-->

Qismat ki lakeroon ma full Urdu Story - Most Popular Novel of 2022

 قسمت کی لکیروں میں

پہلی قسط

ازقلم فلزہ ارشد


وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھنے میں مگن تھی۔ یوں شاید کچھ تلاش کرنا چاہ رہی ہو۔ پچھلے دو گھنٹوں سے وہ ایک ہی حالت میں کھڑکی سے ٹیک لگا کر کھڑی تھی۔یہ کیسے ہوگیا تھا۔ اس نے جو چاہا وہ کیسے مل گیا۔ وہ بے یقین تھی۔ اس کی خواہش پوری ہوگٸ تھی مگر کن حالات میں ہوئی وہ تقدیر کے اس کھیل کو دیکھ کر حیران تھ کیا قسمت ایسے بھی بدلتی ہے۔تو عارش حسان تم میری زندگی میں شامل بھی ہوگئے۔کسی بن مانگے دعا کی طرح۔ ابھی تو تم آنکھوں میں خواب کی طرح اترے تھے ۔ وہ خود سے ہی ہم کلام تھی۔

عارش حسان سب سے مقبول چینل کا مشھور و معروف اینکر تھا۔جس کا آج کل ہر جگہ چرچا تھا۔ اتنا حسین وجاہت سے بھر پور جس کی ذہانت پورے ملک میں مشہور تھی۔ آج وہ اس کا ہوگیا تھا۔کیا وہ دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی تھی۔ اللہ نے اس کی ساری دعائیں سن لی تھی۔یا پھر ایک نئی آزمائش اس کی زندگی میں باقی تھی۔ یہ تو وقت ہی بتاۓ گا۔ رات آہستہ آہستہ تاریکی میں ڈوب رہی تھی۔ اور اس کی سوچیں ما ضی میں سفر کر رہی تھی۔



💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


حسان صاحب جب آفس سے آۓ تو ساتھ میں عاصمہ اور زرناش کو دیکھ کر ناعمہ حیران ہوئیں۔

" ناعمہ جاٶ پانی لے کر آٶ۔ کھانا بھی لگواٶ اور ہاں انیکسی صاف کروادو۔آج سے یہ لوگ وہیں رہینگی۔" ناعمہ فورا اٹھیں۔

"بیٹا تم پریشان مت ہو۔ میں ہوں تمھارے ساتھ۔"حسان صاحب نے پریشان سی زرناش کو اپنے ساتھ لگا لیا۔

عاصمہ حسان کی اکلوتی بہن تھی۔جو ان سے حیثیت میں تو کم تھیں مگر اپنے گھر میں خوش تھیں لیکن دو ماہ پہلے ان کےشوہر کا انتقال ہو گیا۔ تو لوگوں نے ان پر زندگی تنگ کردی اور حسان صاحب بے خبر تھے۔ وہ تو آج عاصمہ نے کال کی تو وہ اپنے گھر لے آۓ۔انہیں افسوس بھی تھا کہ بہن کو اس حالت میں اکیلا چھوڑا ہوا تھا۔ وہ تو خبر رکھتے مگر اچانک ایک میٹینگ کی وجہ سے ملک سے باہر تھے۔کل ہی واپس آۓ تھے۔

ناعمہ بیگم نے کھانا لگوادیا تھا۔ حسا ن صاحب نے انہیں حقیقت سے آگاہ کردیا تھا۔وہ بھی عاصمہ اور زرناش کی دل جوئی کر رہی تھیں۔ وہ لوگ کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ ڈائیننگ ہال میں کوئی داخل ہوا۔ حسان صاحب فورن اٹھے

"اوہ مائی جینٹل مین! کیسا رہا انٹرویو؟" آنے والا عارش حسان تھا۔

حسان صاحب کا اکلوتا بیٹا۔ نیلی جینز پر بلیک شرٹ پہنے جس کی آستین کہنی تک مڑی ہوئی تھی۔چوڑی پیشانی جس پر کچھ بال بکھرے ہوۓ تھے اور مغرور کھڑی ناک چہرے پر سج رہی تھی۔ ہلکی ہلکی داڑھی اور ڈارک برآٶن ذہین آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی۔ وہ واقعی کسی ریاست کاشہزادہ ہی لگ رہا تھا۔

" بلکل شاندار آپ کے بیٹے کی طرح۔" وہ اب مسکراتے ہوۓ کرسی پر بیٹھ رہا تھا اور حیران نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اپنی خوشی میں اس نے اس طرف دیکھا ہی نہیں تھا۔ حسان صاحب کو بھی ابھی خیال آیا۔

" بیٹا پھپھو سے ملو۔"

" اَلسَلامُ عَلَيْكُم۔" گھنمبیر لہجے میں سلام کیا۔

" وَعَلَيْكُم السَّلَام۔ کیسے ہو بیٹا ! کتنا بڑا اور کتنا خوب رو ہوگیا ہے بھائی صاحب۔" عاصمہ جو اتنی دیر سے خاموش تھیں۔اب بھتیجے پر نہال ہوئی جارہی تھیں اور زرناش غصّے سے بیچ و تاب کھارہی تھی۔ دل چاہ رہا تھا امی کو چپ کروادے۔ جن موصوف کی تعریف میں وہ رطب السان تھیں۔ اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا۔وہ بڑےمزے سے فارک میں کباب کا ٹکرا پھنسا رہا تھا۔حسان صاحب اور ناعمہ بیٹے کی تعریف میں مسکرا رہےتھے زرناش اس مغرور سے شخص کو دل میں ہی بہت کچھ بول چکی تھی۔ ٹام کروز کا چھوٹا بھائی سمجھتا ہے خود کو اور وہ ٹام کروز کا چھوٹا بھائی نیپکن سے منہ صاف کر کہ اٹھ رہا تھا۔

"ٹھیک ہے پھپھو ! بعد میں ملاقات ہوتی ہے۔مجھے کچھ کام ہے۔" اور پھپھو اتنی ہی سی بات پر نہال ہوگئیں۔

" ٹھیک ہے بیٹا جاٶ۔"ناعمہ بھی اٹھنے لگیں۔

" میں ذرا کمرہ سیٹ کروا کہ آتی ہوں۔" اب حسان صاحب زرناش کی تعلیم کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


الارم کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی تو ٹائم دیکھا دور سے اذانوں کی آواز آرہی تھی۔ جلدی سے بستر سے اٹھی وضو کیا اور جاۓ نماز بچھا کر کھڑی ہو گئی۔ نماز سے فارغ ہوئی تو کچن سی آتی آواز سے سمجھ گئی کہ امّی اٹھ چکی ہیں۔ اس کا روز کا معمول تھا نماز ادا کرنے کے بعد سورة یٰسین کی تلاوت کرتی اور صبح کی پہلی کرن کو دیکھتی شبنم کے قطروں کی نمی کو محسوس کرتی۔ اپنے ہی گھر کے چھوٹے سے آنگن میں چہل قدمی کرتی اور اپنی آنکھوں میں بہت سے خواب بنتی۔ یہ جانے بغیر کے کچھ خوابوں کی تعبیر بہت بھیانک ہوتی ہے اور آج اس کے سارے خواب بکھرے پڑے تھے۔ آج اس نئی جگہ میں اس کی پہلی صبح تھی۔ وہ چہل قدمی کرنے کے غرض سے لان میں نکل آئی۔اپنے چھوٹے سے آنگن کو دیکھ کر وہ اکثر سوچا کرتی کہ کاش وہ ہرے بھرے گھاس کی نمی کو محسوس کرے۔ کبھی کبھی یہ شکوہ زور سے کرتی تو ابو خفا ہوتے۔ زرناش بہت بری بات ہے بیٹا۔ اللہ کو بات بات پر شکوہ کرنے والے لوگ بلکل پسند نہیں ہیں۔ابو کی یاد آتے ہی اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔اسے اپنا چھوٹا سا گھر یاد آیا۔ جہاں تھوڑی بہت پریشانی صحیح مگر خوشی اور سکون تھا۔اپنا گھر اور باپ کا سایہ تھا۔ پل بھر میں سب ختم ہو گیا تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد لوگوں کے اصل چہرے سامنے آگۓ تھے کہ اپنے ہی گھر سے دربدر ہونا پڑا۔

"زرناش! کیا کر رہی ہو؟ باہر آجاٶ۔" امّی کی آواز پر وہ خیالوں سے چونکی اور جلدی کچن سے ملحق لاٶنج میں آئی جہاں ملازمہ ناشتہ رکھ رہی تھی۔ دونوں خاموشی سے ناشتہ کر رہی تھیں۔

زرناش ناشتہ کر لو۔ پھر حسان بھائی سے تمھاری ایڈمیشن کی بات کرونگی۔" عاصمہ نے کہا۔

امی ان کے بیٹے کا بی ہیویئر کچھ عجیب نہیں تھا۔ آپ کی تعریف پر شکریہ بھی نہیں کیا۔"

"بیٹا! اس کی عادت ہے۔ خاموش طبع سا بچہ ہے اور پھر ہم لوگوں کا آنا جانا ہی کم تھا۔ اتنی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔"

"امّی !ہم یہاں کب تک رہینگے۔ کاش میں آپ کا بیٹا ہوتی تو آپ کو پریشانی نہیں ہوتی۔ کیا باپ کے چلے جانے سے سارے لوگ بدل جاتے ہیں" آخری بات کرتے ہوۓ اس کی آواز رندھ گٸ۔عاصمہ فورا اٹھی اور گلے سے لگایا ۔

"بیٹا ! ایسے نہیں کہتے۔ ہمیں لوگوں سے کرنا بھی کیا ہے۔ اللہ ہے نہ ہمارے ساتھ۔پھر کسی کی کیوں فکر کریں ہاں۔اللہ تو ہے۔ اسی نے تو اس کو غلط لوگوں سے محفوظ رکھا۔"

ورنہ گھر کے لالچ میں لالچی تایا اس کی اپنے آوارہ ٣٥ سالہ شادی شدہ بیٹے سے سے شادی کر رہے تھے۔جس کی بیوی دو سال پہلے اسے چھوڑ کے جاچکی تھی۔تب ہی اس نے حسان ماموں کو کال کر کے صورتحال بتائی اور آج وہ یہاں تھی۔پتا نہیں اب یہاں کب تک رہنا ہے اور زندگی کس طرح گزرے گی۔ وہ ناشتے کے برتن دھوتے ہوئے مسلسل سوچ رہی تھی۔ عاصمہ اندر کمرے میں اپنا سامان سیٹ کر رہی تھیں کہ اچانک بیل ہوئی تو حسان صاحب اور ناعمہ اندر آۓ۔ وہ اس کا ایڈمیشن فارم لاۓ تھے۔ناعمہ بھی دونوں سے مختلف سوال کر رہی تھیں۔ پھر وہ دونوں تھوڑی دیر بیٹھے اور چلے گئے۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


زرناش کا ایڈمیشن ہوگیا تھا۔وہ بی اےکر رہی تھی۔ روز کالج اس کو حسان صاحب خود چھوڑتے کیونکہ ان کا دفتر راستے میں پڑتا تھا اور واپسی ڈرائیور لے آتا۔

زندگی ایک نۓ طریقے سے شروع ہو چکی تھی۔ اس دوران حسان صاحب سے بہت اچھی دوستی ہوگٸ تھی۔ اس کی پڑھائئ کا پوچھنا۔ روز مرہ کی باتیں کرنا۔ ور ٹام کروز کے چھوٹے بھائی سے اس کی پھر ملاقات نہیں ہوئی۔ ہاں کبھی کبھی بالکونی سے اسے نظر آجاتا۔ اس نےامی سے سنا تھا کہ وہ کسی چینل میں ٹاک شو کرتا ہے مگر اس نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ ابھی بھی وہ اپنے کمرے کی بالکونی کے پاس اپنی کتاب لے کر کھڑی تھی کہ نیچے نظر پڑی تو وہی ٹام کروز کا بھا ئی مطلب عارش حسان گاڑی سے اترا۔ اس کے ساتھ کوئی لڑکی بھی تھی۔ شاید اس کی کزن تھی خالہ کی بیٹی۔ اب وہ کسی بات پر مسکرارہا تھا تو اس کے بائیں گال پر پڑنے والا ڈمپل اسے اور حسین بنا رہا تھا۔کیا کوئی اتنا مکمل ہوسکتا ہے؟ زرناش کی نظر وہی ٹکی تھی۔ اب وہ وہاں سے جاچکا تھا مگر زرناش کے دل میں رہ گیا تھا۔یہ کیا ہورہا تھا ؟اسے جو بھی ہورہا ہے بلکل ٹھیک نہیں ہورہا ہے۔عانیہ کچن میں تھی مگر سوچ انیکسی کے برابر دوسرے پورشن میں گھوم رہی تھی۔ ا

س کو شروع سے ماموں کی فیملی پسند تھی۔ حسان صاحب نے اپنا لیدر کا کاروبار شروع کیا تھا۔ جو ترقی کر کے پھیلتا چلا گیا اور وہ ایک کامیاب بزنس مین بن گئے۔اسی دوران انہوں نے اپنی بہن کی شادی حیدرآباد میں کردی جو مالی اعتبار سے کمزور تھے مگر اچھے انسان تھے۔ حیدرآباد سے کراچی کے سفر کی وجہ سے ان کی ملاقات کم ہو تی تھی۔ پھر زرناش کی تعلیم کی وجہ سےجانا کم ہوگیا۔کبھی حسان صاحب ہی آ کے مل لیتے پھر عارش ماس کمینکیوشن کی ڈگری کے لیئے لندن چلا گیا۔ اسی لیئے عارش کو وہ اب دیکھ رہی تھی اور جب سے وہ یہا ں آئی تھی۔ عارش حسان اسے بہت مغرور لگا تھا۔ ایک تو اس سے سامنہ بہت کم ہوتا اور کبھی نظر آتا بھی تو مکمل لا تعلق رہتا۔ یہ اپنے آپ میں رہنے والا لڑکا کب اس کے دل میں آبسا اسے خبر بھی نہیں ہوئی اچانک اس کو ہوش آیا تو بارہ بج چکے تھے۔ کل اس کا ٹیسٹ تھا اور اب تک تیاری نہیں تھی اس کی۔ آج کل اس کے ساتھ یہی ہونے لگا تھا۔کب وہ عارش حسان کو سوچنے لگ جاتی۔اسے پتا بھی نہیں چلتا۔ عارش حسان اس کی خواہش بننے لگا تھا۔ضروری نہیں ہر خواہش پوری ہو۔ کچھ خواہش ہمارے دل میں حسرت بن کر رہ جاتی ہے لیکن انسان کے بس میں کب ہوتا ہے کہ کسی کودل سے نکالا جاۓ یا بسایا جائے وہ کچن میں ہی تھی کہ عاصمہ کی آواز آئی وہ جب کمرے میں گئی تو اس کی چیخ نکل گٸ۔ عاصمہ بے ہوش پڑی تھیں۔

" امی ! کیا ہوا ہے؟ امی آنکھیں کھولیں؟" اس کے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


وہ ہاسپیٹل کی راہداری میں بے آواز آنسو بہاری تھی۔ یا اللہ! میری امی کو بچالے۔ یا اللہ! میری امّی کو کچھ نہ ہو۔ اسے ایسا لگ رہا تھا وہ اکیلی رہ گئی۔ امی بھی نہیں رہیں تو میں کیا کرونگی رہ کر۔

" بس کردو بیٹا! تمھاری طبیعت خراب ہو جاۓ گی۔ دعا کرو سب ٹھیک ہوگا۔" حسان صاحب نےاس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

" آپ کی مریض کو ہوش آگیا ہے۔ہلکا سا انجائنا اٹیک تھا۔ اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔ آپ مل سکتے ہیں۔"ڈاکر نے یہ خبر سنائی تو زرناش کی جان میں جان آئی۔ اس وقت وہ دونوں عاصمہ کے پاس تھے۔ "بھائی صاحب ! میری بیٹی کا خیال رکھیےگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب میرے پاس اور مہلت ہے۔"عاصمہ بول رہی تھیں۔ ان کی بات پر زرناش تڑپ کر رہ گئی۔

"ایسا مت کہو عاصمہ! بچی کو تمھاری ضرورت ہے۔ تم ٹھیک ہوجاٶگی۔"

" نہیں بھائی! مجھے پتا ہے۔ میں نہیں رہ سکتی۔ آپ مجھ سے ایک وعدہ کریں بھائی۔ دو دن میں زرناش کی شادی کردیں۔ میں اس کی خوشی دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں تا کہ مجھے سکون ملے۔"

" عاصمہ !کیسی باتیں کر رہی ہو۔ تمھیں کچھ نہیں ہوگا۔"

"نہیں بھائی صاحب! آپ میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے۔"عاصمہ خود بھی رو رہی تھیں اور ان دونوں کے آنسو بھی نہیں رک رہے تھے۔ "اچھا تم ٹھیک ہو جاٶ۔ میں زرناش کا نکاح عارش کے ساتھ کر کردونگا۔ میں تم سے عارش کے لیئے زرناش کا رشتہ مانگتا ہوں۔" زرناش بے یقینی کے عالم می حسان صاحب کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے جب کہ عاصمہ کی تو جیسے دلی مراد پوری ہوگٸئی تھی۔ ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔

"سچ کہہ رہے ہیں بھائی؟ مجھے بہت خوشی ہے۔"

" بس تم جیسے ہی گھر چلوگی۔ میں ان دونوں کا نکاح کروادونگا پھر زرناش کی تعلیم مکمل کے بعد دھوم دھام سے رخصتی ہوجاۓ گی۔"

" بھائی صاحب! میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولونگی۔"

" کیسی باتیں کر رہی ہو عاصمہ ! زرناش میری بھانجی ہے۔ بیٹی ہے۔ اور اس کے مستقبل کا سوچنا میرا فرض ہے۔ میں اپنی بیٹی لےرہا ہوں بس۔ اب کوئی بات نہیں۔ جلدی سے ٹھک ہو جاٶ۔"

" بھائی بھابھی سے پوچھا آپ نے اور عارش کیا وہ مان جاۓ گا؟" عاصمہ کے چہرے پر خوف تھا کہ اگر عارش نے منع کر دیا تو۔

" نہیں عاصمہ! تم ان کی فکر نہ کرو۔ وہ میرا مسئلہ ہے۔ تم نکاح کی تیاری کرو۔" زرناش ان کی باتوں کے درمیان خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئی تھی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


عاصمہ ہاسپیٹل سے گھر آگئی تھیں۔ اور طبیعت بھی سنمبھل گٸ تھی۔ وہ بالکونی سے کھڑی اپنی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی۔ عاصمہ دوائی لے کر سورہی تھیں۔ کتنی عجیب بات تھی۔ جو اس کے نزدیک نا ممکن تھا۔وہ ممکن ہورہا تھا۔ بھی تو اس کے دل نے نۓ انداز میں دھڑکنا شروع کیا تھا۔ اسے بلکل سمجھ نہیں آرہا تھااسے خوش ہونا چاہیۓ یا نہیں۔ اور عارش۔ کیا وہ یہ فیصلہ قبول کرلے گا۔ اس نے تو اس سے کبھی بات بھی نہیں کی۔کبھی اس نے خود بھی کوشش نہیں کی۔ ایک تو وہ اس کے وجاہت سے مرعوب بھی تھی اور اس کی فطرت میں بھی جھجک تھی۔ اس کے اندر اعتماد کی بہت کمی تھی۔ اور گرلز اسکول اور کالج لینے کی وجہ سے بھی مردوں سے بات کرنے کی عادت نہیں تھی اور عارش۔ وہ اس سے بات کیوں کرتا۔ وہ تو عانیہ جیسی لڑکیوں کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے۔ عانیہ بھی شفاف رنگت کی حسین لڑکی تھی۔ جب کہ وہ خود۔۔وہ یہ خیال آتے ہی وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ گندمی رنگت پر سیاہ بڑی بڑی آنکھیں جس میں پلکوں کی جھالر گری ہوئی تھی۔ کیا تھی وہ۔ ایک عام سی لڑکی اور عارش حسان جس کی خواہش نہ جانے کتنی لڑکیاں کرتی تھیں۔ ان ہی سوچوں میں غرق تھی کہ حسان کی آواز آئی۔ جلدی سے اپنا دوپٹہ درست کرتے ہو ۓ وہ کمرے سے نکل گئی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"جی پاپا !آپ نے بلایا۔"اسٹڈی روم میں وہ داخل ہوا جہاں حسان اور ناعمہ دونوں موجود تھے۔

" ہاں بیٹا! بیٹھو۔" اس وقت وہ ٹراٶزر اور وائٹ شرٹ میں ملبوس تھا۔بال ماتھے پر بکھرے ہوۓ تھے۔ آنکھیں نیند اور تھکن کی وجہ سے سرخ ہورہی تھیں۔ناعمہ اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔کتنا مکمل تھا ان کا بیٹا۔ وجاہت سے بھر پور۔ کیا حسان صاحب جو فیصلہ کر رہے ہیں۔ وہ ٹھیک ہے۔ وہ یہی سوچ رہی تھیں کہ حسان بیٹے سے مخاطب ہوۓ۔۔

"عارش !یہ بتاٶ آج تک تم نے جو بھی فیصلہ لیا اپنے لیئے میں نے تمھیں منع کیا ؟ تم جرنلزم لینا چاہتے تھے۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔ جب کے میں چاہتا تھا۔ تم بزنس کی ڈگری لو۔ پھر تم نے میڈیا جوائن کرلیا میں نے کرنے دیا۔ جب کے مجھے اب بزنس سنمبھالنے کے لیئے بیٹے کی ضرورت تھی۔ لیکن میں چاہتا تھا میرا بیٹا اپنی مرضی سے زندگی گزارے۔میں نے کوئی بھی فیصلہ تم پر زبردستی نہیں سونپا۔ لیکن میں اب تمھاری زندگی کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔کیا تم میرا فیصلہ قبول کروگے؟" آخر میں وہ اپنے اکلوتے سپوت کو آس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔جو خاموشی سے ان کی اس تمہید کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور دل ہی دل میں شرمندہ بھی تھا کہ واقعی اس نے ہمیشہ اپنے فیصلے خود لیئے ہیں اور باپ نے بھی کبھی مخالفت نہیں کی۔

" بابا !آپ جو بھی فیصلہ کرینگے مجھے منظور ہوگا میں آپ کی بات سے انحراف کیسے کرسکتا ہوں؟؟"

" بیٹا! پہلے پوری بات تو سن لو۔جذبات میں فیصلہ نہ کرو۔" ناعمہ جو اتنی دیر سے خا موش تھیں۔ بولیں۔حسان صاحب ایک نظر ان کو دیکھ کر اپنی بات دوبارہ شروع کرچکے تھے۔ جبکہ ناعمہ شوہر کی نظروں سے خائف ہوگئیں۔

" بیٹا !میں تمھاری شادی زرناش سے کروانا چاہتا ہوں۔" یہ ایک جملہ تھا لیکن اس جملے سے اس کے اندر دھماکے ہونے لگے۔ عجیب بے یقین نظروں سے باپ کو دیکھ رہا تھا۔



قسمت کی لکیروں میں

قسط نمبر ٢

ازقلم فلزہ ارشد


اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا جواب دے؟

والد صاحب نے اسے چاروں طرف سے ایسا گھیرا کہ ا س کے پاس فرار کاکوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ اور نافرمانی اس کی تربیت میں شامل نہیں تھی کہ باپ کے خلاف کھڑا ہوجاتا۔

سچ تھا کہ اس کے والدین نے کبھی اس سے کچھ نہیں مانگا اور آج پہلی بار وہ اس کی طرف آس سے دیکھ رہے تھے۔وہ ان آنکھوں کو نا امید نہیں کرسکا۔اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم فیصلہ باپ کی محبت میں کردیا ۔اس کے پاس ہاں کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔اس کے اقرار کے بعد حسان صاحب نے خوشی سے بیٹے کو گلے سے لگالیا۔

" یہ ہوئی نا بات۔ میرے بیٹے نے مجھے اپنا قرض دار کردیا۔" وہ خاموشی سے لب بھینچے کھڑا تھام جبکہ ناعمہ حیران اور پریشان تھیں۔انہوں نے شوہر سے احتجاج کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ان کی شوہر کے آگے کبھی نہیں چلی۔ تو آج کیسے سن لیتے۔حسان محبت کرنے والے شوہر ضرور تھے مگر اپنے فیصلوں میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے تھے۔

ناعمہ کو لگا شاید عارش نہ مانے مگر حسان صاحب نے بات اس انداز میں کی کہیں انکار کی گنجائش تھی ہی نہیں اس لیئے انہوں نے بھی چپ سادھ لی۔

وہ اپنی بہن کی بیٹی عانیہ سے عارش کی شادی کرنا چاہتی تھیں۔ کیونکہ عانیہ عارش کو پسند کرتی تھی۔ اور عارش کی بھی اچھی دوستی تھی مگر اس نے ایسی بات نہیں کی تھی کبھی۔ اب ناعمہ اپنے شوہر کی مرضی میں راضی تھیں۔انہیں زرناش سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


