٹھا کے دیکھا یہ اس کی ویسٹ نہیں تھی پھر کس کی تھی.....؟؟؟؟

شام میں ربیکا گھر آئی۔۔

" اوہ آگئے تم" وہ جی بھر کے بد مزا ہوئی۔۔۔

" ہاں دوپہر میں آیا تھا" وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔

" گڈ " وہ جانے لگی۔۔۔

" ربیکا....." اس نے آواز دی۔۔۔

" بولو"

" روم میں ویسٹ کس کی پڑی تھی؟؟؟"

"میرے دوست آئے تھے ان میں سے کسی کی ہو گی" اس نے کندھے اچکائے اور جانے لگی جبران اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔

" واٹ یور مین..... تمہارا کوئی بھی دوست آئے گا اور ہمارا روم یوز کرے گا۔۔۔۔ 

تم نے بتایا نہیں کہ یہ مینرز کے خلاف ہے اپنے دوستوں کو اپنے تک رکھو اور ہاں روم سے اور ہماری پرسنلز سے دور رکھو اوکے"

"ڈیٹس نن آف یور بزنس اوکے تم ہوتے کون ہو مجھے لیکچر دینے والے..... میرا کوئی بھی دوست آئے جائے میری مرضی تم کون ہوتے ہو انہیں ان کے مینرز بتانے والے" وہ غصہ ہوئی۔۔۔

" میرے دوست جو بھی کریں وہ میرا درد سر ہے تمہارا نہیں" کہہ کر وہ چلی گئی جبران آج بھی کچھ نہ کرسکا تھا سوائے دل ہی دل میں غصہ ہونے کے۔۔۔۔

                   -----

ربیکا گھر سے باہر تھی دروازہ نوک ہو رہا تھا جبران نے دروازہ کھولا اور احتشام کو دیکھ کر خوشی اور شاکڈ کے عالم میں گھر گیا۔۔۔

" ارے یار میں ہی ہوں گلے تو ملو" احتشام نے آگے بڑھ کے اسے گلے لگایا۔۔۔۔

 ابھی دو دن پہلے تو ان دونوں کی بوسٹن سے واپسی ہوئی تھی جبران بھی اس سے ملا۔۔۔

" تم کیسے؟؟؟" وہ اسے گھر میں لے کر آیا۔۔۔

" بتایا تو تھا شادی کی دعوت دینی ہے تمہیں" وہ بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔

" میں تو سمجھا تھا کہ کارڈ آئے گا" جبران بولا۔۔۔

" اتنا بڑا کارڈ آیا تو ہے خود چل کے اب کس کارڈ کی ضرورت تمہیں" وہ ہنسا تو جبران بھی ہنسا۔۔۔

" ہاں واقعی..... سو کب ہے شادی"

" پندرہ دن بعد"

" آہاں ویری گڈ مبارک ہو"

" خیر مبارک" وہ خوشی سے بولا۔۔۔

" اور ہاں پرسوں کی تمہاری فلائٹ ہے تم پاکستان آرہے ہو" احتشام بولا۔۔۔

" پرسوں.....؟؟؟؟ شادی تو تمہاری پندرہ دن بعد ہے"

" تو کیا عین ٹائم پہ پہنچو گے تم"

" پر....."

" کوئی پر ور نہیں..... تم سیٹ بک کراؤ پرسوں کی فلائیٹ ہے سمجھے تمہاری میں تمہارا ویٹ کروں گا"

" یار اتنی جلدی آکے میں کیا کروں گا"

" کیا مطلب اتنے دنوں بعد تم پاکستان آؤ گے گھومنا اپنی فیملی دوست سب سے ملنا"

" یار میں....."

" میں کچھ نہیں سن رہا بس جو میں نے بول دیا وہ بول دیا بس" وہ ہاتھ اٹھا کے بولا تو وہ خاموش ہو گیا۔۔۔

                   -----

وہ شام میں باہر نکلا سڑکوں پہ گاڑی دوڑاتے ہوئے اس نے ربیکا کو کچھ آدمیوں کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھا اس کے دماغ میں کلک ہوا وہ گاڑی سے اترا اور اس ہوٹل کی طرف بڑھا تب تک وہ جا چکی تھی وہ اندر آیا سیڑیوں سے اوپر گیا وہ ہوٹل ٹو فلورز پہ مشتمل تھا ایک طرف چلتے ہوئے اسے ایک.ادھ کھلے روم میں سے کچھ آوازیں آرہی تھیں اس نے جانی پہچانی آواز کو سنا اور دھاڑ سے دروازہ کھولا سامنے کا منظر دل دہلا دینے والا تھا ربیکا کسی اور آدمی کے ساتھ۔۔۔۔

وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا اس کو وہ ویسٹ یاد آئی ربیکا نے اسے دیکھا اور پھر غصے سے بولی۔۔۔

" تم..... یہاں کیا کررہے ہو دفع ہو جاؤ" وہ چیخی جبران اس کی طرف بڑھا اور تھپڑ لگاتے لگاتے رک گیا۔۔۔

" تمہیں تو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی گھن آرہی ہے۔۔۔

 میرا دل چاہ رہا ہے تم جیسی عورت کو جان سے مار دوں..... میری پیٹھ پیچھے میری کمر میں چھرا گھونپا تم نے"

" میں نے تم سے شادی سے پہلے بات کی تھی اور تم نے خود ہی اجازت دی تھی نا کہ میں اپنے ہر فعل میں آزاد ہوں"

" یہ..... یہ کام بولے تھے میں نے تم سے کہ یہ کام کرو کسی اور آدمی کے ساتھ....."

" میں شروع سے ایسی ہی ہوں اینی پروبلم" وہ ڈھٹائی سے بولی۔۔۔

" تمہیں بھی تو مجھ میں اسی لیے اٹریکشن فیل ہوئی تھی نا"

" افسوس کہ تم میری پاک محبت کو محبت نہیں بلکہ ہوس سمجھیں..... دفع ہو جاؤ میری زندگی سے"

" میں تو خود رہنا نہیں چاہتی تمہارے ساتھ ڈائیورس دو مجھے"

اور پھر دو دن کے بعد وہ اس رشتے سے آزاد ہو گیا تھا دو دن بعد اس نے پاکستان کے لیے نکلنا تھا۔۔۔ پر نہیں جا پایا تھا اور دو دن بعد وہ پاکستان ائیر پورٹ پہ کھڑا تھا احتشام اسے لینے آیا تھا۔۔۔
#روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#epi  15

" ویلکم مائے فرینڈ" وہ گرم جوشی سے اس کے گلے لگا۔۔

" تھینک یو" وہ بھی اس سے مل کے بہت خوش ہوا تھا۔۔۔

وہ لوگ گاڑی کی طرف بڑھے۔۔

" سفر کیسا رہا؟؟؟" راستے میں اس نے پوچھا۔۔۔

" بہت بہت اچھا احتشام میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے پاکستان بلایا ورنہ خود تو میری ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔۔۔۔

کبھی سوچا نہیں تھا کہ پاکستان پھر واپس آؤں گا" احتشام مسکرایا پھر بولا۔۔۔

" بائے دا وے یہ بتاؤ کہ تم تو دو دن پہلے آنے والے تھے پھر....."

" کچھ مسئلہ ہو گیا تھا" وہ سنجیدہ ہوگیا۔۔۔

" پوچھ سکتا ہوں کون سا مسئلہ" جبران نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔

" اس کے بارے میں پھر کبھی بتاؤں گا ابھی کسی ہوٹل چھوڑ دو"

" وااااٹ..... ہوٹل..... تمہارا دماغ خراب ہے کیا میں نے اتنی دور سے اتنے دن پہلےصرف تمہیں ہوٹل میں رہنے کو بلایا ہے" جبران اس کی طرف حرت سے دیکھا۔۔۔

" یار ہم گھومیں گے پھریں گے ناچیں گے گائیں گے" جبران ہنسا۔۔۔۔

" یہ کام تم ہی کرو میں باز آیا"

" کیوں دوست تم ہو میرے رونق بھی تم نے ہی لگانی ہے"

" پاگل ہو میں تو اپنی شادی میں بھی نہیں ناچا"

" تب تو تم خوش نہیں تھے" احتشام روانی میں بول گیا جبران ایک پل کو خاموش ہوا پھر بولا۔۔۔

" خوش تو میں اب بھی نہیں ہوں" احتشام اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔۔

گھر آگیا تھا وہ لوگ گاڑی سے اترے اور اندر چلے گئے۔۔۔۔

                               -----

شام میں احتشام نے مرال کو فون کیا مرال کا بلکل دل نہیں تھا بات کرنے کا پر..... اس نے فون رسیو کیا۔۔۔

" ہیلو"

" کیسی ہیں آپ؟؟؟"

" اللٰہ کا شکر"

" کیا ہو رہا ہے" اس نے پوچھا۔۔۔

" کچھ خاص نہیں" مرال کا وہی مختصر جواب۔۔۔

" مرال آپ کیا مجھ سے بات کرنے میں انٹرسٹڈ نہیں ہیں؟؟؟" ایک دل چاہا "کہہ دے ہاں نہیں ہوں" پھر بولی۔۔۔

" نہیں ایسی کوئی بات نہیں"

" تو پھر چپ کیوں ہیں"

" آپ نے کب مجھے زیادہ بولتے دیکھا ہے"

" ہاں نہیں دیکھا پر خاموش بھی تو نہیں رہتیں آپ"

" کیا آپ کو میرا فون کرنا اچھا نہیں لگا؟؟؟"

" دیکھیں احتشام میرا اور آپ کا ابھی کوئی رشتہ نہیں ہے تو مجھے فون کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔۔۔ مجھے نہیں پسند۔۔۔۔" وہ بیزاری سے بولی۔۔۔

" آل رائیٹ۔۔۔۔ مرال آپ مجھے بتا دیں آپ کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں"

" مجھے نہیں پتا"

" میں نہیں پسند؟؟؟" اس نے پوچھا مرال خاموش ہو گئی۔۔۔۔

احتشام مسکرایا دل میں چبھن سی فیل ہوئی۔۔۔

" اوکے کبھی نہ کبھی کیا پتا آ ہی جاؤں پسند.....

 اوکے پھر اللٰہ حافظ" اور فون رکھ دیا مرال کو برا تو لگا بٹ وہ اس کو کسی خوشگمانیوں میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔

                             -----

وہ لان میں بیٹھا مرال کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ جبران چلا آیا۔۔۔

" کیا ہوا؟؟؟" اس یوں کھوئے ہوئے دیکھ کر جبران نے پوچھا۔۔۔

" کچھ نہیں"

" پھر مجنوں جیسی شکل کیوں بنائی ہوئی ہے"

" ایسی تو بات نہیں ہے" وہ بولا۔۔۔

" تم بتا رہے ہو یا نہیں" اس نے زور دیا تب احتشام بولا۔۔۔

" یار کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہوتا ہے نا۔۔۔۔

 کاش۔۔۔۔۔ ہمارے پاس یہ اختیار ہوتا کہ ہم کسی کو اپنے آپ سے محبت کروا سکتے"

" ہمممم۔۔۔۔۔ سہی کہہ رہے ہو ایسا ہوتا تو کوئی کسی سے دور نہ ہوتا پر۔۔۔۔ یہ سب بس ہماری سوچ ہے۔۔۔۔

 ویسے کیا ہوا ہے تمہیں" جبران بولا۔۔

" کچھ نہیں بس سوچ رہا تھا"احتشام بولا۔۔۔

" ایسے نہ سوچو..... زندگی میں جو بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے" وہ خاموش ہو گیا پھر اپنا ذہن بٹانے کو بولا۔۔۔

" میں بھی کیا لے کے بیٹھ گیا چلو کہیں باہر چلیں"

" نہیں یار میں سوچ رہا ہوں اپنے گھر جاؤں"

" دیٹس گریٹ چلو چلیں پھر" وہ خوشی سے بولا اور اٹھا۔۔۔

" میں اکیلا جانا چاہتا ہوں احتشام" وہ بولا تو احتشم نے سر ہلایا۔۔۔

" اوکے جاؤ بیسٹ آف لک" وہ اٹھ گیا۔۔۔۔

                              -----

" مرال بیٹا یہ چیزیں اٹھا کے کیبنٹ میں رکھ دو" بڑی ماما بولیں۔۔۔

" اس لڑکی کو بس شروع شروع کا شوق ہوتا ہے کھانا بنانے کا بعد میں چھوڑ چھاڑ کے چلی جاتی ہے سارے مرد بھی آفس سے آتے ہی ہوں گے جلدی جلدی سمیٹ لیتے ہیں" وہ کام کرتے کرتے نشاء کو سنا بھی رہی تھیں مرال ہنوز مسکرا رہی تھی سارا کام سمیٹ کے وہ باہر آئی۔۔۔۔

" ماما آپ آرام کریں صبح سے کام میں لگی ہوئی ہیں میں لاؤنج سمیٹ دیتی ہوں"

' تم اکیلی یہ سب کیسے کرو گی صبح سے تم بھی کام کررہی ہو..... اس نشاء کو لگاؤ ساتھ "اس نے سر ہلایا اور رافعہ کو بھیجا۔۔۔۔ اور لاؤنج سمیٹنے لگی جو نشاء ارسہ سارہ نمیر زیان اور عزیر نے پھیلایا تھا نمیر زیان اور عزیر تو دوستوں میں چلے گئے تھے۔۔۔۔ ارسہ سارہ اپنی ٹیوشن نشاء اپنے روم میں۔۔۔۔

" اففففف..... اتنا پھیلاوا..... نشاء ادھر آؤ" وہ آوازیں دے رہی تھی اور لاؤنج سنبھال رہی تھی کہ وہ داخل ہوا۔۔۔۔

 اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہا پورے ساڑے تین سال بعد اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

 وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ پہلے بھی اتنی ہی خوبصورت تھی یا اب ہو گئی تھی وہ بے بی پنک کلر کے سوٹ میں اسے بہت خوبصورت لگی۔۔۔۔

مرال اس کی آمد سے بے خبر اپنے کام میں لگی ہوئی تھی جبران کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی کس کو کھو بیٹھا تھا وہ..... اپنی زندگی کو۔۔۔۔۔

مرال نے کام کرتے کرتے کسی احساس کے تحت دروازے کی طرف دیکھا اور شاکڈ رہ گئی۔۔۔

وہ شاکڈ سی اسے دیکھ رہی تھی اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو جیسے وہ آنکھیں بند کرے گی تو وہ غائب ہو جائے گا۔۔۔۔

وہ دو قدم آگے بڑھی وہ بھی آگے آیا مرال کی آنکھیں کب بھیگنا شروع ہوئیں معلوم نہ تھا۔۔۔

یہ وہ شخص تھا جس کا اس نے پل پل انتظار کیا تھا۔۔۔

 جس کی اتنی نفرت کے باوجود وہ اس اس سے محبت کرنے پر مجبور تھی۔۔۔۔ 

جو پتا نہیں کب سے اس کے دل کا روح کا مکین رہا تھا..... 

کیا وہ لوٹ آیا تھا جس کا اس نے ڈائیورس کے باوجود انتظار کیا تھا حالانکہ اب تو وہ نامحرم تھا.....

 وہ شخص زندگی سے گیا تھا دل سے نہیں.....

وہ اس کے پاس آئی اور جبران کی آنکھیں بھی نم تھیں مرال نے ہاتھ اس کے گال پہ رکھا جیسے اس کی موجودگی کا یقین کرنا چاہ رہی ہو۔۔۔۔

کیا وہ اب بھی اس سے اتنی محبت کرتی تھی.....کیا اب بھی..... اتنی زیادتیوں کے باوجود.....
اس نے اس کا لمس اپنے گال پہ محسوس کیا ایک ٹھنڈک سی دل میں اتری۔۔۔

" مرال" جبران نے پکارا مرال ہوش میں آئی اور ایک دم پیچھے ہوئی۔۔۔۔

" مرال میں..... میں" وہ بول ہی رہا تھا کہ نشاء آگئی بھائی کو اتنے سال بعد دیکھ کے اس کی حالت بھی مرال سے جدا نہ تھی جبران نے اسے دیکھا۔۔۔۔

" گڑیا میں....." وہ بولنے ہی لگا تھا کہ نشاء بھاگی اور رافعہ کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔

" مرال" وہ بولنے ہی لگا تھا کہ مرال بھی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

 نشاء کے ساتھ رافعہ باہر آئیں۔۔۔

" ماما..... ماما میں آگیا" وہ ان کی طرف بڑھا رافعہ نے کھینچ کے ایک تھپڑ اس کے منہ پہ مارا۔۔۔۔

" کاش یہ تھپڑ میں نے تمہیں بہت پہلے مارا ہوتا جبران تو آج یہ سب نہ ہوتا..... کیوں اپنی منحوس شکل لے کر آئے ہو کیا دیکھنے آئے ہو تم"

" جہاں سے آئے ہو وہیں چلے جاؤ..... ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے....." وہ غصے سے بولیں۔۔۔ 

" نہیں ماما میں.. میں جانے کے لیے نہیں آیامیں....." 

