Muhabat Bane Rakh محبت بنی راکھ Full Novel/Short Stories in Urdu /English / Hindi 1 to 10 episode full

Muhabat Bane Rakh محبت بنی راکھ Full Novel/Short Stories in Urdu /English / Hindi 1 to 10 episode full

 Hi Everyone...👻?
😋😋

#مح_بنی_راکھ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

 قسط_نمبر _   1 Episode 1


 بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 

محبت بنی راکھ 


آج اس کے والد کو گزرے ایک ہفتہ ہو گیا تھا…. آج ان کا ختم شریف پڑھا جا رہا تھا.. مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا بس ایک انسان نہیں تھا وہاں اس کا باپ… جس کی شفقت سے وہ محروم ہو چکی تھی.. باپ کا سایہ ایک نعمت ہے اللہ کی طرف سے…. 


سب مہمان جا چکے تھے سوائے اس کی چچی کے جو ان کے گھر کے ساتھ ہی رہتی ہیں… 


چلو اب گھر کا سارا کام سمیٹو.. کب تک یونہی بیٹھی رہوگی.. مرنے والا چلا گیا اب وہ واپس نہیں آئے گا… 

چچی کے یہ الفاظ اس کے لیے قیامت سے کم نہ تھے.. 


آپ بھی کچھ سمجھے ان کو… چچی نے رائمہ کی امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا…. رائمہ کی امی چپ رہی.. 

چچی ہم کر لے گئے سب آپ فکر نہ کریں… رائمہ نے کہا 

 

رائمہ کی آواز میں وہ کرواہٹ تھی جو ان کی باتوں سے دل میں دبائے بیٹھی تھی… 


بھابی جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب ان کو سنبھالنے کا وقت ہے اگر آپ ہمت ہار گئی تو ان کا کیا ہو گا.. اب چچی کا لہجہ کچھ نرم تھا… میں تو آپ لوگوں کو سمجھا سکتی ہوں بڑی ہونے کہ ناتے… چچی نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا 

چلو بیٹا اٹھو یہاں کوئی بات سننے والا نہیں ہے… 


جا تے جاتے چچی اتنی باتیں کر گئ کے اگر کسی میں برداشت نہ ہو تو ایک اور اللہ کے پاس پہنچ چکا ہو… 


کچھ دن پہلے ہی سب ٹھیک چل رہا تھا شیراز صاحب اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزار رہے تھے وہ آخری شام تھی جب شیراز صاحب اپنے بچوں کے ساتھ شام کی چائے پی رہے تھے 20 سال کی بڑی بیٹی رائمہ 17 سال کی چھوٹی بیٹی حائمہ اور 14 سال کا بیٹا دانیال… بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک پرفیکٹ فیملی تھی… جب اسی رات شیراز صاحب کی طبعیت خراب ہوئی.. ہسپتال جاتے جاتے ان کی death ہو چکی تھی ہسپتال والوں نے بتایا کہ heat attack ہوا ہے… وہ وقت شیراز صاحب کے گھر والوں کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا.. 


 اس دن کے بعد شیراز صاحب کی فیملی کے لیے وہ مشکل وقت شروع ہوگیا تھا جس کا کبھی انہوں نے اپنی فیملی کے لیے سوچا بھی نہیں تھا… 


وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیراز صاحب کی فیملی نے خود کو سنبھال لیا اب ان کو اپنے پاب کے بغیر یہ مشکل وقت گزرنا تھا… 


آج رائمہ نے graduation مکمل کر لیا تھا….


امی آج اگر ابو زندہ ہوتے تو وہ کتنے خوش ہوتے…. 

رائمہ اپنی امی کے گلے لگ کر رو پڑی…. 


بس چپ میری بچی ایسا نہیں کرتے وہ دیکھ رہے ہوں گے ان کو دکھ ہو گا ک آج کے دن تم رو رہی ہو…. 


رائمہ کی امی نے رائمہ کے آنسو صاف کئیے…. اتنے میں گھر کی بیل بجی… 

 لو اگی آپ کی دیورانی.. اب ان کی باتیں سن لو… رائمہ کو اندازہ تھا کہ چچی ہو گی


بری بات ہے بیٹا ایسے نہیں بولتے جاؤ جا کر دروازہ کھولو…. 


رائمہ دروازے کی طرف گئ…. 


 اسلام علیکم چچی جان… 


 وعلیکم السلام… رائمہ کی چچی نے روکھے پن میں جواب دیا… 


آئے چچی جان ہم آپ کا ہی wait کر رہے تھے… 


 نام کی چچی بنائی ہوئی ہے اگے پچھے کوئی پتہ نہیں… 


چچی جان کل ہی تو میں آئی تھی آپ کے پاس پر آپ ساتھ والی حلیمہ انٹی کے پاس گئ تھی… 


رائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا… 


دیکھ لو ذاہدہ بھابی تمھاری بیٹی اب جواب دینا شروع ہو گئی ہے.. چچی نے طنزیہ انداز میں کہا… 

نہیں ایسی بات نہیں… تارائمہ کی امی نے بات کو ٹالتے ہوے کہا…. 


 میں تو کہتی ہوں جیتنا پڑھوانا تھا پڑھوا لیا اب اس کی شادی کر دو… چچی نے بیٹھتے ہوئے کہا.. 


اتنے دیر میں رائمہ چائے لے آئی… 


چچی جان میں نے سنا ہے ک آپ نے حرا کا admission یونیورسٹی کروا دیا ہے… 


چچی ایک دم چونک گئ… 


ہا... ہا!.... ہاں صحیح سنا ہے اب اس نے گھر بیٹھ کر کیا کرنا ہے..


تو چچی پھر آپ میری شادی کی با ت کیوں کر رہی ہیں….


بات میں اگر کرو گی تو تم سب کو بوری لگے گی حرا کا باپ اس کے سر پر ھے اس کے اخراجات اٹھا سکتا ہے… تم لوگ کب تک ایک دو مکانوں کے کرایے پر رہو گی گھر کے اخراجات الگ 3 بچوں کی پڑھائی الگ…. 


رائمہ کو چچی کی اس بات پر غصہ آگیا… 


چچی آپ کو ہماری پڑھائی کی فکر ہے یا مکانوں کہ کرائے کی…. 


چپ ہو جاؤ رائمہ اور جاؤ دیکھو حائمہ اور دانیال کیا کر رہے ہیں سکول کا کام مکمل کر لیا ہے دونوں نے کیا… رائمہ کی امی نے اسے ڈانٹتے ہوے کہا… رائمہ وہاں سے اٹھا گی…. 


معذرت چاہتی ہوں آج اس کا رزلٹ آیا ہے اپنے والد صاحب کو یاد کر رہی تھی… 


 اتنا لاڈ پیار سے رکھو گی تو بگڑ جائے گی.. 

………………. 


امی میں یونیورسٹی کے فارم لینے جا رہی ہو اور جاتے ہوئے حائمہ اور دانی کو سکول کا لج چھوڑ آؤ گی… 

رائمہ نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا… 


ٹھیک ہے دھیان سے جانا… 


رائمہ یونیورسٹی کا فارم لے آئی پر جیسے گھر آئی تو امی کو پریشان دیکھا…. 


کیا ہوا امی آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں.. رائمہ نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 


نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں بس طبیعت کچھ خراب ہے… 

چلیں میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہو…


 نہیں میں اتنی بھی نہیں بیمار ہوں بس ہو جاوں گی ٹھیک تم بتاؤ فارم مل گئے کیا… 


 امی آپ کچھ چھپا رہی ہیں بتائیں مجھے آپ کو پتا یے کہ نہ آپ مجھے سے کچھ چھپا سکتی ہیں نہ میں.. اب جلدی سے بتائیں… رائمہ نے اپنی امی کی. بات کو اگنور کرتے ہوئے کہا 


رائمہ بیٹا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے والد کی وفات کے بعد ہمارے پاس دو مکانوں کے کرائے کے علاوہ کوئی اور آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے اس پرتمہاری یونیورسٹی کی فیس حائمہ کی اور دانیال کی بھی فیس… آپ سمجھ رہی ہو نا میری بات کل آپ کو اس لیے نہیں کہا کہ آپ کی چچی کے سامنے ایسی بات نہیں کرنا چاہتی تھی جس سے ان کے ہاتھ بات آجائے… اور تم بھی بہت خوش تھی.. میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ آپ آگے study نہ کرو آپ کے والد کی خواہش تھی کہ آپ اگے پڑھو… بس اسی وجہ سے پریشان تھی.. 


 امی آپ پریشان نہ ہوں اللہ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال دیں گے… سب ٹھیک ہو جائے گا آپ کے علاوہ ہمارا کوئی نہیں ہے آپ پریشان نہ ہوں… 


رائمہ نے ماں کو تسلی تو دے دی پر خود اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ اگے کیا کرے گی اگے تعلیم حاصل کرنا اس کا بھی خوب تھا یہ زندگی کیا سے کیا حالات لے کر آتی ہے رائمہ نے کھبی سوچا نہیں تھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں اسے کیا کیا کرنا پڑے گا… 


رائمہ کیا سوچ رہی ہو…. رائمہ کی فرینڈ جو اس سے ملنے آئی تھی…. 


 نہیں کچھ نہیں یار.. بس ایسے ہی… 


 نہیں کچھ تو ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو… ایمن نے کہا 


یار میں شاید یونیورسٹی نہ جا سکوں… 


وہ کیوں؟ تمھارے تو نمبر بھی اتنے اچھے آئے ہیں پھر کیوں نہیں جا سکتی؟؟


گھر کے مسئلے ہیں. ابو کی death کے بعد حالات ویسے نہیں رہے بس اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی نہیں ہے ہمارا.. تو میں نے سوچا کے کیا کرنا ہے اگے study کر کے بہت ہے…


 ایسے نہیں سوچتے کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیتے ہیں wait میں سوچتی ہوں کیا ہو سکتا ہے…. 

ایک منٹ میرے mind میں ایک idea آیا ہے.. 


 وہ کیا؟ رائمہ نے چونک کر کہا.. 


ایمن؛ تم کوئی job کیوں نہیں کر لیتی اس طرح تم اپنی study کے اخراجات بھی اٹھا لو گی اور گھر میں بھی support کرو گی.. ویسے بھی تمھاری فیملی میں job کا کوئی issue نہیں ہے… آسانی سے اجازت بھی مل جائے گی… صبح جاب اور شام کو study…  ایمن نے مشورہ دیا. 


ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو پر مجھے جاب کون دے گا میرے پاس تو کوئی experience ہی نہیں ہے… 


کوئی بات نہیں تم apply تو کرو ہوسکتا ہے کہ کہیں سے کوئی جاب کے لیے کال آجائے… 


کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو… امی سے بات کرو گی… رائمہ کو جیسے امید کی کرن نظر اگی تھی..


……….. 


صبح جب  رائمہ دانیال کو سکول چھوڑ کر آئی؛ (  والد کی وفات کے بعد یہ duty اب رائمہ کی تھی)  تو صحن میں امی کے پاس جاکر بیٹھ گی…. 


 امی میں نے آپ سے ایک بات کرنی ہے اگر آپ کی اجازت ہو… رائمہ نے اپنی امی کا ہاتھ تھماتے ہوئے کہا.. 


جی بیٹا کیا بات ہے..؟


 امی میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ میں جاب start کر دو اس طرح میں اپنی پڑھائی کے اخراجات بھی اٹھا لو گی… 


نہیں رائمہ یہ آپ کیا کہہ رہی ہو.. کیا کل میری طرف سے کوئی بات بوری لگی ہے کیا…. 


 نہیں میری امی جان ایسا کچھ بھی نہیں ہے…. میں بس ابو کے بعد آپ سب کا حوصلہ بنا چاہتی ہوں… آپ کو یاد نہیں کیا ابو مجھے اپنا بڑا بیٹا کہتے تھے.. تو بس سمجھ جائیں کے میں اب آپ کا بیٹا ہوں… بس مجھے آپ کا ساتھ اور اپکی دعائیں چاہیے…. 


رائمہ نے اپنی امی کو گلے لگا لیا اور اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کو چھپا لیا…. 


 بیٹا وہ تو تمھاری بات ٹھیک ہے لیکن تم اپنی چچی کو تو جانتی ہو…. 


 امی آپ ان کی فکر نہ کریں میں ان کو سنبھال لو گی بس آپ کی ہاں چاہیے تھی…. 


رائمہ ایک معصوم اور خود دار لڑکی تھی جو خود تو مشکل وقت میں رہ سکتی ہے پر کسی کا احسان نہیں لے سکتی… 


رائمہ نے بہت سی جگہوں پر جاب کے لیے apply  کیا پر کہیں سے بھی اسے کال نہیں آئی وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ اب انے والا وقت کیسا ہو گا اگر اسے جاب نا ملی تو وہ اپنی studyکیسے کر پائے گی… 


اتنے میں cell phone کی ring ہوئی…… رائمہ نے فون اٹھایا… 


اسلام علیکم… رائمہ نے فون اٹھنے پر کہا.. 


وعلیکم السلام… کیا میں مس رائمہ شیراز سے بات کر سکتا ہوں..  دوسری جانب سے کسی میل کی آواز تھی. 


جی میں ہی رائمہ شیراز بات کر رہی  جی فرمائیے… 


 آپ نے جاب کے لیے applyکیا تھا آپ کو کل interview کے لیے آنا ہے کیا آپ آ سکتی ہیں؟؟ 


جی میں آجاؤ گی آپ مجھے ایڈریس بتا دیں اور ٹائم بھی… 


 جی لکھیں… 


رائمہ کی خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ اسے جاب کے لیے کال آئی اتنے دنوں بعد… کل اس کا انٹرویو تھا ایک نئی زندگی کی شروعات تھی… 


امی امی مجھے انٹرویو کے لئے کال اگی ہے کل میرا انٹرویو ہے… دعا کریں میں سیلیکٹ ہوجاوں پھر ہماری ساری پریشانیاں دور ہو جائے گی..  کال بند ہوتے ہی رائمہ نے امی کو جاکر بتایا.. 


 اللہ آپ کو کامیاب کرے آمین… 


رائمہ دونوں کو سکول اور کالج چھوڑ کر آئی.. آتے ہی وہ انٹرویو کی تیاری کرنے لگ گی…. 


ٹائم سے پہلے پہنچ جاؤ کوئی مسئلہ نہ ہو..  رائمہ نے جلدی سے تیار ہو تے ہوئے کہا 


کپڑے press کرتے دل میں اس کے وسوسے آرہے تھے… 


امی میں جارہی ہوں.. رائمہ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے کہہ رہی تھی 


رائمہ ماں کی دعا لیے گھر سے نکال پڑی.. 


وہ pink color کے سوٹ میںlong shirt or trouser میں بال کھولے آنکھوں میں light کاجل لگے کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی…وہ  آفس کے باہر کھڑی تھی اور اندر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی آج سے پہلے وہ کالج اور گھر کے علاوہ کہیں اکیلی باہر نہیں گی تھی… 


اے اللہ مجھے کامیاب کرنا… 


دعا پڑھتے رائمہ نے آفس کی سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھا…. جو اسکی آنے والی زندگی کی سیڑھی کا پہلا قدم تھا…….


*******جاری ہے ******




کو ضراب علی شاہ کی آفر قبول کرنی پڑیسردیوں

کیا مطلب ہے آپ کا… آپ شاید بھول رہی ہیں یہ میرا آفس ہے اور میں کہیں بھی جا سکتا ہوں… ضراب علی شاہ نے غصے سے رائمہ کی طرف دیکھا…. 


جی سر ضراب آپ کا افس ہے… رائمہ نے آہستہ آواز میں جواب دیا.. 


میری بات نہ دوہرائیں….اور کل کے پروجیکٹ کی ساری details میرے پاس لے کر آئیں جو احد رضا نے آپ کو دی تھی.. یہ کہہ کر ضراب علی شاہ وہاں سے چلا گیا… 


رائمہ چپ نہیں رہ سکتی کیا کچھ بھی بولتی جاتی ہو.. رائمہ نے اپنے آپ کو کوستے ہوئے کہا…. 


