This blog is all about Urdu Novel, urdu poetry, ghazal and short stories of love, sad and romance.
Dulhan full novel romnatic and love story all episode in urdu/ Dulhan novel all episode in Urdu
Online lecture
0 Komentar
Dulhan
..
___ 👸دلہن ___
ناصر حسین
قسط 1
میرا لیپ ٹاپ کہاں ہے. ..؟
افراہیم نے اپنی نئی نویلی دلہن سے پوچھا جو دو دن پہلے زبردستی اس کے سر پہ تهوپ دی گئی تھی. .........
جی...وہ..وہ..کیا ہوتا ہے اس نے حیرانی سے الٹا سوال کر دیا..وہ اس کی حیرت پہ مزید حیران ہوا.....
لیپ ٹاپ....مطلب وہ جس پہ بیٹھ کر میں رات کو اپنے آفس کا کام کرتا ہوں.....اس نے دانت پیس کر کہا.
اچها ....وہ....وہ..تو ہم نے اوپر سامان والے کمرے میں ڈال دیا...معصومیت سے کہا گیا. ........
کیا...میرا لیپ ٹاپ تم نے سٹور روم میں ڈال دیا. ..کیوں. .حیرت کے ساتھ ساتھ اسے غصہ بهی تها....
وہ جی ہم کو لگا ...وہ آپ کے کام کی نہیں ہے ایسے فالتو میں یہاں پڑی ہوئی ہے اس لیے ہم اسے اوپر ڈال آئے......اس نے ڈرتے ڈرتے کہا جب کہ افراہیم کا بی پی اوپر جا چکا تها ..اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تها وہ اس لڑکی کا کیا کرے.....
جاو ابهی جا کر میرا لیپ ٹاپ لے آو.....اس نے غصے کو کنٹرول کر کے آرام سے کہا....جبکہ وہ ایسے غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ. .اس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کر اپنا غصہ باہر نکالنے کی کوشش کی اور بے بسی سے سر تهام کر بیڈ پر بیٹھ گیا.....
یہ بانی نامی آفت دو دن پہلے ہی اس کی زندگی میں آئی تهی جسے دادی پوری دنیا ڈهونڈ کر نہ جانے کہاں سے پکڑ کر لائیں تهیں..اتنی بڑی دنیا میں اتنے بڑے پاکستان میں دادی کو اپنے ہونہار پڑهے لکهے ہینڈسم پوتے کے لیے یہی ایک لڑکی ملی تهی.. جس نے اپنی زندگی میں لیپ ٹاپ کا نام تک نہیں سنا..جو انگریزی تو دور کهبی اردو سکول بھی نہیں گئی....
.پتا نہیں دادی کو اس بلا میں ایسا کیا نظر آ گیا جو انہوں نے اس جاہل لڑکی کو اس کے سر پر تهوپ دیا...اسے گونگی مٹی کی مادهو ٹائپ دیسی گاوں کی لڑکیوں سے اسے ہمیشہ سے چڑ تهی.. .اس نے اپنی زندگی میں کئی خوبصورت خواب دیکهے تهے اگر اس نے کسی پرستان کی پری کے خواب نہیں بهی دیکهے تو اس نے اس دیہاتی لڑکی کے بارے میں بهی تو کهبی خواب میں بھی نہیں سوچا...اس نے تو اپنی شادی کے بارے میں بهی ابهی اچهے سے سوچنا بهی شروع نہیں کیا تها اور اگر سوچتا بھی تب بهی یہ لڑکی اس کی سوچ میں کهبی نہ ہوتی..وہ ایک ایسی ماڈرن اور پڑهی لکهی بیوی کی توقع کر رہا تها جسے کسی کے سامنے متعارف کراتے ہوئے گردن نہ جهک جائے بلکہ انسان کے اندر فخر پیدا ہو جائے.. .اور یہ لڑکی اس کے ہر خواب کو چکنا چور کرتی اس کے گهر پہ پورے حق سے قبضہ جمانے آ گئی..اور قبضہ جمانے کا حق کس نے دیا اس کی اپنی سگی دادی نے. .........
یہ عجیب و غریب لڑکی اس کے سر پر تهوپ کر اس کی دادی محترمہ عمرے کے لیے نکل گئیں بقول ان کے اس کی شادی ہی ان کی راہ کی رکاوٹ تهی جو اب دور ہو گئی ان کی رکاوٹ تو دور ہو گئی مگر انہوں نے اپنے راستے کا پتهر اٹها کر سیدھا اس کے سر پر دے مارا........
میں اپنے پوتے اپنے افراہیم کے لیے چاند سے خوبصورت پری جیسی دلہن لاوں گی...اس کی دادی ہمیشہ یہی کہا کرتی تهی اور وہ ہمیشہ دادی کی اس بات پہ مسکرا دیتا تها لیکن زندگی میں پہلی بار اسے دادی کی یہ بات یاد کر کے صرف غصہ آ رہا تها.دادی نے ساری زندگی اپنے یتیم پوتے کی پرورش کر کے اپنے سبهی قرضے ایک ساتھ وصول کر ڈالے .جو محبت کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتی تهیں کہ اتنی محبت تو میں اپنے کسی نواسے یا کسی اور پوتے پوتیوں سے نہیں کرتی جتنی محبت اپنے افراہیم سے کرتی ہوں..دادی کی اگر یہ محبت تهی تو اللہ جانے ان کی نفرت کی کیا حد ہو گی.....پتا نہیں انہوں نے یہ کیسی محبت نبهائی اپنے لاڈلے پوتے کے ساتھ..ہاں اس نے خود انہیں یہ اختیار دیا تها کہ وہ اپنی پسند کی بہو تلاش کر کے لائیں اور یہ اختیار بھی اس نے ان کے رونے اور واویلا مچانے پہ ہی دیا تها ..اس نے کتنے بهروسے کے ساتھ اپنی زندگی کا ساتھی چننے کا حق انہیں دیا تها اور انہوں نے دنیا جہاں کی ان پڑھ جاہل لڑکی اس کے سر پر مسلط کر دی...یہ انہوں نے سہی نہیں کیا تها اگر وہ ماڈرن بہو نہیں بهی چاہتی تهیں تو انہیں کوئی بھی لڑکی انتخاب کرنے کا حق بھی نہیں تھا. پتا نہیں کس گاوں سے وہ اس کے لیے یہ لڑکی پکڑ کر لائی تهی اور اس پہ حکم صادر کر کے بولیں...یہ لڑکی اب تماری بیوی ہے اور اسی کے ساتھ تمہیں اپنی پوری زندگی گزارنی ہے............
تماری ہونے والی دلہن تو دنیا کی سب سے اچھی لڑکی ہے..ایسی بہو تو تمہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملے گی..وہ جس علاقے میں رہتی ہے وہاں کی سب سے اچھی لڑکی ہے...یہ کچھ مخصوص جملے شادی سے پہلے دادی اس سے کہا کرتی تهی مگر اس وقت دادی کی ان باتوں کا مطلب وہ نہیں سمجھ سکا اگر سمجھ جاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ وہ اچھی ہے خوبصورت ہے تو صرف دادی کے اپنے حساب سے اور ستر سالہ پرانی دادی اور آج کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے. ................
وہ ایک کرسی لیے اندر داخل ہوئی وہ حیرت سے اٹھ کر کهڑا ہو گیا....
میرا لیپ ٹاپ کہاں ہے...اس نے بھرپور حیرانی سے پوچھا. ....
یہی تو ہے جی...اس کی زوجہ محترمہ نے نگاہیں نیچے جهکا کر با ادب طریقے سے جواب دیا.....
یہ...یہ..تو کرسی ہے...اس کا ایک بار پھر خون کهولنے لگا.....
آپ ہی تو بولے تهے جس پہ بیٹھ کر ہم کام کرتے ہیں. .اس کی یہ معصومیت اس کے چودہ طبق روشن کر گئی..اس نے غصے سے آنکھیں بند کیں...
مس بانی صاحبہ یہ اس پہ میں ایسے بیٹھ جاتا ہوں..وہ دانت پیس کر کرسی پر بیٹھ گیا وہ موٹی موٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تهی....
اور اس پہ بیٹھ کر جو چیز میں سامنے ادهر رکهتا ہوں اور جس پہ ایسے ایسے انگلیاں چلاتا ہوں میں اس کی بات کر رہا ہوں ..اس نے مکمل طور پر اسے لیپ ٹاپ کا نقشہ کھینچ کر بتایا شاید اس طرح اس کی موٹی عقل میں کوئی بات جاتی......
وہ مشین. ...؟. ..وہ اونچی آواز میں بولی..اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی شکر ہے کسی طرح تو سمجھی وہ کرسی سے کهڑا ہو گیا....
ہاں جی ....وہ...مشین...وہ اسی کے انداز میں بولا. .
وہ تو جی ہم نے سکهانے کے لیے اوپر رکھ دیا ہے. .اس نے اتنی آسانی سے اپنا جملہ مکمل کیا جیسے موسم کا حال سنا رہی ہو محترمہ ...
جبکہ اس کا حال ایسا تها جیسے اسے کسی نے اندھے کنویں میں ڈال دیا ہو....
سکهانے....کے لیے. ...لیکن کیوں.....؟؟؟؟..اس بار وہ زور سے چلایا..اس کے چلانے پہ وہ بہت گهبرا گئی...
وہ جی...بہت میلا ہو گیا تها ..تو ہم نے سوچا اسے دهو دیں...جیسے وہ کوئی رومال دهونے کی بات کر رہی ہو....
کیا...؟.تم نے لیپ ٹاپ دهو دیا ...؟..تم...تمارا ..پاگل....یہ...
اور اس کا بلڈ پریشر دو سو کراس کر چکا تها. غصے سے اس کا منہ لال ہو چکا تها وہ سمجھ نہیں پا رہا تها اس بهولی بهالی لڑکی کا کیا کرے جو دو دن پہلے دادی جی اسے تحفے میں سونپ کر گئیں تهیں. .ایک بار اس کا دل چاہا کھینچ کر اس کے منہ پہ تماچا مارے ..لیکن خود پہ قابو رکهتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا...............
وہ دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو صاف کرتے کرتے بیڈ پہ بیٹھ گئی...یہ اس کا شوہر تها جس کے ساتھ دو دن پہلے اس کی شادی ہوئی تھی. اس کے بہت محبت کرنے والے ماموں نے اپنی یتیم بھانجی کو ایک پڑهے لکهے بڑے گهرانے میں بهیج دیا مگر ماموں اس کا رشتہ کرتے وقت یہ بهول گئے کہ بڑے ڈگریوں والے یہ بڑے لوگ اپنے لیے کسی بڑی جیون ساتھی کا خواب دیکهتے تهے اس جیسی ان پڑھ گوار کے نہیں. ......
شادی سے پہلے اس کی ساری سہیلیاں کہا کرتی تھیں. .ہائے بانی تیرا شوہر تو بڑا گبرو جوان ہے ایک دم فلمی ہیرو جیسا..مگر ان بیچاریوں کو کیا پتا کہ فلمی ہیرو جیسا دکهنے والا وہ گبرو جوان اپنے لیے کسی فلمی ہیروئین کی ہی توقع کیے بیٹها تها...اس کے خوابوں میں اس کی زندگی میں بانی جیسی جاہل لڑکی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا. ..وہ تو زبردستی گهس آئی اس کی زندگی میں. شادی ایک لڑکی کی زندگی کا سب سے خوبصورت خواب ہوتا ہے.. اس نے اپنی آنکھوں میں اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ نئی زندگی کے کئی خواب سجائے تهے..لیکن اس گهر میں آ کر اسے پتا چلا خواب اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے. جب اس نے پہلی بار افراہیم کی تصویر دیکهی تو اسے بہت رشک آیا اپنے آپ پہ. لیکن اس کی ساری سوچوں پہ پانی اس وقت پهر گیا جب اس پہ انکشاف ہوا کہ اس کا شوہر اسے نا پسند کرتا ہے. یہ بات کسی بھی لڑکی کے لیے تکلیف دہ ہے کہ اس کا شوہر اس سے نفرت کرتا ہے. نفرت یا محبت جو بھی تها اب یہی اس کا شوہر اس کا جیون ساتھی تها اسی کے ساتھ اس نے اپنی ساری زندگی گزارنی تهی.یہ رشتہ چاہے جن حالات میں جس وجہ سے بھی ہوا ہو مگر اسے یہ رشتہ نبهانا تها..یکطرفہ رشتہ جوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر وہ ایک عورت تهی جو بیاہ کر اس گهر میں لائی گئی تهی بچپن میں اس کی ماں نے اسے سکهایا تها لڑکی کا اصل گهر اس کا سسرال ہوتا ہے وہ ایک بار جس گهر میں جائے پهر اس گهر سے اس کا جنازہ ہی نکلنا چاہیے. ..اور یہی بات اس کے ذہن میں اپنے بچپن سے ہی بیٹھ گئی.وہ پوری کوشش کرے گی اپنے گهر کو بچانے کی اس نازک ڈور کو قائم رکهنے کی.وہ نفرت سے محبت کا سفر ضرور طے کرے گی..اس نے اپنے آنسو صاف کر کے ایک مضبوط ارادہ کر لیا ....
_____________________________
وہ رات کا کهانا کهانے کے بعد اپنے آفس کی ایک فائل دیکھ رہا تھا. .اس کی پوری توجہ فائل پر تهی لیکن اچانک قدموں کی چاپ سے اس کی توجہ فائل سے ہٹ گئی..سامنے اس کی وہی حد سے زیادہ سمجھدار ذہین زوجہ محترمہ کهڑی تهی..اسے محترمہ کی صبح والی واردات یاد آئی..اس نے ایک نظر غصے سے اسے دیکها پهر اپنی توجہ فائل پہ مرکوز کر دی..وہ اسے نہیں دیکهنا چاہتا تها. ...ہاں البتہ اس لڑکی کی نگاہیں خود پہ ضرور محسوس کر رہا تها ..اس میں ایک ناگواری کی لہر پیدا ہو گئی...لیکن ناگواری کو اپنے چہرے پہ نا لا کر اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اس لڑکی سے پوچها...
کچھ چاہیے کیا...؟...
جی وہ میں سونے آئی ہوں...اسے جهٹکا لگا وہ کسی بھی قیمت پہ اس لڑکی کے ساتھ اپنا بیڈ اپنا روم شئر نہیں کر سکتا تها کل کی بات اور تهی کل دادی کے سامنے وہ کچھ نہیں بول سکا لیکن آج اسے کوئی مجبوری نہیں تهی اس لیے وہ پوری رات تو کیا ایک لمحے کے لیے بھی اس لڑکی کو اپنے پاس اپنے کمرے میں نہیں برداشت کر سکتا تها. .........
تم یہاں نہیں سو گی...گهر میں اتنے سارے کمرے ہیں کسی اور کمرے میں جا کر سو جاو...وہ نظریں چراتے ہوئے بولا...یہ بات کہنے میں اسے خود بھی عجیب لگ رہی تهی کہ اپنی نئی نویلی دلہن کو سونے کے لیے دوسرے کمرے میں بهیج دے لیکن سچ تو یہی تها نہ تو اس نے اس رشتے کو قبول کیا تها اور نہ ہی کهبی کرے گا...وہ لڑکی تهوڑی دیر اسے خاموش نظروں سے دیکهتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی.......
وہ کمرے سے باہر نکل کر دوسرے کمرے میں چلی گئی. .اپنے مغرور اور گبرو شوہر کے سامنے بہ مشکل اس نے اپنے آنسو روک رکهے تهے لیکن اس کمرے میں آتے ہی اس کے آنسو کا بند ٹوٹ چکا تها ..اسے بہت شکوے تهے اپنے ماموں سے کیوں کیا انہوں نے اس کا رشتہ اتنے بڑے گهر میں. ..اگر وہ اپنے ہی گاوں میں کسی غریب مزدور کے ساتھ شادی کرتی تو کیا خوش نہیں رہتی وہ ..اسے دو وقت کی روٹی کے ساتھ ساتھ وہ محبت وہ عزت بھی ضرور دیتا جو اس کا حق تها لیکن یہاں اس شخص کے سامنے اسے اپنی عزت نفس خوداری غیرت سب کچھ کچلنا ہو گا...اسے اپنے ماموں کے ساتھ ساتھ دور کہیں آسمان پہ موجود اس ہستی سے بھی بہت شکوے تهے جنہوں نے اس کے ماں باپ کا سایہ اس کے بچپن میں ہی اس سے چهین لیا پھر اس نے ساری زندگی مامی کی ڈانٹ ان کی نفرت میں گزاری اور اب بھی زندگی اس پہ مہربان نہیں تهی یہ امتحانات کی کڑیاں تو ختم ہی نہیں ہو رہیں تهیں...........
