Do Biwiyan Or Adal By Shazil Saeed || دو بیویاں اور عدل


                             "دو بیویاں اور عدل "


میں سوچتا ہوں کہ مرد اتنا حوصلہ کہاں سے لاتا کچھ عرصہ قبل ہمارے علاقے میں ایک پچیس چھبیس سالہ

Urdunovelsz.blogspot.com

لڑکی کو طلاق دے دی گئی اور شوہر نے بچے چھین لئیے لڑکی کا نام طوبیٰ فاروق تھا انتہائی سلجھی ہوئی شریف اور باکردار لڑکی تھی یتیم تھی بھائی کوئی تھا نہیں لہذا سسرال والوں نے زرخرید غلام بنا کر رکھی ہوئی تھی طوبیٰ نے فزکس کے ساتھ ماسٹر کر رکھا تھا اس کی شادی کو سات سال کا وقت گزر چکا تھا تین بچے تھے اور پھر اچانک اس کے شوہر کو کسی اور لڑکی سے محبت ہو گئی اپنی محبت سے نکاح کے لئیے اس نے اپنی پہلی بیوی طوبیٰ سے اجازت مانگی تا کہ قانونی چارہ جوئی سے محفوظ رہ سکے تو اس کی بیوی نے مشروط اجازت دیتے ہوئے کہا کہ تینوں بچوں کےلئے مناسب خرچہ لکھ کر دے دیں تو دوسری شادی کر لیں تا کہ آپ بچوں کی طرف توجہ نہ بھی دیں تو مجھے پرورش کی دقت نہ ہو میرے بچوں کی پرورش ہو سکے گو کہ طوبیٰ کی ساری باتیں برحق تھیں مگر اس کے شوہر نے ان کو انا مسئلہ بنایا تو اور تینوں بچے چھین کر اسے بد چلن کہہ کر طلاق دے دی بچے چھن جانے گھر اجڑنے اور دوسری آزمائشوں کے آن پڑنے سے طوبیٰ کا ذہنی توازن بگڑ گیا چند دن پہلے میں نے اسے بازار میں اپنی ماں کے ساتھ جاتے دیکھا تھا اسے ہاتھوں اور پیروں میں وزنی لوہے کے زنجیر ڈالے ہوئے تھے تا کہ وہ دوڑ نہ سکے جبکہ وہ ماں سے التجا کر رہی تھی ماں ہاتھوں والی زنجیر کھول دو بہت بھاری ہے اور اس کی ماں بہتے آنسوؤں کے ساتھ مسکرا کر اس کا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی اسی دوران طوبیٰ قریب سے گزرتے ہوئے بچے کو میرا بیٹا پکارتے ہوئے اس کی جانب لپکی تو اس ماں نے جلدی سے اس کے پیروں والی زنجیر پکڑ لی جھٹکا لگنے سے طوبیٰ منہ کے بل گری اور بچوں کی طرح روتے ہوئے اپنی ماں کو بد دعائیں دینے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 


ہماری ایک رشتہ دار لڑکی کو بھی طلاق ہوئی تھی وجہ صرف یہ تھی کہ اس کے شوہر نے بھی دوسری شادی محبت کی کر رکھی تھی اور ایک دن شوہر کی محبوبہ بیوی نے اپنی سوتن ( ہماری رشتہ دار) لڑکی سے پانی مانگا تو ہماری رشتہ دار لڑکی نے اس کے کمرے گلاس لیا اور فریج سے پانی نکال کر پہلے خود پی لیا اور پھر سوتن کو دے دیا جس پر اسے اس کے شوہر نے یہ کہتے ہوئے اسے طلاق دے دی کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی میری محبوبہ کے برتنوں میں پانی پینے کی ہماری وہ عزیزہ آج بھی ماں کی دہلیز پر بیٹھی دن کاٹ رہی ہیں اور ان کی خاموشی دیکھ کر لگتا ہے کہ تھوڑے سے عرصے کی اس آزمائش نے ان کی ساری زندگی کی خوشیاں اور مسکراہٹیں چھین لی ہیں ۔۔۔۔ 