زرناش اور عارش کا نکاح تھا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ زرناش کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ گھر میں سادگی سے نکاح کا انتظام حسان صاحب کے لان میں کیا گیا تھا اور چھوٹا سا اسٹیج بھی بنایا تھا۔ جہاں زرناش اسٹائلش اور تھوڑے سے کام والے پنک کلر کی فراک میں بیٹھی تھی اور دل انجانی سی خوشی سے دھڑک رہا تھا۔

نکاح کے بعد تھوڑی دیر کے لیئے عارش کو بلواگیا۔ ساتھ تصویریں لی گئیں پھر وہ اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے شو کا ٹائم ہورہا تھا۔

زرناش کی سماعتیں کسی سرگوشی کی منتظر رہیں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ساری خوشی پہ اوس پڑ گئی۔ اس کو لگا تھا کہ عارش کی مرضی اور خوشی شامل ہے مگر عارش کا اجنبی روّیے نے خوش فہمی سے نکال دیا۔اچانک وہ اپنی سوچوں سے باہر آئی۔وقت دیکھا تو آدھے سے زیادہ رات بیت چکی تھی۔ ابھی بھی وہ کھڑکی سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ پھر وہ بستر میں آ تو گئی مگر بہت سی سوچوں نے اسے سونے نہیں دیا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


رات جتنی رونق والی تھی۔ صبح اتنی بھیا نک۔عاصمہ شاید اپنی بیٹی کی خوشی دیکھنے کے لیئے رُکی ہوٸ تھیں۔اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہوتے ہی انہوں نے ہمیشہ کے لیئے آنکھیں موند لیں۔

زرناش کی لیئے گہرا صدمہ تھا۔ ابھی تو وہ عارش کی بے رخی کا غم نہیں منا پائی تھی کہ زندگی نے ایک اور اتنا پڑا غم دے دیا۔

آج عاصمہ کی موت کو ہوئے چوتھا دن تھا۔زرناش کی تین دن کی بے ہوشی کے بعد آج حالت بہتر تھی۔ کمرے میں لیٹے ہوئے اپنے گزرے ہوئے ماہ و سال کو سوچ رہی تھی ۔

کیا میری طرح کوئی بد قسمت ہوگا ؟بچپن سے بھائی بہن جیسی نعمت سے محروم رہی۔پھر باپ بھی چلا گیا۔تو ماں نے بھی جلدی کی جانے میں اور اسے اس شخص کے ساتھ باندھا گیا۔جس نے اسے تسلّی کے دو لفظ بھی نہیں بولے تھے۔وہ اس سے اور کیا امید کرسکتی تھی۔دو آنسوں اس کی آنکھوں سے نکل کر دوپٹّے میں جزب ہوگئے۔اچانک اسے محسوس ہوا کوئی پاس کھڑا ہے تو دیکھا حسان صاحب تھے۔ وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھی اور آنسو پونچھے۔

" بیٹا ا اپنا سامان رکھ لو۔ اب ہمارے ساتھ تمہیں رہنا ہوگا۔یہاں اکیلی کیسے رہوگی۔" حسان صاحب نےاس کے سر پر ہاتھ رکھا اور چلےگئے۔نیا ٹھکانا نئی۔آزمائش۔وہ گہری سانس لے کر انکے پیچھے چل دی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"کہاں غائب ہو میرے یار ؟آج کل تو نظر ہی نہیں آرہے"؟ عارش بہت دنوں بعد جم گیا تھا تو تینوں نے اسے گھیر لیا۔

عانیہ ،عارش، زبیر اور بلال چاروں یونی فیلو تھے اچھے دوست بھی ۔ جبکہ عانیہ سے کزن کا رشتہ بھی تھا۔ تبھی اس کی بنتی تھی اور اس میں عانیہ کا زیادہ ہاتھ تھا ہر جگہ اور ہر وقت عارش کے ساتھ رہتی۔ عارش کوشش کی بے پناہ وجاہت نے تھوڑا مغرور بھی بنادیا تھا۔اسی لیئے کسی کو کم ہی لفٹ کرواتا۔

عانیہ عارش کے نکاح سے بےخبر تھی۔ وہ اپنی بہن کے پاس دبئی گٸ۔ ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کو نکاح کا علم نہ ہوسکا۔ عانیہ کی ماما نے بھی نہیں بتایا کیونکہ وہ جانتی تھیں۔ بیٹی کو تکلیف ہوگی۔بلکہ عارش کے کسی دوست کو معلوم نہ ہوسکا صرف زبیر کو پتا تھا کیونکہ وہ اس کے بچپن کا گہرا دوست تھا۔

" عارش! واقعی میں کل سے آئی ہوں اور تم نے مجھے ایک کال بھی نہیں کی۔"اپنے شولڈر کٹ بالوں کو ایک ہاتھ سے جھٹکتے ہوئے وہ ایک ادا سے بولی۔

" تو پہلے کون سا تمہارے ساتھ روز کال پر busy رہتا تھا"۔زبیر نے بول کر بلال کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ جبکہ عارش وہی قاتلانہ بے نیاز مسکراہٹ چہرے پر سجاٸئے کھڑا تھا اور بائیں گال پر ڈمپل گہرا تھا۔ عانیہ کا چہرا غصّے اور خفت سے سرخ ہوگیا۔

" مجھے لگا شاید میں دور تھی تو تم نے مجھے miss کیا ہو"۔ وہ اب اپنا رخ دوسری طرف پھیر چکی تھی۔ جبکہ عارش کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔

" ہاں یار سنا تھا۔ تمہاری پھپھو کی ڈیتھ ہوگئی ہے۔ بلال نے بات بدلی کہ ماحول نہ خراب ہو۔

" ہاں مجھے بھی مما نے بتایا تھا۔ افسوس ہوا بہت۔" عانیہ نے جیسے تعزیت کر کے جان چھڑائی۔

" تمھیں اور کچھ نہیں بتایا تمہاری مما نے؟" زبیر نے طنزیہ لہجے میں عانیہ سے کہا۔ وہ عانیہ کو کوئی خاص پسند نہیں کرتا تھا۔ جو بلاوجہ عارش کے گلے کا ہار بننے کی کوشش کرتی تھی۔

" کیا کیا بتانا تھا ان کو؟ "عانیہ نے چونک کر زبیر اور عارش کی طرف دیکھا ۔ جب کہ بلال بھی تجسس سے ان کی طرف متوجہ ہوا۔اور عارش بے نیازی سے ٹیبل پرپڑا گلاس گھما رہا تھا۔جیسے کسی اور کے بارے میں بات ہو رہی ہو۔

" یہی کہ عارش کا نکاح ہوگیا ہے۔اس کی کزن سے۔"زبیر نے جیسے دھماکہ ہی تو کیا تھا۔ اور عانیہ بے یقین نظروں سے عارش کی جانب دیکھ رہی تھی۔

" تم۔۔تم مزاق کر رہے ہو؟ عارش یہ کیا کہ رہا ہے ؟ تم کیوں چپ ہو؟۔" عانیہ اپنے آنسو روکنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔

"سچ کہہ رہا ہے یہ۔پاپا نے مجھ سے پہلی دفعہ کچھ مانگا تھا اور میں انکار نہیں کر سکا۔"

عانیہ سے اس کو محبت نہیں تھی لیکن وہ جانتا تھا عانیہ اس کے لیئے پاگل ہے۔کچھ بھی ہو۔ اسے افسوس ہورہا تھا۔ عانیہ کی حالت پر مگر وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اور اس نے عانیہ سے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔جو وہ لڑکی اتنی امیدیں لگا بیٹھی تھی۔ عانیہ فوراً وہاں سے اٹھ کر چلی گئ۔ جبکہ زبیر کو خوشی ہوئی اس کے خیال میں عارش کے لیئے عانیہ جیسی لڑکی نامناسب تھی۔

وہ گئی تو بلال فوراً آگے آیا۔

"ارے واہ! کیا نیوز ہے چلو عارش ! تم مجازی خدا کے عہدے پر فائز ہوۓ ہو۔ٹریٹ تو بنتی ہے۔" بلال لا ابالی سا لڑکا تھاموہ بس لائف کو انجائے کرنا جانتا تھا۔

" یہ تم کیا آج اردو دان بنے ہوئے ہو۔ اتنی خالص اردو۔ مجازی خدا ، عہدہ، فائز۔ واہ،واہ"۔ زبیر اپنا سر دھن رہا تھا۔ اس کی اردو میں۔

بلال نے منہ کا زاویہ بگاڑ کے کہا۔۔

" کل دادا جان کے پاس گیا تو ان کے پاس کوئی کتاب تھی۔ کہنے لگے پڑھ کر سناٶ۔تو بس دو گھنٹے تک پڑھا۔ الفاظ ذہن میں رہ گئے"۔بلال کے کہنے کا انداز اتنا معصومانہ تھا کہ زبیر اور عارش کا قہقہ بے ساختہ نکلا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


زرناش کو یہاں آئے ایک ہفتہ ہوچکا تھام اس دوران عارش سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔وہ مصروف رہتا اور جب بھی گھر آتا تو زرناش خود کومصروف کر لیتی ۔

یہ ٹھیک ہے کہ پہلی بار عارش کے لیئے اس کا دل ضرور دھڑکا تھا۔

مگر یہ سوچ کہ عارش نے زبردستی نکاح کیا۔ وہ راضی نہیں تھا۔زرناش کو ذلت میں دھکیل دیتیں۔ ٹھیک ہے وہ خوبصورت نہیں تھی۔ مگر اتنی بری نہیں تھی کہ کوئی زبردستی اس سے رشتے پر راضی ہو ۔اگر اسے مجھ سے کوئئ فرق نہیں پڑتا تو میں بھی اتنی گری ہوئی نہیں ہوں کہ اس کے آگے پیچھے پھیروں۔ اس کی انا آگے آگٸ اور محبت کہیں پیچھے رہ گٸ۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


آج ناشتے کی ٹیبل پر آئی تو وہ نظر آیا۔

"لگتا ہے ٹام کروز کے چھوٹے بھائی کو آج کوئی کام نہیں۔ جو گھر پر نظر آرہے ہیں۔"

"آٶ بیٹا! کھڑی کیوں ہو۔" حسان صاحب کی نظر پڑی تو فورا اسے بلایا۔وہ چونکی اور جلدی سے اندر آئی۔کیونکہ فرار اب نا ممکن تھا۔

سب ہی اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔عارش ایک نظر دیکھنے کے بعد دوبارہ ناشتے میں مصروف ہوگیا۔ جبکہ ناعمہ زرناش کو ناشتے کے لوازمات دینے لگیں۔ ناعمہ کا روّیہ اس کے ساتھ بہتر تھ۔ا نہ زیادہ اچھا نہ برا۔ اس کی ضرورت کا خیال رکھتیں مگر کبھی بیٹھ کر بات نہیں کی۔اور وہ خود بھی سوشل ورک میں مصروف رہتیں.

" زرناش بیٹا ! آج آپ کا یونی میں پہلا دن ہے۔ گھبرانا نہیں اور تمہیں عارش چھوڑ دےگا۔عارش اس کو ڈیپارٹمینٹ تک چھوڑ کر آنا۔اور صحیح سے گائیڈ کردینا۔" عارش نے اثبات میں سر ہلادیا۔اس کا یونی میں ایڈمیشن ہوگیا تھا ۔ اب وہ اپنے موبائل میں مصروف ہوچکا تھا۔ مطلب کے اس کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا۔

او تو موصوف کو پہلے سے پتا تھا کہ میرے ساتھ جانا ہے۔ تبھی گھر پر نظر آرہے تھے۔یہی سوچتے ہوئے وہ بھی اٹھ گئی۔

"اچھا ماموں ،مامی چلتی ہوں۔"۔زرناش خدا حافظ کہتی ہوئی آگے نکل گئی۔ عارش جو موبائل پر مصروف تھا۔چونک کر کھڑا ہوا ۔کیا لڑکی ہے۔اس کے ساتھ جانا ہے۔ اسے ہی بغیر اطلاع دئیے نکل گئی۔ وہ کھڑا سوچ رہا تھا۔

"جاٶ بیٹا ! باہر انتظار کر رہی ہے وہ۔" حسان صاحب اسے ہوش میں لے کر آۓ۔ جب وہ پورچ میں پہنچا تو محترمہ وہیں کھڑی تھیں۔

لیمن کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک اور سر پر لیمن کلر سے ہی سلیقے سے اسٹائلش طریقے سے اسکارف سجائے چہرے پر ہلکی سی نیچرل کلر کی لپ سٹک لگائے کھڑی تھی۔گندمی رنگت پر سادگی اور معصومیت اسے جازب نظر بنارہی تھی۔عارش حیران تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا کہ زرناش مڈل کلاس کی ہر اسٹائل سے عاری۔ بے وقوف سی ڈری سہمی سی لڑکی ہوگی۔ مگر زرناش کا ہر انداز عارش کو غلط ثابت کر رہا تھا۔اس کے اعتماد میں کمی تھی مگر حسان صاحب نے اس کا اعتماد بحال کرنے میں کافی مدد کی اور کچھ اس نئے رشتے کا اعزاز تھا کہ عارش سے اسے کوئی جھجک محسوس نہیں ہورہی تھی۔ وہ پر اعتماد سے گاڑی کاپچھلا دروازہ کھول کر بیٹھنے لگی۔۔

" میڈم !میں آپ کا ڈرائیور نہیں ہوں۔ آگے آکے بیٹھیں۔" یہ کہتے ہی اس نے آگے کا دروازہ کھولا اور اپنی سیٹ پر بیٹھا۔اس کا حکم سنتے ہی بغیر کچھ بولے وہ بھی آکر بیٹھ گٸ۔

گاڑی سٹارٹ ہوچکی تھی۔دونوں نے ہی شاید نہ بولنے کی قسم کھائی تھی۔

" سمجھتا کیا ہے خود کو؟ اگر شکل اچھی دے دی اللہ نے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ دوسروں پر رعب چلائے گا۔ز"رناش غصّے میں دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھی۔

" میرا خیال ہے اگر آپ زور سے بولینگی تو میں بھی اپنی تعریف سے مستفید ہو جاٶنگا۔"عارش کی آواز سے وہ چونک کر مڑی۔ بظاہر سامنے دیکھتے ہوئے اور اسٹرینگ میں ہاتھ جمائے اس سے مخاطب تھا۔وہ گڑبڑا گئی ۔

ہائے اللہ! اسے کیسے پتا چلا کہ میں اس کی برائی کر رہی۔"

"آپ کے بڑبڑانے کے انداز سے۔" اب بھی وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ عارش کا جواب موصول ہوا۔

وہ حقیقت میں ڈر گئی۔

" کیسے سن رہاہے یہ ؟" بے ساختہ اس نے اپنے ہاتھ منہ پر جما لیئے تا کہ اب وہ سمجھ نہ سکے۔یہ دیکھتے ہی عارش کا قہقہ بے ساختہ تھا۔اس کی ہنسی سے خفت زدہ ہوکر جلدی سے ہاتھ ہٹا لیئے اور اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لیئے شیشے کی طرف منہ کرلیا۔

اس کے بعد دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ یونی پہنچ کر دونوں ہی ساتھ چلنے لگے۔بہت سی نظریں ان کی طرف گھمی۔ کچھ کی رشک زدہ اور کچھ کی حیرت زدہ۔ پھر کچھ لڑکیوں کے ٹولوں نے اسے گھیر لیا۔

" ارے یہ تو عارش حسان ہے ۔مشہور نیوز اینکر جوtime to update ٹالک شو کرتا ہے۔ "لڑکیاں سیلفی لینے کھڑی ہوگئیں۔ وہ بمشکل جان چھڑا کر ان کے نرغے سے باہر آیا۔زرناش دور کھڑی دانت پیس رہی تھی۔

" لڑکیاں بھی پاگل ہیں۔ پتا نہیں کیسے ٹی وی میں دیکھ کر فدا ہوجاتی ہیں" تب وہ آیا۔

" کون ساڈیپارٹمنٹ ہے تمھارا؟

" اسلامک۔"۔

"ٹھیک ہے۔ چلو۔ "وہ اس کےساتھ ہی رہا۔تمام کام کر کے اسے کلاس کے پاس چھوڑا کیونکہ بابا کا حکم تھا اور بابا کا حکم وہ نہیں ٹال سکتا تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


آج کا دن یونی میں بہت تھکا دینے والا تھا مگر دل بہت خوش تھا۔

صبح کے خوش گوار اثرات اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر رہے تھے۔پہلی ملاقات کافی خوش گوار رہی۔

جتنے مغرور لگتے ہیں اتنے ہیں نہیں موصوف۔ چلو نئے رشتے سے نہ صحیح مگر بات تو ہوئی

وہ بالکونی میں کھڑی مسلسل عارش کو سوچ رہی تھی۔

مگر سچ تویہی ہے کہ عارش حسان نے اس رشتے کو قبول نہیں کیا اور کر بھی کیسے سکتے ہیں۔ وہ تو عانیہ جیسی لڑکی کو پسند کرتے ہونگے۔میں ان کے معیار پر اترتی نہیں۔یہ سوچ آتے ہی اداسی نے اسے گھیر لیا۔ اب سونا مشکل تھا۔

آج عارش گھر آیا۔ توسیل آف تھا۔جب چارج پر لگا کر آن کیا تو مسجز کے نوٹیفیکیشن آنے لگے۔چیک کیا تو عانیہ کا نام اسکرین پر چمک رہا تھا۔

" اوہ!! اس کو کیا ہوا۔ اچھا خاصا دودن سکون سے گزرے تھے۔"عارش کو کوفت ہوئی۔اس دن کے بعد سے عانیہ نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ آج اتنے میسج ریڈ کیئے بغیر ہی موبائل رکھ کر فریش ہونے چلا گیا۔

رات میں سونے کے لیئے بستر پر آیا تو اچانک سوچوں کا رخ زرناش کی جانب مڑ گیا اور آج کی یاد آتے ہی چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گٸی مگر دوسرے پل اس سے جڑا رشتہ یاد آیا تو لب بھینچ لیئے اور چہرہ اچانک ہی سنجیدہ ہوگیا۔عارش نے اپنی لائف پارٹنر کا ایک خا کہ بنایا ہوا تھا۔ اسے مڈل کلاس کی گھیریلو لڑکیاں بلکل پسند نہیں تھیں۔ جن میں اعتماد کی کمی ہو۔ دس لوگوں کو دیکھ کر گھبرا جاۓ۔ اسے سخت کوفت ہوتی تھی۔ ایسی لڑکیوں کو دیکھ کر اور زرناش کو اس نے ایسا ہی دیکھا۔ آج یونی میں بھی کتنا گھبرارہی تھی۔ لوگوں کو دیکھ کر۔

پتا نہیں پاپا نے کیا دیکھ کر اس کو میرے لیئے پسند کیا۔ مجھے ایسی لڑکی سے شادی کرنی تھی جو میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے نہ کہ میں اسے سنمبھالتا پھروں۔ اچانک اس کے موبائل کی رنگ ٹون بجنے لگی اسکرین کو دیکھ کراس کے منہ کا زاویہ بگڑ گیا۔

ابھی اس کا بلکل دل نہیں تھا عانیہ سے بات کرنے کا مگر کچھ سوچنے کے بعد کال ریسیو کرلی۔

"نہیں مصروف تھا کہیںن ایسی بات نہیں ہے۔" وہ اب اس کی بات کا جواب دے رہا تھا؟ دوسری طرف عانیہ کہ رہی تھی۔

"مجھے مما نے بتایا ہے کہ یہ نکاح تمھاری مرضی کے بغیر ہوا ہے اور میں جانتی ہوں تم زرناش جیسی لڑکیوں کے لیئے مناسب نہیں ہو وہ کس طرح تمہارے ساتھ سوسائٹی میں موو کریگی۔" عانیہ اسکے دل کی بات کر رہی تھی۔ کچھ بھی تھا مگر وہ اس کو بہتر جانتی تھی۔عارش کی مغروریت میں اضافہ ہوا۔اب اس کا موڈ بھی ٹھیک ہوچکا تھا۔ وہ عانیہ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگیا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


عانیہ اور عارش کی دوستی دوبارہ سے ویسی جاری تھی۔ دودن کے سوگ کے بعد عانیہ دوبارہ عارش کے ساتھ نظر آنے لگی۔

آج بھی زرناش یونی سے واپس آکر شام میں ٹی وی لاٶنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ عانیہ اندر آئی ۔شولڈر کٹ بال بغیر آستین کی شارٹ شرٹ اور تنگ جینز کے ساتھ چہرےپر میک اپ کی تہ جماۓ اداۓ بے نیازی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔ زرناش کو مکمل نظر انداز کیئے وہ اپنے موبائل پر مصروف ہوچکی تھی ۔

زرناش بھی ایک نظر دیکھ کر ریموٹ سے چینل بدلنے لگی۔

"ہنہ پلاسٹیک کی چھپکلی پتا نہیں خود کو صبا قمر سمجھ رہی ہے خیر مجھے کیا۔" زرناش دل ہی دل میں اس کی شان میں قصیدے پڑھ چکی تھی۔ اسی وقت ناعمہ اندر آئیں۔

"ارے میری بیٹی آئی ہے۔ساڑی کاپلّو سنبھالے وہ اب عانیہ سے گلےمل رہی تھیں۔زرناش کا دل خراب ہوا تو وہ وہاں سے چلی گئی۔ اب وہ لان میں چہل قدمی کر رہی تھی۔ دل بہت برا ہورہا تھا اسکا دل چاہا ڈھیر سارا روئے۔عارش سے بھی اس دن کے بعد دوبارہ بات نہیں ہوئی۔

ایک دو دفعہ ساتھ یونی گئی بھی تو دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔وہ دوبارہ اپنے خول میں بند ہوچکا تھا۔زرناش بھی مکمل نظر انداز کر رہی تھی۔آج عانیہ کو دیکھ کر برداشت نہیں ہوا۔ وہ سوچوں میں غرق تھی کہ حسان صاحب کی آواز آئی۔۔۔

"کیا سوچ رہی ہے میری بیٹی؟"اب وہ بھی اس کےساتھ چل رہے تھے۔پھر دونوں لان میں رکھی کرسی پر بیٹھ چکے تھے۔

" کچھ نہیں ماموں ایسے ہی۔"حسان سٹڈی روم میں تھے کھڑکی سے زرناش کو پریشان دیکھا تو چلے آۓ۔

" کچھ تو ہے بیٹا !اب اپنے ماموں سے بھی چھپاٶگی؟"میں بتاٶں کہ تمہاری پریشانی کی وجہ عانیہ ہے"۔ حسان صاحب نے کہا۔

کیونکہ کچھ دیر پہلے عارش کے ساتھ باہر گئی تھی اور تب سے زرناش کی بےچینی حد سے زیادہ تھی۔

اتنے صحیح اندازے پر وہ شرمندہ ہوگئی اور کچھ بولے بغیر نظریں جھکالی ۔

"بیٹا مجھے معاف کردینا۔ شاید میں نے فیصلہ کرنے میں جلد بازی کی۔عارش کا روّیہ میری نظروں کے سامنے ہے۔میں بہت شرمندہ ہوں۔"

"نہیں ماموں آپ کیوں شرمندہ ہیں۔میری قسمت میں عارش کا نام تھا۔ وہ تو ہونا ہی تھا۔ کسی طرح بھی۔ آپ کا کوئی بھی پچھتاوا اس کو بدل نہیں سکتا تھا۔" زرناش نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔

" بیٹا پھر بھی میں نے سوچا ہے تم لوگوں کی رخصتی کردوں اور عارش کو سمجھاٶں رشتہ بنایا ہے تو اسے نبھائے بھی تا کہ عارش کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور عانیہ اس کا پیچھا چھوڑ دے۔"حسان صاحب نے کہا تبھی زرناش جلدی سے بولی۔

"نہیں ماموں ! آپ مجھ سے وعدہ کریں ۔آپ عارش سے کوئی بات نہیں کرینگے۔"

" لیکن بیٹا ! اس طرح کب تک چلے گا۔وہ اور تم سے دور ہوجائے گا"

"نہیں ماموں میں نہیں چاہتی عارش زبردستی مجھ سے رشتہ نبھائیں۔ اور مجھے اللہ پر یقین ہے۔جس نے مجھے جس کا نام دیا ہے۔ ایک دن اسکا دل بھی ضرور بدلے گا۔جس کا نام میرے ساتھ لکھا ہے۔اس کا ساتھ بھی ضرور لکھا ہوگا۔ میں نے ہمیشہ اللہ سے اس چیز کا شکوہ کیا۔ جو میرے پاس تھا ہی نہیں۔مجھے اللہ سے شکوہ رہتا ہے کہ اس نے مجھے اکلوتا کیوں پیدا کیا۔ بھائی بہن کیوں نہیں ہیں میرے۔پھر ابو کے جانے کے بعد یہی شکوہ کرتی کہ میرے ابو کیوں چلے گئے؟ اللہ کو میرا شکوہ برا لگا ماموں۔ میرے پاس ماں بھی نہیں رہی اب میں کوٸی رشتہ کھونا نہیں چاہتی ماموں۔ میرے پاس آپ ہیں۔ میرے لیئے کافی ہے۔ میں نے کبھی اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں کیا۔اب سوچتی ہوں تو بہت شرمندگی ہوتی ہے اللہ کے سامنے۔ سب کچھ تھا میرے پاس اور عارش کا نام میرے لیئے کافی ہے ماموں۔ ان کا نام میرے ساتھ ہے۔ یہ میرے لیئے بہت ہے۔ دیکھیئے گا میں اللہ سے مانگونگی تو وہ ضرور میرے پاس ہی آئینگے۔" بولتے ہوئے اس کی آواز میں نمی تھی۔ واقعی اس نے بہت کچھ کھودیا تھا۔ اب کچھ بھی کھونے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔

" ارے میری بیٹی کہتی ہے تو میں نہیں کرونگا ابھی رخصتی کی بات۔ویسے خوشی ہوئی تمھاری آنکھوں میں اس کے لیئے محبت دیکھ کر اور میں جانتا ہوں میری بیٹی کی محبت ضرور جیتے گی۔

میری دعائیں تمھارے ساتھ ہے۔ وہ نالائق خود آئے گا تمہارے پاس۔" یہ کہتے ہی انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور چلے گئے۔ وہ جو شرمندہ تھے کہ شاید انہوں نے غلط فیصلہ کر لیا۔ اب زرناش کے دل میں عارش کے لیئے محبت دیکھ کر مطمئین تھے کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔زرناش کی محبت ایک دن ضرور عارش کو جیت لے گی۔

..