اب اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ سونے کا تهی وہ زندگی میں کهبی اکیلی نہیں سوئی ماموں کے گهر پہ بھی اس کی کزنز اس کے ساتھ سوتی تهیں..اکیلے سونے میں تو اسے ویسے بھی ڈر لگتا تھا اور یہ گهر بھی اس کے لیے نیا تها تو اس کے ڈر میں مزید اضافہ ہو چکا تها. ..اس کا وہ پڑها لکها شوہر جس نے اسے کمرے سے باہر نکال دیا تها اس نے کیا ایک بار بھی سوچا کہ اس کی بیوی کو اکیلے کمرے میں سوتے ہوئے کتنی گهبراہٹ ہو سکتی ہے.کیا اس نے سوچا وہ اکیلی کیسے سوئے گی...
کچھ بھی ہو جائے میں بھی اب اس کے پاس نہیں جاوں گی..چاہے مجھے کتنا ہی ڈر کیوں نہ لگے اکیلے سوتے ہوئے
.. لیکن میں اس کا دروازہ نہیں کهٹکٹاوں گی...اس نے مستحکم فیصلہ کر لیا تها افراہیم کے پاس نہ جانے کا ..لیکن جوں جوں رات کی تاریکی اور خاموشی بڑهتی گئی اس کے فیصلے کی مضبوطی بھی کم ہوتی گئی...وہ اس کے پاس جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر مجبوری تھی اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا اس کے پاس...اسے اپنے آپ پہ پہلی بار اتنی شدت سے ترس آیا. .مجبوری کیا ہوتی ہے. اور مجبور میں انسان کتنا مجبور ہو جاتا ہے یہ وہ اچهے سے سمجھ چکی تھی...................
وہ یونہی لیٹے لیٹے چهت کو گهور رہا تها . زندگی کس قدر الجھی ہوئی تهی کہاں آ کر وہ پهنس چکا تها..زندگی میں کب کہاں اس نے ایسی غلطی کر دی جس کی اسے یہ سزا ملی...دروازے پہ کوئی زور زور سے دستک دے رہا تها..اس گهر میں ان دونوں کے علاوہ تیسرا کوئی نہیں تو ضرور وہی ہو گی اب اتنی رات کو اس پہ کون سا آسمان گر گیا جو وہ اس طرح دروازہ پیٹ رہی ہے وہ غصے سے اٹھ کر دروازہ کهولنے چلا گیا.......
جی اب کیا چاہیے محترمہ. ..اس نے سلگتے ہوئے پوچها وہ حد سے زیادہ گهبرائی ہوئی لگ رہی تهی....
جی وہ ہم کو اکیلے سوتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے...اس نے اٹکتے ہوئے کہا......
یہ کیا ہو رہا تها اس کے ساتھ اس کا جی چاہا وہ غصے سے رو دے.اب کیا کرے...دادی جو اتنی بڑی زمہ داری اس پہ سونپ گئیں تهیں اس کا وہ کیا کرے.....
او کے آ جاو .....لیکن میں اپنا بیڈ تمارے ساتھ بالکل بھی شئر نہیں کروں گا باقی اس بیڈ کے علاوہ تمہیں اس کمرے میں جہاں سونا ہے سو جاو.....اس نے خشک لہجے میں اس سے کہا......
وہ واپس آ کر بیڈ پہ بیٹھ گیا جبکہ وہ نیچے فرش پہ اپنا بستر بنا رہی تهی..اس نے ناگواری سے اسے دیکھا اور سر جهٹک کر منہ دوسری طرف کر کے سو گیا. پتا نہیں دادی کس عذاب میں ڈال کر گئی تهی اسے..اس کی خوشحال سکون والی زندگی میں یہ لڑکی کہاں سے آ کر ٹپک گئی اس کا سکون غارت کرنے.کہاں وہ دن تهے جب کالج کی لڑکیاں اس پہ جان چهڑکتی تهیں..اس کی آواز سننے کے لیے لڑکیوں کی لائن لگی رہتی تهی..آفس میں بھی کئی لڑکیاں اس سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر چکی تهیں..لیکن وہ یہاں کہاں آ کر پهنس گیا...
.اس کا دل چاہا ابھی اسے اس کمرے سے تو کیا اس گهر کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی سے بھی نکال دے لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتا تها... ایک بار تو اس کا دل چاہا ابهی کے ابهی دادی کو فون کر کے بتائے اسے ان کی محبت سے لائی ہوئی یہ انمول گڑیا بالکل نہیں چاہیے وہ جہاں سے اسے لائیں تهیں وہیں جا کر اسے واپس پہنچا دیں..لیکن دادی چونکہ سفر میں تهی اس لیے دور بیٹهی اپنی اس بوڑھی دادی کو وہ یہ صدمہ نہیں دینا چاہتا تها ویسے بھی بائیس دن کے بعد تو انہیں آ ہی جانا تھا تبهی وہ ان سے صاف صاف کہہ دے گا کہ اسے ان کی یہ سگهڑ ، ہونہار ، ہر کام میں ماہر بہو نہیں چاہیے....لیکن بائیس دن تو دور وہ اسے بائیس سکینڈز بھی کیسے برداشت کر سکتا تها
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
___👸#ﺩﻟﮩﻦ ______
ﻗﺴﻂ ﻧﻤﺒﺮ 2
ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ .. ﺍﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﻏﺼﮧ ﺗﻬﺎ ﺩﺍﺩﯼ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ..... .
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﯼ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ . ﺻﺒﺢ ﺁﻻﺭﻡ ﺑﺠﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻬﻞ ﮔﺌﯽ . . ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺑﯿﮉ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮔﺌﯽ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻭﮦ ﻭﮨﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻬﯽ . ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺒﺢ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﻬﺒﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﻬﺎ ... ﻭﮦ ﺟﻤﺎﺋﯽ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﮌ ﮐﺮ ﻭﺍﺵ ﺭﻭﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﻫﺎ . .. ﻣﻨﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﻫﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻧﺎﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ...
ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﺳﮯ ﮈﺭﺍﺋﻨﮓ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯽ .. ﺍﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﻟﮍﮐﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺩﻫﻮ ﺩﮮ ...
ﻭﮦ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺧﻮﺩ ﭘﮧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﻬﺎ ﻭﮦ .. ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﮔﻼﺱ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮐﻬﺎ ﺗﻬﺎ .. ﺍﻭﺭ ﮐﭽﻦ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﺍﺩﯼ ﮐﯽ ﮨﺮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮨﺮ ﺑﮩﻮ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﻘﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ .. ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻬﺎ . ..
. ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﺐ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﺗﺎ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺩﯾﺘﺎ .. ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮔﻬﺮﯾﻠﻮ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ............... .
ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ .. ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺷﺎﺩﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﺗﻬﺎ .........
ﻧﺎﺷﺘﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮐﭽﻦ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻓﺲ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﯿﮓ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﻬﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﻓﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ . . ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﺑﻬﯽ ﺗﮏ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﻮ ﺭﮔﮍ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﯿﺎ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﺗﻬﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﺎﮌﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺗﻬﯽ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ .. . ﺍﺱ ﭘﺮ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﺑﻬﺮ ﭘﻮﺭ ﻧﮕﺎﮦ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﻭﮦ ﮔﻬﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ....................... .
ﻭﮦ ﺻﺒﺢ ﺟﻠﺪﯼ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻬﯽ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺗﮭﺎ . . ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﺋﯽ ﺗﻬﯽ .. ﺁﺩﻫﮯ ﮔﻬﻨﭩﮯ ﮐﯽ ﻣﺸﻘﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮧ ﻣﺸﮑﻞ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﮍﮮ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮈﻫﻮﻧﮉﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﭽﻦ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﻬﯽ ... ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮈﻫﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﻼ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺗﻬﺎ ﭼﻮﻟﮩﺎ ﺟﻼﻧﺎ ... ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻟﮑﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﻬﺎ ﺍﺱ ﮔﯿﺲ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﭘﮍ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ
.. ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺗﯿﺲ ﻣﻨﭧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺮ ﮐﻬﭙﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ .... ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺮﺍﺣﻞ ﻃﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﺳﺎ ﮈﺑﮧ ( ﻓﺮﯾﺞ ) ﮐﻬﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﻧﮑﺎﻟﮯ .. ﺷﮑﺮ ﺗﻬﺎ ﺟﻮ ﺍﻧﮉﮮ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ......
ﻭﮦ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﻦ ﭘﻮﺭﺍ ﭘﻬﯿﻼ ﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ . . ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻭ ﮔﻬﻨﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺱ ﺁﻣﻠﯿﭩﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻬﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﻬﺎ ﺍﺳﮯ ﻧﺎﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﻬﺎ .. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯽ ..
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﻬﺒﺮﺍﮨﭧ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺷﻮﮨﺮ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺗﮏ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ... ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮕﻬﮍ ﻣﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻬﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻗﺎﺑﻠﯿﺖ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﻬﯽ ... ﻭﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺑﯿﺲ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﻬﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﺗﻬﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﻧﯽ ﭘﮍ ﺭﮨﯽ ﺗﻬﯽ ......
ﺧﯿﺮ ﺧﺪﺍ ﺧﺪﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺎ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﮔﻼﺱ ﺑﻬﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ... ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺋﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺎﺝ ﺩﯾﮑﻬﻨﮯ ... .
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﭨﯿﻦ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﻟﮓ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﭽﯽ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﻬﺎﮌﻭ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ... ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮮ ﮔﻬﺮ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺻﺎﻑ ﮨﮯ .. ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﮐﭙﮍﺍ ﮈﻫﻮﻧﮉﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﻮﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺮﺳﯿﻮﮞ ( ﺻﻮﻓﻮﮞ ) ﮐﯽ ﺑﻬﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻬﯽ ... ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻭﮦ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﭘﮧ ﭘﮍﯼ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﻬﺘﯽ ﮨﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ .
. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﺒﺮﻭ ﺟﻮﺍﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﺗﻬﺎ .. ﯾﮧ ﺟﻮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺳﺎ ﺷﺨﺺ ﺗﻬﺎ ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﺗﻬﯽ . ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﮧ ﺭﺷﮏ ﺑﮭﯽ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺱ ﺑﮭﯽ . . ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ .... ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺩﮐﮫ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﮌ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ...... .
ﺍﮔﺮ ﮔﺎﻭﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﺧﻮﺩ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ .. ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮯ ﻧﺎﺷﺘﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﻣﻠﯿﭧ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻬﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﮐﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ"
🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
👸دلہن
قسط نمبر 3
پہلی بار پڑهنے والوں کے لیے گزشتہ قسط کا خلاصہ.
بانی نام کی ایک دیہاتی ان پڑھ لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے ایک ہینڈسم پڑهے لکهے مغرور شخص (افراہیم) سے جو اسے نا پسند کرتا ہے ..بانی اداس ہوتی ہے اور اپنے شوہر کا دل جیتنے کے لیے ہر حد تک جاتی ہے...اب آگے.......
.................................................
افراہیم تو آفس جا چکا تها جبکہ وہ وہیں ٹی وی کے پاس گم سم سی کهڑی تهی. باقی کا وقت وہ ادهر ادهر گهر کا جائزہ لیتی رہی لیکن ان سب سے بهی اس کی بوریت بالکل ختم نہیں ہوئی حالانکہ وہاں ٹائم پاس کے لیے کافی چیزیں تهیں..میگزین اور ڈائجسٹ یہ تو وہ پڑھ نہیں سکتی تهی اور رہی بات ٹی وی کی تو وہ ڈر کے اسے آن نہیں کر رہی تهی کیونکہ بچپن میں اس نے سنا تھا ان سب چیزوں میں کرنٹ ہوتا ہے اور آن ہوتے ہی پهٹ جاتے ہیں. .وہ بچپن کے اس ڈر کو اپنے دل سے نکال ہی نہیں پائی.....دوپہر کا کهانا اس نے خود اپنے لیے بنایا تھا گهر میں ضرورت کی ہر شے موجود تهی یہ الگ بات ہے کہ ان چیزوں کو تلاش کرنے میں اس کا کافی وقت ضائع ہو گیا..امیر لوگوں کی ہر شے الگ ہوتی ہے واش روم سے لے کر کچن تک...
جتنا بڑا ان کا واش روم ہوتا ہے وہاں گاوں میں دو کمرے اتنی جگہ پہ بن جاتے ..اور باقی سازو سامان الگ..پہلے پہل تو وہ واش روم کو دیکھ کر حیران ہوئی ..اس کے شوہر محترم شادی کے تیسرے دن ہی آفس چلے گئے اپنی نئی نویلی دلہن کو اتنے بڑے گهر میں اکیلے چهوڑ کر.....................
اس نے تو کهبی زندگی میں ان سب چیزوں کی تمنا نہیں کی تهی یہ سب تو اسے بنا مانگے ہی مل گیا لیکن اتنی جلدی اتنی آسانی سے بڑی چیزیں کهبی نہیں ملا کرتیں.......
عصر کی نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں گهس گئی اتنی بڑی عمارت میں اس کی کام کی جگہ صرف کچن ہی تهی...وہ اپنے شوہر کے لیے اپنے ہاتھوں سے کچھ اچها بنانا چاہتی تهی اس لیے وقت سے پہلے ہی تیاری کرنے لگی..
وہ جانتی تھی آدهے گهنٹے کے کام میں وہ تین گهنٹے تو ضرور لگا دے گی....اس نے کہیں سنا تها کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے اس لیے وہ اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے کے لیے اس کی پسندیدہ بریانی بنانا چاہتی تهی....
اس کی پسند نا پسند اور اس کے بارے میں کچھ اور معلومات دادی نے عمرے پہ جانے سے پہلے اسے فراہم کیں تهیں..چاہے وہ اس سے ناپسند کرے چاہے وہ اس سے نفرت کرے مگر وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ کهبی اس سے نفرت نہیں کرے گی وہ ایک بیوی ہونے کا فرض ضرور نبهائے گی....چاہے وہ شوہر ہونے کا فرض نبهائے یا نا نبهائے......
صبح سے کچن میں مختلف الٹے سیدھے تجربات کر کے وہ اب کافی حد تک سمجھ چکی تهی....اسے اس کے واپس آنے کا وقت نہیں پتا تها اس لیے سب کچھ جلدی جلدی کرنا چاہتی تهی. ..اپنی مطلوبہ ہر شے اس نے اپنے پاس کر لیا..اور پیاز کاٹنے لگ گئی پیاز کاٹنے سے اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے..یہ صرف پیاز کاٹنے کے آنسو تهے یا ان میں کوئی اور آنسو بھی شامل ہو گئے یہ وہ نہیں سمجھ سکی.......
فریج سے گوشت نکال کر اس نے پتیلے میں ڈال دیے .اور چولہے کی آگ تهوڑی کم کر کے وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کمرے میں چلی گئی.....
جب نماز پڑھ کر واپس آئی تو بریانی تیار ہو چکی تهی اس نے احتیاطی طور پر پہلے خود چیک کر کے دیکها.اسے تو ٹهیک لگا لیکن پتا نہیں اس کے شوہر محترم کو پسند آئے گا بهی یا نہیں. ..وہ اور بھی کچھ بنانا چاہتی تهی لیکن بریانی بنانے میں ہی اتنا وقت ضائع ہو گیا کہ مزید کچھ بنانے کی گنجائش نہیں رہی..وہ اب آہستہ آہستہ کچن سمیٹنے لگی ایک بریانی بنانے کے چکر میں اس نے پورے کا پورا کچن بکهیر کر رکھ دیا تها...........
اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی وہ بهاگتی ہوئی کچن کے دروازے تک گئی وہ اپنا بیگ اٹهائے اندر داخل ہو چکا تها. ..اس کے ہاتھوں میں شاید کچھ کهانے کا سامان بھی تها جو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا اور خود اپنے کمرے کی طرف چلا گیا.
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
__👸 دلہن __
قسط نمبر 4
ایک تو تهکن کافی محسوس ہو رہی تهی اور اوپر سے ٹینشن اسے کهائے جا رہے تھے اپنے کمرے میں آ کر اس نے بیگ صوفے پہ پهینک دیا اور خود جوتوں سمیت بیڈ پہ لیٹ گیا...یہ شاید اس کی زندگی کے سب سے برے دن چل رہے تهے گهر آتے ہی سب سے پہلے زوجہ محترمہ کے درشن ہو گئے ..وہ پہلے سے ہی بہت ڈسٹرب تها اور رہی سہی کسر محترمہ نے پوری کر دی..اسے تو یہ سوچ سوچ کر ہی تکلیف ہو رہی تهی یہ ان پڑھ گوار لڑکی اس کی بیوی کی حیثیت سے اس گهر میں موجود ہے.......
کافی دیر وہ یونہی بیڈ پہ لیٹا رہا جب تهکن کا احساس کافی حد تک کم ہوا تو اسے بهوک لگنا شروع ہوئی..واش روم میں جا کر اس نے ہاتھ منہ دهوئے اور نیچے چلا گیا...اس نے متلاشی نگاہوں سے ادهر ادهر دیکها وہ نظر نہیں آئی..لیکن اسے خود کے اس طرح متلاشی ہو کر دیکهنے پہ بہت غصہ آیا وہ کہاں ہے کیا کر رہی ہے اس سے اسے کیا مطلب جہنم میں جائے اس کی بلا سے.........
