Gunahgar by zeenia sharjeel latest novel/story in Urdu full novel
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 1
"مجھے چھوڑ دو تمہیں خدا کا واسطہ ہے"
فرحین روتی ہوئی، مسلسل گڑگڑاتے ہوئی التجا کر رہی تھی مگر وہ اپنی ساری انسانیت بھلائے ہوئے،، اس پر جھکا ہوا اپنی ہوس مٹانے میں مگن تھا باہر سے آتی تیز میوزک کی آواز فرحین کی چیخوں اور آہ و پکار کو دبا رہی تھی۔۔۔ مسلسل مزاحمت کرتی فرحین کبھی اس کا منہ تو کبھی بال نوچتی،، تو کبھی اس کی شرٹ اپنی مٹھیوں سے دبوچ رہی تھی مگر اس وقت اس شخص پر شیطان غالب تھا۔۔۔ وہ اپنی ہوس مٹا کر فرحین کے سسکتے تڑپتے وجود سے پر ہٹا تو فرحین نے پاس پڑے مٹی میں اٹے اپنے دوپٹے سے اپنا نیم برہنہ وجود ڈھانپنے لگی
"میری عزت کو پامال کرکے تم کیا سمجھتے ہو، میں بدنامی کے ڈر سے چپ ہو کر بیٹھ جاؤ گی ابھی باہر جاکر پوری یونیورسٹی کے سامنے تمہاری اصلیت سب کو بتاؤں گی"
تھوڑی دیر بعد فرحین اپنے آنسو صاف کر کے دوپٹہ اپنے گرد لپیٹتے ہوئے باہر جانے لگی
"رکو فرحین یہ سب کچھ مجھ سے انجانے میں ہوا ہے پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو،، میں شرمندہ ہوں"
وہ فرحین کا راستہ روکتے ہوئے کہنے لگا اب اس کے چہرے پر واقعی شرمندگی کے آثار نمایاں تھے
"تمہارے شرمندہ ہونے سے میری عزت واپس نہیں آسکتی،، لٹیرے ہو تم،، انسانی روپ میں بھیڑیے۔۔۔ سب کو تمہارا گھناونا روپ دکھاؤں گی تاکہ میری طرح تم بھی اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہو"
فرحین اس پر تھوکتی ہوئی حقارت بھری نظر ڈال کر دروازے کے پاس پہنچی تبھی اس نے فرحین کو روکنے کے لیے دونوں بازوں سے پکڑا
"فرحین پلیز ایک دفعہ میری بات سن لو،، میں۔۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔۔ میں اپنی غلطی کا مداعوا تم سے شادی کی صورت کرنے کے لیے تیار ہوں مگر پلیز کسی کو کچھ مت بتانا"
اس نے فرحین کو روکتے ہوئے کہا اس وقت ان لوگوں کی الوداعی پارٹی تھی باہر سارے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز موجود تھے
"غلطی۔۔۔ تم اسے غلطی کہتے ہو،، گناہ کیا ہے تم نے۔ ۔۔ گناہ گار ہو تم۔۔۔ تم جیسے گھٹیا، نفس کے غلام سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں خودکشی کر لوں"
وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی کلاس روم کے دروازے کھولنے لگی تبھی اس نے دوبارہ فرحین کا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا۔۔۔ فرحین فوری طور پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اور پیچھے پڑی ہوئی شیشے کی میز پر جاگری۔ ۔۔ یوں پیچھے میز پر گرنے سے فرحین کے سر کے پچھلے حصے سے خون نکلنے لگا
"او گاڈ فرحین یہ،، یہ کیا ہوگیا۔۔۔ ایم سوری میں ایسا نہیں چاہتا تھا"
وہ فرحین کے پاس پہنچ کر اسے دیکھتا ہوا کہنے لگا ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اتنے میں اسے محسوس ہوا جیسے کلاس روم کی طرف کوئی آرہا ہے وہ بنا سوچے سمجھے کلاس کے دوسرے دروازے سے باہر نکل گیا
اس واقعے کو گزرے ہوئے چھ سال ہو چکے تھے مگر آج بھی جب اسے یہ واقعہ یاد آتا تھا تو نئے سرے سے وہ اپنے آپ کو ندامت میں گھرا ہوا محسوس کرتا تھا۔۔۔ عام دنوں میں تو وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دیتا تھا مگر خاص اس دن جس دن اس کے ہاتھوں فرحین کی عزت اور جان گئی تھی،،، اس کا ضمیر اس پر کوڑے برساتا اور چیخ چیخ کر اسے گناہگار کہتا
****
"گڈ مارننگ پاپا" منال فرمان کے گلے میں لاڈ سے دونوں ہاتھ ڈال کر کہتی ہوئی ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھ گئی
"گڈ مارننگ میرا بیٹا،، یونیورسٹی نہیں جانا آج آپ نے"
فرمان نے منال کے کیجول حلیہ کو دیکھتے ہوئے اس سے سوال کیا
"موڈ نہیں ہورہا پاپا آج۔۔۔۔ ویسے بھی آج کوئی امپورٹنٹ کلاس نہیں ہے" منال ناشتہ کرتی ہوئی فرمان کو بتانے لگی،،، وہ بھی اپنی بیٹی کی موڈی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا اس لیے بنا کچھ کہے ناشتہ کرنے لگے
"اور عنایہ،، وہ کہاں پر ہے وہ بھی کالج نہیں جائے گی آج" اب فرمان ناشتہ لاتی ہوئی بوا کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے
"بھول گئے کیا آپ آج کا دن،، کمرے میں بیٹھی ہوئی اپنے ماں باپ کے مرنے کا سوگ منا رہی ہوگی،، پہلے اس کی سیاہ بختی اپنے ماں باپ کو نگل گئی،،، اب ہر سال رو رو کر ڈرامے کرنا سمجھ میں نہیں آتا اس لڑکی کا تو"
بوا کی بجائے عشرت نے نہوست سے کہتے ہوئے چائے کا کپ منہ کو لگایا
"عشرت کچھ تو خدا کا خوف کیا کرو، اس معصوم نے تمہارا ایسا کیا بگاڑ دیا ہے جو ہر وقت اس کو کوستی رہتی ہو،،، آئندہ میں تمہارے منہ سے یہ دقیانوسی باتیں نہ سنو"
فرمان نے عشرت کو وارن کرتے ہوئے کہا
"اب ناشتے کی ٹیبل پر اس روتی شکل کو مت لے کر آ جانا۔۔۔ ورنہ پورے گھر میں آج نحوست پھیلی رہے گی"
عشرت فرمان کو اٹھتا ہوا دیکھ کر بولی،، وہ افسوس بھری نظر اپنی بیوی پر ڈال کر عنایہ کے روم میں چلا گیا
"اوہو مما کیا آپ نے صبح ہی صبح چک چک لگا کر رکھی ہے ناشتہ تو سکون سے کرنے دیا کریں"
منال عشرت کے مستقل بولنے پر اریٹیٹ ہو کر اس سے بولی اور پھر اپنے ناشتے میں مگن ہوگئی
****
"عنایہ میرا بچہ،، کیا کر رہا ہے کالج نہیں جانا آج آپ نے"
فرمان کی آواز پر عنایہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ ہاتھ میں پکڑی ہوئی یاسین شریف میز پر رکھ کر وہ صوفے سے اٹھ کر فرمان کے پاس آئی
"کچھ نہیں کر رہی تھی ماموں جان،، بابا مما کی یاد آ رہی تھی تو ان کو پڑھ کر بخش ہی تھی"
وہ دوپٹے کو نماز کے اسٹائل میں لپیٹے ہوئے فرمان کو اسکی کا بات کا جواب دینے لگی۔۔۔ اس وقت وہ فرمان کو بالکل بشریٰ لگی
عنایہ ہوبہو بشریٰ سے ملتی تھی بالکل اسی کی طرح خوبصورت۔۔۔ فرمان نے آگے بڑھ کر اپنی بھانجی کو گلے لگایا
"یقیناً آج آپ اپنے کالج نہیں جائے گی چلیں پھر اپنے ماموں جان کے ساتھ ناشتہ کر لیں" فرمان اسے باہر ناشتہ کرنے کے لئے لے کر جانے لگا۔۔۔ اسے معلوم تھا تھوڑی دیر بعد وہ آفس چلا جائے گا اور پھر عنایہ عشرت کے ڈر سے سارا دن اپنے کمرے میں موجود رہے گی ایسا شروع سے ہی ہوتا آیا تھا۔۔۔ جس دن خالد اور بشریٰ کی برسی ہوتی،، عشرت کا رویہ عنایہ سے عام دنوں کی بانسبت اور زیادہ سخت ہو جاتا۔۔۔ وہ ہر کسی چھوٹی سی بات کو لے کر عنایہ کو ڈانٹتی اس پر چیختی چلاتی اور جب عنایہ کا دل بھر آتا اور وہ روتی تو عشرت اس کو رونے بھی نہیں دیتی،،، عشرت کو لگتا کہ عنایہ کے رونے سے اس کی نہوست کے اثرات پورے گھر پر پھیل جائیں گے
"ماموں جان مجھے اپنے کمرے میں ہی رہنے دیں،، ویسے بھی ابھی بھوک نہیں لگی۔۔۔ اگر بھوک محسوس ہوگی تو بوا سے کہہ دوگی"
بڑی ہونے کے بعد جب سے عشرت کا رویہ عنایہ نے محسوس کیا تھا،، تب سے وہ آج کے دن کوشش کرتی تھی کہ عشرت کے سامنے نہ آئے
"ٹھیک ہے میں بوا سے کہہ دیتا ہوں وہ آپ کا ناشتہ یہی بھیج دیں گی۔۔۔ بیٹا آپ یوں اس طرح حساس مت ہوا کرو۔۔۔۔ لوگوں کی باتوں اور رویوں کو اپنے دل سے لگانا چھوڑ دو اور ناشتہ لازمی کر لینا ورنہ آپ کے ماموں جان کو برا لگے گا"
فرمان عنایہ کو سمجھا کر اس کا گال تھپتھپاتا ہوا اس کے کمرے سے نکل گیا
فرمان اور بشریٰ دو بہن بھائی تھے دونوں ہی میں بچپن سے بہت پیار تھا۔۔۔ ان کے والدین نے اپنے بچوں کی شادی اپنی آنکھوں کے سامنے کردی
عشرت عادتاً سخت طبیعت کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ فرمان سے شکل و صورت میں کم تر تھی اور بشریٰ سے اس کا روایتی نند بھاوج والا رشتہ تھا۔۔۔۔ جس کی بڑی وجہ بشریٰ کا رنگ روپ تھا،،، بشری خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دل کی مالک تھی،،، اسے عشرت کی طبیعت کا اندازہ بخوبی ہو گیا تھا اکثر وہ اس کے رویے کو نظر انداز کر دیتی تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔۔۔۔ اکثر محفلوں میں یا کسی تقریب میں جب عشرت کے سامنے بشریٰ کو سراہا جاتا تو عشرت اس سے اندر ہی اندر جلتی رہتی۔۔۔ عشرت کے ہاں جب منال کی پیدائش ہوئی تو اس نے منال کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ رنگ روپ میں اپنی پھپھو نہ سہی مگر باپ کا جیسی تھی،،، صاف رنگت والی منال گھر بھر میں سب کی لاڈلی تھی۔۔۔۔
منال جب تین سال کی تھی تب بشریٰ کے گھر میں عنایہ کا جنم ہوا مگر وہ دن بدقسمتی سے بشریٰ کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا اچانک دل کے پڑنے والے دورے سے بشریٰ کا شوہر خالد حقیقی الہی سے جا ملا۔۔۔۔ سب ہی کو اس کی جواں موت کا بہت دکھ تھا۔۔۔۔ عنایہ کی پیدائش والے دن خالد کی موت کو لے کر لوگوں میں چہ میگویاں ہونے لگی۔۔۔ لوگوں نے عنایہ یعنی بشریٰ کی بیٹی کو منحوس کہنا شروع کردیا ایسی باتیں بشریٰ کے دل کو چیر دیتی،، بشریٰ کی ساس نے بھی اسے عدت پوری کئے بغیر اپنے گھر سے نکال دیا ان کا بھی کہنا تھا کہ یہ بچی منحوس ہے،،، یوں بشریٰ روتی ہوئی اپنی نومولود بچی کے ساتھ فرمان کے گھر پر آگئی۔۔۔ جس پر عشرت کا اچھا خاصا منہ بن گیا اور اس بات کا اظہار وہ وقفے وقفے سے بشریٰ پر طنز اور طعنوں کی صورت کرتی رہتی۔۔۔
عشرت کو عنایہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی کیونکہ عنایہ بشریٰ کا دوسرا عکس تھی یعنی رنگ روپ شکل و صورت میں وہ اپنی ماں کی طرح خوبصورت تھی۔۔۔ عشرت عنایہ کا مقابلہ اپنی بیٹی منال سے کرنے لگی۔۔۔ وقت آہستہ آئستہ سے گزرتا رہا خالد کی موت کو اب آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا تھا۔۔۔ خالد کی برسی والے دن اچانک معمولی سے بخار سے بشری کی طبیعت خراب ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئی۔۔۔ اس واقعے کے بعد سے عشرت نے عنایہ کو منحوس،، سیاہ بخت،،، بدقسمت کہنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے عنایہ کی شخصیت میں کانفیڈنس کی کمی رہ گئی،، فطرتاً وہ بچپن سے بھی ڈر پوک تھی، ،، اندھیرے میں کہیں جانے سے یا اکیلے اندھیرے میں سونے سے ڈرتی تھی بارش سے اسے خوف آتا اکثر راتوں کو چیخیں مار کر اٹھ جاتی،،، اگر ہارر مووی کا سین دیکھ لیا تو کہی کہی دن تک ڈرتی تب بوا اس کے پاس سوتیں
عنایہ کے مقابلے میں منال کافی بولڈ اور کانفیڈنٹ تھی ساتھ ہی وہ عنایہ پر اپنے تین سال بڑے ہونے کا روعب جماتی اپنی ماں کی طرح وہ بھی عنایہ کو خاص پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔۔ فرمان کے علاوہ گھر میں ایک بوا ہی تھی جو عنایہ کا خیال رکھتی تھی وہ اس گھر کی پرانی اور وفادار ملازمہ تھی۔۔۔ منال یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ تھی جبکہ عنایہ ابھی سیکنڈ ایئر میں موجود تھی اپنی طبیعت کے پیش نظر اس کی کالج میں ایک ہی دوستی جو اس کے سب حالات سے واقف تھی
****
"السلام علیکم آنٹی کیا حال ہیں آپ کے اور کہاں ہیں آپ کے دونوں نالائق بیٹے"
نوفل نے گھر میں قدم رکھتے ہی ثروت سے نہال اور نمیر کے بارے میں پوچھا
"وعلیکم اسلام جیتے رہو، میرے خیال میں وہ دونوں تو نالائق تھے ہی مگر اتنے دنوں بعد تم نے اپنی شکل دکھا کر کم نالائقی کا ثبوت نہیں دیا۔۔۔ کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے"
ثروت نے مسکراتے ہوئے نوفل سے پوچھا اس کی بات سن کر نوفل بھی مسکرا دیا
"بس آنٹی جاب ہی ہے جس کی وجہ سے بزی تھا آج ہی فرصت ملی ہے سوچا نہال اور نمیر سے بھی ملاقات ہو جائے"
نوفل صوفے پر بیٹھے ہوئے ثروت کو بتانے لگا
"جاب تو تمہاری واقعی بہت ٹف ہے کیا ضرورت تھی اتنی رسکی جاب کرنے کی،، نہال اور نمیر کی طرح سیدھا سیدھا بزنس سنبھال لیتے۔۔۔خیر میں جانتی ہوں پولیس میں جانے کا تمہارا شوق تھا،،، اللہ اگے تمہارے مقاصد میں تمہیں کامیاب کرے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔۔ بلا کر لاتی ہوں دونوں کو۔۔۔ یہ بتاؤ فریدہ کیسی ہے اور کب تک اس کا پاکستان آنا ہو رہا ہے"
ثروت صوفے سے اٹھتی ہوئی نمیر اور نہال کو بلانے کے لیے جانے لگی ساتھ ہی اپنی دوست کے بارے میں بھی پوچھا جو کہ نوفل کی والدہ تھی
"امی بھی ٹھیک ہیں الحمدللہ کل ہی ان سے بات ہوئی ہے فوراً تو آنے کا پروگرام نہیں ہے شاید خرم کے ساتھ اب کی بار چکر لگائے"
ثروت نوفل کی بات پر سر ہلا کر نمیر اور نہال کو بلانے چلی گئی
ثروت اور عشرت دونوں سگھی بہنیں تھیں عادتاً ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔۔۔ ثروت جتنی رکھ رکھاؤ والی خوش اخلاق اور ملنسار تھی اس کی چھوٹی بہن عشرت اتنی ہی بد مزاج اور تنگ نظر تھی،، اچھا شوہر ملنے اور کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہنے کے باوجود بھی اس کی طبیعت پر خاص فرق نہیں پڑا۔۔۔ اس کے برعکس ثروت کی شادی ایک نارمل گھرانے میں ہوئی تھی ثروت کے شوہر حسن کی بینک میں اچھی جاب تھی مگر بوڑھے ماں باپ کے ساتھ دو چھوٹی بہنوں کی ذمہ داریاں بھی اس کے اوپر تھی۔۔۔ ثروت نے حسن کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ہر قدم پر اس کا ساتھ دیا۔۔۔ نہال کی پیدائش پر حسن اپنی دونوں بہنوں کی شادیوں سے فارغ ہوا تو ایک سال بعد ہی حسن اور ثروت کے گھر نمیر کی پیدائش ہوئی
نہال اور نمیر کی پیدائش میں ایک سال کا فرق تھا۔۔۔ نہال عادتاً سنجیدہ اور کم گو تھا جبکہ اس سے ایک سال چھوٹا نمیر،، چھوٹا ہونے کے باعث ثروت کا لاڈلا ہونے کی وجہ سے مزاج کا تھوڑا ضدی تھا۔۔۔
نہال اور نمیر دونوں بھائیوں کی نوفل سے اسکول کے دور سے دوستی تھی۔۔۔ کالج اور یونیورسٹی میں بھی ان تینوں نے ایک ساتھ پڑھا تھا یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تینوں کی دوستی گہری ہوتی گئی۔۔۔ چھ سال پہلے ہی وہ تینوں یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہوئے تھے۔۔۔۔
حسن کی ریٹائرمنٹ کے بعد نہال اور نمیر نے سوفٹوئیر کا بزنس اسٹارٹ کیا جبکہ نوفل نے پولیس لائن جوائن کی۔۔۔۔ ایک سال پہلے ہی حسن کا انتقال ہوا تھا جس کی وجہ سے ثروت خود کو تنہا محسوس کرتی اب وہ نہال کی شادی کا سوچ رہی تھی اور دوسری طرف وہ نوفل کو بھی یہی مشورہ دیتی تھی
نوفل فریدہ کے شوہر کی پہلی بیوی کا بیٹا تھا۔۔۔ شوہر سے کچھ ذاتی اختلافات کے باعث نوفل کی ماں اپنے شوہر کے ساتھ نباہ نہیں کر سکی اس لیے تین سالہ نوفل کو شوہر کے پاس ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ فریدہ نے نوفل کی پرورش کی۔۔۔۔ فریدہ کو نوفل سے اگر سگھی ماں جیسا لگاؤ نہیں تھا مگر اس نے کبھی بھی سوتیلی ماؤں جیسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا۔۔۔ فریدہ نوفل کا خیال رکھتی اسے اچھی بری بات سمجھاتی۔۔۔ اسی طرح نوفل بھی اسکی عزت و احترام میں کمی نہیں آنے دیتا۔۔۔۔