" دیکھ لیا تم نے ہمیں..... ہم سب زندہ ہیں اور تمہارے بغیر خوش بھی اب چلے جاؤ" شور کی آواز سن کے اسمہ بھی آگئیں۔۔۔

" چاچی..... چاچی پلیز معاف کردیں چاچی مجھے....." وہ ان کے پاس چلا آیا انہوں نے بھی رخ پھیر لیا۔۔۔۔

" کیوں آئے ہو..... میری بچی کی پوری زندگی تباہ کردی تم نے اب معافی مانگنے آئے ہو جاؤ چلے جاؤ یہاں سے"

" میں ٹھیک کردوں گا سب..... میں"

" کیا کرو گے بتاؤ کیا کرو گے تم طلاق کے بعد اور اب کیا کرو گے"

" جاؤ چلے جاؤ" انہوں نے اسے دھکہ دیا پر وہ ایک مضبوط آدمی تھا وہ ایک انچ نہ ہلا۔۔۔

وہ خود بھی بہت رو رہا تھا حد سے زیادہ شرمندہ تھا۔۔۔

بہت بڑی غلطی کر چکا تھا وہ دل پہ ایک بوجھ سا تھا جو کوئی اسے معاف نہ کررہا تھا وہ رو رہا تھا گڑگڑا رہا تھا۔۔۔

کیا اس کی غلطی ناقابلِ معافی تھی.....؟؟

ہاں تھی..... وہ کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا اپنی غلطی کا..... وہ پچھتا رہا تھا اپنے کیے پر۔۔۔۔

اتنے میں سب مرد حضرات بھی چلے آئے جبران کو یوں رافعہ اسمہ کے قدموں میں گرا روتا دیکھ کر سب شاکڈ تھے۔۔۔۔

جاری ہے ____

جاری ہے___

: #روح_کا_مکین

#از_بینا_خان

#قسط_نمبر_16

"تم...." ابتہاج صاحب آگے آئے اور اس کا گریبان پکڑا۔۔۔

" بابا..." انہوں نے ایک تھپڑ اسے کھینچ مارا۔۔

" خبردار۔۔۔ خبردار جو تم نے اپنی گندی زبان سے میرا نام لیا۔۔۔ دفع ہو جاو وہیں جہاں سے آئے ہو۔۔۔۔"

" بابا میں شرمندہ ہوں میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔۔۔"وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔۔

" چاچو آپ....." وہ وہاج کی طرف بڑھا۔۔۔۔" 

چاچو معاف کردیں مجھے میں آپ لوگوں کا گنہگار ہوں۔۔۔" وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا تھا۔۔۔۔" 

چاچو بابا کو کہیں نا مجھ سے بات کرلیں۔۔۔"

" معاف کردیں۔۔۔" وہ بے تحاشا رو رہا تھا معافیاں مانگ رہا تھا گڑگڑا رہا تھا۔۔۔۔

 پر اب اس کی کوئی سننے والا نہیں تھا بابا وہاج نے بھی منہ موڑ لیا تھا۔۔۔

" جبران چلے جاو۔۔۔ جاو خدارا چلے جاو۔۔۔ سمجھو ہم مر گئے تمہارے لیے۔۔۔۔" رافعہ روتے ہوئے بولیں۔۔۔

" نمیر زیان نشاء تم۔۔۔۔ تم بولو نا پلیز کہ مجھے معاف کردیں میں آئیندہ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔۔۔ ایک موقع پلیز۔۔۔۔ ایک موقع" وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہاتھ جوڑے معافیاں مانگ رہا تھا گڑگڑا رہا تھا۔۔۔

" بہت بول لیا تم نے اور بہت سن لی ہم نے اب دفع ہو جاو۔۔۔۔ ورنہ دھکے مار کے باہر نکال دوں گا" ابتہاج بولے۔۔۔۔

" چاچو معاف کردیں چاچو" وہ پھر اٹھ کے وہاج کے پاس آیا۔۔۔۔

" جبران چلے جاو..... تمہاری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے" وہاج بولے۔۔۔ 

" چاچو۔۔۔۔"

" یہ ایسے نہیں مانے گا" ابتہاج آگے بڑھے اور اس کو بازو سے زور سختی سے پکڑ کے اٹھایا اور کھینچتے ہوئے گیٹ تک لے کر گئے۔۔۔ اور باہر دھکہ دے کے دروازہ بند کردیا۔۔۔۔

مرال نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب دیکھا وہ رو رہی تھی سب کو روکنا چاہتی تھی۔۔۔۔ اسے روکنا چاہتی تھی پر وہ اب کچھ نہیں کرسکتی تھی سوائے رونے کے۔۔۔۔

                    -----

" جبران کہاں ہے بیٹا شام میں بھی نظر نہیں آیا اور اب ڈنر پہ بھی نہیں ہے"  ببا نے پوچھا۔۔۔

" بابا میں بھی کب سے اس کے سیل پہ کال کررہا ہوں اٹھا ہی نہیں رہا ہے"

" بچہ نہیں ہے حیدر وہ جو آپ اتنی فکر کر رہے ہیں بہت سالوں بعد پاکستان آیا ہے دوستوں میں چلا گیا ہو گا" ماما بولی۔۔۔

" ہمممم ہو سکتا ہے۔۔۔" وہ پرسوچ انداز میں بولے۔۔۔۔

" احتشام تم بھی پریشان نہ ہو کھانا کھالو آجائے گا وہ۔۔۔۔" اس نے سر ہلایا اور کھانا کھانے لگا پر پتا نہیں کیوں اسے کچھ گڑبڑ لگ رہی تھی اس نے ماما بابا کو نہیں بتایا تھا کہ وہ اپنے گھر گیا ہے اور وہ باہر کیوں رہ رہا تھا اتنے سال۔۔۔۔

                             -----

جبران وہیں کھڑا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا پر کسی نے نہیں کھولا وہ مایوس ہو کے پلٹ گیا بہت دیر تک سڑکوں پہ گاڑیاں دوڑاتا رہا۔۔۔۔۔

کیا اس کا گناہ اتنا ناقابلِ معافی ہو گیا تھا کہ لوٹ کر آنے کی ساری راہیں مسدود ہو گئی تھیں۔۔۔۔

ہاں اس نے کی تھی غلطی۔۔۔۔ پر انسان تو خطا کا پتلا ہے نا۔۔۔۔ خطائیں تو سب سے ہوتی رہتی ہیں۔۔۔۔ جب اللٰہ معاف کردیتا ہے تو انسان کیوں نہیں معاف کرتے۔۔۔۔

 وہ مانتا ہے اس سے گناہ ہوا تھا۔۔۔۔ اس کو یقین تھا اللٰہ اسے معاف کردے گا۔۔۔۔ اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ اس کے گھر والے بھی اس سے راضی ہو جائیں گے۔۔۔۔۔

اس کے دل میں جو بوجھ تھا وہ دوگنا ہو گیا تھا اس نے سب کا دل دکھایا تھا۔۔۔۔

دیکھا جائے تو اپنی طرف سے اس کی سوچ غلط نہ تھی۔۔۔۔۔ ہر ایک کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اور اپنا آئیڈیل بنانے کا حق ہے۔۔۔۔۔ وہ بھی اسی آئیڈیلزم کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔۔۔

ہاں اس کا طریقہ کار غلط تھا۔۔۔۔ مرال کے ساتھ۔۔۔۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ۔۔۔۔ اپنے ساتھ۔۔۔ اس نے غلط کیا تھا۔۔۔ مرال کے ساتھ تو اس نے بے حد غلط کیا۔۔۔۔

 اسے پل پل اذیت دی۔۔۔۔ پل پل تکلیف دی۔۔۔۔ لیکن وہ پھر بھی کچھ نہ بولی۔۔۔۔ 

اس کی بیماری میں اس کی دیکھ بھال کی۔۔۔۔ اس کا خیال رکھا۔۔۔ اسے پیار دیا مان دیا عزت دی پر اس نے کیا کیا۔۔۔۔

لیکن اب وہ کچھ غلط نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ مرال سے بےحد و بے حساب محبت کرنے لگا تھا۔۔۔

 اتنی کہ کب مرال کی محبت اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی۔۔۔۔ اسے پتا ہی نہ چلا۔۔۔۔ اور جب پتا لگا تو بہت دیر ہو گئی تھی۔۔۔۔۔

آج بھی تو کتنی محبت تھی اس کی آنکھوں میں۔۔۔۔ اس کے ہاتھوں کا لمس۔۔۔۔ جبران نے اپنے گال کو ہاتھ سے چھوا۔۔۔۔

گاڑی ایک سائڈ پہ روک دی۔۔۔ گھٹن بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ گاڑی سے نکلا۔۔۔ اور کھلی ہوا میں سانس لینے لگا۔۔۔ پر گھٹن تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی وہ بےبس تھا۔۔۔۔

                               -----
گیارہ بجے کے قریب جبران گھر میں داخل ہوا۔۔۔ اپنے کمرے میں آیا ہی تھا کہ احتشام چلا آیا۔۔۔

" کہاں تھے تم جبران۔۔۔۔ گیارہ بج رہے ہیں میں تمہارا کب سے ویٹ کررہا تھا۔۔۔" احتشام پریشانی سے بولا وہ خاموشی سے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔۔۔

" جبران کیا ہوا..... سب ٹھیک تو ہے نا؟؟؟"

" جبران" وہ بہت دیر تک کچھ نہ بولا تو اس نے اس کا کندھا ہلایا اور جبران اس کے گلے لگ کے بے تحاشا رونے لگا۔۔۔۔

" جبران۔۔۔۔ جبران کیا ہوا ہے۔۔۔۔ بی اسٹرونگ یار"

" بابا میری شکل دیکھنا نہیں چاہتے۔۔۔ کوئی مجھے دیکھنا نہیں چاہتا احتشام۔۔۔ میں۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں مر رہا ہوں احتشام۔۔۔۔ میں مجھے۔۔۔۔ مجھے جانا ہے اپنے گھر" وہ اٹھا۔۔۔۔

" جبران۔۔۔۔ جبران ہوش کرو۔۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو ہمت کرو۔۔۔" اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کے روکا۔۔۔۔

" وہ میرے سامنے تھی احتشام۔۔۔۔۔ وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔ وہ اب بھی مجھے چاہتی ہے۔۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے۔۔۔۔ وہ خوش تھی میرے آنے سے احتشام وہ۔۔۔"

وہ روتے روتے مسکرایا وہ کسی بچے کی طرح بی ہیو کررہا تھا۔۔۔۔

" اگر وہ تم سے پیار کرتی ہے۔۔۔ تو ہمت کیوں ہار رہے ہو کیوں اس طرح رورہے ہو بتاؤ۔۔۔" احتشام اسے سمجھانے لگا۔۔۔

" جب تمہیں یہ تسلی ہے کہ۔۔۔ وہ تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔ تو پھر یہ مایوسی کیوں۔۔۔ شکر کرو اس پاک ذات کا جبران کہ تمہاری نفرت کے باوجود بھی وہ تم سے محبت کرتی تھی۔۔۔۔ تم چلے گئے تب بھی تم سے محبت کی اس نے۔۔۔۔ اور اب جب تم آگئے ہو تب بھی وہ تم سے ہی محبت کرتی ہے۔۔۔"

" جبران ہمت نہ ہارو۔۔۔ ایک بار نہیں بار بار جاؤ۔۔۔ انہیں مناؤ۔۔۔ تمہیں پتا ہے صرف سچے دل سے کیا گیا کام ہی دل پہ جمی برف کو پگھلا سکتا ہے۔۔۔" جبران نے سر ہلایا۔۔۔

" ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔۔۔۔ مجھے یقین ہے میرے اللٰہ پر جس نے مجھے واپسی کا رستہ دکھایا ہے وہ ہی دل کا رستہ بھی دکھائے گا"

" احتشام میں کل پھر جاؤ گا گھر۔۔۔"

" ہاں میرے بھائی تو جانا ضرور جانا۔۔۔۔ اب چلو آرام کرو تم" وہ کہہ کر اٹھ گیا وہ دل سے جبران کے لیے دعاگو تھا

                  -----

" حیدر ابھی بھی وقت ہے نا کردیں اس رشتے کو۔۔۔ مجھے نہیں پسند یہ رشتہ۔۔۔ میری اکلوتی اولاد سیکنڈ ہینڈ یوز نہیں کرے گی۔۔۔ مجھے یہ گوارا نہیں اور۔۔۔ اور لوگ کیا کہیں گے۔۔۔۔" حیدر صاحب سونے کے لیے لیٹے تو ضوباریہ بولیں۔۔۔۔

" اوہ پلیز ضوباریہ تمہیں اپنی اولاد کی خوشی دیکھنی چاہیے۔۔۔۔ زندگی اس نے گزارنی ہے ہم نے نہیں۔۔۔۔ اور لوگوں کی بات تو چھوڑ ہی دو۔۔۔ لوگ دو چار دن بولیں گے اور خاموش ہو جائیں گے۔۔۔۔"

" آپ کے لیے کہنا آسان ہے آپ تو آفس چلے جائیں گے۔۔۔۔ سب کو فیس تو مجھے ہی کرنا ہوگا۔۔۔۔ اچھا خاصا مسز بجوہ نے اپنی بیٹی کا پرپوزل دیا تھا"

" کیوں تم کیوں فیس کرو گی احتشام ہے نا سب کو فیس کرنے کے لیے۔۔۔۔ اور رہی آفس کی بات تو میں اگر آفس چلا جاتا ہوں تو تم بھی تو گھر میں نہیں ہوتیں تمہاری اپنی سوشل ایکٹیویٹیز ہیں۔۔۔۔ اور اگر انہوں نے رشتہ دیا تھا تو ایکسیپٹ اور ریجیکٹ کرنا ہمارا مسئلہ ہے نہیں کیا ریجیکٹ ہماری مرضی"

" چھوڑیں آپ باپ بیٹا تو پاگل ہو گئے ہیں" وہ کروٹ بدل کے لیٹ گئیں جو کرنا ہے انہوں نے ہی کرنا ہے۔۔۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔



#روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞
Episode  17

جبران دو تین دن سے لگاتار آتا رہا۔۔۔ اور گھر سے نکالا جاتا رہا۔۔۔ مرال کو بے حد تکلیف ہوتی اسے اس حالت میں دیکھ کر۔۔۔

آج بھی جب ابتہاج صاحب نے اسے بہت کچھ سنا کے دروازے سے واپس بھیجا تو۔۔۔  مرال سے برداشت نہ ہوا اور اس نے بابا سے بات کرنے کا سوچا۔۔۔ 

رات کے کھانے کے بعد وہ اسٹڈی روم میں آئی ابتہاج صاحب ایک کتاب کی ورق گردانی کررہی تھے۔۔۔

" بابا آپ بزی ہیں؟؟؟" بابا نے نظر اٹھا کے دیکھا۔۔۔

" ارے آؤ بیٹا کیا بات ہے" انہوں نے کتاب بند کر کے سائڈ پہ رکھی اور اس کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔

" بڑے بابا یہ بات میں نے بابا سے بھی کی ہے وہ بھی ایگری ہیں کہ۔۔۔۔" وہ رکی۔۔۔

" جی بیٹا آپ کہیں"

" بابا آپ..... آپ جبران کو معاف کردیں" وہ بولی بابا نے ایک گہری سانس لی۔۔۔

" وجہ پوچھ سکتا ہوں؟؟؟"

" بابا وہ اس گھر کے بڑے بیٹے ہیں آپ۔۔۔" وہ بولنے لگی تو بابا بولے۔۔۔

" اس گھر کی بڑی بیٹی تم ہو میرو۔۔۔۔ میں کسی جبران کو نہیں جانتا۔۔۔۔ اگر تم نے وہاج سے بات کرلی ہے۔۔۔ اور وہ ایگری ہے۔۔۔ جبران کو واپس لانے کے لیے تو میں ایگری نہیں ہوں۔۔۔۔ اس کی غلطی ناقابلِ معافی ہے"

" پلیز بابا ان کی غلطی معاف بھی تو ہو سکتی ہے"

" یہ آپ کہہ رہی ہو بیٹا۔۔۔۔ اس نے آپ کی زندگی برباد کردی۔۔۔ اس سب معاملے میں سب سے زیادہ نقصان آپ کا ہوا۔۔۔ اور تب بھی آپ اسے معاف کرنے کا کہہ رہی ہیں"

" اگر میں یہ کہوں کہ میں انہیں معاف کرچکی ہوں تو....." بابا خاموش ہو گئے۔۔۔۔

" بابا پلیز..... پلیز اب کے وہ آئیں تو واپس نہ بھیجیے گا"اس نے ہاتھ جوڑ دیے بابا نے اس کے ہاتھ تھامیں اور اس کا ماتھا چوما۔۔۔

" جیسا آپ کہیں بیٹے" بابا نے کہا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔۔

" تھینک یو بابا"

                                -----

رات کو مرال سونے کے لیے لیٹی تو جبران کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔

 اس نے بابا سے بات کرلی تھی۔۔۔ سب کو ایگری کرلیا تھا پر۔۔۔ وہ کیسے اس کے سامنے جائے گی۔۔۔

 جسے دیکھتے ہی وہ بےخود ہو جاتی ہے۔۔۔ جس کے سامنے وہ اپنی محبت پہ پردہ نہیں ڈال سکتی۔۔۔۔

 اور اگر محبت چھپانا چاہے بھی تب بھی نہیں کرسکتی وہ کیا کرے؟؟

" نہیں۔۔۔ میں ایسا نہیں کرسکتی۔۔۔ کچھ دنوں میں میری شادی ہو جائے گی۔۔۔ اور اگر تب یہ ہوا تو۔۔۔۔

 نہیں نہیں..... مجھے اسے خود سے دور کرنا ہو گا یہ میرے لیے بھی اچھا ہے۔۔۔ اور اس کے لیے بھی۔۔۔۔

 سب سے پہلے مجھے اسے اس کی یادوں کو بھلانا ہوگا" وہ سوچ چکی تھی۔۔۔۔

                               -----

وہ آج اپنے آفس آیا تھا۔۔۔

 پورے چار سال بعد سب کچھ بدل چکا تھا۔۔۔

 وہ اپنے آفس روم کی طرف بڑھا شیشے کے دروازے سے دیکھا آفس خالی تھا اس کے دل کی طرح وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ۔۔۔۔

 اس نے دیکھا مرال ایک فائل کی اسٹڈی کرتے کرتے مصروف سے انداز میں اس کی چئیر پہ آکے بیٹھی۔۔۔۔

جبران کو خوشگوار سی حیرت ہوئی۔۔۔ آفس ک حصہ جو اسے خالی اور ویران لگ رہا تھا۔۔۔ وہ ہرا بھرا محسوس ہوا۔۔۔ پیچ کلر کے سوٹ میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی سر پہ سلیقے سے دپٹہ لیے وہ بہت باوقار عورت لگ رہی تھی۔۔۔

اسے دیکھ کر جبران کو فخر سا محسوس ہوا۔۔۔۔

کیا یہ اس کی مرال تھی.....؟؟؟؟

وہ سوچ کے رہ گیا وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے آگے بڑھا۔۔۔۔

دروازہ نوک ہونے پہ مرال نے سر اٹھایا اور دیکھتی رہ گئی جبران کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔

" آپ....."