لیکن ٹیبل کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا مطلوبہ شاپر غائب پایا جس میں وہ ہوٹل سے اپنے لیے کهانا لے کر آیا تها..
ویسے تو وہ ہمیشہ اپنے لیے گهر پہ کهانا خود بناتا تھا لیکن آج تهوڑا تهکا ہوا اور پریشان تها اس لیے اس نے ہوٹل سے کهانا خرید لیا. .مگر یہ شاپر اچانک کیسے کہاں غائب ہو گئی. ..اسے سمجهنے میں دیر نہیں لگا یہ ضرور اس کی جاہل زوجہ محترمہ کا کام ہو گا..لیکن وہ اس طرح شاپر لے جا کر کہاں غائب ہو گئی. .کیا اسے بهوک لگ رہی تهی...اور وہ کهانا وہ اپنے لیے لے گئی...لیکن وہ خود بھی تو بنا کر کها سکتی تهی..بقول دادی کے تو وہ ہوٹلوں سے بهی اچها کهانا بناتی ہے. .....وہ غصے سے کهولتا ہوا کرسی پہ بیٹھ گیا. .....
اور آنکھیں بند کر کرسی کی پشت پر ٹیک لگا دی..اور پھر اس نے اپنی آنکھیں تب کهولیں جب اس نے ٹیبل پہ کچھ رکهنے کی آواز سنی...وہ ٹیبل پہ مختلف پلیٹوں میں کهانا لگا رہی تهی...اس نے ایک نظر اسے دیکها جو حد سے زیادہ خوش فہمی میں نظر آ رہی تهی..اور پھر کهانے کو دیکهنے لگا. .
جو وہ بے ترتیبی سے ٹیبل پہ سجا رہی تهی..سالن کے بڑے ڈونگے میں اس نے بریانی ڈالی ہوئی تهی اور چاولوں کی پلیٹ میں اس نے سالن نکالا ہوا تها اور سب سے عجیب بات اس نے روٹیاں پتیلے میں رکھ دیں تهیں...اس نے غصہ ضبط کر لیا اور صرف خاموشی سے اسے یہ سب کاروائی کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا. .جب وہ سب کچھ مکمل کر چکی تب بھی وہ وہیں کهڑی اسے دیکهتی رہی.....
کچھ چاہیے. ..اس نے سرد لہجے میں اسے مخاطب کیا..اسے مخاطب کرنا اس کی مجبوری تهی وہ کهانے کے دوران اسے بالکل بھی اپنے پاس نہیں دیکھ سکتا تها..وہ اپنی گردن ہلا کر دوبارہ کچن میں چلی گئی اور برتن دهونے لگی لیکن وہ جانتا تها وہ برتن دهوتے ہوئے بھی اسے ہی دیکھ رہی ہے. .......
وہ اسے نظر انداز کر کے کهانے کی طرف متوجہ ہوا.اس کی لائی ہوئی ساری چیزوں کے ساتھ بریانی کا بھی اضافہ تها .یہ بریانی وہ تو نہیں لایا تها تو پھر ضرور دادی کی اس سگهڑ بہو نے بنائے ہوں گے .ویسے تو بریانی اس کی پسندیدہ ڈش تهی لیکن یہ چونکہ اس محترمہ نے بنایا تھا اس لیے وہ اس ٹیبل پہ موجود بریانی کو چهوڑ کر ہر ڈش کے ساتھ انصاف کرنے لگا..حالانکہ اس کا دل بہت چاہ رہا تها وہ بریانی کهائے لیکن دل کی اس خواہش کے درمیان اس کی انا آ رہی تهی اور وہ صرف بریانی کے لیے اپنی انا کهبی نہیں کچل سکتا تها................
کهانے کے بعد ٹشو سے ہاتھ صاف کرتا وہ لاونج میں رکهی ٹی وی دیکهنے لگا . ٹی وی دیکهتے وقت بھی وہ پتا نہیں کیوں بار بار ادھر ادھر دیکھ رہا تھا. .
دو گهنٹے کے بعد وہ ٹی وی کو چهوڑ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تها حالانکہ وہ جو مووی دیکھ رہا تھا اس کے ختم ہونے میں ابهی آدها گهنٹہ باقی تها لیکن پتا نہیں کیوں اس کا ٹی وی دیکهنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا .ایسا پہلے کهبی نہیں ہوا وہ ہر مووی مکمل ہی دیکها کرتا.....
سیڑھیاں عبور کر کے وہ اپنے کمرے میں آیا ..کمرے میں جاتے ہی سب سے پہلی نظر اس پہ ہی پڑی وہ فرش پہ پوری دنیا سے بے خبر سو رہی تهی..کتنے اطمینان سے وہ نیند کی آغوش میں تهی. .اس کا سکون چهین کر ، اس کی خوشی چهین کر......
وہ بنا کوئی آواز پیدا کیے بیڈ پہ آ کر لیٹ گیا. نیند کو کافی دیر تک بلانے کی کوشش کرتا رہا..بہرحال رات کے جانے کون سے پہر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو چکا تها..................
پهر اسے کی آنکھ رات کے دو بجے کهلی اس نے اس لڑکی کو دیکها جو بے خبر سو رہی تهی ..اسے پیاس اور بهوک کا احساس ہوا ..عموماً رات کو اسے بهوک اور پیاس کا احساس ہوتا رہتا اس لیے وہ ہمیشہ اپنے لیے فریج میں کهانا بچا کر رکهتا..لیکن آج جہاں تک اسے یاد پڑ رہا ہے وہ جو کهانا لایا تها وہ سارا ختم کر چکا تها اب اسے اپنی بهوک مٹانے کے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ بنانا تها....وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا..........
دروازہ کھلنے کی آواز سے اس کی آنکھ کهلی..اس نے سب سے پہلے اٹھ کر دروازے کو نہیں بیڈ کو دیکها..جب اسے بیڈ سے غائب پایا تو وہ حیرانی سے کهڑی ہوگئی..سامنے دیوار پہ لگی سوئیوں والی گهڑی سے اس نے وقت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اسے حیرت ہوئی دو بج رہے تهے. .اتنی رات کو وہ باہر کیا کرنے چلا گیا...پانی پینے. ...؟
نہیں پانی کا تو جگ رکها ہوا ہے پهر کہاں گیا ..اسے تجسس ہونے لگی اور وہ کمرے سے باہر نکل آئی ..آہستہ آہستہ ادهر ادهر نگاہیں دوڑاتے ہوئے وہ سنگ مرمر سے بنی سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگی اسے کچن سے کچھ آوازیں آنے لگیں...اس نے قدموں کا رخ کچن کی جانب کر دیا .... ..........
کچن کے دروازے پہ پہنچ کر اس پہ عجیب انکشاف ہوا ..وہ رات کے دو بجے کهانا کها رہا تها اس کا منہ دوسری طرف تها اس لیے وہ اسے دیکھ نہ سکا....اور غور کرنے پہ اسے پتا چلا وہ اس کی بنائی ہوئی بریانی کها رہا تها ..یہ انکشاف خوشگوار تها اس کے چہرے پہ مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ حیرت بهی تهی....
رات کے کهانے میں ٹیبل پہ موجود ہر شے کهانے والا اس کا وہ شوہر محترم صرف اور صرف اس کی بنائی ہوئی بریانی کو نظر انداز کر گیا...اسے اس وقت حقیقتاً بہت دکھ ہوا. .وہ کچن میں کافی دیر تک روتی رہی اس نے اتنی محنت سے اس کے لیے بریانی بنائی تهی اور اس نے چکهنا تک گوارا نہیں کیا. .
اسے غصہ آیا اپنے مغرور شوہر پہ...اسے جتنا غصہ تها جتنا دکھ تها وہ سب اب ختم ہو چکا تها..رات کے کهانے میں اس کے انا پرست شوہر نے بریانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور اب رات کے دو بجے وہ اس کی بنائی ہوئی بریانی کتنی رغبت سے کها رہا تها.............
وہ دروازے سے واپس پلٹ آئی ..اور کمرے میں آ کر سونے کے لیے لیٹ گئی..اسے پہلے اگر دکھ کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تهی تو اب وہ خوشی سے سو نہیں پائے گی............
بیس منٹ بعد اس نے دروازے پہ اس کی آمد کو محسوس کیا. .لیکن وہ خود کو سوتا ہوا ظاہر کر رہی تهی ..جبکہ دل ہی دل میں اپنے شوہر کی اس عجیب و غریب چوری پہ مسکرا بھی رہی تھی ......(جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____ 👸دلہن ______
قسط نمبر 5
اگلی صبح وقت پہ بیدار نہیں ہو سکا ..اسے آفس جانا تها اور وہ آدها گهنٹہ دیر سے اٹها اور کل کی طرح آج بھی سب سے پہلے اس نے اپنے بائیں جانب اس لڑکی کے بستر کی طرف دیکها..وہ اسے وہاں نظر نہیں آئی۔
وہ اٹھ کر واش روم کی طرف چلا گیا..اسے آفس جانے میں پہلے ہی دیر ہو چکی تھی .............
واش روم سے جب وہ نہا کر تولیے سے بال رگڑتا ہوا باہر آیا تو نیلے رنگ کی شرٹ بیڈ پہ دیکھ کر وہ ٹهٹک گیا.. وہ استری کر کے بیڈ پہ رکھ دیا گیا تها.. اتنے سارے کپڑوں میں اس نے نیلے رنگ کا ہی انتخاب کیوں کیا... گویا اس کی زوجہ محترمہ کو معلوم تھا کہ نیلا رنگ اس کا پسندیدہ رنگ ہے لیکن یہ اسے کیسے پتا چلا...؟
اسے اپنی بیوی کی یہ مشرقی ادا تسکین نہیں پہنچا سکی مزید سلگها گئی......
کیوں ہاتھ لگایا اس نے میرے کپڑوں کو...؟
کس حق سے اس نے میری شرٹ استری کی....؟
یہ وہ سوالات تهے جو وہ غصے سے اپنے آپ سے کر رہا تها. .لیکن وہ بھی اپنے نام کا ایک تها جب وہ اسے بیوی تسلیم نہیں کرتا تو وہ اس کے استری کیے ہوئے کپڑے کیوں پہنے... اس نے وہ شرٹ واپس الماری میں رکهی اور ایک سفید رنگ کی شرٹ پہن لی... یہ الگ بات ہے کہ اس سفید شرٹ میں کئی شکنیں پڑ چکی تهیں.. عموماً وہ اپنے سارے کام خود کرتا تها کهانا پکانے سے لے کر کپڑے استری کرنے تک... لیکن آج تو وہ پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکا تها اس لیے جیسے تیسے وہ شرٹ پہن کر بالوں میں جلدی جلدی کنگهی پهیر کر وہ بیگ اٹها کر نیچے آیا.................
اس کا ناشتہ کرنے کا آج بالکل ارادہ نہیں تها وہ وہیں آفس میں ہی کچھ نہ کچھ لے لیتا .. پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تهی اس لیے وہ جلدی جلدی بڑے بڑے قدم اٹهاتا ہوا گهر کے بڑے دروازے تک گیا.. ابهی اس نے دروازہ کهولنے کے لیے ہاتھ بڑهایا ہی تها کہ اپنی زوجہ محترمہ کی آواز پہ رک گیا...........
سنو جی....اس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی اسے اس طرح اپنا پیچھے سے آواز دے کر بلانا بالکل بھی اچها نہیں لگا. اس نے کوئی بات تو نہیں کی البتہ اس کی طرف سوالیہ نظروں سے ضرور دیکها. .........
وہ جی گهر کا تهوڑا سامان لانا ہے... اس نے ججهکتے ہوئے کہا. . جبکہ اسے اس طرح پیچھے سے بلایا جانا اور اب پورے حق کے ساتھ گهر کے سامان کا آرڈر دینا بالکل ناگوار گزرا اور یہ ناگواری اس کے چہرے سے بھی عیاں تهی..............
کیا لانا ہے....؟
چہرہ سپاٹ تها......
وہ..جی چینی اور چائے کی پتی......
بس...؟..
نہیں وہ سرخ مرچ اور پیاز بھی ختم ہو گیا....وہ پوری کی پوری مشرقی ادا میں مخاطب تهی........
اوکے...اور کچھ. ...؟.....
سبزی بھی ختم ہو گئی اس ڈبے سے...
کون سے ڈبے سے..؟.وہ حیران تها.....
وہی جی..جو اندر رکها ہوا ..جسے کهولو تو سرخ بتی جلتی ہے...
اس نے دماغ پہ زور دیا.....
وہ...وہ...اسے فریج کہتے ہیں بے وقوف. ...اس نے عجیب نظروں سے اس لڑکی کو دیکها. ....
ہاں جی وہی فراج سے ....
فراج نہیں فریج....اس نے اپنے لفظوں پہ زور دیا...
کیا جی....فا ریج ..؟..اس نے بهول پن سے سوال کیا. .
فا ریج..نہیں. ....اچها چهوڑو یہ بتاو اور کیا کیا لانا ہے..وہ دانت پیس کر بولا....
دہی بهی جی اور....اور.....وہ کچھ سوچنے لگی. ..
اگر اس کی کوئی پڑهی لکهی بیوی ہوتی تو وہ ایک منٹ میں ہی لسٹ بنا کر دیتی اسے لیکن یہ گاوں کی گوار اسے دو گهنٹوں سے گهر کا سامان رٹوا رہی ہے.......
کچھ یاد آیا محترمہ...یا پھر میں یہیں بیٹھ کر آپ کی یادداشت واپس آنے کا انتظار کروں...اس نے طنز بهرے لہجے میں اس مخاطب کیا. وہ پتا نہیں اس کے طنز کو سمجھ سکی یا نہیں بہرحال اس نے اپنی زبان کو تهوڑی تکلیف ضرور دی. .......
وہ جی وہ جو لال لال سی ہوتی ہے....اب اسے حقیقتاً غصہ آیا....
لال لال سی کوئی ایک چیز نہیں ہوتی ..اور کیا میں بازار میں جا کر یہ کہوں گا محترمہ بانی صاحبہ کسی لال چیز کا کہہ رہیں تهیں آپ مجھے وہی لال چیز دے دیں..اب کی بار وہ غصہ نہیں چهپا سکا وہ اس کے غصے سے ڈر گئی...............
میں سب سودے بهجوا دوں گا...او کے...اس کی آنکھوں میں بهرے وہ آنسو دیکھ چکا تها اس لیے وہ نہیں چاہتا تها وہ اس کے سامنے کوئی سیلاب جاری کرے وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا..
وہ وہیں کهڑی اپنے آنسو پہ قابو پانے کی کوشش کرتی رہی..اسے دکھ اس کے رویے سے نہیں بلکہ اس بات سے پہنچا ہے کہ وہ شرٹ جو اس نے اتنی محبت کے ساتھ استری کی وہ کیوں نہیں پہن کر گیا...
باقی کا سارا دن بھی وہ اداس رہی اس نے دوپہر کو ہی ایک ملازم کے ذریعے گهر کا سارا راشن بهیج دیا تها وہ بھی جو اس نے کہا اور وہ بھی جو وہ نہ کہہ سکی ..باقی کا بہت سارا وقت اس نے سامان کو ترتیب دینے میں گزار دی ..اس لیے اسے کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ ملی سبزی آ چکی تهی اس نے کچھ سبزیاں فریج میں ڈالیں اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے آلو اور قیمہ الگ کرنے لگی...
اب وہ ایک کام میں تو ماہر ہو چکی تهی کهانا بنانے میں. .ایسا نہیں تها کہ اسے کهانا بنانا نہیں آتا تها لیکن اس عجیب کچن میں کهانا بنانے کا اس کا تجربہ نیا تها... یہاں سب کام آسان تهے گاوں کی نسبت. .. یہاں چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں ڈهونڈ ڈهونڈ کر نہیں لانی پڑتیں تهیں... پانی کا انتظام پاس میں ہی تها اور ہر چیز علیحدہ علیحدہ صاف نظر آ رہا تها جبکہ وہاں سالن میں نمک ڈالو تو دو گهنٹے تک مرچوں کا ڈبہ نہ ملے.... یہاں ساری سہولیات ہونے کے باوجود بھی وہ شروع شروع میں کچھ جهجک رہی تھی لیکن اب چونکہ وہ کچن کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر چکی تهی اس لیے اسے کام کرنے میں بہت مزا آ رہا تها ..
روز بروز نئی نئی چیزوں سے آشنا ہو رہی تھی. .. قیمہ تیار ہونے میں ابهی کافی وقت تها اس لیے وہ اپنے کمرے میں آئی اسے ایک بار اس کی ایک سہیلی نے بتایا تها....