فریدہ کے شوہر کے انتقال کے باوجود نوفل یا فریدہ کہ رویہ یا رشتے میں فرق نہیں آیا البتہ خرم (نوفل کا چھوٹا بھائی) کو تین سال پہلے جرمنی میں جاب مل گئی تھی جس کی وجہ سے وہ وہی کا رہائشی ہوگیا اور اس نےفریدہ کو اپنے پاس بلا لیا تھا فریدہ سال ڈیڑھ سال بعد نوفل کے پاس چکر لگا لیتی۔۔۔ گھر میں اکیلے ہونے کے باعث نوفل یا تو نہال اور نمیر کے گھر پایا جاتا یا پھر نہال اور نمیر اس کے گھر موجود ہوتے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 2
"یہ اکرم کو کیوں بلایا آپ نے صبح صبح"
شانزے نے کچن میں کھانے بنانے میں مصروف ناہلہ سے پوچھا
"گھر کا کچھ سامان منگوانا تھا صبح سے طبیعت کچھ بوجھل سی لگ رہی ہے تو سوچا اکرم سے کہہ دو"
ناہلہ نے مصروف انداز میں اپنی بیٹی کو جواب دیا جو تنی ہوئی بھنوں کے ساتھ غصہ ضبط کیے ہوئے اس کے سامنے کھڑی تھی
"تو امی آپ مجھے کہہ دیتی میں لاکر دے دیتی۔۔۔ یوں غیروں سے مدد لینے کی کیا ضرورت ہے"
شانزے نے اسکی بات سن کر اپنا سر جھٹکا
"تم کہاں پرچون کی دکان پر خوار ہوتی، اتنی دور تک بوجھ اٹھا کر لاتی۔۔۔ دوسرا کالج بھی تو جانا تھا تمہیں اکرم کون سا غیر ہے ہمارے کرائے دار کا بیٹا ہے اور نہایت شریف بچہ ہے"
نائلہ نے اپنے سامنے کھڑی 18 سال کی شانزے کو تحمل سے سمجھانا چاہا جو مردوں سے ہر وقت بدظن رہتی
"اس غریب بچے کے باپ نے تین ماہ سے ہمیں کرایہ نہیں دیا ہے جب دیکھو اپنی غریبی کا رونا روتے ہیں یہ لوگ،، ذرا شرم نہیں آتی بندہ یہی سوچ لے دو اکیلی عورتیں کیسے گزارا کر رہی ہوگی۔۔۔ آئندہ کوئی ضرورت نہیں آپ کو اکرم سے مدد لینے کی۔۔۔ جن گھروں میں مرد نہیں ہوتے وہ عورتیں اپنا بوجھ خود اٹھاتی ہیں اور میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ کوئی بھی کرایہ دار ہو،، اسے اتنا فری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ شریف بچہ کوئی مرد کبھی بھی شریف نہیں ہوتا"
وہ بگڑتے ہوئے موڈ کے ساتھ کچن سے باہر نکلی
"جیسے پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتی شانزے ویسے ہی ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا مرد تو گھر کا سائبان ہوتا ہے بیٹا۔۔۔ عورت کا محافظ ہوتا ہے"
نائلہ بھی کچن سے باہر آتی ہوئی رسانیت سے اپنی بیٹی کو سمجھانے لگی جس کی سوچ چھوٹی عمر سے ہی مردوں کے بارے میں منفی ہو چکی تھی
"عورت کے محافظ ہوتے ہیں مرد، امی یہ بات آپ کہہ رہی ہیں جن کا اپنا شوہر دوسری بیٹی کے پیدا ہوتے ہی آپ کو گھر سے چھوڑ کر بھاگ گیا۔۔۔۔ میں نے تو اپنی زندگی میں دو قسم کے مرد دیکھے ہیں،،، ایک بھگوڑے اور دوسرے عزت کے لٹیرے"
شانزے نے تلخی سے کہتے ہوئے ناہلہ کو دیکھا
"شانزے۔۔۔ کتنی بار کہا ہے ترس کھایا کرو اپنی ماں پر، مت میرے دل کے زخموں کو کھرچا کرو۔۔۔ رحم نہیں آتا تمہیں اپنی ماں پر"
شانزے کی کڑوی باتیں سن کر ناہلہ کو آج بہت کچھ یاد آیا وہ دکھتے دل کے ساتھ شکایتی نظروں سے بیٹی کو دیکھنے لگی
"ترس تو ہم پر ہماری قسمتوں نے نہیں کھایا آپ مجھ سے شکوہ کر رہی ہیں۔۔ کتنی بار میں نے آپ کو کہا میرے سامنے مردوں کے اعلیٰ صفات مت گنوایا کریں۔۔۔ آپ کی باتیں میرے دل میں موجود مردوں کے خلاف بدگمانی کو کبھی کم نہیں کرسکتی"
شانزہ نائلہ سے بول کے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی الماری کی دراز کھول کر اس نے ایک باکس سے کپڑے کا ٹکڑا نکالا۔۔۔ یہ کسی شرٹ کی پھٹی ہوئی فرنٹ پاکٹ تھی جس پر بلیک دھاگے سے(N) این الفابیٹ گندھا ہوا تھا یہ اسے اسی رات فرحین کے پاس سے ملا تھا یقیناً یہ اسی گنہگار کا تھا جس نے اس کی بہن کی زندگی برباد کر دی تھی
"اگر زندگی میں میرا کبھی بھی اس شخص سے سامنا ہوا ناں تمھاری قسم کھا کے کہتی ہوں آپی،،، جان لے لو گی اس کی اپنے ہاتھوں سے"
شانزے اس جیب کے ٹکڑے کو دیکھتی ہوئی بولی
آج اسے کالج نہیں جانا تھا کیوکہ عنایہ بھی آج کالج نہیں آنے والی تھی مگر اب گھر میں ہونے والی تلخی کے باعث وہ کالج جانے کے لئے تیار ہونے لگی جبکہ نائلہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی دوبارہ کچن میں چلی گئی
نائلہ کے پاس یہی اس کا قیمتی اثاثہ شانزے کی صورت بچا تھا۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کے اندر مرد ذات کو لے کر مزید منفی سوچیں جنم لے۔۔۔ آخر کب تک اسے شانزے کے ساتھ رہنا تھا ایک نہ ایک دن اسے شانزے کی شادی کرنی تھی مگر مردوں کو لے کر اس کی ذات میں تلخی اور سختی سے نائلہ بہت پریشان ہوجاتی۔۔۔ ناہلہ جب بھی کوئی چھوٹی موٹی مثال دے کر شانزے کو سمجھانا چاہتی اسی طرح ان دونوں کے بیچ تلخ کلامی شروع ہوجاتی
نائلہ کی شادی اس کے ماں باپ نے چھوٹی عمر میں ہی کر دی تھی،، نائلہ کی پہلی بیٹی ہونے پر اس کا شوہر اعجاز اس سے خاص خوش نہیں تھا اس کے بعد نائلہ نے وقفے وقفے سے 2 لڑکوں کو جنم دیا مگر بدقسمتی سے دونوں بچے مرے ہوئے پیدا ہوئے۔۔۔ چوتھی بار بیٹے کی خواہش میں ان کے گھر شانزے آئی۔۔۔ اللہ نے شانزے کو زندگی دی مگر نائلہ کا شوہر اعجاز دوسری بیٹی کی پیدائش پر بھی ناخوش تھا شانزے جب دو سال کی تھی تب وہ نائلہ کو طلاق دے کر چلا گیا
نائلہ اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ اپنے باپ کے گھر واپس آگئی مگر ماں باپ کب کس کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں۔۔۔ بیٹی کے غم میں نائلہ کے ماں باپ ایک کے بعد ایک، دنیا سے چلے گئے۔۔۔ نائلہ نے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دونوں بیٹیوں کو پڑھایا خود اس نے کیٹرنگ کا کام شروع کردیا چھوٹی موٹی دعوتوں اور تقریبات کے ارڈرز ملنے پر وہ گھر پہ کھانا بناتی اور آفس ورکرز کے لیے روزانہ کھانا بناتی کچھ کرائے کے پیسے آجاتے جس سے اس کی گزر بسر ہو رہا تھا مگر اچانک چھ سال پہلے رونما ہونے والے واقعہ سے اس کی روح تک تڑپ گئی
فرحین کی یونیورسٹی کے کسی لڑکے نے اس کی بیٹی کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا۔۔۔ اس دن کو آج بھی یاد کرکے نائلہ کا دل چھلنی ہو جاتا اس واقعے کو چھ سال گزر گئے تھے مگر آج بھی جب شانزے اور اسکے بیچ اس بات کا ذکر ہوتا تب اس کے زخموں سے لہو رسنے لگتا ایک یہی بڑی وجہ تھی شانزے کی مرد ذات سے بدگمانی کی
****
آج کا دن ہی اچھا نہیں تھا یا پھر اسے نائلہ سے لڑ کر اس طرح کالج نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔۔ جو بھی تھا آج کالج آکر وہ صحیح معنوں میں پچھتا رہی تھی،، آدھے گھنٹے پہلے کالج میں دو تنظیموں کے بیچ میں جھگڑا ہوگیا جھگڑا ہونے کی صورت کالج میں پولیس کو بلانا پڑا تصادم کے باعث گولیاں چلنے کی آواز آئی۔۔۔ جس کی صورت بہت سی لڑکیوں کو کالج کے سیکنڈ فلور پر ایک بڑے ہال نما کمرے میں بند کر دیا گیا مگر شانزے اس بات کو لے کر پریشان نہیں تھی۔۔۔ اس کی پریشانی کی وجہ دس منٹ پہلے اکرم کی اس کے موبائل پر آئی ہوئی کال تھی، جس میں اس نے نائلہ کی طبیعت خراب ہونے اور بے ہوش ہونے کی اطلاع دی تھی
شانزے یہ خبر سن کے سچ مچ پریشان ہوگئی تھی کتنی بار اس نے ہال کا دروازہ پیٹا مگر بے سود۔۔۔۔ نائلہ کے سوا اس کو دنیا میں تھا ہی کون،، وہ اس وقت کسی بھی طرح اپنی ماں کے پاس پہنچنا چاہتی تھی پیچھے کے سائڈ کھلی کھڑکی کو دیکھ کر اس کے دماغ میں ایک ہی بات آئی
"اے لڑکی کیا پاگل ہو گئی ہو واپس جاؤں کمرے میں" کونٹسبل صدیق کی آواز پر نوفل نے اوپر دیکھا جہاں صدیق ایک لڑکی سے مخاطب تھا۔۔۔ جو کھڑکی سے باہر نکل چکی تھی اور اس وقت چھچجے پر چڑھی ہوئی نیچے کودنے کا سوچ رہی تھی۔۔۔۔ نوفل اگر آگے بڑھ کر اسے تھام نہ لیتا تو شانزے زمین بوس ہوچکی ہوتی۔۔۔ نوفل نے اپنی گود میں اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھی جبکہ شانزے،، جس نے بنا سوچے سمجھے چھلانگ لگاتے ہوئے آنکھیں بند کی تھی اب وہ آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے لگی
"واہ سر آپ کو تو پولیس کی بجائے کرکٹ میں ہونا چاہیے،، قسم سے کیا کیچ پکڑا ہے"
شانزے اپنے آپ کو اس بے ہودہ انسپکٹر کی گود میں دیکھ کر پہلے ہی اس کی درگت بنانے کا سوچ رہی تھی، پاس کھڑے کانسٹیبل کی بات سن کر مزید تپ گئی
"اے۔۔۔ کیا باپ کا مال سمجھ رکھا ہے، اتارو مجھے اپنی گود سے"
وہ شانزے کو اٹھائے اسے غور سے دیکھنے میں مگن تھا اسکی بات سن کر ایک دم ہوش کی دنیا میں آیا اور شانزے کو نیچے اتارا
"اگلی بار اگر خودکشی کرنے کا ارادہ ہوا تو دوسری منزل کی بجائے دسویں منزل سے چھلانگ لگانا"
نوفل اپنے سامنے کھڑی اس احسان فراموش لڑکی کو دیکھتا ہوا بولا
"اگلی بار اگر میں بیسویں منزل سے بھی چھلانگ لگاو تو ہیرو بن کر مجھے بچانے کی ضرورت نہیں ہے"
شانزے اپنے سامنے کھڑے انسپکٹر کو دیکھتی ہوئی بولی جو اسے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔۔۔ دوسری نظر اس نے کوریڈور پر ڈالی جو کہ سنسان تھا
"اوئے میڈم آپ کو تو ہمارے سر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ایک تو انہوں نے آپ کی جان بچائی، اوپر سے آپ بدلحاظی کر رہی ہو"
شانزے کے اس طرح جواب دینے پر (صدیق) کونسٹیبل سے اپنے سر کی بےعزتی برداشت نہیں ہوئی اس لیے جھٹ سے بولا
"چپ کرو تم سر کے چمچے۔۔۔ اچھی طرح سمجھتی ہوں میں تمہارے سر کے جیسے انسانوں کو۔۔۔ بس لڑکی دیکھی نہیں فوراً ہیرو بننے کا شوق چڑھ گیا"
شانزے کانسٹیبل کو گھرکتی ہوئی حقارت بھری نظر نوفل کے اوپر ڈال کر بولی
"ارے صدیق ان بی بی کا مسئلہ سمجھا نہیں تم نے،، یہ جلن اس بات کی ہے۔۔۔ صرف ہیرو کی طرح بچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ لڑکی کی جان بچا کر اسے ہیرو کی طرح سے"
نوفل نے بولتے ہوئے شانزے کو بازو سے پکڑ کر خود سے قریب کیا اس سے پہلے وہ کوئی ہیرو والا عملی مظاہرہ کرتا شانزے نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیا
نوفل کا مقصد شانزے کے ساتھ کچھ غلط کرنا نہیں تھا وہ صرف اسے ڈرانا چاہتا تھا تاکہ اس کی زبان کو بریک لگے مگر اپنے منہ پڑنے والے تھپڑ سے ایک دم اسی کو بریک لگ گیا۔۔۔ وہ تو شکر تھا کہ کوریڈور میں اس وقت کوئی موجود نہیں تھا یہ تماشا کسی اور نے نہیں دیکھا مگر وہاں موجود کونسٹیبل جو کہ کسی فلمی سین کے انتظار میں ان دونوں کو غور سے دیکھنے میں مصروف تھا،، نوفل کے منہ پر تھپڑ پڑتے ہوئے دیکھ کر وہ کھانستا ہوا وہاں سے رفع دفع ہو گیا
"کیا سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے، اگلی بار ہاتھ لگا کر بتاؤ پھر بتاؤ گی تمہیں اچھی طرح"
شانزے نوفل کو غصے میں گھورتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تبھی نوفل نے اس کا بازو پکڑ کر اسے دائیں جانب دیوار پر دھکا دیا۔۔۔ شانزے دیوار سے جا لگی تبھی نوفل نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے دائیں اور بائیں جانب رکھ کر شانزے کا فرار ہونے کا راستہ بند کیا
"میں چاہتا ہوں تم مجھے اگلی بار نہیں ابھی اور اسی وقت بتاؤ"
نوفل اس کے مزید قریب آتا ہوا بولا
"دور رہو مجھ سے نہیں تو مار ڈالوں گی میں تمہیں" شانزے کی آنکھ میں پانی جمع ہونے لگا مگر وہ بے خوفی سے نوفل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی۔۔۔ نوفل بہت غور سے اس کا بے خوف روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس وقت کوریڈور سنسان تھا وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا تھا اور اس سچویشن میں کوئی اور لڑکی ہوتی تو یقیناً ڈر بھی جاتی مگر اس لڑکی میں نوفل کو کچھ خاص بات لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی بےبسی کے باعث تھی مگر وہ نوفل سے خوف کھائے بغیر اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی
"انٹرسٹنگ"
نوفل کہتا ہوا پیچھے ہٹا شانزے تیز قدم اٹھاتی ہوئی کوریڈور سے جانے لگی۔۔ نوفل دور تلک اس کو دیکھتا رہا۔۔۔ پولیس باقی کے حالات پر قابو پاچکی تھی اب کلاس رومز میں موجود طلبہ کو کلاس سے باہر نکالا جا رہا تھا
****
"اف تم دونوں تو گھر میں بھی آفس کی باتیں کرتے رہتے ہو"
ثروت نے تنگ آکر نہال اور نمیر کی طرف دیکھا جو کہ کافی دیر سے اپنی ہی باتوں میں مصروف تھے
"جبھی تو کہتا ہوں جلدی سے منال کو یہاں پر لے آئے،، آپ کی بوریت بھی دور ہوجائے گی اور میرا برسوں پرانا شادی کا خواب بھی پورا ہوگا"
نمیر سنگل صوفے سے اٹھ کر ثروت کے برابر میں آکر بیٹھا جس پر نہال اور ثروت دونوں مسکرا دیے
"بےشرم لڑکے کیسے اپنے منہ سے اپنی ہی شادی کی باتیں کر رہے ہو ماں کے سامنے"
ثروت نمیر کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے بولی۔۔۔ ان کی فیملی کے علاوہ خاندان کا ہر فرد جانتا تھا کہ نمیر اور منال ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں
"تو پھر اور کیا کرو آپ نہال کے چکر میں میری شادی بھی نہیں ہونے دیں گی،، اس کو تو قیامت تک ویسے بھی کوئی لڑکی پسند نہیں آنے والی ایسے ہی بڈھا ہوجائے گا یہ"
نمیر لاڈ سے ثروت کی گود میں لیٹتا ہوا بولا
"مرا جا رہا ہے ماما یہ شادی کے لیے آپ ایسا کریں کل ہی خالہ جانی کے پاس جا کر اس بے صبرے کا رشتہ کرا دیں"
نہال مسکراتا ہوا ثروت کو مشورہ دینے لگا
"اس کے رشتے کی پہلے کیوں بات کروں گی، تم اس سے ایک سال بڑے ہو پہلے تمہاری دلہن اس گھر میں آئے گی اور پھر بعد میں اس بےصبرے کی باری آئے گی۔۔۔ جلدی سے بتاؤ اگر کوئی لڑکی نظر میں ہے تو"
ثروت کی بات سن کر نہال کچھ بولتا اس سے پہلے نمیر بول پڑا
"ماما معلوم تو ہے آپ کو اپنے اس جوان جہاں بیٹے کے بارے میں،، دنیا کی آدھے سے زیادہ لڑکیوں کو تو یہ اپنی بہن مانتا ہے۔۔۔ اب آپ ہی اس کے بارے میں کچھ سوچیں تاکہ میرا بھی نمبر جلد آجائے"
نمیر نے ثروت کی گود میں لیٹتے ہوئے اسے مشورہ دیا جس پر ثروت مسکرا دی جبکہ نہال نمیر کو گھور کر دیکھنے لگا
"مجھے تو فرمان کی بھانجی عنایہ بہت پسند ہے ہر لحاظ سے،،،، وہ سوٹ کرے گی نہال کے ساتھ،، خوبصورت ہے اور بہت فرمابردار بچی ہے"
ثروت نے اپنے دونوں بیٹوں کے سامنے اپنی چوائس رکھی وہ دونوں ہی حیرت سے ثروت کو دیکھنے لگے
"یاہو یعنی کہ آپ اپنی دونوں بہو ایک ہی گھر سے لانے کا ارادہ رکھتی ہیں مان گئے بھئی"
نمیر نے ثروت کو داد دینے والے انداز میں کہا
"مگر ماما عنایہ۔۔۔" نہال ثروت کی بات پر چپ ہوگیا
"کیوں تمہیں پسند نہیں ہے عنایہ اگر کوئی اور پسند ہے تو بتاؤ میں تمہاری چوائس کو اہمیت دو گی پہلے"
ثروت نہال کو چپ دیکھ کر بولی