 جاری ہے...



قسمت کی لکیروں میں

قسط نمبر ٣

از قلم فلزہ ارشد


ناعمہ کی ایک میٹینگ سے واپسی پر ان کی گاڑی ڈرائیور کی غفلت کی بنا پر سامنے آتی گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔ اس حادثے نےسب کو پریشان کردیا تھا۔اس دوران عارش اور حسان کے ہسپتال کے چکر لگ رہے تھے۔ جب کہ زرناش پر گھر کی ذمہ داری آگئی.. ہسپتال کھانا بھجوانا پھر حسان صاحب اور اور عارش کے کام اپنی نگرانی میں کروانا۔سب اس کی ذمہ داری تھی۔یہ تمام کام ناعمہ کرتی تھیں۔ ملازم کے ہو نے کے باوجود وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے کام خود بھی کرتیں۔اور ملازمہ سے اپنی نگرانی میں کرواتیں تھیں۔جو اب زرناش بخوبی تمام کام انجام دے رہی تھی۔ اس دوران ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ عارش سے بھی اس کو رسمی بات ہوجاتی۔ دونوں ضرورت کے وقت ایک دوسرے کو مخاطب کرلیتے۔

جیسے ابھی وہ آفس سے گھر آیا کیونکہ ناعمہ کے لئیے پرہیزی کھانا لے کر جانا تھا۔ فریش ہو کر کچن میں آیا۔ جہاں زرناش یخنی تیار کر رہی تھی۔

"زرناش اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو ایک کپ چائے مل سکتی ہے ؟" جانے کیا تھا اس کی آواز کااثر یا پھر پہلی بار زرناش اپنا نام اس سنگ دل شخص سے سن کر گھبرا گئی تھی۔اور یخنی پیالے میں ڈالتے ہوئے چھلک پڑی اور اس کے ہاتھ میں گرگئی۔

”سی۔۔“ وہ تڑپ ہی توگئی تھی۔ تکلیف سے اپنا ہاتھ دھونے کے لئیے واش بیسن کی جانب مڑی کہ عارش جو لاٶنج کی طرف مڑ رہا تھا۔ آواز سن کر فورن اس کی طرف آیا۔ جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ "پاگل ہوگئی ہو لڑکی۔ کیا کر رہی ہو یہ۔دماغ درست ہے تمھارا؟" اس کا ہاتھ پکڑے ہی وہ کیبنیٹ سے برنال نکالنے لگا۔اب وہ نرمی سے مرہم لگا رہا تھا۔وائٹ شرٹ کے ساتھ جینز پہنے براٶن آنکھیں میں غصّہ اور فکر مندی جھلک رہی تھی۔ مغرور چہرے پر سجی داڑھی اور بال اب تک نم تھے شاید نہا کر آیا تھا۔ پرفیوم کی خوشبو زرناش پر حاوی ہونے لگی۔ وہ اسکے بہت قریب تھا اتنا کہ وہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتی تھی۔ اس کی تکلیف تو کب کی ختم ہوچکی تھی۔ اب وہ اپنا ہاتھ دھورہا تھا۔جب کے زرناش بت بنی اس کی پشت تک رہی تھی۔کتنا خوب رو اور وجاہت سے بھر پور شخص تھا یہ۔ ہر طرح سے مکمل شخص۔ جو اس کی قسمت میں لکھا جا چکا تھا۔پتہ نہیں اس شخص کا ساتھ بھی لکھا تھا یا ساری زندگی اس کی بے رخی برداشت کرتے ہوئے گزرے گی۔ اس کی آنکھوں میں نمی چھلکنے لگی۔ اب وہ ہاتھ دھو کر خود کھانا پیک کرنے لگا اور اپنے لییے چاۓ کا پانی چڑھایا۔

"لائیں میں کردیتی ہوں۔" بہت منمنا کر آہستہ آواز میں کہا زرناش کی آواز کہیں دب گئی تھی۔ اس کی قربت کا اثر تھا یا اس کی شخصیت کا سحر ہی ایسا تھا۔

"محترمہ آپ کا بہت بہت شکریہ۔جتنا آپ کر چکی ہیں وہ کافی ہے۔" طنزیہ لہجے میں اس کے جلنے پر چوٹ کر رہا تھا۔ "چلو وہاں بیٹھ جاٶ۔" ڈائینگ ہال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔

"چائےپیوگی ؟" کہتے ہوئے آخر میں لہجہ نرم ہوگیا۔

اف کیا چیز ہے یہ شخص۔ ہر روپ میں غضب ڈھاتا ہے۔ وہ سوچوں میں محو ڈاییننگ ہال میں رکھی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ جہاں سے کچن کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ عارش کہنی تک آستین موڑے نفاست سے کام میں مصروف تھا۔وہ چوڑی پشت کو حیرت سے تک رہی تھی۔ مکمل وجاہت سے بھر پور لڑکا۔ جس کیوجاہت پر ہزاروں لڑکیاں فدا تھیں۔ ایک ایسا اینکر جس سے بڑے بڑے سیاست دان بھی بات کرتے ہوئے گھبراتے۔ جس کی ذہانت پورے ملک میں مشہور تھی۔

" ویسے نفیسہ کہاں ہے؟" اب وہ اپنا اور اس کا چائے کا کپ ٹیبل میں رکھ رہا تھا۔

" وہ۔۔وہ کواٹر میں گئی ہے۔ اس کی بیٹی کو بخار تھا تو میں نے بھیج دیا تھ۔" اس نے گھگیا کر جواب دیا۔

یا اللہ ! اس شخص کے سامنے میری بولتی کیوں بند ہوجاتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں بول رہی تھی۔

"ٹھیک ہے۔ میں جارہا ہوں۔ پھر پاپا کو بھیجتا ہوں۔ کوئی پرابلم ہو تو ملازمہ کو بلوالینا۔" اس کی آواز سے وہ ہوش کی دنیا میں آئی۔

"جی۔۔جی ٹھیک ہے۔" ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔

"ایک بات تو بتاٶ ؟" وہ جا تے ہوئے اچانک مڑا اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھنے لگا۔"کیا میں اتنا خوف ناک ہوں ؟"وہ جو اس کی آواز سن کر ہی گھبراگئی تھی۔ اب تو واقعی اس کی آواز بند ہوگئی تھی۔

"نن۔۔نہیں تو۔" اس نے ہکلا کر جواب دیا۔عارش نے مسکراہٹ ہونٹوں پر دباۓ زرناش کو دیکھا۔ ہلکے نیلے کلر کا جدید تراش خراش سوٹ پہنے اور سر پر ہم رنگ دوپٹّہ اوڑھے گندمی رنگت خوف اور شرم سے سرخ ہورہی تھی۔ گلابی لب دانتوں میں دبائے وہ واقعی کسی بھی حسین لڑکی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ عارش کے دل نے اس بات کی گواہی دی۔ اسے خود اپنے احساسات پر حیرت ہوئی وہ مسلسل اس کو دیکھ رہا تھا ۔موبائل کی رنگ ٹون بجتے ہی وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔جلدی سے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے وہ وہاں سے نکل چکا تھا۔

"اففف" عانیہ کے جان میں جان آئی۔ کیسے دیکھ رہے تھے۔ کیا ہوگیا تھا آج ۔وہ یہی سوچتے ہوئے اپنے روم میں آگئی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"ہیلو۔" موبائل کان سے لگائے گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا۔

"عارش کہاں رہتے ہو تم ؟ جب سے تمہارا نکاح ہوا ہے اس سو کالڈ کزن سے۔تم تو بہت مصروف رہنے لگے ہو۔" دوسری طرف عانیہ طنزیے لہجے میں اس سے مخاطب تھی۔

"اوہ شٹ اپ عانیہ! اگر تم نے یہی کہنے کے لئیے کال کی ہے تو میں کٹ کر رہا ہوں۔" بے رخی سے کہتا وہ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ "نہیں فون مت کاٹنا پلیز۔ میں تو مزاق کر رہی تھی۔سیریس مت ہو۔" وہ اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

"میں اس وقت ہاسپیٹل جا رہا ہوں اور میرے پاس تمہاری فضول باتوں کا وقت بلکل نہیں ہے۔" یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی کہ دوبارہ کال آئی۔

"تمھیں بات سمجھ نہیں آتی؟"

"عارش مجھے بھی ہاسپیٹل جانا تھا اسی لئیے میں کال کر رہی تھی۔ کیونکہ میری گاڑی خراب ہے۔ مجھے بھی پک کر لیتے ؟" عانیہ نے فورن جھوٹ کہا جب کہ سچ تو یہ ہے وہ ناعمہ کا بھول ہی گئی تھی۔۔ وہ ایک خود غرض لڑکی تھی۔ اسے اپنے علاوہ کسی کی فکر نہیں تھی۔

" سوری عانیہ۔ میں اس وقت آل ریڈی لیٹ ہوچکا ہوں اور تمہیں یہ خیال جلدی نہیں آگیا؟" وہ طزیہ لہجے میں کہتے ہی کال کاٹ چکا تھا۔

💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


ناعمہ ہاسپیٹل سے آچکی تھی۔ تو عانیہ ملنے آئی۔

" ہیلو آنٹی۔" دور سے ہی وہ ان سے مل کر کافی فاصلے پر بیٹھ چکی تھی۔"سوری آنٹی۔آپ کو تو پتا ہے مجھے ہاسپیٹل کا environment(ماحول) بلکل برداشت نہیں ہے۔ بس اسی لئیے ملنے نہیں آسکی۔اچھا چلتی ہوں۔ گیٹ ویل سون۔" مصنوعی مسکراہٹ اچھالتی وہ جاچکی تھی۔ اس دوران انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا۔ ناعمہ کو واقعی افسوس ہوا۔ اس حادثے نے انہیں بہت حساس بنا دیا تھا۔موت کو قریب سے دیکھا تھا۔ اگر کچھ ہو جا تا تو اس سوچ سے ہی ان کے اندر پھریری دوڑ گئی۔

یہ سچ تھا وہ اپنی اکلوتی بہن اور بھانجی سے بے حد محبت کررہی تھیں ۔کیونکہ ان کے پاس میکے کا یہی رشتہ بچا تھا۔ وہ ہاسپیٹل میں ان دونوں کی منتظر رہیں۔ انہیں حقیقتاً افسوس ہوا تھا کہ ان کی جان سے پیاری بہن اور بھانجی نے ان کو اس مصیبت میں کتنا اکیلا چھوڑ دیا تھا۔

" مامی آپ کا سوپ۔" وہ سوچوں سے باہر آئیں تو سامنے زرناش سوپ کا پیالہ لئیے کھڑی تھی۔ سی گرین کلر کا سوٹ پہنے اور ہم رنگ کا دوپّٹہ سر پر ٹکائے چہرے پر ازلی معصومیت اور بڑی بڑی آنکھوں میں اپنے لئیے فکر مندی دیکھ کر بے ساختہ وہ زرناش کا عانیہ سے موازنہ کرنے لگیں۔

عانیہ کی رنگت بے شک شفاف تھی اور اپر سےاس میں سلیقے سے کیا ہوا میک اپ اس کو حسین تو بناتا تھا مگر زرناش کی معصومیت اسے جازب نظر بنا رہی تھی۔وہ اٹھنے لگیں تو زرناش جلدی سے سوپ رکھ کر ان کو اٹھانے میں مدد کرنے لگی۔ پھر چمچ سے خود پلانے لگی۔

"بیٹا بس۔ بلکل دل نہیں چاہ رہا۔" ناعمہ نے کہا۔

"آنٹی بس تھوڑا سا پی لیں۔پھر دوائی بھی لینی ہے۔" ناعمہ کو شرمندگی ہوئی۔انہوں نے اب تک عانیہ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ ان کے رویّے کی وجہ سے ایک اجنبیت کی دیوار تھی۔جو ان دونوں کے درمیان حائل تھی اور آج وقت نے ان کو زرناش کا ہی محتاج کردیا تھا۔ دو مہینے تک ڈاکٹر نے آرام کا کہا تھا۔ان کے تمام کام زرناش ہی کرتی اور ناعمہ کو اپنے پچھلےسلوک پر شرمندگی ہورہی تھیں۔ ان کی سگی بھانجی ہی کس طرح ان سے مل رہی تھی۔ یہ کام تو دور کی بات ہے۔پتا نہیں زرناش نہ ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔ کسی ملازمہ کے رحم وکرم پر ہی جی رہی ہوتی۔

"بیٹا جاٶ تم بھی آرام کرو۔ صبح سے لگی ہوئی ہو۔" محبت بھرے لہجے میں انہوں نے اس کو مخاطب کیا تو زرناش حیرت زدہ ان کی شکل دیکھ رہی تھی۔ تو ناعمہ کو شرمندگی ہوئی۔

"حیرت سے کیا دیکھ رہی ہو بیٹا۔ مجھے معاف کردو۔ میں نے تمہارے ساتھ بہت اجنبی سا روّیہ رکھا جب کہ تم تو صرف اور صرف محبت کے قابل ہو۔" وہ پیار سے اس کو چہرے کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولیں زرناش آج حقیقتاً بہت خوش ہوئی۔ اس نے تو سارے کام اپنا فرض سمجھ کے کئیے تھے مگر اس کے بدلے اسے اتنا بڑا انعام ملا تھا۔امّی کے جانے کے بعد وہ واقعی محبت کے لئیے ترس گئی تھی۔ آج ناعمہ کی آنکھوں میں اپنے لئیے محبت دیکھ کر بے ساختہ تشکر کے آنسو نکل گۓ۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"عانیہ میں پریشان ہوچکی ہوں تمھاری بے جا ضد سے۔ عارش کا نکاح ہو چکا ہے اب۔ کیوں خوار کرتی ہو خود اس کے لئیے۔ وہ تمھارا کبھی تھا ہی نہیں عانیہ بیٹا۔ سمجھ جاٶ۔" اب عانیہ کی ماں ثمرین اس کو سمجھارہی تھیں۔ جو اس وقت صوفے پر بیٹھی موبائل میں مصروف تھی۔

"عانیہ میں تم سے بات کر رہی ہوں۔" اب کے وہ غصّےسے بولیں۔ "کیا ہے مما ! آپ کو پتا ہے کہ میں نہیں سمجھونگی پھر کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہیں۔" وہ بیزاری سے بولتے ہوئے دوبارہ موبائل میں مصروف ہوچکی تھی۔

"تمھیں اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسی اور کا ہو چکا ہے؟" اب کی بار ثمرین کا لہجہ عاجزانہ ہو گیا تھا۔

"مما وہ کسی کا نہیں ہوا ہے۔ عارش حسان عانیہ کا تھا۔ عانیہ کا ہی رہے گا۔ اس کے ڈیڈ نے زبر دستی اس کا نکاح کیا ہے اور دونوں کے درمیان محبت تو دور کی بات کزنز والی دوستی بھی نہیں اور میں اپنی خواہش سے اتنی جلدی دستربردار نہیں ہوسکتی مما۔" اب کے وہ جھنجلا کر بولی۔

"عانیہ بس۔میرے لاڈ نے ہی تمہیں اتنا خود سر بنا دیا ہے۔ میں تمھاری اب ایک نہیں سنونگی۔ مسز ندیم نے اپنے بیٹے زوہاب کے لئیے تمھاری بات کی ہے۔میں ان کو کل ڈنر پر بلا رہی ہوں تم تیار رہنا۔" عانیہ حیرت اور دکھ سے ماں کو دیکھ رہی تھی۔کتنے آرام سے کہ کر چلی گئیں ۔"تیار رہنا۔"

میں نے بچپن سےصرف اور صرف عارش کو سوچا ہے۔ میں اتنی آسانی سے ہار نہیں مانونگی۔ عانیہ غصّے سے سوچ رہی تھی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


ناعمہ کی طبیعت اب بہتری کی جانب جارہی تھی اور زرناش سے ان کی کافی دوستی ہوچکی تھی۔ اب وہ دونوں ہر جگہ ساتھ نظر آتیں۔ان کو روز فزیو تھراپی کروانا،لان میں واک کرنا ہو۔ زرناش ہی کرواتی۔ حسان صاحب بہت خوش تھے۔ آج بھی وہ ان کو وہیل چیئر میں لان میں لے کر آئی اور ساتھ ساتھ اپنے بچپن کا کوئی قصہ سنا رہی تھی۔ وہ بہت خود میں رہنے والی تھیں اور تھوڑی مغرور بھی۔ شاید عارش ان پر ہی گیا تھا مگر اس حادثے کے بعد ان میں مثبت تبدیلی آئی تھی۔حسان اور عارش جاگنگ سے واپس آۓ تو ان کو اس طرح ہنستے ہوئے دیکھ کر خوشگوار حیرت کا شکار ہوئے۔آج اتوار کا دن تھا۔ اسی لئیے عارش اور حسان گھر پر تھے۔ عارش نے بھی کبھی اپنی ماں کو اس طرح ہنستا ہوا نہیں دیکھا تھا۔

"واہ بیگم ! ہمارے ساتھ توکبھی آپ اتنا نہیں ہنسیں اور بہو کی باتوں میں بڑی ہنسی آرہی ہے۔" حسان صاحب شوخ سے کہتے ہوئے لان میں رکھی کرسی پر بیٹھ چکے تھے جب کہ عارش کے سامنے بہو کہنے پر زرناش بلش کر گئی تھی۔ جس کو عارش نے دلچسپی سے دیکھا۔

"آپ بھی کیا بچوں کے سامنے شروع ہوگۓ۔" ناعمہ حسان کی باتوں پر جھینپ گئیں۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود دونوں میں محبت اول دن جیسی تھی۔

"واہ مما !آپ شرماتی اچھا ہیں۔" عارش حسان کی برابر والی کرسی پر بیٹھا تھا۔ وجیہ چہرے پر پسینے کے قطرے نمودا تھے۔ ایک آنکھ کو دبا کر ناعمہ سے شوخ لہجے میں کہا۔ زرناش ان لوگوں کی باتوں سے لطف اندوز ہورہی تھی۔۔

"لو تم بھی شروع ہوگۓ اپنے باپ کے ساتھ دونوں باپ بیٹے ایک ساتھ ہو جاتے ہو۔ مجھے اکیلا چھوڑ کر۔ اب میری بھی پارٹنر آگئی ہے۔ میں اکیلی نہیں ہوں۔" ناعم نے زرناش کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔حسان صاحب نے اس بات پر قہقہ لگایا۔

جب کہ عارش ہونٹ کو گولائی میں سکیڑے آنکھوں میں شرارت بھر کر اس کو دیکھ رہا تھا۔

"اوہ اتنی ڈرپوک سی پارٹنر۔ جو آواز سے بھی ڈر جاتی ہے۔مما بہت ویک ہے آپکا پارٹنر۔آپ ہار جائینگی۔کیوں ڈیڈ ؟" عارش کے اس طرح کہنے پر ناعمہ اور حسان کو خوش گوار حیرت ہوئی جب کہ زرناش سب کے سامنے خود کو موضوع گفتگو بنتے ہوئے جھینپ گئی۔

یا اللہ! کیسا میسنا ہے۔ سب یاد رکھتا ہے۔ ٹام کروز کا بھائی نہ ہو تو۔ کیسے اس دن کی بات کا طعنہ دے رہا ہے۔ میسنا ،گھننا ،نمونہ وہ دانت پیستی ہوئی غصّے سے دل میں اس کو بہت سے القبات سے نواز چکی تھی۔

"چلو میری بیٹی کو تنگ نہ کرو۔ بہت بہادر ہے میری بیٹی۔"

ناعمہ پیار سے اس کو دیکھتی ہوئی کہہ رہی تھیں۔

"بلکل۔ ہماری بیٹی بہت بہادر ہے اور ناشتہ بھی بہت مزے کا بناتی ہے۔ بیٹا کچھ کھانے کا بھی انتظام کردو۔ورنہ یہ ماں بیٹے تو باتوں سے ہی پیٹ بھر لیں گے۔" حسان بہت عاجزی سی شکل بنائے زرناش سے کہہ رہے تھے۔ بے ساختہ زرناش کو ہنسی آگئی۔

"جی ماموں۔ ابھی بناتی ہوں۔" ہنستے ہوئئ کہہ کر وہ کچن کی جانب مڑ گئی۔ عارش نے اس کی ہنسی کو فرصت سے ملاحظہ کیا۔ابھی بھی وہ اس کی پشت کو تک رہا تھا۔ جہاں کمر تک آتی لمبی سی چوٹی نظر آرہی تھی اور لال آنچل پھر کچن کی جانب غائب ہوگیا۔

"ہممم ہممم چلی گئی ہے بیٹا وہ۔ واپس آجاٶ یا ساتھ کچن میں چلے جاٶ۔" حسان اپنے بیٹے کو شرارت سے دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے۔جو اپنی چوری پکڑے جانے پر خجل سا اپنا ہاتھ کندھے پر کھجاتا ہوا مسکرارہا تھا۔ وجیہ چہرے پر گڑھا گہرا تھا۔ناعمہ اور حسان دونوں ایک دوسرے کو مسکراکر عارش کی طرف اشارہ کر کے دیکھ رہے تھے۔

"تو برخوردار کیا خیال ہے آپ کا؟"

"کس بارے میں؟" عارش اب بھی ترچھا سا مسکراکر ان سے پوچھ رہا تھا۔

"اسی بارے میں جس کو آپ بڑی بے شرمی سے ماں باپ کے سامنے دیکھنے میں مگن تھے۔"

" ہاہاہا " عارش کا قہقہ بے ساختہ تھا۔

"اوہ ڈیڈ آپ بھول چکے ہیں اجازت نامہ ہے میرے پاس دیکھنے کا اور اس اجازت نامے پر آپ نے ہی دستخط کرواۓ تھے۔" عارش کہاں چپ رہنے والا تھا۔

"دونوں باپ بیٹے مزاق چھوڑو اور واقعی اب سیریسلی بات کرو۔ زرناش کا ایم اے بھی مکمل ہو جاۓ گا اس سال۔ میں چاہتی ہوں اب تمھاری خوشی دیکھوں۔" ناعمہ نے کہا۔

"بلکل بیگم صاحبہ ! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ عارش اب میں تم سے کوئی زبردستی نہیں کرونگا۔ جو بھی فیصلہ کرو سوچ سمجھ کے کرنا اور دل سے کرنا۔ میں تم دونوں کے ساتھ کوئی زیادتی کرنا نہیں چاہتا۔ تم جو بھی فیصلہ کروگے میں تمھارے ساتھ ہوں۔ تم صحیح سےسوچ لو۔" حسان صاحب سنجیدگی سے اپنے اکلوتے بیٹے کو سمجھا رہے تھے۔حقیقتاً اب وہ چاہتے تھے عارش دل سے فیصلہ کرے۔

" آجائیں سب۔ ناشتہ لگ گیا ہے۔" زرناش کی آواز آتے ہی سب ڈائیننگ ہال میں آگئے جہاں مزیدار سے ناشتے کے لوازمات سجے ہوئے تھے۔

"واہ میری بیٹی ! دل خوش کردیا۔" آج پراٹھا آملیٹ پوری اور چنے کا سالن اور حلو کی خوش بو پورے ہال میں چکرارہی تھی۔

"اوہ نو اتنا ہیوی ناشتہ مجھے صرف اورنج جوس دےدو۔"

"برخوردار ! ایک دن کھانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بچی نے اتنے پیار اور محنت سے بناۓ ہیں۔ چکھ تو لو۔" حسان صاحب نے کہا۔

"ہاں عارش واقعی بہت ٹیسٹی ہیں۔" ناعمہ بھی شوق سے کھا رہی تھیں جب کہ وہ بہت ڈاٸیٹ کانشیس تھیں۔