بانی یہ جو شہری مرد ہوتے ہیں ان کو کریم پاوڈر والی لڑکیاں بہت پسند آتی ہیں..اس وقت تو اس نے اس بات پہ غور نہیں کیا لیکن اب چونکہ مصیبت سر پہ آن پڑی تھی تو ان سب چیزوں کو استعمال کرنا تها..وہ میک اپ کا ڈبہ جو دادی نے اسے دیا تها وہ جوں کا توں پڑا ہوا تها اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا .اسے میک اپ سے ہمیشہ چڑ ہوا کرتی تهی اور اسے اچهے سے میک اپ آتا بھی کہاں تها اس نے کهبی میک اپ کیا ہی نہیں کهبی ضرورت ہی نہیں پڑی وہاں پہ بھی صرف صابن سے منہ دهویا کرتی تهی...............
اس نے اپنی پرانی لوہے کی پیٹی سے وہ میک اپ والا ڈبہ باہر نکالا..
اس ڈبے میں ایسی چیزیں تهیں جن کے نام تو دور شکل تک کهبی نہیں دیکهی اس نے..
اب ایسے میں انہیں استعمال کرنا کافی مشکل تها..
اس نے سارا سامان الٹ پلٹ کر دیکها اسے ان سیکڑوں چیزوں میں جو کام کی چیز لگی وہ منہ پہ لگانے والی کریم، لپ اسٹک، اور آئی شیڈ تهی..باقی سارا کا سارا سامان اس کے لیے بے کار تها.......
یہ تینوں چیزیں لے کر وہ آئینے کے سامنے بیٹھ گئی. کریم تو جیسے تیسے لگا ہی لیا اس نے آئی شیڈ بهی ترتیب اور بے ترتیبی سے لگ گیا اب اصل مسئلہ لپ اسٹک کا تها... اس نے کهبی خود لپ اسٹک نہیں لگایا بچپن میں بھی جب کوئی شادی وغیرہ ہوتی تو اس کی کزنز اس کو زبردستی لپ اسٹک لگایا کرتیں اسے ان سب چیزوں میں کهبی کوئی دلچسپی نہیں تھی.......
دس مرتبہ اس نے لپ اسٹک لگایا اور ایک مرتبہ بھی سہی نہ لگا سکی لیکن اس نے کوشش کرنا نہیں چهوڑا.. وہ تب تک لگاتی رہی جب تک سہی نہیں لگا اور بیس منٹ کی مشقت کے بعد بہرحال اس نے کچھ ڈھنگ سے لپ اسٹک لگا ہی لی... اسے بالکل پرفیکٹ تو خیر اب بھی نہیں کہا جا سکتا تها لیکن پہلے کی نسبت کافی بہتر تهی.... اس نے نیلے رنگ کی فراک پہن رکهی تهی نیلا رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تها اس لیے اس نے اس کی پسند سے ہی خود کو تیار کیا" (جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
___👸دلہن ______
قسط نمبر 6
پہلی بار پڑهنے والوں کے لیے گزشتہ قسط کا خلاصہ.
بانی نام کی ایک دیہاتی ان پڑھ لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے ایک ہینڈسم پڑهے لکهے مغرور شخص (افراہیم) سے جو اسے نا پسند کرتا ہے ..بانی اداس ہوتی ہے اور اپنے شوہر کا دل جیتنے کے لیے وہ میک اپ کرنے لگتی ہے...
اب آگے.......
.................................................
دس مرتبہ اس نے لپ اسٹک لگایا اور ایک مرتبہ بھی سہی نہ لگا سکی لیکن اس نے کوشش کرنا نہیں چهوڑا..
وہ تب تک لگاتی رہی جب تک سہی نہیں لگا اور بیس منٹ کی مشقت کے بعد بہرحال اس نے کچھ ڈھنگ سے لپ اسٹک لگا ہی لی...
اسے بالکل پرفیکٹ تو خیر اب بھی نہیں کہا جا سکتا تها لیکن پہلے کی نسبت کافی بہتر تهی....اس نے نیلے رنگ کی فراک پہن رکهی تهی نیلا رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تها اس لیے اس نے اس کی پسند سے ہی خود کو تیار کیا ........
اور پھر میک اپ کے بعد کچن میں آئی آلو قیمہ کے ساتھ ساتھ اس نے میٹهے میں کهیر بھی بنائی...وہاں تو وہ صرف سالن بناتی تهی اور روٹیاں..بس اس کے علاوہ وہاں کوئی دوسرے لوازمات نہیں ہوتے تهے لیکن یہاں تو پندرہ طرح کے کهانے بنتے ہیں..............
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا بیگ اس نے صوفے پہ رکھ دیا اور کهانا جو وہ ہوٹل سے اپنے لیے لایا تها وہ بھی اس نے وہیں رکھ دیا اور خود بھی گرنے کے انداز میں صوفے پہ بیٹھ گیا. ...
اس نے ناگواری سے ادهر ادهر دیکها. ...وہ اسے نظر آ ہی گئی...اسے دیکھ کر ایک پل کے لیے وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا...اس نے جو عجیب و غریب میک اپ کر رکھا تھا اس سے وہ خوبصورت تو کیا خاک لگتی الٹا عجوبہ بن چکی تهی اس کا یہ میک اپ دیکھ کر اس کے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو رہا تها ...تو وہ پاگل لڑکی اسے پٹانے کے لیے ان سب چیزوں پہ اتر آئی ہے مگر وہ جو کر لے وہ اسے کهبی قبول نہیں کرے گا................
وہ اب اس کا بیگ اٹهانے لگی وہ منہ دوسری طرف کر کے خاموش بیٹھا تھا. .وہ بیگ اٹها کر جانے کہاں لے گئی..جبکہ وہ فریش ہونے کے لیے اپنے کمرے میں آ گیا....جب وہ نیچے کهانے کے لیے گیا تب تک وہ کهانا میز پر سجا چکی تهی ..وہ ایک کرسی کهینچ کر بیٹھ گیا جبکہ وہ وہیں کهڑی اسے دیکھ رہی تھی. ....
کهانا کهایا تم نے...؟ ..کسی بھی جذبات سے عاری اس نے سنجیدہ لہجے میں اس سے پوچھا. .....
نہیں آپ کها لیں جی ہم بعد میں کهائیں گے..اس نے شرماتے ہوئے کہا وہ سمجھ نہیں سکا اس میں شرمانے والی بات کون سی تهی........
تو بیٹهو کهانا کهاو....اس نے اپنی پلیٹ میں سلاد ڈالتے ہوئے کہا. ....
جی...وہ..ہم...؟ اس کی اس جی میں حیرت کم اور انکار زیادہ تهی........
ہاں تم...اور کوئی نظر آ رہا ہے اس گهر میں. اس بار وہ اس کی طرف دیکهتے ہوئے بولا..........
ہمارے گاوں میں رواج ہے۔ پہلے شوہر کهانا کهالے اس کے بعد بیوی اس کا بچا ہوا کهانا کهاتی ہے...اس نے سادگی سے کہا...جبکہ وہ حیران بھی تها اور خود کے شوہر کہے جانے پہ تهوڑا غصہ بھی تها لیکن اس نے مزید اسرار نہیں کیا...وہ کچھ دیر کهڑی اسے دیکهتی رہی پهر وہاں سے چلی گئی لیکن وہ جانتا تها وہ جہاں کہیں بھی گئی ہے اسے دیکھ رہی ہو گی...
کیا مصیبت ہے. ..؟ وہ نوالہ منہ میں رکهتے ہوئے بڑبڑایا...اس نے پہلی بار کهانے کی ٹیبل پہ نگاہ دوڑائی آج کل کی نسبت بہت ڈشز بنائی گئی تهیں۔
آلو قیمہ اس کا پسندیدہ تها لیکن چونکہ یہ اس نے بنایا ہے اس لیے وہ کهانا نہیں چاہتا تها .کل رات اس کے ہاتھ کی بنی بریانی کها کر ہی اس نے اعتراف کیا وہ کهانا واقعی بہت اچها بناتی ہے اور اب قیمے کی بهی زبردست خوشبو آ رہی تهی وہ کهانا بهی چاہتا تها اور نہیں بھی کهانا چاہتا تها۔
اس نے چور نگاہوں سے ادهر ادهر دیکها جب اسے وہ نظر نہ آئی تو بچوں کی طرح چوری کرتے ہوئے اس نے تهوڑا قیمہ اپنی پلیٹ میں ڈالا اور پھر ڈونگے کے اوپر ویسے ہی ڈهکن رکھ دیا یہ ظاہر کرنے کے لیے اس نے قیمے کو ہاتھ تک نہیں لگایا. .پہلا نوالہ منہ میں رکهتے ہی اسے ایک خوشگوار احساس ہوا ، ہوٹل کے کهانوں میں وہ ذائقہ کهبی نہیں آ سکتا جو گهر کے بنائے کهانوں میں ہوتا ہے اور ایک مرد چاہے کتنا بھی اچها کهانا کیوں نہ بناتا ہوں لیکن ایک عورت سے اچها کهانا وہ کهبی نہیں بنا سکتا۔
وہ خود ہمیشہ ٹی وی پہ ریسپیز دیکھ دیکھ کر مختلف پکوان بناتا تها اس نے خود قیمہ بھی کئی بار بنایا لیکن اس میں یہ ذائقہ کهبی نہیں تها جو اس کے بنائے ہوئے قیمے میں تها.............
کهانے سے فارغ ہو کر وہ صوفے پہ بیٹھ کر ٹی وی دیکهنے لگا ابهی وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے لیے چائے بنائے لیکن اس کی سوچ سے بھی پہلے وہ اس کے لیے چائے لیے اس کے پاس کهڑی تهی. .اب وہ چائے اس کی طرف بڑها رہی تهی اس نے چائے کا کپ اس کے ہاتھوں سے لے لیا حالانکہ اس کا کپ لینے کا کوئی ارادہ نہیں تها پهر بھی پتا نہیں کیوں اس نے کپ تهام لیا اور اب جب کپ اس کے ہاتهوں میں تها تو مطلب اسے چائے بھی پینی تهی....
وہ بھی اس کے برابر رکهے صوفے پہ بیٹھ گئی اس کا اس طرح بیٹهنا اسے بہت برا لگا..لیکن وہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تها..!! ( جاری ہے )
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____ 👸دلہن ______
قسط نمبر 7
یہ کیا ہے جی...؟..اس نے ٹی وی کی طرف اشارہ کیا...
ٹی وی ہے ..اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا. ...
یہ ٹی بی کرنٹ تو نہیں مارتا جی.......
نہیں اگر اسے انسانوں کی طرح آن کیا جائے تو....وہ ناگواری سے بولا.......
یہ کدھر سے آن ہوتا ہے جی ...اس نے ایک اور سوال کیا.....
وہ اس بڑے والے بٹن سے....اس نے ٹی وی کے بٹن کی طرف اشارہ کیا. ....چائے پیتے ہوئے اس نے محسوس کیا وہ کهانے کی طرح چائے بھی زبردست بناتی ہے.. ....
اور یہ کیا ہے جی....اب اس کا اشارہ ریموٹ کی طرف تها......
یہ ریموٹ ہے....وہ شدید کوفت میں مبتلا ہو چکا تها...
یہ رٹوٹ ( ریموٹ ) کیسے چلتا ہے جی....اس نے معصومیت سے ایک اور سوال کیا...اس کے ریموٹ کو رٹوٹ کہنے پہ بے ساختہ اس کے ہونٹوں پہ تبسم پهیل گئی........
اس سے آواز کم اور زیادہ ہوتا ہے..اور یہ بٹن چینل تبدیل کرتا ہے ..وہ ریموٹ اٹها کر اسے کسی چهوٹے بچے کے انداز میں سمجها رہا تها......
یہ چینل کیا ہوتا ہے جی....اور اس کا دل چاہا ریموٹ اپنے سر پہ دے مارے......
چینل مطلب. ..یہ فوٹو تبدیل ہوتے ہیں. ..اب کی بار وہ زرا غصے سے بولا. ....
اچها جی آپ کتنے پڑهے ہوئے ہو...اب اس کی زاتی زندگی پہ سوال کیا گیا. .....
ایم بی اے کیا ہوا ہے میں نے. ..وہ تنک کر بولا. ..
یہ کتنا ہوتا ہے جی....اور وہ یہ کیوں بهول گیا کہ اس کی زوجہ محترمہ پڑهی لکهی نہیں ہے. ...
سولہ جماعتیں....اس نے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہا...لیکن اس نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا. ...
آپ کہاں سے پڑهے ہو جی....
لندن سے....اس نے چائے کا گهونٹ بهر کر کہا..لیکن اگلا سوال سب سے زیادہ عجیب و غریب تها.....
لندن کون سے صوبے میں ہے....؟..اس سوال پہ اس نے گهور کر مخاطب کو دیکها. ...
لندن....لندن...یہاں نہیں ہے لندن جہاز پہ جاتے ہیں وہ بہت دور ہے......وہ ایک ایک لفظ کهینچ کر بولا. ..
جہاں دادی گئی ہیں جی...؟..اب وہ چائے ختم کر چکا تها.....
{ ناول دلہن تحریر ناصر حسین }
ہاں....اس نے مزید سوالات سے بچنے کے لیے سراسر جهوٹ بولا....لیکن اس نے سوالات کا سلسلہ منقطع نہیں کیا...........
آپ گاڑی خود چلاتے ہوئے. ...پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے یہ سوال کیا.....
جی ہاں.......
آپ کو گاڑی چلانا آتا ہے جی...اس نے ایک بار پھر حماقت سے بهر پور سوال کیا......
ظاہر ہے میں اگر گاڑی چلا کر آفس جاتا ہوں تو مجھے گاڑی چلانا آتا ہے....اب کی بار وہ تیز آواز میں بولا. ..اور وہ شاید اس کے جواب سے زیادہ اس کے لہجے سے گهبرا گئی تبهی وہ کپ اٹها کر کچن میں چلی گئی. ..اس نے ایک بار پھر ٹی وی دیکهنے کی کوشش کی. .لیکن اب وہ ٹی وی نہیں دیکھ پا رہا تها. اس کا دماغ کہیں اور تها...اسے الجهن تهی...ٹی وی پہ اسے صرف تصویریں نظر آ رہی تھیں آواز وہ نہیں سن پا رہا تها...اسے اچانک کیا ہو گیا تهوڑی دیر پہلے تو وہ بالکل ٹهیک تها..جب وہ یہاں بیٹهی تهی تو اس کا دل چاہا وہ یہاں سے چلی جائے تا کہ وہ ٹی وی دیکھ سکے اور اب جب وہ چلی گئی..تو اس کا ٹی وی دیکهنے کو بالکل بھی دل نہیں کر رہا تها...ٹی وی بند کر کے وہ اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلا گیا.. ( جاری ہے )
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
___👸 دلہن ______
قسط نمبر 8
صبح صبح اٹھ کر اس نے نماز قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ناشتہ بنایا...وہ ابهی تک گہری نیند میں تها وہ کافی دیر تک اس کے چہرے کو دیکهتی رہی ..وہ اس وقت نیند میں ساری دنیا سے بے خبر بہت معصوم لگ رہا تها...اس پر سے نظریں ہٹا کر اس نے الماری سے اس کے کپڑے نکالے اور وہ ڈسڑب نہ ہو اس لیے انہیں استری کرنے دوسرے کمرے میں لے گئی..........
کل صبح تو جناب نے اس کی استری کی ہوئی شرٹ نہیں پہنی لیکن آج وہ اس کے سارے شرٹس نکال لائی تهی. .وہ کوئی نہ کوئی شرٹ تو ضرور پہنے گا....اگر وہ ضدی ہے تو اسے راہ راست پہ لانے کے لیے وہ بھی ضدی بن جائے گی...
اس کا وہ شوہر محترم اس کی استری کی ہوئی شرٹ نہیں پہنتا اس کے بنائی ہوئی بریانی نہیں کهاتا لیکن رات کو دو بجے بریانی بڑے شوق سے کهائی جاتی ہے..اس سے نظریں بچا بچا کر قیمہ اپنی پلیٹ میں ڈالا جاتا ہے ...اس کے ہاتھوں کی چائے پی جاتی ہے...
کب تک بچیں گے آپ شہری بابو.....وہ استری کرتے ہوئے سوچ رہی تهی...اس کے سارے کے سارے کپڑے استری کرنے کے بعد وہ انہیں واپس الماری میں رکھ آئی وہ بیدار ہو چکا تها کیونکہ واش روم سے آواز آ رہی تهی...وہ نیچے کچن میں اس کے لیے ناشتہ لگانے چلی آئی...............
واش روم سے نکل کر اس نے الماری کهولی اور ایک شرٹ نکال کر پہننے لگا تب اسے احساس ہوا یہ اس لڑکی نے استری کی...اس نے ایک اور شرٹ نکالی وہ بھی استری شدہ ملی...پهر تیسری چوتهی حالانکہ اس کے سارے کپڑے استری ہو چکے تهے....اسے تهوڑا غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی جانے کب اٹھ کر اس نے یہ سارے کپڑے استری کیے.............
لیکن وہ بھی ایک نمبر کا ضدی تها اس نے وہی پرانی شرٹ پہن لی جو اس نے کل سے پہنی ہوئی تھی. ..