"ایسی بات نہیں ہے ماما،، وہ اچھی ہے مگر کافی چھوٹی ہے میرا مطلب ہے وہ منال سے بھی چھوٹی ہے"
نہال کی نظروں کے سامنے عنایہ کا حسین چہرہ گھوم گیا۔۔۔۔ بلاشبہ وہ حسین تھی اور بہت معصوم اور کم گو بھی مگر وہ اسے کوئی چھوٹی سی بچی لگتی تھی تین سال پہلے ہی تو عنایہ کے ایکزمز کے دوران فرمان کے کہنے پر وہ اسے پڑھایا کرتا تھا،، تب وہ سعدتمندی سے سر نیچے جھکائے اس سے پڑھتی،، ویسے بھی کبھی اگر ان دونوں کا سامنا ہوجائے تو سلام کے علاوہ وہ نہال سے کوئی ایکسڑا بات نہیں کرتی اور نہ کبھی نہال نے خود سے ایسی کوشش کی
"18سال کی لڑکی چھوٹی نہیں جوان ہوتی ہے میری بھی اسی سال میں شادی ہوئی تھی۔۔۔ نہال وہ بچی مجھے بہت اچھی لگتی ہے،، بے ضرر سی معصوم سی۔۔۔ ابھی سے نہیں پہلے سے ہی میں نے ایسا سوچا ہوا تھا مگر اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کیا اگر ایج ڈفرنس کو لے کر تم سوچ رہے ہو تو یہ کوئی ایسا ایشو نہیں جس کا بہانا بنا کر منع کردیا جائے"
ثروت نے نہال کو سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ خاموش ہو گیا ایک بار دوبارہ عنایہ کا عکس اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔ اب کی بار وہ الگ انداز میں سوچنے لگا اس کے دل کو یہ خیال اتنا برا بھی نہیں لگا
"اب چپ کیوں ہو جواب دو"
ثروت نہال کو خاموش دیکھ کر پوچھنے لگی نے نہال نے صوفے سے کشن اٹھا کر نمیر کو دے مارا جو اسے معنی خیزی سے دیکھ کر مسکرائے جا رہا تھا
"یہ پٹے گا کسی دن میرے ہاتھوں سے"
نہال مسکراتا ہوا اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا جبکہ اسے اپنے پیچھے سے نمیر کا قہقہہ سنائی دیا
"ارے ماما پریشان نہیں ہو،،، ایگری ہے وہ۔۔۔۔ آپ جلدی سے جاکر عنایہ کے رشتے کی بات کرلیے گا" نمیر ثروت کی گود سے اٹھ کر کر ہنستا ہوا اس سے بولنے لگا
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 3
"کیا تم نے اس پولیس والے کے منہ پر تھپڑ مار دیا"
عنایہ آج کالج آئی تو شانزے نے اسے کل والا قصہ سنایا جس پر عنایہ تقریباً چیختی ہوئی بولی وہ دونوں اس وقت کالج کے لان میں گھاس کر بیٹھی ہوئی تھی
"تو اور کیا کرتی بےہودہ انسان بلاوجہ میں فری ہونے کی کوشش کر رہا تھا"
شانزے سر جھٹکتی ہوئی بولی
"تمہیں معلوم ہے شانزے پولیس والے کتنے خطرناک ہوتے ہیں،، یقیناً وہ کوئی شریف انسان ہوگا جس نے تمہاری اس حرکت کے بعد بھی تمہیں چھوڑ دیا۔۔۔ اگر تمہارے تھپڑ مارنے کے بدلے وہ کچھ الٹا سیدھا کر دیتا تو۔۔۔ او مائی گاڈ قسم سے تم بھی نا کبھی کبھی بےتکی حرکتیں کرنے لگ جاتی ہو"
عنایہ فطرتاً ویسے ہی ڈر پوک تھی۔۔۔ اسے اپنی دوست کی دلیری سے خوف آنے لگا
"ایویں کچھ الٹا سیدھا کر دیتا منہ نہ توڑ دیتی میں اس کا۔۔۔۔ ایک تو وہ مرد اوپر سے پولیس والا،،، فل ہیرو بننے کی ٹرائی کررہا تھا اب کسی بھی لڑکی سے ٹھرک پن کرنے سے پہلے تھپڑ ضرور یاد کرے گا خیر لعنت بھیجو اس قصے پر یہ بتاؤ کل تمہاری مامی اور اس نک چڑی کزن کا موڈ ٹھیک رہا"
شانزے اور عنایہ کی دوستی کو دو سال کا عرصہ ہوا تھا مگر ان دو سالوں میں ان دونوں کی دوستی کافی گہری ہو گئی تھی۔۔۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے گھر کے حالات سے اچھی طرح باخبر تھی
"میں کوشش کرتی ہوں مما بابا کی برسی والے دن کمرے سے باہر ہی نہ نکلو،، کل بھی میں نے ایسا ہی کیا تھا"
عنایہ شانزے کو بتاتی ہوئی گھاس پر رکھے ہوئے نوٹس سمیٹنے لگی کیوکہ اب کلاس کا ٹائم ہونے والا تھا
"یو منہ چھپاکر بیٹھ جانا کوئی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا عنایہ،، کتنی بار میں نے تم سے کہا ہے تھوڑا اسٹرونگ بنو اور اپنے اندر کونفیڈنس پیدا کرو مانا کہ وہ تمہارے پیرنٹس کا گھر نہیں ہے ماموں کا گھر ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تمہاری مامی اور وہ نکچڑی، بات بات پر ہی تمہیں باتیں سنائے"
شانزے کا دو بار ہی کالج سے عنایہ کے گھر جانا ہوا تھا تبھی اس نے عشرت اور منال کا عنایہ کے ساتھ تحقیر بھرا رویہ دیکھا وہ تب سے ہی عنایہ کو اسی طرح نصیحت کرتی رہتی
"اصل بات یہی ہے کہ وہ گھر میرے پیرنٹس کا نہیں ان لوگوں کا ہے خیر چلو کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے"
عنایہ نے شانزے سے کہا تو شانزے بھی کلاس لینے کے ارادے سے کھڑی ہوگئی
****
"عنایہ"
کالج سے چھٹی کے وقت جب عنایہ کالج سے باہر نکل کر گاڑی تلاش کر رہی تھی تو پیچے سے اسے کسی نے پکارا
"نہال بھائی آپ یہاں۔۔۔۔ کیسے ہیں آپ"
عنایہ نے پلٹ کر دیکھا تو نہال کو کھڑا پایا۔۔۔ اس نے چونکنے کے ساتھ خیریت بھی پوچھی
"میں ٹھیک ہو،،، کار وہاں کھڑی ہے آو میں ڈراپ کردیتا ہوں"
نہال نے عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا
"وہ ڈرائیور آتا ہی ہوگا"
عنایہ نے ججھکتے ہوئے کہا
"ڈرائیور کو تو میں واپس بھیج چکا ہو"
نہال اسے دیکھتے ہوئے بتانے لگا
"مگر کیوں"
عنایہ نے حیرت سے پوری آنکھیں کھول کر دیکھا
"میں نے سوچا تمہیں میں ڈراپ کر دوں اسلیے اسے بھیج دیا، لیکن اگر تم میرے ساتھ نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں، میں اسے واپس بلا لیتا ہو،، وہ راستے میں ہی ہوگا"
نہال نے بولنے کے ساتھ ہی اپنا موبائل پاکٹ سے نکال کر ڈرائیور کو کال کرنے لگا
"ارے نہیں رہنے دیں"
عنایہ ایک دم بولی۔۔۔ نہال کال کاٹ کر اسے دیکھنے لگا
"میرا مطلب تھا اٹس اوکے آپ ہی چھوڑ دیں مجھے گھر"
نہال کے دیکھنے پر عنایہ جلدی سے بولی اسے ڈر تھا کہیں وہ برا ہی نہ مان جائے،،، اس کے ساتھ جانے میں ایسی کوئی قباحت بھی نہیں تھی اخر کو وہ مامی کے بھانجے تھے اور اس کے ٹیوٹر بھی
"سیٹ بیلٹ باندھ لو"
نہال اپنی سیٹ پر بیٹھا تو عنایہ سے کہتا ہوا کار اسٹارٹ کرنے لگا
"یہ نہیں بند ہو رہی"
کوشش کے باوجود جب عنایہ سے بیلٹ نہیں لگی تو عنایہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا
"دکھاؤ"
نہال بولنے کے ساتھ سیٹ بیلٹ لگانے لگا عنایہ سانس روکی ہوئی بالکل اسٹریٹ ہوگئی۔۔۔ نہال نے پوری احتیاط کے ساتھ کہ عنایہ کو اس کی انگلیاں نہ ٹچ ہو اسکے بیلٹ باندھی
"تمہاری عادت ابھی تک نہیں بدلی،،، مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے تین سال پہلے جب تمہیں نمریکلز سمجھ نہیں آتے تھے،، تو تم اسے سمجھنے کی کوشش چھوڑ دیتی تھی"
نہال نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے عنایہ کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔ جس پر عنایہ مسکرا دی
"آپ کو کتنا غصہ آتا ہوگا ناں اس وقت"
عنایہ کو وہ وقت یاد آنے لگا جب عنایہ کے دسویں بار کہنے پر
'کہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا'
نہال بغیر غصہ کیے اسے گیارہویں بار سمجھا رہا ہوتا تھا
"نہیں مجھے غصہ بہت کم کسی بات پر آتا ہے"
نہال ڈرائیو کرتا ہوا عنایہ کو دیکھ کر بولا۔۔۔ پھر دونوں ہی اپنی اپنی جگہ چپ ہوگئے
"چاکلیٹ"
نہال نے ڈیش بورڈ سے چاکلیٹ نکال کر عنایہ کی طرف بڑھائی
"تھینکس، آپ کو کیسے پتہ چلا مجھے چاکلیٹ پسند ہے"
عنایہ نے نہال سے چاکلیٹ لیتے ہوئے پوچھا
"ہر لڑکی کو ہی پسند ہوتی ہے تو مجھے لگا تمہیں بھی اچھی لگتی ہوگی"
نہال نے اسے بغیر دیکھے جواب دیا۔۔۔ نہال کے جواب میں عنایہ نے کچھ بھی نہیں کہا،،، کار میں ایک بار پھر خاموشی ہوگئی
"تم چاہو تو یہ چاکلیٹ ابھی کھا سکتی ہو میں تم سے نہیں مانگوں گا"
نہال کی آواز نے ایک بار پھر خاموشی کو توڑا،،، نہال کی بات پر عنایہ نے اس کی طرف دیکھا مگر وہ بغیر مزاق کیے سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا
"اس وقت میرا دل نہیں چاہ رہا لیکن اگر آپ یہ کھانا چاہیں تو کھا سکتے ہیں"
عنایہ نے اسے آفر کی
"کھا سکتا ہوں مگر مجھے چاکلیٹز پسند نہیں"
نہال نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اسے دیکھ کر کہا ایک بار دوبارہ کار میں خاموشی چھا گئی
"تمہاری اسٹڈیز کیسی چل رہی ہیں، کوئی پرابلم تو نہیں تمہیں"
اس بار بھی سوال نہال نے ہی پوچھا
"نہیں کوئی پرابلم نہیں، اچھی چل رہی ہے اسٹیڈیز"
عنایہ ہاتھ میں موجود چاکلیٹ کو الٹ پلٹ کرنے لگی
"اگر کبھی کوئی پرابلم ہو تو تم بغیر ججھکے مجھ سے ہیلپ لے سکتی ہو"
نہال اسے دیکھتا ہوا کہنے لگا
"شیور"
عنایہ مسکرا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔۔ شاید آج زندگی میں پہلی دفعہ نہال اس سے اتنی باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔ اس سے پہلے تو وہ سلام کا جواب دینے کے علاوہ اور کوئی دوسری بات نہیں کرتا تھا۔۔۔ یہاں تک کہ پڑھنے کے دوران بھی اس نے کبھی کوئی فالتو بات نہیں کی تھی اور آج وہ اتنا فرینک ہو رہا تھا عنایہ کی سمجھ سے باہر تھا
"میں کیا الٹا سیدھا سوچنے لگی بیچارے نہال بھائی کے بارے میں،، ایک تو وہ مجھے گھر ڈراپ کر رہے ہیں اوپر سے وہ میرے ٹیچر بھی رہے ہیں"
"اور آپ کا آج یہاں میرے کالج کے پاس سے سے کیسے گزرنا ہوا"
اب کی بار جب خاموشی طویل ہوگئی تو عنایہ نے سوال کیا
"میں آج یہاں پر خاص تمہیں ڈراپ کرنے کے لئے آیا ہوں"
نہال نے دوبارہ اس کو دیکھ کر سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔ عنایہ کو معلوم تھا کہ وہ مذاق کر رہا ہے مگر وہ اتنا سنجیدہ ہو کر کیسے مذاق کر سکتا تھا یہ عنایہ کو سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔ عنایہ دوبارہ خاموش ہوگئی مگر اب گھر آگیا اور عنایہ سے سیٹ بیلٹ بھی کھل گئی
"تھینک یو"
عنایہ نے کار سے اترتے ہوئے نہال کا شکریہ ادا کیا
"کس بات کے لئے"
نہال اس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"مجھے گھر ڈراپ کرنے کے لئے اور اس چاکلیٹ کے لیے"
عنایہ کے بات پر نہال نے مسکرا کر اسے دیکھا
"میں چاہتا ہوں میں بھی تمہارا شکریہ ادا کرو"
نہال اب اس کو غور سے دیکھتا ہوا کہنے لگا
"تو پھر آپ ایسا کریں آپ کار سے اتر کر گھر آجائے۔۔۔ میں آپ کو چائے پلا دیتی ہوں پھر آپ میرا شکریہ ادا کردیے گا"
وہ واقعی بہت خوبصورت تھی اور بہت معصوم بھی نہال نے اس کو دیکھتے ہوئے سوچا
"نہیں،،، میں چاہتا ہوں کہ میں آج رات تمہیں میسج پر شکریہ ادا کرو"
نہال آنکھوں میں چمک لیے اس کو بولتا ہوا کار اسٹارٹ کر کے وہاں سے چلا گیا۔۔۔ اور بہت کوششوں کے بعد بھی عنایہ کو اس کی بات بالکل سمجھ میں نہیں آئی
*****
"ایکسکیوزمی میم آپ بنا پرمشن کے اس طرح اندر نہیں جا سکتی"
منال جوکہ یونیورسٹی سے سیدھا نمیر سے ملنے آفس آگئی تھی اس کے روم میں جانے لگی تو اس سے پہلے سیکرٹری بول اٹھی منال نے مڑ کر اسے غور سے دیکھا اور اس کی طرف چلتی ہوئی آئی
"شاید تم نئی اپوائنٹ ہوئی ہو اس لیے جانتی نہیں ہوں کہ کون ہوں میں،، ابھی نمیر سے کہہ کے دو منٹ میں اس جاب سے فارغ کرا دوں گی اگر آئندہ میرا راستہ روکا تو"
منال اس کو وارن کرتی اور حقارت بھری نظر سیکرٹری پر ڈال کر روم کے اندر چلی گئی جہاں نمیر کسی سے فون پر محو گفتگو تھا۔۔۔ نمیر نے منال کو دیکھ کر بھی فون پر اپنی گفتگو جاری رکھی،،،، منال نمیر کو ہی دیکھ رہی تھی جیسے وہ اسکے فون رکھنے کا ویٹ کر رہی ہو۔۔۔ دس منٹ بعد نمیر نے اپنی بات مکمل کرکے فون رکھا
"کالز کیوں نہیں پک کر رہے تھے میری، صبح سے"
منال ٹیبل پر دونوں ہاتھ جما کر نمیر سے پوچھنے لگی
"میٹنگ میں مصروف تھا کہو کیسے آنا ہوا"
نمیر نے روکھے لہجے میں اس سے پوچھا یہ لب و لہجہ وہ صرف نمیر کا ہی برداشت کرتی تھی
"فورگاڈ سے نمیر یوں بچوں کی طرح بی ہیو مت کیا کرو،،، میں کل واقعی بزی تھی اس لیے تمھاری برتھ ڈے میں نہیں آ سکی مگر رات کو بارہ بجے سب سے پہلے تمہیں میں نے ہی وش کیا تھا"
منال اب کرسی پر بیٹھ کر نمیر کو مناتی ہوئی بولی۔۔۔ کل نمیر کا برتھ ڈے تھا اور منال کا اپنی یونیورسٹی کی فرینڈز کے ساتھ مووی دیکھنے جانے کا پروگرام بن گیا
"یہی تو میں نوٹ کررہا ہوں پچھلے چند ماہ سے،، اب تم کچھ زیادہ ہی بزی رہنے لگی ہو۔۔۔۔ مانا کہ برتھ ڈے پارٹی ارینج نہیں تھی بس نہال نوفل اور ماما ہی تھے مگر تمہیں اگے میری فیملی کا حصہ بننا ہے آئی تھنک تمہارے لیے دوسری سب چیزوں سے زیادہ امپورٹنٹ میں اور مجھ سے ریلیٹڈ رشتے ہونے چاہیے"
نمیر نے منال کو جتاتے ہوئے کہا،،، نمیر اور منال کے رشتے میں پہل اور محبت کا اظہار منال کی طرف سے ہوا تھا۔۔۔ پہل لڑکی کرے نمیر کے لیے بات کوئی خاص معنی نہیں رکھتی تھی۔۔۔ منال اس کی کزن تھی، خوبصورت اور پڑھی لکھی تھی سب سے بڑھ کر وہ دونوں سے بچپن سے ایک دوسرے کی عادتوں سے واقف تھے مگر تین چار مہینوں سے نمیر آہستہ آہستہ منال کے رویے میں تبدیلی محسوس کر رہا تھا
"نمیر میرے لیے تم امپورٹنٹ ہو،، تمہاری ہی امپورٹنس ہے یار اگر تمہاری ناراضگی کا خیال نہیں ہوتا تو یونیورسٹی سے سیدھا تمہارے پاس آ جاتی اب جلدی سے موڈ ٹھیک کرو اپنا"
منال اپنی کرسی سے اٹھ کر نمیر کے پاس آئی اس کی کرسی کے دونوں ہینڈل پکڑ کر اس کی طرف جھکتی ہوئی ایک ادا سے بولی
"اور اگر میں ناراضگی برقرار رکھو تو تم مجھے منانے کے لئے ایک عدد کس تو کر ہی لوں گی"
نمیر اس کی بولڈنس کو چیلنج کرتا ہوا بولا
"زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے،، شرافت سے اٹھو اور لنچ کرواؤ مجھے"
اب منال باقاعدہ اسے بازو سے پکڑ کر اٹھانے لگی
"ایسا کرتے ہیں لنچ یہی منگوا لیتے ہیں چار بجے ایک کلائنڈ کے ساتھ ڈیلینگ ہے"
نمیر موبائل پر ارڈر دینے کے لیے نمبر ڈائل کرتا ہوا بولا
"چار بجنے میں ابھی پورے دو گھنٹے باقی ہیں ہم دونوں ابھی اور اسی وقت باہر جا رہے ہو"
منال اس کا موبائل اس کی پاکٹ میں رکھتی ہوئی بولی
"معلوم ہے میں تمہاری باتیں کیوں مان لیتا ہوں"
نمیر نے منال کو دیکھتے ہوئے پوچھا
"کیوکہ میں خوبصورت ہوں اور تم مجھ سے پیار کرتے ہو"
منال اترا کر بولی
"نہیں اس لئے کہ پیار تم مجھ سے کرتی ہو اور خوبصورتی کا کیا ہے خوبصورت تو وہ بھی تھی"
آخری جملہ نمیر نے آہستہ سے بولا منال جو کہ روم سے باہر نکل رہی تھی پلٹ کے اس کو دیکھا
"کون تھی خوبصورت"
منال نمیر کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"کوئی نہیں۔۔۔ جلدی چلو واپس بھی آنا ہے"
نمیر کہتا ہوا آفس کے روم سے سے باہر نکل گیا
****
"ارے ثروت آنٹی آپ آئی ہیں۔۔۔ کیسی ہیں مجھے معلوم ہوتا آپ آئی ہیں تو نمیر کو زبردستی اندر بلا لیتی ابھی وہی گھر چھوڑ کر گیا ہے مجھے"
منال نے گھر آتے ہی ثروت کو دیکھتے ہوئے کہا اور اس کے گلے لگ گئی
"اچھا تو خوب گھوما پھرا جا رہا ہے نمیر کے ساتھ،، ویسے عشرت کیا خیال ہے ان دونوں کی لگامیں کھینچنی چاہیے یا مضبوطی سے کسی پائیدار بندھن میں ان دونوں کو فوراً باندھ دینا چاہیے"