" ہاں میں....." وہ مسکرایا اور آگے بڑھا۔۔۔

" بہت خوشی ہوئی تمہیں یوں دیکھ کر۔۔۔۔ میں بتا نہیں سکتا تمہیں میں۔۔۔"

" مجھے کامیاب دیکھ کر۔۔۔" اس نے عجیب انداز میں کہا۔۔۔۔

" ہاں اور۔۔۔۔" وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ وہ بولی۔۔۔۔

" آپ سوچ رہے ہوں گے یہ دبو سی مرال کیسے کامیاب ہو گئی۔۔۔۔ جو آپ کے بقول صرف گھر کی چاردیواری میں ہی رہتی تھی۔۔۔

 جو لوزر تھی۔۔۔ جس نے پڑھ لکھ کے سب گنوا دیا تھا۔۔۔ وہ یہاں اس سیٹ پہ کیسے۔۔۔" مرال پہلی بار اس سے یوں بات کررہی تھی۔۔۔ آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔۔۔۔

" نہیں مرال میں....."

" پتا ہے اس کا کریڈٹ میں آپ کو دیتی ہوں۔۔۔ جس نے مجھے چھوڑ کے مجھے یہ بتایا کہ۔۔۔ مجھ میں بھی کوئی ٹیلنٹ ہے۔۔۔ تھینکس ٹو یو جبران"

" مرال میں اپنے کیے پہ شرمندہ ہوں۔۔۔۔ معافی چاہتا ہوں تم سے۔۔۔۔ پلیز معاف کردو"

" ناراض تو کبھی تھی ہی نہیں آپ سے جبران۔۔۔۔ کبھی ہو ہی نہیں سکی۔۔۔۔ تب بھی نہیں جب آپ مجھے چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔ 

اور اب بھی نہیں جب آپ آچکے ہو۔۔۔۔ بس دل ویران سا ہو گیا ہے۔۔۔۔ اب کوئی آئے جائے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔" جبران کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔۔

" میں بھی نہیں"

" نہیں" مرال نے دل پہ پتھر رکھ کے کہا۔۔۔۔

" تم تو محبت کرتی تھیں مجھ سے؟؟؟"

" کرتی تھی۔۔۔۔ پر اپنے شوہر سے۔۔۔۔ آپ سے نہیں" جبران کے دل میں ایک درد کی لہر اٹھی۔۔۔

" میرا شوہر مجھے چھوڑ چکا ہے۔۔۔۔ اور میں اپنے شوہر کو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میری ڈائیورس ہو گئی ہے"

جبران خاموش ہو گیا۔۔۔۔ ایک احساسِ ندامت احساسِ جرم دل میں بھر گیا تھا۔۔۔۔

 وہ الٹے قدموں واپس چلا گیا۔۔۔۔ مرال اس کے جانے کے بعد پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔۔۔

                              -----

جبران جب دوبارہ گھر آیا تو اسے گھر میں جگہ تو دے دی گئی تھی مگر دل میں نہیں۔۔۔۔

وہ احتشام کے گھر سامان لینے گیا۔۔۔ وہ خوش تھا اس کے لیے۔۔۔ اتنا بھی بہت تھا کہ اسے گھر میں جگہ مل گئی ہے۔۔۔ اب اسے دلوں میں جگہ بنانی تھی۔۔۔

وہ گھر میں انٹر ہوا تو احتشام اسے پورچ میں ہی دکھ گیا وہ کہیں جا رہا تھا وہ وہیں چلا آیا۔۔۔

" کیا بات ہے بھائی.....  بڑے خوش دکھ رہے ہو"

" ہاں میں آج بہت بہت خوش ہوں۔۔۔۔ پتا ہے بابا نے مجھے واپس گھر آنے کی اجازت دے دی ہے" وہ خوشی سے بولا۔۔۔۔

" اوہ دیٹس گریٹ یار کونگریچولیشنز میرے دوست"

" تھینک یو یار اچھا میں بس اپنا سامان لینے آیا ہوں" وہ پلٹتے ہوئے بتانے لگا۔۔۔

" ابھی جا رہے ہو..... کل چلے جانا"

"نہیں اب انتظار نہیں ہوتا میں جاتا ہوں" تیزی سے گھر کے اندر جانے لگا احتشام ہنس دیا وہ خوش تھا اسے خوش دیکھ کر۔۔۔

                    -----

وہ گھر آچکا تھا۔۔۔۔

 اپنے کمرے میں داخل ہوا تو پہلا خیال مرال کا آیا۔۔۔

 وہ اندر آیا اور اس جگہ آیا جہاں مرال سوتی تھی۔۔۔

 پھر ڈریسنگ کی طرف جہاں مرال تیار ہوتی تھی۔۔۔۔

 پھر وارڈروب کی طرف بڑھا۔۔۔۔ اور اسے کھولا وہ آج بھی اسی سلیقے سے سیٹ تھی۔۔۔۔ جس طرح مرال کرتی تھی۔۔۔۔ 

بس تبدیلی یہ تھی کہ اب یہاں مرال کا سامان نہیں تھا۔۔۔ مرال نہں تھی اور یہی تبدیلی سب سے اذیت ناک تبدیلی تھی۔۔۔

 اس نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور اپنا سامان رکھنے لگا۔۔۔

 اپنا سامان رکھنے کے بعد س نے کمرے کا جائزہ لیا۔۔۔

 یہ تو اب بھی خالی اور بے رنگ تھا اس کی زندگی کی طرح رنگ تو مرال کے دم سے تھے۔۔۔

                             -----

اگلے دن اسے گھر میں ایک ہل چل سی محسوس ہوئی وہ لاؤنج میں چلا آیا۔۔۔

اسمہ رافعہ نشاء کچھ ڈریسز اور جیولری دیکھ رہی تھی۔۔۔ شاپنگ سے تو شادی کی شاپنگ لگ رہی تھی۔۔۔

" ماما یہ میرو پہ اچھا لگے گا نا" نشاء ایک نیکلس کو اٹھا کے بولی۔۔۔۔

" ہاں بہت۔۔۔۔" رافعہ مسکرائیں

" چاچی کچھ کھانے کے لیے لائیں میرے لیے یا نہیں" وہ لوگ اسے نظرانداز کیے اپنی باتوں میں لگے تھے۔۔۔۔

" نشاء تم نے ابھی تک بے تکا کھانا نہیں چھوڑا موٹی چھوڑ دو اب " اسمہ کچھ بولتیں کہ جبران بولا نشاء یک دم سنجیدہ ہوئی۔۔۔۔

" ہاں نہیں چھوڑا۔۔۔۔ آپ نے چھوڑ دیا یہ ہی کافی تھا میرے لیے۔۔۔" اور اٹھ گئی جبران چپ ہوا سب کی ناراضگی سہنا بہت مشکل تھا۔۔۔

 اس کے لیے پر۔۔۔ وہ سب ٹھیک کر لے گا اس نے ہمت کی اور پھر اسمہ اور رافعہ سے پوچھا۔۔۔۔

" یہ شاپنگ.....؟؟؟؟" نشاء جاتے جاتے پلٹی

" مرال کی شادی ہے اسی کی شاپنگ ہے" اور کہہ کر چلی گئی جبران سکتے میں آگیا تھا۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
: #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_18💞

اسے لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کی ہو اس نے پھر پوچھا۔۔

" کس کی شادی۔۔۔۔۔ ماما یہ کس کی شادی کی بات کررہی ہے؟؟؟"

" سنا نہیں تم نے مرال کی شادی ہے" اور کہہ کر اٹھ گئیں اسمہ بھی چلی گئیں وہ لؤنج میں سن سا بیٹھا رہ گیا۔۔۔

"مرال کی شادی۔۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے وہ تو۔۔۔۔ وہ تو مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔ تو شادی کسی اور سے کیوں کررہی ہے۔۔۔۔" اس کا دل ماننے سے انکاری تھا۔۔۔۔ 

وہ اٹھ کے اپنے کمرے میں آگیا۔۔۔۔ یہ ہی سوچ سوچ کے اس کا دماغ سن ہو گیا تھا۔۔۔۔ کہ وہ اس سے دور چلی جائے گی۔۔۔۔۔

" نہیں ایسا۔۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ وہ صرف میری ہے۔۔۔ میں کیسے اس خود سے دور کردوں۔۔۔۔ مجھے بات کرنی چاہیے اس سے۔۔۔۔" 

وہ سوچ کے اٹھا اور اس کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔۔ پھر یاد آیا کہ اس ٹائم تو وہ آفس میں ہوگی۔۔۔

وہ واپس اپنے کمرے میں گیا گاڑی کی چابی اٹھائی۔۔۔ اور آفس کے لیے وہ نکلا ریش ڈرائیونگ کر رہا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کا دو بار ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔۔۔۔ 

وہ آفس پہنچا تو مرال آفس روم میں نہ تھی۔۔۔۔ اس نے پوچھا تو پتا چلا وہ میٹنگ روم میں ہے۔۔۔۔ وہ میٹنگ روم کی طرف بڑھا۔۔۔۔

مرال میٹنگ میں مصروف تھی۔۔۔ آج ابتہاج اور وہاج آؤٹ آف سٹی تھے۔۔۔۔ 

وہ ایزیلی بات کرسکتا تھا۔۔۔ اس وقت وہ بہت غصے میں تھا۔۔۔ اس کا دماغ پھٹ رہا تھا۔۔۔ دل کی حالت تو ویسے ہی غیر تھی۔۔۔

 ڈور تھوڑا سا کھولا تو دیکھا مرال میٹنگ میں مصروف تھی۔۔۔۔۔ گرین کلر کے ڈریس میں وہ بہت ایٹریکٹو لگ رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔۔۔۔ وہ بہت اچھے طریقے سے میٹنگ ہینڈل کررہی تھی۔۔۔۔

 وہ اسے دیکھنے لگا اس کی اس خوبی سے تو وہ نا واقف تھا۔۔۔۔ وہ اس کی ہر ہر ادا پہ فدا ہورہا تھا۔۔۔۔ اس کے بولنے کا انداز۔۔۔ اس کے دیکھنے کا انداز۔۔۔ اس کی پلکیں جھکانے اٹھانے کا انداز۔۔۔۔ اسے بے حد اچھا لگ رہا تھا۔۔۔

 اگر پوری زندگی مرال یونہی کھڑی رہتی تو وہ بھی ساری زندگی ایسے ہی اسے دیکھنے کے لیے کھڑا رہتا۔۔۔۔ بس وہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہتی بس اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔

مرال کی نظر اچانک اس پہ گئی وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وہ ایک پل کے لیے رکی پھر نگاہوں کا زاویہ موڑ کے دوبارہ شروع ہوگئی۔۔۔۔

 جبران اس کی اس ادا پہ مسکرایا۔۔۔۔ اور ڈھیٹوں کی طرح اسے دیکھتا ہی رہا۔۔۔۔ جب تک میٹنگ نہیں ہوئی۔۔۔ وہ اسے اگنور کرتی رہی۔۔۔۔ اسے پتا تھا وہ اسے ہی دیکھ رہا ہے۔۔۔ پر وہ تب بھی نظر انداز کرتی رہی۔۔۔

میٹنگ ختم ہونے کے بعد جب سب روم سے نکل گئے تو مرال بھی جانے لگی۔۔۔۔ تو جبران نے راستہ روک لیا وہ سائڈ سے ہو کے جانے لگی اس نے پھر راستہ روک لیا وہ ناگواری سے بولی۔۔۔۔

" پلیز مجھے راستہ دیں"

" نہ دوں تو....؟؟"

" جبران یہ گھر نہیں ہے جو آپ اس قسم کی حرکتیں کررہے ہیں آفس ہے۔۔ راستہ دیں مجھے۔۔۔" وہ سختی سے بولی۔۔۔

" اوہ یعنی گھر پہ مجھے اس قسم کی حرکتوں کی اجازت ہے " وہ مسکرایا۔۔۔۔

" اب آپ کو کسی چیز کی اجازت نہیں ہے جبران سو پلیز"

" چھوڑو ان سب باتوں کو بات کرنی ہے مجھے تم سے" وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے اندر لے آیا وہ چیخی۔۔۔۔

" ہاؤڈئیر یو جبران"

" کہا ہے نا بات کرنی ہے تم سے"

" اور اگر میں نا کروں تو۔۔۔"

" تو نہ کرو پر میں تو کروں گا" وہ بھی ضدی تھا وہ بیزاری سے رخ پھیر گئی۔۔۔

" اففففف بالکل بیوی لگتی ہو ایسے روٹھتی ہوئی"

" میں آپ کی بیوی نہیں ہوں۔۔۔۔۔ میں آپ کی بیوی تھی۔۔۔۔۔" اس نے یاد دلایا۔۔۔" تھی" بولنے میں مرال کو بھی تکلیف ہوئی۔۔۔۔ 

جبران خاموش ہوا۔۔

" میری شادی ہونے والی ہے جبران۔۔۔۔ میں آپ کی نہیں ہوں مجھ تک آنے میں بہت دیر کردی آپ نے۔۔۔۔" آنکھوں میں نمی اتری بولنا مشکل ہوا "

 اور.. میں نے آپ جیسا بننے میں"

" وقت بدل چکا ہے جبران۔۔۔۔ سب بدل گیاسب.۔۔۔۔ یہ مرال آپ کو پسند آرہی ہے نا" اس نے اپنی طرف شارہ کیا " 

یہ مرال اندر سے کھوکھلی ہے۔۔۔۔ کچھ رہا ہی نہیں اس میں۔۔۔۔ کب کی مرچکی مرال تو تین سال ہوگئے اسے مرے ہوئے۔۔۔  آپ اب آئے ہو۔۔۔" آنسو تواتر سے گالوں پہ بہہ رہے تھے۔۔۔ جبران خاموش تھا کہتا بھی کیا کچھ تھا ہی نہیں کہنے کو۔۔۔

" اس مرال نے بہت سسک سسک کے اپنی سانسیں لیں تھیں۔۔۔۔ اپنے شوہر کا پل پل انتظار کیا تھااس نے۔۔۔۔ اس نے آنے میں ہی اتنی دیر کردی۔۔۔ اور آیا تو جب جب کوئی رشتہ باقی ہی نہیں بچا تھا۔۔۔ جب وہ مر گئی تھی۔۔۔۔"

" مرال ایسے مت کہو پلیز مرال۔۔۔ تم میری زندگی ہو مرال میری جان۔۔۔" اس نے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالوں میں لیا۔۔۔" میں مانتا ہوں میں نے تمہیں بہت تکلیف دی۔۔۔۔ اپنی موجودگی میں بھی۔۔۔ اور غیر موجودگی میں بھی۔۔۔