وہ جب سیڑھیاں اتر کر نیچے جا رہا تها تو اس نے دیکها وہ اسے غور سے دیکھ رہی ہے اور نہ صرف دیکھ رہی ہے بالکل مسکراہٹ ضبط کرنے کے لیے منہ پہ ہاتھ رکهے ہوئے ہے ...وہ قطعی طور پر اسے نظر انداز کرتا ہوا کهانے کی ٹیبل پہ جا کر بیٹھ گیا. .وہ اندر سے اس کے لیے ناشتہ لے آئی...آج اس نے خود ناشتہ نہیں بنایا جب اس کے ہاتھ کی بنی بریانی وہ کها سکتا ہے چائے پی سکتا ہے تو ناشتہ کیوں نہیں. .....؟
وہ ناشتہ رکھ کر اندر چلی گئی جبکہ وہ آرام سے ناشتہ کرنے لگا ..ناشتے کے بعد وہ آفس کے لیے نکل گیا..........
جبکہ وہ ٹیبل پر سے برتن سمیٹنے لگی..سارے کام مکمل کرنے کے بعد اس ڈرتے ڈرتے ٹی وی آن کیا .. ٹی وی خوبصورت تصویریں دیکھ کر وہ وہیں صوفے پہ بیٹھ گئی. .کوئی گانوں کا چینل لگا تها وہ حیران ہو کر پوری طرح ٹی وی پہ متوجہ تهی...وہ ہیرو اور ہیروئین کو بہودہ ڈانس کرتے دیکھ کر انہیں دل ہی دل میں ملامت کر رہی تھی اور کافی شرما بھی رہی تهی حالانکہ گهر میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا پھر بھی وہ بار بار ادھر ادھر دیکھ رہی تھی. ........
کل افراہیم نے جو اسے چینل بدلنا سکهایا تو انہی بٹنوں کو دباتے ہوئے وہ مختلف چینلز تبدیل کرتی رہی..اچانک فون کی گهنٹی پورے گهر میں گونج اٹهی اس نے حیران ہو کر پیچھے دیکها اور نظر انداز کر دیا. ...
ٹرن....ٹرن....ٹرن....
ایک بار گهنٹی سنائی دی اس بار وہ بدک کر صوفے سے کهڑی ہو گئی گهبراہٹ کے مارے اسے پسینہ آ گیا وہ سمجھ نہ سکی یہ ٹرن ٹرن کی آواز کہاں سے آ رہی ہے......
کہیں کوئی جن بهوت تو نہیں ہیں اس گهر میں. ...وہ ڈرتے ڈرتے ادهر ادهر دیکھ رہی تھی. ....گهنٹی ایک بار پهر سنائی دی. ..اب کی بار وہ چیخ مار کر پیچھے ہٹی........
گهنٹی مسلسل بجتی ہی جارہی تهی..اس نے آواز کا تعاقب کرنے کی کوشش کی. .تب اسے پتا چلا یہ گهنٹی کی آواز اس چهوٹے ڈبے سے آ رہی ہے.......
کچھ سوچنے پہ اسے یاد آیا ایسا ہی ایک ڈبہ اس کی سہیلی نجمہ کے گهر بهی تها جس سے وہ اپنے ابو جو سعودی عرب میں تهے ان سے بات کرتی...لیکن اس سے بات کیسے ہوتی ہے....وہ سوچ رہی تهی جبکہ گهنٹی بجی جا رہی تھی. ...
اس نے درود پاک کا ورد کرتے ہوئے اس چهوٹی چیز کو اٹها ہی لیا جو اس کے اوپر رکھا تھا. ..تب اسے آواز سنائی دی......
ہیلو.....
ہیلو....
کوئی ہے.....بات کرو ....
وہ اس آواز کو پہچان گئی یہ افراہیم کی آواز تهی..
جی آپ...وہ.....اس نے کچھ کہنا چاہا جب کہ وہ اس کی بات کاٹ کر بولا ......
سنو ...شام کو میرے آفس کے کچھ دوست کهانے پہ آ رہے ہیں ہوٹلوں کا کهانا وہ نہیں کهاتے اگر تم بنا سکو تو......
جی ہم بنا دیں گے. .وہ جلدی جلدی بولی....
ٹهیک ہے میں بھی جلدی آ جاوں گا. ..جو سامان ختم ہو چکا ہے وہ بتاو میں آتے وقت لے آوں گا....
اس نے سامان جو ختم ہو گیا تها وہ اسے بتائیں...اور آخر میں جب وہ پوچهنے لگا بس اور تو کچھ نہیں تب وہ بولی.....
جی وہ یہ ٹی بی بند کیسے ہوتا ہے ..اس نے چلا تو لیا اب اسے بند کرنے کا نہیں پتا ...کل بھی اس نے نہیں پوچھا تھا....
اسی بٹن سے جس سے تم نے آن کیا.....اس نے سنجیدگی سے کہہ کر فون کٹ کر دیا...اس نے بهی وہ چیز دوبارہ اپنی جگہ پہ رکھ دی. ..اسے ویسے تو اس کی آواز ہمیشہ سے پسند تهی لیکن فون پہ اس کی آواز اسے ہمیشہ سے بھی زیادہ اچهی لگی اور اس کا اس طرح اسے کهانا بنانے کا کہنا یہ بات بھی اسے اچهی لگی............
ٹی وی بند کر کے وہ سیدھا کچن میں گهس گئی.وہ سامان چیک کرنے لگی اور اپنی ضرورت کی تمام اشیا الگ کرنے لگی..کوئی مہمان پہلی بار گهر آ رہا تها اس لیے وہ کوئی بھی کمی چهوڑنا نہیں چاہتی تهی..اس نے بہت سامان استعمال کے لیے علیحدہ کر کے رکھ دیا اسے مسجد سے اذان کی آواز سنائی دی. ...
سارے کام چھوڑ کر وہ نماز ادا کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی. ..وہ نماز کو اپنی ہر ضروری سے ضروری کام پر ترجیح دیتی..اس کے ماموں نے بچپن میں ہی اسے ایک بات سکهائی تهی جو اسے نے ایک گانٹھ باندھ کر محفوظ کر لی.............
ہم انسان بھی بہت عجیب ہوتے ہیں کامیابی کو ہر جگہ ڈهونڈتے ہیں حالانکہ ہمیں دن میں دس بار آواز آتی ہے.
ِحَىَّ عَلَى الْفَلاَح
ِحَىَّ عَلَى الْفَلاَح
(آو کامیابی کی طرف )
( آو کامیابی کی طرف)
ہم اس آواز کو ہمیشہ نظر انداز کر دیتے ہیں ہم اپنے چوبیس گھنٹوں پہ مشتمل طویل دن میں سے صرف ایک گهنٹہ بهی خدا کو نہیں دے سکتے جو ہمیں اتنا کچھ دیتا ہے......وہ ہمیں نماز کی طرف بلاتا ہے ہم انکار کر دیتے ہیں اور اس کی رحمت تو دیکهو وہ پھر بھی ہمیں کهانا دیتا ہے ہماری ضروریات پوری کرتا ہے..اگر وہ ہم سے کہے آج تو آپ نے نماز نہیں پڑھی آج آپ کو کهانا کیوں دوں...؟..لیکن وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی کتاب میں ننانوے ناموں سے ایک نام رحمن بھی ہے. ................
یہ بات اسے اس کے ماموں نے اس انداز میں سمجهائی کہ وہ دوبارہ کهبی اپنا کوئی نماز نہیں چهوڑ سکی..اور جو بھی کام کر رہی ہوتی اذان کی آواز سن کر وہ کام ادھورا چھوڑ کر نماز ادا کرنے جاتی....
نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں آئی..وہ الماری میں سے خوبصورت برتن بھی نکالنے لگی اپنی طرف سے وہ جتنا سمجھ سکتی تهی اتنا کرنے لگی..اسے دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی وہ کچن سے باہر نکل آئی ..افراہیم بیگ اٹهائے اندر آ رہا تھا. .اس نے بتایا تها وہ جلدی آئے گا لیکن اتنی جلدی آئے گا یہ اس نے نہیں سوچا تها...وہ کچن میں اس کے لیے ایک گلاس پانی لے آئی ....اس نے ایک نظر پانی کو اور ایک نظر اسے دیکها اور پانی پی لیا..وہ خالی گلاس لے کر جب واپس پلٹنے لگی تو اس نے آواز دے کر اسے صوفے پہ بیٹهنے کو کہا وہ ججهکتے ہوئے بہرحال بیٹھ ہی گئی....
سنو. . میرے آفس کے کچھ دوست شام کو کهانے پہ آئیں گے وہ لوگ دس بارہ کے قریب ہوں گے..میں نہیں چاہتا ان لوگوں کے سامنے ہماری شادی شدہ زندگی کے غلط اثرات پڑیں...اس لیے میں چاہتا ہوں تم اچهے سے تیار ہو جانا ...کپڑے بھی میں لا دوں گا اور ایک بات نیلے رنگ کے کپڑوں کے ساتھ کالے رنگ کی آئی شیڈ کوئی نہیں لگاتا ....او کے.......وہ غور سے اس کی بات سن رہی تهی.وہ اسے کل کے میک اپ کی بات جتا رہی تهی.......
اچها چهوڑو میں تمہیں بیوٹی پارلر لے کر جاوں گا وہیں سے تیار ہو جانا اور ابهی ان کے آنے میں کافی وقت ہے. ......
جی ..کون سا کارلر.....
کارلر نہیں بیوٹی.....بیوٹی....ب...ی...و...ٹ...ی...پا...رلر...اس نے ایک لفظ الگ الگ کر کے اسے سمجهانے کی کوشش کی. ....
ببٹی پرلر جی....؟..اس نے سوالیہ انداز میں پوچها جبکہ اس نے زور سے اپنے ماتهے پہ ہاتھ مارا....
ببٹی نہیں ...بیوٹی....اچها چهوڑو...اس بات کو.....تم ان لوگوں کے سامنے کوئی بات نہیں کرو گی او کے. ..اگر تم بات کرو گی تو انہیں پتا چلا جائے گا کہ تم ان پڑھ ہو.....سلام دعا کے علاوہ اور کوئی بھی بات نہیں کرو گی تم اور سلام دعا بھی مدهم آہستہ آواز میں کرنا....ویسے نہیں جیسے فون پہ چلا چلا کر بات کر رہی تھی. .کوئی بہرہ نہیں ہوتا ..او کے ......
اس نے اپنی گردن ہلائی.. ..
اور اتنے لوگوں کا کهانا بنا لو گی. ..؟..
جی ہم بنا لیں گے ......
ٹهیک ہے تم ابهی سے تیاری شروع کرو کیونکہ وقت بہت کم ہے اور بعد میں بیوٹی پارلر بھی جانا ہے او کے .....وہ حکم صادر کر کے کمرے میں فریش ہونے چلا گیا.......
وہ بهاگتے ہوئے کچن میں چلی گئی اس کے پاس جناب کے کہے ہوئے کسی بات کو بھی سوچنے کا وقت نہیں تها .جلدی جلدی وہ ہاتھ چلانے لگی..!!
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____ 👸دلہن ______
قسط نمبر 9
پہلی بار پڑهنے والوں کے لیے گزشتہ قسط کا خلاصہ.
بانی نام کی ایک دیہاتی ان پڑھ لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے ایک ہینڈسم پڑهے لکهے مغرور شخص (افراہیم) سے جو اسے نا پسند کرتا ہے ..افراہیم کے مہمان آنے والے ہوتے ہیں وہ بانی سے کهانے بنانے کو کہتا ہے...اب آگے.......
.................................................
اس وقت مغرب کی اذان ہو رہی تهی جب وہ کچن سے بہ مشکل فارغ ہوئی کئی قسم کے کهانے وہ بنا چکی تهی میٹهے میں بھی بہت کچھ بنایا تها اس نے. ...
کهانا اچها ہے یا برا یہ فیصلہ وہ نہیں کر سکتی تهی اس فیصلے کا حق ان مہمانوں کو تها.. ..اس نے تو اپنے گاوں کے مطابق سارے کهانے بنائے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ڈر بهی رہی تهی..پتا نہیں ان لوگوں کو کهانا پسند آئے گا بهی یا نہیں.
وہاں کی بات الگ تهی وہاں گاوں میں تو سبھی اس کے ہاتھوں کے بنی کهانوں کی تعریف کرتے تهے اور آس پاس کے پڑوسی تو اس سے فرمائش کر کے مختلف پکوان بنواتے تهے لیکن یہ شہر ہے یہاں کی طرز زندگی مختلف ہے. ..یہاں گاوں کے دیسی کهانوں کو پسند نہیں کیا جاتا ہو گا..... .......
مغرب کی نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں آئی ..وہ بھی چیزوں کا جائزہ لینے کچن میں آ گیا اب وہ اس سے ایک ایک چیز کے بارے میں پوچھ رہا تها اور ساتھ ہی ساتھ اپنی رائے کے ساتھ ساتھ اسے کچھ خصوصی نصیحتیں بھی کر رہا تها..............
اچها کهانا تو بن گیا اب چلو بیوٹی پارلر. ..اس نے بریانی ٹیسٹ کر کے کہا.......
جی اچها ہم تیار ہو کر آتے ہیں.
محترمہ آپ تیار ہونے کے لیے ہی بیوٹی پارلر جا رہی ہیں. .چلو تهوڑی دیر میں وہ لوگ آ جائیں گے. ..دیر ہو رہی ہے....وہ کچن سے باہر نکل گیا جبکہ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے پورچ میں آئی..........
وہ اس کے لیے کار کا دروازہ کهول چکا تها وہ بیٹھ گئی. .وہ زندگی میں پہلی بار کار میں بیٹھ رہی تهی اس لیے نہیں جانتی تھی کہ کار میں بیٹهنے کے کیا طریقے کار ہوتے ہیں.اور وہ تهوڑا ڈر بھی رہی تهی ......اس نے بیک ویومر سے اسے دیکھا اور گاڑی سٹارٹ کر سڑک پہ لے آیا...
وہ دونوں ہاتهوں سے سیٹ قابو کر کے بیٹهی تهی. جبکہ وہ اس کی اس حرکت کو نوٹ کر چکا تها.....
مس بانی صاحبہ یہ کار ہے موٹر سائیکل نہیں. .آپ اگر ہاتھ چهوڑ کر بھی بیٹهیں گی تب بھی نہیں گریں گی..اس نے طنزیہ لہجے میں اسے مخاطب کیا. ..اس نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ چهوڑ ہی دیے.........
آپ کو گاڑی چلانا اچهے سے آتا ہے ناں جی....اس نے گهبراتے ہوئے پوچها. جبکہ وہ بے اختیار مسکرا دیا....
نہیں مجھے تو نہیں آتا گاڑی چلانا اس وقت گاڑی کو ایک فرشتہ چلا رہا ہے...کیا پتا کب یہ کسی بڑے ٹرک سے ٹکرا جائے اور آپ بیوٹی پارلر کی جگہ اوپر پہنچ جائیں...اس لیے درود کا ورد جاری رکهیے....اس نے تو یونہی مذاق کیا تها جبکہ وہ سچ مچ درود پڑهنے لگی.......
پتا نہیں کہاں سے پکڑ کر لائیں ہیں دادی اس انمول تحفے کو...اس نے دل ہی دل میں سوچا. ..اور گاڑی پارلر کے سامنے روک دی پہلے وہ خود گاڑی سے نیچے اترا اور اس کے لیے دروازہ کھول دیا وہ بھی ہونٹ ہلاتی نیچے اتری............
وہ اس کی تقلید میں چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی وہ اتنے عالیشان اتنے خوبصورت پهولوں سے سجی اس پارلر کو دیکھ کر حیران رہ گئی. .وہ گهور گهور کر میک اپ کراوتی لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی. .کتنی پر اعتماد اور بولڈ لڑکیاں تهیں جو انگریزی میں بات کر رہیں تهیں...ہنس رہیں تهیں مسکرا رہیں تهیں ...اسے رشک محسوس ہوا ان سبھی لڑکیوں پہ جو اتنی خوبصورت تهیں اتنی پر اعتماد....اتنی اچهی انگلش بولتی تهیں...ان سب کے شوہر تو انہیں بہت پسند کرتے ہوں گے اس نے دل ہی دل میں سوچا.......
کاش میں بهی ان سب میں سے ایک ہوتی ..میں بھی اتنی اچھی انگلش بول سکتی کاش میں نے بهی کسی بڑے ادارے سے کوئی بڑی ڈگری حاصل کی ہوتی. .تو افراہیم مجھے بہت پسند کرتا...ان ماڈرن لڑکیوں کو دیکھ کر بے اختیار اس کے دل میں ایک عجیب و غریب خواہش پیدا ہوئی....اس نے گردن موڑ کر افراہیم کو دیکها جو اس پارلر والی سے انگلش میں کوئی بات کر رہا تها......کتنا خوبصورت لگ رہا تها افراہیم اس وقت اس کے ساتھ تو ان سب میں موجود کوئی لڑکی خوبصورت لگتی اس جیسی ان پڑھ جاہل دیہاتی ہر گز نہیں. .........