ثروت نے پاس بیٹھی عشرت سے مشورہ مانگا اس سے پہلے عشرت کچھ بولتی منال بول اٹھی
"آنٹی پلیز نمیر سے میں نے کہہ دیا ہے کم از کم تین سال سے پہلے تو شادی کا سوچنا بھی نہیں"
منال کا ایک دم یوں بول دینا ثروت کو برا لگا،، وہ ثروت کی بھانجی تھی اسے عزیز تھی مگر اتنا بے باک ہو کر بولنا اور یوں شادی سے پہلے گھومنا پھرنا ثروت کو یہ انداز ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا،،، وہ گھر جا کر ابھی نمیر کے کان کھینچنے کا ارادہ رکھتی تھی
"منال زرا کم بولا کرو چلو کمرے میں جاو اپنے"
عشرت بڑی بہن کا ایک دم خاموش ہونا محسوس کر گئی اس لیے منال کو ٹوکتے ہوئے کہا جس پر منال برخلافِ توقع اٹھ کر چلی گئی
"اور یہ عنایہ کہاں ہے نظر نہیں آرہی"
ثروت نے موضوع بدلتے ہوئے عشرت سے پوچھا
"ہونا کہاں ہے پڑی ہوگی اپنے کمرے میں عنایہ او عنایہ"
عشرت نے ثروت کو بتاتے ہی عنایہ کو آوازیں دے ڈالی
"جی مامی آپ نے بلایا۔۔۔ او ثروت آنٹی کیسی ہیں آپ؟؟ کب آئی"
عنایہ جو کہ عشرت کے بلانے پر ڈرائنگ روم میں آئی مگر ساتھ بیٹھی ثروت کو دیکھ کر خوش دلی سے اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔ اسے مامی کی بہن اور نمیر دونوں ہی پسند تھے وہ دونوں شروع سے ہی اسے بہت اچھے طریقے سے ملتے تھے
"تم اپنے ہجرے سے باہر نکلو گی تو تمہیں معلوم ہوگا کوئی کب آیا ہے نہ ادب ہے نہ لحاظ ہے کہ بندہ آئے گئے کو پوچھ لے"
ثروت کے کچھ بولنے سے پہلے عشرت عنایہ کو ڈپٹتے ہوئے کہنے لگی
"عشرت کیا ہو جاتا ہے تمہیں، لہجے میں نرمی لایا کرو بات کرتے ہوئے۔۔۔ اسے خبر نہیں ہوگی کہ میں آئی ہو ورنہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ عنایہ مجھ سے ملنے نہ آئے۔۔۔ یہاں بیٹھو عنایہ میرے پاس"
ثروت نے عشرت کو سمجھاتے ہوئے عنایہ کو اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا وہ مسکرا کر ثروت کے پاس بیٹھ گئی جس پر عشرت جل کر رہ گئی۔۔۔ اس کا اپنی بڑی بہن کا یوں عنایہ سے ہمدردی کرنا اور محبت کرنا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا
"ابھی یہی بیٹھی باتیں کرتی رہوں گی آپا کے لئے چائے پانی کا بھی انتظام کروں گی جاؤ جا کر بوا سے کہو کہ رات کے کھانے میں کوئی ڈھنگ کا کھانا بنائے"
تھوڑی دیر بعد جب عشرت نے ثروت کو عنایہ سے مسکرا کر باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو عشرت نے فوراً عنایا کو دیکھ کر کہا جس پر عنایہ اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی
"عشرت میں دیکھ رہی ہوں تمہارا رویہ دن بدن اس بچی کے ساتھ ہتک آمیز ہوتا جا رہا ہے"
ثروت نے اپنی چھوٹی بہن کو ملامت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے دوبارہ ٹوکا
"ارے آپا اسی کے بھلے کے لیے ٹوکتی ہو تاکہ دوسرے گھر جاکر جوتے نہ کھانا پڑے،، اچھی شکل و صورت سے کیا ہوتا ہے سسرال میں عادت و اطوار بھی دیکھے جاتے ہیں"
عشرت بات بناتی ہوئی بولی
"یہی بات تم منال کے لیے بھی سوچا کرو بلکہ اسے زیادہ ضرورت ہے سمجھانے کی،، خیر یہ بتاؤ فرمان کب تک آئے گا ضروری بات کرنی ہے مجھے اس سے"
ثروت کے بولنے کی دیر تھی فرمان گھر میں داخل ہوا
"کیسی ہیں آپا آپ۔۔۔ کب تشریف لائی"
فرمان نے ثروت کو دیکھ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ثروت سے بات کرتے ہوئے فرمان کے لہجے میں ہمیشہ عزت و احترام شامل ہوتا تھا
"تھوڑی دیر ہوئی ہے مجھے آئے ہوئے تم سناؤ کیسے مزاج ہیں"
ثروت نے فرمان سے پوچھا۔۔۔ اتنے میں عنایہ ٹرالی میں چائے رکھے دیگر لوازمات کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تب تک منال بھی چینج کرکے ڈرائنگ روم میں آ چکی تھی
"ہاں تو آپا کیا ضروری بات کرنی تھی آپ نے فرمان سے"
عنایہ سب کو چائے سرو کر رہی تھی تب عشرت نے ثروت کو مخاطب کیا
"آنٹی چائے"
عنایہ نے ثروت کے آگے چائے کا کپ سوسر سمیت بڑھاتے ہوئے کہا تو ثروت نے مسکرا کر چائے کا کپ اس سے لیا ساتھ ہی عنایہ کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پاس بٹھایا
"منال بیٹا باقی سب کو چائے آپ سرو کرو"
ثروت نے منال کو دیکھتے ہوئے کہا وہ عنایہ کو گھورتی ہوئی، ثروت کو دیکھکر مسکرائی صوفے سے اٹھ کر باقی سب کو چائے سرو کرنے لگی
"ہاں تو بھئی فرمان میں تم سے آج اپنے نہال کے لئے عنایہ کا ہاتھ مانگنے آئی ہو۔۔۔ بھئی تمہاری بھانجی مجھے اپنے بڑے بیٹے کے لئے بے حد پسند ہے اور نہال تمہارے سامنے ہی پلا بڑھا ہے اس کا مزاج، کردار، عادت ان سب سے تم واقف ہو۔۔۔ اب تم مجھے جلدی سے بتاؤ اگر کوئی اعتراض نہیں ہے تو میں باقاعدہ رسم کرنے کب آو"
ثروت نے اپنے برابر میں بیٹھی ہوئی عنایہ کا ہاتھ تھام کر فرمان سے بولا۔۔۔۔ ثروت عنایہ کے ساتھ ساتھ کمرے میں موجود تمام نفوس کو بھی حیران کر گئی
"آپا آپ کی بات پر بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا نہال جیسے سلجھے ہوئے اور فرمانبردار بچے کے لیے کون سا باپ نہیں چاہے گا کہ وہ اس کا داماد بنے عنایہ میرے لئے بالکل منال کی طرح ہے۔۔۔۔ اگر عنایہ کی اس رشتے میں مرضی شامل ہے تو میں بہت خوش ہوں"
فرمان واقعی عنایہ کے لئے بہت خوش تھا کیوکہ عنایہ جتنی حساس طبیعت کی مالک تھی اس کے ساتھ کوئی سلجھا ہوا لڑکا ہی سوٹ کرتا اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ نہال ایک سلجھا ہوا اور اچھے اخلاق والا لڑکا تھا
"تو اس میں کونسی بڑی بات ہے عنایہ سے اس کی مرضی ابھی پوچھ لیتے ہیں۔۔۔ ہاں بھئی عنایہ بتاؤ جلدی سے،، اپنے نہال کی دلہن بنا کر لے جاؤ تمہیں اپنے گھر"
ثروت نے عنایہ کے تھامے ہوئے ہاتھ پر دباؤ ڈال کر مسکراتے ہوئے پوچھا جس پر عنایہ نے ایک نظر ثروت کو دیکھا اور فوراً نظریں نیچے جھکا لی۔۔۔۔ جس پر ثروت کے ساتھ ساتھ فرمان بھی مسکرا دیا جبکہ عشرت اور منال کو یہ منظر ایک آنکھ نہیں بھایا مگر وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش رہی
"نہیں،،، میں چاہتا ہوں کہ میں آج رات تمہیں میسج پر شکریہ ادا کرو"
سر جھکا کر بیٹھی ہوئی ہے عنایہ کو نہال کا آج دوپہر میں بولا گیا جملہ یاد آیا اور اب وہ اس کا مفہوم بھی سمجھ گئی تھی
"نہال"
آج پہلی بار بغیر بھائی کا لفظ کہے اس نے دل میں نہال کا نام لیا اس کا دل عجیب انداز میں دھڑکا۔۔۔ عنایہ اپنا سر اور زیادہ جھکا گئی اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئی اس کا چہرہ دیکھ کر اس کے دل کی بات نہ جان لے
🌹: Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 4
"دیکھو ذرا اس منحوس کی قسمت کیسے بیٹھے بٹھائے ایسا شاندار لڑکا مل گیا اور آپا کی عقل پر تو مانو جیسے پتھر ہی پڑ گئے ہیں ایسی سیاہ بخت لڑکی کو اپنے گھر کی بہو بنانے کا سوچ رہی ہیں۔۔۔ جو اپنے ماں باپ کو سالم ہی نگل گئی"
ثروت کے جانے کے بعد عشرت منال کے کمرے میں آکر مسلسل ٹہلتے ہوئے بولے جا رہی تھی جبکہ منال اپنے بیڈ پر تکیہ گود میں رکھے ہوئے بیٹھی تھی
"آپ یہاں بیٹھ کر اس کی قسمت پر رشک کرتی رہو،، آدھی عمر اس جاھل کو میں یہاں برداشت کرتی رہی اور اب باقی پوری زندگی مجھے اس کی شکل نمیر کے گھر میں دیکھنا پڑے گی"
منال تپتے ہوئے بولی
"اور تم نا ذرا آپا کے سامنے اپنی زبان کو تالو سے چپکا کر رکھا کرو،، کوئی لڑکی اس طرح اپنا منہ کھول کر اپنی شادی کی بات نہیں کرتی، اب تو اس عنایہ سے پہلے تمہاری شادی کروگی نمیر سے تاکہ تم اپنے قدم مضبوطی سے جما سکو اس گھر میں"
عشرت منال کے پاس بیٹھتی ہوئی بولی
"خدارا مما مجھے ابھی شادی وادی کے چکر میں نہیں پڑنا اور ثروت انٹی کبھی بھی نہال سے پہلے نمیر کی شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ایک طرح سے اچھا ہے اس عنایہ کو دفع ہونے دیں کم از کم تین سال تو میں سکون سے گھر میں گزارو گی بغیر اس کی شکل دیکھے ہوئے۔۔۔ اب آپ بھی اپنے کمرے میں جاکر لیٹو کال کرنی ہے مجھے اپنی فرینڈ کو"
منال نے لہجے میں بیزاری لاتے ہوئے عشرت کو بولا وہ اپنی بیٹی کو کڑھے تیوروں سے گھورتی ہوئی اس کے کمرے سے چلی گئی
****
"یہ اکیلے اکیلے کس بات پر مسکرایا جا رہا ہے"
نہال کو مسکراتا ہوا دیکھ کر نوفل نے معنی خیزی سے پوچھا جس پر نہال شرمندہ سا ہو گیا برابر میں بیٹھا ہوا نمیر ہنس پڑا وہ دونوں اس وقت نوفل کے گھر کے میں موجود تھے
"دماغ خراب ہوگیا میرا جو اکیلے میں مسکراؤں گا۔۔۔ وہ تو ایسے ہی کوئی بات یاد آگئی تھی"
نہال اپنی جھینپ مٹاتا ہوا بولا
"جھوٹ بول رہا ہے یہ یقیناً عنایہ کے خیالوں میں کھویا ہوا ہوگا جب سے مما نے اسے بہو بنانے کا سوچا ہے یہ اسی طرح خیالوں میں کھویا ہوا مسکراتا رہتا ہے"
نمیر ہنستا ہوا نوفل کے سامنے اس کا راز فاش کرنے لگا نوفل بھی نمیر کی بات پر ہنسنے لگا
"انسان کے بچے بن جاؤ تم دونوں اور میرا ریکارڈ لگانا بند کرو۔۔۔ تمہیں میرا مسکرانا دکھ رہا ہے اپنے کھوئے کھوئے انداز بھی چیک کرو اور منہ سے پھوٹو جو تم آدھے گھنٹے سے بتانا چاہ رہے ہو مگر بتا نہیں پا رہے ہو"
نہال اب نوفل کو دیکھتا ہوا بولا اس کی بات سن کر نوفل مسکرا دیا
"یار ایک لڑکی ہے تین دن سے دماغ پر چپک کر رہ گئی ہے نکلی ہی نہیں رہی"
نوفل آنکھیں بند کر کے بتانے لگا اس کی آنکھوں کے سامنے شانزے کا عکس لہرایا
"او بھائی تم دوبارہ سے شروع مت ہو جانا کہ ایک بار پھر تمہیں محبت ہو گئی ہے"
نہال اس کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوا بولا
"نہیں یار اب کی بار بالکل سیریس والی سچوئیشن ہے فیلنگس ایک دم الگ۔۔۔ کیا بتاؤں تھپڑ گال پر پڑا مگر میٹھا میٹھا درد یہاں ہو رہا ہے"
نوفل نے اپنا ہاتھ دل پر رکھتا ہوا بتانے لگا اس کی بات سن کر نمیر اور نہال دونوں ہنس پڑے
"قسم سے یار تمہارا بھی جواب نہیں،،، یہ تھپڑ والا حسین حادثہ ہوا کب اور کیسے"
نمیر نے دلچسپی لیتے ہوئے نوفل سے پوچھا۔۔۔ نوفل نے کھوئے کھوئے انداز میں اپنی پوری روداد سنائی
"یقین کرو یارو اس کے ایک تپھڑ نے ایک ٹھرکی انسان کو سلا کر اندر کے عاشق کو بیدار کر دیا۔۔ تین دن سے اس ظالم حسینہ کے بارے میں سوچے جا رہا ہوں۔۔۔۔ ظلم یہ کہ کالج کے علاوہ اس کا نام معلوم ہے نہ گھر کا پتا مگر ان شاء اللہ میں جلد ہی ڈھونڈ لوں گا اس ظالم حسینہ کو"
نوفل پورے عظم سے بولا جس پر نمیر اور نہال دونوں مسکرائے
"چلو بھئی میرے علاوہ تم دونوں گدھوں کا بھی بیڑہ پار ہوا مگر اب مجھے سنعیہ اور ماریہ دونوں سے ہمدردی ہے"
نمیر نے اسکول لائف کی دونوں کلاس فیلو کا نام لیا جوکہ ایک سیون کلاس کی اسٹوڈینٹ تھی جبکہ دوسری نائن کلاس کی اسٹوڈنٹ تھی۔۔۔ اور ان دونوں سے ہی نوفل بڑا ہو کر شادی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا
"دو کیوں ایک وہ بھی تو تھی علیشبہ ہماری یونیورسٹی کے فائنل ایئر والی" نہال کے بولنے پر نوفل اور نمیر سنجیدہ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے
"میں نے نوٹ کیا ہے اکثر یونیورسٹی کے فائنل ائیر کے ذکر پر تم دونوں کو کیا ہو جاتا ہے"
نہال نے سوچا آج وہ ان دونوں سے پوچھ ہی لے اکثر ان تینوں کے بیج جب یونیورسٹی کا ذکر ہوتا تھا خاص کر فائنل ائیر کا تو وہ دونوں ایسے ہی چپ ہو جاتے تھے یا نظریں چرانے لگتے تھے
"یونیورسٹی کے ذکر پر کیا ہونا ہے تم بتاو مگنی کا کیا پروگرام ہے تمہارا۔۔۔ کیا ڈیسائڈ کیا ہے" نوفل نہال پوچھنے لگا۔۔۔ نہال نوفل کو اپنی اور عنایہ کی منگنی کے متعلق بتانے لگا جبکہ نمیر کسی گہری سوچ میں چھ سال پیچھے چلا گیا جہاں اسے یونیورسٹی میں علشباہ کے ساتھ ایک اور چہرہ بھی یاد آیا
****
"یعنی تمہاری مگنی ہونے والی ہے۔۔۔ یہ تو زبردست نیوز ہے بہت بہت مبارک ہو" کالج پہنچ کر عنایہ نے شانزے کو ثروت کے آنے کا مقصد بتایا تو شانزے نے اسے خوش ہو کر مبارکباد دی
"تم مجھے مبارکباد دے رہی ہو اور میں نہال بھائی کا سوچ رہی ہو۔۔۔ وہ تو بہت سیریس ٹائپ انسان ہیں باتیں بھی سوچ سوچ کر کرنے والے،،، پہلے کھبی ان کے متعلق ایسا سوچا نہیں تو تھوڑا عجیب سا لگ رہا ہے"
عنایہ کی باتیں سن کر شانزے نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا
"فٹے منہ،، منگیتر بننے والا ہے وہ تمہارا،، کم سے کم اب اسے بھائی تو نہ بولو۔۔۔ اور باتوں کا کیا ہے پہلے باتیں نہیں کرتے تھے کل کار میں انہوں نے تم سے باتیں کی سمجھو اب باتوں کا دور تو شروع ہو ہی گیا ہے۔۔۔ تمہارے اس چہرے کی چمک دیکھ کر میں یہ اندازہ لگا سکتی ہو تمہیں عجیب لگ رہا ہے مگر برا ہرگز نہیں لگ رہا"
شانزے مسکراتی ہوئی بولی
"تم خوش ہو رہی ہوں شانزے،،، مجھے یقین نہیں آرہا تمہیں تو مردوں سے نفرت ہے نا"
عنایہ اس کو دیکھتی ہوئی بولی
"مردوں سے نفرت مجھے اپنے لئے ہے۔۔۔ تمہارے لئے میں اس لئے خوش ہوں کہ تم اپنی مامی اور اس نک چڑی کزن کے شر سے بچی رہو گی"
شانزے نے عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ باتیں کرتے کرتے وہ دونوں کلاس میں پہنچ چکی تھیں
"میرے دل کی دعا ہے کہ بہت جلد تمہاری زندگی میں بھی ایسا مرد آئے جو کم ازکم تمہارے دل میں مردوں کے لیے نہ سہی مگر اپنے لئے اس نفرت کو نکال دے"
عنایہ شانزے کو دیکھتے ہوئے بولی
"دیکھتے ہیں۔۔۔ مگر مجھے لگتا نہیں ایسا ہو"
شانزے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
****
ٹی پنگ کلر کی شرٹ پر لائٹ گولڈن کام کے ساتھ، ہم رنگ دوپٹہ سر پر ٹکائے اور چوڑی دار پاجامہ پہنے۔۔۔ عنایہ بہت پیاری لگ رہی تھی یہ ڈریس آج کے فنکشن کے لحاظ سے ثروت خود اس کے لئے لے کر آئی تھی۔۔۔ جب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تو فرمان نے اسے گلے لگا کر ڈھیر ساری دعائیں دی اس کے پر کشش روپ کو دیکھ کر عشرت دل ہی دل میں جل کر رہ گئی
"میں ڈرائیور کو دیکھ کر آتا ہوں عشرت تم منال کو بلا لو"
فرمان عشرت کو کہتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا
"میری شکل کیا دیکھ رہی ہو جاؤ جاکر منال کو بلاکر لاو سنا نہیں فرمان کیا کہہ کر گئے ہیں"
عشرت عنایہ سے کہتی ہوئی سر جھٹک کر خود بھی باہر نکل گئی۔۔۔
اونچی ہیل پہننے کی وجہ سے عنایہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی منال کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔۔ کمرے کا دروازہ پہلے ہی معمولی سا کھلا ہوا تھا عنایہ نے جیسے ہی پورا دروازہ کھولا۔۔۔ نمیر اور منال جو کہ ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے تھے ایک دم دور ہوئے وہی عنایہ بھی شرمندہ ہوگئی
"مینرز نام کی چیز نہیں ہے تم میں،،، یوں کسی کے روم میں آتے ہیں بغیر دروازہ ناک کیے" منال غصے میں کہتی ہوئی عنایہ کے سامنے آئی
"سوری آپی وہ مامی نے بولا تھا کہ منال کو بلاکر لاؤ"