"ارے ممی آپ بھی کھارہی ہیں؟" عارش کو حیرت ہوئی۔

"ماموں نے خاص فرمائیش کی تھی اس لئیے بنالیا۔ میں ٹوسٹ بنا کے لے آتی ہوں۔" زرناش کو افسوس ہوا اتنی محنت سے بناۓ ہوئے ناشتے کو عارش کے یوں چھوڑتے ہوئے بنا اس کو مخاطب کئیے کہہ کر وہ اٹھنے لگی کہ عارش نے فورن پراٹھا اٹھا لیا۔۔

"واٶ بہت کرسپی ہیں۔" نجانے کیا ہوا تھا کہ زرناش کو یوں افسردہ دیکھ کر اسے اچھا نہیں لگا اور یہ حقیقت تھی کہ ناشتہ واقعی مزیدار تھا کہ اچھا خاصا ڈٹ کر کھا لیا اور خود بھی حیرت زدہ تھا۔

"یہ دیکھو ابھی کیا کہہ رہے تھے محترم۔ ہیوی ڈائٹ اور ہم سے زیادہ یہی محترم کھا چکے ہیں۔" حسان صاحب کے کہنے پر عارش خجل سا ہو کر مسکرادیا۔بہت خوشگوار ماحول میں آج کا پورا دن یوں ہی نوک جھوک میں گزر گیا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


عارش آج کل اپنی ٹیم کی مدد سے ایک منشیات فروغ کے خلاف کام کر رہا تھا۔ اسے اطلاع ملی تھی کہ یہ کام کسی بڑے سیاست دان کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ وہ اسی کام کے سلسلے میں بہت سی معلومات جمع کر رہا تھا اور اس میں مختلف پروگرام کر رہا تھا۔

جیسے کہ ابھی وہ ایک پروگرام لائیو کر رہا تھا۔جس میں اسی سیاست دان کا چیلہ موجود تھا۔ وہ اس نے اس انداز سے بات کی کہ اسے شک بھی نہ ہو۔

"آپ کیا سمجھتے ہیں ان سب معاملات کا ذمّہ دار کون ہے؟" اپنے مخصوص بھاری لہجے میں کہتے ہوئے وہ مخاطب تھا۔جس سے سیٹ پر بیٹھا شخص جزبز ہو کر رہ گیا۔

"دیکھیں یہ تو حکومت کا کام ہے کہ ایسے منشیات فروش کو رُکے۔ان کے خلاف اقدامات کرے جب کہ حکومت کو مہنگائی سے فرصت نہیں۔" وہ موصوف اپنا دامن بچا کر حکومت کے بخیے ادھیڑنے لگے۔تا کہ عوام کی توجہ اس طرف مبذول ہو جائے۔"

"دیکھیئے آپ بات کو دوسرے رخ میں لے کر جارہے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک کا کام نہیں ہوتا۔ ہر انسان اس ملک کی حفاظت کا ذمّہ دار ہے۔کچھ بااثر افراد خود اس میں شامل ہو تے ہیں۔" عارش غصّے سے اب بول رہا تھا۔ وہ شخص اچھا خاصہ سٹپٹا گیا تھا۔

اف یہ شخص خود کو ہیرو کیوں سمجھتا ہے۔ پتا بھی اتنے با اثر لوگ ہیں پھر بھی ان کے پیچھے پڑگیا ہے۔ زرناش یہ پروگرام لائیو دیکھ رہی تھی۔ کل ہی یہ کیس عارش حسان صاحب کو بتا رہا تھا۔وہ بھی موجود تھی۔

"کیا دیکھ رہی ہو؟ عارش کا شو ہے۔"

"جی۔۔"وہ چینل چینج کر رہی تھی تو بس وہ خجل سی ہو گئی۔ ناعمہ بھی وہیں بیٹھ گئیں۔اب وہ کافی چلنے لگی تھیں۔

"عارش کو تو شروع سے اس طرح کے لوگ سخت نا پسند ہے۔اسے اپنے ملک سے بہت محبت ہے۔ کہتا ہے میں ایسے لوگوں کو انجام تک پہنچا کر رہونگا۔"

"لیکن مامی اس طرح تو یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی تو دشمنی بھی خطرناک ہوتی ہیں۔"اس کی آواز میں فکر تھی۔ پروگرام تو کب کا ختم ہو چکا تھا۔ وہ جو گھر آچکا تھا اس کی آواز سن کر لاٶنج میں ہی رک گیا۔

اوہ تو محترمہ کو میری فکر ہے۔

"تو کیا ہوءا مجھے ایک دو گولی لگے گی اور میں شہید کہلاٶنگا۔" اس کی آواز میں شرارت کا عنصر شامل تھا۔

"اللہ نہ کرے۔ کیا فضول بول رہے ہو لڑکے؟" وہ دونوں جو اس کی آواز سن کر چونکی تھیں۔ اس کی بات سن کر دہل گئیں تھیں۔ دونوں نے ایک ساتھ کہا تھا۔ زرناش بھی گھبرا گئی تھی۔

"ہاہاہا " بے ساختہ قہقہ لگایا تھا عارش نے زرناش کی شکل دیکھ کر۔ ناعمہ بھی اس کی شرارت سمجھ کر مسکرا دیں۔ وہ اپنی حرکت پر خائف سی ہو کر لاٶنج سے چلی گئی۔

"بہت بری بات ہے ۔بہت تنگ کرتے ہو۔" اس کو کہتے ہوئے وہ بھی ہنستے ہوۓ باہر چلی گئیں۔جبکہ عارش کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔جو بہت تھکا ہوا اور پریشان تھا۔اب خود کو بہت تر وتازہ محسوس کر رہا تھا جانے اس رشتے میں کشش تھی یا زرناش کی دعائیں قبول ہو رہی تھیں۔ کہ عارش کا دل اس کی جانب کھچا جارہا تھا۔ وہ صو فے سے ٹیک لگائے مسلسل آنکھیں بند کیئے اسی کو سوچ رہا تھا۔



قسمت کی لکیروں میں

از قلم فلزہ ارشد

چوتھی قسط


"عارش رکو میں کب سے کال کر رہی ہوں تم ریسیو کیں نہیں کر رہے"... وہ اپنا پروگرام ختم کر کے نکل رہا تھا کہ عانیہ کی آواز سن کر مڑا تو وہ کھڑی کہرہی تھی۔

"کیا ہوا ہے ؟ ڈو یو نو عانیہ یہ میرے شو کا ٹائم ہے؟ فارغ نہیں رہتا میں ہر وقت کہ کال ریسیو کروں"۔۔ بے زاری سے کہتے وہ اپنی کار کادروازہ کھول رہا تھا۔

"مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ ضروری۔" عانیہ نے جلدی سے کہا۔

"ٹھیک ہے۔ کل لنچ ٹائم میں فارغ ہوں میں۔" یہ کہہ کر وہ گاڑی سٹارٹ کر کے چلا گیا اور وہ وہیں کھڑی دور جاتی گاڑی کو دیکھتی رہ گئی۔

عانیہ فاروقی اتنی بڑی ڈریس ڈیزائینر۔آج تک جو چاہا وہ حاصل بھی کیا۔ وہ بھی اب اپنی گاڑی سٹارٹ کر چکی تھی مگر ذہن میں صرف اور صرف عارش حسان تھا۔ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا۔وہ تھا ہی ایسا۔ یہ تو عانیہ ہی تھی۔جو زبردستی اس کے پیچھے پیچھے رہتی۔ وہ اگر ایک دن بھی کال نہ کرے تو شاید وہ بھول ہی جائے کہ کون عانیہ۔ اس کے لئیے صرف اپنی ذات اہم تھی۔اس کے دل میں عانیہ کے لئیے کبھی محبت جاگی ہی نہیں۔ ہاں وہ اس کو اچھی دوست مانتا ہے مگر عانیہ اس سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ اسے لگتا وہ ایک دن بھی عارش کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اچانک اسے اپنے ہاتھ میں کسی گرم چیز کا احساس ہوا تو دیکھا اس کے آنسو اس کے ہاتھ میں گر رہے تھے۔سامنے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا جو آنسو سے تر تھا۔

تو عانیہ فاروقی اسی کی کثر باقی تھی۔ تم نے آج تک رونے والوں کا مزاق اڑایا تھا اور آج خود۔ واہ ! عانیہ نے بے دردی سے اپنے آنسو پوچھے اور ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھر گٸ۔ اب اسے کل کا انتظار تھا۔ وہ حقیقتاً اب تھکنے لگی تھی۔ یک طرفہ محبت کا بوجھ اس کو اب اندر سے توڑ رہا تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"بابا سائیں ! یہ لڑکا اب برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔آپ حکم دیں۔ اس کا قصّہ ایک ہی دفعہ ختم کردوں۔" میر شاہ اپنی مونچھ کو بل دیتے ہوئے دلاور شاہ سے مخاطب تھا۔ جو اس وقت صوفے پر بیٹھے پر سوچ انداز میں ٹی وی دیکھ رہے تھے م۔جہاں عارش انکے اہم کارکن سے مختلف سوال پوچھ کر سچ جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔

"نہیں ابھی نہیں تم نوجوانوں کا مسئلہ یہی ہے۔ہر فیصلہ جذبات میں آکر کر تے ہو۔" دلاور شاہ نے مسکرا کر کہا۔

"تو آپ کیا کرنے والے ہیں؟" پھر میر شاہ تھوڑا بے چین ہوا۔ "یہ تو پکّا ہے کہ یہ لڑکا سب جان چکا ہے یا جان لے گا۔ جس طرح دوسرے خاموش ہیں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے۔ نیا نیا جوش ہے۔اسی لئیے اڑ رہا ہے۔ ابھی ہم سے ملے گا تو جان جائے گا۔"

"مٹّھل،مٹّھل ! " اب انہوں نے اپنے خاص ملازم کو آواز دی جو ایک منٹ میں حاضر تھا۔

"جی سائیں ! "مٶدب سا ہاتھ باندھے کھڑا وہ حکم کا منتظر تھا۔جب کہ میر شاہ اب پر سکون تھا۔ وہ جان چکا تھا کہ دلاور کا اگلا قدم کیا ہے۔

"مٹھل ذرا اس اینکر کو ہمارے مہمان خانے میں آنے کا دعوت نامہ دے دو اور سنو بہت اچھا انتظام ہونا چاہیئے۔ کسی چیز کی کمی نہ ہو۔"

"جی سائیں۔" وہ ویسے ہی نظر جھکاۓ وہاں سے جا چکا تھا۔

"بابا سائیں مجھے نہیں لگتا یہ اتنی آسانی سے خاموش ہوگا۔" میر اب بھی کچھ الجھن کا شکار تھا۔ کیونکہ وہ عارش کی تمام معلومات حاصل کر چکا تھا۔

"کیوں نہیں ہوگا خاموش۔ ضرور ہوگا۔ورنہ یہ زمین اس پر اتنی تنگ ہوجائے گی کہ سانس بھی نہ لے سکے گا۔" اب کی بار وہ سفاکا نہ لہجے اور کڑک آواز میں بولے۔ تب میر شاہ نے سکون کا سانس لیا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


وہ گھر پر پہنچا ہی تھا کہ ایک کال آئی۔ وہ رک کر کال سننے لگا اور جب بات ختم کر کے فون رکھنے لگا تو چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

تو دلاور شاہ آخر صیاد اپنے دام میں آہی گیا۔ابھی تو اس کی معلومات ادھوری تھی۔لیکن آج اس کال نے اس بات پر مہر لگادی کہ یہ کام دلاور شاہ کے ہی نگرانی میں ہورہا ہے کیونکہ کل انہوں نے عارش کو رات کے کھانے پر دعوت دی تھی۔ اور سیاست دان کبھی کوئی کام اپنے مفاد لے بغیر نہیں کرتا۔ اس دعوت کا پس منظر عارش جانے سے پہلے ہی واقف ہو چکا تھا۔لیکن وہ پھر بھی جانا چاہتا تھا۔ وہ یہ سوچتے ہوئے اندر آیا لاٶنج میں آیا تو زرناش بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔

"السلام علیکم !" زرناش کی نظر پڑی تو فورن سلام کیا "وعلیکم السلام۔"وہ تھکا ہوا سا صوفے پر گرنے کے انداز سے بیٹھ گیا۔

"مما اور ڈیڈ کہاں ہے؟"عارش نے سوال پوچھا۔

"مما ڈیڈ کے ساتھ ان کے کسی دوست کی عیادت کرنے گٸ ہیں۔" اس نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا۔

" ٹھیک۔" عارش نے سر ہلایا۔

"پلیز ایک کپ چائگ بھجوادینا۔ میں اپنے روم میں جارہا ہوں۔" "جی ٹھیک۔" وہ اس کے برابر سے گزر کر اوپر جا چکا تھا۔مگر زرناش کی دل کے دھڑکن کی رفتار اب تک تیز تھی۔ یا اللہ ! اس شخص کے سامنے مجھے کیا ہوجاتا ہے؟ وہ خود کو کو ڈانٹتی ہوئی کچن میں چلی گٸ۔

وہ ٹراٶزر اور ہاف آستین کی شرٹ میں ملبوس وارڈروب میں گھسا ہوا تھا۔جب وہ چائے لے کر اندر آئی۔

"چائے۔" وہ رکھ کر جانے لگی۔

"سنو !" کہ اچانک بھاری آواز سے وہ مخاطب ہوا۔

"جی۔" اس کی سانس خشک ہوگٸ منمنا کر پوچھا۔ نم سے بال اور چوڑی پشت کیۓ اب بھی چہرہ ہنوز الماری میں تھا۔ مضبوط بازو ہاف آستین کی وجہ سے نظر آرہے تھے۔ اچانک زرناش کے دل کی دھڑکن تیز ہوگٸ۔

اف اب بولے گا بھی یا یوں ہی مجھے پاگل کردے گا۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی۔

"یہ نیلی شرٹ نہیں مل رہی۔کہیں دیکھی ہے تم نے؟" آج کل سارے کام زرناش کے ہی ذمّے تھے۔ ناعمہ ٹھیک ہوگٸ تھی مگر اب ذمّہ داری زرناش نے ہی سمنبھال لی تھی۔

"اوہ! وہ میں نے پریس کر کے ڈریسینگ روم میں رکھی تھی۔"۔

"وہاں نہیں ہے تبھی ڈھونڈ رہا ہوں۔" اب کی بار وہ جھنجلا کر بولا۔

توبہ ہے اتنی شرٹ ہے مگر محترم کو وہی پہننی ہے۔ وہ دل ہی دل میں غصّے سے بولی۔ ایک تو اس کی قربت پریشان کر رہی تھی۔

"ہٹیں میں ڈھونڈتی ہوں۔" آواز چاہنے کے باوجود بھی تیز نہیں نکلی۔وہ ایک طرف ہوگیا اور اب وہ الماری میں منہ گھسا کر کھڑی ہوگٸ۔

کیا آفت ہے؟ وہ دل ہی دل میں بڑبڑا رہی تھی۔ عارش اتنے قریب کھڑا تھا۔ گھبراہٹ سے اس کے ہاتھ کانپ رہے دل قابو میں نہیں آرہا تھا۔ اس کی خوشبو اس کے چاروں اطراف پھیل رہی تھی۔

"مل گٸ۔" وہ خوشی سے پر جوش لہجے میں بولتی ہوئی مڑی اور اس کے کشادہ سینے سے ٹکراگٸ۔

"اف !" اپنے چکراتے سر کو وہ تکلیف سے سہلارہی تھی۔ ایسا لگا کسی لوہے سے ٹکراگٸ۔ عارش اس کے دونوں بازو تھامے کھڑا تھا۔ اس کو گرنے سے بچا نے کے لیئیے۔

"کیا ہوا ؟ زیادہ لگی ہے؟" فکر مند سا اس کی پیشانی دیکھنے لگا

۔ "نن۔۔نہیں۔" ہکلا کر کہتی وہ جلدی سے جان چھڑاتی نیچے بھاگی۔ اف نیچے آکر دو گلاس پانی چڑھا گٸ پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے۔ دل تھا کہ لگ رہا تھا سینے سے باہر آجاۓ گا۔اتنی قربت۔ یہ شخص کیا چیز تھا۔ پتا نہیں کیا کھاتا ہے۔لوہے کا بنا ہوا ہے لگ رہا تھا۔اب وہ خود پر قابو پاکر تکلیف سے دُہایاں دے رہی تھی۔

عارش اب اپنے لیب ٹاپ پر کام کر رہا تھا۔ مگر ذہن میں زرناش کی حرکت یاد آرہی تھی۔ کیا تھی وہ لڑکی مما ڈیڈ سے صحیح بات کرتی۔ مگر اس کے سامنے اس کی بولتی بند ہوجاتی۔ شرٹ ملنے پر کیسے بچوں کی طرح خوش ہوئی تھی۔عارش کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گٸ۔۔۔

اس نے اب تک لڑکیوں کو خود کے قریب آتے ہی دیکھا تھا مگر عارش نے ایک حد مقرر کی تھی کہ کوئی بھی لڑکی اس کے قریب نہیں آسکی مگر یہ لڑکی اس کا تو ایک پاکیزہ رشتہ بھی تھا۔مگر اتنا گھبراتی پتا نہیں کیوں مگر عارش حسان جو یہ دعوہ کرتا تھا کہ زرناش جیسی لڑکی اس کے قابل نہیں۔ آج وہ اسی لڑکی کو سوچ رہا تھا۔ اس سے کام نہیں ہوسکا تو وہ نیچے لان میں آگیا۔

زرناش کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ باہر بہت تیز ہوا تھی۔ وہ لان میں دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر پڑی نیچے لان میں عارش مضطرب سا ٹہلتا ہوا سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہا تھا۔ اف یہ سیگریٹ بھی پیتا ہے۔ اسے سیگریٹ پینے والوں سے سخت چڑ تھی اس کا دل خراب ہوا غصّے سے کھڑکی ہی بند کردی۔ نیچے عارش مسلسل زرناش کو سوچ رہا تھا۔ کیا اس کو اپنی بیوی سے ہی محبت ہوگٸ ہے نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے دماغ دل کی بات ماننے پر تیار نہیں تھا وہ میرے ساتھ نہیں چل سکتی۔ہم دونوں بہت مختلف ہیں ایک دوسرے سے۔مجھے ایسی لڑکی سے کیسے محبت ہوسکتی ہے ؟ مجھے تو پر اعتماد لڑکیاں پسند تھیں۔ دل اور دماغ میں عجیب سی جنگ جاری تھی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"تمھاری سٹوری مجھے کسی فلم کی طرح لگتی ہے۔ واٶ زرناش ایک روڈ سا کزن جس سے تمہارا نکاح ہوچکا ہے۔ تمھیں اس سے محبت ہے مگر اسے نہیں ہے اور پھر ایک دن تمھاری محبت کا رنگ اس کے اوپر چڑھ جائے گا۔" فائزہ پر جوش سی بول رہی تھی کہ زرناش نے ٹوکا۔

"زیادہ فضول مت بولو فائزہ۔" زرناش کی بہترین دوست تھی دونوں کلاس لینے کےبعد کینٹین میں بیٹھی تھیں۔ فائزہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ اس کی ہی وجہ سے زرناش اتنی پر اعتماد ہوگٸ تھی۔ مگر عارش کے سامنے نجانے کیا ہوجاتا کہ سارا اعتماد ختم ہوجاتا تھا۔

"لڑکی کیا سوچ رہی ہو ؟ آج تم نے وعدہ کیا تھا مجھے ٹریٹ دوگی۔"

زرناش کے دوسرے سیمیسٹر کا رزلٹ بہت اچھا آیا تھا۔ جس کی وجہ سے فائزہ اس سے ٹریٹ مانگ رہی تھی۔

"ہاں چلو۔مال چلو۔شاپنگ بھی کرلینگے اور کچھ کھا بھی لینگے۔" زرناش نے منصوبہ بتایا۔

"کچھ نہیں کھانا مجھے۔ اچھا خاصا کھانا ہے۔" فائزہ نے کچھ پر زور دے کرکہا۔

"ہاں موٹی ! اچھا خاصا کھا لینا۔" اب وہ ڈرایور کو کال کر رہی تھی۔ ماموں سے تواجازت لےلی تھی۔ اور ناعمہ بھی خوش ہوٸیں اچھا ہے باہر جاۓ گی تو تھوڑا دل بہل جاۓ گا کہیں جانا تو ہوتا نہیں تھا گھر پر ہی رہتی ناعمہ بھی جب سے حادثہ ہوا تھا کہیں نہیں جاتیں۔ ڈرایور آچکا تھا وہ دونوں اب مال میں گھم رہی تھیں۔ یونی میں فیرول پارٹی تھی۔ دونوں کو کوئی لباس پسند ہی نہیں آرہا تھا۔

"اف کیا ہے یار۔کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا۔" اب وہ تھک کر ایک بوتیک میں رک گٸ تھیں کہ اچانک زرناش کو عارش اور عانیہ نظر آئے۔

"یہ دیکھو یہ کیسا ہے؟" فائزہ نے بت بنی زرناش کو مخاطب کیا زرناش نے کوئی جواب نہیں دیا تو فائزہ نے اس کے تعاقب میں دیکھا۔ جہاں عارش اور عانیہ ایک گفٹ سینٹر میں کھڑے تھے۔

"زرناش آٶ ان کے پاس چلتے ہیں۔" وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگی۔

"پاگل ہوگٸ ہو؟" زرناش نے اس کو ڈپٹا۔"

پاگل میں نہیں۔ تم ہو۔ تم بیوی ہو اس کی۔ وہ اس چڑیل کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟" زرناش اس کی بات پر مسکرادی۔ اچھی خاصی حسین لڑکی کو وہ اس کی محبت میں چڑیل کہ رہی تھی۔پتا نہیں ان دونوں کی نظر تھا کہ عارش کی اچانک نظر پڑی تو وہ فوراً ان کے پاس آگیا۔ زرناش کی تو اس کو دیکھ کر حالت خراب ہوچکی تھی۔ وہی نیلی شرٹ جینز کے ساتھ پہنے وہ نک سک سے تیارغضب ڈھا رہا تھا۔

"خیریت تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ اتنے اپنایت سے اس سے مخاطب تھا جیسے روز ان میں بات ہوتی ہو اور وہ اس کے معمول سے واقف ہو۔

"وہ۔۔وہ" زرناش ہکلا ہی رہی تھی کہ فائزہ بول پڑی۔

"ہم ڈریس لینے آئے تھے۔" یونی میں پارٹی ہے نا لیکن زرناش کو تو کچھ پسند ہی نہیں آرہا۔ آپ ہماری مدد کروادیں۔" فائزہ بے چارگی سی شکل بناۓ عارش کی مدد مانگ رہی تھی۔ جب کے زرناش مسلسل اس کو گھور رہی تھی۔ اس کے پاٶں پر اپنی سینڈل بھی رکھ چکی تھی۔

" آہ! "فائزہ تکلیف سے کراہ گٸ مگر یہ منظر عارش کی نظروں سے مخفی نہیں رہ سکا۔ اس کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آگٸ۔

"جی شیور۔" لب اب بھی مسکرا رہے تھے اور ڈمپل گہرا ہوگیا۔

"عارش تم یہاں کھڑے ہو۔ میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں" عانیہ بھی ان لوگوں کے پاس پہنچ گٸ اور زرناش کو دیکھ کر ایک ناگواری کا احساس ہوا جبکہ فائزہ نے بھی اس کو دیکھ کر اچھا خاصا منہ بنالیا۔ البتہ زرناش یوں ہی کھڑی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی عارش کو زبردستی اسکو شاپنگ کروانی پڑے۔ جبکہ عانیہ کی پیشانی پر بل وہ دیکھ چکی تھی اور دل بجھ چکا تھا۔

"عانیہ تم فوڈ کورٹ پر ویٹ کرو یا پھر اپنی شاپنگ مکمل کرو۔ میں دس منٹ میں آتا ہوںتمہیں کال کردونگا۔" عانیہ بیزاری سی شکل بنائے وہاں سے جا چکی تھی۔

" آٶ " وہ ان دونوں کو لے کر ایک بوتیک میں گیا۔

"شکر ہے اس چڑیل سے جان چھوٹی۔" فائزہ زرناش کے کان میں گھسی کہ رہی تھی۔

"یہ پیک کروادیتا ہوں۔" عارش کی آواز سے وہ دونوں چونکی۔ انگوری کلر کی گھٹنوں تک آتی اسٹائیلش سی فراک تھی۔ وہ جس پر مہرون کلر کا ہلکا کام تھا۔

"واہ کیا چوائس ہے آپ کی عارش بھائی "

اف کتنی جلدی رشتہ بنالیا۔ بلکل آنکھیں بدل لی۔اس کو دیکھ کر مجھے پہچان ہی نہیں رہی۔ بیٹا تم چلو تمہیں بتاتی ہوں۔ زرناش آنکھوں سے ہی اس کو دھمکی دے رہی تھی۔ فائزہ جس کو بڑے مزے سے نظر انداز کر رہی تھی۔