 میں زالہ کرنے کے لیے تیار ہوں مرال۔۔۔۔ میں کروں گا ازالہ بٹ مرال مجھے چھوڑ کے مت جاؤ مرال۔۔۔۔ تم گئیں تو ٹھیک سے مر بھی نہیں پاؤں گا۔۔۔۔ مرال مجھ سے دور مت جاؤ مرال۔۔۔" وہ گڑگڑا رہا تھا اس کے سامنے مرال نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اس سے دور ہوئی۔۔۔۔

" کیا ازالہ کرو گے اب۔۔۔۔ سب ختم جبران حقیقت کو تسلیم کریں۔۔۔۔ میں آپ سے بہت دور جا چکی ہوں۔۔۔" وہ جانے لگی۔۔۔۔

" پلیز۔۔۔۔ مجھ سے دور رہیں جبران۔۔۔۔۔ اور میری بات مانیں تو آپ بھی شادی کرلیں اور نئے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات کریں"

" یہ ممکن نہیں"

" سب ممکن ہے جبران "

" پھر تم کیوں نہیں"

" بہت دیر ہوگئی جبران" اور کہہ کر چلی گئی۔۔۔۔

----------------------

" کہاں ہو میرے دوست۔۔۔۔ تم تو گم ہی ہوگئے ہو۔۔۔ تین دن سے نظر ہی نہیں آرہے۔۔۔" 

وہ اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹا تھا کہ احتشام کی کال آئی اس نے رسیو کی تو وہ فوراً بولا

" کچھ نہیں بس طبیعت نہیں ٹھیک "

" کیا ہوا ہے جبران سب ٹھیک تو ہے"

" احتشام میں خالی ہاتھ رہ گیا میرے پاس کچھ نہیں بچا سب کھو دیا میں نے"

" جبران کیا ہوا ہے کیسی باتیں کررہے ہو" وہ فکرمند ہوا۔۔۔

" سہی کہہ رہا ہوں وہ۔۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ کے جا رہی ہے"

" جبران جبران ریلکس  سہی سے بتاؤ ہوا کیا ہے"

" اس کی شادی ہے احتشام۔۔۔۔ کیا میں نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے کہ اللٰہ مجھ سے اس قدر ناراض ہو گیا ہے۔۔۔۔ کہ وہ لڑکی جسے میں حد سے زیادہ چاہتا ہوں۔۔۔۔ وہ مجھ سے اسی قدر دور ہوتی جا رہی ہے"

" جبران ایسا نہیں ہے اللٰہ جو بھی کرے گا۔۔۔ تمہارے حق میں بہتر کرے گا۔۔۔

 تم پریشان نہ ہو اللٰہ پہ بھروسہ رکھو۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا وہ انشآاللٰہ صرف اور صرف تمہاری ہو گی دیکھنا تم" وہ اسے کافی دیر تک سمجھتا رہا تھا۔۔۔

مرال گھر آئی چہرہ ستا ہوا تھا۔۔۔ جبران کو اس طرح دیکھ کے اس کا دل پگھل رہا تھا۔۔۔۔ اسے جبران کا گڑگڑانا یاد آرہا تھا اس کے آنسو۔۔۔

اسمہ روم میں آئیں تو اسے دیکھا۔۔۔۔

" تمہیں کیا ہوا مرال تم روئی ہو" انہوں نے پوچھا۔۔۔۔

" نہیں ماما"

" مجھ سے مت چھپاؤ بولو کیا ہوا ہے بیٹا بتاؤ" وہ ان کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رودی۔۔۔۔

" ماما ماما مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔۔۔۔۔ میں نہیں کرسکتی"

" مرال ہوش میں تو ہو کیا کہہ رہی ہو" انہوں نے اسے خود سے الگ کیا "

شادی میں اتنے کم دن رہ گئے ہیں۔۔۔۔ اور تم ایسی باتیں کررہی ہو۔۔۔۔ جانتی ہوں میں یہ سب جبران کی وجہ سے ہے نا"

" ماما میرا دل نہیں مان رہا کیا کروں میں"

" تو دل کو مناؤ مرال یہ شادی ہر حال میں ہوگی سمجھی تم" 

اور کہہ کر چلی گئیں وہ بہت دیر تک بیٹھ کے روتی رہی۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
#روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_19💞

رات کے کھانے کے بعد وہ باہر لان میں آگئی۔۔۔ دو تین دن رہ گئے تھے اس کی شادی میں۔۔۔

اس کا دل خالی خالی سا تھا۔۔۔ جیسے اب کوئی احساسات ہی نہ بچے ہوں۔۔۔

اچانک گیٹ کھلنے پہ اس نے گردن موڑ کے دیکھا۔۔۔

 جبران گاڑی لے کے اندر داخل ہوا۔۔۔ مرال کی دھڑکن یک دم تیز ہوئی۔۔۔۔ کیا وہ اب بھی اس کے لیے اتنا ہی اہم تھا جیسے پہلے ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ 

وہ اس کو یک ٹک تکے جا رہی تھی۔۔۔۔ اس نے بھی مرال کو دیکھا اور وہیں چلا آیا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

" ایسے کیا دیکھ رہی ہو قتل کرنے کا ارادہ ہے کیا"

 وہ شرارت سے بولا۔۔۔ مرال نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔ جہاں شرارت پنہا تھی۔۔۔ اور وہاں سے جانے کے لیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ۔۔۔ جبران اس کی راہ میں حائل ہو گیا۔۔۔۔

" مجھ سے کیوں بھاگتی ہو تم مرال۔۔۔۔ جہاں بھی میں آؤں تم وہاں سے چلی جاتی ہو۔۔۔۔ ہمیشہ مجھے یہ باور کراتی ہو کہ مجھ سے تمہار کوئی رشتہ نہیں۔۔۔۔ نا ہی تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔۔۔۔ لیکن تمہاری آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں۔۔۔۔ تم جتنا مرضی جھٹلاؤ سچ یہ ہے۔۔۔۔ کہ تم اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہو"

" پہلی بات۔۔۔ میں آپ سے بھاگتی نہیں ہوں۔۔ میں آپ سے دور رہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ اور دوسری بات میں نےآپ جو اس دن بھی بتایا تھا۔۔۔۔ کہ میں آپ سے محبت نہیں کرتی میں محبت کرتی تھی۔۔۔ پر صرف اپنے شوہر سے جب وہ چلا گیا تو۔۔۔۔ محبت پھر کہا رہ گئی" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور وہ بار بار نظریں چرا رہی تھی۔۔۔۔

" یہ ہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو" جبران نے کہا تو مرال کی جان مشکل میں آگئی۔۔۔ وہ سب کرسکتی تھی پر جبران کی آنکھوں میں دیکھ کر اپنی محبت کا انکار کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔۔

" بولو مرال" وہ پھر بولا۔۔۔

" پلیز ہٹیں جبران"

" پہلے میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو کہ مجھ سے محبت نہیں کرتیں۔۔۔" 

وہ بضد تھا مرال نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبت کا ایک جہاں آباد تھا۔۔۔۔

کوشش کی پر نہیں کہہ پائی اور جانے لگی جبران مسکرایا اور اس کا ہاتھ تھاما۔۔۔

" ایک دن میں نے تم سے یہیں کھڑے ہو کر اپنی نفرت کا اظہار کیا تھا۔۔۔ اور آج یہیں کھڑے ہو کر میں اپنی محبت کا اقرار کرتا ہوں کہ مجھے اس لڑکی سے بےانتہا محبت ہے"

 اس نے مرال کی طرف اشارہ کیا۔۔۔" مجھے مرال سے بےانتہا محبت ہے۔۔۔" مرال کی آنکھیں بھر آئیں جبران نے انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسو چنے۔۔۔

" اب نہیں مرال اب نہیں" وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔۔ مرال نے ذرا کی ذرا نظر اٹھائی۔۔۔ اور اس سے دور ہوئی۔۔۔ اور روتے بھاگ گئی وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔۔۔

اپنے کمرے میں آکے وہ بے تحاشا روئی۔۔۔۔

" کاش جبران کاش۔۔۔۔ کاش کہ میں تم سے محبت نہ کرتی۔۔۔۔ کاش کہ یہ ہی محبت تم مجھ سے کرتے تو آج سب ٹھیک ہوتا۔۔۔۔" 

وہ زور زور سے روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔۔ "

میں چاہوں بھی تو کچھ نہیں کر سکتی جبران کچھ نہیں۔۔۔۔ تم مجھے اپنی محبت کی تپش سے پگھلا رہے ہو۔۔۔۔ جبران پر میں پھر بھی تمہاری نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ 

میں اب تمہارا نصیب نہیں بن سکتی۔۔۔۔۔ ہماری راہیں کب کی الگ ہو چکی ہیں۔۔۔۔

 جبران کاش جبران کاش تم میرے ہوتے کاش۔۔۔" وہ بہت دیر تک روتی رہی تھی۔۔۔۔

                 ------

رات کے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔

 نشاء کچن میں چائے بنانے آئی تو دیکھا جبران اپنے لیے کافی بنا رہا تھا۔۔۔۔

 اس کے دل کو کچھ ہوا یہ اس کا شہزادہ بھائی تھا۔۔۔۔

 روز سارہ یا ارسہ اسے کافی بنا کے دیتے تھے۔۔۔۔

 اور اب وہ جب سے آیا تھا خود ہی کافی بناتا تھا جبران نے اسے دیکھا۔۔۔۔

" کیا ہوا نشو سوئی نہیں گڑیا۔۔۔" اس کے اس طرح بولنے سے اس کا دل پگھلا کتنے دن ہوگئے تھے۔۔۔۔ اس نے اپنے بھائی کے منہ سے یہ لفظ نہ سنا تھا تھا۔۔۔۔ تو یہ عام سا جملہ پر اس کی تاثیر بہت گہری تھی۔۔۔۔

" لائیں میں بنادوں۔۔۔" جبران نے سر ہلایا اور اس کو جگہ دی۔۔۔

" ہاں آج تم بنا دو بہت وقت ہوگیا تمہارے ہاتھ کی کافی نہیں پی۔۔۔" وہ کافی بنانے لگی۔۔۔۔

" پتا ہے میں تمہاری کافی کو بہت مس کرتا تھا" وہ بولا تو نشاء نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔

" کیوں آپ کی وائف آپ کو کافی نہیں دیتی تھیں"

" کون سی وائف۔۔۔۔ وائف کو تو یہاں چھوڑ گیا تھا میں"

" میں مرال کی نہیں آپ کی وائف کی بات کررہی ہوں"

" وہ محض میری ایک غلطی تھی نشو۔۔۔۔ جس کا مجھے اچھا سبق بھی مل گیا۔۔۔" نشاء خاموش ہوگئی۔۔۔۔

" ناراض ہو گڑیا" وہ خاموش رہی۔۔۔

" معاف نہیں کروگی" وہ بولا۔۔۔

" کان پکڑوں" وہ پھر بھی نہ بولی۔۔۔۔

" ہاتھ جوڑوں تو معاف کردوگی" جبران کے ایسا کہنے پہ نشاء نے بھائی کو تڑپ کے اس کے بندھے ہاتھوں کو دیکھا۔۔۔

" نہیں بھئییوں نو۔۔۔۔۔" نشاء نے اس کے بندھے ہاتھوں کو الگ کیا اور ان پہ اپنا سر رکھا۔۔۔۔

" یہ تو نہیں کہا بھائیا بس دکھ ہوا تھا بہت کہ آپ نے ہمیں بہت تکلیف دی اور کچھ نہیں۔۔۔۔" 

جبران نے اسے اپنے ساتھ لگایا جبران کی آنکھیں بھی نم تھیں۔۔۔

" ہم نے آپ کا بہت انتظار کیا بھائی بہت پر آپ نہیں آئے"

" سوری گڑیا میں نے اتنی تکلیف دی تم لوگوں کو معاف کردو" نشاء روئے جا رہی تھی بہت سا رونے کے بعد جبران نے اس سے پوچھا۔۔۔۔

" ناراض تو نہیں ہو نا مجھ سے" جبران نے پوچھا نشاء نم آنکھوں سے مسکرائی۔۔۔

" نہیں ہوں۔۔۔۔"

" تھینک یو گڑیا" وہ بھی مسکرادیا۔۔۔۔

" دیکھیں کافی تو میں بھول ہی گئی" وہ پھر سے کافی بنانے لگی۔۔۔ اور جبران سے باتیں کرنے لگی۔۔۔

 جبران بہت خوش تھا کہ اس کی بہن اس سے راضی ہوگئی تھی۔۔۔

                           -----

اگلے دن احتشام والوں کے گھر سے فون آیا تھا۔۔۔ وہ لوگ آج مرال کا شادی کا جوڑا لے کر آرہے تھے۔۔۔ 

جبران تو سنتے ہی گھر سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

شام میں احتشام اپنی ماما کے ساتھ آیا تھا۔۔۔

وہاج صاحب کے بہت کہنے پر وہ لوگ ڈنر کے لیے رک گئے تھے۔۔۔

                               -----

بہت دیر تک سڑکوں پی گاڑی گھمانے کے بعد وہ گھر کی طرف لوٹا۔۔۔۔ 

اس کا خیال تھا کہ اب تو وہ لوگ جا چکے ہوں گے۔۔۔ وہ گھر آیا احتشام والے ڈنر کر چکے تھے چائے کا دور چل رہا تھا۔۔۔

جبران لاؤنج میں داخل ہوا احتشام اور اس کی ماما کو دیکھ کے یک دم چونکا۔۔۔۔ احتشام بھی اسے دیکھ کر حیران ہوا۔۔۔ ویسے تو سب مرال کے پہلے شوہر کے بارے میں انہیں بتا چکے تھے۔۔۔ پر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ واپس گھر آچکا ہے۔۔۔۔

سارہ تعارف کرانے کے لیے بولی۔۔۔۔

" بھائی یہ مرال آپی کے ہونے والے شوہر ہیں"

 جبران سن کھڑا رہ گیا اسے لگا جیسے قیامت آگئی ہے۔۔۔۔ اس کا سب سے اچھا دوست مرال کا ہونے والا۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ سوچ نہیں سکا تھا۔۔۔۔

" اور احتشام بھائی یہ ہمارے بڑے بھائی جبران ہیں" 

سارہ اپنے بھئی کی حالت سے بےخبر دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کروارہی تھی۔۔۔۔ 

احتشام نے ناسمجھی سے ابتہاج اور وہاج کو دیکھا۔۔۔۔

" بیٹا یہ ہی مرال کے ایکس ہزبینڈ ہیں" وہاج نے نظریں چراتے ہوئے کہا احتشام کے سر پہ جیسے پہاڑ ٹوٹا تھا۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

 #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_20💞

احتشام گھر آکے اپنے روم میں آیا سر تھا کہ درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔۔۔ 

یہ کیا ہو گیا تھا اس کا سب سے اچھا دوست جبران اس کی ہونے والی بیوی کا پہلا شوہر۔۔۔۔۔

اس کے کانوں میں بار بار جبران کی تڑپتی آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔

" وہ میری زندگی میرا سکون ہے"

" احتشام وہ شادی کررہی ہے"

پھر مرال کی آواز آتی۔۔۔۔

" مجھے اپنے شوہر سے بہت محبت ہے"

اسے لگا وہ پاگل ہو جائے گا اس نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا۔۔۔

یہ کیوں ہوا اور صرف اسی کے ساتھ ہی کیوں۔۔۔۔

اگر جبران کی جگہ کوئی بھی اس کے شوہر کی صورت میں آجاتا تو اسے اتنا برا نہیں لگتا جتنا اب لگ رہا تھا۔۔۔۔

اس نے اپنے کمرے کی ساری چیزیں توڑ دیں پھر بھی اسے سکون نہ ملا۔۔۔۔

"مرال اس سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔ اب تو وہ کب سے کتنے دنوں سے ساتھ ہوں گے۔۔۔۔۔ 

جبران تو اس خلع کو مانتا ہی نہیں تھا اس کی نظر میں۔۔۔۔ تو اب بھی وہ اس کی وائف ہے۔۔۔" 

وہ پتا نہیں کیا کیا سوچ رہا تھا "

اور مرال وہ تو علیحدگی کے بعد بھی صرف اسے ہی چاہتی تھی۔۔۔۔ 

اسے یوں اپنے روبرو دیکھ کر وہ محبت پھر زور و شور سے امڈ آئی ہوگی۔۔۔۔

 اور جذبات میں پتا نہیں کتنی بار انہوں نے اپنی حدیں پار کی ہوں گی۔۔۔۔" 

اور اس سے آگے وہ سوچ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔۔ 

ایک گرہ سی دل میں پڑ گئی تھی تھا تو وہ بھی ایک مرد ہی نا تو اپنی عورت کے بارے میں پزیسو کیوں نہ ہوتا۔۔۔

                           -----

جبران ٹیرس پہ کھڑا اندر کی گھٹن کو کم کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔

اس نے تو کبھی زندگی میں نہ سوچا تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔۔۔