سنو....میں جا رہا ہوں ایک گهنٹے بعد تمہیں لینے آوں گا ٹهیک ہے یہیں اندر اس کرسی پہ بیٹھ کر میرا انتظار کرنا کہیں باہر مت نکل جانا اوکے....؟..اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکها اس نے اثبات میں گردن ہلائی اور وہ مطمئن ہو کر چلا گیا..........
پهر وہ لڑکی جس سے ابهی تهوڑی دیر پہلے وہ بات کر رہا تها وہ اسے ایک دوسرے کمرے میں لے گئی..اس کمرے میں ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تهی..اس لڑکی نے اسے ایک کرسی پہ بٹها دیا...... ..
اس نے آئینے میں خود کو دیکها تو بے اختیار آنکھیں بند کر دیں...اسے نہیں پتا وہ لڑکی اس کے ساتھ کیا کیا کرتی رہی۔
کهبی اس کے بالوں پہ کوئی مشین چلاتی تو کهبی رخسار پر کوئی کریم لگاتی تو کهبی آنکهوں پہ......اس کے لیے یہ سب نیا تها اس کی نظر میں میک اپ لپ اسٹک اور آئی شیڈ تک ہی محدود ہے لیکن وہ بے وقوف تهی آئی شیڈ اور لپ اسٹک تو کچھ بھی نہیں. .یہاں تو اور بھی کئی طرح کا میک اپ ہوتا تھا.... ...
ایک گهنٹے بعد جب وہ مکمل طور پر تیار ہوئی تو آئینے کو دیکھ کر ساکت رہ گئی...وہ اتنی خوبصورت بھی لگ سکتی ہے یہ بات اسے پہلے کهبی نہیں معلوم تهی..
وہ بس آئینے میں خود کو دیکهتی رہی اسے یقین نہیں آ رہا تها آئینے میں کهڑی وہ حسین و جمیل لڑکی کوئی اور نہیں وہ خود ہے...میک اپ سے اس کا خوبصورت چہر نکهر آیا تها...کالے رنگ کے ریشمی فراک کے ساتھ وہ کسی پرستان کی پری لگ رہی تھی. .!!
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____👸 دلہن ______
قسط نمبر 10
ایسی خوبصورت لڑکیاں تو وہ ٹی وی میں دیکها کرتی تهی ..وہ بے یقینی کے ساتھ اپنے ہاتهوں کو اپنے گالوں کو چهو کر دیکھ رہی تھی.
تهوڑی دیر پہلے وہ ان سب لڑکیوں پہ رشک کر رہی تھی اب میک اپ کر کے وہ ان سب سے اچهی لگ رہی تهی اب اسے افراہیم کے ساتھ چلنے میں کوئی شرم نہیں ..
اسے ڈر تها کہیں اسے اپنے آپ کی ہی نظر نہ لگ جائے..اس کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی ایک بار افراہیم اسے دیکھ لے تب اسے پتا چلے گا اس کی بانی کتنی خوبصورت ہے. ...
وہ تو نظریں ہی نہیں ہٹا سکے گا......تهوڑی دیر بعد اس لڑکی نے آ کر اطلاع دی کہ اس کا شوہر آ چکا ہے وہ آرام سے چلتے ہوئے باہر آئی تو افراہیم اسے دیکھ کر جیسے سانس لینا بهول گیا ہو....
وہ ایک ٹک اسے دیکهے جا رہا تها.اس کی دهڑکن کی رفتار بے ترتیب ہونے لگی تھی .اس نے بھی شرما کر نگاہیں نیچے کر رکهیں تهیں....بہت دیر بعد وہ خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہوا ...
چلیں....؟...اس نے اپنے قدم آگے بڑهائے. .اب وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی کوئی شرم محسوس نہیں کر رہی تهی.....
Nice Couple.....
پیچھے سے ایک لڑکی کی آواز آئی اس کی اس بات کا مطلب وہ تو نا سمجھ سکی البتہ افراہیم نے مسکراتے ہوئے اسے کچھ جواب دیا..........
وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ آ کر بیٹھ گیا. .وہ بھی بیٹھ چکی تهی اس نے کار سٹارٹ کر کے گهر کے راستے کی طرف موڑ دی..وہ بار بار بیک مرر سے اسے دیکھ رہا تھا اسے دیکھ کر اس کا دل ہی نہیں بهر رہا تها...
آج وہ اتنی خوبصورت جو لگ رہی تهی.........
کیا یار. ..دماغ خراب ہے اس دیہاتی جاہل کو کیوں گهور گهور کر دیکھ رہے ہو...مانا کہ وہ خوبصورت ہے لیکن خوبصورتی ہی تو سب کچھ نہیں ہوا کرتی...یہ لڑکی وہ نہیں ہے جس کے ساتھ تو نے اپنی پوری زندگی گزارنی ہے. ...جس لڑکی کو ٹی وی آن کرنا ہی نہ آتا ہو وہ اس کے ساتھ کیسے ساری زندگی رہ سکتا ہے. .یہ صرف ایک سمجهوتہ ہے بس اور کچھ نہیں. ...
اس نے خود کو ملامت کیا....لیکن یہ سب سوچنے کے باوجود بھی وہ بار بار بیک ویومر سے اسے دیکهتا رہا جب کہ وہ اس سے بے نیاز سڑک پہ چلتی گاڑیوں کو دیکهتی رہی. .......
گهر پہنچ کر وہ سیدھا کچن میں گهس گئی جو تهوڑا بہت کام باقی رہ گیا تها وہ کرنے ..مہمانوں کے آنے میں ابهی تهوڑا وقت باقی تها...کچن سے مطمئن ہو کر نکلنے کے بعد وہ ڈائٹنگ ٹیبل پہ آئی وہاں کی صفائی کے ساتھ ساتھ اس نے پهول بھی ٹیبل پہ رکھ دیے..اگر اسے زیادہ نہیں بهی معلوم تها تو اپنے اندازے کے مطابق کچھ نہ کچھ تو وہ کر رہی تهی.........
اس نے ایک سرسری سے نگاہ صوفے پہ بیٹهے افراہیم پہ ڈالی وہ تهکے ہوئے لگ رہے تهے وہ کچھ سوچ کر کچن میں گئی اور گرما گرم تازہ چائے بنا کر اس کے پاس ٹیبل پہ جا کر رکھ دی. .چائے رکهنے کی آواز پہ اس نے اپنی بند آنکھیں کهولیں........
اس کا اس وقت چائے پینے کا موڈ لگ رہا تها لیکن یہ بات اسے کیسے پتا چلی اس بات پہ وہ تهوڑا حیران ضرور تها..........
کچھ ہی دیر میں اس کے آفس کے سارے دوست آ گئے وہ سب سے گرم جوشی سے ملا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی نئی نویلی دلہن صاحبہ کو بھی دیکھ رہا تها کہیں وہ کوئی غلطی نہ کردے...وہ اس کی نصیحت کے مطابق صرف سلام دعا کی حد تک ہی بات کر رہی تهی....سارے مہمانوں جو تین سٹائلش لڑکیاں تهیں وہ بڑے اچهے طریقے سے اس کا جائزہ لے رہی تهیں...یا پهر شاید یہ دیکھ رہی تهیں کہ اس میں ایسی کیا بات ہے جو افراہیم صاحب نے ہم جیسی لڑکیوں کو نظر انداز کر دیا. ............
ارے یار کمال کی بیوی ڈهونڈ کر لائے ہو کون سے حسین وادی سے پکڑ کر لائے ہو اس پری کو...؟..اس کے ایک دوست نے جو کچھ زیادہ ہی شوخ مزاج تها اس نے کمنٹ پاس کیا..اور آواز اس کی اتنی اونچی تهی کہ زرا فاصلے پہ کهڑی لڑکیوں کو بھی سنائی دی اور سب قہقہے لگانے لگے..........
وہ اپنی تعریف پہ جهنپ گئی .......
ارے ..رے...اس محترمہ کو دیکهو کیسے دیہاتی لڑکیوں کی طرح شرما رہی ہے....اس کے پاس کهڑی ایک لڑکی بولی. ..اسے ڈر لگنے لگا اس کے سارے دوستوں میں سے کوئی یہ نہ جان لے کہ اس کی بیوی ایک ان پڑھ دیہاتی ہے............
اچها یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی پہلے کچھ پیٹ پوجا ہو جائے.. ؟..افراہیم نے سوالیہ نگاہ سب کے چہروں پہ ڈالی جن کا جواب مثبت تها....................
ارے یار افراہیم یقین نہیں آتا شہر میں رہ کر تماری بیوی اتنا اچها کهانا بناتی ہے ..اس کے ایک دوست نے کهانا کهاتے ہوئے تبصرہ کیا.......
وہ تو اس کے ہاتھ کے بنی کهانوں کا ذائقہ اچهے سے جانتا تھا لیکن اس کے دوست پہلی بار کها رہے تھے. . ...پہلی بار تو اسے بھی حیرت ہوئی بریانی کها کر کیونکہ اتنی ذائقہ دار بریانی اس نے کهبی نہیں کهائی...
ہائے...ایک ہماری بیویاں ہیں جنہیں میک اپ سے ہی فرصت نہیں ملتا..دوسرے دوست نے دہائی دی..جبکہ وہ دوستوں کی گفتگو سے زیادہ اسے دیکھ رہا تها وہ لڑکیاں سرگوشی میں پتا نہیں کرید کرید کر اس سے کیا پوچھ رہیں تهیں...جبکہ وہ بول کم اور سن زیادہ رہی تهی یہ مشورہ بهی خود اس نے ہی اسے دیا تها...
بهابی مجهے اس ٹیسٹی بریانی کی ریسپی ضرور دے دیجیے گا ..جاتے وقت ...وہ حیرانی سے اپنے مخاطب کو دیکھ رہی تھی..وہ سمجھ نہیں سکی وہ کون سی پیس مانگ رہا ہے....
ہاں ہاں کیوں نہیں.ہماری مسز آپ کو بریانی بنانے کی ترکیب ضرور دے دی گی....افراہیم نے بات سنبھال کر کہا .اور وہ سمجھ گئی.....
اور کهانے کے دوران ایسے چهوٹے موٹے مسئلے پیدا ہوتے رہے جنہیں وہ بڑے آرام سے ایک خوبصورت انداز میں سنبهالتا رہا ...کهانے کے بعد چائے کا دور چلا سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ہلکی پھلکی گفتگو کے ساتھ ساتھ چائے کا بھی مزا لے رہے تهے.........
وہ خاموش ضرور تهی لیکن اپنے کسی بھی اینگل سے اس نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ ان سب پڑهی لکهی لڑکیوں سے مختلف ہے وہ ایک چهوٹے گاوں سے آئی ایک ان پڑھ لڑکی ہے.وہ بھی خاص طور پر اس پہ نظریں جمائے بیٹھا تها....حالانکہ اس کے ایک دوست نے اس کی یہ چوری پکڑ بھی لی.......
چلتا ہے سب .شروع شروع کے دنوں میں ہم بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے. .ہم بھی اپنے بیگمات کو بے پناہ چاہتے تھے لیکن اب صرف پناہ چاہتے ہیں. ..
وہ اس کے پاس صوفے پہ بیٹها ہوا تها اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا..اس لیے کوئی اور نہیں سن سکا... وہ بظاہر مسکرا دیا..!! (جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____ 👸 دلہن ______
قسط نمبر 11
مہمانوں کے چلے جانے کے بعد وہ کچن میں چلی آئی بہت کام باقی پڑا تها..اس نے سارے برتن سمیٹے..اور کچن میں بکهری بکهری چیزیں سمیٹنے لگی ....
وہ باہر ٹی وی پہ بیٹها بنا دلچسپی سے چینل تبدیل کر رہا تها..
اس نے محسوس کیا کہ اس کی نگاہیں ٹی وی پہ بالکل نہیں ہیں پتا نہیں کہاں ہیں. .........
وہ کئی مرتبہ کچن میں بھی جهانک کر دیکھ چکا تها .وہاں سے برتن کهٹکنے کی آوازیں آ رہیں تهیں...
شکر ہے دادی کی بہو نے اس کے دوستوں کے سامنے کچھ تو لاج رکهی. نہیں تو وہ تو بہت ڈر رہا تها پتا نہیں کیا ہو گا... کیسی حرکتیں کرے گی وہ... اچانک اس کے دوستوں نے نئی شادی کی خوشی میں اس سے ٹریٹ کی فرمائش کر دی اور اس نے پتا نہیں کیسے ہاں کر دی .......
وہ ٹی وی دیکھ دیکھ کر بیزار ہو چکا تها اس کے قدم بے اختیار سی کیفیت میں کچن کی طرف بڑهنے لگے..اسے کچن کے دروازے پہ دیکھ کر اس نے برتن دهونا روک کر غور سے اسے دیکھا. ......
جی کچھ چاہیے آپ کو....؟
اس نے اس لڑکی کی آواز سنی وہ ہاں یا ناں کچھ نہیں بول سکا کیا بولتا اسے خود بھی نہیں پتا تها وہ کچن میں کیوں چلا آیا..
وہ ابهی تو ٹی وی دیکھ رہا تها پهر جانے کیا سوچ کر وہ کچن میں چلا آیا....وہ ذہنی طور پر غائب تها کہیں. ... بعض اوقات انسان کا اپنے ذہن پہ بهی اختیار نہیں رہتا.اس نے ایک نظر اس لڑکی کو دیکها جو شاید اس کے کسی جواب کی منتظر تهی .جواب تو اس کے خود پاس بھی نہیں تها تو کیا جواب دیتا. ..وہ کچن سے باہر نکل کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا..............
بڑی دیر کے بعد وہ کچن کے کاموں سے فارغ ہوئی تو تهکاوٹ کے ساتھ ساتھ آنکھیں نیند سے بوجهل ہونے لگیں ..وہ کمرے میں چلی گئی وہ ابهی تک جاگ رہا تها لیپ ٹاپ پہ کوئی کام کر رہا تھا شاید. .........
وہ فرش پہ اپنا بستر بنانے لگی اس کی نگاہیں وہ مسلسل خود پہ محسوس کر سکتی تهی. ........
آپ کے لیے چائے لاوں جی.....
نہیں.. اس نے سنجیدگی سے جواب دیا......
آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں جی...پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے یہ کہا جبکہ وہ حیرت سے اسے دیکهنے لگا وہ کب سے اس کا چہرہ پڑهنے لگی...............
نہیں تو میں کیوں پریشان ہوں گا.....اس نے نفی کی لیکن دل کے بات کی نفی نہیں کر سکا............
جب دادی یہاں نہیں ہوتی تو آپ کهانا ہوٹل سے لاتے ہو جی...
نہیں خود بناتا ہوں......اس کی نظریں لیپ ٹاپ پہ تهیں.
آپ خود....؟..اس نے بے یقینی سے پوچها...
ہاں کیوں...اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے.....
جی وہ ہمارے گاوں میں تو مرد کهانا نہیں بناتے....
لیکن یہ گاوں نہیں ہے. ... گاوں اور شہر میں زمین آسمان کا فرق ہے. .اب وہ کوفت میں مبتلا ہونے لگا..........
جی آپ نے اپنی ماں کو دیکها ہے........
ہاں.......اس نے ایک لفظی جواب دیا..اور وہ خاموش ہو گئی. ......
اچها تمہیں کهانا بنانا تماری ماں نے سکهایا ہے. ..پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے پہلی بار اس لڑکی سے سوال کیا ہے. .....
نہیں جی ہم نے تو اپنی امی کو دیکها بھی نہیں وہ ہمارے بچپن میں ہی گزر گئیں .کهانا بنانا تو ہم نے خود سیکھ لیا. ..آپ کو اچها لگا ہمارے ہاتھ کا کهانا........
ہاں ٹهیک ہی تها....حالانکہ وہ اس کے کهانوں کا اسیر ہو چکا تها. ..........
پهر اس نے کوئی اور سوال نہیں پوچھا وہ چادر اوڑھ کر لیٹ گئی وہ بھی لیپ ٹاپ رکھ کر لیٹ گیا..!! (جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____ 👸 دلہن ______
قسط نمبر 12
وہ چهٹی کا دن تها اس لیے اسے بیدار ہونے کی کوئی جلدی نہیں تهی وہ دس بجے تک سوتا رہا اور دس بجے کے بعد جب اس کی نیند مکمل ہو چکی تهی تو وہ فریش ہونے واش روم چلا گیا جب باہر نکلا تو اس کی بلیک کلر کی شرٹ بیڈ پہ پڑی ہوئی تهی ...
مطلب آج اسے بلیک شرٹ پہننے کو کہا جا رہا ہے اب وہ اسی کے استری شدہ کپڑے پہننے لگا تها..جب اس کے ہاتھ کی بنی چائے پی سکتا ہے کهانا کها سکتا ہے تو کپڑے پہننے میں بهی کوئی ہرج نہیں تها............