عنایہ آنکھیں نیچے جھکائے آہستہ آواز میں بولنے لگی
"نان سینس"
منال اس کو غصے میں دیکھتی ہوئی روم سے نکل گئی
"عنایہ"
عنایہ بھی روم سے جانے لگی تو نمیر نے اس کو آواز دی ہوں وہ دوبارہ مڑی
"سوری یار،، منال کا موڈ اچھا نہیں تھا شاید اس کے فرینڈز نہیں آرہے فنکشن میں،،، اس وجہ سے وہ تم سے اتنا روڈلی بی ہیو کر گئی"
نمیر اسے منال کی طرف سے وضاحت دینے لگا جبکہ وہ خود بھی جانتا تھا منال عنایہ سے اسی طرح بات کرتی ہے کہی دفعہ نمیر نے منال کو سمجھایا بھی تھا مگر وہ نمیر کی بہت کم باتوں کا اثر اپنے اوپر لیتی تھی
"نہیں آپی ٹھیک کہہ رہی تھی غلطی میری ہے مجھے واقعی ناک کر کے آنا چاہیے تھا"
عنایہ نظریں جھکا کر بولنے لگی تو نمیر کو گلٹ فیل ہونے لگا
"وہ منال سے چین کا لاک نہیں لگ رہا تھا تو اس کو چین پہنا رہا تھا"
نمیر کو خود سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ عنایہ کو کیو وضاحت دے رہا ہے
"ماموں جان اور مامی باہر ویٹ کر رہے ہیں،، ہمیں بھی چلنا چاہیے"
عنایہ نمیر کی بات کے جواب میں بولی اور جانے کے لیے مڑی
"عنایہ"
نمیر نے دوبارہ اسے پکارا عنایہ نے مڑ کر اسے دیکھا تو نمیر اسی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
"آج فرسٹ ٹائم میں نے تمہیں اتنا تیار دیکھا ہے۔۔اور تم یوں تیار ہو کر اور بھی زیادہ حسین لگ رہی ہو۔۔۔۔ ایسے ہی تھوڑی میں تمہیں حسین لڑکی بولتا ہوں۔۔۔ بس ایک چیز کی کمی ہے"
نمیر عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا
"کیا۔۔۔ کیا کمی رہ گئی"
عنایہ کنفیوز ہو کر پوچھنے لگی
"نمیر اس کا ہاتھ تھام کر اسے ڈریسر کے سامنے لایا اور کندھوں سے تھام کر اس کا رخ کی آئینے کی طرف کیا
"حسین لڑکی اوپر والے نے تمہیں اتنی پیاری صورت سے نوازا ہے اور تم ہر وقت چہرے پر گھبراہٹ کے اثار لائے رہتی ہو۔۔۔ یار آج کے دن تو تھوڑی اسمائل لاو اپنی فیس پر"
نمیر عنایہ کی پشت پر کھڑا ایسے انداز میں بولا عنایہ کے چہرے پر خودبخود مسکراہٹ آگئی جسے دیکھ کر نمیر بھی مسکرا دیا
"اسی چیز کی کمی تھی،،، بس اب سارا وقت نہال کو دیکھ دیکھ کر ایسے ہی اسمائل دینا مجھے پورا یقین ہے،، وہ دو ماہ کے اندر اندر تمہیں رخصت کروا کر ہمارے گھر لے آئے گا"
نمیر نے عنایہ کو چھیڑتے ہوئے کہا جس پر وہ سچ مچ شرما گئی
"کیوٹ یار۔۔۔۔ تم نے نہال کے نام پر ابھی سے بلش کر رہی ہو۔۔۔ یہ بات تو میں اسے ضرور بتاؤں گا"
نمیر مسکراتا ہوا عنایہ کو دیکھ کر بولا
"پلیز نمیر بھائی آپ انہیں کچھ نہیں بولیے گا"
عنایہ نے گھبراتے ہوئے نمیر سے کہا
"انہیں۔۔۔ واہ واہ چلو باہر چلتے ہیں" نمیر عنایہ کے انہیں کہنے پر مسکراتا ہوا باہر نکل گیا
🌹: Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 5
بینکوئیٹ میں ہر طرف مہمانوں کی چہل پہل نظر آرہی تھی۔۔۔ ایک طرف فرمان اور عشرت ریسپشن پر کھڑے آنے والے گیسٹ کا ویلکم کر رہے تھے دوسری طرف ثروت سب مہمانوں کا حال احوال پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ دونوں گھرانوں میں کیوکہ پہلی خوشی تھی اس لیے بڑے پیمانے پر تقریب کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔ منال ان سب سے بے زار ہوکر مسلسل اپنے موبائل پر مصروف تھی
نوفل،، نہال اور نمیر تینوں اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔۔۔
نہال ہر تھوڑی دیر بعد ایک نظر سجی سنوری اسٹیج پر اپنی کزن کے ساتھ بیٹھی عنایہ پر ڈال لیتا۔۔۔ اسے ثروت کا یہ اپنے لیے عنایہ کی صورت انتخاب بہت پسند آیا تھا جیسا مزاج وہ رکھتا تھا عنایہ اس لحاظ سے اس کے لیے پرفیکٹ تھی۔۔۔
وہ نہال کو عام دنوں کے مقابلے میں آج تھوڑی بڑی لگی شاید میک اپ اور ہیوی جیولری کی وجہ سے ایسا لگ رہا ہو۔۔۔ آج فرسٹ ٹائم نہال نے اسے اتنا تیار دیکھا تھا ورنہ ہمیشہ وہ اسے سمپل ہی نظر آتی۔۔ جو بھی تھا نہال کا دل بار بار عنایہ کی طرف مائل ہوا جارہا تھا وہ اسے بہت پیاری لگ رہی تھی مگر عنایہ کی تعریف وہ اسی کے سامنے کرنے کا خواہشمند تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد نہال کی نظر اسٹیج پر اٹھی تو عنایہ کو اکیلا بیٹھا پایا،،، شاید اس کی کزن وہاں سے چلی گئی تھی وہ اپنے دوستوں سے ایکسکیوز کرتا ہوا اسٹیج پر آیا
"کیا ہوا سب خیریت ہے"
نہال نے اسٹیج پر آکر عنایا سے پوچھا جوکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ریلیکس بیٹھی ہوئی تھی مگر نہال کو اسٹیج پر آتا دیکھ کر اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار رونما ہونے لگے
"جی سب خیریت ہے"
اب وہ اسٹیج سے نیچے سب لوگوں کو دیکھ کر جواب دینے لگی
"تو اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہو"
نہال نے اس کی پریشانی کی وجہ جاننی چاہیی
"نہیں وہ سب لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں"
عنایہ ایک نظر نہال پر ڈال کر کہتی ہوئی دوبارہ لوگوں کو دیکھنے لگی جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو
"تو کیا ہوا اللہ پاک نے سب کو آنکھیں دیکھنے کے لئے ہی دی ہیں،، انہیں اپنا کام کرنے دو تم یہاں میری طرف دیکھو"
نہال نے عنایہ کا کنفیوز چہرہ دیکھ کر اسے آرام سے سمجھاتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔ عنایہ نے نہال کو ایک نظر دیکھا،، مگر نہال کی نظروں کو خود پر محسوس کرکے عنایہ اپنی نظریں جھکا گئی
"تم نے اس دن میرے شکریہ کا انتظار کیا"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میں گیارہ بجے تک سو جاتی ہو ورنہ صبح صبح کالج کے لئے اٹھا نہیں جاتا"
عنایہ کی بات سن کر نہال کے چہرے پر مسکراہٹ آئی کیوکہ جس دن نہال نے عنایہ کو کالج سے گھر چھوڑا تھا اس دن نہال نے عنایہ کو کال یا میسج کر کے شکریہ نہیں کہا تھا
"یعنی گیارہ بجے سے پہلے تم نے میرے شکریہ کا انتظار کیا"
نہال اب اس کی طرف مسکراتی نظروں سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا عنایہ اس کی بات سن کر ایک بار پھر نظریں جھکاؤ گئی
"میں نے تمہیں اس دن اس لئے کال کر کے شکریہ نہیں کہا کیوکہ میں تمہیں فیس ٹو فیس شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ میرے پرپوزل کو ایکسپٹ کرنے کے لیے بہت بہت شکریہ،، میں جانتا ہوں ہم دونوں کے بیچ گیارہ سال کا ایج ڈفرینس ہے،، ایک 18سال کی لڑکی اور 30 سال کے مرد کی منٹیلٹی، ان دونوں کی سوچوں میں کافی فرق ہوتا ہے۔۔۔ میں پوری کوشش کروں گا یہ فرق ہم دونوں کے رشتے میں حائل نہ ہو۔۔۔ تم بغیر جھجھکے،، بغیر شرمائے مجھ سے اپنی ہر بات،، ہر پرابلم شیئر کرسکتی ہو۔۔۔ میں تھوڑا بہت ریزرو نیچر کا مالک ہوں ہر کسی سے ایک دم فرینک نہیں ہوتا مگر کمپلیکیٹڈ ہرگز نہیں ہوں۔۔ اسطرح گھبرانا چھوڑ دو عنایہ ہم دونوں کی طرف کوئی نہیں دیکھ رہا"
اپنی بات کے اختتام پر ایک دفعہ پھر نہال نے نرمی سے عنایہ کو بولا جو مسلسل اسٹیج سے نیچے کسی اور کو دیکھنے میں مصروف تھی
"مامی نے سختی سے منع کیا تھا کہ آپ سے زیادہ بات کرنے کی اور فرینک ہونے کی ضرورت نہیں ہے،،، مامی بہت دیر سے ہم دونوں کو دیکھی جا رہی ہیں وہ بعد میں مجھ سے ناراض ہوگیں"
عنایہ نہال کو دیکھ کر بے چارگی سے بولی۔۔۔ شاید نہال کے تھوڑی دیر پہلے بخشے ہوئے اعتماد کی وجہ سے عنایہ اس طرح اس سے عشرت کے بارے میں بول گئی۔۔ ۔۔ نہال نے جب عشرت کی طرف دیکھا تو وہ واقعی ان دونوں کو ناپسندیدہ نظروں سے ہی دیکھ رہی تھی
"عنایہ بڑوں کا احترام چھوٹوں پر لازم ہوتا ہے لیکن ہمارے بڑے اگر جان کر زیادتی کریں تو اپنے حق کے لئے بولنا چائیے۔۔۔ کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے،، اگر خالہ جانی بعد میں کچھ بھی کہئے،،، تو کہہ دینا آپ کا بھانجہ خود مجھ سے بات کرنے میرے پاس آیا تھا۔۔۔ ویسے اب وہ تمہیں کچھ بھی نہیں کہیں گی بے فکر ہوجاو"
نہال اس کو نروس دیکھ کر اسٹیج سے جانے لگا مگر کچھ یاد آنے پر پلٹا
"اور ہاں سب سے امپورٹنٹ بات تو بتانا بھول ہی گیا"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا تو عنایہ بھی اس کو دیکھنے لگی
"تم بہت پیاری لگ رہی ہو"
نہال کے بولنے پر عنایہ نے نہال کی طرف دیکھا۔۔۔ نہال کی آنکھوں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھ کر عنایہ نے ہلکی سی اسمائل دی نہال مسکراتا ہوا اسٹیج سے اتر گیا
***
"یار نمیر دیکھ وہ وہی ہے جس نے ہفتے بھر سے تیرے بھائی کو بےچین کر رکھا ہے"
نوفل دوستوں میں گھرے ہوئے نمیر کو کھینچ کر ایک طرف لایا اور شانزے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بتانے لگا۔۔۔ بلیک کلر کے ڈریس میں اپنی تمام تر خوبصورتی اور مغروریت چہرے پر سجائے بینکوئیٹ کے داخلی راستے سے نوفل کو اپنی ظالم حسینہ آتی ہوئی دیکھی
"وہ کالے کپڑوں والی لڑکی،،، وہی جس سے تم نے منہ پر چپیڑ کھائی تھی"
نمیر دور سے شانزے کو دیکھتا ہوا نوفل سے پوچھنے لگا۔۔۔ نمیر کی بات سن کر نوفل اپنی ساری ایکسائٹمنٹ بھلا کر ایک دم سیریس ہوا
"ہاں وہی کالے کپڑوں والی اور تمہیں پورا سین بتانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ تم زلالت پر اتر آو۔۔۔ ویسے یار یہ یہاں کیا کر رہی ہے،، مطلب تم لوگوں کی جانے والی ہوگی۔۔۔ میرا پیارا بھائی،، ذرا اس کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کر کے اپنی دوست کا حق تو ادا کر ناں میرے یار"
نوفل اب نمیر کو پیارے سے بہلاتے ہوئے بولنے والا لگا
"نہیں یہ ہمارے رشتے داروں میں سے تو نہیں ہے،، میں بھی اسے فرسٹ ٹائم ہی دیکھ رہا ہوں۔۔۔ ہوسکتا ہے منال کی یا پھر عنایہ کی کوئی دوست ہو ویسے اس کی شکل دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہ اتنی بہادر ہے میرا مطلب ہے۔۔۔ لگتا نہیں ہے کہ اس نے تمہارے منہ پر تھپڑ رسید کردیا ہوگا"
نمیر نے آخر میں ایک بار پھر زلالت کا مظاہرہ کیا جس پر نوفل کا شدت سے دل چاہا کہ وہ مُکا مار کے اس کا منہ توڑ دے
"تم جیسے بے ہودہ دوست اگر زندگی میں موجود ہو تو انسان کو کبھی دشمنوں کی ضرورت نہیں پڑنی ہے خیر میں خود ہی اپنے لیے کچھ نہ کچھ کر لیتا ہوں"
نوفل اپنے اس مطلب پرست دوست کو دیکھتا ہوا بولا
"دھیان سے میرے دوست یاد رکھنا یہاں پر کافی لوگ موجود ہے یہاں اگر سب کے سامنے پڑ گیا تو ایک پولیس والوں کا اور بھی ریکارڈ لگے گا"
نمیر کے مخلصانہ مشورے پر نوفل اسے گالی دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا
****
"ہیلو کیسی ہیں آپ"
شانزے وہاں پر صرف عنایہ کی ناراضگی کی دھمکی کی وجہ سے آئی تھی مگر اب اکیلی بیٹھی ہوئی اسے بوریت محسوس ہو رہی تھی جبھی اپنے قریب سے آتی مردانہ آواز پر چونکی
"کون ہے آپ"
شانزے اسے دے کر فوراً پہچان گئی مگر چہرے پر اجنبیت کے ساتھ ساتھ سنجیدگی طاری کرتے ہوئے پوچھنے لگی
"مجھے نہیں پہچانا آپ نے"
نوفل حیرت سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا
"مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں پر شاہ رخ خان بھی انوائٹڈ ہے"
شانزے اس پر سنجیدگی سے طنز کرتی ہوئی بولی
"ہاہاہا۔۔۔ طنز اچھے مارتی ہیں آپ۔۔۔ چلیں میں آپ کو یاد دلا دیتا ہو چند دن پہلے آپ کسی پکے ہوئے آم کی طرح میری جھولی میں آ کر گری تھیں۔۔۔ میرا مطلب ہے ہفتے پہلے ہی میں نے آپ کی جان بچائی تھی۔۔۔ اب کچھ یاد آیا آپ کو"
نوفل صاف محسوس کر سکتا تھا کہ وہ اس کو پہچاننے کے باوجود پوز کر رہی تھی جیسے جانتی نہ ہو۔۔۔ تبھی نوفل اسے وہ منظر یاد دلانے لگا جب وہ اوپر سے گودنے کے چکر میں اس کی گود میں آ گری تھی
"مجھے دیکھنے کے بعد،،، یاد تو آپ کو بھی بہت کچھ آیا ہوگا"
شانزے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے ہاتھ سے کُھوجاتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔ ۔۔۔ شانزے کے اس انداز پر نوفل ہنستا ہوا اسے دیکھنے لگا
"کافی ڈھیٹ ہیں آپ،، ورنہ آپ کو میرے سامنے آتے ہوئے اپنا چہرہ چھپانا چاہیے تھا یقیناً اس دن کا پڑنے والے تھپڑ کو بھی آپ بھول چکے ہوں گے"
شانزے اسے شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے دیکھ کر مزید صاف لفظوں میں شرمندہ کرتی ہوئی بولی
"چہرہ مجھے نہیں آپ کو چھپانا پڑتا اگر اس دن میں تھپڑ کا بدلا لیتا مگر کیا ہے ناں عورت کی بے بسی سے فائدہ اٹھانے والا مرد میں ہرگز نہیں ہوں"
نوفل اس کو دیکھ کر جتاتا ہوا بولا
"جو عورت کو بے بس کر کے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں میری نظر میں وہ مرد کہلانے کے لائق بھی نہیں ہوتے"
شانزے اپنی بات مکمل کر کے اب اسٹیج پر عنایہ کو دیکھنے لگی۔۔۔ اس کا مطلب صاف تھا شانزے اب اس سے بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی
"بہت اچھی سوچ ہے آپ کی میں بھی بالکل ایسا ہی سوچتا ہوں،، مجھے لگ رہا ہے ہم دونوں کے خیالات ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں۔۔۔ اس لیے ہمہیں فوراً دوستی کر لینی چاہیے نوفل نام ہے میرا"
نوفل نے ہاتھ ملانے کی غرض سے اس کے آگے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تو شانزے نے حقارت بھری نظر اس کے ہاتھ پر ڈالی اور سنجیدگی سے اس کو دیکھنے لگی
"میں مردوں سے ہاتھ ملانے والی لڑکی ہرگز نہیں ہوں،، اس لیے آپ اپنا یہ فرینک نیچر لے کر کسی اور لڑکی پر ٹرائے کریں میرے پاس تو آپ کا صرف ٹائم ویسٹ ہوگا۔۔۔ آپ کو یہاں اپنے جیسی ہزاروں لڑکیاں مل جائیگی۔۔۔ اور دوسری بات میرے اور آپ کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے مجھے آپ اور آپ کے جیسے دوسرے مردوں سے نفرت ہے۔۔۔ میری تازہ تازہ رائے آپ کے بارے میں یہی ہے کہ ایک تھپڑ آپ کے لیے کافی نہیں تھا اس لیے آپ مجھ سے دور رہئے گا یہی آپکی صحت کے لئے بہتر ہوگا"
شانزے نوفل کو اپنی طرف سے کھری کھری سنا کر وہاں سے جانے لگی
"ویسے اس طرح کی باتیں کر کے آپ کو نہیں لگ رہا آپ مزید مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔۔۔۔ ٹائم کا پرابلم نہیں ہے مجھے،، آپ سے بات کر کے آپ کے اوپر اپنا ٹائم ویسٹ کر کے مجھے اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ اور اب تو مجھے لگ رہا ہے آپ سے دوری میری صحت کیلئے مضحر ہوگی،،، اب مجھے اپنے لیے سنجیدگی سے کچھ نہ کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔۔۔ دوسرے مردوں سے نہیں،،، مگر اپنے آپ سے میں آپ کو زیادہ دیر تک نفرت نہیں کرنے دوں گا یہ وعدہ ہے میرا"
اب کی بار نوفل بھی سنجیدگی سے اس کو دیکھ کر کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ دوسری طرف شانزے اس کو غصے میں گھورتی رہ گئی۔۔۔ اس کی نظروں میں نوفل کا امیج مزید خراب ہوگیا وہ دوسری ملاقات میں بھی اس سے فلرٹ کر رہا تھا
