This blog is all about Urdu Novel, urdu poetry, ghazal and short stories of love, sad and romance.
main is ka nikah main hn latest novel episode 1 full in urdu
Anonymous
0 Komentar
ا#میں_اسکے_نکاح_میں_ہوں قسط نمبر 1 #اقراء_خان
خوشیوں بھرے ماحول میں
چمکتے ہوے چہروں میں
اسکا چہرہ واضح تھا
لیکن بے رخی تھی
سہمی سی تھی ۔۔۔۔
ڈری سی تھی وہ ۔۔۔۔۔۔
زبان زنجیروں سے بندھی ہوئی
کچھ بھی نہیں کہہ سکتی تھی
یہ نکاح وقت کی رسم ہے یاروں ۔۔
کچھ نہ کہہ سکو گے تم
کہتے ہیں محبت کا دوسرا نام نکاح ہے نکاح دو لوگوں کے درمیان ہونے والا کنٹریکٹ یا دو لوگوں کے درمیان رضامندی سے تہہ پانے والا ایک پاکیزہ رشتہ ۔۔لیکن کیی دفعہ اس رشتہ کو کرنے سے پہلے لڑکے کی رضامندی تو دیکھی جاتی ہے اور لڑکی کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔اسے معاشرے کی زنجیروں سے عزت کے جال میں پھنسا دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے صرف چپ رہنے کو یہ جیسے مرد ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر دستخط کرتے ہیں اور عورت کو ۔اپنی زندگی میں انے کا حق دے تو دیتے ہیں لیکن صرف دنیاوی ضروریات تک لیکن یہ نکاح نامہ ایک لڑکی کے لیے بہت ہی اہمیت رکھتا ہے وہ صرف دستخط نہیں کرتی بلکے اپنی ساری زندگی اس کے نام کر دیتی ہے ۔۔۔اس انجان کے نام جو اب اسکا مجازی خدا ہوتا ہے ۔۔اپنے شوہر کی خوشی میں خوس اور غم میں اسکا ساتھ دینے کے وعدے ۔۔کرتی ہے
اپنی ساری زندگی اسکے نام کر دیتی ہے
یہ لڑکی کی زندگی کا سب سے خوشگوار لمحات میں سے ایک لمحہ ہوتا ہے ۔۔۔۔
لیکن میرے لیے ندامت کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔
برات آنے والی ہے ۔۔۔۔
پورا گھر خوشیوں سے چہک اٹھا ۔۔۔
اماں اس نے بے چینی سے اپنی ماں کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اسکے معصوم چہرے ۔۔۔پر ایک ڈر کی لہر تھی ۔۔۔سہمی سی ۔
کچھ نہیں ہوتا بیٹا یہ تو خوشی کا موقع ہے اسکی ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تمھارے ابا جیسے بھی ہیں سخت دل ، بے رحم لیکن مجھے ان پر پورا یقین ہے کہ وہ تمھیں کیسی ارے غیرے کے ہاتھ میں نہیں دے گے ۔۔۔
ارفع بیگم نے روشائل کو اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا ۔۔لیکن انھیں اندر سے ابھی بھی ڈر تھا کہ کہی برا نہ ہو جاے کیونکہ گھر میں روشائل کے ابا ارشد علی کے علاوہ کسی نے اس کے ہونے والے شوہر کو نہیں دیکھا ۔تھا ۔
"اب کیا یہاں رونا دونا کرتی رہو گی یا اسے باہر بھی لے کر آو گی بہت رو لیا ہے رخصتی کے لیے بھی کچھ بچا کہ رکھ لو ۔۔
ارشد احمد چھڑی کا سہارہ لیتے ہوے کمرے میں داخل ہوے ان کے لہجے میں تلخ کلامی تھی جو دلوں میں آگ لگ جاتی تھی باپ جیسی نرمی کلامی ان میں نہیں تھی ۔
روشائل کی 3 بہنیں تھیں سب سے بڑی دانیہ منجلی روشائل اور سب چھوٹی تسمیہ اور سب سے چھوٹا بھائی علی ۔