لیکن ایک بات اسے اب تک سمجھ نہیں آئی اس لڑکی کو کیسے پتا چل جاتا ہے کہ وہ کس ٹائم بیدار ہوا ہے اور اسی وقت وہ شرٹ بستر پہ لا کر رکھ دیتی ہے یا پھر جب اس کے سر میں درد ہوتا ہے یا پھر چائے پینے کا موڈ ہوتا ہے تو بنا کہے وہ اس کے لیے چائے بنا کر لے آتی ہے. ..حالانکہ اس نے روایتی شوہروں والا ایسا کوئی حکم بھی نہیں سنایا لیکن وہ خود بنا کہے اس کے سارے کام کرتی ...وہ روایتی بیویوں والے سارے فرض نبها رہی تهی لیکن اس سب کے باوجود بھی وہ اسے قبول نہیں کر سکتا...........
اس میں وہ اعتماد اور وہ شعور ہی نہیں ہے جو اسے ایک بیوی میں چاہیے تها وہ خوبصورت ہے لیکن خوبصورتی ہی تو سب کچھ نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی صرف خوبصورتی کے ساتھ پوری زندگی گزاری جاتی ہے........
ہر انسان کی طرح اسے بھی حسن متاثر کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایک انسان کو خوبصورت بنانے کے لیے صرف حسن ہی کافی ہو ...حسن کے علاوہ بھی کئی اور چیزیں انسان کو خوبصورت بناتی ہیں. .....کنگھی کر کے وہ نیچے چلا گیا تب تک وہ ناشتہ لگا چکی تهی..ناشتہ کر کے یونہی لان میں اخبار لے کر بیٹھ گیا چهٹی کا دن تها اس لیے ذہن بالکل فریش تها ویسے اسے اخبار پڑھنے کی عادت تو نہیں تهی لیکن یونہی ٹائم پاس کے انداز میں وہ اخبار کے ہیڈ لائز پہ نظریں دوڑانے لگا ..چهٹی کے دن اس کی کوئی خاص مصروفیت نہیں ہوا کرتی وہ ہمیشہ چهٹی کا دن گهر پہ ہی گزارتا. .. عام نوجوانوں کی طرح کوئی خاص دوستی بھی نہیں تهی اس کی ..اس نے اپنا سارا وقت سارے خواب اپنی ہونے والی جیون ساتھی کے لیے سمیٹ رکهے تهے..لیکن اس کے خواب ریزہ ریزہ ہو چکے تهے دادی کے آنے میں بھی ایک ہفتہ باقی تها........
اچانک اخبار پڑھتے پڑھتے اسے احساس ہوا کوئی اسے دیکھ رہا ہے اس نے نگاہ اٹھا کر دائیں بائیں جانب دیکها لیکن اسے کوئی نظر نہیں آیا وہ ایک بار پھر اخبار پڑھنے لگا لیکن کچھ لمحے بعد اسے پھر احساس ہوا جیسے کوئی اسے مسلسل دیکھ رہا ہے اب کی بار اس نے دائیں بائیں دیکها اور پھر سامنے دیکها تو اسے پتا چلا کہ وہ لڑکی کچن کی کهڑکی جو باہر لان کی طرف کهلتی ہے اس سے چپکے چپکے اسے دیکھ رہی تھی. .وہ اس کی چوری پکڑ چکا تها اور اسے دیکھ کر وہ کهڑکی سے غائب ہو گئی. ...اسے کچھ عجیب لگا..دو دن پہلے جب صبح کے وقت وہ گہری نیند میں سو رہا تها اچانک ایک آواز سے اس کی آنکھ کهلی. ..تب اس نے دیکھا وہ لڑکی ہاتھ باندھ کر اسے بڑے غور سے دیکھ رہی ہے اسے حیرت کا جهٹکا لگا.......پهر اس نے چادر اوڑھ لی اور چادر کے اندر سے آنکھیں کهول کر اس لڑکی کو دیکهنے لگا جو مسلسل اسے دیکهے جا رہی تهی اسے نہیں پتا تها وہ بھی اسے دیکھ رہا ہے اگر اسے پتا ہوتا تو وہ شاید گڑبڑا کر باہر نکل جاتی .....
اس صبح وہ کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا اور آج ایک بار پھر وہ اسے مسلسل گهور رہی تھی کیا وہ ہمیشہ اسے ایسے گهور کر دیکهتی ہے جب وہ چائے پی رہا ہوتا ہے یا وہ کهانا کها رہا ہوتا ہے. ..لیکن کیوں....؟..
اس دن وہ اس کے کپڑے استری کرنے لگی تهی جب اچانک اسے یاد آیا کہ وہ دودھ کی دیگچی چولہے پہ رکھ آئی ہے وہ اب ابلنے والا ہوگا وہ بهاگتی ہوئی کچن میں گئی چولہے کا بٹن بند کیا اور دودھ اتار کر سائیڈ پر رکھ دیا. .......
اب وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے تک آئی .کمرے اسے عجیب بدبو کا احساس ہوا اس نے استری کی طرف دیکها اور یہ دیکھ کر جیسے اس پہ آسمان گر گیا وہ شرٹ جل چکی تهی...وہ بهاگتے ہوئے استری تک گئی .....
اس نے اپنے ماتهے پہ زور سے ہاتھ مارا..
یہ کیا ...یہ..کیا کر دیا میں نے یہ تو ان کی پسندیدہ شرٹ تهی اب کیا ہو گیا اللہ. ..اب تو وہ بہت غصہ کریں گے...کیا کہوں گی ان سے کیسے بتاؤں گی..وہ تو پہلے بھی بہت ناراض رہتے ہیں اب انہیں اس شرٹ کا پتا چلے گا تو وہ اور بھی ناراض ہوں گے. .......
وہ آفس سے واپس آ گیا لیکن وہ اسے شرٹ کے بارے میں نہ بتا سکی. .کهانے کے وقت بھی اس کی ہمت نہیں ہوئی....رات کے سوتے وقت بھی وہ اسے بتانا چاہتا تهی لیکن ہمت ہی نہیں پیدا کر پا رہی تهی....
وہ اس کی عجیب غیر معمولی تبدیلی کو نوٹ کر رہا تها پتا نہیں کہاں گم تهی کس ٹینشن میں تهی جب سے وہ آفس سے آیا ہے اسے وہ کسی پریشانی میں مبتلا لگی..کهانے کے دوران بھی اس نے جگ کے ساتھ گلاس نہیں رکها اور چائے میں بھی چینی کی جگہ نمک ڈال کر آ گئی...اس نے تو اسے کچھ نہیں کہا لیکن وہ کچھ نیا پن محسوس ضرور کر رہا تها. ..
.لیکن وہ خود بتا نہیں رہی تهی اور وہ تو اس سے زندگی بهر نہیں پوچهتا.....
صبح جب وہ ناشتہ کر کے آفس جانے لگا تو پیچھے سے آواز دے کر اس نے روک دیا.......
پیچھے سے آواز دینا ضروری تها محترمہ. ..اب بتاو کیا چاہیے. .....وہ خاموش نگاہیں جهکا کر کهڑی تهی شاید کچھ بول ہی نہیں پا رہی تهی....
اب آپ کچھ بولیں گی یا میں بیٹھ کر آپ کے بولنے کا انتظار کروں ویسے بھی مجھے آفس جانے میں تو بالکل بھی دیر نہیں ہو رہی....وہ طنز کے تیز چلا رہا تها...
جی...وہ..میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں. .اس نے ہونٹوں پہ زبان پهیر کر کہا....
جی ہم وہی سننے کے لیے تو کهڑے ہیں محترمہ. ...
وہ غلطی سے آپ کی شرٹ استری کرتے ہوئے جل گئی....یہ کہہ کر وہ پهوٹ پهوٹ کر رو پڑی...
اور وہ پتا نہیں کیا کیا سوچ چکا تها کل سے...اور اب پتا نہیں رو کیوں رہی تهی. ...
اوکے...اوکے.....کوئی بات نہیں. ....
لیکن وہ آپ کی پسندیدہ شرٹ تهی جی...وہ نیلی والی....اس نے اپنی مسکراہٹ چهپائی...
کہہ دیا ناں کوئی بات نہیں اب یہ مگر مچھ کی طرح آنسو مت بہاو...اسے اس کے آنسو سے تکلیف ہونے لگی تهی وہ جانے کے لیے دروازے کی طرف مڑا پهر کچھ سوچ کر واپس اس کے پاس آیا.......
تم تو آسانی سے یہ بات مجھ سے چهپا سکتی تهی اتنے سارے شرٹس میں سے میں اپنی ہر شرٹ کا تو حساب نہیں رکهتا پهر تم نے اپنی غلطی کیوں بتائی.....
میں نے زندگی میں جهوٹ کهبی نہیں بولا جی..
آپ سے جهوٹ بول سکتی ہوں لیکن اپنے آپ سے تو نہیں. اور میں اپنی نظروں سے کهبی نہیں گرنا چاہتی..اور اگر آج میں جهوٹ بولتی تو میں چوری کرتی. .اور چوری چاہے چهوٹی ہو یا بڑی چوری چوری ہی ہے ...اور چوری کرنے والا اور جهوٹ بولنے والا زندگی میں کهبی نہ کهبی منہ کے بل گرتا ضرور ہے....
اسے حیرت کا جهٹکا لگا...پتا نہیں کتنی پاگل لڑکی تهی ..ایسی لڑکیاں بھی دنیا میں ہوتی ہیں. ئہ لڑکیوں کی کون سی قسم ہے..بیویاں تو بڑی سے بڑی جهوٹ بول کر اپنے شوہروں کو بے وقوف بناتی ہیں ان سے کئی باتیں چهپاتی ہیں اور یہ ایک معمولی شرٹ کے لیے اتنا چھوٹا جهوٹ بهی نہیں بول سکی.......
وہ سارا راستہ اسی کے بارے میں سوچتا رہا..!!
(جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____👸 دلہن ______
قسط نمبر 13
پہلی بار پڑهنے والوں کے لیے گزشتہ قسط کا خلاصہ.
بانی نام کی ایک دیہاتی ان پڑھ لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے ایک ہینڈسم پڑهے لکهے مغرور شخص (افراہیم) سے جو اسے نا پسند کرتا ہے ..وہ اسے پانے کے لیے ہر حد تک جاتی ہے. ..اب آگے.......
.................................................
اس رات وہ اپنے بستر پہ یونہی لیٹا تها جب وہ اس کے کمرے میں آئی اس کے ہاتھوں میں دودھ کا ایک گلاس تها وہ ہمیشہ رات کو سونے سے پہلے اس کے لیے دودھ لانا نہیں بهولتی تهی..وہ ایک مشرقی بیوی کے روپ میں بالکل پوری اترتی تهی کهبی کهبی وہ اس لڑکی کو بالکل بھی سمجھ نہیں پاتا وہ اس سے جتنی بدتمیزی سے بات کرتا یا کهبی کهبی غصے سے بات کرتا تو وہ جواباً خاموش ہو جاتی....دوسرے بیویوں کی طرح لڑتی جهگڑتی بالکل بھی نہیں تهی لڑنا تو دور وہ کهبی اپنی صفائی بھی پیش نہیں کرتی تهی........
وہ اپنے دوستوں کی جب شکائتیں سنتا جو وہ اپنی اپنی بیویوں کے بارے میں کرتے تو حیران ہو جاتا کہ کون سی بیوی سہی قسم کی ہے ...ایک ان پڑھ جاہل گاوں کی لڑکی یا وہ پڑهی لکهی ماڈرن لڑکیاں..جو اپنے شوہروں پہ حکومت کرتی تهیں..نہ کهانا بنانا نہ بچوں کو سنبهالنا ہر وقت میک اپ سے لدے رہنا....ہنس ہنس کے ہر مرد سے بات کرنا ...اسے اس قسم کی عورتیں کچھ عجیب لگتیں..لیکن وہ اپنی زندگی میں ایک بہت مختلف لڑکی دیکھ رہا تھا ایک ایسی لڑکی جو اس نے آج تک کهبی نہیں دیکهی............
ایک وہ بیویاں تهیں جو شوہروں کی ہر بات پہ اعتراض کرتی تهیں اور ایک یہ ہے اگر اس سے کہا جائے کہ رات سفید ہے تو یہ اپنے شوہر کی ہاں میں ہی ہاں ملائے گی یہ لڑکی تو اپنے شوہر کو مجازی خدا سمجهتی تهی.ہر بات ماننے والی ..ہر کام کرنے والی....
ایک بار اس کے آفس کے ایک دوست نے اس سے پوچھا تها اسے کس قسم کی بیوی چاہیے وہ کوئی جواب نہیں دے سکا اسے اب تک نہیں معلوم تها کہ بیویوں کی بهی اقسام ہوتی ہیں. .اس نے دودھ کا گلاس اس کے ہاتهوں میں تهما دیا وہ دودھ پیتے ہوئے اسے مسلسل اپنی نگاہوں کے حصارے میں لیے ہوئے تها اور وہ نگاہیں جھکائے کھڑی تهی....کتنی عجیب لڑکی تهی کسی اور تو کیا شوہر سے نگاہیں ملاتے ہوئے بھی شرماتی تهی وہ پہلی بار اس کے اس ادا سے لطف اندوز ہو رہا تها....................
اس لڑکی کے ساتھ رہتے ہوئے اسے بیس دن ہو چکے تهے اور ان بیس دنوں میں اس نے نوٹ کیا کہ وہ لڑکی جهوٹ کهبی نہیں بولتی ...
بنا مقصد بنا مطلب کوئی بات نہیں کرتی...
نماز پابندی سے ادا کرتی ہے...
اور کئی بار اس نے صبح صبح اسے قرآن پاک کی تلاوت کرتے بھی سنا.......
وہ اب نیچے فرش پہ اپنا بستر ڈال کر سو رہی تهی ..اس نے کهبی نہیں کہا کہ میرا حق ادا کرو ...بیڈ پہ سونا میرا حق ہے. ...وہ ہمیشہ رات کو سونے سے پہلے کوئی نہ کوئی عجیب سا ٹاپک پکڑ کر اس پہ مختلف سوالات کرتی تهی. .اور وہ بس ہوں ہاں میں یا کهبی کهبی تو اسے غصے سے بهی جهڑک دیتا تها...
مگر وہ کهبی اس کے غصے پہ ناراض نہیں ہوتی تهی کوئی شکوہ نہیں کرتی تهی......
لیکن آج وہ خاموشی سے سونے کے لیے لیٹ رہی تهی. اسے ہمیشہ رات کو اس لڑکی کی باتیں بہت بری لگتیں لیکن عجیب بات تو یہ تهی کہ اگر وہ لڑکی بات نہ کرتی تو وہ الجھن کا شکار ہو جاتا ....
اور آج بھی جب وہ بنا کوئی بات کیے سو رہی تهی تو اسے ایک عجیب کرب کا احساس ہوا.....
سو رہی ہو تم......؟..پہلی بار اس نے خود سے اسے مخاطب کیا. ...
جی کچھ چاہیے تها آپ کو...وہ ایک دم چاق و چوبند ہو کر کهڑی ہو گئی...وہ اس طرح جلد بازی میں اس کے کهڑے ہونے پہ ہنس دیا..!! (جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____👸 دلہن ______
قسط نمبر 14
نہیں وہ......وہ....یہ تم ہمیشہ یہی کپڑے ہی کیوں پہنتی ہو.... اس نے بات شروع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب سوال کیا..اس نے غور سے اپنے کپڑوں کو دیکها جو سادہ لان کے کپڑے تهے. .......
جی...وہ باقی میلے تهے. وہ اس لیے .اس نے حیران ہو کر جواب دیا. ....
کتنے جوڑے ہیں تمارے.....
جی پانچ. ..اس نے سادگی سے جواب دیا جبکہ وہ حیران ہوا. ..جس لڑکی کا شوہر لاکھوں کے حساب سے تنخواہ لیتا ہو اس کی بیوی کے پاس صرف پانچ سادہ لان کے کپڑے ہیں. .یہ بات اسے بہت عجیب لگی اس کے خود کے ہزاروں کپڑے تهے اور اس نے بھی کهبی کچھ نہیں مانگا..اس کے پاس کپڑے جوتے جو بھی چیز نہیں تهی اس نے اپنے لیے اس سے کهبی کچھ نہیں مانگا.....
کیوں نہیں مانگا...اسے مانگنا چاہیے تھا یہ اس کا حق تها وہ اس کا شو.........
تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا.....وہ دکھ سے پوچھ رہا تها جبکہ وہ نظریں جهکا گئی جیسے اس نے بہت بڑی غلطی کر دی ہو... ......
اچها ٹهیک ہے ہم کل کو چلیں گے شاپنگ پہ پهر لے لینا اپنے لیے کپڑے ..اور بهی تمہیں جو کچھ چاہیے وہ بھی..او کے ....
جی....
اچها اب سو جاو ....وہ سونے کے لیے لیٹ گئی اس نے لیمپ آف کر دیا ...اب اسے بهی اچهی نیند آتی وہ سابقہ تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کر چکا تها کہ جب بھی وہ لڑکی اس سے بات نہیں کرتی اسے نیند بڑی دیر سے آتی. .............