****جاری ہے* ***

#محبت_بنی_راکھ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 2


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


میرا آج انٹرویو ہے… آفس کے اندر جانے کے بعد رائمہ نے Front desk پر موجود ایک female کو کہا…. 


جی آپ بیٹھے ابھی انتظار کریں انٹرویو چل رہے ہیں جیسے آپ کی باری آئے گی آپ کو بلا لیا جائے گا.. اس محترمہ نے بڑے پیار سے کہا… 


جی ٹھیک ہے…. رائمہ بے چینی کے ساتھ بیٹھ گی. 


دیکھنے میں تو آفس اچھا ہے لوگ بھی اچھے ہیں اور کافی بڑا بھی پتہ نہیں میں select ہو بھی پاتی  ہوں کہ نہیں…

رائمہ دل ہی دل میں سوچی جا رہی تھی… 


کافی ٹائم ہو گیا ہے یہ کیوں نہیں بلا رہے کتنے نخرے والے ہیں job interview دینے آئی ہوں کوئی چندہ جمع کرنے نہیں… اتنا بھی کیا… 


(رائمہ ا پنی جگہ سے اٹھی اور Front desk والی لڑکی کے پاس گی… 


مس کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ مجھے اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا؟؟ ایک گھنٹہ ہوگیا ہے مجھے… اندر انٹرویو ہو رہے ہیں یا کوئی میچ….  رائمہ لو انتظار کرنا پسند نہیں تھا


رائمہ  اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے بولی.. 


دیکھیں مس آپ بیٹھ جائیں بس تھوڑی دیر میں آپ کا نمبر آنے والا ہے…


اوکے Thank you.. 


رائمہ اپنی جگہ جانے والی تھی کہ اس لڑکی نے آواز دی… 

میڈم روکیں.. 


جی آپ نے مجھے کچھ کہا؟؟  رائمہ نے مڑ کر دیکھا 


 جی مس آپ کو کہا… کیا یہ آپ  کا  پہلا انٹرویو ہے ؟ لڑکی نے مسکراتے ہوے کہا.. 


جی بالکل… کیوں کیا ہوا…. ( رائمہ ایک دم confuse ہو گی) 


نہیں کچھ نہیں ایسے پوچھا آپ بیٹھ جائیں… لڑکی یہ کہہ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی… 

رائمہ کو ایسا لگا جیسے اس نے کوئی غلط بات کر دی تھی…. 


کچھ دیر بعد رائمہ کا نمبر آگیا… 

مس رائمہ شیراز آپ اندر جا سکتی ہیں… 


 جی بہت شکریہ آپ کا.. رائمہ نے بغیر دیکھے اندر چلی گی.. 

………. 


یہ ایک event management کی company تھی… اندر کمپنی کے onwer سب کا انٹرویو لے رہے تھے… 

رائمہ نے دروازہ نوک کیا اور اندر آنے کی اجازت لی… 


سر May i come in.. رائمہ نے دروازے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.. 


بلیو کلر کا تھری پیس سوٹ پہنے… براؤن کلر کے بال… اونچے قد کاٹھ کا…. منہ نیچے کیے  ہاتھ میں پن لیے کمپنی کے  CEO "ضراب علی شاہ" اپنے پارٹنر احد رضا کے ساتھ بیٹھے اگلے candidate  کا انتظار کر رہے تھے… 


جیسے ہی رائمہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ضراب علی شاہ نے بغیر دیکھے جواب دیا… 

. Yes come in please have a seat


شکریہ.. 

 

وہ اندر ہی اندر سے confuse ہو رہی تھی کہ پتہ نہیں کیا پوچھے گئے پر وہ بھی شیراز صاحب کی بیٹی تھی اپنی حالت کو ظاہر نہیں ہونے دیا… 


جی مس رائمہ شیراز آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں…ceo نے رائمہ سے سوال کیا… 


 جی آپ کے پاس میری CV ہے شاید آپ اسی کو دیکھ رہے ہیں اس میں سب کچھ لکھا ہوا ہے… رائمہ نے بغیر سوچے سمجھے جواب دیا 


رائمہ کے اس جواب پر ضراب علی شاہ نے منہ اٹھا کر رائمہ کو دیکھا.. جو معصوم سا چہرہ بنا کر انہیں دیکھ رہی تھی… 


کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا؟ 


ضراب علی شاہ نے غصے سے دیکھا.. ساتھ بیٹھے پارٹنر احد رضا جو ceo کے اصل میں دوست بھی ہیں رائمہ کی اس بات پر مسکرا دیئے…. 


 جی وہ میرا کہنے کا یہ مطلب تھا کہ ایک تو آپ نے جو انٹرویو کا ٹائم دیا تھا اس سے ایک گھنٹہ آپ نے لیٹ بلایا ہے بیٹھے بیٹھے ایسے میں انسان کا دماغ گھوم جاتا ہے تو وہ پھر سیدھا جواب تو نہیں دے سکتا… رائمہ بے دھڑک ہو کر جواب دے رہی تھی اس کو غصہ تھا کہ اتنا انتظار کیوں کروایا 


رائمہ نے جیسے اپنا wait کرنے کا غصہ نکالنے کے انداز میں بولی… 


دیکھے محترمہ….. اس سے پہلے کہ ضراب علی شاہ کچھ کہتے .. اس کا پارٹنر  احد رضا بول پڑا…. 


اوکے . we r sorry کہ آپ کو اتنا انتظار کرنا پڑا.. Candidate بہت زیادہ تھے اس لیے آپ کو زیادہ انتظار کرنا پڑا… 


احد رضا کی اس بات سے اور اس کے نرم لہجے سے رائمہ کو لگا شاید وہ کچھ زیادہ ہی بول گی ہے… 


 آپ کی  CV دیکھی ہے یہ آپ کی پہلی جاب ہے؟؟  احد رضا نے cv پر نظر ڈالتے ہوئے کہا.. 


جی سر یہ میری پہلی جاب ہے.. 


آپ کے والد محترم کیا کرتے ہیں؟؟ 


جی ان کی death ہو چکی ہے.. 


ہممم.. او i am sorry about your father


کوئی بات نہیں.. it's ok جو اللہ کی رضا… رائمہ نے دھیمی آواز میں کہا.. 


رائمہ کو اندازہ نہیں تھا کہ اس سے اس قسم کے سوال کیے جائیں گے وہ اپنے والد کی بات پر تھوڑا افسردہ ہو گی…. 


آپ کچھ پوچھنا چاہئیں گے.. احد رضا نے ضراب علی شاہ کو کہا جو رائمہ کی اس بات سے تب سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا.. 


ضراب علی شاہ نے رائمہ کی cv احد رضا سے لی اور رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


آپ نے آگے study کیوں نہیں کی؟ جب کے آپ کے نمبر اچھے آئے ہیں… 


جی admission لیا ہے جاب کے ساتھ سٹڈی بھی continue کرنی ہے… اس دفعہ رائمہ نے ضراب علی شاہ کو نارمل جواب دیا.. 


 مطلب آپ جاب اور سٹڈی دونوں کو ساتھ لے کر چلے گی.. تو آپ کو کوئی problems نہیں ہوں گی؟؟ ضراب علی شاہ رائمہ کی طرف دیکھے بغیر کہا 


رائمہ جو پہلے سے انتظار کر کے تھک گئی تھی اور اوپر سے اپنے والد کی با ت سے upset ہو گی تھی بولی.. 


سر دیکھیں یہ میری headache ہے کہ میں دونوں کو کیسے mange کرو.. اگر آپ کو لگتا ہے کے میں آپ کی کمپنی میں ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہوں تو آپ مجھے جاب پر رکھ سکتے ہیں its totally depand on you


رائمہ کے اس جواب پر ضراب علی شاہ کہ پاس اور کوئی سوال بچا ہی نہیں تھا… 


احد رضا نے جب یہ سب کنڈیشن دیکھی تو رائمہ کو باہر انتظار کرنے کو کہا… 


مس رائمہ شیراز آپ تھوڑی دیر wait کریں ہم آپ کو ابھی بتا دیتے ہیں… 


اوکے سر.. 


رائمہ وہاں سے اٹھ کر باہر آگئی… جیسے وہ باہر آئی تو اسے احساس ہوا کہ وہ اندر جو کچھ بول کر آئی ہے اس سے جاب کیا وہ ایک پانی کا گلاس بھی نہیں دے گئے… 


 کیا مطلب ہے تمھارا کیوں اس لڑکی کو انتظار کے لیے کہا ہے.. وہ عقل سے پیدل لگتی ہے.. بات کچھ اور کرو جواب کچھ اور دیتی ہے دماغ خالی لگتا ہے اس کا…  


ضراب علی شاہ تو غصے سے لال سرخ ہو گیا تھا… 


دیکھ میرے بھائی.. پچھلے ایک ہفتے سے ہم انٹرویو کر رہے ہیں کچھ تمہیں suit نہیں کرتیں اور کچھ کو تم suit نہیں کرتے اور تمہیں اپنے غصے کا تو پتہ ہے کتنی لڑکیوں کو نکال چکے ہو اور جو خود چھوڑ کر گی ہیں وہ الگ… اب مجھ میں ہمت نہیں ہے اور انٹرویو کرنے کی…

یہ لڑکی new ہے پہلی جاب ہے اس کی کچھ ٹائم گزار لے گی.. اور ویسے بھی new project شروع ہونے میں تھوڑا ٹائم رہ گیا ہے… اور ہمیں جلد ضرورت بھی ہے… کیا سوچ رہے ہو میرے بھائی…  


احد رضا نے ضراب علی شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


ہمممہ.. کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو پر یار وہ لڑکی دماغ سے خالی ہے عیجب سی سر پھری ہے..  ضراب علی شاہ کو احد رضا کی بات ٹھیک تو لگی لیکن وہ دل ست راضی نہیں تھا.. 


 تو ٹھیک ہے نہ سر پھرے کے ساتھ سر پھری ہی گزرا کر سکتی ہے..  


احد رضا نے ضراب کی طرف مسکرا تے ہوئے کہا…


دیکھ اب انکار نہ کری نہیں تو تیرے اس بھائی کے ہاتھ اوپر ہیں میں اب مزید اور دماغ نہیں خرچ کر سکتا پھر تم جانو اور تمہارا سٹاف… 


ضراب علی شاہ نے احد رضا کی طرف بے بسی سے دیکھا…


اچھا ٹھیک ہے پر اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو تم ذمہ دار ہو گے.. ضراب علی شاہ نے سوالیہ نظروں سے احد رضا کی طرف دیکھا.. 


چلو شکر ہے اللہ کا…. احد رضا نے منہ پر ہاتھ پھرا اور سیٹ سے اٹھ کر باہر آگیا… 


باہر بیٹھی رائمہ یہ ہی سوچ رہی تھی کہ اسکا انٹرویو اچھا نہیں ہوا اگر یہاں جاب نا ملی تو اگلے ماہ کی فیس کیسے جمع کرواے گی.. کیا ضرورت تھی سب بولنے کی.. چپ نہیں رہ سکتی تھیں… اسی سوچوں میں گم رائمہ کو آواز آئی… 


مس رائمہ شیراز… Front ہر بیٹھی لڑکی نے کہا.. 


 جی.. کیا… میں جاؤں؟؟ 

 رائمہ نے ایک دم سے کہا کیوں کہ رائمہ کو یہ ہی امید تھی کہ وہ اس جاب کے لئے qualify نہیں کرسکے گی جیسا اس کا انٹرویو ہوا تھا… 


مس رائمہ شیراز congratulations آپ کی جاب ہوگی ہے امید کرتی ہوں کہ آپ ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک  جاب جاری رکھے گی.. 

رائمہ کی خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ اسے جاب مل گئ تھی.. پر ایک طرف وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ وہ جو انٹرویو میں دے کر آئی  ہوں تو جاب کیسے ہو گی… 

پر اس کی خوشی میں یہ بات کہیں چھپ گی تھی… 


مس. Thank you… 


آپ کل سے office آسکتی ہیں یہ آپ کے appointment پیپرز ہیں ان پر سب لیکھا ہوا ہے آپ ان پر sign کرکے کل ساتھ لیکر آئے گا… 

رائمہ نے وہ پیپرز لیے اور شکریہ کے ساتھ وہاں سے نکل پڑی…. 


………….. 


گھر آکر رائمہ نے امی کو گلے لگایا… جو صحن میں حائمہ کے ساتھ بیٹھی کھانا بنانے کا انتظام کر رہی تھی… 


امی میری جاب ہو گی ہے کل سے جانا ہے اللہ نے ہماری سن لی ہے کمپنی بھی اچھی ہے اور ٹائم بھی...میں اپنی سٹڈی بھی آسانی سے کر سکوں گی…  رائمہ نے خوشی خوشی اکر بتایا.. 


اچھا اچھا سانس تو لے لو… جاؤ حائمہ بہن کے لیے پانی لے کر آو.. 


بیٹا مجھے تمہاری ہی فکر رہے گی کیسے کر پاؤ گی.. رائمہ کی امی افسردہ ہو گی….  کیونکہ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کی بیٹی اتنی چھوٹی عمر میں یہ سب ذمہ داری سنبھالے گی… 


امی آپ پریشان نہ ہوں اللہ ہے نا ہمارے ساتھ اور آپ کی دعائیں بھی.. تو مجھے پھر کیسی فکر… 


یہ کہہ کر رائمہ نے امی کو گلے لگا لیا… 


آپی آپ جو اپنے انٹرویو کا بتا رہی ہیں اور کمپنی کا بھی تو انہوں نے کیسے رکھ لیا آپ کو….. حائمہ نے حیرت سے رائمہ کی طرف دیکھا…. ( رائمہ چھوٹی حائمہ کو اپنے انٹرویو کا سب حال بتا چکی تھی) 


( حائمہ ایک جاموش طبیعت کی مالک تھی اور یہ خوبی اسے اپنی والدہ سے ملی تھی کم بولنا اور سمجھ داری سے بولنا…) 


ویسے تم کہہ تو ٹھیک رہی ہو میں بھی یہ ہی سوچ رہی تھی…. رائمہ شیشے کے آگے کھڑے ear rings اتارتے ہوئے بولی… 


مگر اتنا بھی برا نہیں ہوا تھا انٹرویو میرا… بہت confidence سے دیا تھا… 


جی آپی بلکل.. حائمہ اپنی آپی کی طرف دیکھ کر ہنس پڑی… 


آج رائمہ کا پہلا دن تھا آفس میں… دھیمی سی خوشبو لگائے black color کے سوٹ میں کافی اچھی لگ رہی تھی اگر کوئی فدا ہونا چاہیے تو خود کو نہ روک پائے… 


دونوں بہن بھائی کو سکول اور کالج چھوڑنے کے بعد اپنی امی کی دعائیں لے کر آفس کے لیے نکل پڑی… 


 آفس سے لیٹ نہ ہو جائے اس لیے رائمہ جلدی میں 30 منٹ پہلے آفس4 کے گیٹ پر تھی.. جو ابھی تک بند تھا… کچھ وقت گزرنے کے بعد رائمہ نے white color ki car کو اپنی جانب آتے دیکھا…. 


رائمہ کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی اسے گاڑی کے نیچے دینے لگا ہے…. 


ایک چیخ کے ساتھ رائمہ نے اپنی آنکھیں بند کر لی……. 


******** جاری ہے ******

#محبت_بنی_راکھ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 4


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


ضراب بیٹا کیسے ہو…. 

ضراب علی شاہ کے رائمہ کی طرف اٹھتے قدم اس آواز سے روک گے… 


ضراب علی شاہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں دادا جان کھڑے تھے… 


ارے دادا جان آپ… آپ آج یہاں کیسے… ضراب علی شاہ نے بڑے خوشی سے اپنے دادا جان کو گلے لگایا….. 


بس بیٹا میں نے سوچا گھر پر جانے سے پہلے اپنے شیر کو مل لو…. دادا جان نے ضراب علی شاہ کے کندھے پر تھپتھپی دی… 


اچھا کیا آپ نے آئیں آفس میں چل کر بیٹھتے ہیں آپ کو احد رضا سے بھی ملواتا ہوں وہ ابھی آفس ہی ہے…. 