"چھچھورا کہیں کا"
****
تمام گیسٹ کی موجودگی میں نہال نے عنایہ کو اپنے ہاتھ سے رینگ پہنائی بہت ساری رشک اور حسد کی ملی جلی نظریں ان دونوں کے اوپر مرکوز تھیں۔،۔ نہال اور عنایہ ایک ساتھ کھڑے ہوئے پرفیکٹ میچ لگ رہے تھے
نہال نے جب عنایہ کو رینگ پہنائی تو عنایہ نے نظر اٹھا کر نہال کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا عنایہ فوراً اپنی نظریں جھکا گئی جس پر نہال کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی
اس لمحے نہال کی فیلنگز عنایہ کے لیے بالکل مختلف تھی جن نظروں سے وہ عنایہ کو دیکھ رہا تھا شاید پہلے کبھی اس نے عنایہ کو اس طرح نہ دیکھا ہو دوسری طرف عنایہ جو پہلے ہی اس سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی آج مزید نہال کو دیکھ کر مزید نروس ہو رہی تھی
"میرے بھائی اب تھوڑا کیمرے کی بھی طرف دیکھ لو۔۔۔ کیمرہ مین کب سے تمہاری تصویرں لینے کے لئے منتظر کھڑا ہے"
نمیر کے بولنے پر نہال نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا
"واہ بیٹا وہاں تو بڑی محبت بھری نظروں سے دیکھا جارہا تھا اور بھائی کو ایسے دیکھ رہے ہو جیسے کچا ہی نگل لو گے"
نمیر کے بولنے کی دیر تھی آس پاس کے تمام لوگ اس کی بات پر ہنس پڑے جس سے عنایہ مزید کنفیوز ہونے لگی
"نمیر اگر تم نے اب اپنا منہ بند نہیں کیا تو میں تمہارے سارے دانت توڑ دوں گا"
نہال نے اب کی بار گھورنے کی بجائے عنایہ کو نروس دیکھ کر نمیر کو بہت پیار بھرے انداز دھمکی دی جس پر وہ سیڈ اسمائل دے کر خاموش ہو گیا
****
"اتنی دیر سے اکیلے کیوں کھڑی ہو،، کیا سوچ رہی ہو"
نمیر کافی دیر سے منال کو دیکھ رہا تھا جو سب سے الگ تھلک کھڑی تھی تبھی اس کے پاس آ کر پوچھنے لگا
"سارا موڈ خراب کر دیا جو جو اور ٹینا نے نہ آ کر۔۔۔ مجھے اسپیشلی ٹینا سے تمہیں ملوانا تھا"
وہ ابھی بھی بیزار دکھ رہی تھی منہ بناتی ہوئی نمیر سے بولی
"منال تمہاری زندگی میں اب جو جو اور ٹینا ہی رہ گئے ہیں یار،، ان کے بنا تمہارا دل ہی نہیں لگتا،، ہر وقت ان کے ساتھ رہتی ہو، ہر وقت ان کی باتیں کرتی رہتی ہو۔۔۔ تمہاری اپنی فیملی اور اسپیشلی میں۔۔۔۔ ہم کہاں پر ہیں تمہاری لائف میں"
نہال کی منگنی کی وجہ سے نمیر آج بہت خوش تھا اور وہ کسی بھی بات کو لے کر غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر وہ منال کی بات کا برا مناتا ہوا بولا
"تو تمہیں میرے فرینڈز برے لگتے ہیں"
منال نے تیوری چڑھا کر نمیر سے پوچھا
"سچ بولو تو ہاں۔۔۔ کیوکہ تم نے اپنی زندگی کا مرکز اپنے فرینڈز کی ذات کو ہی بنا لیا ہے چند ماہ سے تم نے اپنے فرینڈز کی وجہ سے نہ صرف اپنی فیملی کو بلکہ مجھے بھی اگنور کیا ہوا ہے"
نمیر بگڑے موڈ کے ساتھ بولا
"اچھا تم اپنا موڈ تو ٹھیک کرو تمہیں کہا اگنور کر رہی ہو میں"
منال فوراً اس کی ناراضگی کے ڈر سے بولی ورنہ نمیر اس سے دو دن تک روٹھا رہتا۔۔۔۔ اور اسے بلاوجہ کی نمیر کے منتیں کرتے ہوئے اسے منانا پڑتا
"موڈ ٹھیک ہے میرا مگر میں اپنی ذات کی اگنورنس بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ چلو اسٹیج پر نہال اور عنایہ کو مبارکباد دیتے ہیں"
عنایہ کا نام سن کر منال کا منہ کڑوا ہوگیا مگر وہ نمیر کی ناراضگی کا سوچ کر نمیر کے ساتھ اسٹیج کی طرف نہال اور عنایہ کے پاس جانے لگی
****
وہ اپنی زندگی میں آنے والی اس نئی تبدیلی سے بہت خوش تھا،،، بہت جلد وہ اس کے دل میں جگہ بنا گئی تھی۔۔۔۔ وہ اپنے بیڈ روم میں بیٹھ پر لیٹا ہوا آنکھیں بند کر کے اپنے آنے والی زندگی کے حسین خواب دیکھ رہا تھا تبھی اسے محسوس ہوا جیسے وہ کمرے میں اکیلا موجود نہیں ہے کوئی اور بھی اس کے ساتھ موجود ہے
کسی دوسرے وجود کی موجودگی کے احساس سے اس نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔۔ سامنے والی دیوار کے ساتھ فرحین کو کھڑا دیکھ کر ایک پل کے لئے وہ خوفزدہ ہوگیا اور اٹھ کر بیٹھا۔۔۔ فرحین پر اسرار مسکراہٹ چہرے پر سجائے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا بھلا مرنے کے بعد کون اس طرح آسکتا تھا وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا
"میری آنکھوں سے زندگی کے خواب نوچ کر تم خود اپنی زندگی کے حسین خواب دیکھ رہے ہو۔۔۔ ہمیشہ تڑپتے رہو گے، تمہیں کبھی بھی کوئی خوشی نصیب نہیں ہوگی ترسو گے تم خوشیوں کے لیے"
فرحین کی باتیں اس کے دل میں تیر کی طرح چبھنے لگی تڑپ کر اس نے اپنی آنکھیں کھولی اس کا پورا چہرہ ہی نہیں پورا وجود پسینے میں شرابور ہو رہا تھا جلدی سے اٹھ کر اس نے اپنے کمرے کی لائٹ کھولی اور اپنے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی کمرے میں کوئی بھی موجود نہیں تھا
"یہ خواب تھا اتنا بھیانک"
وہ خود سے مخاطب ہوا اس کا دل بری طرح گھبرانے لگا کمرے کی لائٹ بند کیے بنا وہ واپس آکر بیڈ پر لیٹ گیا اور کمرے کی چھت کو گھورنے لگا اسے معلوم تھا اب اسے نیند نہیں آئے گی
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 6
"رات بھر جاگنے کے باعث صبح اس کا سر درد سے بھاری ہو رہا تھا۔۔۔ میز پر اپنے سامنے کھلی ہوئی فائل میں وہ کوئی کیس دیکھ رہا تھا جب صدیق ایک لڑکے کو مارتا ہوا پولیس اسٹیشن کے اندر لایا
"کیوں شور مچا رکھا ہے صدیق، کون ہے یہ"
نوفل نے ماتھے پر ناگوار شکنیں لاتے ہوئے صدیق سے پوچھا
"سر یہ وہی بدبخت ہے جس کے خلاف چند دن پہلے رپورٹ درج کروائی تھی،، ایک معصوم لڑکی کی عزت سے کھیلنے والا"
صدیق نے اس لڑکے کی گدی پر زوردار ہاتھ جڑا اور نوفل کو بتانے لگا۔۔۔ جس پر نوفل کی پیشانی کی شکنوں میں مزید اضافہ ہوا۔۔۔ نوفل کرسی سے اٹھتا ہوا اس لڑکے کے سامنے آکر کھڑا ہوا
"بہت مردانگی ہے تجھ میں"
نوفل نے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے پوچھا
"سر ساری غلطی میری نہیں ہے،، اس کی مجھ سے خود سیٹنگ چل رہی تھی مگر اس نے منگنی کسی اور سے کرلی اس لیے میں نے۔۔۔"
وہ لڑکا اپنا اعتراف جرم کرتا ہوا بتانے لگا
"اس لیے تم نے مردانگی کے نام پر اپنی اوقات دکھائی"
نوفل اس کا گریبان پکڑ کر پوچھنے لگا
"مجھے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔۔۔ اس نے مجھے ٹھکرایا میں نے اسے کسی دوسرے مرد کے بھی قابل نہیں چھوڑا"
وہ لڑکا کمینگی سے ہنستا ہوا بولا
"صدیق اسے پہلے اس کا کیس آگے جائے،،، آج اس کی ساری مردانگی پولیس کے ڈنڈے سے باہر نکال دو،، اسے پولیس کے ڈنڈے کے ایسے جوہر دکھاؤ کہ آئندہ یہ کسی عورت کی طرف دیکھنا تو دور،، خود کو مرد کہلانے کے قابل نہ سمجھے"
نوفل اپنے سامنے کھڑے اس لڑکے کو دیکھ کر صدیق سے کہتا ہوا باہر نکل گیا
***
اوہ تو وہ نوفل بھائی تھے پولیس والے،، جن کو تم نے تھپڑ دے مارا۔۔۔ بہت افسوس کی بات ہے شانزے وہ تو اتنے شریف انسان ہیں"
کالج کی چھٹی کے وقت وہ دونوں باتیں کرتی ہوئی باہر نکلنے لگی تب عنایہ افسوس کرتی ہوئی شانزے سے کہنے لگی۔۔۔۔ عنایہ نے اکثر نمیر کے منہ سے نوفل کا نام سنا تھا اور ایک دو دفعہ سرسری دیکھا بھی تھا۔۔۔ مگر اپنی منگنی والے دن نہال نے اس کا نوفل سے تعارف کرایا۔۔۔ اور وہ عنایہ کو اچھا بھی لگا
"واہ بھئی مان گئے اب اگر وہ تمہارے منگیتر کا پکا والا دوست نکل آیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ شریف ہے بتایا تو تھا میں نے تمہیں کس طرح وہ مجھے اپنی طرف کھینچ کر۔۔۔۔ چماٹ نہیں رکھ کر دیتی نہ اسکے منہ پر معلوم نہیں کیا کرتا اور تمہاری منگنی والے دن بلاوجہ میں فری ہو رہا تھا انتہا کا کوئی ٹھرکی اور فضول ٹائپ کا انسان ہے ایک نمبر کا چھچھورا"
شانزے سر جھٹکتی ہوئی کہنے لگی
"یہی بات تو نہیں سمجھ میں آرہی ہے انہوں نے آخر ایسا تمہارے ساتھ کیو کیا،،، کہیں ایسا تو نہیں شانزے تم انہیں پسند آگئی ہو"
عنایہ نے اب کی بار مسکراتے ہوئے اس سے کہا
"پسند آنے کا یہ مطلب ہے کہ پہلی ملاقات میں ہی انسان اوٹ پٹانگ حرکتیں شروع کردے کیا۔۔۔ کوئی عمران ہاشمی کی فلم چل رہی ہے کیا۔۔۔۔ اور اسے محبت نہ ہی ہو تو یہی اس کی صحت کے لیے بہتر ہے نہیں تو آپ کی باری جوتی اترنے میں دیر نہیں لگاؤں گی"
شانزے کو اب نوفل کی شکل یاد کرکے غصہ آنے لگا
"کیا ہر وقت جنگجو طیارہ بنی رہتی ہو، کبھی تو کوئی لڑکیوں جیسا ری ایکٹ کیا کرو۔۔۔۔ ویسے برے نہیں ہیں نوفل بھائی ایک دفعہ غور کرو"
عنایہ نے اسے اپنے طور پر سمجھانے کی کوشش کی کیوکہ منگنی والے دن نمیر اس سے شانزے کے متعلق کافی کچھ پوچھ چکا تھا اور سرسری سا نوفل کے بارے میں بھی اسے بتایا کہ نوفل کی مدر کے آنے پر وہ باقاعدہ رشتہ لے کر اس کی دوست کے گھر جائے گا
"او ہیلو یہ منگنی کر کے تم کچھ زیادہ ہی اماں نہیں بن گئی ہو،، تمہیں معلوم ہے نہ مجھے چڑ ہے مردوں سے اور نوفل ایک مرد ہی ہے"
شانزے عنایہ کو گھورتی ہوئی بولی
"شادی بھی ایک مرد سے ہی کی جاتی ہے میری پیاری دوست،، ساری زندگی ایسے نہیں گزاروں گی تم بناء شادی کے"
عنایہ اس کی گھوری کو خاطر میں لائے بغیر اس کا برین واش کرنے لگی
"تمھیں میری ساری پروبلمس معلوم ہے عنایہ،، میرے گھریلو حالات۔۔۔۔ ایک امی کے سوا میرے پاس کون ہے بھلا اور یہ ساری باتیں ایک طرف مجھے یہ مرد کی ذات نہایت مفات پرست لگتی ہے صرف اپنے فائدے کے لیے عورت کے پاس آنے والی قوم ہے یہ۔۔۔۔ میرا دل نہیں مائل نہیں ہوسکتا شاید کسی کیطرف"
شانزے عنایہ کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی اتنے میں عنایہ کا موبائل بجا
"ہیلو نمیر بھائی خیریت"
نمیر کی موبائل پر کال دیکھ کر عنایہ کو حیرت ہوئی
"کلاس آف ہوگئی تمہاری"
نمیر کا موبائل پر لہجہ بالکل سیریس لگ رہا تھا
"جی بس گھر جانے والی وہ سب ٹھیک ہے ناں"
عنایہ نے اس سے پریشان ہوکر پوچھا کیوکہ نمیر نے اس طرح کبھی کال نہیں کی تھی
"نہیں یار خیریت نہیں ہے تم باہر آو میں تمہیں لینے آیا ہوں"
نمیر کی بات سن کر اب عنایہ کو پریشانی ہونے لگی اس لیے وہ جلدی سے شانزے کو بائے کہہ کر کالج سے باہر نکلی نمیر اس کا کار میں انتظار کر رہا تھا
"کیا ہوا نمیر بھائی سب ٹھیک ہے ماموں جان خیریت سے ہیں نا"
عنایہ نے آتے ہی نمیر سے سوالات شروع کر دیے
"کار میں بیٹھو بتاتا ہوں"
نمیر نے اس کے سوالات کے جواب میں کہا کار اسٹارٹ کرنے لگا۔۔۔ عنایہ جلدی سے کار میں بیٹھ گئی نمیر کار اسٹارٹ کر کے اسے کالج سے لے گیا
****
عنایہ کے کالج سے نکلنے کے بعد شانزے بھی بس کے انتظار میں اسٹاپ پر پڑی ہوئی تھی تبھی اس کے پاس ایک کار آکر رکی جس میں سے اترنے والی شخصیت کو دیکھ کر شانزے کی چہرے پر بیزاری چھا گئی
"کیسی ہو تم"
نوفل کار سے اترنے کے بعد شانزے کے پاس آ کر پوچھنے لگا
"بہت بدتمیز، پچھلی دو ملاقاتوں میں اندازہ نہیں ہوا تمہیں"
شانزے اپنے چہرے پر چھائی بیزاری اسے محسوس کراتی ہوئی اپنے سامنے کھڑے ڈھیٹ انسان کو کہنے لگی جو اس کو گھورنے میں مصروف تھا اور اب اس کی بات سن کر باقاعدہ ہنس رہا تھا
"حسین لوگ اکثر بدتمیز ہی ہوا کرتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور اب کی بار یہ کمبینیشن مجھے بہت آٹریکٹ کیا ہے۔۔۔ کیا ہم تھوڑی دیر کے لئے بات کر سکتے ہیں"
نوفل دلچسپی سے اس کو دیکھ کر پوچھنے لگا ہوا وہ آج بھی پچھلی دو ملاقاتوں کی طرح اسے اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی
"اس دن شاید تمہیں میری باتیں سمجھ میں نہیں آئی تھی۔۔۔ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے فوراً نو دو گیارہ ہو جاؤ یہاں سے"
شانزے نے اس کو دیکھ کر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا
"مس شانزے مجھے اپنی عزت کے ساتھ ساتھ تمہاری عزت بھی پیاری ہے،،، جبھی پیار سے کہہ رہا ہوں ہم آرام سے کار میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں"
اب کی بار نوفل بھی سنجیدگی سے بولا۔۔۔ اپنا نام اس کے منہ سے پر ایک پل کے لئے شانزے چونکی
"کیا مسئلہ ہے تمہارا یہ پولیس کی وردی تم نے غنڈہ گردی دکھانے کے لیے پہنی ہے ایک دفعہ کی بات سمجھ میں نہیں آتی،،، انٹرسٹ نہیں ہے مجھے تم سے بات کرنے میں شانزے جان بوجھ کر تیز آواز میں بولی جس سے آس پاس کے لوگ متوجہ ہوئے
"ابھی تک تو میں نے بہت سیدھے طریقے سے تم سے بات کی تھی لیکن تمہارے بارے میں میری رائے یہ ہے تم حسین اور بدتمیز ہونے کے ساتھ ساتھ بیوقوف بھی ہو۔۔۔ تمہیں اندازہ ہونا چاہیے پولیس والے انگلی ٹیڑھی کر کے گھی نکالتے ہیں"
نوفل نے شانزے کے چیخنے کا نوٹس لیے بغیر اس کا بازو پکڑ کر اپنی گاڑی میں بٹھایا
"تم میرے ساتھ اس طرح زبردستی نہیں کرسکتے"
شانزے کو کار میں بٹھا کر جو وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تو شانزے چیختی ہوئی بولی
"زبردستی کرنے پر تم نے مجبور کیا ہے میرا تو سیدھا سیدھا تمہیں پرپوز کرنے کا ارادہ تھا" نوفل چہرے پر مسکراہٹ سجائے شانزے کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"اپنی عمر دیکھو اور حرکتیں دیکھو"
شانزے نے اسے شرمندہ کرنا چاہا
"کیوں میں تمہارے ابا جی کی عمر کا ہوں یا تم خود کو ننھی چوزی سمجھتی ہو۔۔۔ میں ایک پڑھا لکھا اچھا کھاتا کماتا مرد ہو اور تم بھی بالغ لڑکی ہو شادی کے لائق"
نوفل نے اپنے برابر میں بیٹھی شانزے کا نظر بھر کر بھرپور جائزہ لیا اور کار اسٹارٹ کردی
"روکو گاڑی کو،، کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے۔۔۔ میں تمہیں چھوڑو گی نہیں"
شانزے اسے کار چلاتا دیکھ کر دھمکی دینے لگی
"ڈرو نہیں ابھی تمہیں اپنے گھر نہیں لے کر جا رہا بلکہ تمہیں تمہارے ہی گھر چھوڑ رہا ہوں۔۔۔ ویسے میں بہت جلد تمہیں اپنے گھر لے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں بینڈ باجے کے ساتھ پھر بے شک تم مجھے نہیں چھوڑنا"
نوفل اب شوخ نظر اس پر ڈال کر ڈرائیونگ کرنے لگا
"تمہاری ہمت کیسے بھی مجھ سے اس طرح کی فضول بات کرنے کی سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے"
شانزے غصے اور حیرت نے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اس کو دیکھ کر کہنے لگی
"ہمت کو چیلنج مت کرو۔۔۔ ہمت ہی تو ہے جو بڑے بڑے کام بناء خوف کے کروا دیتی ہے مگر کیا ہے ناں تمہارے معاملے میں شرافت آڑھے آجاتی ہے۔۔۔ یہ روز روز ڈیٹ شیٹ لاگانا،، روٹھنا منانا،، موبائل پر بلاوجہ لمبی لمبی گفتگو کرکے حالِ دل سنانا۔۔۔ میرے خیال میں یہ سُست عاشقوں کے کام ہیں مگر میں آدمی ہوں ذرا دوسری قسم کا۔۔۔ پسند آگئی ہو تم مجھے، شادی کرنا چاہتا ہوں میں تم سے۔۔۔۔ اس لیے بہت جلد میں تمہیں اپنے گھر لے آؤں گا"
نوفل نے ڈرائیونگ کے دوران مسکرا کر شانزے کو دیکھتے ہوئے کہا
"یہ تم کچھ زیادہ ہی فری نہیں ہو رہے"