وہ نہ تو اپنے دوست کو دکھ دے سکتا تھا۔۔۔

 اور نہ مرال کو خود سے الگ کرسکتا تھا۔۔۔۔

 اس کو اپنے سے جدا کرتا تو کب کا مر جاتا۔۔۔۔

 احتشام بھی اس سے محبت کرتا تھا مگر وہ تو جبران کا عشق و جنون بن چکی تھی۔۔۔۔

قسمت نے عجیب دوراہے پہ کھڑا کردیا تھا۔۔۔۔

 انہیں  وہ ایک تکون میں کھڑے تھے ایک پئیر کی شکل دینے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو تو نکلنا ہی تھا۔۔۔۔

                               ----

" حیدر بس اب آپ میری سنیں ختم کریں یہ سب نہیں کرنی میں نے اپنے بیٹے کی شادی اس لڑکی سے"

" اب کیا ہو گیا ہے ضوباریہ جانے تک تو تم ٹھیک تھیں" حیدرصاحب لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے چینل سرچ کرتے ہوئے بولے۔۔۔

" حیدر اس لڑکی کا ایکس ہزبینڈ آگیا ہے" اس بات پہ حیدر بھی چونکے۔۔۔۔

" آپ کو پتا ہے وہ کون ہے"

" کون ہے؟؟؟" انہوں نے پوچھا۔۔۔

" احتشام کا دوست جبران" 

" واااااٹ..... یو شیور کہ وہ وہی ہے"

" جی حیدر میں سچ کہہ رہی ہوں "

" احتشام کہاں ہے؟؟؟"

" میرا بچہ تو بہت ڈسٹرب ہو گیا ہے۔۔۔

 آتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ پلیز آپ ہی کوئی حل نکالیں حیدر۔۔۔۔۔ 

آپ خود جانتے ہیں کہ جبران اپنی ایکس وائف کو بہت چاہتا ہے" ایک طرح سے انہوں نے حیدر کو اموشنل کرنا چاہا

" ضوباریہ ان کی علیحدگی ہو چکی ہے اور اگر آبھی گیا ہے تو وہ ہزبینڈ وائف نہیں ہیں۔۔۔۔ 

تین دن بعد شادی ہے احتشام کی وہ سمجھدار ہے سمجھ جائے گا۔۔۔۔

 تم سمجھاؤ اسے ہمممم" انہوں نے اپنی بیگم کو سمجھایا وہ منہ بنا کے رہ گئیں۔۔۔۔

انہیں وہ لڑکی اپنے ہیرے جیسے بیٹے کے لیے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور اب تو اور ذہر لگنے لگی تھی۔۔۔۔

                  -----

مرال کو آج جبران دو تین بار نظر آیا۔۔۔

 وہ جب بھی مرال کو کہیں دیکھتا فوراً اس کی طرف آتا مگر وہ رخ موڑ کے چلا گیا۔۔

 مرال کو یہ چیز اندر ہی اندر بہت کھلی پر بولی کچھ نہیں۔۔۔۔

 ویسے بھی وہ یہ ہی تو چاہتی تھی۔۔۔ کہ جبران اس سے دور ہو جائے۔۔۔۔ اب جب وہ دور ہو گیا تھا تو اسے برا کیوں لگ رہا تھا۔۔۔۔

اس نے دل کو بہت سمجھایا پر دل نہ مانا۔۔۔ جب دو بار پھر ایسا ہی ہوا تو وہ خود جبران کے پاس آئی۔۔۔۔

" جبران" وہ لان میں پھولوں کے پاس کھڑا کسی سوچ میں گم تھا چونک کے سے دیکھا۔۔۔۔

 مرال آتو گئی تھی پر اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے وہ کنفیوز سی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔۔۔۔

" ککچھ.. نہیں" اور جانے لگی۔۔۔۔

" مرال" اب کی بار اس نے آواز دی وہ فوراً پلٹی۔۔۔

" جی"

" اگنورنیس کی وجہ پوچھنے آئی ہو" اس کے سہی تکے پہ مرال شرمندہ ہوئی۔۔۔۔

" نن.. نہیں نہیں تو"

" اچھا چلو میں بتا دیتا ہوں"

" میں نے کیا کرنا جان کر میرا آپ سے کوئی واسطہ نہیں" اس نے رخ پھیرا پر اصل میں وہ بھی یہی سننا چاہتی تھی۔۔۔۔

 " پتا ہے میں تم سے بے حد محبت کرتا ہوں" وہ رخ موڑے کھڑی سن رہی تھی۔۔۔۔

" ہاں تبھی اگنور کیا جارہا ہے تکہ میں دھیان دوں" مرال نے دل میں سوچا۔۔۔۔

" تمہیں خود سے دور نہیں کرسکتا"

" ہاں پاس بلانے کے بہانے" مرال اپنی دھن میں سوچ رہی تھی وہ اس سے کچھ اور سننا ایکپیکٹ کررہی تھی۔۔۔۔

" پر احتشام میرا بہت اچھا دوست ہے اور اس کی خوشی تم ہو۔۔۔۔ اس لیے میں اپنا راستہ الگ کرتا ہوں" مرال نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔

" میں جانتا ہوں یہ میرے لیے بے حد مشکل ہے۔۔۔ پر مرال میں نے کل رات بہت سوچا۔۔۔ اور اس نتیجے پہ پہنچا ہوں۔۔۔۔ کہ تم سے دور ہو جاؤں اس میں ہی بہتری ہے۔۔۔۔" وہ سانس روکے سن رہی تھی وہ یہ کیا بول رہا تھا۔۔۔۔۔

" وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔۔۔۔ جو محبت تمہیں میں نا دے سکا وہ محبت احتشام تمہیں دے گا۔۔۔۔

 میں نے تمہیں بہت تکلیف دی نا میں گنہگار ہوں تمہارا ہو سکے تو مجھے معاف کردینا۔۔۔" مرال اسے سن رہی تھی اسے اپنا وجود بہت معمولی لگ رہا تھا۔۔۔۔

" احتشام تمہیں سب کچھ دے گا مان عزت محبت وہ سب جو میں نا دے سکا۔۔۔۔ وہ تمہیں اتنا چاہے گا کہ دیکھنا ایک دن تم بھول جاؤ گی۔۔۔ کہ کوئی جبران تمہاری زندگی میں آیا تھا" 

جبران کی آنکھیں نم تھیں وہ  بہت ضبط سے اس سے یہ سب بول رہا تھا۔۔۔۔

 اور مرال بھیگی آنکھوں سے سب سن رہی تھی اس کی بات کے اختتام پہ بولی۔۔۔

" کس نے کہا کہ مجھے آپ سے محبت ہے۔۔۔ کہ میں آپ کو یاد کروں گی۔۔۔۔

 بھولوں گی تو تب نا جب میں آپ کو یاد کروں گی۔۔۔

ایک اور بات آپ ہوتے کون ہیں۔۔۔ میرے لیے فیصلہ کرنے والے آپ کو کوئی حق نہیں سمجھے۔۔۔۔

میں اپنی مرضی کی مالک ہوں یہ رشتہ میری مرضی سے ہوا ہے۔۔۔۔۔

ہاں احتشام مجھے آپ سے کہیں زیادہ مان عزت محبت دے گا۔۔۔۔

اور میں بھی دوں گی پتا ہے کیوں کیونکہ وہ یہ سب ڈیزرو کرتا ہے آپ نہیں" 

کہہ کر وہ چلی گئی جبران بھیگی آنکھوں سے اسے جاتا ہوا دیکھنے لگا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

 #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞           21    Epi 

وہ اپنے کمرے میں آکے بے تحاشا روئی۔۔۔

 کیا وہ اتنی بےوقعت تھی کہ اسے اتنی آسانی سے چھوڑ دیا جائے شاید ہاں۔۔۔۔

وہ رورہی تھی کہ اس کے کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا۔۔

" میرو۔۔۔؟" اس نے چہرہ اوپر اٹھایا دیکھا تو نشاء تھی۔۔۔

" میرو..... کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے"

 وہ فکرمندی سے بولی مرال اس کے پوچھنے پہ پھر سے رونے لگی تھی۔۔۔

" مرال بتاؤ نا"

" نشاء کیا میری کوئی اہمیت نہیں ہے کیا میں کوئی معمولی شے ہوں"

" نہیں میرو ایسا کیوں کہہ رہی ہو"

" تو پھر مجھے بار بار کیوں چھوڑا جاتا ہے شاید میں ہوں ہی بدنصیب"

" میرو جان کیا ہوا ہے" اب کی بار نشاء چونکی مرال کچھ نہ بولی بس روتی رہی۔۔۔

" کیا جبران بھائی کی بات کررہی ہو" نشاء نے پوچھا اور مرال کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

" مرال پاگل ہو گئی ہو۔۔۔ جانتی ہو نا کہ پرسوں شادی ہے تمہاری۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ پھر بھی بھائی کے بارے میں سوچ رہی ہو۔۔۔۔ بھول جاؤ سب" مرال نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔۔

" حیران مت ہو میرو سہی کہہ رہی ہوں میں۔۔۔۔ وقت گزر چکا ہے اب۔۔۔ کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ہاں وہ بھائی ہے میرا۔۔۔ پر میں پھر بھی یہ ہی کہوں گی کہ۔۔۔ بھائی کو بھول جاؤ اور اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچو"

" نشاء میں۔۔۔ مجھ سے نہیں ہوگا۔۔۔ میں نہیں بھول سکتی۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں مر جاؤں گی"

" ایسا نہیں کہتے میرو۔۔۔

 بھلا کسی کے لیے کوئی مرا ہے کبھی۔۔۔؟؟ نہیں نا۔۔۔؟ دیکھو بچوں کی پہلی محبت اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔۔۔۔

 ہے نا۔۔۔ جب کسی کے ماں باپ مر جاتے ہیں تو کیا بچے ان کے ساتھ مرجاتے ہیں بتاؤ۔۔۔؟؟

 نہیں نا۔۔۔۔" وہ اسے بچوں کی طرح سمجھا رہی تھی۔۔۔۔

" میرو عقلمندی اسی میں ہے کہ۔۔۔ تم اپنی آنے والی لائف کے لیے ریڈی ہو جاؤ۔۔۔ کل کو تمہارے بچے ہو جائیں گے۔۔۔۔ تو تم ان میں بزی ہو جاؤ گی۔۔۔ 

تمہارے پاس وقت ہی نہیں ہو گا۔۔۔ پاسٹ کو یاد کرنےکے لیے۔۔۔۔ 

وقت کے ساتھ ساتھ ان یادوں پہ گرد پڑ جائے گی۔۔۔۔ پھر کوئی یاد تمہیں تکلیف نہیں دے گی"

اس کے سمجھانے سے مرال ہلکی پھلکی ہو گئی تھی۔۔۔

" چلو شاباش اٹھو منہ ہاتھ دھو اور باہر آؤ ہم سب ویٹ کررہے ہیں تمہارا" مرال نے سر ہلایا۔۔۔

                               -----

" یہ کیا مسز ضوباریہ آپ تو کہہ رہی تھیں کہ احتشام کی شادی مائرہ سے ہی ہو گی۔۔۔ پر ایسا ہوا نہیں" مسز باجوہ کا فون تھا۔۔۔

" آئی نو میں نے کہا تھا پر احتشام کی ضد ہے کہ وہیں کرنی ہے شادی۔۔۔۔ سچ پوچھیں تو مجھے تو ذرا نہیں پسند آئی لڑکی"

" تو آپ احتشام کو سمجھائیں"

" سمجھایا تو بہت ہے میں نے۔۔۔ پر اس کی ضد وہیں ہے۔۔۔۔ کوئی سوکالڈ سی محبت ہوگئی ہے اسے اس لڑکی سے۔۔۔" ضوباریہ نے منہ بنا کے کہا۔۔۔

"اوہ کیا بہت خوبصورت ہے کیا وہ لڑکی"

" خوبصورت ہے پر اتنی نہیں کہ اس کے پیچھے پاگل ہوا جائے۔۔۔۔ خدا جانے کیا جادو کیا ہے اس لڑکی نے میرے بیٹے پہ کہ وہ پیچھے نہیں ہٹ رہا۔۔۔۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ۔۔۔ اس کا ہزبینڈ دیکھ کے کل شاید وہ انکار کردے گا۔۔۔۔ پر ابھی تک تو اس نے کوئی بات نہیں کی ہے"

" ہزبینڈ.....؟؟" مسز باجوہ چونکی۔۔۔

" جی اس لڑکی کا ایکس ہزبینڈ۔۔۔ واپس آچکا ہے۔۔۔ احتشام کا دوست ہی ہے۔۔۔ 

وہ بھی پاگل ہے اس لڑکی کے پیچھے۔۔۔۔ پتا نہیں کون سی بلا ہے یہ کہ دو آدمیوں کو پاگل کیا ہوا ہے اس نے"

" پھر تو بہت شاطر لڑکی ہے" مسز باجوہ نے بھی اپنی رائے دی۔۔۔

" بہت۔۔۔ پر میں نے بھی سوچا ہوا ہے۔۔۔ کہ اس گھر میں اسے رہنے نہیں دوں گی۔۔۔ احتشام کو تو کل کی بات لگی ہوئی ہے۔۔۔۔ لوہا گرم ہے ابھی وار کرنا فائدہ مند رہے گا" وہ مسکرائیں۔۔۔

" ہاں ٹھیک کہا میری مائرہ تو احتشام کے انتظار میں ہے"

" بے فکر رہیں میری بہو مائرہ ہی بنے گی" انہوں نے مسز باجوہ کو تسلی دی۔۔۔

                   ------

جبران آج باہر کسی کام سے گیا تو وہاں اسے احتشام مل گیا۔۔۔۔ احتشام نے بھی اسے دیکھا اور رخ پھیر لیا۔۔۔

جبران چلتا ہوا اس تک آیا۔۔۔

" کیسے ہو؟؟؟" جبران نے پوچھا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔

" احتشام میں بس اتنا کہنے آیا ہوں کہ۔۔۔ میں تمہارے اور مرال کے راستے سے ہٹ رہا ہوں۔۔۔

 مجھے تم بہت عزیز ہو احتشام جو کچھ ہو رہا ہے۔۔۔۔ اس میں میری ہی غلطی تھی ہو سکے تو معاف کردینا"

" تم ہوتے کون ہو یہ کہنے والے۔۔۔ کس بات کی معافی مانگ رہے ہو تم۔۔۔

 ہاں۔۔۔ اس بات کی کہ اپنے گھر آکے ناجانے کتنی بار مرال اور تم ساتھ میں رہے ہو۔۔۔۔ ناجانے کتنی بار تم نے اپنی حدیں پار کی ہیں۔۔۔۔ مرال تو تم سے محبت کرتی تھی نا تو۔۔۔"

" خبردار احتشام جو تم اپنی زبان سے ایسے گندے لفظ ادا کیے۔۔۔" جبران نے اس کا گریبان پکڑ لیا۔۔۔۔

" سچ برداشت نہیں ہورہا تم سے۔۔۔۔ تم دونوں اپنی خواہشات شوق سے پوری کرو۔۔۔۔

 میں ہوں نا تم لوگوں کے گناہوں کی پوٹلی اٹھانے کے لیے۔۔۔۔" اس کی اس بات پہ جبران نے کھینچ کے ایک تھپڑ اس کے منہ پہ مارا۔۔۔

 بدلے میں احتشام نے بھی اسے مارا اور دونوں میں ہاتھا پائی اسٹارٹ ہو گئی۔۔۔

" میں جان سے مار دیتا تمہیں احتشام اگر تم میرے دوست نہ ہوتے زبان سنبھال کے بات کرو۔۔۔۔ خبردار جو مرال کے بارے میں کچھ گٹھیا لفظ استعمال کیے"

" کروں گا سو بار کروں گا کیا کرلو گے" دونوں ایک دوسرے کو بری طرح پیٹ رہے تھے بڑی مشکلوں سے لوگوں نے انہیں چھڑوایا۔۔۔

                             -----

احتشام گھر آیا اس کے حلیے کو دیکھ کر ضوباریہ پریشانی سے بولیں۔۔۔

" یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے احتشام کہیں سے لڑ کے آئے ہو یہ چوٹ کیسے لگی" 

احتشام کے ہونٹوں کے پاس سے خون نکل رہا تھا وہ صوفے پہ جا کے بیٹھ گیا۔۔۔

" بتاؤ بھی یہ کیسے ہوا" وہ جو خود کو کنٹرول کر رہا تھا پھٹ پڑا۔۔۔

" جبران آج آیا تھا میرے پاس معافی مانگنے وہ کیا سمجھتا ہے۔۔۔۔ میں اس کی دی ہوئی بھیک کو کبھی اپناؤں گا۔۔۔ کبھی نہیں مرال کو بھی انجام بھگتنا ہو گا" ضوباریہ کے دل میں حد درجہ سکون ابھرا۔۔۔

" بیٹا مرال کی کیا غلطی ہے اس میں اگر اس کا شوہر آگیا تو" انہوں نے جان بوجھ کے شوہر کا نام لیا۔۔۔