ضراب علی شاہ نے اپنے روم کی طرف اشارہ کیا.. 


وہ بدمعاش تنگ تو نہیں کرتا تمہیں… دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا……


بلکل بھی نہیں دادا جان …  ضراب علی شاہ نے جواب دیا 

اور دونوں آفس کی طرف چل دیے….


رائمہ اپنے روم میں بیٹھی اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی اس کو اپنے والد کی بہت یاد آرہی تھی… 


اسی غم سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے…


اس نے وہ آنسو صاف کیے اور نماز کے لیے وضو کرنے چلی گی… 


اے میرے اللہ ہم پر جو مشکل وقت آیا ہے بیشک تو ہی اسے ٹالنے والا ہے… 


تو بڑا رحمان ورحیم ہے مجھے ہمت اور حوصلہ دینا مجھے صبر کرنے والوں میں رکھنا ہر مشکل وقت میں میری مدد کرنا آمین.. 


رائمہ نے دعا ختم کی تو اسے ایسا لگا کے جیسے اسکی بہت سی پریشانیاں دور ہو گی ہیں ایک سکون سا مل گیا تھا اسے… 


وہ جاۓ نماز اٹھا کر ٹیبل پر رکھ کر مڑی تو اپنے پیچھے ایک لڑکی کو کھڑا پایا… 


ماشاءاللہ..اللہ آپ کی ہر مراد پوری کرے آمین…  


میرا نام نمرہ ہے میں یہاں HR میں ہوتی ہوں… نمرہ نے اپنا تعارف کروایا… 


آپ please بیٹھے کھڑی کیوں ہیں… رائمہ  نے کرسی کی طرف اشارہ کیا…


نمرہ نے thank you..  بولا اور  بیھٹی  آپ کو کوئی یہاں مسئلہ تو نہیں کوئی پریشانی اگر ہو تو آپ مجھے بالاجھجک کہہ سکتی ہیں… 

نمرہ نے بڑے پیار سے رائمہ کو کہا…. 


نہیں کوئی problem نہیں ہے ویسے بھی آج میرا پہلا دن ہے جاب بھی پہلی ہے تو آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا… 

رائمہ جیسے خود کو بھی سمجھنے کے انداز سے بولی…


بلکل ٹھیک کہا میں بھی جب آئی تھی  تو مجھے بھی بہت مشکل لگتا تھا ایڈجسٹمنٹ کرنا پر اب سب ٹھیک ہے… 


رائمہ کو نمرہ کی باتوں سے کافی حوصلہ ملا… 


آپ نے کچھ کھایا ہے کیا…. نمرہ نے رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


نہیں ابھی تک تو نہیں کھایا… رائمہ نے جواب دیا… 


چلو اب اٹھو اور کچھ کھاتے ہیں… نمرہ رائمہ کو ساتھ لے کر کنٹین کی طرف چلی گئی…. 


نمرہ کے آنے سے رائمہ کو کچھ حوصلہ ہوا… وہ اب  کچھ relax feel کر رہی تھی… 


ضراب علی شاہ نے اپنے روم کا دروازہ کھلا اور دادا جی ساتھ اندر داخل ہوا…. 


ارے ماشاءاللہ آج تو ہمارے آفس کی شان بڑ گئی ہے…. احد رضا نے دادا جان کو آتے دیکھا تو اٹھ کر سلام کیا… 


بس بس بیٹا پتہ ہے کتنا یاد کرتے ہو ایک کال تو آتی نہیں آپ کی… 

دادا جان نے مسکراتے ہوئے احد رضا کو کہا… 


دادا جان اب ایسا نہ کرے آپ تو جان ہیں ہماری.. احد رضا نے دادا جان کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا…. 


( ضراب علی شاہ کے والدین میں علیحدگی کے بعد دادا جان نے ہی ضراب علی شاہ کو ماں اور باپ بن کر پلا تھا.. ضراب علی شاہ کے لیے ساری دنیا ایک طرف اور دادا جان ایک طرف… .


چلیں دادا جان اب گھر چلتے ہیں آپ سفر سے تھک گئے ہوں گے….. دادادادا جان اپنے گاؤں سے ارہے تھے.. 

 

میں گاڑی نکلتا ہو تم دادا جان کو لے کر آؤ… ضراب علی شاہ نے ٹیبل سے چابیی اُٹھاتے ہوئے احد رضا کو کہا… 


اوکے boss… احد رضا نے جواب دیا 


ضراب علی شاہ یہ کہہ کر روم سے باہر نکل آیا.. جاتے ہوئے اس نے رائمہ کے روم کی طرف دیکھا.. پر رائمہ وہاں موجود نہیں تھی… ضراب علی شاہ کو لگا وہ شاید جا چکی ہے… 


گیٹ سے باہر جاتے ہوئے ضراب علی شاہ نے reception پر رائمہ کا پوچھا… 


 آپ نے مس رائمہ شیراز کو دیکھا ہے جن کی آج joining تھی وہ کہاں ہیں؟؟؟ 


سر وہ مس نمرہ کے ساتھ تھیں ان کو بولا دو کیا… reception والی لڑکی نے ضراب علی شاہ کو کہا.. 


نہیں اس کی ضرورت نہیں میں خود دیکھ لو گا.. ابھی میں افس سے جا رہا ہوں ہوں اگر کوئی guest آئیں تو ان کو کل کا ٹائم دے دینا… ضراب علی شاہ یہ کہہ کر گاڑی کی طرف چلا گیا.. 


آج سے پہلے اس نے کھبی کسی کی اتنی پروا نہیں کی تھی خاص کر کسی لڑکی کی... 


نجانے کیوں اس کو رائمہ کی فکر ہو رہی تھی وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کا سوچ رہا تھا اس کا وہ چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار ارہا تھا جب وہ آکبر صاحب کی نظروں سے خود کو چھپا رہی تھی…. 


میں کیوں اتنا سوچ رہا ہوں… ضراب علی شاہ نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.. اور پھر وہ تینوں گھر کی طرف روانہ ہو گئے… 

…….. 


رائمہ جب افس سے گھر آئی تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ گھر میں اسے کس پریشانی کا سامنا کرنا پڑ نا تھا … 


اسلام علیکم امی جان… سلام کے ساتھ رائمہ جب گھر میں داخل ہوئی تو سامنے اس کے چچی اور چچا بیٹھے ہوئے تھے… رائمہ  نے ان کو بھی سلام کیا اور کمرے میں چلی گئ… 


آپی آپ کو پتہ ہے کیا.. کہ چچا جان کیوں آئے ہیں… حائمہ نے بڑی سمجھ داری سے رائمہ کو سب بتا دیا کہ وہ لوگ آپ کی جاب کے بارے میں بات کرنے آئیں ہیں… 


رائمہ نے جب یہ سنا تو وہ اور پریشان ہو گئی آفس کی پریشانی کم تھی جو یہ لوگ بھی آگے ہیں.. رائمہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا… 


رائمہ کو بلائیں کہاں چلی گئی ہے سلام کر کے کچھ پتہ نہیں کے چچا آئے ہیں…. چچی نے بڑے غصے سے کہا… 


آجاتی ہے وہ کپڑے تبدیل کر رہی ہو گی… رائمہ کی امی نے آرام سے ان کو جواب دیا… 


اتنے میں رائمہ باہر آگئی…. 


کیسے ہیں چچا جان آپ…. رائمہ اپنی امی کے پاس جا کر بیٹھ گی… 


 چچا جان آج آپ کو کیسے رستہ یاد آگیا ہمارے گھر کا جب سے ابو کی death ہوئی ہے آپ اس کے بعد آئے نہیں… 


رائمہ نے چچا جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 


تو آپ لوگ کون سا ہر کام میں ہم سے پوچھ کر چلتے ہیں اب تمہاری جاب کی ہی بات لے لو کب کیسے کہاں ہوئی ہمیں تو کوئی خبر نہیں…. چچی نے طنزیہ لہجے میں کہا.. 


وہی تو چچی جان میں کہہ رہی ہوں کہ آپ لوگ آئے تو ہماری کوئی خبر ہو کہ ہم جی رہے ہیں یا نہیں…. 


رائمہ کے لہجے میں دکھ کے سواء کچھ بھی نہیں تھا…


چچی نے فوراً بات کو تبدیل کرتے ہوئے رائمہ کی امی کو کہا.. 


بھابی جی میں نے آپ کو کہا تھا کے آپ اس کی شادی کروا دیں پر آپ نے اسے جاب کی اجازت دے دی… 


یہ رائمہ کی خواہش تھی اور ان کے والد کا خواب بھی تھا کے رائمہ اگے سٹڈی کرے… اس لیے میں نے اسے اجازت دی ہے اور ابھی تو یہ چھوٹی ہے حرا کی عمر کی تو بھائی صاحب میں اس کی شادی کیسے کر دو…


اس بار رائمہ کی امی نے اپنے شوہر شیراز صاحب کے بھائی کی طرف دیکھتے ہوے کہا… 


یہ تو کوئی بات نہ ہوئی آپ ان کو کیا کہہ رہی ہیں میں جو آپ کو کہا تھا آپ نے مانا ہی نہیں تو اپنے بھائی کی کیا بات مانے گی… چچی مسلسل بولتی جا رہی تھی… 


شہناز… بھابھی ٹھیک کہہ رہی ہیں رائمہ ابھی چھوٹی ہے اگر وہ اگے پڑنا چاہتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے… 


اپنے شوہر کی اس بات پر چچی کو جیسے اگ لگ گئی اس سے پہلے چچی کچھ کہتی رائمہ بول پڑی… 


چچی جان اگر آپ کو میری جاب سے کوئی مسئلہ ہے تو کوئی بات نہیں چچا جان میری پڑھائی کا خرچہ اٹھا لیے گے کیونکہ کے پڑنا تو ہے میں نے… 


رائمہ کی اس بات پر چچی کی تو آواز نہیں نکلی… 

جب چچی نے یہ دیکھا کی اب بات پیسوں کی اگی ہے تو وہ وہاں چپ ہو گئ… 


ہمیں کیا اعتراض ہونا ہے تمہاری جاب کا میں تو تمہارا بھلا ہی سوچ رہی تھی کی کہاں جاب اور سٹڈی کرتی رہو گی.. 

چچی کا اس دفعہ لہجہ تبدیل تھا… 


چچی جان آپ فکر نہ کریں اللہ سب ٹھیک کر دے گا بس آپ اور چچا جان ہمارے لیے دعا کر دیا کریں…  اب سارا مسئلہ حل ہو گیا…. 

 آپ لوگ کیا لے گئے میں چائے بنانے جا رہی ہو کیسی نے پینی ہے تو بتا دیں…

 

یہ  کہہ کر رائمہ وہاں سے اٹھ گئی… 


اب چچی کے پاس اور کوئی جواز نہیں رہا.. پر وہ چپ کر کے بیٹھنے والی نہیں تھی یہ بات رائمہ اچھی طرح جانتی تھی


جاری ہے........

#محبت_بنی_راکھ ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 5


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


صبح ناشتے کی ٹیبل ہر ضراب علی شاہ اور دادا جان بیٹھے تھے…نا شتہ کر رہے تھے… 


اتنے بڑے گھر میں بس دو لوگ ہی رہتے تھے جب دادا جان گاؤں کے لیے نکل جاتے تو ضراب علی شاہ گھر میں اکیلے رہ جاتے… 


ضراب علی شاہ کو بچپن سے ہی اکیلے رہنے کی عادت تھی… 


جب ضراب علی شاہ کے والدین میں علیحدگی ہوئی تب ضراب علی شاہ بہت چھوٹے تھے… بچپن سے ہی ضراب علی شاہ نے اپنے ما باپ کو لڑائی کرتے دیکھا جب بھی وہ لڑتے ضراب ڈر کر اپنے دادا جان کے پاس اجاتا یا اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیتا…. 


ضراب علی شاہ کے والد صاحب ضراب کی پیدائش سے پہلے ہی کسی دوسری عورت کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے… 


 

گھر کے بڑوں کے لاکھ سمجھنے پر بھی وہ بعض نہ آئے جسکی وجہ سے ضراب علی شاہ کی والدہ نے ضراب کی پیدائش کے بعد اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کا سوچ لیا…. 


لیکن ضراب علی شاہ کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ جلد الگ نہیں ہو سکے ان دونوں کو 5 سال تک انتظار کرنا پڑا….. 


 اس ٹائم میں ان کی آئے دن لڑائی اور بحث رہتی تھی جس کا اثر ضراب علی شاہ کی زندگی پر ابھی تک تھا…


 سات سال کی عمر میں ضراب علی شاہ کے والدین میں علیحدگی ہو گی پر  دونوں میں سے کوئی بھی  ضراب کو ساتھ رکھنے کے لیے تیار نہ تھا اسی وجہ سے ضراب علی شاہ بچپن سے اپنے دادا جان کے پاس رہا…)


بیٹا آفس میں سب ٹھیک جا رہا ہے نا کوئی مسئلہ یا پریشانی تو نہیں ہے؟؟ 

دادا جان نے ضراب علی شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 


نہیں دادا جان سب ٹھیک ہے آپ کی دعاؤں سے.. ضراب علی شاہ نے دادا جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


اچھا ضراب بیٹا میں نے آپ سے سے ایک ضروری بات کرنی تھی… دادا جان نے چائے کا سیپ لیتے ہوئے کہا… 


جی دادا جان آپ کو کب سے اجازت کی ضرورت پڑ گئی آپ اپنے بیٹے سے کسی بھی ٹائم بات کر سکتے ہیں.. 


ضراب بیٹا آپ کو پتہ تو ہے کہ اب میری عمر کافی ہو چکی ہے اور اب میں ذیادہ ٹائم گاؤں میں گزرنا چاہتا ہوں…


 وہاں بہت معاملات خراب ہو گئے ہیں اور میں تمہیں اس طرح اکیلے بھی نہیں چھوڑ سکتا… 


تو میں یہ چاہتا ہو کہ اب تم شادی کروا لو میری فکر بھی دور ہو جائے گی… دادا جان نے ضراب علی شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


دادا جان کی اس بات پر ضراب علی شاہ نے ناشتہ سے ہاتھ روک لیا… 


جس چہرے پر پہلے مسکراہٹ تھی وہاں ایک دم سے غصے کے آثار نظر ارہے تھے.. 


دادا جان میں آپ کو کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ میں نے شادی نہیں کرنی اور نہ مجھے سے اس بارے میں بات کیا کرے.. ضراب علی شاہ کو جیسے غصہ آگیا… 


بیٹا میری بات کو سمجھو…. ابھی دادا جان کچھ اور کہتے ضراب علی شاہ ناشتہ کی ٹیبل سے اٹھ گیا… 


میرے لیے میری والدین کی شادی اور ان کی علیحدگی ہی ایک example ہے.. اور اب آپ مجھ سے اس بارے میں بات نہیں کریں گئے اپ کو بار بار  انکار کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا… 


یہ کہہ کر ضراب علی شاہ وہاں سے چلا گیا…… 


………


مس رائمہ شیراز آگیں ہیں کیا … احد رضا نے آفس آتے ہی رائمہ کا پوچھا… 


جی سر وہ اپنے روم میں ہیں.. Reception والی لڑکی نے بتایا… 

احد رضا؛ اوکے thank you. 


احد رضا سیدھا رائمہ کے روم میں چلا گیا جہاں رائمہ پن سے  پیپرز پر لائنز لگا رہی تھی… 


مس رائمہ شیراز اب آپ کے فارغ بیٹھنے کا ٹائم ختم ہو گیا ہے یہ آپ کے لیے کام ہے اپ نے  کمپنی کی تفصیل نکلنی ہے اور ان کا ایک event ہے اسکے ڈائیزئن بنانے ہیں... 

کوئی مشکل کام تو نہیں ہے نہ…. احد رضا نے رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


نہیں سر میں مکمل کر لو گی… رائمہ نے تمام پیپرز کو دیکھ کر کہا… 


اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو آپ ضراب سے یا مجھ سے پوچھ سکتی ہیں.. احد رضا رائمہ کو یہ کہہ کر چلا گیا… 


کہہ تو دیا ہے پر یہ کام کرو گی کیسے رائمہ سوچ میں پڑ گئی. 