شانزے نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اس فاسٹ عاشق کو دیکھا جو کہ تیسری ملاقات میں ہی اس سے شادی کی بات کر رہا تھا
"جبکہ میرے نزدیک تو اسے فری ہونا کہتے ہی نہیں ہے۔۔۔ معلوم ہے فری ہونا کسے کہتے ہیں"
شانزے کے گھر کے آگے گاڑی روک کر وہ اسکی سیٹ پر جھکتا ہوا بولا
"اے"
شانزے وارننگ دینے والے انداز میں چیخی
"اےےے"
نوفل اس سے زیادہ زور سے روعب جمانے والے انداز میں چیخا۔۔۔ مگر شانزے کو بےخوفی سے پلک جھپکائے بناء مسلسل دیکھتے ہوئے،،، نوفل کے چہرے کے تاثرات نرم ہوئے اور چہرے پر مسکراہٹ آئی
"اگر تھوڑی دیر اور ایسے ہی گھورتی رہی نا،، ابھی اسی وقت قاضی لے آؤں گا"
نوفل اس کو دیکھ کر دوبارہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔ جس پر شانزے دانت پیس کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ کار کا دروازہ کھول کر اسے بغیر کچھ کہے گھر کے اندر چلی گئی
****
"نمیر بھائی آپ بتا کیوں نہیں رہے ہیں آخر کس کی کنڈیشن سیریس ہے اور ہم یہاں پر کیوں آئے ہیں"
نمیر عنایہ کو ریسٹورنٹ لے کر آیا اور ڈرائیونگ کے دوران بس اتنا ہی بولا تھا کہ ایک سیریز کنڈیشن ہے جس پر عنایہ گھبرانے لگی مگر اب دور سے نہال کو ریسٹورنٹ میں آتا دیکھ کر وہ بات کو مکمل طور پر سمجھ گئی اور خفا ہوتی ہوئی نمیر کو دیکھنے لگی جو اس کی طرف مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا
نہال کو بھی نمیر نے ایک امپورٹنٹ میٹنگ کا کہہ کر یہاں کا ایڈریس سینڈ کیا تھا اور فوراً پہنچنے کو کہا تھا مگر وہاں پر نمیر کے ساتھ عنایہ کو موجود دیکھ کر نہال اپنے بھائی کی شرارت سمجھ گیا۔۔۔ اس وقت نہال کو نمیر کی یہ شرارت ذرا بری نہیں لگی اس لیے وہ مسکراتا ہوا ان دونوں کے پاس آیا
"تم دونوں کی منگنی کو ایک ہفتہ گزر گیا ہے مگر تم دونوں سے زیادہ بورنگ کپل میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔ اگر آج تم دونوں کو دھوکے سے یہاں نہیں بلاتا،، تو تم نے برات والے دن ہی گھونگھٹ اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھنا تھا"
نمیر قریب آتے نہال کو دیکھ کر بولا جس پر نہال مسکرانے لگا
"اور تم جو تھوڑی دیر پہلے پوچھ رہی تھی ناں کہ کس کی سیریس کنڈیشن ہے یہ جو تمہارے سامنے 6 فٹ کا بندہ کھڑا ہے،، ہفتہ ہو گیا ہے اس کو خیالوں میں کھوئے کھوئے دیکھتے ہوئے۔۔۔ قسم سے یہ اکیلے بیٹھا مسکرا رہا ہوتا ہے"
نمیر اب عنایہ کو نہال کی کنڈیشن بتانے لگا۔۔۔ جس پر نہال نے سنجیدہ ہو کر نمیر کو آنکھیں دکھائی،،، وہی عنایہ نہال کو دیکھنے لگی۔۔۔ مگر نہال کی نظریں خود پر محسوس کر کے وہ پلکیں جھکا گئی
"میرے خیال میں نمیر تمہیں واپس آفس جانا چاہیے اب تمہارا کام ختم ہوگیا"
نہال کی بات پر نمیر ہنس دیا
"وہ تو میں چلا ہی جاؤں گا مگر پلیز اب تم دونوں ایک دوسرے کو اپنا حالِ دل سنانا،، کہیں موسم کا حال بتانے نہیں بیٹھ جانا"
نمیر نہال کو آنکھ مار کر وہاں سے چلا گیا جبکہ نہال مسکراہٹ چھپائے اب عنایہ کو دیکھ رہا تھا،، کالج کے وائٹ ڈریس میں وہ اسے پہلے کی طرح کوئی چھوٹی بچی لگی جو شاید ہوم ورک نہ کرنے پر شرمندہ سی نظر جھکائے کھڑی تھی
"کب تک کھڑے رہنا ہے آو بیٹھتے ہیں"
نہال نے عنایہ کے لیے چیئر کھسکائی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا عنایہ چپ کر کے بیٹھ گئی
"کیسی ہو تم"
نہال اب عنایہ کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر اس کو دیکھتا ہوا خیریت معلوم کرنے لگا
"میں ٹھیک ہوں اور آپ۔۔۔ آپ کیسے ہیں"
عنایہ نے ہمت کرکے نگاہیں اٹھائی اور اس کا حال پوچھا
"ابھی تھوڑی دیر پہلے نمیر نے بتایا تو تھا میرا حال"
نہال عنایہ کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا اس کی بات سن کر عنایہ ایک دفعہ پھر اپنی پلکیں جھکا گئی
"کہیں تم نے اس بات کو محسوس تو نہیں کیا کہ ہماری انگیجمنٹ کے بعد میں نے تمہیں کال یا میسج نہیں کیا"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"نہیں میں نے محسوس تو نہیں کیا۔۔۔ ویسے آپ نے کال کیوں نہیں کی"
عنایہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا جس پر نہال کے چہرے پر ایک دم گہری مسکراہٹ آئی جس سے عنایہ اچھی خاصی شرمندہ ہوگئی
"یعنی تم نے محسوس کیا"
نہال اب غور سے اس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"ایسی بات نہیں ہے میرا کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا"
عنایہ اپنی صفائی پیش کرتی ہوئی بولی
"تو پھر جو مطلب تھا بغیر شرمائے مجھ سے شئیر کرو"
نہال عنایہ سے پوچھنے لگا
"انگیجمنٹ میں بعد سب ہی ایک دوسرے سے فون پر بات کرتے ہیں ناں تو میں سمجھ رہی تھی شاید آپ بھی۔۔۔۔
عنایہ نے اپنے دل میں آئی بات نہال سے شیئر کی
"عنایہ تمہیں معلوم ہے مجھ میں اور نمیر میں صرف ایک سال کا فرق ہے اس کے باوجود ہم دونوں کی بہت سی عادتیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں مگر شادی کی بات کو لے کر ہمارے نظریات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔۔۔ نمیر کی سوچ ہے کہ شادی سے پہلے ہی لڑکا لڑکی میں انڈرسٹینڈنگ ہونی چاہیے تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی عادتوں سے واقف ہوں ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اپنی شادی شدہ زندگی اچھی گزار سکیں مگر میری سوچ اس معاملے میں تھوڑی مختلف نوعیت کی ہے مجھے ایسا لگتا ہے شادی سے پہلے قائم ہونے والے رشتے میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے ایکسٹیشنز زیادہ رکھ لیتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے کی ایکسپکٹیشن پر پورے نہیں اترتے تو ان دونوں کے بیچ ناچاقیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے ان کا ایک اسٹرونگ ریلیشن ویک ہو جاتا ہے۔۔۔۔ میں نے اپنے دل کے دروازے کو کبھی بھی کسی معمولی دستک سے آج تک کھلنے نہیں دیا مجھے ماما کی چوائس پر بھروسہ تھا اور میں اب بھی سیٹفائیڈ ہوں لیکن اگر تم کہتی تو ہم کال پر بات کر سکتے ہیں۔۔۔ کیوکہ دو اسان لوگوں کی زندگی مشکل نہیں گزرتی"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا
"نہیں میں آپ کی سوچ آپ کے نظریے سے ہنڈریڈ پرسنٹ متفق ہوں"
عنایہ کی بات سن کر نہال مسکرا دیا اور کھانے کا آرڈر دینے لگا
لنچ کرنے کے بعد عنایہ کے منع کرنے کے باوجود نہال اس کو شاپنگ کرانے لے گیا واپسی پر تقریباً شام ہو چکی تھی اور عنایہ کبھی بھی کالج سے اتنا لیٹ نہیں آئی تھی جب نہال نے گھر کے آگے کار روکی تو پریشانی عنایہ کے چہرے سے عیاں ہونے لگی
"چلو تمہیں گھر کے اندر چھوڑ کر آجاؤ میں"
نہال اس کی پریشانی بھانپتا ہوا بولا
"مگر وہ مامی"
عنایہ نے جھجھکتے ہوئے کہا
"ڈرنا چھوڑ دو عنایہ میں تمہارے ساتھ ہو کار سے اترو"
نہال بولتا ہوا خود بھی کار سے اترا
Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 7
"یہ کوئی وقت ہے گھر آنے کا کہاں مری ہوئی تھی تم"
عنایہ گھر میں داخل ہوئی تو عشرت بھری ہوئی بیٹھی تھی، اس نے عنایہ کے پیچھے نہال کو نہیں دیکھا عنایہ کی شکل دیکھ کر وہ غصے سے چیخی
"یہ کون سا طریقہ ہے خالہ جانی بات کرنے کا وہ میرے ساتھ تھی"
نمیر ثروت اور نہال ان تینوں کو ہی عشرت کی یہ بات پسند نہیں تھی کہ وہ کسی آئے گئے کا لحاظ کیے بغیر عنایہ کو بری طرح ڈانٹتی تھی،، نمیر اور ثروت اکثر عشرت کو اسکی اس عادت پر ٹوکتے تھے،،، مگر برا لگنے کے باوجود نہال نے عشرت کو کبھی کچھ نہیں بولا تھا مگر آج نہال کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ عشرت سچ میں عنایہ کے ساتھ کافی زیادتی کر جاتی ہے
"اوہو تو یہ تمہارے ساتھ موجود تھی کم ازکم بتانا تو چاہیے تھا ناں بندہ ایک فون ہی کر دیتا ہے"
عشرت کو غصہ ابھی بھی تھا مگر نہال کو دیکھ کر اب کی بار وہ تھوڑا نرم لہجے میں بولی شاید وجہ یہی تھی کہ نہال نے آج پہلی بار عشرت کو ٹوکا تھا
"خالو کو کال کر دی تھی میں نے خالہ جانی، اب معلوم نہیں انہوں نے آپ کو کیوں بتانا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ خیر چھوڑیں اس بات کو آپ سنائیں کیسی طبعیت ہے آپ کی"
نہال صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا اور کافی سارے شاپرز اس نے ٹیبل پر رکھے عشرت بھی اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی
"ہاں تمہارے خالو کو کیا ضرورت پڑی ہے جو اپنی بھانجی کے بارے میں مجھ سے کچھ بات کریں۔۔۔ میری طبعیت کو کیا ہونا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی تکلیف ہی رہتی ہے کبھی جوڑوں میں درد تو کبھی گھٹنوں میں۔۔۔ ان شاپرز میں کیا موجود ہے"
عشرت نے اپنی طبیعت کا رونا روتے ہوئے ساتھ میں شاپرز کے بارے میں بھی پوچھا
"یہ میں نے عنایہ کے لیے اپنی پسند کے کچھ ڈریس لیے ہیں،، کھڑی کیوں ہو عنایہ بیٹھ جاو"
نہال نے عشرت کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ عنایہ کو بھی مخاطب کیا جو کہ ویسے ہی کھڑی تھی
"بیٹھے کیوں،،، جاؤ جاکر کافی بنا کر لو میرے اور نہال کے لیے"
عشرت کا شاپنگ کے بارے میں سن کر مزید موڈ خراب ہوا اس لئے عنایہ کو گھورتی ہوئی بولی
"رہنے دیں خالہ جانی عنایہ تھک گئی ہوگی،، آپ بوا کو کافی کا بول دیں، عنایہ یہاں آ کر بیٹھو"
نہال نے ایک دفعہ دوبارہ عشرت کو بول کر عنایہ کو مخاطب کیا اور آنکھ کے اشارے سے اسے اپنے برابر میں بیٹھنے کی لئے کہا عنایہ جھجھکتی ہوئی نہال کے صوفے پر کافی دور فاصلہ بنا کر بیٹھ گئی
"یار اتنا چپ کیسے رہ لیتی ہو تم،،، کوئی اپنے ہی گھر میں مہمان بن کر رہتا ہے ہنسا کرو باتیں کیا کرو خوش رہا کرو"
نہال اب دوستانہ انداز میں عنایہ کو دیکھ کر بولا وہ ہڑبڑا کر عشرت کو اور پھر نہال کو دیکھنے لگی
"کوئی نہیں تمہارے سامنے اداکاری کر رہی ہے۔۔۔ ورنہ اس کے کمرے سے تو ہر وقت گنگانے کی یا اپنی دوست سے فون پر باتیں کرنے کی آواز آتی رہتی ہے"
عشرت ان دونوں کو ایک ساتھ بیٹھا دیکھ کر مزید جل گئی اور تپے ہوئے انداز میں بولنے لگی عنایہ سرجھکائے انداز میں ایسے بیٹھی تھی جیسے عشرت اس کی غلطیاں گنوا رہی ہو
"یہی تو میں کہہ رہا ہوں خالہ جانی اس نے اپنی دنیا اپنے کمرے میں ہی بنائی ہوئی ہے اسے باہر بھی بالکل اسی طرح رہنا چاہیے مگر آپ کی اداکاری والی بات سے میں ایگری نہیں کرتا۔۔۔ عنایہ میں بالکل دکھاوا نہیں ہے اگر اس میں دکھاوے والی کوالٹی موجود ہوتی تو میں ماما کی چوائس پر کبھی بھی ایگری نہیں کرتا،، زہر لگتی ہے مجھے بن بن کر بولنے والی لڑکیاں"
نہال نے عشرت کو دیکھتے ہوئے کہا تو عشرت مزید کلس کر رہ گئی کیوکہ دو تین ماہ سے منال کا ایسے ہی اسٹائل ہو گیا تھا منہ بنا بنا کر بات کرنے والا
"خیر جو بھی ہے ابھی تمہاری مگنی ہوئی ہے شادی نہیں،، اس طرح منگیتر کو لیے لیے پھرنا کوئی زیادہ اچھی بات نہیں ہے لوگ پیٹھ پیچھے باتیں بناتے ہیں ذرا احتیاط سے کام لو تم بھی"
عشرت نے لگے ہاتھوں نہال کو ٹوکنا ضروری سمجھا
"خالہ جانی آپ بھی کتنی بھولی ہیں۔۔ احتیاط سے مجھ سے زیادہ نمیر اور منال کو کام لینا چاہیے ان کی تو ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی بلکہ میں تو ماما سے کہہ بھی رہا تھا ان دونوں کے بارے میں اگر لوگ باتیں بنائیں گے تو کچھ غلط بھی نہیں ہوگا۔۔۔ خیر میں چلتا ہوں آپ اپنا خیال رکھیے گا"
نہال مسکراتا ہوا اٹھ گیا جبکہ نہال کی بات سن کر عشرت کا اچھا خاصہ منہ بن گیا
"سیٹرڈے کو شام میں ریڈی رہنا میرے دوست نے ہم دونوں کو انوائٹ کیا ہے ڈنر پر اور تم 11 بجے تک سوتی ہو دس بجے فون کروں گا میں تمہیں"
نہال اب عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا اور خدا حافظ کہہ کر چلا گیا
عنایہ کو اتنا اندازہ ہوگیا تھا،، نہ ہی نہال رات کو کال کرے گا اور نہ ہی وہ اسے کہیں دوست کے ہاں ڈنر پر لے کر جائے گا وہ صرف اپنی خالہ جانی کو سنانے کے لیے عنایہ کو بول رہا تھا۔۔۔
نہال کے جانے کے بعد عشرت عنایہ کو اس طرح گھور رہی تھی جیسے وہ اسے کچا ہی چبا جائے گی عنایہ نے خاموشی سے ٹیبل پر سے اپنے شاپرز اٹھائے اور اپنے کمرے میں جانے میں ہی اس نے اپنی عافیت جانی
****
دوپہر کا وقت تھا جب شانزے کالج سے گھر آئی۔۔۔ آج بہت زیادہ گرمی تھی،،، بس اسے مین روڈ پر اتارتی پر گلی میں 15 منٹ کی واک کے بعد پیدل چل کر گھر آنا ہوتا۔۔۔ وہ اس وقت پسینے پسینے ہو رہی تھی نائلہ کو سلام کے بعد وہ فرج سے پانی نکال کر پینے لگی
"امی کیا ہوا آپ کو آپ روئی ہیں ناں۔۔۔ بتائیں مجھے کسی نے کچھ کہا ہے" شانزے نائلہ کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بولی
"کل رات اکرم کے ابا نے کرایہ دینے سے صاف انکار کردیا پندرہ دن سے کھانے کا کوئی آرڈر نہیں آ رہا ہے۔۔۔ جو پیسے بچے تھے اس سے میں بجلی کا بل ادا کر آئی تھی۔۔۔ بشیر (دکاندار) نے ادھار پر سامان دینے سے منہ پر منع کردیا گھر میں راشن بھی بالکل ختم ہوگیا سمجھ نہیں آرہا کیا کرو"
نائلہ نے آج تک اپنی پریشانیوں کا رونا کبھی فرحین یا شانزے کے آگے نہیں رویا تھا مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دل کافی کمزور ہو گیا تھا
"اس اکرم کے باپ کو تو میں ابھی ٹھیک کرکے آتی ہوں۔۔۔ سمجھ کیا رکھا ہے اس آدمی نے آخر،، ہم عورتیں ہیں تو یہ ہمیں دبا لے گا اور مفت میں رہتا رہے گا"
شانزے نائلہ کے آنسو صاف کر کے غصے میں اٹھی تو نائلہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بٹھا لیا
"کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں اس سے جاکر لڑنے کی،، اپنی بیوی بچوں کو باتیں سناتا رہتا ہر وقت لڑائی جھگڑوں کی آواز آتی ہے،،، تم کچھ بولو گی وہ جھگڑا کرے گا بدتمیزی کرے گا محلے والے صرف تماشا دیکھے گیں کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا باتیں الگ بنے گی"
نائلہ نے روتے ہوۓ شانزے کو سمجھایا
"امی اس طرح ڈرنے سے تو وہ اور ہم پر حاوی ہو جائے گا کبھی بھی کرایا نہیں دے گا۔۔ اور یہ بشیر کتنا منحوس آدمی ہے ہمیشہ اس سے پیسے دے کر ہی سوداسلف لیا ہے،،، اسے کون سی موت پڑ رہی ہے ادھار سامان دیتے ہوئے کونسا اس کے پیسے لے کر ہم اپنی قبر میں چلے جائیں گے یا گھر چھوڑ کر بھاگ جائے گے"
شانزے غصے میں بولی
"جن گھروں میں مرد نہیں ہوتے معاشرہ ان عورتوں کو کمزور اور بے بس سمجھ کر ایسے ہی دباتا ہے۔۔۔ تمہیں کسی سے کچھ بھی بولنے کی لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اگر عورتیں اکیلی ہو تو انہیں مردوں سے دشمنی نہیں پالنی چاہیے۔۔۔ جاؤ کل رات کی دال کچن میں رکھی ہے کھانا کھا لو میں کچھ نہ کچھ پیسوں کا بندوبست کرتی ہو"