رات تقریباً گزر چکی تهی دور دور سے کہیں موذن کی آواز آ رہی تهی ..
اس نے سوتے سوتے محسوس کیا کوئی اس کے ماتهے پہ ہاتھ رکهے ہوئے ہے وہ کرنٹ کها کر اٹھ گیا....وہ اس کے بالکل پاس کهڑی تهی اس اٹهتا دیکھ کر وہ گهبرا گئی .......
اسے اتنی صبح صبح اس کا چهونا بہت برا لگا..غصے کی شدید لہر اس کے جسم میں پیدا ہو گیا پورا جسم جیسے جلنے لگا ہو...وہ کمبل کو پرے دھکیل کر بالکل اس کے برابر کهڑا ہو گیا وہ سہمے ہوئے نگاہیں نیچے جهکا کر کهڑی تهی....اس کے دل میں اس وقت آگ لگی ہوئی تهی اس نہیں پتا تها اسے اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے لیکن وہ مزید اپنے غصے پہ قابو نہیں رکھ سکا....
تماری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی..کیا سمجهتی ہو تم خود کو.....اور کیا سوچ کر تم نے مجھے ہاتھ لگایا..میں نے تمہیں بتایا تها ناں میں تمہیں بیوی کا درجہ کهبی نہیں دے سکتا تو زبردستی میری زندگی میں گهسنے کی کوشش مت کرو ..
او کے ...نہ تو میں تمہیں کهبی قبول کر سکتا ہوں اور نہ کهبی کروں گا اس لیے یہ روایتی بیویوں والی حرکتیں کرنا بند کر دو....
وہ چلا چلا کر بات کر رہا تها اندر کے لاوا کو باہر آنے کا راستہ مل چکا تها ...اس کا پارہ ایک دم چڑھ چکا تها وہ بدستور سر نیچے کیے ہوئے کهڑی تهی اس نے محسوس کیا اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں ...
گیٹ آوٹ.....اس نے چلا کر کہا..پهر اسے یاد آیا وہ جاہل گوار لڑکی انگلش نہیں سمجھ سکتی اس لیے اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی اپنے کمرے سے باہر نکالا اور کنڈی لگا کر بیڈ پہ بیٹھ گیا. .!! ( جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____👸 دلہن ______
قسط نمبر 15
اس کا خون کهولنے لگا تها...کافی دیر بعد وہ جب خود کو نارمل کرنے میں تهوڑا کامیاب ہوا تو دوبارہ بستر پہ لیٹ گیا....پهر جانے کب اس کی آنکھ لگی.....
چهٹی کا دن تها اس لیے اسے بیدار ہونے کی کوئی جلدی نہیں تهی لیکن دس بجے آلارم نے اپنے ہونے کا احساس دلایا وہ اٹھ کر واش روم میں گهس گیا ...سر میں ہلکے درد کا بھی احساس ہوا صبح چھ بجے والا واقعہ ابهی بهی ذہن میں تازہ تها.................
وہ نہا کر جب باہر نکلا تو ٹهٹک گیا اس کی شرٹ بیڈ پہ آج نہیں پڑی ہوئی تهی ایسا پہلی مرتبہ ہوا تها کہ وہ نہا کر نکلا ہو اور بیڈ پہ شرٹ نہ ہو...اسے کچھ عجیب لگا. ..اس نے الماری سے ایک شرٹ نکال کر پہن لی اور ناشتے کے لیے نیچے چلا گیا. ....ناشتے کے دوران دوسری حیرت اسے تب ہوئی جب اسے ٹیبل پہ ناشتہ نظر نہیں آیا یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا تها ورنہ وہ ہمیشہ اس کے جاگتے ہی میز پہ ناشتہ سجا دیا کرتی تهی....
تو اس کا مطلب وہ ناراض ہے....اس نے سوچا....
ناراض ہے تو ہوتی رہے ناراض.....میں نے کیا کیا.....
تو نے اچها بھی تو نہیں کیا ..کتنی بری طرح سے پیش آئے اس سے.....دل سے آواز آئی. .
وہ کچن میں چلا گیا اور خود اپنے لیے ناشتہ بنانے لگا پھر اسے یک دم محسوس ہوا اسے ناشتہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اتنے دنوں سے وہ اس کے ہاتھوں کا بنا ناشتہ کها رہا تها ...خود کهانا بنانے کی تو اس کی عادت ہی چهوٹ گئی.......وہ بنا ناشتہ بنائے کچن سے باہر نکل آیا.....
وہ یونہی صوفے پہ ڈهیر ہو گیا.....ایک سوچ جو پہلی بار اس کے ذہن میں آئی....
وہ کہاں ہے....؟..یہ سوچ کر وہ کهڑا گیا ...اور گهر کے کمروں میں اسے تلاش کرنے لگا لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملی اس کی ٹینشن میں مزید اضافہ ہوا ...وہ ایسے تڑپنے لگا جیسے مچھلی کو پانی سے باہر نکال دیا جائے....
کہاں چلی گئی......
وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچ رہا تها.....
جہاں چلی گئی چلی گئی...اس سے اسے کیا...وہ بھی کہاں اسے اس گهر میں چاہتا تها ...اچها ہوا خود چلی گئی...ویسے بھی کسی نہ کسی دن تو اسے جانا ہی تها ناں....؟
نہیں. ..نہیں. ...وہ ہمیشہ یہی چاہتا تها وہ چلی جائے لیکن آج جب وہ چلی گئی تو وہ اس طرح پریشان کیوں تها...وہ خوش کیوں نہیں تها جبکہ اصولاً تو اسے بہت زیادہ خوش ہو جانا چاہیے تها.........
کیا وہ اس لیے پریشان ہے کہ جب دادی واپس آئے گی تو وہ اسے کیا جواب دے گا......
نہیں. ..نہیں. ..دل سے فوراً آواز آئی....
وہ دادی کے لیے نہیں خود اپنے لیے پریشان تها مگر کیوں اس نے دل سے پوچها. ......
کیونکہ تم اس سے پیار کرنے لگے ہو....دل نے ایک عجیب انکشاف کر دیا...وہ گم سم ہو گیا....یہ کیا کہہ رہا تها دل...وہ اس....اس...سے...وہ ..اس سے پیار کیسے کر سکتا ہے وہ...تو...وہ...تو اس سے نفرت کرتا تها شدید نفرت. ..نہیں دل جهوٹ بول رہا ہے...
اس نے دل کو جهٹلانے کی کوشش کی مگر وہ ایسا نہیں کر سکا کیونکہ دل جهوٹ نہیں سچ بول رہا تها...
ہاں ...ہاں ...میں اس سے پیار کرتا ہوں بہت پیار. ...مجھے صرف اس کی عادت نہیں ہو گئی میں اس سے پیار بھی کرنے لگا ہوں مگر وہ کہاں ہے....اس نے چلا چلا کر پورے گهر سے پوچھا اور جواباً پورا گهر خاموش تها ..اسے زندگی میں پہلی بار گهر میں اکیلے پن کا احساس ہوا اسے پہلی بار گهر کی خاموشی ڈرا رہی تهی..!! (جاری ہے)
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
____👸 دلہن ______
قسط نمبر 16
آخری قسط
اس پہ پہلی بار انکشاف ہوا وہ اس سے محبت کرنے لگا تها..وہ جسے اپنی زندگی کا ساتهی بنانا چاہتا تها وہ یہی لڑکی تهی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی..اس سے پیاری تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اتنی معصوم اتنی سچی.اسے جیون ساتھی کے روپ میں صرف یہی لڑکی چاہیے تهی اور تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے جیسی..ایسی لڑکی دنیا میں کہیں نہیں ہے جو اس کے اتنے غصے کے باوجود خاموش رہے جو اس کے جاگتے ہی ناشتہ لگا دے اس کے مانگنے سے پہلے اسے چائے پلا دے...اتنی صبر اتنی قناعت والی لڑکی اور کہاں ہو گی..واقعی اگر دادی اس پہ بهروسہ کرتیں تهیں تو بالکل سہی کرتیں تهیں..وہ واقعی اپنے پوتے کے لیے سب سے اچهی بیوی ڈهونڈ لائیں تهیں. .اگر وہ خود ان کی مرضی کے خلاف کسی ماڈرن لڑکی سے شادی کرتا تو کیا ہو جاتا...وہ لڑکی کیا گهر کے کام کرتی..کیا اس میں اتنا صبر ہوتا..کیا وہ اس کے اس طرح چلانے پہ خاموش ہوتی..نہیں ...نہیں نہیں. ....وہ پہلی بار اس کی کہی ہوئی ساری باتیں یاد کر رہا تها.........
کیا ببٹی پارلر....؟
یہ ٹی بی کرنٹ تو نہیں مارتا جی. ...؟
ہمارے گاوں میں پہلے مرد کهانا کهاتا ہے پهر عورت اس کا بچا ہوا کهانا کهاتی ہے.......
آپ کو گاڑی چلانا آتا ہے جی.....؟
یا اللہ مجھے اپنے گهر سے خاکی ہاتھ مت لوٹائیں میں آپ سے جو مانگ رہی ہوں وہ مجھے دے دیں......
جی آپ کی وہ نیلی شرٹ جل گئی......
آپ سے جهوٹ بول سکتی ہوں خدا سے تو نہیں. ..
وہ تو سب جانتا ہے. ..آپ سے جهوٹ بول کر میں بچ بھی جاوں تو خدا سے کیسے جهوٹ بول سکتی ہوں..
او میرے اللہ. ...یہ میں نے کیا کر دیا...کیوں کر دیا....میں نے اس سے کتنی بدتمیزی سے بات کی صبح. ..مجھے کیوں اتنا غصہ آ گیا تها حالانکہ اس نے ایسا بھی کچھ غلط نہیں کیا تها...صرف ہاتھ ہی تو لگایا تها..اور میں .....
اور وہ ...وہ اتنی اچهی تهی کہ اس نے کوئی شکوہ کوئی شکایت تک نہیں کیا....لیکن وہ کہاں چلی گئی ...
پلیز واپس آ جاو ....میں تمہیں پهر کچھ نہیں کہوں گا ہم دونوں مل کر پیار محبت سے رہیں گے...میں تمارے بنا نہیں رہ سکتا بانی ...لوٹ آو ....اسے اپنے گالوں پہ نمی کا احساس ہوا. ..وہ بهاگتے ہوئے پورچ میں گیا اور گاڑی میں بیٹھ کر ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا. .....
گاڑی وہ فل سپیڈ سے چلا رہا تها..اتنے رش میں اتنے سپیڈ سے گاڑی چلانا خطرے سے خالی نہیں تها لیکن وہ ہر خطرے سے انجان بس جلدی جلدی ریلوے اسٹیشن پہنچ جانا چاہتا تها ..کئی بار اس کی گاڑی دوسرے گاڑیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تهی...وہ ریلوے اسٹیشن کے بالکل پاس پہنچ چکا تها گاڑی سے نکل کر وہ بهاگتے ہوئے اسٹیشن تک گیا لیکن وہاں کوئی نہیں تها یہ تو ابھی تک ریل گاڑی آئی ہی نہیں ہو گی یا پھر آ کر..........
وہ بهاگ کر بنچ پہ بیٹهے اس انسان تک گیا جو پتا نہیں کن خیالوں میں گم تها......
ایکسکیوز می....جناب یہ ریل گاڑی کی ٹائمنگ کیا ہے...
اس آدمی نے حواس باختہ مخاطب کو دیکها. ....
ابهی تهوڑی دیر پہلے ریل گاڑی تو نکل چکی ہے. .اسے لگا جیسے وہ آدمی کہہ رہا ہو آپ کی تو جان نکل چکی ہے....اس کے جسم میں خون کی گردش اچانک رکنے لگی ....وہ مایوس ساری دنیا سے بیزار گهر لوٹ آیا......اور صوفے پر ڈهیر ہو گیا ......
ایسے کیسے جا سکتی ہے وہ...؟
مجھے چهوڑ کر وہ نہیں جا سکتی....
اتنی معمولی غلطی کی اتنی بڑی سزا کون دیتا ہے. ..
کیا سب کچھ ختم ہو گیا...اب کچھ بھی باقی نہیں رہا تها کیا....
وہ سر تهامے صوفے پہ بیٹها تها ...جب اسے اپنے بالکل پاس ہی کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اس نے گردن موڑ کر دیکها تو اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی.........
وہ ...وہ..اس کے بالکل پاس کهڑی تهی اس سے کچھ ہی فاصلے پر...وہ کرنٹ کها کر کهڑا ہو گیا.....
تم...تم...کہاں چلی گئیں تهیں...میں نے ....کیوں گئیں تهیں تم....؟ وہ کرنٹ کها کر کهڑا ہو گیا ..
جی وہ ہم تو....ہم تو یہیں تهے...اس نے اس کی بات نہیں سنی اور آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا. .وہ اس طرح اس کے گلے لگانے سے حیران بھی تهی اور خوش بھی. ....
اب آئندہ تم کهبی مجھے چهوڑ کر مت جانا اوکے...چاہے میں تمہیں جتنا ڈانٹوں...او کے...جان نکل جاتی ہے میری..ہم سب کچھ پهر سے شروع کریں گے تم ایک بار پھر سے دلہن بنو گی اور اس بار تمہیں کمرے سے باہر نکالنے کی بجائے بانہوں میں سمیٹ لوں گا..
...خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.....
وہ صبح اس کے منہ سے نکلنے والے شعلے سن کر تو ٹوٹ ہی گئی تهی ..اسے لگا اب اس کی زندگی کا تو کوئی مقصد ہی باقی نہیں رہا سب کچھ ختم ہو گیا. ..
وہ کمرے سے نکل کر اس کے برابر والے کمرے میں جا کر روتی رہی ...اور روتے روتے وہ کب سو گئی اسے پتا ہی نہیں چلا. .اس کی آنکھ تب کهلی جب اسے نے سنا کوئی اسے پکار رہا ہے..وہ بهاگ کر کهڑکی تک گئی تو اس کے شوہر محترم جو صبح آگ برسا رہے تهے اب بڑی بے تابی سے اپنی زوجہ محترمہ کو ڈهونڈ رہے تھے. .اس حیرت بھی ہوئی اور اچها بھی لگا وہ بہت دیر تک کهڑکی سے اس کی اداس شکل دیکهتی رہی پهر اس نے چلا چلا کر اپنی محبت کا اظہار کیا ...ان دیواروں کے سامنے اس گهر کے اندر..لیکن وہ نہیں جانتا تها جس کے لیے وہ اقرار کر رہا ہے وہ اس کے بہت قریب ہے .......
وہ جانتی تهی کہ وہ اس سے پیار کرنے لگا ہے ..وہ کئی بار اس کے چہرے پہ اپنے لیے محبت کا پیغام پڑھ چکی تهی لیکن وہ اقرار نہیں کر رہا تها کیونکہ ابهی تک خود اس کے دل نے ہی اقرار نہیں کیا تها..
رات کو دو بجے اٹھ کر بریانی کهائی جاتی ہے. .جناب چوری چوری قیمہ اپنی پلیٹ میں ڈال کر کهانے لگتے ہیں. .گاڑی میں بیٹھ کر چپکے چپکے اسے دیکها جاتا ہے. ..صرف اقرار کرنے میں ہی مشکل پیش آ رہی تهی جناب کو.....اس کے منہ سے اپنے لیے محبت کا اقرار سن کر اسے بہت اچها لگا...... ....
وہ اس وقت اس کے پاس جانا چاہتی تهی اسے بتانا چاہتی تهی کہ وہ اس کے قریب ہے لیکن وہ نہیں گئی...وہ اسے تنگ کرنا چاہتی تهی...جس شوہر محترم نے اسے اتنے دن تنگ کیا وہ بهی اپنا بدلہ وصول کرنا چاہتی تهی............
صبح وہ اس سے غصہ تهی ناراض تهی روئی تهی لیکن اگر آج کی صبح وہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا تو وہ کهبی اپنی محبت کا اقرار نہ کرتا.یہ تقدیر کاتب کا فیصلہ تها..جو ہوتا ہے اچهے کے لیے ہی ہوتا ہے ..بے شک کوئی ہے جو ہماری ہر سوچ پہ اختیار رکهتا ہے اور ہمارے لیے بہتر فیصلے تجویز کرتا ہے. .وہی جو اس پوری کائنات کو چلا رہا ہے ...یہ ساری دنیا جس کے ماتحت ہے وہی تو خدا ہے......
اس نے تشکر آمیز نگاہوں سے اوپر آسمان کی طرف دیکها ..بے شک جوڑے وہی بناتا ہے آسمانوں پر...وہ اپنے انسانوں میں کهبی فرق نہیں کرتا ..نہ دیہاتی اور شہری میں اور نہ ہی غریب اور امیر میں. ...وہ سب کو دو آنکھیں دو کان دو ہاتھ اور دو پاوں نواز کر بھیجتا ہے. .فرق تو صرف انسان کرتے ہیں..!!
(اختتام )
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
Post a Comment
Post a Comment