احد رضا نے اپنے روم کا دروازہ کھلا تو ضراب علی شاہ پہلے سے وہاں موجود تھا… 


ارے جناب کب آئے پتہ ہی نہیں چلا… احد رضا نے ضراب علی شاہ کو ہاتھ ملاتے ہوئے کہا… 


بس ابھی آیا ہوں… تم بتاؤ کام مکمل ہو گیا کیا… 


ضراب علی شاہ نے احد رضا کو اس projet کے بارے میں پوچھا جس کا کام وہ رائمہ کو دے کر آیا تھا…. 


 ہاں کافی حد تک ہو گیا ہے اور کچھ مس رائمہ شیراز کو دے کر آیا ہوں مجھے جانا تھا ایک میٹنگ میں اس لیے… احد رضا نے ضراب علی شاہ کو بتایا… 


کیا وہ پاگل لڑکی کو… یار تمہیں تو پتہ ہے کتنا important کام ہے اسکو تو کچھ پتہ بھی نہیں ہو گا… ضراب علی شاہ نے پریشانی سے احد رضا کو کہا… 


کچھ نہیں ہوتا میں نے کہہ دیا ہے اسے کو اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو تم سے پوچھ لے… اب میں نکلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے یہ کہہ کر احد رضا آفس سے نکل گیا…. 


رائمہ جو کافی دیر سے کام میں busy تھی اور پریشان بھی کیونکہ اسے کچھ چیزوں کی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی… 


اس نے وہ سارے پیپرز اٹھائے اور ضراب علی شاہ کے روم کی طرف چلی گئی… 


رائمہ پیپروں کو دیکھتے ہوئے  اندر جانے کے لیے جیسے دروازہ کھولا.. دوسری جانب ضراب علی شاہ نے دروازہ کھول دیا جس سے دونوں کی ٹکر ہو گی….. 


اف سارے پیپرز گر گئے. رائمہ نے سارے پیپرز جو اب زمین پر بکھرے پڑے تھے.. دیکھتے ہوئے کہا… 


محترمہ آپ کو شاید نظر نہیں آتا اللہ نے آنکھیں آگے دیکھ کر چلنے کے لیے دی ہیں…

 ضراب علی شاہ ننے غصے سے رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


سوری سر میں نے دیکھا نہیں… رائمہ نے گھبراتے ہوئے کہا… 


او میڈم اپنی غلطی مانتی بھی ہیں اور سوری بھی…

 آج تو کمال ہوگیا.. ضراب علی شاہ نے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور اس دن گاڑی کا بدلہ لے لیا… 


رائمہ سر جھکائے کھڑی تھی اسے پتہ تھا کہ غلطی اسی کی ہے… 


اب آپ پیپرز کو اٹھائیں گی یا کسی کو بلواؤں.. ضراب علی شاہ نے پھر طنزیہ انداز میں کہا… 


نہیں سر میں اٹھا لیتی ہوں رائمہ نے سارے پیپرز کو  اکٹھا کیا.. 


کیسی کام سے آئی تھی آپ… اندر آجائے… ضراب علی شاہ یہ کہہ کر دوبارہ سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا… 


جی بتائیں کس کام سے آئی تھیں آپ… ضراب علی شاہ نے رائمہ کو دیھکتے ہوئے کہا…. 


سر ضراب اگر آپ آرام سے بات کر لیتے تو مجھے یاد رہتا کہ میں نے کیا پوچھنا تھا….

 رائمہ نے بڑی معصومیت سے جواب دیا… 


رائمہ کی اس بات پر ضراب علی شاہ اپنی سیٹ سے اٹھے اور رائمہ کے قریب آے رائمہ ایک دم سے گھبرا کر دو قدم پیچھے ہو گی… 


تو محترمہ آپ کا کہنے کا مطلب یہ ہے کے یہ بھی میری غلطی ہے.. ضراب علی شاہ یہ کہتے ہوئے ایک قدم اور رائمہ کے قریب آئے…. 


نہیں سر ضراب میرا کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا… رائمہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے اسے اپنے ہی دل کی دھڑکن  صاف سنائی دے رہی تھی… 


میری طرف دیکھ کر بتائیں آپ کا کیا مطلب تھا… ضراب علی شاہ جو رائمہ کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا بولا… 


رائمہ نے منہ اوپر کیا تو ضراب علی شاہ کی نظریں اسی پر تھی…  


رائمہ با مشکل ہی ضراب علی شاہ کو دیکھ پائی.. اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں عیب سی چمک تھی… 


 سر ضراب ان کی سمجھ نہیں ارہی تھی تو اس لیے آپ سے پوچھنے آگئی تھی… رائمہ نے جلدی سے وہ پیپرز ضراب علی شاہ کے سامنے رکھ دیئے… 


ہممم اچھا… ضراب علی شاہ نے وہ پیپرز رائمہ کے ہاتھ سے پکڑے اور رائمہ کو بیٹھنے کے لئے کہا…. 


کبھی آپ نے زندگی میں اپنی کوئی غلطی مانی ہے کیا؟؟ 

ضراب علی شاہ نے رائمہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا… 


ایسی بات نہیں ہے سر آپ مجھے اب شرمندہ کر رہے ہیں… رائمہ جو پہلے گھبرائی ہوئی تھی بات کو ختم کرنے کے انداز میں بولی… 


اچھا…. جوجو بات آپ سمجھنے آئی ہیں یہ آپ کو visit پر ہی پتہ چلے گا.. آج ہم نے ایک event پر جانا ہے آپ بھی ساتھ ہو گی تو تب آپ کو سمجھا دو گا… ضراب علی شاہ نے رائمہ کو کہا…. 


سر کون سا visit آپ نے پہلے تو بتایا نہیں ہے.. میں گھر بتا کر آتی کہ آج دیر ہو جائے گی… رائمہ نے پریشانی سے کہا…. 


دیکھے محترمہ یہ ایک event management کی کمپنی ہے یہاں یہ سب چلتا رہتا ہے آپ کو یہاں انے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا…  اور اب اگلی بار آپ سے پوچھ کر کوئی visitرکھ لے گئے.. ضراب علی شاہ نے رائمہ کی طرف بغیر دیکھے کہا…. 


سر میرا یہ مطلب نہیں تھا…میں تو…. رائمہ کچھ کہتے ہوئے روک گی… 


اوکہ سر کوئی مسئلہ نہیں مجھے جانے میں… یہ کہہ کر رائمہ وہاں سے چلی گی… 


پاگل لڑکی… ضراب یہ کہہ کر مسکرا دیا… 


اب یہ کیا بات ہوئی کے ساتھ جانا ہے…. رائمہ اپنے روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا… 


لیکن قصور میرا بھی ہے جب ایسی کمپنی میں جاب کرو گی تو جانا ہی پڑے گا… 


ہیلو امی… رائمہ نے گھر کال کی… 

امی مجھے آج دیر ہو جائے گی آج افس کی طرف سے ایک جگہ visit پر جانا ہے.. رائمہ اپنی امی کو بتا رہی تھی… 


ٹھیک ہے بیٹا اپنا خیال رکھنا اور کوشش کرنا کے جلدی اجاؤ تمہیں اپنی چچی کا پتہ تو ہے…رائمہ کی امی نے اسے سمجھنے کے انداز میں کہا… 


جی امی ٹھیک ہے میں سمجھ گئی اپ اپنا خیال رکھیے گا اللہ حافظ… رائمہ نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا…. 


تھوڑی دیر بعد افس کا ڈرائیور آیا.. مس رائمہ ضراب صاحب آپ کا گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں. 


کیا میں سر ضراب کی گاڑی میں ان کے سات جاؤں گی.. رائمہ ایک دم چونک گی…. 

جی مس رائمہ… ڈرائیور یہ کہہ کر چلا گیا… 


لو رائمہ شیراز آج تو تم گی رائمہ نے سارے پیپرز پکڑے اور افس کے گیٹ سے نکل آئی.. 

جہاں ضراب علی شاہ گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا… 


رائمہ گاڑی کے پاس جا کر روک گی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ گاڑی میں بیٹھ جائے… 


ضراب علی شاہ گاڑی میں بیٹھے رائمہ کو دیکھ رہا تھا کہ کب اکر گاڑی میں بیٹھے جب کافی دیر ہو گئی تو ضراب علی شاہ گاڑی سے باہر نکلے اور رائمہ کی طرف آئے جو پتہ نہیں کن خیالوں میں گم تھی… 


محترمہ… ضراب علی شاہ نے رائمہ کے سامنے اتے ہوئے کہا… 


اپنے سامنے ضراب علی شاہ کو دیکھ کر رائمہ ڈر گی… 


آپ گاڑی میں بیٹھے گی یا اپ کو کوئی invite کرے گا… ضراب علی شاہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا… 


 سر ضراب آپ نے تو مجھے ڈرا دیا ہے… رائمہ یہ کہہ کر گاڑی کی طرف مڑی… 


کیا کہنا ہے محترمہ آپ کا بھی کب سے کھڑی تھی اور اب میں نے ڈرا دیا ہے wow. کیا لڑکی ہے… 

یہ کہہ کر ضراب علی شاہ گاڑی میں بیٹھ گئے… 


******جاری ہے* ****

#محبت_بنی_راکھ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 6


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


یہ ایک سالگِرہ کا event تھا جو ضراب علی شاہ کی کمپنی نے ارینج کیا تھا… 


ہر طرف غبارے اور مختلف قسم کی پھول لگے تھے جگہ بہت بڑی تھی…  اور بہت خوبصورت بھی لگ رہی تھی.. 

جس طرح اسے سجایا گیا تھا… 


رائمہ نے ایسا فنکشن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا… 


سر ضراب یہ تو بہت اچھی جگہ ہے اور اس کو جس طرح سجایا گیا ہے وہ اور بھی اچھا لگ رہا ہے… رائمہ نے جگہ کو دیکھتے ہوئے کہا…


یہ تو کچھ بھی نہیں ہے آو تمہیں ایک جگہ دیکھتا ہوں ضراب علی شاہ یہ کہہ کر چل پڑا اور ساتھ رائمہ بھی… 


یہ کتنا پیارا سٹیج ہے.. رائمہ نے اس جگہ کو دیکھا جہاں کیک ceremony ہونی تھی.. 


ہے تو پیارا.. اس میں کوئی شک نہیں… کیونکہ یہ ضراب علی شاہ کی کمپنی نے ارینج کیا ہے….. 

ضراب علی شاہ ابھی بات کر رہا تھا کہ اچانک کسی چیز کے پھٹنے کی آواز آئی…


رائمہ گھبرا کر ضراب علی شاہ کے گلے لگ گئی…


ضراب علی شاہ کو اسکی دل کی دھڑکن صاف محسوس ہورہی تھی جو ڈر کی وجہ سے تیز تیز دھڑک رہا تھا… 


ضراب علی شاہ نے رائمہ کو ڈرتے دیکھا تو اسکے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھرا….. 


کچھ نہیں ہوا کوئی دھماکہ نہیں ہوا شاید غبارے وغیرہ پھٹے ہیں سالگرہ کا event جو ہے گھبراو نہیں میں ہوں نہ آپ کے پاس….. 


ضراب علی شاہ رائمہ کو ایک چھوٹے بچے کی طرح تسلی دے رہا تھا…. 


رائمہ جو ضراب علی شاہ کے گلے لگی ہوئی تھی ایک دم سے ضراب علی شاہ کی آواز سن کر اپنے آپ کو ان   سے الگ کیا….. 


آپ نے تو میرا ڈریس ہی خراب کر دیا… ضراب علی شاہ اپنے ڈریس کو ٹھیک کرتے ہوئے….


سوری سر.. مجھے لگا شاید کوئی بم دھماکہ ہوا ہے میں ڈر گئی تھی…

 رائمہ کے لہجے میں اب شرمندگی تھی وہ اپنی اس حرکت پر خود کو کوس رہی تھی… 


کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے ایسے کھبی کھبی….

 آپ  اب تو ٹھیک ہے نہ… ضراب علی شاہ  رائمہ کی طرف مسکراتے ہوئے کہا…. 


جی سر میں ٹھیک ہوں.. رائمہ شرم سے منہ نہیں اٹھا  پا رہی تھی… 


چلیں اب آپ کو یہاں کے ممبران سے ملاقات کرواتا ہوں.. یہ کہہ کر ضراب علی شاہ چل پڑا… 


ویسے آپ ڈرتی بھی ہیں کیا..؟؟ 

حیرت کی بات ہے مجھے تو یہ ہی لگا تھا کہ آپ لوگوں کو ڈراتی ہیں… ضراب علی شاہ مسلسل رائمہ پر طنز کر رہا تھا…

 


رائمہ بیچاری اپنی اس حرکت کی وجہ سے کچھ بھی نہیں بول پا رہی تھی… 


وزٹ مکمل ہونے کے بعد دونوں آفس کی طرف چل پڑے… 


سر ضراب آپ مجھے کسی بس سٹاپ تک چھوڑ دیں… رائمہ نے ضراب علی شاہ کو کہا… 


بس سٹاپ پر وہ بھی اس وقت… ضراب علی شاہ نے رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


جی سر بہت دیر ہو گئی ہے میں اگے خود ہی چلی جاؤ گی.. رائمہ نے جلدی سے ضراب علی شاہ کو انپے لیٹ ہونے کا احساس دلایا… 


ہمممم لیٹ تو آپ ہو گی ہیں پر اپ کو بس سٹاپ تک چھوڑنے کا رسک میں نہیں لے سکتا ابھی آپ میری ذمہ داری ہیں… ایک غبارہ پھٹنے سے آپ ڈر گی تھی.. تو اس وقت آپ کو اسے چھوڑنا مناسب نہیں… ضراب علی شاہ ننے رائمہ کو کہا….


 

جانے انجانے میں ضراب علی شاہ کو رائمہ کی فکر ہو رہی تھی… 


نہیں سر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں میں چلی جاو گی… رائمہ کو فکر ہو رہی تھی کہ اگر چچی نے مجھے  سر  ضراب کے ساتھ دیکھ لیا تو قیامت لے آئیں گی…. 


کیا سوچ رہی ہیں آپ… ضراب علی شاہ نے رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


میں نے کوئی مشکل بات تو نہیں کی.. ہاں اگر آپ اپنا گھر نہیں دیکھنا چاہتی تو وہ الگ بات ہے… ضراب علی جو رائمہ کو confuse ہوئے دیکھ رہا تھا…

 


نہیں سر ضراب ایسی بات نہیں ہے آپ گھر بھی اسکتے ہیں میں تو ویسے ہی کہہ رہی تھی کہ آپ کو دیر نہ ہو جائے…. 


رائمہ   کے پاس اب اور کوئی بہنا نہیں تھا… اس لیے اس کو ضراب علی شاہ کی آفر قبول کرنی پڑی… 


تھینکس سر ضراب.. آئے چائے پی کر جائیں گا….. 

رائمہ نے رسمی طور پر کہا پر وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ سر ضراب انکار کر دیں… 


 نہیں مس رائمہ شیراز…  میں آپ کی اس آفر کو قبول کر لیتا پر مجھے ضروری کام ہے پھر کیسی دن ادھار رہی یہ چائے…

 

ضراب علی شاہ نے یہ کہہ کر گاڑی اسٹارٹ کی… 


اوکے سر.. رائمہ کی تو جیسے سانس میں سانس آئی.. 


اللہ حافظ سر… 

رائمہ یہ کہہ کر اندر چلی گی اور ضراب علی شاہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے… 


…….. 


یہ آج کیا ہوا تھا کتنی بیوقوف ہو میں ایک زرا سے شور سے ڈر گئی… اور پھر سر ضراب …

 اف اللہ یہ مجھے سے کیا ہو گیا.. وہ اتنے گھمنڈی ہیں کیا سوچتے ہوں گے میرے بارے میں مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی میں ان کا سامنا کیسے کرو گی….. آج تو بڑی مشکل سے وقت گزرا ہے کل کا اب سارا دن…

 

رائمہ بیڈ پر لیٹے سوچ رہی تھی… 


آپی کیا ہوا ہے آپ کو… حائمہ پاس کھڑے کب سے رائمہ کو بولا رہی تھی.. جس کا رائمہ کو زرا بھی اندازہ نہیں تھا… وہ ایک دم سے چونک گی.. 