" یہ ہیوی ہوجائیگا۔" زرناش منمنائی عارش اسکو نظر انداز کئیے سوٹ پیک کرواچکا تھا۔

واہ عجیب آدمی ہے۔ اپنی مرضی چلا رہا ہے۔جس کو پہننا ہے ۔اس سے پوچھا ہی نہیں۔

فائزہ اور عارش آرام سے سوٹ پیک کر واکر آگے بڑھ چکے تھے۔ اور پیچھے چلتی ہوئی دانت پیس رہی تھی۔

اس طوطا چشم لڑکی کو تو میں بتاتی ہوں۔آئی بڑی بھائی کی بہن۔ چمچی۔ فائزہ عارش سے اچھا خاصا گھل مل چکی تھی۔ وہ اس سے زرناش کا ہی کوئی قصّہ سنا رہی تھی جس پر وہ مسکرارہا تھا۔زرناش کا غصّے سے برا حال تھا۔

"جاٶ اب تم اپنے بھائی کے ساتھ میں نہیں لےکر جاٶنگی تمہیں۔" عارش ان دونوں کو گاڑی کے پاس چھوڑ کر جا چکا تھا۔ زرناش فائزہ پر غصّہ اتار رہی تھی۔

"یار کتنی کیوٹ لگ رہی ہو تم غصّے میں۔ کاش عارش بھاٸ تمہیں اس وقت دیکھ لیں فدا ہوجائینگے۔" فائزہ مزے سے کہتی اس کے برابر میں بیٹھ چکی تھی۔

"دفعہ ہو تم۔" وہ غصّے سے گاڑی میں بیٹھ گٸ۔

"ہاہاہا! قدر کرو لڑکی میری۔ تمہیں تو شکر گزار ہونا چاہیئے۔ تمہیں تو کچھ پسند نہیں آرہا تھا۔عارش بھائی نہیں ہوتے تو ہم کچھ نہیں لے پاتے۔"

"تمھارے عارش بھائی نے صرف جان چھڑانے کے لئیے جو نظر آیا وہ لے لیا۔ تا کہ اس پلاسٹک کی چھپکلی کے پاس جا سکے۔" زرناش ہنوز خفا سی شکل بنائے بیٹھی تھی۔ جب کہ فائزہ نے قہقہ لگایا ۔

"واہ ! کیا نام دیا ہے میڈم نے۔ لیکن ایسا نہیں ہے میں نے عارش بھائی کی آنکھوں میں چمک دیکھی ہے۔ جو تمھیں دیکھ کر آئی۔ وہ چڑیل خود پیچھے پڑی ہوگی ان کے۔ وہ مجھے ایسے نہیں لگتے۔" فائزہ مسلسل عارش کی حمایت کررہی تھی۔

"اور وہ ڈریس۔وہ اتنا حسین تھا دیکھنا مغلیہ شہزادی لگوگی پہن کر۔"اب وہ اسے بچوں کی برح بہلارہی تھی۔ زرناش کو بھی اپنا موڈ صحیح کرنا پڑا اور یہ سچ تھا۔وہ ڈریس واقعی حسین تھا اور بہت مہنگا بھی تھا۔ زرناش خود کبھی نہیں لیتی کیونکہ اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اتنا مہنگا ڈریس لے۔ پتا نہیں سب کیا سوچینگے۔ کچھ بھی ہو۔وہ اس گھر کی چیزوں کو اپنا حق نہیں سمجھتی تھی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"عارش دیکھو میں بچپن سے صرف تمہیں چاہتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ تمہیں اپنے ساتھ دیکھا ہے۔ مما میری کہیں اور شادی کروانا چاہتی ہیں مگر میں تمھارے علاوہ کسی کو نہیں سوچ سکتی۔" وہ دونوں ایک ریسٹیورینٹ میں بیٹھے تھے۔ عانیہ بول رہی تھی اور ڈر بھی رہی تھی کچھ بھی تھا۔ عارش کی شخصیت سے وہ بھی خائف رہتی تھی۔ تب ہی آج تک اس سے اظہار نہیں کرسکی۔ورنہ وہ آزاد خیال کی لڑکی تھی جبکہ عارش پر سکون سا بیٹھا اسٹرا گھماتے ہوئے اسے سن رہا تھا۔ "میں جانتی ہوں اس نکاح میں تمہاری کوئی مرضی شامل نہیں تھی۔ تم بہت جلد اسے طلاق دےدوگے۔"

" بسس۔" وہ بولا نہیں دھاڑا تھا۔"ایک لفظ نہیں۔ وہ بیوی ہے میری آئندہ ایسی بات میں تم سے نہیں سنوں۔" عانیہ جیسی لڑکی بھی اس کی آواز سن کر سہم گٸ تھی۔ آگے پیچھے لوگ بھی بیٹھے مڑ کر دیکھنے لگے۔ "دیکھو عانیہ۔" اب کے آواز دھیمی تھی ۔"میں نے مانا کہ زرناش میرا آئیڈیل نہیں تھی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں نے تمہیں بھی کبھی اس لحاظ سے نہیں دیکھا۔ تم میری اچھی دوست ہو۔ جس طرح بلال اور زوہاب۔ جب میں نے دیکھا کہ تم کچھ اور سوچ رہی ہو تب میں نے تمہیں سمجھانے کی اور رکنے کی بہت کوشش کی۔ مگر تم نے خود ہی سب کچھ فرض کر لیا تھا۔جس میں میرا کوئی قصور نہیں میں زوہاب کو جانتا ہوں اچھا لڑکا ہے۔ تمہیں پسند بھی کرتا ہے۔ ہم زبردستی کسی کو اپنا نہیں بنا سکتے۔ جو ہماری قسمت میں ہوگا وہ ہمیں مل کر رہتا ہے۔ ضروری نہیں ہم جو چیز کی خواہش کریں وہ ہمیں حاصل بھی ہو۔" عارش اسے نرم لہجے میں سمجھارہا تھا۔

" ہاں صحیح کہ رہے ہو کچھ خواہشیں ہمارے دل میں حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔" ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہتی وہ وہاں سے چلی گٸ۔ عارش نے ایک گہری سانس بھری۔

عانیہ جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی اس کا فون بجا۔ کال ریسیو کی تو دوسری طرف زوہاب تھا۔

" عانیہ کیسی ہو ؟ ہم کہیں مل سکتے ہیں ؟"

"ٹھیک ہے۔۔کل۔" عانیہ نے کچھ سوچتے ہوئے ٹائمنگ اور جگہ بتائی۔ دل خون کے آنسو رورہا تھا م۔اتنے سالوں کا غم تھا یوں تو نہیں بھرتا۔ خود تو خالی ہاتھ رہ گٸ مگر زوہاب کو خالی ہاتھ نہیں لوٹانا چاہتی تھی۔ زوہاب کافی سالوں سے اس کے پیچھے پڑا تھا اور عانیہ کے جھڑکنے پر بھی اس کے مستقل مزاجی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ وہ گھر آچکی تھی اور آج اسے عارش کا غم منانا تھا ۔اپنی ادھوری محبت کا غم۔ یہ غم تو کبھی نہیں بھرتا مگر وہ سمجھ چکی تھی۔ ہر انسان کی قسمت میں جو لکھا جا چکا ہے۔ وہی ملنا ہے انسان جتنی بھی کوشش کرلے۔


 

قسمت کی لکیروں میں

از قلم فلزہ ارشد

پانچویں قسط


عارش جیسے ہی دلاور شاہ کی حویلی پہنچا مٹھل گیٹ پر ہی اس کے استقبال کے لئیے کھڑا تھا۔ پھر اس کو اپنی معیت میں بیٹھک میں لے جا کر بیٹھا دیا۔ اور دلاور کو پیغام دینے کے لیئے چلا گیا۔جب تک عارش اس وسیع و عریض بیٹھک کو تفصیل سے دیکھ رہا تھا۔کمرہ واقعی کسی سیاست دان کا ہی پس منظر ثابت کر رہا تھا۔چاروں اطراف دیوار میں بڑی بڑی سی دلاور شاہ کی تصویر لگی تھیں۔ کسی میں وہ شکار کرتے ہوۓ تھے۔تو کسی میں گاٶں کے مجبور لوگوں کو لفافے تقسیم کرتے ہوۓ۔ عارش کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھر گٸ۔

" خوش آمدید۔خوش آمدید۔" دلاور شاہ اندر آۓ اور پرجوش طریقے سے عارش سے مصاحفہ کیا

" اور برخوردار بہت اونچا اڑ رہے ہو۔ ہاہا۔ بلکل ایسے ہی پر جوش جوانوں کی ضرورت ہے اس قوم کو۔" عارش طنزیہ مسکراہٹ سجاۓ ان کی بات سن رہا تھا۔ وہ کافی دیر اس سے ذاتی سوالات پوچھ رہے تھے. جس کا وہ تحمل سے جواب دے رہاتھا پھر کھانے کا دور چلا. جہاں مختلف قسم کے کھانے موجود تھے. عارش کھانے نے کو صرف براۓ نام چکھا۔کھانے کے بعد دلاور شاہ نے کہا۔"

ارے وہ تحفہ تو لاٶ مٹھل۔جو مہمان کو دینے کے لیئے رکھے ہیں۔" کچھ دیر میں میر شاہ بھی آگیا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو نا پسند کرتے تھے۔ عارش اسکو ذاتی طور پر بھی جانتا تھا۔ میر شاہ کی شہرت کچھ اچھی نہیں تھی۔ وہ اپنے باب کی شہرت اور سے فائدہ اٹھا کر ہر ناجائز کام دھڑلے سے کرتا تھا۔

مٹھل ایک بیگ کے ساتھ واپس آیا۔۔

"ہم جانتے ہیں۔ تم آگے تک جاٶگے۔ بہت جوش ہے تم میں تمام کام کرو۔دیکھو ملک میں بہت سے مسائل ہیں۔ اس پر کام کرو بلکہ میں تو کہتا ہوں۔سیاست میں آجاٶ۔ ہمیں ایسے بھی تم جیسے نوجوانوں کی بہت ضرورت ہے۔

" بہتر ہے شاہ صاحب اب کام کی بات کرلیں۔ جس کی وجہ سے آپ نے اپنا اتنا قیمتی وقت برباد کر کے مجھے بلایا۔ مجھے ایسی سیاست سے معاف رکھیں شاہ صاحب۔جہاں عوام کے خون سے اپنی سیاست چمکائی جاۓ اور سیاست دان کا لبادہ اوڑ کر منشیات فروش جیسا گھناٶنا دھندا کیا جاۓ اور ملک کی معیشیت اور عوام کو نقصان پہنچاکر خود کو ملک کا وفا دار ثابت کرے۔" عارش اب بیزار ہوگیا تھا۔ ان کی چاپلوسی جیسی باتوں اسلیئے اس نے کھُلے لفظوں میں بات کی تا کہ دلاور اب اسے کسی اور طریقے سے جال پھینکنے کی کوشش نہ کریں۔بلکہ صاف بات کریں میر شاہ تو اس کی بات سن کر غصّے سے آگ بگولہ ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتا دلاور شاہ نے اپنا ہاتھ بیٹے کے کندھے پر رکھ کر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ "برخوردار ! لگتا ہے بڑے جوش میں ہو۔اتنا اونچا نہ اڑو کہ منہ کے بل گرو۔

" گرتا تو وہ ہے شاہ صاحب۔ جس کی رسّی خدا نے دراز کی ہو اور اچانک جب وہ رسّی کھینچتا ہے تو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔" "ہاہاہاہا۔" دلاور شاہ کا قہقہ فضا میں گونجا۔"

میں تو تم سے متاثر ہو چکا ہوں۔چلو ایک ڈیل کرتے ہیں۔ تم یہ منشیات والے کیس پر تحقیقات کرنا چھوڑ دو اور میں تمہیں اس کے بدلے دوسری معلومات دے سکتا ہوں۔جس سے نہ صرف تمہیں فائدہ ہوگا بلکہ تمہارے پوگرام کی ریٹینگ بھی بڑھے گی۔" وہ مونچھوں کو بل دیتے ہوۓ سامنے بیٹھے عارش سے مخاطب تھے۔ جو سپاٹ سا چہرہ لیئے بیٹھا تھا جب کہ میر شاہ باہر جا چکا تھا۔ کچھ بھی تھا وہ عارش کی شخصیت کے رعب میں آگیا تھا اور ایسے بھی اب اس کی عیاشی کا ٹائم ہو گیا تھا۔ وہ دوستوں کی طرف نکل گیا عارش نے گھڑی دیکھی اور کہا

"صاف سی بات ہے شاہ صاحب۔ میں جو کام ٹھان لوں۔ وہ کر کے رہتا ہوں۔ اب میں یہ کام کسی صورت نہیں روک سکتا اور برائئ میں جہاں دیکھونگا اس کو جڑ سے ختم کرونگا۔" اب وہ سامنے پڑے بیگ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جہاں ہرے اور نیلے نوٹ کی گڈی تھی۔

" اور ہاں ! اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر کسی کو پیسے سے خریدا جاسکتا ہے۔ تو یہ آپ کی بھول ہے کچھ لوگوں کا ضمیر اب بھی زندہ ہے اور ملک سے محبت باقی ہے۔ جو آپ جیسے غدار لوگوں کے لیئے نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔ اب اجازت دیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کا تمام وار کارگر ثابت نہیں ہوسکا۔"لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوۓ وہاں سے جا چکا تھا۔ جب کے دلاور شاہ غصّے سے کھڑے آج تک کسی نے بھی ان کے کام کے بیچ میں آنے کی کو شش نہیں کی اور جو آۓ ان کا منہ بند کروانا دلاور شاہ کو اچھے طریقے سے آتا تھا مگر یہ لڑکا ان کی توقع سے زیادہ ایمان دار اور زہین تھا۔ وہ کو ئی بھی بات سننے کے لیئے تیار نہیں تھا۔

"لگتا ہے اس لڑکے کے پر کاٹنے پڑیں گے مٹھل۔"

" جی سائیں۔" وہ موٶدب سا کھڑا تھا۔

" اس لڑکے پر پوری نظر رکھو اور اس کی فیملی پر بھی۔ کب آتا ہے۔کب جاتا ہے۔ کیا کرتا ہے۔روز کا معمول چاہیئے اور ہمارے حکم کے منتظر رہو۔ساری اکڑ نکل جاۓ گی اس کی۔ کرتا ہوں کچھ۔

" جی سائیں۔جیسا آپ چاہتے ہیں بلکل ویسا ہی ہوگا۔

" ٹھیک ہے۔ گاڑی نکالو ذرا ۔

"جی سائیں۔" وہ بہت کچھ سوچے بیٹھے تھے۔ ابھی انہیں کسی دورے پر جانا تھا۔ مٹھل کے گاڑی نکالتے ہی دو تین مسلح گارڈز کی گاڑی کی معیت میں ان کی گاڑی دھول اڑاتی جا چکی تھی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


جو کام وہ کر رہا تھا وہ خطرے سے خالی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا اب ان کا اگلا قدم ضرور خطرناک ہوگا اب وہ خود کو ہر طریقے کے خطرے سے نبٹنے کے لیئے تیار کر رہا تھا۔ اس نے گھر پر اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ اسے پتاتھا ناعمہ پریشان ہوجائنگی۔وہ مسلسل کمرے سے ملحق ٹیریس میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ اچانک نیچے لان میں نظر پڑی۔ نیلے رنگ کا آنچل بار بار نظر آرہا تھا۔اور جھلک دکھا کے غاب ہو جارہا تھا۔ زرناش کوئی کتاب لیۓ شاید پڑھ رہی تھی۔ اس کے فائنل ائیر کے امتحان ہونے والے تھے اب وہ نظر کم آتی تھی۔اکثر کمرہ بند کر کے پڑھ رہی ہوتی یا لان میں ٹہل کر پڑھتی ہوئی نظر آتی۔ وہ اس طرف تھی۔ جہاں سے عارش کے بالکنی سے بمشکل نظر آتا ہے۔ صرف اچانک عارش کے دل میں اسکو سامنے سے دیکھنے کی خواہش ہوئی۔ وہ دل کی اس انوکھی فرمائش پر حیران تھا۔ یہ سوچ کے ہی مسکراہٹ اس کے سنجیدہ چہرے پر پھیل گٸ کہ ابھی وہ اچانک اسے دیکھ کر گھبرا جاۓ گی اس سوچ نے اسے اور بے چین کردیا۔ اس کا دل چاہا کہ جاۓ اور زرناش کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھے۔وہ اپنے دل پر قابو نہیں پا سکا اور لبوں میں مسکراہٹ دباۓ لان میں پہنچ گیا جہاں وہ اب بھی ٹہل رہی تھی مگر اب اسے اسکا چہرہ صاف نظر آرہا تھا۔ زرناش کی نظر اب تک اس پر نہیں پڑی تھی۔ وہ دور کھڑا کافی دیر تک اس کو دیکھتا رہا اور خود بھی نہیں جانتا تھا۔وہ اس طرح کی بچکانہ حرکت کیوں کر رہا ہے۔ نظروں کا ارتکاز تھا کہ زرناش کی نظر سامنے پڑی۔ دونوں ہاتھ ٹراٶزر کی جیب میں ڈالے وہ دلچسپی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں شرارت سے مسکرارہی تھیں۔

ہاۓ اللہ یہ کب آۓ اور مجھے ہی دیکھ رہے ہیں۔ زرناش نے ذرا سی نظر اٹھا کے دیکھا۔ پھر جھکالیا۔ توبہ انسان کی آنکھ ہے یا روبوٹ کی۔ ذرا بھی پلکے نہیں جھپک رہیں۔ اب وہ ان نظروں سے خائف سی ہو گٸ تھی۔ کچھ پڑھا بھی نہیں جارہا تھا۔ ہاۓ یہ تو یہیں آرہا ہے۔جب سے عارش کے دیکھنے کا انداز بدلہ تھا زرناش اس سے دور بھاگتی تھی اور میں کیوں گھبرا رہی ہوں۔ نہیں زرناش تم بیوی ہو۔ کوئی ضرورت نہیں ہے گھبرانے کی۔ ریلیکس زرناش۔ ریلکس۔وہ آنکھیں بند کر کے خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

" یہ آنکھیں بند کر کے کونسی پڑھائی ہورہی ہے؟"

" اف۔۔" وہ اچھل ہی تو گٸ تھی آواز پر۔ پھر فورا خود پر قابو پالیا وہ سنجیدہ سی شکل بناۓ اس سے پوچھ رہا تھا لیکن آنکھیں ہنوز شرارت سے چمک رہی تھیں

" وہ میں دعا پڑھ رہی تھی۔

" اوہ ۔" عارش نے لبوں پر آتی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا۔

" ویسے تم دونوں کی دوستی ہے ۔لگ رہا ہے کافی دیر سے دونوں ساتھ ٹہل رہی ہو۔" وہ اب بھی مسکراہٹ دباۓ اس سے مخاطب تھا

"کون ؟" زرناش کی آنکھیں پھیل چکی تھیں۔ کیونکہ وہ کافی دیر سے اکیلے ہی تھی پھر کون تھا جس کی وہ بات کر رہا تھا۔

"وہ " عارش نے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔جہاں موٹی سی چھپکلی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ خوف سے اس کی چیخ نکل گٸ اور وہ اس جگہ سے دور بھاگ گٸ۔ لان میں لگی کرسی میں بیٹھ کر وہ اپنی سانس درست کر رہی تھی۔ سوچ سوچ کر ہی خوف سے جھرجھری آرہی تھی۔ چھپکلی اس کے ساتھ ٹہل رہی تھی۔ وہ بھی اب کرسی پر بیٹھ چکا تھا لیکن مسکراہٹ اب بھی چہرے کا احاطہ کی ہوئے تھی۔زرناش اب اسے شک کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔

اوہ تو محترم مجھے نہیں چھپکلی کو دیکھ رہے تھے۔

" آپ کو پتا تھا وہاں چھپکلی ہے۔ بتایا کیوں نہیں مجھے اور انتظار میں تھے کی کب چھپکلی میرے سر میں گرے اور مجھے اپنا لقمہ اجل بنالے ۔"اس کے کہتے ہی عارش کا قہقہ فضا میں گونجا جب کےزرناش نے بھی زبان دانتوں میں دبالی۔

" یہ میری معلومات اضافہ ہوا کے چھپکلی انسانوں کو لقمہ اجل بناتی ہیں۔مجھے تو یہی لگا تھا کے یہ صرف لڑکیوں کو ڈرانے کے کام آتی ہیں۔"عارش کا قہقہ رکا نہیں گردن پیچھے کیۓ وہ مسلسل ہنس رہا تھا۔ ماتھےکے بال کچھ اور بکھر گۓ تھے۔ زیادہ ہنسنے کی وجہ سے آنکھوں میں آنسو آگۓ۔ اور وہ بیٹھی اس وقت کو کوس رہی تھی جب اس کے منہ سے نکلا۔ پتا نہیں میری بولتی بند ہوجاتی ہے یا پھر الٹا سیدھا ہی نکلتا ہے زبان سے ان کے سامنے۔ اب یہ میرا مذاق اڑاتے رہینگے

"نہیں I swear میں مزاق نہیں اڑاٶنگا۔ نہ ہی کسی کو بتاٶنگا۔" سنجیدہ سا چہرہ بناۓ وہ اسے کہہ رہا تھا مگر آنکھیں ہنوز شرارت سے مسکرارہی تھیں۔

اف یہ دل کی بات کیسے پڑھ لیتے ہیں۔ زرناش دل ہی دل میں تلملائی۔

" تمہیں کسی نے بتا یا نہیں کہ تم بلند آواز میں سوچتی ہو۔" اب وہ مسکراہٹ دباۓ کھڑا ہوگیا اور وہ خجل سی ہو گٸ۔ واقعی اس کی بہت بری عادت تھی۔ دل ہی دل میں باتیں کرتی آواز بلند ہو جاتی تھی۔

"اچھا اب جا کے سوجاٶ۔ ایسا نہ ہو واقعی چھپکلی اڑتے ہوۓ آۓ اور تمہیں لقمہ اجل بنالے ۔" پہلے وہ واقعی ڈر کر جانے لگی مگر اچانک بات پر غور کیا تو اسے مڑ کر دیکھا۔ جسے پھر ہنسی کا دورہ پڑ چکا تھا۔اب کی بار وہ بھی مسکرادی۔ عارش کا یہ روپ وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ ورنہ اتنا ہنستے ہوۓ اس نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اورمحبت کے اس رنگ سے روشناس ہورہے تھے۔ جس سے دونوں ہی ناواقف تھے۔ زرناش ہی ہوش میں آئی اور جلدی سے اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگادی جبکہ عارش کے قہقے نے اس کا تعاقب کیا تھا۔ عارش بھی کمرے میں آگیا تھا اور اب پہلے والی پریشانی چہرے سے غائب تھی بلکہ ایک شوخ سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ وہ ساری دن بھر کی کثافت دھول چکی تھی۔وہ اب خود کو تروتازہ محسوس کر رہا تھا۔

واہ عارش مان لو کے تمہیں اپنی ہی بیوی سے محبت ہو چکی ہے۔ وہ سونے کے لۓ لیٹ چکا تھا۔مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اگر وہ جاگ رہا تھا۔

تو زرناش کو کونسا نیند آنی تھی۔ عارش کی آنکھیں۔ اف بار بار ان آنکھوں کو یاد کر رہی تھی۔ جہاں آج پہلی بار اسے اپنے لیۓ محبت نظر آئی۔ تو عارش حسان میری دعاٶں نے آپ کو جیت لیا۔میری محبت سرخرو ہوئی۔

ایک فاتح بنا سرشار تھا۔تو دوسرا اپنی ہار تسلیم کیۓ خوش تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


عانیہ کی منگنی کا انویٹیشن کارڈ آیا تھا۔ زرناش کو حیرت بھری خوشی ہوئی۔ ناعمہ بیگم بھی خوش تھیں۔ کچھ بھی تھا۔ بھانجی سے ان کو اب بھی محبت تھی۔ اس کا دکھ انہیں تھا ۔ایک گلٹ کا شکار تھیں۔ جس سے آج وہ خود کو ہلکا محسوس کر رہی تھیں۔ عانیہ خود آئی تھی۔ ناعمہ سے بھی اچھے سے ملی اور معافی بھی مانگی۔

" آنٹی مجھے معاف کردیں شاید میں خود غرض ہوگٸ تھی۔

"کوئ بات نہیں بیٹا۔ اب پرانی باتیں دہرا کر اپنی خوشی مت خراب کرو۔اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔" عانیہ کے لبوں پر ایک پھیکی مسکراہٹ آ کر گزر گٸ۔

"آنٹی زرناش کہاں ہے ؟" آج وہ پہلی بار خلوص سے زرناش کا پوچھ رہی تھی۔

" کچن میں ہے بیٹا۔ جاٶ جا کے مل لو ۔" اب وہ زرناش کے پاس کھڑی تھی۔ زرناش کو بہت حیرت ہوئی۔اسے اس طرح وہ جھجک رہی تھی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو۔پہلے والی مغروریت چہرے پر بلکل نہیں تھی۔

"عانیہ آپ کی منگنی کا سن کر بہت خوشی ہوئی مجھے۔ مبارک ہو۔" زرناش نے ہی بات کا آغاز کیا۔