گھر کا ماحول ہمیشہ ڈرا اور سہما ہوتا تھا وجہ ۔۔۔ان کے ابو ارشد علی کا غصہ تھا اپنی بیٹیوں پر طعنہ بازی ان کو معاشرے میں بدنام کرنے کے طعنے دیتے تھے اکثر روشائل اسکا شکار بنتی کیونکہ اس کی بڑی بہن دانیہ پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی ارشد احمد کے لگاتار نہ کہنے پر اخر اس نے گھر سے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا
اسی وجہ سے ارشد احمد کا غصہ اپنی بیٹیوں پر اور زیادہ بڑھ گیا اور انھوں نے روشائل اور تسمیہ کی پڑھائی رکوا دی ۔۔روشائل کالج کے اخری سال میں تھی جب اس نے پڑھنا چھوڑ دیا
جبکہ تسمیہ نے دسویں جماعت کے امتحان دیے تھے اسکے بعد وہ کیسی کالج میں نہیں جا سکی البتہ ان کا چھوٹا بھائی سکول جاتا تھا ۔
**********************************************
شاویز ۔۔سکندر نام ہے میرا ۔۔۔۔۔سن لیا تم لوگوں نے ۔۔شاویز سکندر ۔۔
مرزا سکندر کا اکلوتا بیٹا ۔جس کے لیے کوئی بھی چیز حاصل کرنا مشکل نہیں
تو پھر وہ کیسے نہیں مجھے مل سکتی ۔۔۔۔کیسے نہیں مل سکتی ۔۔
شاویز ۔۔کی زبان لڑکھڑا رہی تھی منہ سے آتی شراب کی بدبو ۔۔صاف واضح تھا کہ وہ نشے میں دھند تھا ۔۔
ہاتھ میں پکڑی شراب کی بوتل ۔۔۔۔
جو آدھی ہو چکی تھی ۔۔
ابھے سالے کتنی دفعہ بتا چکا ہوں تجھے میں کہ تیری نامعلوم محبوبہ کی شادی ہو چکی ہے ۔۔۔۔ وہ جا چکی ہے اپنی شوہر کے ساتھ لیکن تو ہے ۔۔مانتا نہیں
شاویز ۔۔کے دوست شہریار نے اسے بتایا ۔۔جو گاڑی کے آگے ٹیک لگاے کھڑا ۔۔تھا
ج۔۔۔۔ج۔۔جھوٹ ۔۔ی ۔۔یہ ہو نہیں سکتا ۔۔کہ اسکی شادی ہو جاے ۔۔۔وہ میری ہونے والی بیوی ۔
جیسے شاویز نے کہا ۔۔
اسکے دوسرے دوست جواد نے بات کاٹی
بیوی تھی ۔۔۔
ابھے ۔۔بچپن کی کہی مگنی تھی نکاح نہیں تھا جو ابھی تک تیرے انتظار میں ہوتی ۔۔
اور وہ ابھی تک تجھے بھول چکی ہو گی ۔۔۔اور تو ہے ۔۔پاگل مجنو کی طرح ۔۔اس کو ڈھونڈتا ہے ۔۔
جیسے جواد نے کہا ۔۔۔شہریار اور ارسل نے قہقا لگایا
شاویز ، شہریار، جواد ، اور ارسل تینوں بہترین دوست تھے چاروں ہی اچھے ھھرانے سے تعلق رکھنے والے لیکن شاویز ان تینوں سے زیادہ امیر تھا ۔۔۔
مرزا سکندر کی پراپرٹی کا اکلوتا وارث جو تھا ۔۔۔
اچھا ۔۔شاویز ۔۔۔یار کوئی ایڈوینچر ۔۔ہی کرتے ہیں ۔۔آج ۔۔ہمیں ایسا ایڈوینچر کر کے دیکھا ۔جو کیسی نہ کیا ہو ۔۔آج تک
جیسے ارسل نے کہا ۔۔
شاویز نے ۔۔ساتھ ۔۔گاڑی پر رکھی ایک اور شراب کی بوتل اٹھائی ۔۔اور لڑکھڑاتے ہوے گاڑی سے ٹیک آگے کی ۔۔اور چند قدم آگے ۔۔بڑا ۔۔
کون سا ایسا ایڈوینچر ہے جو تیرے یار نے آج تک نہیں کیا ۔۔
کوئی دنیا میں ایسا کام نہیں ہے جو میں نے نہ کیا ہو ۔۔
شاویز ۔۔نے مسکراتے ہوے کہا ۔۔
اچھا ۔۔۔ھواد نے طنزا کیا ۔۔
اگر ایسا ہے ۔۔تو اج ۔۔پھر یہ کر ۔۔۔
کیا ؟
شاویز ۔۔نے جواد کی طرف دیکھا ۔۔
یہ جو ۔۔۔گھر ہے ۔۔۔
یہ سامنے ۔۔
جاری ہے
اگر آپ لوگوں کو پسند اے تو مین آگے ۔۔پوسٹ کروں گی پلہز اچھا ریسپونز دے ۔
شکریہ

Post a Comment
Post a Comment