 انہیں پتا تھا وہ بھڑک جائے گا نتیجہ یہ ہی نکلا۔۔۔

" آپ کیسے کہہ سکتی ہیں۔۔۔ کہ اس کی غلطی نہیں سب سے بڑی قصوروار وہ ہے۔۔۔۔ جب جبران آچکا تھا گھر تو وہ مجھے بتا نہیں سکتی تھی۔۔۔ کہ وہ واپس آگیا ہے۔۔۔۔ وہ تو بہت خوش ہو گی اس کی محبت اسے مل گئی یہی تو چاہتی تھی وہ"

" ذہن میں نہیں رہا ہو گا "

" ہاں نہیں رہا ہو گا کیونکہ ذہن تو وہاں ہو گا نا جہاں دل ہے"

" بیٹا تم نے ہی کہا تھا کہ تمہیں اس کے ایکس ہزبینڈ سے کوئی فرق نہیں پڑتا" وہ اسے اکسا رہی تھیں۔۔۔

" ہاں کہا تھا تب تک جب تک وہ یہاں نہیں تھا۔۔۔

 اور اگر اب آہی گیا تھا تو کیا۔۔۔۔ وہ مجھے انفارم نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔ 

سیکنڈ یہ کہ جبران جب گیا تو اسے پتا تو چلا ہو گا نا۔۔۔

 اس کی شادی کا تب بھی اس نے مجھے نہیں بتایا۔۔۔

پتا تو ہو گا نا اسے کہ میری اس سے شادی ہو رہی ہے۔۔۔۔ اس لیے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ تاکہ میری ناک کے نیچے وہ گھناؤنے کام انجام دے سکیں" ضوباریہ دل ہی دل میں مسکرائیں۔۔۔

" وہ کیا سمجھتی ہے میں اسے اپنا لائف پارٹنر بناؤں گا ایک بدکردار کو۔۔۔۔۔ کبھی نہیں" اور کہہ کر چلا گیا ضوباریہ مسکرائیں۔۔۔

" ارے واہ ابھی تو انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں تھا اور خود بہ خود سب ہو گیا" وہ بہت خوش تھیں۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

: #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان
Epi. 22

جبران گھر آیا تو بہت غصے میں تھا۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ احتشام کو جان سے مار دے۔۔۔

" تمہیں کیا ہوا ہے اور یہ حلیہ؟؟؟" رافعہ نے اسے غصے میں دیکھا تو پوچھا۔۔۔

" جان سے مار دیتا آج میں اسے اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا" وہ کمرے میں جانے لگا۔۔۔

" کیا ہوا ہے کس کی بات کررہے ہو" وہ بھی اس کے پیچھے آئیں۔۔۔

" احتشام کی"

" تم ہوش میں تو ہو کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ وہ اس گھر کا ہونے والا داماد ہے" وہ برہم ہوئیں۔۔۔

" داماد۔۔۔۔ اس گھر کے ہونے والے داماد نے جو اس گھر کی بیٹی کے بارے میں بات کی ہے نا وہ سنیں گی نا تو برداشت نہیں کرپائیں گی"

" کیا مطلب؟؟؟"

جبران نے انہیں جب بات بتائی تو کچھ دیر تک تو وہ بول ہی نا سکیں۔۔۔

" ایسا نہیں ہو سکتا جبران۔۔۔ احتشام ایسا نہیں ہے۔۔۔ وہ بہت اچھا ہے۔۔۔ ضرور یہ تمہاری ہی کوئی پلاننگ ہو گی مرال کے لیے آئے ہو نا تم یہاں"

 جبران نے ان کا ہاتھ تھاما اور بیڈ پہ بٹھایا اور خود گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھا۔۔۔

" ماما اپنی اولاد پہ کیا اتنا بھی بھروسہ نہیں آپ کو۔۔۔ ہاں میں آیا تھا مرال کے لیے۔۔۔۔ پر جب میں نے یہ دیکھا کہ احتشام مرال میں انٹرسٹڈ ہے۔۔۔ تو میں پیچھے ہٹ گیا۔۔۔

 آپ۔۔۔ آپ چاہیں تو مرال سے پوچھ سکتی ہیں۔۔۔

 ماما" اس نے ان کے ہاتھوں پہ پنا سر ٹکایا۔۔

" اپنے کیے کی سزا مجھے مل رہی ہے۔۔۔ ماما اور پتا نہیں کتنی سزا باقی رہ گئی ہے میری۔۔۔۔ یہ سچ ہے ماما مرال کی جدائی میرے لیے بہت تکلیف کا باعث ہو گی۔۔۔۔ پر میں اسے اپنی سزا کے طور پہ تسلیم کرلوں گا ماما پر۔۔۔۔ احتشام کی باتوں نے مجھے ڈرا سا دیا ہے۔۔۔۔ خدا کرے اب مرال کی زندگی میں کوئی دوسرا جبران نہ آئے جو اسے دکھ اور اذیت کے علاوہ اور کچھ نہ دے سکے"

 اس کی آنکھیں نم ہوئی۔۔۔ رافعہ نے وہ نمی اپنے ہاتھوں پہ محسوس کی ماں تھی کب تک سخت رہتیں۔۔۔

" ماما احتشام نے ڈائیریکٹ اس کے کردار پہ حملہ کیا۔۔۔ تو مجھ سے رہا نہ گیا۔۔۔ 

پلیز آپ ہی کچھ کریں کسی طرح اس کی غلط فہمی دور کردیں۔۔۔۔

 میں چاہتا ہوں مرال اب بہت خوش رہے" رافعہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا۔۔۔ 

جبران نے سر اٹھایا رافعہ نے جھک کے اس کا ماتھا چوما۔۔۔ جبران نے دل میں ٹھنڈک سی اتری جیسے دھوپ سے وہ ایک دم سایے میں آگیا ہو۔۔۔

" کہاں چلا گیا تھا میرا بیٹا۔۔۔ اپنے بیٹے کا یہ روپ تو آج دیکھا ہے میں نے کہاں تھا میرا بیٹا۔۔۔" انہوں نے بھیگی آنکھوں سے پوچھا۔۔۔

" بھٹک گیا تھا ماما۔۔۔۔ بھول گیا تھا کہ میری جنت تو یہی ہے جہاں میں تھا جہاں میں ہوں۔۔۔۔ اور جب سمجھ آیا تب تک سب ہاتھ سے نکل چکا تھا۔۔۔۔ سب کھو چکا تھا میں۔۔۔

 ماما کیا مجھے ایک۔۔۔ ایک موقع نہیں مل سکتا میں۔۔ ماما مجھے معافی نہیں مل سکتی۔۔۔؟" اس نے ان کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔

"پتا ہے ماما میں اللٰہ سے مرال کو نہیں مانگتا میں اب اس کی خوشی مانگتا ہوں۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ اب اس کی زندگی میں خوشیاں آئیں۔۔۔ وہ اپنے ماضی کو بھول جائے "

" آپ احتشام کو سمجھائیں نا ماما۔۔۔۔ کہ مرال پاک ہے وہ ایک نیک عورت ہے۔۔۔ کہ جسے دیکھ کے اس کی پاکیزگی کا پتا چلتا ہے"

 جبران سے زیادہ اور کون جان سکتا تھا کہ مرال کتنی پاکیزہ ہے۔۔۔۔ وہ تب بھی اس کی پاکیزگی کا دعوے دار تھا۔۔۔۔ جب وہ اس کی بیوی نہیں تھی۔۔۔ 

وہ تب بھی دعوے دار تھا جب وہ اس کی بیوی تھی۔۔۔

اور تب بھی جب وہ اس کی بیوی نہیں رہی تھی۔۔۔

" آپ بات کریں گی نا" رافعہ نم آنکھوں سے مسکرائیں۔۔۔

اور اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور پھر سے اس کا ماتھا چوما۔۔۔ کتنے سال بیت گئے تھے ان کے بیٹے کو ان سے بچھڑے ہوئے۔۔۔۔

وہ جب آفس جایا کرتا تھا تو وہ روز اس کا ماتھا چومتی تھیں۔۔۔۔ اور آج چار سال بعد وہ اس کا ماتھا چوم رہی تھیں۔۔۔۔

 جبران نے پرسکون ہو کر ان کی گود میں سر رکھ لیا۔۔۔۔

                 -----

 جبران نے اسمہ کو یہ بات بتانے سے منع کیا تھا۔۔۔

 وہ ان کو اور دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔ اس نے رافعہ کو کہا تھا کہ وہ احتشام سے بات کر کے معاملہ ہینڈل کر لیں۔۔۔

رافعہ نے احتشام کو کال کی سلام دعا کے بعد وہ بولیں۔۔۔

" بیٹا تم جو جبران اور مرال کے لیے سوچ رہے ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔

 تم مرال کو تو جانتے ہو نا وہ۔۔۔۔" وہ بات کررہی تھیں کہ وہ ان کی بات کاٹ کے بولا۔۔۔۔

" جی جی میں جانتا ہوں مرال کتنی اچھی ہے جس نے مجھے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ اس کا شوہر آچکا ہے"

" بیٹا وہ بتانا بھول گئی ہو گی۔۔۔۔ ورنہ وہ ایسی نہیں ہے۔۔۔ اور جیسا تم سوچ رہے ہو۔۔۔ ایسا بالکل نہیں ہے"

" آپ بہت بھولی ہیں آنٹی۔۔۔۔ آپ کو مرال کی آنکھوں میں جبران کے لیے محبت نہیں دکھی حیرت ہے"

" میں ابھی آپ لوگوں کے گھر ہی آرہا تھا۔۔۔ یہ بتانے کہ میں اس سے شادی نہیں کرسکتا۔۔۔ وہ چاہے تو دوبارہ سے آپ کی بہو بن سکتی ہے۔۔۔ جبران بھی تو یہ ہی چاہتا ہے نا"

" نہیں نہیں بیٹا ایسا مت کرنا۔۔۔۔ وہ بس تم دونوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔۔ اسے جب پتا چلا کہ تم مرال کے ہونے والے شوہر ہو تو وہ خود ہی پیچھے ہٹ گیا"

" تو یہ بتائیں۔۔۔ جب وہ میرے بارے میں اور اس شادی کے بارے میں لاعلم تھا۔۔۔ تب بھی کیا وہ مرال کو نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔؟" وہ کچھ دیر کو خاموش ہوئیں پھر بولیں۔۔۔

" بیٹا تم جو سوچ رہے غلط سوچ رہے ہو تم۔۔۔"

" بس آنٹی میں کچھ نہیں سننا چاہتا اب۔۔۔۔ جو بھی بات ہو گی گھر پہ آکے ہی ہو گی"

" خدارا احتشام کل شادی ہے یہ غضب مت کرنا۔۔۔

 مرال کے ساتھ پہلے ہی اس کے ساتھ بہت کچھ غلط ہو چکا ہے جس کا ذمہ دار میرا بیٹا ہے۔۔۔۔"

" تو اب تو وہ اپنی غلطی سدھارنا چاہتا ہے نا تو اس میں غلط کیا ہے"

" ہاں سدھارنا چاہتا ہے۔۔۔ پر ایسے نہیں جیسے تم سوچ رہےہو پلیز احتشام۔۔۔۔ یہ ایک ماں کی التجا سمجھ لو یا کچھ بھی اس شادی سے انکار مت کرنا۔۔۔

 ورنہ سب برباد ہو جائے گا بیٹا۔۔۔ ایک ماں کا مان رکھ لو احتشام۔۔۔" وہ رو رہی تھیں پھر اسپیکر سے انہیں احتشام کی آواز سنائی دی۔۔"

ٹھیک ہے۔۔۔ میں شادی سے انکار نہیں کروں گا۔۔۔ رکھ لیا آپ کی بات کا مان۔۔۔" اور فون بند کردیا۔۔۔ 

وہ بہت دیر تک بے آواز روتی رہیں مرال کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔۔۔

                               -----

آج مرال کی شادی تھی۔۔۔ اس نے سوچ لیا تھا۔۔۔ وہ سب بھلادے گی۔۔۔ اور احتشام کو دل سے قبول کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔۔۔ وہ اپنا ماضی بھول جائے گی۔۔۔

وہ اتنے اچھےانسان کے ساتھ برا کیسے کرسکتی تھی۔۔۔

نکاح سادگی سے ہونا تھا نکاح سے ایک دن پہلے سب کزنز نے اس کا سادہ سا مایوں کیا تھا۔۔۔۔

وہ تیار ہو چکی تھی۔۔۔ کچھ ہی دیر میں احتشام والوں نے آنا تھا۔۔۔۔ وہ تیار ہو چکی تھی پانی پینے کے لیے وہ اپنے روم سے باہر نکلی ریڈ کلر کی فراک میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔

وہ کچن کی طرف جا رہی تھی کہ جبران سامنے سے آتا دکھائی دیا۔۔۔ وہ کسی سے فون پہ بات کرتا مسکرا رہا تھا۔۔۔ 

مرال کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔ پھر خود کو کمپوز کرلیا۔۔۔

 جبران کی نظر اس پہ پڑی تو پھر پلٹنا ہی بھول گئی۔۔۔۔ پھر خود کو سنبھالا۔۔۔ اور اسے دیکھ کر مسکرایا۔۔۔ اور چلا گیا۔۔۔

مرال وہیں کھڑی رہ گئی کیا وہ خوش تھا۔۔۔ اس کی شادی سے۔۔۔؟؟

اگر وہ خوش تھا تو وہ کیوں نا ہوتی اسے بھی حق تھا خوش ہونے کا۔۔۔

                              -----

جبران اپنے کمرے میں آیا اور بیڈ پہ بیٹھ گیا۔۔۔

 دل میں ایک غبار سا بھر رہا تھا۔۔۔ اس نے اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔

اسے یاد آیا جب اس کی شادی مرال سے ہوئی تھی۔۔۔۔

تب بھی تو وہ ایسے ہی اتنی حسین لگ رہی تھی۔۔۔

 تب اس نے اس کا کتنا دل دکھایا تھا۔۔
 اور آج بھی وہ دلہن بنی ویسے حسین لگ رہی تھی
دل بہت بھاری بھاری ہو رہا تھا۔۔۔۔

 وہ اٹھ کے بالکنی میں چلا آیا تب بھی سکون نہ ملا۔۔۔

 وہ واپس کمرے میں آیا دل کا بوجھ کہیں سے تو نکلنا ہی تھا۔۔۔۔

 وہ وہیں بیڈ سے نیچے بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔۔۔ یہ کیا ہو گیا تھا اس سے۔۔۔۔

یہ کیا کردیا تھا اس نے۔۔۔

اپنی زندگی کو اپنے سکون کو تباہ کردیا تھا اس نے۔۔۔

                                -----

احتشام والے آچکے تھے۔۔۔

اور نکاح ہو رہا تھا سب کچھ بھلا کے مرال نے پیپرز پہ سائن کیے تھے۔۔۔

 وہ نہیں جانتی تھی کہ اب اس کی زندگی میں کیا ہونے والا ہے کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

: #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_23💞Second last

جبران نے اس کے سائن کرتے ہاتھ کو دیکھا۔۔۔

تو آج وہ اس سے سہی معنوں میں دور ہو ہی گئی۔۔۔ پہلے تو اسے یہ امید تھی۔۔۔ اسے کہ چلو ان کے درمیان کوئی رشتہ نہ سہی مگر دل کا رشتہ تو ہے نا۔۔۔

 آج وہ رشتہ بھی ختم ہو گیا تھا۔۔۔ جبران نے دل سے اس کی آنے والی زندگی کے لیے دعا کی اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔ جہاں احتشام اور باقی مرد حضرات بیٹھے تھے۔۔۔  وہ احتشام کے پاس گیا۔۔۔

" بہت بہت مبارک ہو احتشام تمہیں " وہ اس کے پاس بیٹھا اور اسے مبارک باد دی احتشام نے صرف سرہلانے پہ اکتفا کیا۔۔۔

" احتشام پلیز میں اپنےاس دن کے رویے کی تم سے معافی چاہتا ہوں پلیز مجھے معاف کردو۔۔۔"

" کردیا معاف اور کچھ"جبران خاموش ہوا پھر بولا۔۔۔

" احتشام مرال اب صرف تمہاری ہے۔۔۔۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ آج تک میں نے اسے چھوا تک نہیں ہے۔۔۔ 

وہ پاک ہے احتشام۔۔۔ میں سب بھول چکا ہوں کہ میرے اور اس کے درمیان کبھی کوئی رشتہ بھی تھا۔۔۔

 پلیز احتشام اسے ہمیشہ خوش رکھنا۔۔۔۔ تم دونوں خوش رہو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے"

" تو تم کا چاہتے ہو؟؟؟"

" میں چاہتا ہوں کہ بس تم اپنے دل کو میری اور مرال کی طرف سے صاف کرلو"

"اوکے" اس نے بس اتنا کہا اور خاموش ہو گیا۔۔۔۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔۔

خیر سے رخصتی کا وقت بھی آپہنچا رافعہ احتشام کے پاس آئیں اور اس سے کہا۔۔۔

" بیٹا مرال اور جبران کے حوالے سے تمہارے دل میں جو بھی سوچ ہے۔۔۔۔ اسے جھٹک دو وہ سب سچ نہیں ہے تمہارا وہم ہے۔۔۔۔