تھینکیو۔ تم بہت اچھی لڑکی ہو زرناش۔" وہ اچانک اس کا ہاتھ تھام کر کہنے لگی ۔زرناش حیران پریشان اس کو دیکھ رہی تھی۔

" میں نے تمہارے ساتھ بلکل بھی اچھا نہیں کیا اور تم مجھ سے اتنی خوش دلی سے مبارک باد دے رہی ہو۔میں بہت شرمندہ ہوں میں نے تو عارش سے تمہاری۔۔۔ خیر چھوڑو یہ بتاٶ منگنی میں تو آٶگی نا؟" آخر میں اس کی آواز بھیگی سی ہوگٸ۔

" ارے ۔۔یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے۔ ضرور آٶنگی اور آپ کو اب کچھ بھی بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بتائیں چاۓ پیئنگی۔ یا کافی؟"

" جو تم چاہو۔"عانیہ نے کہا اور دونوں قہقہ لگانے لگیں۔ عانیہ نے عارش کی آنکھوں میں زرناش کی محبت دیکھی تھی۔ وہ اب زرناش کو ناپسند نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ تو اس کی محبت کی محبت تھی۔ دونوں کی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ آج عانیہ نے کافی دیر زرناش کے ساتھ باتوں میں گزارا۔دونوں میں اچھی خاصی دوستی ہوچکی تھی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


آج عارش نیوز روم میں پہنچا تو اس چینل کے سی ای او نے اسے اپنے پاس بلایا ۔

"عارش تم جانتے ہو یہ کام خطرے سے خالی نہیں ہے۔ تم جانتے ہو دلاور شاہ کے تعلقات کتنے زیادہ ہیں۔ وہ اتنی آسانی سے نہیں ہار مانے گا۔ بہت زیادہ تعلقات ہیں اس کے۔"

" میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ برائی ایک وقت تک ہاوی رہتی ہے ایک نہ ایک دن اچھائی اس برائی کو ختم کردیتی ہے۔ مجھے اس دن کا انتظار ہے۔"

عارش میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ ملک بچا ہوا ہے ۔بس میں چاہتا ہوں تم تھوڑا احتیاط کرو کوئی سیکیورٹی کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہنا۔"

"جی جی بلکل۔ آپ کی وجہ سے تو میں ثابت قدم ہوں۔" اب وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہوا تھا۔

عارش اپنا کام ختم کر کے سیدھا ہوا تھا کے ایک کال آئی۔

" ہیلو کون ؟ بکواس بند کرو اپنی۔ تمہاری ہمّت کیسے ہوئی میری بیوی کے بارے میں بات کرنے کی۔ شٹ اپ اپنی ناپاک زبان سے میری بیوی کا نام مت لو۔

" ہاہاہا رومیو کو تو نام لینے سے ہی بڑی تکلیف ہو رہی ہے پھر اسے تکلیف میں دیکھ کر کتنی تکلیف ہوگی۔" میر شاہ قہقہ لگارہا تھا جب کہ عارش کا بس نہیں چل رہا تھا وہ جا کے اس شخص کا گلا دبادے۔



قسمت کی لکیروں میں

از قلم فلزہ ارشد

قسط نمبر چھ


"تمھاری لڑائی مجھ سے ہے۔ تو بہتر ہے۔ مجھ تک رہو۔میری فیملی میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی تو میں زندہ نہیں چھوڑونگا۔سمجھے تم۔" وہ دھاڑا تھا۔ دماغ کی رگیں تن گٸ تھیں۔ اگر میر شاہ سامنے ہوتا تو شاید وہ زندہ نہیں رہتا۔

" نہیں۔نہیں اینکر ! تمہاری فیملی نہیں۔ صرف تمھاری بیوی۔میں تمھیں وہاں سے نقصان پہنچاٶنگا۔ جہاں تم تکلیف سے بلبلا جاٶ گے۔" میر شاہ فون میں شیر بنا بیٹھا تھا جبکہ میر شاہ نے تو اندھیرے میں تیر چلایا تھا مگر تیر صحیح نشانے پر لگا تھا۔بلکہ اس کی توقع سے زیادہ عارش زرناش کا نام سن کر طیش میں آگیا تھا۔

"اگر تم نے کچھ بھی کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے زیادہ برا کوٸ نہیں ہوگا۔ اگر تم یہ سمجھ رہے ہو تمہاری اس گھٹیا چال سے میں ڈر جاٶنگا۔ تو یہ سوچ ہے تمہاری۔ جس کام کے لیئے تم روک رہے ہو۔ ٹھیک ہے نہیں کرتا میں صحیح۔ مگر جو چیز میرے پاس ہے وہ تمہاری منگیتر اور تمہارے باپ اور تمہارے خاندان والوں کو دکھانےکے لۓ کافی ہے اور تم کسی کو منہ دیکھانے کے لائق نہیں رہوگے۔میر دلاور شاہ میں چپ ہوں۔صرف اس لیۓ تمہارے کسی بھی ذاتی فعل سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں صرف اپنے ملک کے لیۓ کام کرتا ہوں۔ لیکن اگر تم نے میری بیوی یا میرے گھر والوں میں سے کسی کو بھی نظر اٹھا کے بھی دیکھا۔۔تو تم یاد رکھوگے کہ تم نے عارش حسان کے گھر میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔" دھیمے دھیمے لہجے میں غرا کر کہتا۔ وہ واقعی میر شاہ کی بولتی بند کروا چکا تھا۔ میر شاہ کی واقعی حالت خراب ہوگٸ تھی۔کیونکہ میر شاہ ایک بگڑا ہوا لڑکا تھا اور اس کے بہت سے کارنامے عارش کو پتا تھا۔میر شاہ پریشان ہوگیا تھا۔ اس کی چال الٹی پڑ گٸ تھی۔

عارش دونوں ہاتھ سر پر رکھے بیٹھا تھا۔ چہرے پر سنجیدہ سے آثار تھے براٶن آنکھیں غم و غصّے سے سرخ ہوچکی تھیں۔ سوچ سوچ کے دماغ ماٶف ہورہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کے دلاور شاہ اس حد تک گر جاۓگا کہ اپنے بیٹے کو آگے کردے گا اور زرناش تک پہنچ جاۓگا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جا کے اس کا منہ توڑ دے۔ زرناش کا نام اس کے منہ سے سن کر آگ بگولہ ہوچکا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا آج زرناش کی فیرول پارٹی تھی۔فورا گھڑی دیکھی اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا۔ اس نے اپنی طرف سے تو میر شاہ کو اچھی خاصی دھمکی دے دی تھی۔ جس سے میر واقعی پریشان ہوگیا تھا۔ مگر عارش کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اس نے ڈرانے کے لیۓ اسے کہا تھا۔مگر میر شاہ واقعی بلبلا گیا تھا کیونکہ صرف دولت اور شہرت کی وجہ سے وہ اتنا اڑتا تھا۔ مگر اندر سے وہ ایک بزدل مرد تھا۔ عارش جانتا تھا کہ وہ صرف کہہ رہا تھا۔ کرنے کی ہمت اس کے اندر نہیں ہے مگر وہ اب ہر طرح سے سوچ رہا تھا۔ وہ پھر بھی احتیاط کرنا چاہتا تھا۔ معاملے کی سنگینی کا احساس اسے اب ہوا تھا۔وہ اب کسی کو کال ملارہا تھا۔ ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا۔ اب وہ کال پر مصروف تھا۔

"ہیلو ! ہا ں عثمان یار۔ کل مجھ سے ملو ہاں۔ہاں وہی کیس ڈسکسکس کرنا ہے۔ ہاں اب دھمکی پر اتر آۓ ہیں وہ لوگ۔ پتہ نہیں خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ بس میں چاہتا ہوں۔ اس کھیل کو اب ختم کردوں۔ اب میں جلد از جلد ان کو انجام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔" وہ اب کال رکھ چکا تھا۔ گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی براٶن آنکھیں سنجیدہ سی سامنے مرر پر جماۓ لب بھینچے وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔بس وہ نکلی نہ ہو ایک ہی دعا اس کی زبان پر تھی۔

"ہاں فائدہ! ہاں میں بس نکل رہی ہوں۔" وہی اس دن والی فراک پہنے ہلکے سے میک اپ کے ساتھ وہ واقعی کوئی معصوم سی پری لگ رہی تھی۔اب وہ آئینے میں خود کا جائزہ لے رہی تھی۔ اچانک دل نے خواہش کی کاش عارش اسے اس تیاری میں دیکھ لے۔ دل کی اس خواہش پر لبوں پر مسکراہٹ کھل گٸ۔ ابھی تو بہت ٹائم تھا۔عارش کے آنے میں مگر اسے جلدی نکلنا تھا۔ وہ تیار ہو کے نیچے لاٶنج میں آگٸ۔ ناعمہ نے دیکھ کر دل ہی دل میں اسکی نظر اتاری۔

" بہت پیاری لگ رہی ہو۔"پیار سے انسے دیکھتے ہوئے کہا۔ اپنی تعریف پر وہ جھینپ گٸ۔

" ڈرائیور کو کہہ دیا تھا نا ؟ جاٶ۔"

" جی آنٹی ! "وہ باہر نکل گٸ۔عارش پورچ میں پہنچا تو دیکھا۔وہ تیار تھی۔اور جانے کے لیۓ نکل رہی تھی۔ایک منٹ کے لیۓ تو وہ دیکھتا رہ گیا۔ یہ وہی زرناش تھی یا کوئی معصوم پری۔ وہ نظر ہٹا نہیں پارہا تھا ۔بہت مشکل سے خود پر قابو پا کر وہ آگے بڑھا۔ دل انجانے خوف سے لرز سا گیا۔

"کہاں جارہی ہو ؟"سختی سے پوچھا۔ "کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں جانے کی۔ جاٶ اندر۔"

" مم۔۔ممگر ممم۔ماموں سے کہا تھا میں نے۔" وہ حیران اور پریشان تھی۔ اسے کیا ہوا تھا۔ کل تک تو ٹھیک تھا۔ اب یہ۔ وہ ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"میں نے کہا نا۔ جاٶ اندر۔" اب کی بار وہ دھاڑا تھا۔ زرناش سہم گٸ اور دوڑتی ہوئی اندر چلی گٸ۔ وہ دور کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔جس لڑکی کو اس نے ڈانٹا تھا۔ وہ اسے کیسے بتاۓ کہ وہ لڑکی اس کے لیۓ کتنی اہم ہوگٸ تھی۔ وہ اس نازک سی لڑکی کو کھونے سے ڈرتا ہے۔اس کی ہر سانس میں اب صرف وہ ہی بستی ہے۔ اس کی تکلیف کا سوچ کے ہی اس کی جان نکلنے لگی تھی۔ اسی لیئے اسے سختی دکھانی پڑی ۔صرف اس لیئے کہ وہ اس کے لیۓ بہت اہم تھی۔لیکن زرناش کے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے۔ کس طرح بے یقینی سے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ اور وہ خود کتنی حسین لگ رہی تھی۔ ڈری سہمی نازک سی دل چاہا اسے اپنے سینے میں چھپالے اور دنیا کی ظالم نظروں سے بہت دور لے جاۓ۔ وہ تھکا ہوا سا لاٶنج میں داخل ہوا۔ جہاں ناعمہ پریشان سی بیٹھی تھیں۔

" عارش کیا ہوا ہے ؟ تم نے کچھ کہا ہے زرناش کو ؟ اچھا خاصا تیار تھی جانے کے لیئے۔ ابھی روتی ہوئے کمرے میں گٸ ہے۔

" جی میں نے منع کردیا ہے۔"سنجیدہ سے لہجے میں کہتا اپنا کوٹ اتارنے لگا۔ مگر لفظوں میں صدیوں کی تھکن تھی۔

"تم نے۔مگر کیوں ؟" ناعمہ اچھنبے کا شکار ہوئیں۔

" مما پلیز ! ابھی کوئی question نہیں۔ میں آپ کو سب بتادونگا۔ مگر پلیز ابھی نہیں۔"

کیا ہوا عارش ! تم پریشان ہو ؟" اب وہ فکر مندی سے اس سے پوچھنے لگیں۔

" کچھ نہیں امّی ! بس میں نہیں چاہتا کہ وہ ایسی پارٹی میں جاۓ۔" وہ بولتا ہوا اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ جب کہ ناعمہ حیران پریشان تھیں کہ عارش اتنا انسیکیور کب سے ہو گیا۔

عارش اب اپنی بالکونی کے پاس کھڑا سیگریٹ پر سیگریٹ پھونک رہا تھا۔ اس کال کے بعد ایک دن میں ہی اس کے چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔جیسے کچھ کھونے کا ڈر تھا۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ ڈر گیا تھا۔ وہ جانتا تھا میر شاہ اب کچھ نہیں کرسکتا مگر دلاور شاہ کے دماغ میں اگر یہ بات آگٸ ہے۔ تو پھر وہ کسی بھی زریعے سے اس کے کام کو روکنے کے لیئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اور زرناش کا سوچ کر ہی اسے لگتا کوئی اس کی روح کو کھینچ رہا ہو۔ اسے آج احساس ہوا یہ دو بولوں کا رشتہ اتنا بھی کمزور نہیں ہوتا۔نکاح بہت طاقت ور رشتہ ہے۔ جس رشتے کو خدا نے بنایا ہو وہ کمزور کیسے ہوسکتا ہے ۔واقعی یہ دولوگوں کے بندھن کا نام ہے۔ ایک کو تکلیف ہو۔ دوسرا تڑپ جاۓ۔جہاں محبت کرنی نہیں پڑتی۔ خود بہ خود ہوجاتی ہے کوئی کشش ہوتی ہے۔جو ایک دوسرے کے جانب کھینچتی ہے۔ آج کی رات دونوں کے لیئے تکلیف دہ تھی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


زرناش جب سے کمرے میں آئی تھی۔مسلسل رورہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا رونا کس بات پر آرہا ہے۔کیا پارٹی میں نہیں جانے کی وجہ سے؟؟نہیں بلکل نہیں۔بلکہ عارش کی آنکھوں کی سختی اسے رلارہی تھی۔ اس کی بے اعتباری رلارہی تھی۔ اسے لگا شاید وہ اسے پارٹی میں جانے سے روک رہا ہے اور اس کا وہ غصّے سے دھاڑنا آخر ایسا کیا کیا تھا اسنے ؟ کس بات کا غصّہ تھا اسے ؟فائزہ کی مسلسل کال آرہی تھی۔ جسے وہ نظر انداز کر رہی تھی مگر وہ مستقل مزاجی سے اسے کال کر رہی تھی۔ اس نے جھنجلا کے اسے کال اٹھانی پڑی۔

" فائزہ مجھے سمجھ نہیں آتا یہ شخص چاہتا کیا ہے۔"رو رو کے آواز بیٹھ چکی تھی۔

" کیا ہوا ہے ؟ زرناش تم رورہی ہو ؟عارش بھائی نے کچھ کہا؟"فئزہ کو اس کے رونے سے پریشانی ہورہی تھی۔

" کبھی مجھے لگتا ہے ایک یہی شخص ہے جو میرا اپنا ہے۔جس کے ساتھ میں پوری دنیا کے سامنے اعتماد سے کھڑی ہوسکتی ہوں اور کبھی لگتا ہے۔ وہ میرا کبھی تھا ہی نہیں۔ کیا اس نکاح کے بولوں کا اثر صرف مجھ پر ہوا ہے؟ کیا اسے احساس نہیں ہوتا کچھ؟" نم آواز میں وہ اپنے اندر کی تمام بے چینی نکال رہی تھی۔فائزہ خاموشی سے سن رہی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنادل ہلکا کرلے۔ اچھا ہے پھر پر سکون ہوجاۓگی۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


صبح بہت بوجھل سی تھی۔ ناشتے کے ٹیبل پر عارش کی نظریں بے چین رہیں مگر وہ نظر نہیں آئی۔

: عارش تمہاری مما کیا کہہ رہیں ہیں۔ کل تم نے زرناش کو جانے سے منع کردیا۔" حسان سنجیدہ لہجے میں اس سے مخاطب تھے۔ جبکہ گہری نظریں بیٹے کا جائزہ لے رہی تھیں۔ سرخ آنکھیں رات بھر جاگنے کا بھید کھول رہی تھیں۔ ماتھے پر تفکر کا جال تھا اور پچھتاوے کااحساس۔ اتنی نازک سی تو ہے وہ۔ کیا ضرورت تھی اپنی پریشانی میں اس پر غصّہ دکھانے کی شاید وہ ضرورت سے زیادہ حساس اور جزباتی ہوگیا تھا۔

"کچھ پوچھ رہا ہوں میں عارش؟ اور میں سچ سننا چاہتا ہوں۔" اب ان کے لہجے میں سختی تھی عارش ہاتھ میں ٹوسٹ لیئے گہری سوچ میں تھا۔

" جی ڈیڈ۔ اسے لگا شاید سچ بتادینا چاہیئے۔ اس نے انہیں سچ سے آگاہ کردیا۔

"عارش یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہے۔ تم پہلے بھی اس طرح کے معاملات کو سنبھال چکے ہو۔بی بریو بیٹا۔ میں جانتا ہوں زرناش کو کھونے کےڈر سے تمھارا یہ حال ہوا ہے۔" اب کی بار وہ مسکراۓ تھے۔ جس پر عارش بھی خجل سا مسکرادیا تھا۔ حسان صاحب بھی پریشان ہوگۓ تھے۔ مگر بیٹے کے سامنے وہ ظاہر نہیں کرسکے۔

عارش اب پر سکون تھا مگر شرمندگی کا احساس بہت تنگ کر رہا تھا۔ لگتا ہے محترمہ کو منانا پڑے گا۔ چل بھٸ عارش حسان اب تمھیں یہ کام بھی کرنا پڑے گا۔ وہ خود سے مخاطب تھا اور ایک مسکراہٹ لبوں پر دوڑ گٸ۔وہ ناشتہ چھوڑ کر اس کی تلاش میں ڈائننگ ہال سے باہر نکل گیا۔یہ تو وہ جانتا تھا کہ وہ یہیں کہیں ہے۔ کیونکہ صبح جلدی اٹھنے کی عادی تھی۔ وہ لان کے پیچھے پھولوں کی باڑھ کی طرف آیا۔ جہاں وہ اداس سی مرجھاۓ ہوئے کلیوں کو توڑ توڑ کر پھینک رہی تھی۔ ایک خوبصورت منظر تھا صبح کا۔ عارش کو لگا اس سے حسین صبح اس نے کبھی نہیں دیکھی۔ وہ خاموشی کے ساتھ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ چکا تھا۔ جسے اس نے دیکھ کر بھی نظر انداز کیا۔ ہلکے لیمن کلر کی قمیض ٹراٶزر اور ہم رنگ کا دوپٹّہ پہنے خفا خفا سی سرخ آنکھوں کے ساتھ دل میں اتر رہی تھی۔

" کیا تم مجھ سے لڑوگی نہیں؟" گھنبیر سی آواز میں اس سے مخاطب ہوا۔ اور اسکے دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھاگیا۔

" مجھے کیا حق ہے۔جو میں لڑوں آپ سے۔ یہ حق تو صرف آپ کے پاس ہے۔جب مرضی ڈانٹ دیں۔"وہ خفا سی شکل بنا کر بولی۔

"اچھا کیا معاف نہیں کروگی اب ؟"وہ معصوم بنا اس سے سوال کر رہا تھا۔ زرناش نے چونک کر اس کی شکل دیکھی۔کیا وہ رات والا عارش ہے ؟ لیکن وہ تو مختلف سا عارش۔ آنکھوں میں محبت کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا۔ زرناش زیادہ دیر اس مقناطیسی آنکھوں کی تپش سہہ نہ سکی۔ فوراً نظروں کا زاویہ بدلا۔ اس کا گھبرا کے نظر چرانا عارش کو ہنسنے پر مجبور کرگیا۔ اسے آفس سے دیر ہورہی تھی۔ اسی لیے وہ اب جانے لگا۔ پھر مڑ کر اسے مخاطب کیا۔

" سنو ! "وہ دور کھڑی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

" آج رات منگنی میں وہی ڈریس پہننا۔" یہ کہہ کر وہ جا چکا تھا اور زرناش اپنی بے ترتیب دھڑکنوں کو سنمبھال رہی تھی۔ ان دونوں کے درمیان کوئی عہدو پیمان نہیں۔اور نہ ہی کسی قسم کا اظہار کسی نے کیا تھا۔ بلکہ بغیر کچھ کہے دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھ رہی تھی۔جس سے وہ دونوں ہی واقف ہو چکے تھے۔مگر اظہار میں دونوں ہی کنجوس تھے۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"تم نے یہ حرکت کیوں کی میر ؟تم نے کس کی اجازت سے اس کو کال کی۔ یہ میرا مسئلہ تھا۔ میں حل کرلیتا۔ تم جانتے ہو تمہاری یہ بےوقوفی ہمارے کتنے خلاف جاسکتی ہے۔ ابھی ایسے ہی وہ نیا ڈی ایس پی پیچھے پڑا ہے۔ عارش کے ساتھ مل کر اور اب ایک تم نیا تماشہ کھڑا کروانا چاہتے ہو۔"دلاور شاہ غصّے سے پاگل ہورہے تھے۔ اور پورے کمرے کے چکر لگا رہے تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کریں۔ ان کے لاڈلے بیٹے نے جو حرکت کی اس کا خمیازہ ان کو ہی بھگتنا پڑے گا۔

دراصل میر شاہ نے خود عارش کو کال کی تھی۔ جس سے دلاور شاہ بے خبر تھے۔ابھی مٹھل کے زریعے انہیں اس بےوقوفی کا علم ہوا۔ میر شاہ نیچے سر جھکاۓ کھڑا تھا مگر چہرے پر شرمندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔

" تو میں کیا کرتا؟ نہیں دیکھا جارہا تھا مجھ سے۔ وہ حقیقت سے تو واقف ہو ہی چکا تھا۔ پھر کیا کرتے آپ ؟ آپ کے ہی گھر میں وہ آپ کو سنا کر چلا گیا۔ تب تو کچھ نہیں کرسکے۔" وہ بد تمیزی سے کہتا سامنے پڑی کرسی کو ٹھوکر مار کر چلا گیا۔پیچھے وہ دکھ سے بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔ جو بویا تھا انہوں نے۔ وہ اب کاٹنا تھا۔حرام کی کمائی کھانے والوں کی اولاد شاید اسی طرح ماں باپ کو رسوا کرتی ہے۔ مگر ان کی آنکھوں میں اب بھی دولت اور شہرت کی پٹّی تھی۔جو آسانی سے نہیں کھلتی۔ تھوڑی دیر کا غم منا کر وہ اب کسی کو کال ملا رہے تھے۔

" غور سے سنو۔مجھے عارش حسان چاہیۓ۔ مردہ حالت میں ۔آج رات تک کا ٹائم ہے تمھارے پاس۔کل صبح کے اخبار میں میں اس کے مرنے کی خبر دیکھوں اور ایک ثبوت نہیں چھوڑنا تاکہ دس سال تک عدالت میں کیس چلتا رہے۔" سفاکی سے کہتے وہ کال بند کر چکے تھے۔




قسمت کی لکیروں میں

از قلم فلزہ ارشد

قسط نمبر سات 7


عارش اپنے دوست ڈی ایس پی عثمان کے ساتھ بیٹھا تھا۔

" یار !یہ تو بڑے کام کی چیز ہے۔بہت ویک پوائنٹ ہے۔ یہ دلاور شاہ کے پیچھے تو میں کب سے لگا ہوا ہوں۔ مگر کوئی ثبوت نہیں ان کے خلاف۔" عثمان میر شاہ کی کال ریکارڈنگ سن رہا تھا۔

" کوئی فائدہ نہیں ہوتا ان لوگوں کے پیچھے پڑنے کا۔ کچھ دن بعد ضمانت ہوجاتی ہے یا عدالت باعزت بری کردیتی ہے۔یہاں صرف پیسہ بولتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے یہ کا م کون کر رہا مگر مجال ہے جو ایک لفظ نکال لے۔ چھوٹے عہدے سے لے کر بڑے عہدے تک صرف پیسہ بولتا ہے ان کے آگے۔" عارش مخصوص انداز میں چیئر پر بیٹھا غم وغصّے سے بول رہا تھا۔

" یہ تو دستور ہے میرے دوست۔ چلو آج تمھیں اچھا سا لنچ کرواٶں۔" عثمان اٹھتا ہوا کہنے لگا پھر عارش بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


آج عارش نے عثمان کی مدد سے اپنی ٹیم کے ساتھ کسی اندورنی گاٶں میں چھاپا مارا تھا۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں منشیات کی مختلیف چیزیں برآمد ہوئیں لیکن کوئی بھی آدمی وہاں نہیں تھا۔ جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہاں تک خبر پہلے مل چکی تھی۔ بہت سی تفتیش ہوئی مگر عارش جانتا تھا۔کچھ دن بعد دوبارہ اسی جگہ پر یہی کام ہوگا۔ برائی کو ابھی بہت ڈھیل ملی ہوئی ہے۔ ایک ہی دفعہ خدا اپنی رسّی کھینچتا ہے۔ اس کے بعد انسان کی سب تدبیر دھری رہ جاتی لیکن حقیقتاً وہ بہت مایوس ہوگیا تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"بیگم میں سوچ رہا ہوں اب صاحبزادے کی رخصتی کردوں۔"