نہیں.. نہیں تو مجھے کیا ہونا ہے.. بس تھک گئی ہوں آج میں اس لیے.. تم بتاؤ پڑھائی کیسی جا رہی ہے اور دانیال کی بھی… رائمہ نے بات کو ٹالتے ہوے کہا… 


ٹھیک جا رہی ہے پڑھائی ہم دونوں کی.. بس آپ ٹھیک نہیں لگ رہی حائمہ نے اپنی آپی کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا… 


کیا ہو گیا ہے حائمہ تم ایسے کیوں دیکھ رہی ہو… رائمہ 

نے حائمہ کو ڈانٹتے ہوے کہا… 


نہیں آپی میں تو بس یہ کہہ رہی ہو کی ہماری اب سردیوں کی چھٹیاں ہونے والی ہیں… حائمہ نے کتابوں کو بند کرتے ہوئے کہا… 


اچھی بات ہے مجھے بھی تھوڑا rest مل جائے گا صبح کو… 

رائمہ نے یہ کہہ کر سائیڈ تبدیل کی اور سونے کی کوشش کرنے لگی.. پر اب نیند اس کو نہیں آرہی تھی….. 

…….. 


ضراب علی شاہ ڈرائیو کرتے ہوئے رائمہ کے بارے میں سوچ رہے تھے اس کا گلے لگنا وہ ڈری سی.. سہمی سی.. سب ضراب علی شاہ کے دماغ میں چل رہا تھا… 


یہ مجھے کیا ہو گیا ہےمیں کیوں اس پاگل لڑکی کے بارے میں سوچ رہا ہوں… ضضراب علی شاہ ننے ایک جھٹکے سے اپنے آپ کو ان خیالات سے باہر نکلا… 

………. 


اسلام علیکم دادا جان… ضراب علی شاہ نے گھر داخل ہوتے دادا جان کو سلام کیا جو گارڈن میں اس کا انتظار کر رہے تھے… 


دادا جان آپ اتنی سردی میں باہر کیوں بیٹھے ہیں.. ضراب علی شاہ نے دادا جان کو گلے لگاتے ہوئے کہا… 


بس بیٹا میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا.. مجھے لگا کہ تم مجھ سے ناراض ہو گئے ہو.. دادا جان نے پیار سے ضراب علی شاہ کو کہا… 


کیسی باتیں کرتے ہیں آپ بھی دادا جان میں آپ سے کیسے ناراض ہو سکتا ہو چلیں اندر چل کر بات کرتے ہیں ویسے بھی کھانے کا وقت بھی ہو گیا ہے… 


ضراب علی شاہ داد جان کو اندر لے کر چلا گیا… 


رات کے کھانے کے بعد سب اپنے کمرے میں چلے گئے… 

 ضراب علی شاہ کو عجیب سی بےچینی لگی ہوئی تھی اسے خود سمجھ میں نہیں ارہا تھا… 


لگتا ہے آج سردی ذیادہ ہے اسی وجہ سے نیند بھی نہیں آرہی.. ضراب علی شاہ نے ہیٹر کو تیز کرتے ہوئے بولا… 


کہیں دادا جان کے کمرے میں سردی ذیادہ تو نہیں ہو گی پتہ نہیں انہوں نے ہیٹر آن کیا ہو گا کہ نہیں.. مجھے دیکھنا چاہیے… 

یہ کہہ کر ضراب علی شاہ دادا جان کے کمرے کی طرف گیا.. 


دادا جان کیسی سے فون پر بات کر رہے تھے…

 

 میں نے سمجھا ہے اسے پر وہ نہیں مان رہا مجھے ڈر ہے کہ میرے ذیادہ کہنے پر وہ غصے میں کچھ کر نا لے… پر تم بھی میری بات کو سمجھو…. دادا جان بات کرتے کرتے روک گے جب انہوں نے ضراب علی شاہ کو اپنے کمرے میں آتے دیکھا… 


 ضراب علی شاہ نے دادا جان کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی ایک دم روک گیا… دادا جان کس سے سے بات کر رہے تھے… 


 سب ٹھیک تو ہے نا… ضراب علی شاہ نے پریشان ہو کر دادا جان سے پوچھا… 


دادا جان نے فوراً فون بند کر دیا… 


جی بیٹا سب ٹھیک ہے بس گاؤں کے مسئلے… دادا جان نے بات کو ٹالتے ہوے کہا… 


پر آپ نے مجھے دیکھتے کال کیوں بند کر دی..

 ضراب علی شاہ نے سوالیہ نظروں سے دادا جان کی طرف دیکھا… 


ماشاءاللہ بیٹا جی اب آپ میری investigation کریں گے کیا… دادا جان نے بات کو ٹالتے ہوے کہا.. 


نہیں میں بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا آپ مجھے کچھ پریشان لگے اس لیے… میں تو آپ سے پوچھنے آیا تھا کہ آپ کو سردی ذیادہ تو نہیں لگ رہی… 


نہیں بیٹا.. ہیٹر آن ہے.. اب تم سو جاو صبح آفس کے لیے بھی نکلنا ہے.. دادا جان اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا… 


ٹھیک ہے دادا جان شب بخیر… 

ضراب علی شاہ دادا جان کے روم سے باہر نکل آیا… 

…… 


آج کا دن رائمہ کے لیے بہت مشکل تھا صبح وہ جب آفس آئی تو ضراب علی شاہ ابھی نہیں آئے تھے.. 


شکر ہے کہ وہ ابھی نہیں آئے.. رائمہ نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا… اوراور کافی لینے چلی گئی… 


مس رائمہ شیراز… 

رائمہ اپنا نام سن کر چونک گئ.. یہ کیسی اور کی آواز نہیں تھی.. یہ آواز ضراب علی شاہ کی تھی.. 


یہ کہاں سے آگے.. رائمہ confuse نہیں ہونا ہمت کرو ہمت.. رائمہ نے گہری سانس لی.. 


مس رائمہ شیراز میں آپ سے مخاطب ہوں… 

دوبارہ آواز انے پر رائمہ نے مڑ کر دیکھا… 


سر ضراب آپ… آپ یہاں کیا کر رہے ہیں.. رائمہ نے گھبراتے ہوئے کہا جو اسے خود سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا بول رہی ہے… 


کیا مطلب ہے آپ کا… آپ شاید بھول رہی ہیں یہ میرا آفس ہے اور میں کہیں بھی جا سکتا ہوں… ضراب علی شاہ نے غصے سے رائمہ کی طرف دیکھا…. 


جی سر ضراب آپ کا افس ہے… رائمہ نے آہستہ آواز میں جواب دیا.. 


میری بات نہ د

وہرائیں….اور کل کے پروجیکٹ کی ساری details میرے پاس لے کر آئیں جو احد رضا نے آپ کو دی تھی.. یہ کہہ کر ضراب علی شاہ وہاں سے چلا گیا… 



رائمہ چپ نہیں رہ سکتی کیا کچھ بھی بولتی جاتی ہو.. رائمہ نے اپنے آپ کو کوستے ہوئے کہا…. 


****جاری ہے* ***

#محبت_بنی_راکھ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 7


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


رائمہ  اپنے روم سے فائل لے کر نکلی… 


آپ کو نظر نہیں آتا کیا… رائمہ کی ٹکر ایک لڑکے سے ہوئی جو دیکھنے میں اچھی خاصی شکل وصورت کا تھا…


ہیلو میڈم آپ کے کہنے کا مطلب ہے مجھے نظر نہیں آتا.. اس نے رائمہ کی طرف غور سے دیکھ کر کہا … 

ویسے آپ جیسی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر کیسی کو کیا نظر آئے گا… وہ مسلسل رائمہ کی طرف دیکھ رہا تھا… 


رائمہ نے زمین سے فائل اٹھاتے ہوئے غصے سے اس لڑکے کی طرف دیکھا… جاتے ہوئے رائمہ نے اس کے پاؤں پر اپنی ہیل والی جوتی مارتے ہوئے بولی …


دیکھو مسڑ میرے ہاتھ بھی چلتے ہیں اور ساتھ پاؤں بھی تو اپنی نظروں کو سنبھال کر رکھیں… 


یہ کہہ کر رائمہ ضراب علی شاہ کے روم کی طرف چل پڑی.. 


کیا لڑکی ہے… حسن اور غرور ایک ساتھ واہ اللہ کی شان… یہ کہہ کر لڑکا وہاں سے چلا گیا… 


پتہ نہیں کہاں سے لوگ اٹھ کر آجاتے ہیں رائمہ بولتی جا رہی تھی.. 


کیا ہوا مس رائمہ.. نمرہ نے رائمہ کو ایسے بولتے دیکھا تو پوچھا… 


نہیں کچھ نہیں بس کوئی بدتمیز تھا.. تم سناؤ کیسی ہو رائمہ نے اپنے آپ کو پرسکون کرتے ہوئے نمرہ سے پوچھا.. 


میں ٹھیک ہوں.. آج lunch ساتھ میں کرے گے نمرہ نے رائمہ کو کہا… 

پھر وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تم بھی اپنا کام مکمل کر لو تب تک میں بھی فارغ ہو جاؤ گی.. نمرہ نے رائمہ کو جاتے ہوئے کہا..


اوکے سی یو ان لنچ.. رائمہ یہ کہہ کر وہاں سے ضراب علی شاہ کے روم کی طرف چل پڑی… 


میں اندر آسکتی ہو کیا.. رائمہ نے ضراب علی شاہ کے روم کا دروازہ نوک کرتے ہوئے پوچھا.. 


جی آجائیں.. اندر سے آواز آئی.. 


رائمہ جب اندر آئی تو سامنے کچھ مہمانوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا.. 


آئے مس رائمہ.. ضراب علی شاہ نے رائمہ سے فائل لیتے ہوئے کہا… 


تو آپ کا نام مس رائمہ ہے… اس لڑکے نے کہا جو کچھ دیر پہلے رائمہ سے ٹکرایا تھا… 


اس لڑکے کی بات پر ضراب علی شاہ ایک دم چونک گئے.. انہوں نے پہلے اس لڑکے کی طرف دیکھا پھر رائمہ کی طرف… 


کیا آپ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں کیا… ضراب علی شاہ نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا… 


رائمہ ابھی کچھ  بولتی.. اس لڑکے نے فوراً جواب دیا.. 


نہیں بلکل بھی نہیں.. آپ نے نام لیا تو میں نے ایسے ہی بول دیا.. آپ تعارف نہیں کروائے گئے ان کا ضراب بھائی…


اس لڑکے نے جب ضراب علی شاہ کو  بھائی کہا تو رائمہ نے دونوں کی طرف دیکھا… یہ سر ضراب کا بھائی ہے… ویسے ہو گا بھی..

 ایک گھمنڈی دوسرا بدتمیز… رائمہ نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے بات کرتے ہو کہا… 


کیوں نہیں.. سر ضراب نے رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اس لڑکے کو غصے سے دیکھ رہی تھی.. 


یہ ہماری نئی اسسٹنٹ ہے  مس رائمہ شیراز… اور مس رائمہ یہ ہمارے ریحان شاہ ہیں اس کمپنی کے شئیر ہولڈر…  ضراب علی شاہ نے تعارف کرواتے ہوئے کہا… 


آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ آپ کا بھائی بھی ہو…  ریحان شاہ نے ضراب علی شاہ کو کہا.. 


جی بالکل بھائی بھی ہیں میرے پھپھو کے بیٹے…  ضراب علی شاہ نے بات ختم کرنے کے انداز میں کہا.. 


آپ سے مل کر خوشی ہوئی.. رائمہ نے رسمی طور پر کہا.. 


اچھا آپ کو خوشی بھی ہوتی ہے لوگوں سے مل کر.. ریحان شاہ بڑی بےتکلفی سے رائمہ سے بات کر رہا تھا.. 


جو ضراب علی شاہ کو زرا بھی پسند نہیں آیا… 

آپ جا سکتی ہیں ضراب علی شاہ نے رائمہ کو جانے کا کہا..


رائمہ جلدی سے ضراب علی شاہ کے روم سے نکل گئی کیونکہ کہ وہ پہلے ہی اسی انتظار میں تھی کہ وہاں سے کس طرح جائے… 


ارے بھائی کیوں جانے دیا ابھی تو بات شروع ہی ہوئی تھی… ریحان شاہ نے ضراب علی شاہ اور احد رضا کی طرف دیکھتے ہوے کہا 


مجھے نہیں پتہ تھا کہ پاکستان میں بھی اتنا حسن ہے.. ماشاءاللہ 

 ریحان شاہ بول رہا تھا پر ریحان شاہ کی باتیں ضراب علی شاہ کو تیر کی طرح چھب رہی تھی… 

_______*


ریحان شاہ ضراب علی شاہ کے پھپھو کا بیٹا تھا.. باپ کے رشتے داروں میں سے صرف یہ ہی ان سے ملتے تھے فیملی میں بڑے ہونے کی وجہ سے…..باہر کے ملک سے پڑھائی کرنے کی وجہ سے ریحان شاہ کچھ آزاد خیال تھا…


احد رضا نے جب ضراب علی شاہ کے چہرے پر غصہ دیکھا تو بولا… 


چھوڑو یار کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو آج ہی آئے ہو تو چلو کہیں باہر لنچ کرتے ہیں کیوں ضراب… 


ضراب علی شاہ جو اپنے غصے پر قابو پا رہا تھا جواب دیا.. 

ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو.. چلو چلیں.. 


ضراب علی شاہ ایک دم سے اٹھ گیا…

 

ابھی تو کافی ٹائم ہے ریحان شاہ نے احد رضا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


احد رضا نے آج سے پہلے ضراب علی شاہ کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا..


کوئی بات نہیں تم کو گھومنا بھی تو ہے نہ تو تب تک لنچ کا ٹائم بھی ہو جائے گا.. احد رضا نے حالات کو سنبھالتے ہوئے کہا… 


ہاں یہ بھی ہے… اب تو آنا جانا لگا رہے گا.. ریحان شاہ یہ کہہ کر اٹھ گیا… 


کیا کہا تم آفس آؤ گے.. ضراب علی شاہ نے ریحان شاہ کو حیرت سے دیکھا… 


کیوں بھائی نہیں اسکتا کیا.. ریحان نے جواب میں ضراب علی شاہ کو کہا…. 


نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا… چلو چلیں.. یہ کہہ کر تینوں آفس سے باہر اگے….. 


 ریحان شاہ آفس سے نکلتے ہوے کیسی کو ڈھونڈنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا…. 


کیا ہوا کیسی کو ڈھونڈ رہے ہو… احد رضا نے ریحان شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


نہیں میں آفس کو دیکھ رہا تھا کافی اچھا بنایا ہے.. ریحان شاہ نے بات کو ٹالتے ہوے کہا… 


پر ضراب علی شاہ کو اس کی بات سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کیا ڈھونڈ رہا ہے…… 

______________*


 رائمہ اور نمرہ کنٹین میں بیٹھی لنچ کر رہی تھی… 


سر ضراب شروع سے ایسے ہی ہیں کیا غصے میں رہنے والے رائمہ نے نمرہ سے پوچھا.. 


ہاں جب سے میں ان کے ساتھ کام کر رہی ہوں تو وہ ایسے ہی ہیں اپنے اصولوں کے پابند اور سنجیدہ رہنے والے… 


پر یہ ایسے کیوں ہیں کوئی تو وجہ ہوگی.. رائمہ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا.. 


وجہ تو مجھے بھی نہیں پتہ بس یہ ہی پتہ ہے کہ کچھ فیملی کے مسئلوں کی وجہ سے ایسے ہو گئے ہیں… نمرہ نے جواب دیا.. 


اچھا پھر سر ضراب کی ان کے والدین سے نہیں بنتی ہو گی رائمہ نے اپنی طرف سے سمجھ داری سے کہا.. 