اسے خوش رکھنا احتشام۔۔۔ عورت کو مرد سے عزت پیار اور بھروسے کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا۔۔۔۔

 تم اسے یہ سب دو گے نا تو دیکھنا وہ صرف تمہاری ہو جائے گی۔۔۔ 

وہ اپنے ماضی کو بھول جائے گی احتشام۔۔۔" وہ خاموش رہا رافعہ کچھ دیر اس کے بولنے کا ویٹ کرتی رہیں پھر چلی گئیں۔۔۔

احتشام کو اب کسی کا یقین نہیں تھا۔۔ 

اسے یقین تھا تو صرف اپنی ماں کا جو اسے بہت کچھ سمجھا کے لائیں تھیں پر آج تو وہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ ان کا بیٹا کیا کرے گا۔۔۔۔

                             -----

باہر مرال کی رخصتی ہو رہی تھی۔۔۔ اور جبران اپنے کمرہ تاریک کیے چئیر پہ بیٹھا تھا۔۔۔
 آنسو اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے۔۔۔

 وہ مر چکا تھا شاید پر نہیں اس کی سانسیں تو چل رہی تھیں۔۔۔

اس نے چئیر کی پشت سے اپنا سر اٹھایا اور سر ہاتھوں میں گرا لیا۔۔۔۔

وہ مر کیوں نہیں گیا وہ کیوں زندہ تھا اب تک۔۔۔۔ دل نے سوچا کاش۔۔۔۔ کاش ایک قتل کا حکم ہوتا تو وہ اپنے آپ کو ختم کردیتا۔۔۔

                               -----

اسمہ اور وہاج آج بے حد خوش تھے۔۔۔۔

" اسمہ آج میرے دل کو سکون ملا ہے۔۔۔۔ میری بچی کی زندگی میں خوشیاں تو آئیں۔۔۔ 

اللٰہ میری بیٹی کو بہت ساری خوشیاں نصیب کرے۔۔" انہوں نے دل سے دعا کی اسمہ بھی مسکرائیں۔۔۔

" آمین"

" وہاج مجھے احتشام کی ماں اس شادی سے خوش نہیں لگتیں۔۔۔ کہیں وہ میری بچی کے ساتھ برا سلوک نہ کریں "

" اللٰہ نہ کرے اسمہ آج اتنا اچھا دن ہے۔۔۔ اور تم کیسی باتیں کررہی ہو۔۔۔۔ تمہارا وہم ہو گا اور اگر یہ سچ بھی ہے۔۔۔ تو دیکھنا مرال اپنی محبت اور خدمت سے سب کو اپنا بنالے گی"

" جی کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔۔۔ پر پتا نہیں کیوں دل گھبرا سا رہا ہے۔۔۔۔ مرال کی شادی جب جبران سے ہوئی تھی تب دل ایسے نہیں گھبرایا تھا۔۔۔ جیسے اب گھبرا رہا ہے"

" پہلے بات گھر کی تھی اس لیے دل میں کوئی بھی شبہ نہیں تھا۔۔۔

 اب اس کی شادی خاندان سے باہر ہوئی ہے۔۔۔ اور بالکل انجان لوگوں میں تو اس لیے گھبراہٹ ہو رہی ہو گی"

" جی شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں"اتنے میں باہر سے شور کی آواز آئی تو وہ دونوں چونکے۔۔۔

                               -----

مرال احتشام کے کمرے میں سوچوں میں گم بیٹھی تھی پھر یک گہرا سانس لیا اور خود کو ریلکس کیا۔۔۔۔

 اسے سب بھلانا تھا۔۔۔ وہ اب کسی اور کی تھی۔۔۔۔ اور اس کی زندگی میں پوری ایمانداری سے شامل ہونا چاہتی تھی۔۔۔

وہ اس سے محبت کی دعوے دار نہ تھی۔۔۔۔ لیکن اسے یقین تھا کہ احتشام کی محبت اسے پچھلی محبت بھلا دے گی۔۔۔

اتنے میں احتشام روم میں داخل ہوا وہ سیدھی ہو بیٹھی احتشام اس کے پاس آیا اور بولا۔۔۔۔

" کن سوچوں میں بیٹھی تھیں"

" کچھ نہیں"

" جبران کو یاد کررہی تھیں" مرال نے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔۔۔

" غلط کہہ رہا ہوں کیا میں۔۔۔۔ کیا جبران سے محبت نہیں کرتیں۔۔۔۔ کرتی ہو نا" احتشام نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

" اچھا یہ بتاؤ۔۔۔ گھر آنے کے بعد کتنی بار وہ تمہارے قریب آیا تھا" 

مرال شاکڈ سی اسے دیکھنےلگی۔۔۔ کیا احتشام اسے ایسا کہہ سکتا تھا "

 یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔" وہ شاکڈ سی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ کیا وہ ایسا کہہ سکتا تھا۔۔۔

" کیوں کیا غلط کہا ہے میں نے۔۔۔۔ حیران تو ایسے ہورہی ہو جیسے تم لوگوں کا کوئی راز فاش ہو گیا ہو" مرال اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

" شرم آنی چاہیے آپ کو احتشام کس طرح کی باتیں کررہے ہیں آپ۔۔۔۔"

" کیوں محبت نہیں کرتیں اس سے تم"

" احتشام میں اپنی زندگی کے ہر باب سے آپ کو آشنا کر چکی ہوں۔۔۔۔" احتشام اس کی بات کاٹ کر بولا

" پر اس کےلوٹنےکا نہیں بتایا تم نے۔۔۔ اس لیے نا کہ مجھے بتا دو گی تو میں تمہیں اس سے دور ہو نے کو کہوں گا۔۔۔

اور تم اس سے دور رہ نہیں سکتیں اور وہ وہ بھی تب جب وہ اتنے سالوں بعد آیا ہو"

" آپ مجھ پہ بہتان لگا رہے ہیں احتشام" مرال کی آنکھیں چھلک پڑیں احتشام ہنسا۔۔۔۔

" بہتان۔۔۔۔ یہ بہتان نہیں سچ بیان کررہا ہوں۔۔۔ جانتا ہوں میں جبران جتنا اتاولا تھا تم سے ملنے کو۔۔۔ تمہیں پھر سے پانے کو اور تم۔۔۔۔ تم بھی تو اس سے محبت کرتی ہو۔۔۔ پتا نہیں کب سے تم دونوں نے اتنے سال بعد ایکدوسرے کو دیکھا ہو گا۔۔۔۔ تو کتنی بار صبر کا دامن چھوٹا ہو گا "

" ایسا نہیں ہے احتشام آپ جانتے ہیں ہماری  ڈائیورس کو ایکسال ہو چکا ہے۔۔۔ شرم آنی چاہیے آپ اپنی بیوی پہ اس طرح کے الزام لگا رہے ہیں"

"میں نہیں مانتا "

" تو نہ مانیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔۔۔ آپ کی سوچ کا ہے۔۔۔" وہ پلٹنے لگی کہ احتشام اس کا بازو پکڑ کے روکا۔۔۔

" پچھتا رہی ہو کیا اب؟"

" ہاں" مرال نے سختی سے کہا۔۔۔

" ہاں جو عورتیں اپنے نفس پہ قابو نہیں پاتیں نا وہ یوں ہی پچھتاتی ہیں۔۔۔۔ نہ وہ یہاں کی رہتی ہیں نا وہاں کی پتا ہے۔۔۔۔ 

ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ 

چلو اب تمہیں ہی دیکھ لو۔۔۔ اپنے شوہر کے آنے پہ تم نے اپنے نفس کو نا سنبھالا تو۔۔۔ دیکھو جبران کا بھی جب تم سے دل بھرا تو اس نے تمہیں چھوڑ دیا۔۔۔ اور جب تم شادی ہو کے یہاں آئیں تو۔۔۔"

 احتشام نے جیب سے ایک کاغذ نکالا۔۔۔ اور پین سے اس پہ سائن کیے۔۔۔۔ اور اس کےہاتھ میں تھمایا اور اس کی آنھوں میں دیکھ کر بولا۔۔۔۔

" میں احتشام حیدر اپنے پورے ہوش و ہواس میں اپنی بیوی مرال کو طلاق دیتا ہوں" 

مرال نے اپنے کانوں سے اسکے جملے سنے۔۔۔ ایسا لگا جیسے جسم سے روح نکل گئی ہو۔۔۔

 وہ سکتہ زدہ سی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کی زندگی میں دو مرد آئے تھے۔۔۔

اور ان دونوں نے اسے سنوارنے کے بجائے بکھیرا تھا۔۔۔

 بنا کسی غلطی کے کیا آدم کے بیٹے اتنے سنگدل ہیں کہ حوا کی بیٹی کو روندتے ہوئے انہیں ذرا رحم نہیں آتا۔۔۔۔

 احتشام نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا۔۔۔

" اب چلی جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ یہ طلاق کے پیپرز ہیں سائن کردیے ہیں میں نے۔۔۔ تم لوگوں نے کیا سوچا تھا کہ جبران کا پھینکا ہوا احتشام کبھی اٹھائے گا"
 
مرال ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ جیسے یقین کرنا چاہ رہی ہو کہ یہ سچ بھی ہے یا نہیں۔۔۔

اسے لگا کہ ہاں اب تو وہ مر ہی جائے گی زندہ رہنے کو بچا ہی کیا ہے اب۔۔۔

" کیوں کھڑی ہو جاؤ یہ بناؤ سنگھار آج کی رات جبران کے لیے رکھ لو جاؤ" مرال اس کی بات سن کے ہوش میں آئی۔۔۔ 

وہ اب بھی اس پہ بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کررہا تھا۔۔۔ وہ یہ سب کیسے سن سکتی تھی۔۔۔ وہ اس کے پاس آئی اور پھر ایک کھینچ کے تھپڑ اس کے منہ پہ جڑا۔۔۔۔

" آئیندہ کسی لڑکی کے اوپر الزام لگانے سے پہلے کبھی یہ سوچ لینا۔۔۔۔ کہ جب تمہاری اولاد پہ کوئی اتنے واہیات اور گھٹیا الزام لگائے گا تو تم پہ کیا بیتے گی"

 وہ بھیگی آنکھوں سے مگر سختی سے بولی وہ چار سال پہلے کی مرال نہیں تھی۔۔۔

" میں کل بھی پاک تھی۔۔۔ میں آج بھی پاک ہوں۔۔۔ گھٹیا لوگوں کو سب گھٹیا ہی نظر آتے ہیں۔۔۔ 
تم تو مجھ سے محبت کے دعوےدار تھے نا۔۔
جہاں اعتبار کی بات آئی وہیں محبت بھی ختم۔۔۔

ہاں کرتی تھی میں اس سے محبت اور اب بھی کرتی ہوں۔۔۔ ایک نے بھروسہ کیا پر محبت اور عزت نہ دے سکا۔۔۔ 

مگر اس کی ایک اچھی بات بتاؤں۔۔۔ جب میں وہ میرا محرم تھےنا۔۔۔ تب بھی اس نے مجھ پہ شک نہیں کیا۔۔۔ 

وہ مجھے چھوڑناچاہتا تھا۔۔۔ پر جھوٹ کے طور پہ بھی اس نے اس لفظ کو نا چنا۔۔۔

اور دوسرا مرد میری زندگی میں تم آئے۔۔۔

 تم نے مجھ سے صرف محبت کی۔۔۔صرف محبت۔۔۔۔

 اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ پر پتا ہے یہاں سے جانے کے بعد۔۔۔۔ نہ میں اس آدمی کے پاس جاؤں گی نا تمہارے پاس آؤں گی۔۔۔

 کیونکہ تم دونوں مردوں نے مجھے بہت بے دردی سے توڑا ہے" اور کہہ کر چلی گئی۔۔۔

                     -----

شور کی آواز سن کے وہ دونوں باہر آئے تو دونوں کے قدموں کے نیچے سے ذمین ہی نکل گئی۔۔۔۔

 مرال دلہن بنی کھڑی تھی اور رافعہ اور نشاء مسلسل اس سے پوچھ رہی تھیں۔۔۔۔

 مگر وہ کوئی جواب نہیں دے رہی تھی اسمہ اس کے پاس آئیں اور اسے گلے لگایا۔۔۔

" مرال۔۔۔ مرال۔۔۔ میرا بچہ مرال یہاں۔۔۔۔یہاں کیوں ہے۔۔۔ بیٹا تمہیں تو وہاں۔۔۔۔ وہاں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ تم یہاں کیوں۔۔۔" وہ اس کا چہرہ تھام کے پوچھ رہی تھیں پر جواب ندارد۔۔۔۔

اتنے میں جبران اور نمیر بھی آگئے دونوں ہی مرال کو دیکھ کے شاکڈ رہ گئے۔۔۔

" میرو۔۔۔بتاؤ نا میرو۔۔۔" نشاء نے روتے ہوئے پوچھا نمیر آگے بڑھا۔۔۔

" آپی کچھ تو بولو۔۔

آپی" مرال کے ہاتھ سے ایک کاغذ گرا سب چونکہ۔۔۔

 نمیر نے کاغذ اٹھا کے دیکھا اور سکتے میں آگیا۔۔۔

" کیا لکھا ہے اس میں نمیر" اسمہ نے روتے ہوئے پوچھا۔۔۔

وہ خاموش تھا جبران نے اس سے کاغذ چھینا اور دیکھا۔۔۔۔ اس کی حالت بھی نمیر سے جدا نہ تھی۔۔۔ اس نے سر اٹھا کے ابتہاج اور وہاج کو اور پھر باقی خواتین کو دیکھا۔۔۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔

" مرال۔۔۔ کو۔۔۔ طلاق۔۔۔۔" سب سکتے میں آگئے۔۔۔

" ہائے میری بچی۔۔۔۔۔ برباد ہو گئی۔۔۔۔" اسمہ اور رافعہ زور زور سے رونے لگی ایک دم وہاج دل میں ہونے والے درد سے ایک دم نیچے گرے سب ان کی طرف بھاگے۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔

: #روح_کا_مکین💞

#از_بینا_خان💞

#قسط_24💞

#قسط_آخری💞           Last epi

وہاج صاحب کے انتقال کو آج تین دن ہو چکے تھے۔۔۔

 اور مرال وہ تو اس دن سے ہی خاموش تھی۔۔۔ بولی تھی تو بس ایک بار ہوسپٹل میں اپنے بابا کے سامنے اور بس۔۔۔۔

سب نے اس کو کچھ بلوانے کی  رلانے کی بہت کوشش کی۔۔۔

 مگر وہ نہ روئی۔۔۔ نا کچھ بولی۔۔۔ وہ تین دن سے ایک زندہ لاش کی طرح پڑی تھی۔۔۔

رافعہ اس کے پاس آئیں وہ چپ چاپ لیٹی دور خلاؤں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔

" مرال بچے۔۔۔۔" انہوں نے اسے گلے لگایا " 

مرال جان اٹھو میری بیٹی۔۔۔" انہوں نے اسے پیار کیا مرال نے آنکھیں جھپکیں۔۔۔ آنسوؤں کا ایک ریلہ اس کی آنکھوں سے بہنے لگا وہ اٹھی۔۔۔

" بابا۔۔۔ بابا مم۔۔۔ میں مر گئی با۔۔بابا آجائیں۔۔۔ بابا میں۔۔۔ بابا واپس آجائیں۔۔۔ بابا مم۔۔۔میں اکیلی۔۔۔اکیلی۔۔۔بابا" وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنے بابا کو بلا رہی تھی۔۔۔

 چیخ رہی تھی۔۔۔" بابا۔۔۔ سمیٹ لیں نا واپس آجائیں۔۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے سنبھال لیں نا۔۔۔۔ ایک بار۔۔۔ بابا۔۔۔"

رافعہ اور اسمہ اسے دیکھ دیکھ کے رو رہی تھیں اسمہ نے آگے بڑھ کے اسے گلے لگایا۔۔۔۔

" ماما۔۔۔ ماما بابا کہتے تھے نا کہ ان کے بعد اندھیرا ہے ہاں۔۔۔۔ دیکھیں ہو۔۔ہو گیا اندھیرا۔۔۔ ماما۔۔۔بابا کو بول دیں نا کہ ایک۔۔ ایک بار آجائیں"

" میری بچی بس۔۔۔" ماما اسے چپ کروا رہی تھی۔۔۔

 مگر اس کے آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔

                              -----

دن یوں ہی گزر رہے تھے زندگی کا تو کام ہے چلنا اور وہ چل رہی تھی۔۔۔

 مگر وہ رک گئی تھی۔۔۔ وہ بہت کم بولنے لگی تھی۔۔۔ نا زیادہ بولتی نا کسی سے زیادہ بات کرتی۔۔۔