" ہاں بلکل ٹھیک سوچا ہے آپ نے اور میں تو پریشان رہتی ہوں اس کے کام سے اور اس کو بھی کیا ضرورت ہے ہر کام میں بیچ میں آنے کی۔"

"السلام علیکم۔"

" لیجۓ آپ کے صاحب زادے بھی آگۓ۔" شام میں لان میں بیٹھے وہ لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب عارش بھی آگیا جب کہ زرناش اپنے کمرے میں تھی۔ اس کی نظریں زرناش کو تلاش کر رہی تھیں۔

" کہاں ہو ؟" زرناش جو اپنی کتابیں سمیٹ رہی تھی۔ موبائل کی میسج ٹون پر میسج دیکھ کر ایک مسکراہٹ دوڑ گٸ بالکنی سے نیچے دیکھا تو موصوف لان میں مما اور ڈیڈ کے ساتھ چاۓ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

" آپ کے دل میں۔"دھڑکتے دل کے ساتھ مسکراہٹ دبا کر جواب لکھا۔ ایک ہرٹ والے ایموجی کے ساتھ جواب آیا۔

" یہاں تو بہت ساری رہتی ہیں۔"

"ٹھیک ہے۔مجھے نکال دیں۔ ایسی جگہ رہنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں جہاں بہت سی کی گنجائش ہو۔" غصّے والے ایموجی کے ساتھ جواب دیا۔ عارش کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑگٸ۔

" تم تو اس دل کی ملکہ ہو۔یہ تمہاری جگہ ہے اور تمہاری ہی رہے گی۔"دھڑکتے دل کے ساتھ عارش کا میسج بار بار پڑھا مگر جواب نہیں دیا۔

"آ بھی جاٶ یار !پھر میں چلا جاٶنگا۔پتا نہیں پھر کبھی دیکھ بھی سکوں یا نہیں۔"

"اللہ نہ کرے۔" وہ دہل کر لکھتی فوراً نیچے لان میں آئی۔ ہلکے گلابی کلر کے پرنٹ کا سوٹ پہنے اور شیفون کے دوپٹّہ پہنے گلابی شام کا ہی حصّہ لگ رہی تھی۔ عارش کو اس کو دیکھ کر مسکراہٹ دوڑ گٸ۔

"بہت فکر ہے میری۔" میسج لکھا جبکہ زرناش نے کوئی جواب نہیں دیا۔

" آٶ بیٹا !بیٹھو۔ شکر ہے تم آگٸ ورنہ عارش تو انتظار میں بوڑھا ہوجاتا۔"حسان صاحب نے شرارت سے کہا۔

" عارش بیٹا !تمھاری مما تمھارے کام سے بہت پریشان ہیں۔ تم ہی اب انھیں اپنے لفظوں میں سمجھاٶ۔"

"کیا ہوگیا ہے مما !کیوں پریشان ہوتی ہیں۔" پیار سے وہ ناعمہ کے گرد باہیں ڈال کے کھڑا ہوگیا۔اتنے اونچے بیٹے کے پیار کے انداز پر وہ مسکرادیں۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

" بیٹا !میں چاہتی ہوں اب تم اپنی فیملی کے ساتھ خوش رہو اور ان سارے جھنجٹ میں رہنا آسان نہیں ہے۔یہاں جنگل کا قانون ہے جس کے پاس پاور ہے۔ وہ سب کچھ ہے۔"

" مما !میں صرف ایک بات جانتا ہوں۔ برائی کبھی ہمیشہ نہیں رہتی۔ ان کا زوال لازمی ہے اور کسی کو تو اٹھنا پڑے گا نا۔ اگر ہر کوئی یہ کہہ کر چھوڑدے کہ ہماری فیملی تو ٹھیک ہے نا۔ہم اپنی فیملی کے ساتھ خوش ہیں۔ کافی ہے۔ یہ ملک بھی ہماری فیملی ہے۔ اس کو جو لوگ ختم کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے خلاف آواز اٹھانی چاہیۓ۔ جب یہ ملک ہی خوشحال نہیں ہوگا۔ تو ہم کیسے خوش رہ سکتے ہیں۔ ہر فوجی اپنی فیملی کو دیکھے یا اپنی جان دیکھے۔ چھوڑ دے ملک کو کیا؟؟ آپ یا میں یا کو ئی بھی سکون سے سو سکے گا؟ ان کی بھی تو فیملی ہے۔ ان کے بھی ماں باپ ہیں۔" اب کی بار اس کی آنکھیں نم تھیں۔ ناعمہ بھی شرمندہ سی بیٹھی تھیں۔ حسان صاحب کی گردن فخر سے اونچی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے تمام فیصلوں میں ساتھ تھے۔ انہیں یقین تھا۔ ان کا بیٹا کبھی غلط نہیں کرسکتا اور زرناش اس کا دل الگ بغاوت کر رہا تھا۔ جس شخص سے اسے محبت تھی اور جو اسکی قسمت میں تھا۔ وہ اتنے اچھے دل کا مالک بھی ہو گا۔ اس بات کا اندازہ اسے آج ہورہا تھا۔ اتنا اچھی صورت کے ساتھ ساتھ نیک سیرت کا حامل اس کا شوہر تھا۔مجازی خدا۔ اسے خود پر رشک آیا موبائل اٹھا کر فوراً میسج کیا۔

"آئم پراٶڈ آف یو۔" عارش کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گٸ۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ نظریں جھکاۓ مسکرا رہی تھی۔ دل جو بوجھل ہو گیا تھا۔اب پھر سے کھل اٹھا تھا۔عارش کو اب نیوز آفس پہنچنا تھا۔ کیونکہ اس کے شو کا ٹائم شروع ہونے والا تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


میر شاہ کلب میں اپنے جیسے ہی آوارہ اور اوباش دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔جہاں اسی کی طرح کے ایلیٹ کلاس کے چشم و چراغ بے شرمی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوۓ ہر ناجائز کام بخوشی کر رہے تھے۔ بے شک گناہ میں لزت ہے۔ یہ ان کہ ہی اولاد تھیں۔جنہوں نے حرام دولت کمانے کی چکر میں اولاد کو صرف پیسوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا تھا اور وہ تربیت کی کمی ان کے ہر انداز سے جھلک رہی تھی۔ ہاتوں میں مشروب تھامے ارد گرد لڑکیوں پر بے بکانہ نظریں جماۓ کھڑا تھا۔

"میر شاہ !تو تو بہت بڑا نکلا۔ اس اینکر کو دھمکی بھی دے ڈالی۔ مان گۓ تمہیں۔" اسی کی طرح کے ایک لڑکے نے ہنستے ہو ۓ اس کو اور بڑھوادیا۔

"ہاں ڈر گیا تھا وہ دوٹکے کا اینکر۔ بھیگی بلی بن کہ معافی مانگ رہا تھا۔" وہ جھوٹ بولتا ہوا دوستوں میں اپنی دھاک بیٹھا رہا تھا۔ایسی دلاور شاہ کی شہرت اور شخصیت کی وجہ سے سب اس سے دبتے بھی تھے۔ جس کا وہ بھر پور فائدہ بھی اٹھا تا تھا۔

"چلو نہ میر۔ کیوں بور کر رہے ہو۔" جینا جو ان کی باتوں سے بوریت کا شکار ہو رہی تھی۔ میر شاہ کو لے کر ڈانس فلور کی طرف جانے لگی۔اب سب وہاں کے تمام افراد ہوش بھلا ۓ گنا ہ میں مگن تھے۔ مشروب وافر مقدار میں پیا جارہا تھا۔ میر شاہ بھی اب اپنا ہوش کھو چکا تھا۔رات بہت ہوگٸ تو وہ ڈگمگاتے قدم کے ساتھ وہاں سے نکل گیا اور اسی حالت میں گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


آج عانیہ کی منگنی تھی۔

" بیٹا جلدی تیار ہوجاٶ عارش بھی آنے والا ہوگا۔"

" جی۔" زرناش اپنے کمرے میں آگٸ۔اس نے اسی دن والی فراک نکالی جو فیرول میں پہننا تھا کیونکہ عارش صبح بول کر گیا تھا۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ بہت دل لگا کر تیار ہوئی۔ پہلی بار چہرے پر میک اپ کے تمام لوازمات استعمال کیۓ مگر بہت سلیقے سے بالوں کو ٹویسٹ بنا کر کھلا چھوڑا تھا۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو خود حیران ہوگٸ۔ شاید عارش کی محبت نے اسے حسین بنادیا تھا ۔اچانک گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ اس کے دل کی رفتار اچانک تیز ہوگٸ۔ اب اسے سب کے سامنے جانے میں عجیب سا لگ رہا تھا۔ پہلی دفعہ اتنا تیار ہوئی تھی۔اتنے میں ناعمہ آگئیں۔

" زرناش !تیار ہوگٸ بیٹا؟ سب انتظار کر رہے ہیں۔ ماشاءاللہ جیری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے۔" وہ بلش ہوگٸ۔ ناعمہ کے ساتھ ہی لاٶنج میں آئی۔ جہاں عارش اور حسان تیار ان ہی لوگوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔عارش کی نظر پڑی تو نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا۔ سلیقے سے کھلے بال شاید وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ بالوں کے لٹوں کو ہاتھ سے ہٹاتی وہ اس کی نظروں سے خائف ہورہی تھی۔

" تمھاری ہی ہے بعد میں دیکھ لینا۔"حسان نے شرارت سے عارش کے کان میں کہا۔ وہ خجل سا مسکرادیا۔ کم تو وہ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ بلیک شلوار قمیض میں غضب ڈھا رہا تھا۔ چہرے پر قاتلا نہ مسکراہٹ سجاۓ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"چلیں ؟" آکر اسے کہا۔

ناعمہ اور حسان آگے نکل چکے تھے۔ حسان صاحب کی کار میں۔ پیچھے عارش کے ساتھ زرناش۔ عارش نے پہلے اس کے لیۓ دروازہ کھولا۔وہ کنفیوز سی بیٹھ گٸ۔اس کے پرفیوم کی خوشبو اسے پاگل کر رہی تھی۔ اس دن کے بعد آج اس کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہی تھی۔ مگر آج تو دل کے انداز ہی نرالے تھے دونوں کے ہلکی ہلکی میوزک اور بولتی خاموشی اور دل دھڑکا رہی تھی۔

" تھینکس۔" اچانک اس کی گھنبیر آواز نے خاموشی توڑی۔

" کس بات کے لیۓ؟" وہ اس کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔ اس کی براٶن آنکھوں میں محبت کی تپش اسے پگھلارہی تھی۔

"میری بات ماننے کے لیۓ۔"اب وہ ماتھے پر آۓ بال پیچھے کر رہا تھا۔زرناش کا دل چاہا وہ منع کردے انہیں پیچھے کرنے سے۔ اسے بہت اچھے لگتے تھے اس کے ماتھے پر آۓ ہوۓ بال۔

"کچھ کہنا ہے؟" اس کی آواز سے وہ خجل سی ہوگٸ۔اپنی بے اختیاری پر غصّہ بھی آیا۔ کیا ضرورت تھی دیدے پھاڑ کے دیکھنے کی اور ہمیشہ کی طرح دل میں بولتے ہوۓ آواز بلند ہوگٸ۔عارش کا قہقہہ فضا میں گونجا۔

" اوہ مائی گاڈ۔ دیدے۔ کہاں سے سیکھی ہےایسی باتیں؟" اب وہ مسلسل ہنس رہا تھا۔" ویسے ایک بات بتاٶ؟ میں اچھا تو لگ رہا ہوں نا ؟"اب وہ اس کی طرف مڑا معصویت چہرے پر بھر کر اس سے پوچھ رہا تھا۔ جیسے واقعی وہ پوچھنا چاہ رہا ہو۔ اس کی طرف دیکھ کر وہ کچھ کہنے والی تھی کہ آنکھوں میں شرارت دیکھ کر خفا سی ہو کر منہ موڑ گٸ۔

" آپ مزاق کر رہے ہیں میرے ساتھ۔"منہ پھولاکر پوچھا ہلکی سی مسکراہٹ عارش کے چہرے پر در آئی۔

" اف یہ موصومیت۔میری یہ مجال کے میں آپ کے ساتھ مزاق کروں۔" آنکھیں اب بھی شرارت سے مسکرارہی تھیں جبکہ چہرے مسکراہٹ دبانے کی کوشش میں ہلکان ہورہا تھا۔وہ لوگ پہنچ چکے تھے۔ اب وہ اتر کر اس کے سائیڈ کا دروازہ کھول رہا تھا۔وہ دونوں اندر جا رہے تھے۔دودھیا روشنی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔ بہت سی نظریں ان دونوں کے گرد اٹھیں۔ کچھ رشک بھری تو کچھ حسد بھری۔ پھر عانیہ کے پاس جب ساتھ پہنچے تو عانیہ دونوں کو ساتھ دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھی۔ عانیہ آف وائٹ کلر کی شرٹ پہنے واقعی پری لگ رہی تھی۔ چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی زوہاب کی محبت نے اسے اپنا بنا لیا تھا۔

" بہت اچھی لگ رہی ہو۔عارش کی نظریں تو تم سے ہٹ نہیں رہیں۔ دیکھو موصوف کو۔ بات زوہاب سے کر رہا ہے اور دیکھ تمہیں رہا ہے۔" عنایہ نے زرناش کے کان میں سرگوشی کی۔ زرناش نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو واقعی اپنی آنکھوں میں تمام تر محبتیں سموۓ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔وہ ان نظروں کی تاب نہیں لاسکی اسی لیۓ اسٹیج سے اتر گٸ اور ناعمہ کے پاس جا کر بیٹھ گٸ۔

اب وہ لوگ واپسی کے لیۓ نکل رہے تھے۔

لگتا ہے اب رخصتی کی بات کرنی پڑے گی ڈیڈ سے۔ وہ مسکرارہا تھا۔ گاڑی میں اب بھی دھیمی سی میوزک لگی تھی۔ زرناش آج تقریب میں خود کو بہت خوش نصیب محسوس کر رہی تھی۔ اکثر لڑکیوں کی نظریں عارش کو دیکھ رہی تھیں۔ کچھ کو تو افسوس ہوا۔ جب اس کے زرناش سے نکاح کا علم ہوا۔ اتنی وجاہت اور ذہانت سے بھر پور شخص اس کا تھا اور آج وہ مکمل اس کا تھا۔ زرناش کو لگا اس سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں ہوسکتا۔ جو اس کی قسمت میں لکھا تھا۔ وہ اسی کا تھا۔ جو اس نے چاہا۔وہ اسے مل گیا تھا۔ عارش دھیمی سی مسکراہٹ سجاۓ آج بے باک نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اور وہ اپنے ہاتھ گود میں رکھے اس کی نظروں سے خائف ہورہی تھی۔

" سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں۔" منمنا کر اسے کہنا ہی پڑا۔

"ہا ہا ہا " عارش کا قہقہ فضا میں گونجا۔" تو تم مجھ سے ڈر رہی ہو۔" مسکراہٹ دبا کر بھنویں اچکا کہ سوال کیا۔

" نن۔۔نہیں تو۔ میں کیوں ڈرونگی۔" ایک ہاتھ سے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی ہکلاتے ہوۓ جواب دیا۔ ایک بار پھر گاڑی میں عارش کا قہقہ گونج رہا تھا۔ اچانک ہی اس کے لب بھینچے اور چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔ گاڑی کی رفتار تیز کر لی۔ اتنی تیز کہ زرناش ڈر گٸ۔

" کیا ہو گیا آپ کو؟ کیا کر رہے ہیں ؟"وہ پریشان سی کبھی اس کو دیکھتی کبھی اس کی نظروں کے تعاقب میں عارش بغیر کچھ کہے کبھی آگے دیکھتا کبھی پیچھے اور ماتھے پر بل واضح تھے۔ لب بھینچے وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔ پھر ڈش بورڈ کھول کر اپنی گن لوڈ کی۔

" یہ کیا ہے؟" زرناش کی آنکھیں پھٹنے والی ہوگئیں۔

" سنو !اپنا سر نیچے کرو۔"

"کیا ہے یہ سب؟" وہ رو دینے والی ہوگٸ۔ ایک بلیک کلر کی کار ان کی گاڑی کے پاس ہی آگٸ۔

" میں نے کہا نیچے کرو اپنا سر۔" اب کی بار وہ دھاڑا تھا۔ وہ نیچے ہورہی تھی کہ اچانک فضا گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونج اٹھی۔ تبھی عارش نے بھی اپنی گن اٹھالی اور دفاع میں فائر کیا۔تب تک زرناش کی چیخ نے اس کے دل کی دنیا کو تہہ و بالا کردیا تھا۔

"زرناش۔۔" عارش کی چینخ سے زمین لرز گٸ تھی۔



قسمت کی لکیروں میں

از قلم فلزہ ارشد

قسط نمبر ٨  Second last episode


"زرناش آنکھیں کھولو۔" وہ چیخ رہا تھا۔ اچانک ایک اور گولی آئی اور اس کے بازو کو چیرتی نکل گٸ۔ وہ اپنی تکلیف محسوس نہیں کرسکا۔ وہ صرف زرناش کے بے جان ہوتے وجود کو دیکھ رہا تھا۔باہر نکل کے فائر گیا مگر وہ گاڑی زن سے آگے بڑھ چکی تھی۔ عارش ہوش سے بیگانہ زرناش کو تھپتپا رہا تھا۔اس کے جسم سے بہتا خون عارش کو مسلسل اذیت دے رہا تھا۔ اسے لگا اس کے جسم سے کسی نے اس کے روح کو تکلیف پہنچائی ہو۔ایک ہاتھ سےریش ڈرائیو کرتا اور دوسرے ہاتھ سے زرناش کے زخمی وجود کو اپنے ہاتھ سے سنمبھالے ہوۓ تھا۔اس کی آنکھیں تکلیف سے بند ہورہی تھیں۔ اسی ہاتھ سے کال ملائی۔ آنکھ سرخ ہورہی تھی۔ اپنی نہیں زرناش کی تکلیف سے اسے اپنے سامنے تڑپتے دیکھنا ایک تکلیف دہ عمل تھا۔

" ہاں عثمان !اٹیک ہوا ہے ہم پر۔ ہاں میں ٹھیک ہوں مگر۔۔" ایک نظر زرناش پر ڈالی۔ بولنے میں دقت ہورہی تھی۔" زرناش۔۔زرناش ٹھیک نہیں ہے۔ تم ڈیڈ کو بتا دینا۔ مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ ہاں میں ہاسپیٹل جا رہا ہوں۔" کال بند کر کے اب وہ تیزی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ اپنا نہیں بتایا اس نے کیونکہ اپنی تکلیف کا احساس کب تھا اسے۔اس کی تو جان زرناش میں اٹکی تھی۔ وہ جیسے ہی ہاسپیٹل پہنچا زرناش کو باہوں بھر لیا۔جب کے خود کا ہاتھ خون سے لپٹا ہوا تھا۔

عثمان ناعمہ اور حسان بھی پہنچ چکے تھے۔

"عارش! پاگل ہوگۓ ہو۔ اپنی حالت دیکھو۔" وہ بغیر کسی کو کچھ کہے ہاسپیٹل سے باہر جارہا تھا۔ اس کا بہت خون بہ چکا تھا۔ وہ بھی روم میں ایڈمیٹ تھا۔ مگر سب کچھ نکال کے وہ ہاسپیٹل سے باہر تھا۔ عثمان اس کے پیچھے تھا مگر وہ کب کسی کی سن رہا تھا۔ عجیب سا ہی روّیہ تھا بلکل چپ۔ناعمہ اور حسان نے بہت کچھ پوچھا۔کہا۔ مگر وہ سن کب رہا تھا۔ وہ تو بس انتہائی نگہداشت میں موت اور زندگی سے جنگ لڑتی زرناش کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کی آتی جاتی سانسیں سن رہا تھا۔ کچھ یاد نہیں رہا تھا۔ یاد تھا تو بس اتنا کہ زرناش موت کے قریب تھی۔ وہ اب گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ عثمان نے بھی اس کے پیچھے گاڑی نکالی مگر وہ آج سب کو مات دیتا ہوا آگے نکل گیا اور اسی کلب کے پاس پہنچا جہاں میر شاہ جاتا تھا۔ عارش کو علم تھا کہ وہ یہیں ہو گا۔اس نے گاڑی روکی ہی تھی کہ میر شاہ ڈگمگاتا ہوا وہاں سے نکل رہا تھا۔ عارش نے اپنی گن اٹھائی اور جب چیک کیا تو وہ خالی تھی۔" شٹ۔۔" لب بھینچے گاڑی سٹارٹ کی۔ میر شاہ کی گاڑی بھی سٹارٹ ہو چکی تھی مگر وہ اس وقت ہوش میں نہیں تھا۔ اسے عارش نظر نہیں آیا۔عثمان نے اسے گاڑی سٹارٹ کرتا دیکھ کر سکون کا سانس لیا مگر آگے دیکھ کر اس کی جان نکل گٸ عارش نے میر شاہ کی گاڑی کو بری طرح ہٹ کیا تھا۔میر شاہ جو پہلے ہی ہوش میں نہیں تھا ایک خطرناک ٹکر سے اس کے ہاتھ سے سٹرینگ چھوٹا اور گاڑی اڑتی ہوئی بہت دور جا کے گری۔

" شٹ۔۔"عثمان باہر نکلا۔ عارش کو باہر نکالا۔ اپنے ساتھی کو اس کی گاڑی پکڑائی اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنی گاڑی میں بیٹھا۔ وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا۔ اسے صرف زرناش کا خون نظر آرہا تھا۔ ہر جگہ۔۔

" آر یو میڈ ؟؟ تم جانتے ہو۔تم نے کیا کیا ہے؟؟" عثمان چیخ رہا تھا۔ مگر عارش کون سا سن رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر پڑی۔تو وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔

اوہ شاید اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی تھی۔ بہت خون بہ چکا تھا مگر اس نے خود کو ہوش میں رکھا۔ صرف بدلہ لینےکے لیۓ۔

عثمان افسوس سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جانے دلاور شاہ کیا کرتے اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر۔ اس سے حقیقتاً اپنے دوست کی حالت رلا رہی تھی۔ اس کی دیوانگی نے اسے ہولا دیا تھا۔اگر زرناش کو واقعی کچھ ہوگیا تو۔۔۔عثمان اس سے زیادہ نہیں سوچ سکا۔ جلدی سے ہاسپیثل پہنچایا۔ جہاں ناعمہ کی حالت الگ خراب تھی۔ایک طرف بیٹی جیسی بہو زندگی موت کے درمیان تھی اور دوسری طرف اکلوتا بیٹا جانے کہاں چلا گیا تھا۔ عارش کو بےہوشی کی حالت میں دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گٸ۔ حسان صاحب نے انہیں سنمبھالا۔ وہ ہی تھے جنہوں نے خود پر قابو پایا تھا۔ عارش کو فوری طبی امداد دی گٸ۔ زیادہ خطرناک بات نہیں تھی۔صرف خون زیادہ بہنے کی وجہ سے بے ہوشی ہوئی تھی۔ اس کی ڈریسینگ کردی گٸ تھی۔ اب وہ ہوش میں تھا مگر اب بھی کہفیت پہلے جیسی تھی۔ زرناش کے پاس جانا ہے۔ اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ سپاٹ سا چہرہ بنا کے انتہائی نگہداشت کے پاس بیٹھا تھا۔ہاتھ میں پٹی بندھی تھی۔ زرناش کا آپریشن ہورہا تھا۔ سب دعا میں مصروف تھے۔ عارش سپاٹ سا بیٹھا ایک ٹک سامنے دیکھ رہا تھا۔۔کہ ڈاکٹر باہر نکلے۔

"مریض کا آپریشن کامیاب ہوگیا مگر کمر میں لگنے والی گولی پیرالائز بھی کرسکتی ہے۔ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اگلے 24 گھنٹے بہت اہم ہیں۔"

زرناش کو ہوش ابھی نہیں آیا تھا۔ حسان اور ناعمہ کو سمجھ نہیں آیا۔ اس خبر پہ خوش ہوں یا دکھی۔ جب کہ عارش یوں ہی سپاٹ سا بیٹھا تھا۔

" اللہ !میری بچی کو کچھ نہ ہو۔" حسان صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

اللہ اچانک عارش چونکا۔ہاں اللہ۔ دور کہیں فجر کی اذان ہورہی تھی۔ وہ اچانک اٹھا۔ عثمان پھر اسکے پیچھے مگر اسے مسجد میں جاتا دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ وہ اب تک وہیں تھا۔ اس نے ناعمہ اور حسان کو عارش کی حرکت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی پریشان تھے۔ ناعمہ تو رو رو کے ہلکان ہوچکی تھیں۔ مسلسل جاۓ نماز بچھاۓ دعا میں مصروف تھیں۔