نہیں یہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہتے اپنے دادا جان کے ساتھ رہتے ہیں وہ بہت اچھے انسان ہیں آتے رہتے ہیں وہ آفس تم بھی ملو گی تو دیکھ لینا he is nice person یہ کہہ کر نمرہ چائے لینے کے لئے اٹھ گی..


 

تم پیو گی چائے.. نمرہ نے رائمہ سے پوچھا جو کیسی سوچ میں گھم تھی… 

ہاں ٹھیک ہے لے آؤ… 

رائمہ نے جواب دیا.. 


کوئی کیسے اپنے والدین کے بغیر رہ سکتا ہے عجیب بات ہے یہ تو.. رائمہ نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا… 

_____*


رائمہ  آج جلدی گھر اگی تھی اس کی امی کی طبعیت خراب تھی.. اسی وجہ سے وہ صبح سے پریشان تھی.. 


امی اب آپ کی طبعیت کیسی ہے.. رائمہ نے آتے ہی امی سے پوچھا.. 


کافی بہتر ہوں اب.. آپ بتاؤ آفس کیسا جا رہا ہے سٹڈی بھی کر رہی ہو نہ ساتھ.. 


امی آپ پریشان نہ ہوں میں سٹڈی بھی کر رہی ہوں آپ بس اپنا خیال رکھیں اور شام میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ گی آپ تیار رہیے گا… 


رائمہ نے اپنی امی کو چائے بنا کر دی اود ساتھ کتابیں لے کر پڑھنا شروع کر دیا… 

_______*


ضراب علی شاہ نے ریحان شاہ کو لنچ کروا کر اس کے گھر پر چھوڑا اور خود احد رضا کے ساتھ پروجیکٹ سائیڈ پر نکل گیا… 


احد رضا جو آج ضراب علی شاہ کے رویہ سے تھوڑا پریشان تھا اس سے رہا نہیں گیا اور ضراب علی شاہ سے پوچھ ہی لیا… 


ضراب مجھے ایک بات تو بتاؤ… 


ہاں پوچھو… ضراب علی شاہ نے دھیمے لہجے میں جواب دیا.. 


آج تمہیں کیا ہوا تھا بڑا عجیب سا رویہ تھا تمہارا ریحان شاہ کے ساتھ… سارے رستے تم نے اس سے کوئی بات نہیں کی اور لنچ میں بھی عجیب عجیب باتیں کر رہے تھے.. 

احد رضا ضراب علی شاہ کے جواب سنے کے لیے بےتاب تھا… 


نہیں یار بس سر میں تھوڑا درد ہے بخار بھی محسوس ہو رہا ہے.. شاید اس لیے.. ضراب علی شاہ نے تھکے انداز سے کہا… 


او تمہیں تو بہت تیز بخار ہے چلو سیدھا ڈاکٹر کے پاس.. احد رضا نے ضراب علی شاہ کا  ہاتھ پکڑا تو وہ بخار سے تپ رہا تھا.. 


نہیں احد میں ٹھیک ہو جاؤ گا گھر جا کر آرام کرو گا تو fit ہو جاؤ گا.. ضراب علی شاہ نے احد رضا کی بات کو ٹالتے ہوے کہا.. 


نا یہ کوئی بہنا نہیں چلے گا دادا جان کا پتہ ہے نا انہوں نے میری اچھی خاصی کلاس لے لینی ہے سیدھا ڈاکٹر کے پاس چلو نہیں تو میں کرو دادا جان کو کال… احد رضا نے ہاتھ موبائل اٹھاتے ہوئے دھمکی والے لہجے میں کہا….. 


یار تم بھی نہ باز نہیں آؤ گے ٹھیک ہے چلتے ہیں.. ضراب علی شاہ کو پتہ تھا کہ احد رضا اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جا کر ہی سانس لے گا اس لیے بحث کرنا فضول تھی… 


احد رضا اور ضراب علی شاہ ہسپتال پہنچ گئے.. 


ابھی ضراب علی شاہ کے چیک اپ میں تھوڑا وقت تھا… 


مجھے لگ رہا ہے کہ تمہیں سردی لگ گئی ہے جب تک تمہارا چیک اپ نہیں ہو جاتا میں کافی لے کر آتا ہوں.. یہ کہہ کر احد رضا وہاں سے چلا گیا… 


ہسپتال کے گیٹ سے نکلتے ہوئے احد رضا نے رائمہ کو دیکھا جو اپنی امی کے ساتھ ہسپتال آئی تھی… 


یہ تو مس رائمہ شیراز لگ رہی ہیں.. احد رضا نے رائمہ کو دور سے آتے دیکھ کر کہا.. 


کیا ان کے پاس جاؤ ٹھیک رہے گا یا نہیں.. ابھی وہ یہ سوچ رہا تھا کہ رائمہ احد رضا کے پاس اگی.. رائمہ نے بھی احد رضا کو دیکھ لیا تھا.. 


سلام علیکم سر احد… 


وعلیکم السلام مس رائمہ… خیریت ہے آپ ہسپتال آئی ہیں 


احد رضا نے ہمدردی سے پوچھا.. 


سر ان سے ملیں یہ میری امی ہیں اور امی یہ میرے باس ہیں.. رائمہ نے دونوں کو ایک دوسرے کا تعارف کروایا… 


امی کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لیے ان کو چیک کروانے آئی تھی.. 


کیسی ہیں آپ آنٹی جی.. اللہ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے.. احد رضا نے رائمہ کی امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 


شکریہ بیٹا.. بس تھوڑی سی طبیعت خراب تھی یہ ضد کر کے لے آئی ہے.. 


نہیں آنٹی جی آپ کو چیک اپ کروانا چاہے موسم بھی کافی ٹھنڈا ہے… 


ضراب کو بھی بخار ہو گیا ہے میں اسی کے ساتھ آیا ہوں.. احد رضا نے رائمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 


کیا سر ضراب کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے کیا ہوا ان کو.. رائمہ ایک دم سے چونک گی.. 


مس رائمہ پریشان نہ ہوں میں نے بتایا تو ہے کہ اس کو بخار ہے.. احد رضا رائمہ کے اس رویہ سے حیران تھا.. 


ٹھیک ہے آنٹی جی پھر ملاقات ہو گی آپ اپنا خیال رکھیے گا اپ سے مل کر اچھا لگا.. احد رضا نے اجازت مانگی اور پھر کافی لینے چلا گیا…

 


رائمہ اپنی امی کے ساتھ انداز ڈاکٹر کے پاس چلی گئی… 


یہ لیں جناب آپ کی چائے.. احد رضا نے ضراب علی شاہ کو چائے دیتے ہوئے کہا.. 


کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر صاحب آگے اور ضراب علی شاہ نے اپنا چیک اپ کروایا.. اور وہ دونوں وہاں سے نکل آئے… 

_____*


ہاں یار ضراب مجھے یاد آیا تمہیں بتنا ہی بھول گیا تھا.. ہسپتال میں مس رائمہ آئی تھی..

 احد رضا نے ضراب علی شاہ کو کہا.. جو  گاڑی کی سیٹ پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا.. 


کیا کہا.. ضراب علی شاہ ایک دم سے چونک گیا.. تم نے وہاں کیوں نہیں بتایا مجھے کیوں آئی تھی وہ ہسپتال… 


آرام سے میرے بھائی پریشان کیوں ہو رہے ہو… احد رضا نے ضراب علی شاہ کی حالت دیکھی تو بولا.. 


نہیں تو پریشان تو نہیں ہوں ویسے ہی کہا.. ضراب علی شاہ جو چونک گیا تھا اب دھیمے لہجے میں بولا… 


اسکی امی کی طبعیت خراب تھی ان کو لے کر آئی تھی.. بس گیٹ پر تھوڑی بات ہوئی اور بس… 


اوکے… اللہ ان کو صحت دے.. ضراب علی شاہ ننے مختصر سا جواب دیا اور پھر آنکھیں بند کر لی… 


لو جناب آپ کا گھر آگیا.. احد رضا نے ضراب علی شاہ کو اٹھایا جو انجکشن کے اثر سے سو رہا تھا.. 


آجاؤ اندر احد رضا ضراب علی شاہ کو گھر کے اندر لے گیا… 


سلام علیکم دادا جان کیسے ہیں احد رضا نے آتے ہی دادا جان کو سلام کیا.. 


وعلیکم السلام بیٹا میں ٹھیک ہوں تم کیسے ہو.. 


میں تو ٹھیک ہو داد جان پر آپ کے اس پوتے کو بخار ہو گیا تھا تو میڈیسن لے کر آئیں ہیں.. 


دادا جان احد کی اس بات پر پریشان ہو گئے.. 


کچھ نہیں ہوا دادا جان آپ کو احد کا تو پتہ ہے نہ چھوٹی بات کو بھی زیادہ سیریز لے لیتا ہے ضراب علی شاہ نے دادا جان کو پریشان دیکھا تو بولا.. 


بیٹا تم اپنا زرا بھی اپنا خیال نہیں رکھتے کتنی بار کہا ہے تمہیں.. دادا جان جو پریشانی میں ضراب علی شاہ کو دیکھ رہے تھے.. 


آپ فکر نہ کریں دادا جان آج میں یہاں ہی ہوں آپ کے پوتے کو ٹھیک کر دوں گا.. احد رضا نے دادا جان کی طرف مسکرا کر کہا.. 


احد رضا ضراب علی شاہ کے ساتھ اس کے کمرے میں چلا گیا. 

______*


رائمہ کو پتہ نہیں ضراب علی شاہ کی فکر ہو رہی تھی… 


آپی کیا ہوا ہے کن سوچوں میں گم ہیں.. رائمہ کی چھوٹی بہن نے کہا.. 


نہیں کچھ نہیں امی کو میں دیکھ کر آئی.. یہ کہہ کر رائمہ وہاں سے اٹھ گئی… 

______*


سر کیا میں اندر آسکتی ہوں.. اگلے دن رائمہ نے آفس اتے ہی ضراب علی شاہ کے پاس چلی گئی… 


جی آجائیں… 


رائمہ کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں ایک کپ تھا اس نے روم میں آتے ہی وہ کپ ضراب علی شاہ کے سامنے رکھ دیا… 


یہ کیا ہے.؟؟ ضراب علی شاہ نے کپ کی طرف دیکھتے ہوئے رائمہ سے پوچھا… 


****جاری ہے* *****

#محبت_بنی_راکھ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 8


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


سر ضراب یہ ایک خاص قسم کا قہوہ ہے.. اس سے بخار جلدی اتر جاتا ہے… رائمہ نے سر ضراب کو کہا.. 


میں نے آپ کو یہ لانے کے لیے کہا تھا کیا… اور آپ کو کس نے بتایا کہ  مجھے بخار ہے… ضراب علی شاہ نے غصہ میں رائمہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا… 


وہ سر ضراب میں…..


  رائمہ کی تو جان نکل گی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسکے جسم میں جان ہی نہیں ہے اسے اپنی اس حرکت پر افسوس ہو رہا تھا..


اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ زور زور سے روۓ پر اپنے آپ پر قابو رکھا ہوا تھا… 

رائمہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہے… 


اب آپ یہاں میری شکل کیوں دیکھ رہی ہیں جائیں یہاں سے…


 ضراب علی شاہ نے رائمہ کو دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا.. 


اوکے سر ضراب میں یہ لے جاتی ہوں… 


رائمہ نے ٹیبل سے کپ اٹھایا اور جانے کے لیے مڑی…. 


روکیں مس رائمہ…

 ضراب علی شاہ کی آواز سے رائمہ روک گی… 


یہ کپ یہاں رکھ دیں اور جائیں  اپنا کام مکمل کریں اور آئندہ یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھ گی آپ… 


جی سر ضراب… 


رائمہ بغیر کچھ کہے وہاں سے نکل آئی… 


ضراب علی شاہ نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پن کو زور سے ٹیبل پر مارا… 


کیا ہے یہ سب ایک چائے کا کپ ہی لے کر آئی تھی کیوں بول پڑا اس پر… 


اسکا معصوم چہرہ ضراب علی شاہ کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا.. 


ضراب علی شاہ اپنے رویے پر شرمندہ تھا… اس کو آج پہلی بار اپنے غلط رویے کا احساس ہوا تھا… 


_________*


بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے…


 میں نے سوچا کہ گھر میں اکیلے ہوں گے پتہ نہیں کسی نے دھیان رکھا بھی ہو گا کہ نہیں.. اس لیے قہوہ لے گی.. 


تو بھی پاگل ہے رائمہ ایسے انسان کے بارے میں سوچ رہی ہو جو ایک نمبر کا گھمنڈی ہے…. 

بدتمیز ہے… 

انا پرست…. 

غرور تو جیسے کوٹ کوٹ کے بھارا ہوا ہے… 


رائمہ مسلسل بولی جا رہی تھی کی اچانک کسی نے آواز دی… 


کس کو اتنا سنایا جا رہا ہے ہے….. 


رائمہ نے اپنی آنکھیں ایک دم بند کر لی جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو… 


سر احد آپ…


رائمہ نے آنکھیں کھولتے ہی اپنے سامنے احد رضا کو کھڑے ہوئے دیکھا… 


کیا بات ہے مس رائمہ آپ اتنا ناراض کیوں ہیں کسی نے کچھ کہا کیا.. 

احد رضا نے ہمدردی سے رائمہ کو پوچھا… 


نہیں سر احد ایسی کوئی بات نہیں وہ بس…. 

رائمہ کہتے کہتے روک گی… 


او اچھا میں سمجھ گیا.. ضراب علی شاہ نے کچھ کہا ہے.. 


رائمہ اس بات پر چپ رہی… 


اوکے چل گیا پتہ… پر تم پریشان نہ ہو ضراب کی عادت ایسی ہے اور اس کا غصہ بھی وقتی طور پر ہوتا ہے… 


جی سر احد… 

رائمہ بس اتنا ہی جواب دے سکی.. 


احد رضا یہ کہہ کر رائمہ کے روم سے چلا گیا… 


تو جناب کی طبعیت کیسی ہے اب…

 احد رضا نے روم میں آتے ہی ضراب علی شاہ کو کہا… 


ٹھیک ہوں اب… ضراب علی شاہ جو گہری سوچ میں گم تھا… 


اچھا تم نے رائمہ سے اسکی امی کی طبعیت پوچھی کیا؟؟ 


کیوں کہ کل میں نے اسے بتایا تھا کہ تم میرے ساتھ ہو تمہیں بخار ہے چیک اپ کے لیے آئے ہیں… 


احد رضا کے منہ سے جب ضراب علی شاہ نے یہ بات سنی کہ احد رضا نے کل رائمہ کو بتایا تھا.. تو وہ ایک دم چونک گیا… 


کیا کہا تم نے… کیا تم نے رائمہ کو بتایا تھا میرا… 


ہاں میں نے بتایا تھا کیوں نہیں بتانا چاہے تھا کیا..


 احد رضا نے حیرت سے ضراب علی شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


نہیں یار… یہ کیا ہو گیا مجھ سے..

 میں بلا وجہ اس پر بول پڑا.. ضراب علی شاہ نے کر سی پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا… 


اچھا اچھا اس لیے وہ….. احد رضا کہتے کہتے روک گیا… 


ویسے ضراب تم بھی کمال کرتے ہو.. اتنی سی بات پر بول گئے اسے.. کیوں اسکو بھی یہاں سے بھاگنے کا ارادہ ہے.. 


احد رضا نے ضراب علی شاہ کو غور سے دیکھا جو کچھ 

اپ سیٹ لگ رہا تھا… 


نہیں احد ایسی بات نہیں ہے… تمہیں تو پتہ ہے کی مجھے ان سب باتوں کی عادت نہیں ہے.. بس ہوگیا… 


اس بیچاری کی تو امی کی طبعیت بھی نہیں ٹھیک تو اوپر سے تم نے اسے سنا بھی دی… احد رضا نے ضراب علی شاہ کو اس کی غلطی کا احساس دلاتے ہوئے کہا….. 

 


چلو اب چلتے ہیں پہلے کافی دیر ہو گئی ہے احد رضا نے ضراب علی شاہ کو کہا ان کی آج ایک جگہ میٹنگ تھی.. 