ان دونوں واقعات میں بظاہر غلطی شوہروں کی ہے مگر وہ لوگ آج بھی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی سابقہ بیویوں کی کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ بستر پر گزارے لمحات کا ذکر سر محفل کر کے لوگوں میں ان کا مذاق اڑاتے ہیں میں نے چند دن پہلے ہی امہات المومنین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے واقعات پر لکھی ایک کتاب پڑھنا شروع کی ہے اس میں سے دو واقعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں


اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آپ ﷺکے پاس حریرہ لائی جو میں نے آپ ﷺ کیلئے تیار کیا،میں نے ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ تعالی عنھا سے جو وہاں موجود تھیں کہا کہ تم بھی کھاؤ،اُنہوں نے کسی وجہ سے کھانے سے انکار کیا۔میں نے کہا یا تو کھاؤ ورنہ میں اسے تمہارے منہ پر مل دونگی،اُنہوں نے پھر بھی انکار کیا تو میں نے حریرہ سے ہاتھ بھر کر انکے منہ پر مل دیا۔حضور نبی کریم ﷺ دیکھ کر مسکرائےاور(ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھافرماتی  ہیں کہ )آپ ﷺ نے مجھےاپنےہاتھوں سےمجھےدبایا(تاکہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھامدافعت نہ کرسکیں)اور آپ ﷺ نےاُم المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ تعالی عنھاسےفرمایا تم بھی حریرہ(سیدہ )عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنھا) کے منہ پر لگاؤ،اُنہوں نے حریرہ میرے منہ پر لگایا، تو آپﷺ مسکرائے۔ یہ قصہ آپ ﷺ کا ازواج مطہرات سے حسن سلوک اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن کا آپس میں بے تکلف اور محبت کا واضح ثبوت ہے۔


اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے  روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ(ایک روز )حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کر رہے تھے،حضور نبی کریم ﷺ اُن کا کھیل مجھے دکھانے کے لیےمیرے لیےاپنی چادر کا پردہ کرکےمیرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے(جو مسجد میں کھلتا تھا)میں آپﷺ کے کاندھے کےدرمیان سے اُن کا کھیل دیکھتی رہی ، آپ ﷺ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے،یہاں تک کہ(میرا جی بھر گیا)اور میں خود ہی لوٹ آئی۔(مسلم شریف،892 ، بخاری شریف 5236,ترمذی شریف 3691)


مجھے یہ دونوں واقعات بہت پسند آئے پہلے واقع میں بتایا گیا کہ کس طرح دونوں بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھا گیا ہے کسی کو بھی محبت و الفت کی بنا پر ترجیح نہیں دی گئی اور دوسرے واقع میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بیوی کی پسند اور تفریح کا خیال رکھا گیا ہے ان دو واقعات نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا شاید اگر آپ میں سے بھی کوئی غور کرے تو اسے سمجھ آ جائے کہ 


دوسری شادی بھلے ہی آپ محبت سے اور اپنی من پسند کی کرتے ہیں مگر آپ کبھی بھی اپنی محبوب بیوی کو دوسری بیوی پر ترجیح نہیں دے سکتے آپ کے لئیے بیویوں کے حقوق ادا کرنے میں عدل و انصاف قائم رکھنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ 


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ازواج مطہرات سے محبت دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں اوپر والے واقعات میں موجود لڑکیوں کے شوہر روز محشر اپنے اقدامات کو کس طرح ٹھیک ثابت کریں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی بیٹیوں کو محبت نامی وقتی جذبے کی خاطر عمر بھر کا روگ دے کر کس طرح ان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روز محشر شفاعت کے طلبگار ہوں گے ؟

انہی سوالوں کے ساتھ میں آپ لوگوں بتانا چاہتا ہوں کہ


"حضرت جابر بن عبداللہi کی حدیث میں ہے، نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر وعظ فرمایا جس میں عورتوں کے معاملے میں فرمایا: عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو کہ جس کے نام پر تم نے اسے حاصل کیا، اور اسی کے نام سے وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں ۔ (صحیح مسلم: 1218)"


اختتام

Baca juga

Post a Comment