" کہاں گیا عارش ؟"حسان صاحب نے تھکن زدہ لہجے میں پوچھا۔ "مسجد گیا ہے۔" عثمان نے دھیمے سے لہجے میں جواب دیا۔ حسان صاحب گہری سانس لی اور وہیں بیٹھ گۓ۔ ایک طرف زرناش تو دوسری طرف عارش۔ اس کا روّیہ انہیں بہت خوف ناک لگ رہا تھا۔بلکل سرد اور خاموش۔

" یا اللہ !رحم کرنا۔"وہ دعا گو تھے۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


"ایک کام کہا تھا۔ وہ بھی ڈھنگ سے نہیں ہو سکا تم لوگوں سے۔"دلاور شاہ دھاڑ رہے تھے۔

" اس کی بیوی کو مار کے کونسا تیر مار لیا تم لوگوں نے۔ وہ اور بھوکا شیر بن جاۓ گا۔ اس کے سینے میں گولی اتارنے کا کہا تھا۔ دفعہ ہوجاٶ۔ چلے جاٶ یہاں سے۔تم سب کو گولیوں سے اڑادونگا۔ سجھے تم لوگ۔"اب وہ پریشان سے کمرے کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود جا کر عارش کو گولیوں سے اڑادیں۔ اچانک ان کا فون بجا۔

"مٹّھل !کال اٹھاءو اور جو بھی ہو کہہ دینا۔میں آرام کر رہا ہوں۔" مٹھل نے کال اٹھالی۔اب مکمل بات کرنے کے بعد وہ دلاور شاہ کو دیکھ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اتنی روح فرسا خبر دلاور شاہ کو کیسے سنائے۔

"کیا ہوا ؟مٹّھل ؟ کس کی کال تھی؟ تم ہاسپیٹل کا کیوں پوچھ رہے تھے؟" ایک انجانےخوف سے ان کی آواز کانپ رہی تھی۔

"سائیں! میر شاہ کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے۔ڈرنک کر نےکی وجہ سے۔" ہاسپیٹل سے کال تھی۔ دلاور شاہ کے پیروں سے زمین نکل گٸ۔

" کہاں ہے میر؟ لے کے چلو مجھے۔" وہ اپنے ہوش میں نہیں تھے۔ "سائیں سنمبھالیں خود۔" کو مٹّھل نےان کو سنبمھالا۔

اب وہ ہاسپیٹل میں تھے۔ جہاں میر شاہ کو بہت بری حالت میں لایا گیا تھا۔ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ ڈرنک کرنے کی وجہ سے اس کی گاڑی ٹکراگٸ کیونکہ گاڑی کی حالت اتنی بری تھی کوئی بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔ وہ انتہائی نگہداشت میں اکلوتے بیٹے کو مرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

انسان اپنے معاملے میں اتنا خود غرض کیوں ہوجاتا ہے کچھ دیر پہلے ہی وہ دوسرے کے بیٹے کو اسی جگہ دیکھنا چاہتے تھے۔ جہاں آج انکا بیٹا ہے مگر اب تک انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوا تھا ۔ہم انسان دوسروں پر ظلم کرتے وقت خدا کو کیوں بھول جاتے ہیں۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب انسان کو اللہ دولت شہرت اور طاقت دیتا ہے۔ تو انسان خود کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ لیکن آج وہ بے بسی کی تصویر بنے اپنے اکلوتے بیٹے کو مشینوں سے جکڑا ہوا دیکھ رہے تھے۔ اور ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہا تھا۔ جو دوسروں کو خون کے آنسو رلاتا تھا۔ وہ آج خود رورہا تھا۔

اللہ میرے بیٹے کو بچا لے۔

کتنی عجیب بات ہے نا۔ جس نے پوری زندگی خدا کو نہیں مانا۔وہ آج اسی خدا سے فریاد کر رہا تھا۔کل تک وہ یہی سمجھتے تھے۔ یہ طاقت دولت ان کی محنت کی بدولت ہے اور انہوں نے خود حاصل کی اور آج وہ دولت اور طاقت کے ہوتے ہوۓ بھی اپنے بیٹے کے لیۓ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ صرف دعا کے۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


دعا تو عارش بھی مانگ رہا تھا۔گڑگڑا رہا تھا۔ رورہا تھا۔ فریاد کر رہا تھا۔وہ مسجد میں بیٹھا نماز پڑھ کر اب دعا کرنے بیٹھا تو اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔

یا اللہ !میری زندگی لے لیں مگر اسے بچالیں۔اللہ پاک وہ تو معصوم تھی۔اس کا تو قصور بھی نہیں تھا۔ میری وجہ سے وہ تکیف میں ہے۔ یہی چھبن اسے رلارہی تھی کہ عارش کی وجہ سے زرناش کو تکلیف سہنی پڑ رہی تھی۔ اللہ اسے کچھ نہ ہو۔ رو رو کر جب وہ تھک گیا۔ تو اٹھ گیا مگر اب دل میں ایک سکون سا اتر گیا تھا۔ پہلے والا سرد پن ختم ہوچکا تھا۔ رو کے دل ہلکا ہوچکا تھا۔ اب وہ سکون محسوس کر رہا تھا اور اللّہ سے مانگ کے دل مطمعین ہوچکا تھا۔اب وہ ہاسپیٹل جارہا تھا۔ صبح کی روشنی نکلنی شروع ہو چکی تھی۔ اندھیری اور خوف ناک رات ڈھل چکی تھی۔

"ڈیڈ اب آپ اور مما جا کے آرام کر لیں۔ میں ہوں یہاں پر۔" اب وہ حسان صاحب کے پاس تھا۔ حسان صاحب نے بیٹے کو نارمل حالت میں دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ وہ جانا نہیں چاہتے تھے مگر ناعمہ کی حالت دیکھ کر انہوں نے جانے کا فیصلہ کیا وہ بلکل نڈھال ہوچکی تھیں۔

وہ دونوں گھر جا چکے تھے۔ عارش تھکا ہوا بینچ پر بیٹھ گیا۔

"عارش حوصلہ کرو۔اب میں جارہا ہوں۔ دیکھتا ہوں حالات کیسے ہیں۔ پتا نہیں میر شاہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ دلاور شاہ کو اگر کچھ بھی پتا چل گیا تو ہنگامہ کھڑا کردےگا۔" عثمان کی بات سے رات کے تمام واقعات اسے یاد آگۓ کہ کیسے اس نے میر شاہ کی گاڑی کو ہٹ کیا۔ایک کرب اس کےچہرے پر لہراگیا میر اور دلاور کا نام یاد کر کے۔ عثمان جا چکا تھا۔اب وہ اکیلا تھا۔ ڈاکٹر نے آکر کہا۔

" آپ دیکھ سکتے ہیں ان کو مگر وہ ہوش میں نہیں ہیں۔" عارش اندر آگیا۔ جہاں وہ مشینوں میں جکڑی سکون سے آنکھیں بند کیۓ تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کی جان کسی کے لیۓ کتنی اہم ہے اسے اس حالت میں دیکھ کر عارش کی آنکھیں پھر برسنے لگی تھیں۔

"تم ایسا کیوں کر ہی ہو میرے ساتھ؟، ابھی تو مجھے تم سے اظہار کے خوبصورت الفاظ بھی کہنے تھے۔ ابھی تو مجھے تم سے بہت سے وعدے کرنے تھے۔ ابھی ہمیں ایک ساتھ بہت دور تک چلنا تھا۔ اتنی جلدی ہار کیسے مان سکتی ہو تم ؟میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں۔ مجھے پتا ہے تم اٹھوگی۔" اسکا اس طرح کہنا۔ وہاں موجود نرس اور ڈاکٹر کو اشک بار کر رہا تھا۔ نرس حیران تھی اتنا خوب رو شخص کا اس عام سی لڑکی کے لیۓ روبا اسے رشک میں مبتلا کر رہا تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


دلاور شاہ جو صبح عارش کے مرنے کی خبر سننا چاہتے تھے۔آج ہر نیوز چینل چیخ چیخ کے ایک ہی خبر سنا رہا تھا۔

"مشہور سیاست دان دلاور شاہ کے بیٹے کا ڈرنک کی حالت میں ایکسیڈینٹ۔دلاور شاہ اکلوتے بیٹے کے غم میں نڈھال۔ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس بار میر شاہ بھی الیکشن میں حصّہ لے رہے تھے۔ کیا ان کی اس حالت کے بعد وہ دوبارہ سیاست میں ان ہوسکیں گے؟"

کسی کو بھی ان کے غم کی پرواہ نہیں تھی۔ ہر کوئی صرف یہ جاننے کے تجسس میں تھا کہ میر شاہ کو کچھ بھی ہوا تو دلاور شاہ کی سیاست کس حد تک متاثر ہو گی؟ دلاور شاہ کے پاس میڈیا کا ایک جم غفیر تھا۔ سب کے ہاتھ ایک چٹ پٹی خبر آئی تھی کہ میر شاہ ڈرنک کرتا ہوا گاڑی چلا رہا تھا۔

دلاور شاہ کچھ گھنٹوں میں ہی نڈھال ہوچکے تھے۔ وہ کسی کے بھی سوال کے جواب دینے کی حالت میں نہیں تھے۔ میڈیا خود قیاس آرائی کرتا رہا۔۔ یہاں تک کےکچھ چینل میر شاہ کے کارنامے بھی دیکھا نے لگا تھا۔ دلاور شاہ زبان میں قفل ڈالے بیٹھے تھے۔ انہیں ابھی کچھ ہوش نہیں تھا۔میڈیا جو ان کے رعب سے ڈرتا تھا۔ آج ان کی خاموشی میں شیر بنا بیٹھا تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


زبیر بلال عانیہ اور زوہاب بھی ہاسپیٹل پہنچ چکے تھے اور عارش کا حوصلہ باندھ رہے تھے۔ عانیہ کی بھی زرناش کی یہ حالت دیکھ کر چیخ نکل گٸ تھی۔ کل تک یہ معصوم لڑکی کتنی خوش تھی۔زبیر بلال اور زوہاب عارش کے پاس تھے۔ ان کے پاس الفاظ نہیں تھے مگر عارش کا ان کو دیکھ کر حوصلہ بڑھا تھا۔ اس کے پاس بہت سے لوگ تھے۔ جو اس کے اپنے تھے اس کے ساتھ کھڑے تھے۔

ایک طرف دلاور شاہ ہاسپیٹل میں تن تنہا اکیلے بیٹے کی بے بسی دیکھ رہے تھے۔ کوئی بھی ان کو دلاسہ دینے نہیں آیا۔ میڈیا بھی چیخ چیخ کر ہلکان ہوچکا تھا۔ اب سب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ کسی کو پرواہ نہیں تھی۔ وہ سوچوں میں گھرے بیٹھے تھے کہ ڈاکٹر نے جان لیوا خبر سنائی۔

" معجزہ ہوگیا ہے دلاور شاہ۔ جو آپ کا بیٹا زندہ ہے مگر سوری ہم ان کی ٹانگوں کو نہیں بچا سکے۔ اب یہ اپنے پیروں پر کبھی کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔" ڈاکٹر جا چکا تھا مگر دلاور شاہ کا ذہن وہیں اٹک چکا تھا۔ کہ ان کا بیٹا ہمیشہ کے لیۓ معذور ہو چکا ہے۔

دوسروں کی اولادوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے کو آج اپنے ہی بیٹے کی تکلیف تڑپارہی تھی۔ دوسروں کے لیۓ پتھر جیسا شخص اپنے بیٹے کے لیۓ پگھلا ہوا موم بن گیا تھا۔

میر شاہ وہیں بیٹھ کر دھاڑے مار کے رونے لگے۔خود کو طاقت ور سمجھنے والا شخص بےبسی کی جیتی جاگتی تصویر بنا تھا۔ ارد گرد کے لوگ رحم کی نظر اس شخص پر ڈال کے آگے بڑھ رہے تھے۔ جو دنیا کا کمزور ترین شخص لگ رہا تھا۔



قسمت کی لکیروں میں

از قلم فلزہ ارشد

قسط نمبر ٩

آخری قسط


عارش مسلسل ہاسپیٹل میں موجود تھا۔ جب کہ ناعمہ اور حسان بھی آچکے تے۔

"کچھ کھالو عارش !کل سے کچھ نہیں کھایا تم نے۔" زبیر عارشکے لیئے سینڈویچ لے کر آیا تھا۔ ناعمہ اور حسان کو زبر دستی کھلا کر اب اس کو کھلانے پر بضد تھا مگر عارش کے حلق سے کچھ نہیں اتر رہا تھا۔وہ کیسے کھالیتا۔ اسے بولنا بے کار تھا۔ اتنی ہی دیر میں۔۔ "ڈاکٹر" نرس زرناش کے روم سے بھاگتی ہوئی ڈاکٹر کو بلانے گٸ یہ دیکھ کر سب کی جان اٹک گٸ۔ ڈاکٹر فوراً کمرے میں گۓ لیکن جب واپس آۓ تو ان کے جملے سے سب کے چہروں پر خوشی دوڑ گٸ "مبارک ہو۔ 24 hour سے پہلے ہی پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔ اب ان کی جان خطرے سے باہر ہے۔ ہاں مگر کمر میں گولی لگنے کی بنا پر ان کو چلنے میں ابھی تھوڑی مشکل ہوگی۔ مگر یہ ان پر ہے اور فیملی پر کہ کتنی جلدی ریکور کرتی ہیں۔" وہ لوگ اجازت لے کر کمرے میں ملنے گۓ مگر عارش نہیں گیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ سیدھا مسجد گیا شکرانے بھی تو ادا کرنے تھے۔ جس سے مانگا تھا۔ جس نے اس کی سن لی تھی۔ اب تشکر کے آنسو تھے جو نہیں رک رہے تھے۔

کمرے میں ہر فرد کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔ اتنی محبتیں دیکھ کر اس کی آنکھیں خوشی سے نم ہو گئیں لیکن نگاہیں کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔ سب جا چکے تھے رات ہونے کو آئی تھی۔ ناعمہ بیگم اس کے پاس ہی تھیں۔ ابھی بھی وہ سوپ لے کر آٸ تھیں۔ وہ عارش کا پوچھنا چاہتی تھی مگر ایک جھجک سامنے آرہی تھی۔ دل الگ اداس ہورہا تھا۔سب تو کہہ رہے تھے عارش کے دل کی حالت بہت خراب تھی۔ اسے یاد آرہا تھا۔ زبیر کتنا تنگ کر رہا تھا اسے۔" بھابھی آپ نے میرے دوست کو بلکل مجنوں بنادیا۔"سب ہنس رہے تھے کہ عارش کس طرح پاگل ہورہا تھا اس کے لیۓ۔ وہ فخر محسوس کر رہی تھی مگر اب لگ رہا تھا کہ شاید سب اسے بہلا رہے تھے۔ عارش کو تو اس کی فکر ہی نہیں تھی۔

" کیا سوچ رہی ہو بیٹا؟ بس کچھ دن میں ہی تم گھر چلوگی۔" ناعمہ بیگم پیار سے اس سے کہہ رہی تھیں اور اس کے آنسو تھے کہ نکلنے کے تیار تھے۔ عارش کی بے رخی اسے رلا رہی تھی۔

" اچھا میں نماز پڑھ کے آتی ہوں۔" وہ جا چکی تھیں۔زرناش کی آنکھیں بند ہونے لگی۔ وہ غنودگی میں چلی گٸ۔ کچھ ہی دیر میں اسے چاروں طرف خوش بو محسوس ہوئی۔ اس نے آنکھیں کھولی تو دیکھا بیڈ کے چاروں طرف تازہ پھولوں کے گل دستے اور وش کارڈ تھے۔ ہر پھول کے گل دستے میں کارڈ تھے۔ پہلے اس نے چاروں طرف نگاہیں کی کہ کون آیا تھا یہاں۔ اس نے کارڈ اٹھایا تو وہ کوئی لفافے کی شکل میں تھا مگر جب کھولنے لگی تو پرت در پرت وہ کھلتا گیا اور چاروں طرف چھوٹے چھوٹے لفافے بنے تھے۔ جیسے ہی وہ جس لفافے کو کھولتی اس میں سے اس کی ہر موقعے پر لی گٸ تصویر نکلتی۔ اوہ ! وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر خوشگوار حیرت سے ہر تصویر کو دیکھ رہی تھی۔ یہ تصویریں کب لی گٸ۔ اسے پتا نہیں چلا ایک میں وہ لان میں کتاب پڑھ رہی تھی اور ایک اس کا مسج پڑھ کر جب وہ مسکرائی تھی اور ایک وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ اداس سی اور کچھ عانیہ کی منگنی والے دن کی شرماتی ہوئی،دوپٹّہ سیٹ کرتی ہوئی، اپنے بالوں کو پیچھے کرتی ہوئی۔ اف ہر ایک لمحے کی تصویر تھی۔ اس کے دل کے دھڑکن اچانک تیز ہوئ تھی۔ لبوں پر کھلتی کوئی مسکراہٹ تھی اور کارڈ کے پیچھے لکھا تھا۔

"میری زندگی اب جلدی سے ٹھیک ہوجاٶ کیونکہ تمھارے بغیر تمھارا یہ پاگل شوہر اب نہیں رہ سکتا۔ سوری مائی ڈیئر وائف میں ملنے نہیں آسکا۔ اب رخصتی میں ہی ملاقات ہوگی میونکہ میں جانتا ہوں اگر ابھی تم کو دیکھا تو میں اپنےجذبات پر قابو نہیں رکھ سکونگا۔ اپنا خیال رکھنا۔" اف وہ تحریر پڑھ کر گلنار ہوگٸ اور کارڈ کو سینے سے لگا لیا۔ مسکراہٹ نے چہرے کا احاطہ کرلیا تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


مٹھل نے بہت مشکل سے دلاور شاہ کو سنبھالا۔وہ میر شاہ سے ملنے گۓ تو اس کی حالت بہت خراب تھی۔ سر بھی پٹّی سے مکمل جکڑا تھا۔ آنکھوں کے پاس بھی زخم تھے۔ خوبصورت چہرہ بگڑ کر ہیبت ناک منظر پیش کر رہا تھا۔ دلاور شاہ کے ایک بار پھر آنسو نکل گۓ۔ جب کہ میر شاہ پر دورے پڑ رہے تھے۔ وہ خود کی اس حالت کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ ہاتھوں سے ہر چیز اٹھا کر پھینکتا،چیختا کہ پورا اسٹاف جمع ہو جاتا۔اسے قابو کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ڈاکٹرز نے ہاسپیٹل سے چھٹّی دے دی تھی کیونکہ وہ ہاسپیٹل کے اسٹاف کو نقصان پہنچارہا تھا۔دلاور شاہ اکلوتے بیٹے کے اس غم میں نڈھال ہو چکے تھے۔ اب نہ سیاست میں حصّہ لیتے نہ کسی چیز میں۔ انہوں نے اپنے عہدے سے استفعیٰ لے لیا تھا۔ صرف بند کمرے میں پڑے رہتے اور میر شاہ ایک میل نرس کے رحم و کرم میں چیختا رہتا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


زرناش ہاسپیٹل سے عانیہ کے گھر آئی تھی۔ کیونکہ رخصتی کی تاریخ طے ہوچکی تھی۔ زخصت ہو کر وہ حسان کے گھر آتی۔ عارش سے اب تک ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن روز وش کارڈ لازمی ملتا۔ اس کو چلنے میں اب بھی مشکل ہوتی۔ وہیل چیئر میں ہوتی یا کسی کے سہارے زرا کھڑی ہوجاتی۔ زیادہ چلنا مشکل تھا اس کو۔ اس بات کا کسی نے احساس ہونے ہی نہیں دیا۔بھلے سے یہ وقتی تھا مگر وہ پریشان ہوتی بھی تو کوئی نہ کوئی اس کے پاس ہوتا کہ اسے سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ عانیہ تو اس کے پاس ہی تھی۔ بلال اور زبیر بھی دن کا زیادہ تر حصّہ اس کے ساتھ ہی گزارتے۔ کبھی تینوں کی لڑائی ہوتی۔کبھی تینوں ماضی کو لے کر بیٹھ جاتے۔ کبھی کسی کی شامت آتی۔کبھی کسی کی۔ وہ ہنس ہنس کر پاگل ہو جاتی اور عانیہ اس کی مسکراہٹ کو موبائل کے کیمرے میں قید کرلیتی اور عارش کو واٹس ایپ پر بھیج دیتی تھی اور عارش کا اس کی ہر تصویر کو اپنے ذہن میں نقش کرلیتا۔اس طرح رخصتی کا دن آ پہنچا۔ زرناش مہرون اور فان کلر کے لہنگے میں واقعی کوئی نازک سی پری لگ رہی تھی۔ تو دوسری طرف عارش بھی ہلکی سرمٸ کلر کی شیروانی میں غضب ڈھا رہا تھا۔ جب زرناش کو سٹیج پر لے کر آیا گیا تو عارش لمحےکے لیۓ سب کچھ بھول گیا۔ کتنے دن بعد دیکھ رہا تھا دشمن جاں کو اور اتنی حسین لگ رہی تھی کہ نظر ہٹا نا مشکل تھا۔ اس نے بڑھ کر زرناش کو تھاما۔ کوئی نہیں پہچان سکا کہ زرناش کو چلنے میں مشکل ہورہی ہے۔ وہ ساۓ کی طرح ساتھ ساتھ تھا اس کے۔آج لگ رہا تھا جیسے زرناش اور عارش بنے ہی ایک دوسرے کے لیۓ ہیں۔دونوں ایک ساتھ اچھے لگ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے تھے۔

" میری زندگی بننےکا بہت شکریہ۔" اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا وہ سیدھا ہوا۔ زرناش کو لگ رہا تھا اس کی زندگی مکمل ہوگٸ۔ شاید خدا نے بہت زیادہ نواز دیا تھا۔ وہ جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔


💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔


پانچ سال بعد


" مسز عارش !آپ کب تک فری ہونگی؟" وہ کلاس لے کر باہر نکل رہی تھی کہ عارش کے میسج سے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گٸ۔

"آپ کے لیۓ تو میں ہمیشہ فری ہوں مسٹر عارش۔" مسکراہٹ کے ساتھ جواب دے کر۔وہ اب کالج سے نکل رہی تھی۔ جانتی تھی وہ گیٹ پر ہوگا۔ زرناش ایک کالج میں لیکچرار تھی۔ ایسا صرف اس لیۓ کیا تھا تا کہ زرناش کے اندر اعتماد پیدا ہو۔عارش چاہتا تھا اس کے غیر موجودگی میں بھی وہ ہر حالات کا سامنہ کرسکے۔ وہ گھبرائی سی لڑکی آج عارش کے ساتھ پر اعتماد سی پوری دنیا میں سر اٹھا کے جی رہی تھی۔

" اَلسَلامُ عَلَيْكُم۔"سلام کرتی جیسے ہی اگلی سیٹ پر بیٹھی۔ ویسے ہی کسی نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیۓ۔

" مجتبیٰ بیٹے !آپ ہیں۔مما نے پہچان لیا۔" اب اس نے مسکراکر اپنے چار سالہ بیٹے کے ہاتھ چومے۔

" پاپا! مما نے پھر پہچان لیا۔" اب وہ خفا سا بیٹھ چکا تھا۔عارش اور زرناش اس کی حرکتوں پر مسکرارہے تھے۔

" میری پرینسز کہاں ہے؟"

" وہ اپنی دادی اور دادا کے ساتھ آپ کے لیۓ سرپرائز کیک بنارہی ہے۔"

" ہاہا وہ میرے لیۓ کیک بناۓ گی۔" زرناش ہنس رہی تھی۔

" پاپا !یہ سرپرائز تو نہیں ہوا۔ آپ نے بتادیا۔"

"بلکل میرا بچا! تمھارے پاپا کا سرپرائز ایسا ہی ہوتا ہے۔"

" دونوں ماں بیٹے مل گۓ۔ گھر چلو میری پرینسز میرا ساتھ دےگی۔" تینوں ہنس رہے تھے۔ گھر آچکا تھا۔جیسے ہی زرناش نے قدم رکھے چاروں طرف پھول کی بارش ہوگٸ۔

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔"عارش بھی ان کے ساتھ مل گیا زرناش کی آج برتھ ڈے تھی۔ عانیہ بھی زوہاب کے ساتھ موجود تھی۔ جب کے دو سالہ مسفرہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہا توں سے کیک کھلارہی تھی۔ ناعمہ اور حسان خوشی سے اپنی خوبصورت فیملی کو دیکھ رہے تھے۔ زرناش اور عارش ساتھ کھڑے تھے اور عارش کی سرگوشی آج بھی جاری تھی۔ گزرے وقتوں نے دونوں کی محبت کو اور بڑھادیا تھا ۔

سچ کہتے ہیں جو ہماری قسمت میں ہوتا ہے وہ ہمیں مل کے رہتا ہے۔ ہم کسی کو اپنی مرضی سے حاصل نہیں کرسکتے۔ ہر انسان کو اس کے نصیب کا ملتا ہے۔ دولت بھی، شہرت بھی۔ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ دیتا ہے تو واپس بھی لیتا ہے۔



تمام شد💔




Baca juga

Post a Comment