ہاں ٹھیک ہے تم چلو میں آتا ہوں… 


ضراب علی شاہ نے احد رضا کو کہا… 


اور احد رضا وہاں سے اٹھ گیا… 


روم سے نکلتے ہوئے ضراب علی شاہ نے رائمہ کے روم کی طرف دیکھا… 


کچھ قدم ہی اگے گیا پر پھر وہی روک گیا اس کے اندر ہمت نہیں تھی یا اس کی ego نے اسے اگے نہیں جانے دیا 

_____*


سارے رستے ضراب علی شاہ یہی سوچتا رہا…

 وہ چپ تھا پر اس کے اندر کا انسان اسے ملامت کر رہا تھا…. 


کیا ہو گیا ہے ضراب علی شاہ تجھے کیوں اتنا کیسی کے بارے میں سوچ رہے ہو…. یہ بھی ویسی ہی ہے دھوکہ دینے والی عورت کی ذات جو صرف اپنا فائدہ سوچتی ہے… 


اب اور نہیں…. میری زندگی میں کیسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے… 

ضراب علی شاہ کبھی بھی کیسی کے اگے جھک نہیں سکتا… 


اور آخر کار ضراب کی انا اس کی سوچ ہر حاوی ہو گی… 

آج پھر کیسی انسانیت کا خون کر کے ضراب علی شاہ بہت مطمئن ہوگیا تھا… 


*****جاری ہے* *

#محبت_بنی_راکھ ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 9


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


ہیلو beautiful کیسی ہو… ریحان شاہ نے افس کے اندر انٹر ہوتے ہوئے reception والی لڑکی کو کہا… 


میں ٹھیک ہوں سر ریحان…

 ویلکم ٹو آفس…. 

اس لڑکی نے مسکراتے ہوئے ریحان شاہ کو کہا… 


سر ریحان سب باہر وزٹ پر گئے ہیں… 

لڑکی نے ریحان کے ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ دیکھا تو بولی… 


اڑس اوکے beautiful میں کیسی اور سے ملنے آیا ہوں hope so وہ آج آفس میں ہو… 


ریحان شاہ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا…. 

مس رائمہ کا روم کس سائیڈ پر ہے… 


سر وہ اگے جاکر left side پر پہلا روم ان کا ہے


تھینکس ڈیئر….. 


لڑکی نے ایک مسکراہٹ دی اور اپنے کام میں busy ہو گی… 


کیا آپ کی اجازت ہو تو میں اندر اسکتا ہو.. 


ریحان شاہ نے رائمہ کے روم کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا… 


ریحان شاہ کو دیکھ کر رائمہ ایک دم چونک گی…. 


 آپ ڈرے مت میں کوئی جن نہیں ہوں.. 

ریحان شاہ نے رائمہ کی طرف مسکراتے ہوئے کہا… 


رائمہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے ایک لحاظ سے وہ اسکے باس بھی تھے 


نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے.. 


آپ آجائیں اندر یہ کہہ کر رائمہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی… 


تھینکس مس رائمہ…

 اسکے ساتھ ریحان شاہ اندر آگیا.. 


 یہ آپ کے لیے…


 ریحان شاہ نے پھولوں کا گلدستہ رائمہ کی طرف کیا.. 


یہ کس لیے سر ریحان..

 رائمہ نے حیرت سے ریحان شاہ کو دیکھا.. 


دراصل اس دن ہماری ملاقات کچھ ٹھیک نہیں ہوئی تھی مجھے لگا کہ اسکو تھوڑا ٹھیک کرلیا جائے… 


ریحان  مسلسل رائمہ کی طرف دیکھ رہا تھا 

رائمہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرے.. 


دیکھنے میں تو سر ریحان اچھی نیچر کے لگ رہے ہیں.. ان سے یہ لو یا نہ لو… 

رائمہ جو ریحان شاہ کے اس رویے کو دیکھ کر سوچ میں پڑ گئی.. 


تھینکس سر ریحان..

 رائمہ نے ریحان شاہ سے پھولوں کا گلدستہ لیتے ہوئے کہا… 


شکریہ مس رائمہ آپ نے یہ تحفہ قبول کر کے میری اس دن کی غلطی کو معاف کر دیا ہے نا.. 


جی سر ریحان.. رائمہ یہ کہہ کر مسکرا دی… 


_______*


ارے یہ تو ریحان شاہ ہے….. 


ضراب علی شاہ اور احد رضا وزٹ سے واپس اگے تھے اور اپنے روم کی طرف جاتے ہوئے ان کی نظر رائمہ کے روم میں پڑ ی… 


ضراب علی شاہ نے جب ریحان شاہ کو اندر بیٹھے دیکھا تو بغیر اجازت کے کمرے میں داخل ہو گیا… 


سر ضراب آپ.. 


رائمہ ایک دم سے اپنی سیٹ سے اٹھ گئی.. 


کیوں میں نہیں اسکتا یہاں پر.. 

ضراب علی شاہ نے ٹیبل پر پڑے پھولوں کے گلدستے کو دیکھتے ہوئے کہا…

 

یا یہاں کوئی پرائیویٹ میٹنگ چل رہی ہے… 


ضراب علی شاہ کی اس با ت پر احد رضا کو بڑی حیرت ہوئی.. 


ضراب… یہ کیا کہہ رہے ہو.. 

احد رضا نے ضراب علی شاہ کو اشارہ کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا… 


نہیں سر ضراب وہ سر ریحان آپ کا انتظار کر رہے تھے اس لیے… 


رائمہ نے ضراب علی شاہ کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں غصے سے لال ہو رہی تھی… 


آؤ ریحان آفس میں چل کر بات کرتے ہیں.. 

احد رضا نے  ریحان شاہ کو افس آنے کا کہا.. 


اوکے چلو.. 

ریحان شاہ یہ کہہ کر ضراب علی شاہ کے روم کی طرف چل پڑا… 


سر ضراب کو کیا ہوا تھا ایسے کیوں بات کر رہے تھے.. 

رائمہ جو ضراب علی شاہ کے اس رویے سے پریشان ہو گی تھی.. 


خیر بڑے لوگوں کی یہ ہی باتیں تو سمجھ میں نہیں آتی.. 

یہ کہہ کر رائمہ نے پھولوں کو گلدان میں رکھ دیا… 


ضراب بھائی آپ میرا روم کب تک تیار کروا دیں گے… ریحان شاہ نے ضراب علی شاہ کو کہا… 


تم واقعی میں آفس آنے والے ہو…

ضراب علی شاہ نے فوراً جواب دیا… 


 مطلب کہ ابھی تو آئے ہو باہر سے تھوڑا گھوم پھر لو پھر آجانا افس تب تک تمہارا روم بھی سٹ ہو جائے گا… 


ضراب علی شاہ نے ریحان شاہ کو دیکھتے ہوئے کہا.. 


کیونکہ ضراب علی شاہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ افس جوائن کرے.. 


چلو کوئی بات نہیں میں تب تک آپ کے روم میں بیٹھ جاؤنگا…

 ریحان شاہ نے اپنی طرف سے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا… 


میرے روم میں…

 ضراب علی شاہ نے چونک کر ریحان شاہ کی طرف دیکھا.. 


ریحان تم میرے ساتھ اجاؤ میں ویسے بھی اکثر وزٹ پر ہوتا ہوں… توتم میرا روم استعمال کر سکتے ہو.. جب تک تمہارا روم تیار نہیں ہو جاتا…. احد رضا نے ریحان شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 


یہ بھی ٹھیک ہے..

 ریحان شاہ احد رضا کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا… 


اچھا ضراب بھائی آج امی جان نے آپ سب کو رات کے کھانے پر بلوایا ہے…  ریحان شاہ نے ضراب علی شاہ کو کھانے کی دعوت دی جو اس کی امی نے کہا تھا.. 


ضراب علی شاہ جو فیملی والوں سے کم ہی ملتا تھا اس بار ریحان شاہ کی دعوت کو فوری قبول کر لیا… 


اوکے ٹھیک ہے میں گھر جا کر دادا جان کو بتا دوں گا… ضراب علی شاہ نے ریحان شاہ کو جواب دیا 

 

اچھا میں اب چلتا ہوں رات کو ملاقات ہوتی ہے.. یہ کہہ کر ریحان شاہ وہاں سے چلا گیا… 


ضراب تم ٹھیک تو ہو نہ… احد رضا نے  ضراب علی شاہ کو پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا… 


ہاں میں ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے… 


آج تم عجیب عجیب سی باتیں کر رہے ہو.. اور ہاں یہ تمہیں ریحان شاہ سے کیا مسئلہ ہے تمہاری باتوں سے صاف لگ رہا ہے کہ تم اسے آفس آنے سے روک رہے ہو یہ چل کیا رہا ہے کچھ بتائیں گے آپ ضراب علی شاہ صاحب… 


احد رضا نے  ضراب علی شاہ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا… 


میں کیوں روکو گا اسے اس کا بھی افس ہے اسکتا ہے.. میں تو بس یہ چاہ رہا تھا کہ وہ  easy ہو جائے اتنی بھی کیا جلدی ہے افس آنے کی کون سا اس کے نا آنے سے کام روک جائے گا… 


ضراب علی شاہ نے بات کو ٹالتے ہوے کہا…

 


پر ضراب علی شاہ اس جلن کو کیسے چھپا پاتا جو ٹیبل پر رکھے ہوئے ان پھولوں سے ضراب علی شاہ کو ہوئی تھی.. 


امید کرتا ہوں کہ یہ ہی بات ہو.. پر مجھے نہیں لگتا احد رضا لمبی سانس لیتے ہوئے کہا نے….. 


______*


آؤ رائمہ…. 

نمرہ نے رائمہ کو اپنے روم کی طرف آتے ہوئے دیکھا.. 


ہاں میں نے کام مکمل کر لیا تھا فارغ بیٹھی تھی تو سوچا کہ تمہارے ساتھ چائے پی لو…

 

رائمہ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا… 


اچھا کیا میں ابھی منگواتی ہو چاہے نمرہ نے چاۓ منگوانے کے لیے فون اٹھایا…. 


_____*


ضراب علی شاہ اپنے روم سے باہر کی جانب نکلتے ہوئے اس کی نظر رائمہ کے روم پر پڑ ی.. 


جس کی ٹیبل پر گلدان میں رکھے پھول ضراب علی شاہ کو کسی کانٹے کی طرح چھب رہے تھے…. 


ضراب علی شاہ نے جب دیکھا کہ رائمہ اپنے روم میں نہیں ہے تو وہ روم میں آگیا… 


دل تو کرتا ہے کہ اس پھولوں کو اگ لگا دوں.. کوئی کسی کو جانے بغیر پھول کیسے لے سکتا ہے.. 


ضراب علی شاہ پھولوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولتا جا رہا تھا…. 


مدثر… مدثرمدثر…… ضراب علی شاہ نے آفس بوائے کو غصے میں آوازیں دی… 


جی سر… مدثر گھبرا کر آیا… 


یہ پھول اٹھاو یہاں سے اور باہر ڈسٹ بین میں پھینک کر آو…

  ضراب علی شاہ نے غصے سے پھولوں کا گلدستہ مدثر کی طرف کیا… 


پر سر یہ تو ابھی تازہ ہیں.. 


میں نے تم سے پوچھا کیا کہ یہ تازہ ہیں کہ نہیں…

 ضراب علی شاہ نے غصے میں مدثر کو ڈانٹ دیا… 


جاؤ جو کہا ہے وہ کرو جا کر… یہ کہہ کر ضراب علی شاہ آفس سے باہر نکل گیا… 


آفس کا آف ٹائم ہو گیا تھا.. 


رائمہ نمرہ کے روم سے باہر آتے ہوئے.. 


چلو میں اب چلتی ہوں کل ملاقات ہوتی ہے… 

رائمہ نے جاتے ہوئے نمرہ کو کہا… 


اوکے میرے لیے روکو میں بھی آتی ہوں ساتھ میں نکلتے ہیں.. 


ٹھیک ہے رائمہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئ.. 


یہ کیا..

 پھول کہاں گئے… 

رائمہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا.. 

ابھی تو یہاں رکھ کر گی تھی میں… 

رائمہ نے ٹیبل کے نیچے دروازے کے پیچھے ہر جگہ دیکھ لیا پر پھول کہیں بھی نہیں ملے… 


 ابھی وہ یہ بات سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ  پھول کہاں گئے اتنے میں نمرہ کی آواز آئی.. 


چلو رائمہ…. 


ہاں ٹھیک ہے آرہی ہوں.. رائمہ نے بیگ اٹھایا اور اسی سوچ میں آفس سے باہر آگئی کہ پھول کہاں جا سکتے ہیں… 

_______*


ہیلو ladies کیا میں آپ کو لفٹ دے سکتا ہوں…


 احد رضا نے نمرہ اور رائمہ کو جب ایک ساتھ آفس سے نکلتے ہوئے دیکھا تو بولا… 


نہیں مسٹر احد رضا ہمارے پاس اپنی گاڑی ہے ہم چلے جائیں گے… 

نمرہ نے احد رضا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 


کیا زمانہ آگیا ہے اتنی اچھی آفر کو کوئی ٹھکرا سکتا ہے کیا..

 احد رضا نے شراتی انداز میں کہا…

 

چلو  ایک کپ چائے کا ہو جائے.. احد رضا نے نمرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 


رائمہ نے جب دونوں کو اس situation میں دیکھا تو وہ سمجھ گی اور بولی.. 

نہیں آپ لوگ جائیں میں گھر جاؤں گی… 


نہیں مس رائمہ شیراز یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ بھی آۓ چاۓ کے ختم ہونے کے بعد میں آپ دونوں کو آفس چھوڑ دوں گا… پھر آپ اپنی اپنی گاڑی میں چلے جانا زیادہ ٹائم نہیں لگے گا یقین کریں… 


نمرہ نے رائمہ کی طرف دیکھا… 


مہہہمم ٹھیک ہے.. رائمہ نے جواب دیا.. 


اور وہ تینوں ایک Caffè کی طرف چلے گئے… 


نمرہ نے جب سے جوائن کیا تھا آفس وہ احد رضا کو پسند کرتی تھی.. ایک سلجھا ہوا انسان… 

تھوڑا مزاح والا… 

تھوڑا serious..

 اس لئے نمرہ نے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا… 


 مس رائمہ کیا سوچ ہی ہیں آپ… 

احد رضا نے نے رائمہ کو خاموش دیکھا تو بولا… 


نہیں ویسے ہی وہ بس میں یہ سوچ رہی تھی کہ میرے کمرے میں جو پھولوں کا گلدستہ پڑا تھا وہ اچانک پتہ نہیں کہاں چلا گیا…. 


احد رضا نے نے بیک mirror سے رائمہ کو دیکھا جو اسی کشمکش میں تھی.. 

پر احد رضا کو کچھ کچھ بات سمجھ میں آگئی تھی.. 


میں جو سوچ رہا ہوں ہو اللہ نہ کرے ویسا ہی ہو احد رضا نے رائمہ کی بات سن کر دل ہی دل میں سوچا…


چاۓ کے دوران رائمہ کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ نمرہ احد رضا کو پسند کرتی ہے اور شاید احد رضا بھی.. 

پر وہ یہ بات نمرہ کے منہ سے سنا چاہتی تھی… 


اس چائے کا یہ فائدہ ہوا کہ رائمہ کی نمرہ اور احد رضا سے اچھی دوستی ہو گئی تھی… 


چاۓ سے فارغ ہو کر احد رضا نے دونوں کو آفس چھوڑا اور خود گھر کے لیے روانہ ہو گیا… 


تو مس نمرہ آپ مجھے بتائیں گی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے… 

گاڑی سے اترنے کے بعد رائمہ نے نمرہ سے پوچھا.. 


نمرہ پہلے بتا نہیں پا رہی تھی پھر رائمہ کے اسرار پر اس نے رائمہ کو بتا دیا کہ وہ احد رضا کو پسند کرتی ہے اور اسے بھی یہ لگتا ہے کہ وہ بھی مجھے پسند کرتے ہیں… 


ارے واہ یہ تو کمال ہوگیا… رائمہ نے بڑی خوشی سے کہا… 


ویسے تم دونوں لگتے بھی کیوٹ ہو ساتھ میں.. اب رائمہ نمرہ کو تنگ کرنے کے انداز میں بولی… 


اچھا اب باقی باتیں کل آفس میں ہوں گی بہت دیر ہوگئی ہے تم بھی نکلو گھر کے لیے… 

نمرہ یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گی اور دونوں اپنے اپنے گھر کے لیے روانہ ہو گئیں…. 