ابتہاج صاحب کے کہنے پر اس نے آفس پھر سے جوائن کرلیا تھا۔۔۔

چھہ ماہ ہو گئے تھے۔۔۔ وہاج صاحب کو گزرے ہوئے۔۔۔

اس دوران نشاء کا بھی سادگی سے نمیر سے نکاح کردیا گیا تھا۔۔۔ کیونکہ اسمہ کو ہمیشہ سے نمیر کے لیے نشاء پسند تھی اور نمیر کو بھی۔۔۔۔

جبران اس سے شرمندہ شرمندہ سا رہنے لگا تھا۔۔۔ وہ سمجھتا تھا کہ۔۔۔ اس کی وجہ سے مرال کی زندگی پھر سے تباہ ہوئی۔۔۔۔ لیکن وہ اس سب کا ذمہ دار نہ تھا۔۔۔ احتشام کی سوچ کا قصور تھا۔۔۔

مرال بھی اب اس سے دور رہتی تھی۔۔۔۔ جہاں وہ آتا وہاں سے اٹھ جاتی۔۔۔ اتنا کچھ ہو چکا تھا اس کی لائف میں وہ اب کس پہ اعتبار کرتی اس کو ہر کوئی دھوکے باز لگتا۔۔۔۔

رات کے کھانے کے بعد وہ چن میں کھڑی چائے بنا رہی تھی کہ جبران چلا آیا۔۔۔

 وہ آج لیٹ گھر آیا تھا۔۔۔ رات کے کھانے پہ بھی وہ نا تھا۔۔۔۔  

اور ابھی بھی وہ یہی سمجھا تھا کہ نشاء ہے کچن میں۔۔۔ لیکن مرال کو دیکھ کے اس کے قدم رکے۔۔۔

 مرال اپنی ہی سوچوں میں گم جبران کی آمد سے بے خبر کھڑی تھی۔۔۔ اب زیادہ تر وہ یوں ہی کھوئی کھوئی پائی جاتی۔۔۔۔

جبران نے ابلتی ہوئی چائے کو دیکھا اور تیزی سے آگے بڑھ کے چولہا بند کیا۔۔۔۔ مرال یک دم چونکی اور دور ہوئی۔۔۔۔

" ابھی چائے گر جاتی " مرال نے چائے کو دیکھا جو بالکل برتن کے کنارے پہ تھی۔۔۔۔

وہ آگے بڑھی اور خاموشی سے چائے کے لیے کپ نکالنے لگی۔۔۔۔ جبران کھڑا اس کی تمام حرکات و سکنات نوٹ کررہا تھا۔۔۔۔

" کھانا مل سکتا ہے؟" جبران بولا۔۔۔

 مرال خاموش سے اس کے لیےکھانا نکالنے لگی۔۔۔

 کھانا ٹیبل پہ رکھ کے وہ کپوں میں چائے نکالنے لگی۔۔۔۔

" مرال کیا ہو گیا ہے تمہیں اس طرح کیوں کھوئی کھوئی رہتی ہو" وہ جانتا تھا مگر وہ اس کی بھڑاس نکلوانا چاہتا تھا۔۔۔۔

" یوں خاموش رہ کر تم سب گھر والوں کو تکلیف دے رہی ہو۔۔۔۔ 

پلیز مرال" مرال نے کچھ نا کہا اور چائے لے کر باہر چلی گئی۔۔۔

                ------

جبران اسمہ کے پاس آیا وہ بیٹھیں سبزیاں کاٹ رہی تھیں۔۔۔

 وہ ان کے پاس آیا اسمہ نے نظر اٹھا کے اسے دیکھا۔۔۔ اور پھر کام میں لگ گئیں۔۔۔ جبران ان کے پاس نیچے بیٹھا اسمہ نے کوئی دھیان نہ دیا۔۔۔

" چاچی۔۔۔" انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔

" چاچی میں گنہگار ہوں آپ کا اور مرال کا۔۔۔۔ میں آپ کی بیٹی کے دکھوں کی بھر پائی نہیں کرسکتا۔۔۔۔

 آپ کو آپ کی بیٹی کو بہت تکلیف دی اپنی ضد میں۔۔۔۔ آپ کے آپ کی بیٹی کے ساتھ بہت غلط کیا۔۔۔ ہو سکے تو معاف کردیں۔۔۔۔ میں جانتا ہوں آپ کے لیے یہ آسان کام نہیں ہے پر۔۔۔۔ چاچی بھٹک گیا تھا میں معاف کردیں"

" بھٹک گئے تھے۔۔۔۔ تمہارے یوں بھٹکنے نے میری بیٹی کو تباہ و برباد کردیا۔۔۔۔ میری مرال کو دیکھ رہے ہو نا تم۔۔۔ دیکھی اس کی حالت۔۔۔" ان کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔

" معاف کردوں تمہیں۔۔۔۔ میری بیٹی کو پہلے جیسا کردو میں معاف کردوں گی تمہیں۔۔۔۔ بتاؤ کرسکتے ہو"

" میں وعدہ نہیں کرتا۔۔۔۔ مگر کوشش ضرور کروں گا۔۔۔ کہ آپ کی بیٹی کو پھر سے پہلے جیسا کردوں۔۔۔۔ کیا اس سے پہلے آپ میری ایک بات مانیں گی" اس نے پوچھا۔۔۔

" میں آپ سے آپ کی مرال کا ہاتھ مانگتا ہوں۔۔۔ اپنے دل کی پوری رضامندی کے ساتھ" اس کے کہنے پر اسمہ شاکڈ سی اسے دیکھنے لگیں۔۔۔

" تمہیں یہ سب مذاق لگتا ہے۔۔۔۔ شادی کوئی مذاق نہیں ہے۔۔۔ جو جب دل چاہے تب کردی جائے۔۔۔۔ تم نے کھیل سمجھا ہوا ہے زندگی کو" اسمہ غصہ ہوئی۔۔۔

" نہیں چاچی۔۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے صرف ایک بار۔۔۔ ایک بار بھروسہ کرلیں"

" جاؤ یہاں سے جبران۔۔۔۔ میں نے اس بارے میں تم سے کوئی بات نہیں کرنی"

" چاچی پلیز۔۔۔۔ احتشام پہ بھی تو بنا سوچے سمجھے بھروسہ کیا تھا نا ایک بار مجھ پہ بھی کرلیں"

" تم پہ بھی تو کیا تھا۔۔۔ تم نے کیا کیا۔۔۔؟" جبران کا سر جھکا۔۔۔

" جانتا ہوں چاچی۔۔۔۔۔ پر صرف آخری بار۔۔۔ "

" اور ایک بار پھر اپنی بیٹی کی زندگی داؤ پہ لگا دوں"

" نہیں چاچی اس بار آپ مجھے اپنی امیدوں پہ پورا اترتا پائیں گی۔۔۔۔ مرال کو چھوڑنا میری بےوقوفی تھی۔۔۔۔

پر اب ایسا نہیں ہو گا۔۔۔۔ میں اسے بے حد خوش رکھوں گا۔۔۔" اسمہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

 جیسے اس کی باتوں کا یقین کرنا چاہ رہی ہوں۔۔۔

" میں وعدہ کرتا ہوں چاچی۔۔۔۔ جو عزت محبت اور مان میں اسے کبھی نہیں دے سکا۔۔۔۔ جس کی وہ حقدار تھی۔۔۔۔ وہ سب اسے دوں گا صرف ایک بار" وہ ان کے ہاتھ تھام کے یقین دلاتا بولا۔۔۔۔

" میں مرال سے بےحد شرمندہ ہوں۔۔۔ اس کی تباہی کا ذمہ دار میں ہوں۔۔۔۔ اب میں ہی اس کی خوشیوں کی ذمہ داری لیتا ہوں"

                  -----

" ماما پلیز اب میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔ لوگوں کے بہت بھیانک روپ دیکھیں ہیں میں نے۔۔۔۔ اب ان پہ اعتبار ممکن نہیں" اسمہ نے اس سے بات کی تو وہ بگڑ گئی۔۔۔۔

" بیٹا جبران نے مجھے یقین دلایا ہے کہ۔۔۔"

" یہ آپ کہہ رہی ہیں۔۔۔ آپ ماما" وہ حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔

" میں جانتی ہوں مرال پر۔۔۔"

" کیا پر۔۔۔۔ آپ کو شادی ہی کرنی ہے نا۔۔۔ تو نمیر اور نشاء کی کروادیں۔۔۔۔ نکاح تو ان کا ہو ہی چکا ہے"

" مرال بیٹا تم بات تو سنو"

" نہیں ماما۔۔۔ میں اب کسی کی بات نہیں سنوں گی۔۔۔ 

کھلونا ہوں نا میں تو۔۔۔۔ جو آتا ہے کھیلتا ہے۔۔۔۔ پھر توڑ کے چلا جاتا ہے۔۔۔۔ ماما انسان ہوں میں بھی کیوں نہیں سمجھتے آپ لوگ"

" تم تو جبران سے محبت کرتی ہو نا تب بھی منع کررہی ہو"

" کرتی ہوں ماما۔۔۔" وہ نم آنکھوں سے بولی " پر پتا ہے محبت اور اعتبار میں بہت فرق ہے ماما۔۔۔

 مجھے اعتبار نہیں اس پہ"

" ایک بار اور سہی مرال۔۔۔۔ ایک بار اعتبار کرلو"

" آپ کیا سمجھتی ہیں ماما۔۔۔۔ اعتبار کیا خود سے کیا جاتا ہے۔۔۔۔ میں کوشش بھی کروں نا۔۔۔ تب بھی مجھے اعتبار نہیں آتا اب اس پہ۔۔۔۔ نہیں آتا"

" اب پلیز مجھ سے آپ اس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گی" وہ کہہ کر چلی گئی۔۔۔۔

                  ------

آج اس نے آفس کی چھٹی کی تھی۔۔۔

 رافعہ اور اسمہ کسی کی عیادت کو گئی تھی۔۔۔۔۔نشاء اپنے کمرے میں تھی۔۔۔۔ سارہ اور ارسہ یونی گئی ہوئی تھیں۔۔۔۔ مرال کچن میں مصروف تھی کہ جبران چلا آیا۔۔۔

" مرال انکار کی وجہ پوچھ سکتا ہوں۔۔۔" وہ چپ رہی۔۔۔۔۔

" مرال۔۔۔۔" اس نے پھر پکارا۔۔۔

" کیا مسئلہ ہے آپ کو۔۔۔۔ جب دیکھو مجھے مخاطب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔

 مجھے نہیں پسند آپ سے بات کرنا۔۔۔۔ پھر کیوں کرتے ہیں مجھ بات۔۔۔۔ 

اور رہی بات انکار کی تو میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں" وہ پھر سے برتن دھونے لگی۔۔۔

" اور اگر میں کہوں کہ میں تم سے بےحد محبت کرتا ہوں تمہارے بغیر رہ نہیں سکتا تو" مرال کا کام کرتا ہاتھ ایک لمحے کو رکا۔۔۔۔ اور پھر اپنے کام میں لگ گئی۔۔۔

" مجھے فرق نہیں پڑتا" جبران نے آگے بڑھ کے اس کا ہاتھ تھاما۔۔۔

" نہیں کرتیں؟؟؟" وہ اسے کمزور کررہا تھا۔۔۔

" ہاتھ چھوڑیں میرا" وہ پھر بھی اس کا ہاتھ پکڑا رہا۔۔۔

" میں نے کہا ہاتھ چھوڑیں" اب کی بار وہ چیخ کے بولی۔۔۔

" اگر میرے ساتھ یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔۔۔۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب آپ کا چانس ہے۔۔۔۔ سمجھتے کیا ہیں آپ۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیا سمجھتے ہیں آپ مجھے۔۔۔۔ 

محبت کا واسطہ دیں گے۔۔۔۔ اور میں آجاؤں اور جب بھی دل چاہے گا۔۔۔ چھوڑ دیں گے کیا سمجھا ہے آپ نے مجھے" وہ  بےتحاشا رونے لگی۔۔۔۔۔

" آپ خود رستے سے ہٹ گئے تھے نا۔۔۔۔ تو اب کیوں میرے رستے میں آرہے ہیں" وہ رو رہی تھی۔۔۔۔

یہ وہ شخص تھا جس کے سامنے وہ پگھل جاتی تھی۔۔۔ بھلے وہ سو بار اس کو چھوڑتا۔۔۔ مگر وہ اس کی ایک آواز پہ آجاتی۔۔۔۔ وہ آج تک سمجھ نہ سکی تھی کہ۔۔۔۔ اس شخص میں ایسا کیا ہے جو اسے بےبس کرتا ہے۔۔۔۔

" تمہاری خوشی کے لیے ہٹ گیا تھا۔۔۔۔ اور آج تمہاری خوشیوں کے لیے ہی تمہیں اپنانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے۔۔۔ تم ناجانے کب سے میری روح کی مکین ہو۔۔۔۔ میرے دل کی مکین ہو ۔۔۔۔ یہ میں خود بھی نہیں جانتا۔۔۔۔

 کب سے اور جب سمجھ آئی نا۔۔۔ تو میں تم سے بہت دور ہو گیا تھا۔۔۔۔ اور تم مجھ سے۔۔۔۔ میں یہاں آیا بھی تمہارے لیے۔۔۔۔ تمہارے رستے سےہٹا بھی تمہارے لیے۔۔۔ 

اور اب آنا چاہتا ہوں تمہارے لیے۔۔۔۔" جبران مرال کا ہاتھ تھام کے بولا وہ رونا بھول کر خاموشی سے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

" تم میری زندگی نہیں۔۔۔۔ میری روح کا حصہ ہو۔۔۔۔ میری جان ہو ۔۔۔۔ بھلا روح کے بغیر بھی کوئی زندہ ہوتا ہے۔۔۔۔ بھلا جان کے بغیر کوئی زندگی ہوتی ہے۔۔۔۔" اس نے مرال کی بھیگی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔ اور انگلیوں کی پوروں سے آنسو صاف کیے۔۔۔۔

" میں ان آنکھوں میں خوشیاں دیکھنا چاہتا ہوں مجھے میری مرال چاہیے۔۔۔۔دو گی؟؟؟" جبران نے اس سے پوچھا مرال اس کی باتوں پہ دل سے ایمان لا رہی تھی اس کی بات پہ اس نے کہا۔۔۔۔

" آپ احتشام کی بات سچ کرنا چاہ رہے ہیں"

" جب میں ہوں نا تو تمہیں کسی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ اب مرال کے پاس جبران ہے وہ اکیلی نہیں ہے" مرال مسکرائی۔۔۔

" بولو۔۔۔۔ چاچی کو تمہاری ہاں پہنچادوں؟؟؟" وہ بھی مسکرا دیا ایک دم جیسے سارے گرد کے بادل چھٹ گئے تھے مطلع اب صاف تھا۔۔۔۔

مرال جھجکی " میں خود بتادوں گی آپ جائیں"

" کیوں....؟؟؟ 

تم مجھے بتاؤ"

" آپ جائیں۔۔۔ مرال بھیگی آنکھوں سے ہنستی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔

جبران ڈھیٹ بنا اس کے جواب کے انتظار میں میں تھا کہ۔۔۔

" میرو میں آجاؤں۔۔۔۔" نشاء کی شرارت بھری آواز آئی۔۔۔۔

 مرال چونکی تو دروازے پہ نشاء کو ایستادہ پایا۔۔۔۔

" تمہیں ابھی ہی آنا تھا بولا تھا نا میں نے تمہیں کہ بتادوں گا"

" نشاء تم۔۔۔۔ بھی؟" مرال حیرت سے بولی۔۔۔

" ہاں میں بھی۔۔۔۔ کیونکہ تم دونوں کی راز دار تو میں ہی ہوں نا۔۔۔

 تو میں نے ہی کہا تھا بھائی کو موقع اچھا ہے چوکا لگا دیں۔۔۔ پر بھائی نے تو چھکا لگا دیا واہ" جبران ہنسا مرال جھینپ گئی۔۔۔

                             -----

مرال میں اپنی ذات کو لے کے جو کمپلیکس تھا۔۔۔ وہ جبران کی محبت نے آہستہ آہستہ ختم کردیا تھا۔۔۔

 وہ پہلے سے زیادہ حسین ہو گئی تھی۔۔
 
شادی کے بعد وہ دونوں اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے۔۔۔۔ کیونکہ جبران کی محنت کی وجہ سے ان کے کمپنی کی ایک برانچ اسلام آباد میں بھی کھلی تھی۔۔۔۔

 اور وہ اب ادھر کا بزنس سنبھال رہا تھا۔۔۔

جبران اور مرال کی شادی کو پانچ سال گزر گئے تھے۔۔۔۔

اور ان دونوں کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔۔۔ جبران خدا کا لاکھ شکر کرتے نا تھکتا تھا کہ۔۔۔

 جس نے مرال کو اس کی زندگی میں پھر سے شامل کردیا۔۔۔۔ دن بہ دن ان کی محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔

کیونکہ وہ اس کی روح تھی اس کی جان تھی اور اب ان کی زندگی محبت سے پُر تھی۔۔۔۔

💞💞💞The End........!!!!!!! 💞💞💞💖💖💖

Baca juga

Post a Comment