_______*


 ضراب علی شاہ اپنے دادا جان کے ساتھ dinner کے لیے اپنی پھپھو کے گھر کے لیے روانہ ہوگیا.. 


آؤ بیٹا… 


 گھر کے اندر داخل ہوتے ہی ضراب علی شاہ کی پھپھو نے 

ان کا ویلکم کیا… 


شکریہ پھپھو جان… 


ضراب علی شاہ کی پھپھو کے دو ہی بچے ہیں ایک ریحان شاہ اور دوسری مشعل جو ابھی میڈیکل میں پڑھ رہی تھی… 


بیٹا آج میں بہت خوش ہوں کہ تم میرے گھر آئے ہو.. 

پھپھو نے ضراب علی شاہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا… 


****جاری ہے* ****

#محبت_بنی_راکھ❤️💔❤️

#اُم_عاصمہ_سعید 

قسط_نمبر 10


بغیر اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے 🚫🚫✖️✖️


کھانے کی ٹیبل پر سارے موجود تھے…. 


آج کافی ٹائم کے بعد ہم ایسے ایک ساتھ ہوۓ ہیں اللہ ہم سب کو خوش رکھے… 


پھپھو نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..


 جو آج بہت خوش تھیں ان کے بھائی نے جو کیا تھا وہ اس بات کو کھبی بھلا نہیں پائی تھی.. اس لئے وہ ضراب علی شاہ کو خاص توجہ دیتی تھی ان کو اس بات کا اندازہ تھا کہ ضراب علی شاہ نے اپنا بچپن کن حالات میں گزرا ہے… 


کھانا اچھا بنا ہے پھپھو جان…


ضراب علی شاہ نے کھانا کھاتے ہوئے کہا… 


بیٹا تمہیں پسند آیا ہے یہ لو یہ کباب لو..


پھپھو نے کباب کی پلیٹ اگے کرتے ہوئے کہا…


واہ جی آج تو ضراب بھائی ہی ہر طرف ہیں آج تو اپنے بیٹے کو کوئی پوچھ نہیں رہا…


ریحان شاہ نے اپنی امی کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا… 


تم تو روزانہ میرے پاس ہوتے ہو ضراب تو کبھی کبھی آتا ہے.. 

پھپھو نے مسکراتے ہوئے کہا…


چھوٹی کیسی جا رہی ہے تمہاری پڑھائی… 


ضراب علی شاہ نے مشعل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… 


میں چھوٹی نہیں ہو…

 اور پڑھائی میری ٹھیک جا رہی ہے..


مشعل کو ضراب علی شاہ کا اسے چھوٹی کہنا بہت برا لگا تھا.. 


مشعل یہ کیسے بات کر رہی ہو بڑے بھائی ہیں آپ کے.. 

پھپھو نے ڈانٹتے ہوے کہا… 


کوئی بات نہیں پھپھو جان میں نے کون سا mind کیا ہے….


مشعل یہ بات سن کر غصے سے کھانے کی ٹیبل سے اٹھ گی… 


اسے کیا ہوا ہے آج…


 ریحان شاہ نے اسے اٹھتے دیکھا تو بولا.. 


جانے دو  پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے اسے… 

پھپھو نے سب کی توجہ مشعل سے یہ کہہ کر ہٹا دی… 


_________*


چھوٹی چھوٹی…. 

میں تنگ آگئی ہو یہ الفاظ سن سن کر…


ان کے لیے تیار ہوئی…


یہ سب بنایا…


 یہ نظر نہیں آتا….


بس چھوٹی کہہ کر دل تھوڑ دیتے ہیں… 


مشعل روم میں آتے غصے میں بولتی جا رہی تھی.. 


میں بھی دیکھتی ہوں کب تک میری محبت سے بھاگے گے… 


مشعل شروع سے ضراب علی شاہ کے خواب سجاۓ بیٹھی تھی..


 پر ضراب علی شاہ اسکو چھوٹی بہنوں کی طرح سمجھتا تھا.. 


تو بیٹا اب تم اگے ہو تو اگئے کیا کرنے کا ارادہ ہے… 


دادا جان نے ریحان شاہ سے پوچھا.. جو ریحان شاہ کے نا نا جان بھی ہیں… 


کچھ نہیں نانا جان بس ابھی ضراب بھائی کے ساتھ آفس جوائن کرنے کا سوچا ہے… 


ریحان شاہ نے اپنے نانا جان کو اپنے مستقبل کے پلان بتاتے ہوئے کہا… 


یہ تو بہت اچھی بات ہے دونوں بھائی ساتھ ساتھ میں کام کرۓ گے کیوں ضراب بیٹا…

 

دادا جان نے ضراب علی شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ریحان شاہ کی یہ بات سن کر اپنا ہاتھ کھانے سے اٹھا چکا تھا.. 


ہممم.. ٹھیک کہا دادا جان.. 


وہ بس یہ ہی کہہ پایا تھا.. 


ویسے بھی ضراب بھائی نے آفس کافی خوبصورت بنایا ہے وہاں سے تو جانے کو دل ہی نہیں کرتا…

 

کیوں ضراب بھائی.. 


ریحان شاہ نے ضراب علی شاہ کی طرف دیکھا.. 


ضراب علی شاہ کو اس بات پر کھانسی اگی…


کیا ہوا بیٹا یہ لو پانی پیو.. پھپھو نے پانی کا گلاس اگے کرتے ہوئے کہا…. 


میں ٹھیک ہوں پھپھو جان… 


مجھے اب اجازت دیں ایک بہت ضروری کام یاد آگیا ہے 

ضراب علی شاہ جس مقصد کے لیے پھپھو کے گھر آیا تھا وہ اسے پتہ چل گیا تھا کہ ریحان شاہ کا اگے کا کیا پلان ہے..

 اس لئے اب اس کا وہاں بھٹنا بےکارتھا.. 


ارے بیٹا ایسے کسیے جانے دوں چاۓ تو پیتے جاؤ.. 


پھپھو کو ضراب علی شاہ کا یوں جانے کا کہنا عجیب لگا.. 


پھر سہی پھپھو جان ابھی تھوڑا جلدی میں ہوں… 

یہ کہہ کر ضراب علی شاہ نے سب سے اجازت لی..


دادا جان آپ ساتھ میں چلے گئے یا بعد میں آجائے گے.. 

ضراب علی شاہ نے دادا جان سے جانے کا پوچھا جو ضراب کے یوں جانے سے حیرت میں تھے… 


نہیں بیٹا میں رات یہی روکو گا صبح ریحان مجھے آفس جانے سے پہلے گھر چھوڑ دے گا.. 


ٹھیک ہے دادا جان آپ اپنا خیال رکھیے گا.. 


یہ کہہ کر ضراب علی شاہ نے سب کو خدا حافظ کہا اور گھر سے باہر نکل آیا… 


آفس خوبصورت بنایا ہے.. 

پتہ ہے اسکو جو خوبصورتی نظر آئی ہے اب جناب روزانہ آفس آیا کریں گئے… 

یہ سب بولتے ہوئے ضراب علی شاہ نے گاڑی کا دروازہ کھلا… کہ اسے پیچھے سے آواز آئی.. 


ضراب…. 


ضراب علی شاہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مشعل کھڑی تھی… 


آواز تم نے دی تھی کیا.. 

ضراب علی شاہ حیرت سے مشعل کو دیکھا.. 


جی… 


مشعل نے منہ نیچے کرتے ہوئے کہا.. 


ضراب بھائی کہتے ہیں اوکے… میری چھوٹی… 


ضراب علی شاہ نے مشعل کو تنگ کرنے کے انداز سے کہا.. 


مشعل کو تو برا لگا پر وہ خاموش رہی.. کیونکہ وہ کیسی مقصد سے آئی تھی.. 


ایم سوری… وہ میں نے آپ کو کہنا تھا کہ کل آپ مجھے کالج سے لے سکتے ہیں کیا کیونکہ کہ ریحان بھائی نے کل اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ لنچ کرنا ہے وہ نہیں آئے گے.. 


مشعل اپنے مقصد کو بیان کرتے ہوئے بولی… 


اچھا.. ٹھیک ہے میں اجاؤں گا پر مجھے ایک بار یاد کروا دینا.. 


مشعل کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا.. 


جی ٹھیک ہے میں آپ کو یاد کروا دوں گی.. 

مشعل یہ کہہ کر اندر چلی گئی… 


ضراب علی شاہ کی کوئی بہن نہیں تھی اس لیے وہ مشعل کی کوئی بات نہیں ٹالتے تھے.. 


__________*


ابو جان آپ نے ضراب کو بتایا کہ اسکے والد کی کالز آتی ہیں.. 

پھپھو جان نے اپنے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.. 


نہیں.. میں نے نہیں بتایا..


 مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے اور تم تو اسکی ناراضگی اور غصے کو جانتی ہو.. کب اسے کسی بات کا برا لگ جائے کچھ پتہ نہیں… اب آج ابھی ہی دیکھ لو پتہ نہیں کیا ہوا اسے کہ اچانک اٹھ کر چلا گیا تھا.. 


دادا جان جو ضراب کے لیے پریشان تھے بولے.. 


لیکن یہ ایسے کب تک چلے گا ایک نہ ایک دن تو اسے یہ پتہ چلنا ہی ہے.. پھپھو نے کہا.. 


میں کوئی مناسب وقت دیکھ کر اس سے بات کرو گا.. دادا جا ن نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا… 


__________*


سی گرین کلر کا تھری پیس سوٹ پہنے ہاتھ میں بلیک کلر کی گھڑی لگاۓ آنکھوں پر براؤن کلر کی sunglasses لگے اور پرفیوم کی خوشبو ایسی کہ دور سے ہر کوئی کھنچا چلا آئے.. 

 ضراب علی شاہ اپنی گاڑی سے ا ترے… 


سر ضراب good morning.. 


آفس میں انڑ ہوتے reception والی لڑکی نے کہا.. 


تھینکس مس نادیہ… 

مس رائمہ آگئ ہیں کیا.. 


ضراب علی شاہ نے آتے ہی رائمہ کا پوچھا.. 


نہیں سر وہ ابھی نہیں آئی.. 


اوکے تھینکس… 


ضراب علی شاہ یہ کہہ کر اپنے روم کی طرف چلے گئے.. 


محترمہ کو ٹائم کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے آفس نہ ہو گیا کوئی تفریح گاہ ہو گی جب چاہے آفس آگے جب چاہا چلے گئے.. 


ضراب علی شاہ کو اپنے غصے کی خود وجہ پتہ نہیں تھی کہ وہ رائمہ کے لیٹ آنے پر کیوں غصہ ہیں… 


________*


میں اندر آسکتی ہوں کیا…


 رائمہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی…


 اسے پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سر ضراب اسکا انتظار کر رہے ہیں.. 


 رائمہ کی آواز سے ضراب علی شاہ چونک گئے… 


جی آجائیں.. 


رائمہ  نے روم میں داخل  ہوتے ہوئے ضراب علی شاہ کو دیکھا جو کسی فائل پر نظریں جما ئے بیٹھے تھے رائمہ کی نظر ضراب علی شاہ پر پڑتے ہی روک گی وہ اپنی نظریں ضراب علی شاہ سے  ہٹا نہیں پا رہی تھی رائمہ کو ایسا لگا جیسے کسی نے اسکو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ایسا حصار جس سے وہ خود بھی نہیں نکلنا چاہتی ہو… 


مس رائمہ.. 


ضراب علی شاہ کی آواز نے رائمہ کو اس احساس سے باہر نکلا جس کو وہ کچھ دیر پہلے محسوس کر رہی تھی.. 


جی جی سر ضراب.. وہ ایک دم اپنے ہوش میں آئی.. 


سر آپ نے مجھے بلوایا تھا کیا… 

رائمہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے سر ضراب سے پوچھا.. 


میں نے آپ کو..

 نہیں تو…


 ضراب علی شاہ جو اس بات کی توقع نہیں کر رہے تھے کہ رائمہ ان سے یہ اکر پوچھے گی… 


پر سر ضراب وہ مس نادیہ نے بتایا تھا کہ آپ کئی بار پوچھ چکے ہیں… 


ضراب علی شاہ کو کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ وہ کیا بولے.. 


بلکل یاد آگیا کہ میں نے کیا کہنا تھا.. 

ضراب علی شاہ کو وجہ مل گی رائمہ کو جواب دینے کے لیے.. 


جہاں اپ کھڑی ہیں یہ کیا ہے… ضراب علی شاہ نے اپنی نظریں رائمہ پر جماتے ہوے کہا.. 


سر ضراب یہ آپ کا روم ہے… رائمہ نے روم پر نظر ڈالتے ہوئے کہا.. 


وہ مجھے بھی پتہ ہے کہ یہ میرا روم ہے.. ضراب علی شاہ رائمہ کے اس معصوم جواب پر دل میں مسکرا دیے.. 


تو کیا سر ضراب مجھے اس روم کی صفائی کرنی ہو گی کیا.. پر یہ میری جاب میں شامل نہیں ہے اس لیے میں آپ کو پہلے بتا دوں… رائمہ بولتی جا رہی تھی.. 


چپ ہو جائیں.. ضراب علی شاہ نے زور سے بولا.. 


میرا کہنے کا مطلب ہے کہ آپ آج لیٹ کیوں آئی ہیں..؟؟


 یہ آفس ہے یہاں ٹائم کی اہمیت ہے ہر کام ٹائم پر ہوتا ہے اور ٹائم کی پابندی کی جاتی ہے…


  ضراب علی شاہ نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا.. 


 اچھا سر ضراب تو آپ یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ میں لیٹ کیوں ہوئی ہوں..

 تو یہ بات آپ آسان الفاظ میں اور سیدھی طرح بھی پوچھ سکتے تھے.. رائمہ نے جیسے اپنی طرف سے سمجھداری کی بات کی.. 


میری گاڑی رستے میں خراب ہو گئی تھی اس لیے مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرو ورکشاپ بھی دور تھی تووووو…  


ضراب علی شاہ نے اسے بات کرتے ہوئے روک دیا.. 


 بس بس.. میں سمجھ گیا آپ کام مکمل کریں جا کر آج فائنل رپورٹ تیار کرنی ہے… 


پر سر ضراب آپ نے پوری بات تو سنی نہیں میری تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ میں لیٹ کیوں ہوئی… 


مس رائمہ اپنے جتنا بتا دیا ہے اسی سے میں اندازہ لگا سکتا ہو اب آپ جائیں… 


اوکے سر ضراب… 

یہ کہہ کر رائمہ ضراب علی شاہ کے روم سے نکل آئی… 


بات کو پوری سنے بغیر اندازہ کیسے لگ سکتا ہے رائمہ نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.. 


عجیب لڑکی ہے پوچھو کچھ اور اور جواب کچھ اور دیتی ہے…

 ویسے کہا تو اس نے ٹھیک تھا کہ میں سیدھی طرح بھی پوچھ سکتا تھا… 

ضراب علی شاہ نے سوچتے ہوئے کہا…


________*


ہیلو… دوسری جانب مشعل تھی.. 


آپ نے کہا تھا کہ میں آپ کو یاد کروا دوں تو اس لیے کال کی.. 


اچھا کیا یاد کروا دیا.. میں بس تھوڑی دیر میں نکلتا ہوں.. 


ضراب علی شاہ نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا…. 


_____*


مس نادیہ میں تھوڑی دیر کے لیے آفس سے جا رہا ہوں اگر کو امپورٹن کام ہوا تو کال کر لینا.. 


ضراب علی شاہ یہ کہہ کر مشعل کو لینے چلے گئے… 


مشعل کے کالج کے باہر  ضراب علی شاہ گاڑی میں اسکا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک سامنے آتی مشعل کو دیکھ کر وہ حیران ہو گئے 


*****جاری..........

Baca juga

Post a Comment