نائلہ اپنے آنسوؤں صاف کرتی شانزے سے بولی۔۔۔ اتنے میں گھر کا دروازہ بجا نائلہ نے جا کر دروازہ کھولا
"یہ کس کا سامان لے کر آ گئے ہو بھائی"
نائلہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سامنے کھڑے بشیر سے پوچھا جو آٹے کی بوری کے ساتھ ساتھ تین بڑے بڑے شاپر میں سامان لئے کھڑا کا تھا شانزے صحن میں کھڑی ہوئی بشیر کو دیکھنے لگی
"بہن جی یہ سامان مہینے بھر کا راشن ہے جو آپ ہر ماہ ہماری دکان سے لیتی ہوں میں نے سوچا آپ کہاں اتنی دور چل کر آؤں گی میں خود ہی سامان آپ کے گھر پہنچا دیتا ہوں"
بشیر کافی تمیز اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہوا بولا
"بھائی ایسا ہے کہ ابھی ہمیں اس سامان کی ضرورت نہیں ہے آپ اسے واپس لے جاؤ میں خود بعد میں آکر یہ چیزیں لے لوں گی"
سارے سامان کی ضرورت ہونے کے باوجود پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نائلہ نے بشیر کو جواب دیا
"بہن جی اب یہ سارے سامان میں واپس لے کر تو نہیں جاؤں گا،، یہ سامان آپ رکھ لو پیسوں کا مسئلہ نہیں ہے جب کبھی آپ کے پاس ہو۔۔۔ آپ تب دے دینا آپ ہماری پرانی گاہک ہو کوئی مسئلہ کی بات ہی نہیں ہے"
بشیر لہجے میں شیرنی کھولتے ہوئے نائلہ سے کہنے لگا جبکہ نائلہ کے ادھار کے بولنے پر وہ اس سے کافی بدلحاضی کر چکا تھا
"سمجھ میں نہیں آرہا تمہیں،، ہمیں ضرورت نہیں ہے تمہارے احسان کی،، اپنا یہ سارا سامان اٹھاو اور دفع ہو جاؤ یہاں سے"
شانزے چیخ کر بشیر سے بولی
"شانزے بالکل خاموش ہو جاؤ اور کمرے میں جاو اپنے"
نائلہ نے تیز لہجے میں بیٹی کو ٹوکتے ہوئے کہا
"صحیح ہے بھائی بہت بہت شکریہ،، پیسے میں آپ کو ایک یا دو دن میں پہنچا دوں گی"
نائلہ نے بشیر سے کہا
"پیسوں کی کوئی فکر نہیں ہے بہن جی آپ اگلے ماہ ایک ساتھ دے دئیے گا اور اگر تب بھی پیسے موجود نہیں ہوئے تو کوئی مسئلہ کی بات نہیں ہے،،، آپ بہنوں کی طرح ہیں اور اب آپ کو دکان پر آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے یہاں سے دکان کافی دور ہے آپ کہاں پیدل چل کر آؤگی مہینے کی پہلی تاریخ پر چھوٹا خود آ کر سارا سامان آپ کو دے جایا کرے گا"
بشیر خوش اخلاقی سے بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا جبکہ نائلہ اور شانزے دونوں اسکے رویہ پر حیران رہ گئی۔۔۔ ابھی وہ حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے سے بات کرتی دروازہ ایک بار دوبارہ بجا نائلہ نے جا کر دروازہ کھولا 14 سالہ بچہ (جو کہ گوشت دکان پر کام کرتا تھا) سامنے کھڑا تھا
"آنٹی یہ میں بالکل تازہ گوشت لے کر آیا ہوں"
بچے نے چکن اور قیمے کا شاپر نائلہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
"مگر بیٹے یہ کیوں لے کر آئے ہو میں نے تو تم سے گوشت کا نہیں کہا"
اب نائلہ حیرت زدہ ہوکر اس بچے کو دیکھتی ہوئی بولی
"ارے صبح ہی تو بھائی سے کہا تھا آپ نے کہ دو کلو چکن اور ایک کلو قیمے کا۔۔۔ یہ جلدی سے پکڑیں دکان پر گاہک انتظار کر رہے ہوگے"
بچہ زبردستی نائلہ کے ہاتھ میں شاپر تھما کر چلا گیا شانزے نائلہ کو کچن کے دروازے پر کھڑی ہوئی حیرت سے دیکھ رہی تھی
"یہ کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا"
نائلہ شانزے کو حیرت سے دیکھتی ہوئی کہنے لگی اور گوشت کے شاپر فرج میں رکھنے لگی تبھی ایک بار پھر دروازہ بجا اب کی بار شانزے نے دروازہ کھولا تو اوپر کرائے دار والی آنٹی مسکراتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی
"ارے نائلہ بہن یہ لو اپنے پیسے اور اچھی طرح گن لو پورے تین ماہ کا کرایہ ہے"
وہ خاتون زبردستی مسکراتی نائلہ کو پیسے دینے لگی
"آج کیسے یاد آگیا آپ کو کرایہ دینا" شانزے اکرم کیا اماں کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
"شانزے"
نائلہ نے شانزے کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ٹوکا
"ایک منٹ امی ذرا معلوم تو ہونے دیں،،، ہاں تو آنٹی ذرا آپ مجھے بتانے کی زحمت کرسکتی ہیں یہ شرم آپ کو کس نے دلائی"
شانزے اکرم کیا اماں کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگی
"اے لو لڑکی،، ایک تو میں کرایہ لے کر آئی ہوں اوپر سے تم مجھے شرمندہ کر رہی ہو"
اکرم کی اماں نے اپنے سامنے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا
"اگر آپ کرایا لے کر آئی ہیں تو کوئی احسان نہیں کر رہی ہیں ہمارے اوپر۔۔۔۔ آپ صرف مجھے اس کا نام بتائیں جس کے کہنے پر آپ یہ کرایا لے کر آئی ہیں"
شانزے کو اب یقین ہونے لگا ان سب کے پیچھے ضرور کسی نہ کسی کی کارستانی ہوسکتی ہے
"وہ آج صبح سویرے اکرم کے آبا کے پاس کوئی ایس پی آیا تھا بڑا ہی روعب دکھا رہا تھا ہم غریبوں پر اکرم کے ابا کو تو بری طرح دھمکا کر گیا ہے اور یہ بھی کہہ کر گیا ہے اگر انسانوں کی طرح رہنا ہے تو کرایہ دے کر رہو۔۔۔ ارے نائلہ بہن تم تو جانتی ہو ہمارے خود کے حالات کون سے اس قابل ہیں بس مہینے کی چھ سات تاریخ تک مہلت دے دیا کرنا تمہیں کرایہ مل جائے گا اور ہمیں گھر خالی کرنے کا ہرگز مت کہنا"
اکرم کی اماں منت سماجت کرتی ہوئی بولی اور وہاں سے چلی گئی
"کہیں نوفل کا ذکر تو نہیں کر رہی یہ" ابھی شانزے کرائے دار کی بات پر صحیح سے حیران بھی نہیں ہوئی تھی کہ نائلہ کے منہ سے نوفل کا نام سن کر اسے کرنٹ لگا
"آپ جانتی ہیں اس گھٹیا انسان کو" شانزے نے نائلہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا
"شانزے میں دیکھ رہی ہو دن بدن تمہاری زبان بہت خراب ہوتی جارہی ہے ذرا تمیز سے بات کیا کرو۔۔۔ ہاں جانتی ہو تین چار دن پہلے ملاقات ہوئی تھی اس سے،، جب ڈاکٹر کے ہاں سے واپس آرہی تھی تب راستے میں گر گئی تھی اسی نے اپنی کار میں بٹھا کر مجھے گھر تک چھوڑا تھا بہت نیک بچہ ہے۔۔۔ نوفل نام بتا رہا تھا اور یہ بھی کہ وہ پولیس کی نوکری کرتا ہے کہہ رہا تھا کوئی بھی کام ہو مجھے یاد کر لیے گا اپنا موبائل نمبر بھی دے کر گیا ہے"
نائلہ شانزے کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی۔۔۔ نائلہ کا نوفل کو نیک بچہ کہنے پر شانزے کا دل چاہا وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرے
"اور آپ نے اسے ہمارے گھر کے سارے مسئلے مسائل بتا دیے"
شانزے نے افسوس سے سر جھٹکا
"دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا،، پاگل سمجھا ہوا ہے مجھے۔۔۔کہ کسی اجنبی کے سامنے اپنی مفلسی کا رونا رونگی۔۔ مجھے تو خودہی سمجھ میں نہیں آ رہا اسے یہ سب کیسے معلوم ہوا مگر تم اسے کیسے جانتی ہو"
نائلہ اب شانزے سے پوچھنے لگی جس پر شانزے نے پہلی ملاقات کا گول کرکے سرسری سے انداز میں عنایہ کی منگنی والے دن کے بارے میں کچھ سچی کچھ جھوٹی بات بتاکر بتا دی اور کمرے سے چلی گئی
****
صبح جب شانزے کالج کیلئے گھر سے نکلی تو روز معمول کی طرح وہ تیز قدم اٹھاتی ہوئی چل رہی تھی پندرہ منٹ کی دوری پر بس اسٹاپ تھا جہاں سے وہ ہر روز بس میں وہ کالج پہنچتی تھی۔۔۔۔ اتنے میں اچانک ایک رکشہ آکر اس کے پاس رکھا وہ اپنے ہی خیالوں میں مگن تھی اسلئے ڈر کر پیچھے ہٹی
"آ جاؤ آپی تمہیں کالج چھوڑ دیتا ہوں"
رکشے والا جو کہ اسی کے ہم عمر تھا اور اسی محلے میں رہتا تھا شانزے کو دیکھ کر بولا
"کوئی ضرورت نہیں ہے،،، تمہیں دینے کے لیے حرام کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔۔۔ میں بس میں ہی جاؤں گی تم اپنا راستہ ناپو" شانزے کو صبح ہی صبح رکشے والے کا فری ہونا اچھا نہیں لگا
"تو میں آپ سے کون سا پیسے مانگ رہا ہوں آپ بہنوں جیسی ہو میری،، نخرے چھوڑو اور جلدی سے بیٹھ جاؤ۔۔۔ روز چھوڑ کر آؤں گا اور کالج سے واپس بھی لے کر آ جاؤں گا دو بجے چھٹی ہوتی ہیں ناں"
وہ شانزے سے کنفرم کرتا ہوا پوچھنے لگا
"کالج نہیں،،، جس نے تمہیں میرا بھائی بننے کے لیے کہا ہے ذرا اسی کے پولیس اسٹیشن لے کر چلو مجھے"
شانزے رکشہ میں بیٹھتی ہوئی رکشے والے سے بولی
Gunnahgar
By zeenia shajeel
Epi # 8
"خاموش کیوں ہو گئے ہو نمیر بتاؤ ناں کیسے لگے میرے فرینڈز"
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی جوجو اور ٹینا منال اور نمیر سے مل کر گئے تھے۔۔۔ نمیر منال کو کافی دن سے ٹال رہا تھا مگر آج منال کے بے حد اصرار پر وہ آفس سے بریک ٹائم میں اس کے بتائے گے ریسٹورینٹ میں پہنچا جہاں پہلے سے ہی منال کے علاوہ جوجو اور ٹینا موجود تھے ان سے ملوانے کے لئے منال نے نمیر کو بلایا تھا
"صحیح بتاؤ تو مجھے یہ تمہارے فرینڈز ذرا بھی اچھے نہیں لگے کتنا بناوٹی انداز تھا یار دونوں کا۔۔۔ ٹینا وہ تو ایسے ڈینگے مار رہی تھی جیسے اس کا باپ کتنا بڑا ڈائریکٹر ہے اور وہ جوجو کیسے ہاتھ ہلا ہلا کر بات کر رہا تھا کہیں سے مرد ہی نہیں لگ رہا تھا بلکہ پورا۔۔۔۔"
نمیر منال کے سامنے اپنی رائے دینے لگا مگر منال کے تاثرات دیکھ کر اپنی بات مکمل کی بنا چپ ہوگیا
"تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا نمیر کہ تم یوں میرے فرینڈز کی انسلٹ کرو"
منال نے برا مناتے ہوئے کہا اور چیئر سے اٹھ کر ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے لگی منال کو اٹھتا دیکھ کر نمیر بھی اٹھ گیا
"او کم ان منال اس بات کو لے کر منہ بناکر مت بیٹھ جانا پلیز تم نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے تمہارے فرینڈز کیسے لگے ہیں،، جو مجھے لگا وہ میں نے بتا دیا بات ختم"
نمیر منال کے ساتھ چلتے ہوئے بولنے لگا
"میں نے کبھی نوفل کے بارے میں تمہیں اس طرح کے ریمارکس دیے ہیں" منال نے چلنے کے ساتھ ہی گردن موڑ کر نمیر کو دیکھ کر پوچھا
"تو نوفل نے کون سے تمہارے سامنے کبھی کوئی کارٹونز والی حرکتیں کی ہیں وہ ایک ڈیسنٹ بندہ ہے"
نمیر نے دوبدو جواب دیا جس پر منال کچھ کہے بناء کار کی طرف آئی،،، نمیر نے آگے بڑھ کر اس کے لئے دروازہ کھولا منال کار کے اندر بیٹھ گئی
"منال پلیز یار کسی تیسرے کو لے کر اپنا اور میرا موڈ خراب مت کیا کرو اور اب بتاؤ چل رہی ہوں نا اس وقت ماما کو دیکھنے"
نمیر نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے منال سے پوچھا جس کا ابھی منہ بنا ہوا تھا
کل رات سے ہی ثروت کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ صبح اپنے روم سے نہیں نکلی جس کی وجہ سے نہال آفس جانے کی بجائے ثروت کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا ڈاکٹر نے ثروت کو منٹلی اسٹریس کی وجہ سے میڈیسن دے کر ریسٹ کرنے کا کہا نمیر آفس چلا گیا تھا مگر دو بار اس نے نہال کو کال کرکے ثروت کی طبیعت کا پوچھا
"آف کورس ثروت آنٹی کو دیکھنا بھی ضروری ہے لے چلو مگر زیادہ دیر تک نہیں رک پاؤ گی بہت ضروری اسائنمنٹ ملا ہے" منال نے نمیر کو دیکھتے ہوئے کہا
"آئی نو یار تمہارا شیڈول کافی بزی ہے خیر تمہارا اتنا بھی احسان کافی ہے کہ تم نے ماما کے لئے تھوڑا بہت ٹائم نکالا"
نہ چاھتے ہوۓ بھی نمیر نے طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا
"نمیر ابھی تھوڑی دیر پہلے تم نے کہا تھا کہ کسی تیسرے کو لے کر میں تمہارا اور اپنا موڈ خراب نہیں کرو اور اب تم اپنی بات سے مکر رہے ہو تھیرڈ پرسن کی وجہ سے میرا موڈ خراب کر رہے ہو"
منال نے اس کو جواب دیا
"لسن منال میری ماں کوئی تھرڈ پرسن نہیں ہے۔۔۔ فرینڈز اور فیملی ممبرز میں فرق ہوتا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے میں اپنی غلطی ایکسپٹ کرتا ہو تم اپنے اسائنمنٹ کی وجہ سے نہیں رک سکتی مجھے بھی ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا مگر میرے لئے میری فیملی میری ماں، بھائی بہت ویلو لگتے ہیں تو پلیز آگے سے بات کرتے ہوئے دھیان رکھنا"
نمیر ڈرائیونگ کے دوران بغیر اسے دیکھے بولے جا رہا تھا وہ کچھ دنوں سے نوٹ کر رہا تھا منال ثروت اور نہال کے ذکر سے بیزاری محسوس کرتی تھی یہ بات نمیر کو بالکل پسند نہیں تھی ابھی بھی اس کی بات سن کر منال خاموش ہوگئی
****
"ارے میڈم جی آپ" صدیق شانزے کو دیکھ کر فوراً پہچان گیا جبھی مسکراتا ہوا بولا
"کہاں ہے وہ ایس پی ملنا ہے مجھے اس سے"
شانزے نے پورے پولیس اسٹیشن میں نظر دوڑاتے ہوئے صدیق سے پوچھا
"سر تو ابھی تک ڈیوٹی پر نہیں آئے میں آپ کو ان کے کمرے میں لے چلتا ہوں۔۔۔ آپ وہی بیٹھ کر سر کا انتظار کر لیں"
صدیق شانزے کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا
"صدیق کون ہے یہ لڑکی اور کس سے ملنا ہے اسے"
شانزے کو دیکھ کر دوسرا انسپکٹر بولا
"یہ اپنے سر نوفل کی ہیروئن میرا مطلب ہے دوست ہے انہی سے ملنے آئی ہیں"
صدیق کی جیسے ہی زبان پھسلی مگر شانزے کی گھوری پر وہ اپنا جملہ درست کرتا ہوا انسپکٹر کو بتانے لگا
"میں یہی پر بیٹھ کر ویٹ کرلیتی ہوں اندر نہیں بیٹھنا مجھے"
شانزے کو اب اپنی یہاں آنے پر الجھن ہونے لگی کیوکہ وہاں ہر طرف مرد ہی مرد تھے
"سسٹر صدیق صحیح کہہ رہا ہے یہاں پر ہر طرح کے لوگ آرہے ہیں جارہے ہیں آپ سر نوفل کے روم میں ان کا ویٹ کر لیں"
انسپکٹر نے سفید یونیفارم میں شانزے کو دیکھ کر بولا وہ اسے کوئی کالج گرل لگی۔۔۔ شانزے کو بھی وہ کوئی معقول انسان لگا اس لیے شانزے نے اقرار میں سر ہلایا
"صدیق چھوٹے سے بول کر سسٹر کے لئے چائے منگواؤ" صدیق جو ہاتھ کے اشارے سے شانزے کو آگے روم کی طرف جانے کے لیے کہنے انسپیکٹر کی بات سن کر دوبارہ پلٹا
"میڈم جی کو چائے کی نہیں ٹھنڈے کی ضرورت ہے ابھی کولڈرنگ منگواتا ہو کیوں میڈم جی" صدیق نے شانزے کو دیکھ کر دانت نکالتے ہوئے کہا
"اپنے دانت اندر کرو مجھے پیلا رنگ پسند نہیں"
شانزے کے سنجیدگی سے کہنے پر صدیق نے اپنے دانت اندر کرلیے اور نوفل کے کمرے کی طرف چل دی شانزے روم میں پہنچی تو وہاں پر پہلے سے ایک آدمی موجود تھے شاید وہ بھی نوفل کا ہی انتظار کر رہا تھا
"بیٹی آپ یہاں تھانے میں کس وجہ سے آئی ہیں وہ بھی اکیلی"
اس آدمی نے شفقت بھرے انداز سے شانزے کو مخاطب کیا
"مجھے اس تھانے کے ایس۔پی سے کام تھا اس لئے آئی ہوں مگر افسوس ہوتا ہے اس محکمے پر۔۔۔ ایسے عہدے پر کسی سے ذمہ دار شخص کو بیٹھنا چاہیے"
شانزے نے اس آدمی کی شفقت بھرے انداز دیکھ کر مزید اپنی رائے دی
"آپ نوفل صاحب کے بارے میں بات کر رہی ہوں وہ تو بہت ایماندار اچھے اور قابل انسان ہیں" اس آدمی نے بہت اپنائیت سے نوفل کے بارے میں شانزے کو بتایا جس پر شانزے اس آدمی کو دیکھنے لگی
"یقیناً وہ آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار ہوگا جبھی وہ آپ کو انسان لگا میرا مطلب ہے قابل اور اچھا انسان لگتا ہے"
شانزے طنزیہ بولی تو وہ آدمی مسکرا دیا
"نہیں نوفل صاحب سے میرا قریبی رشتہ تو دور کی بات،،، دور کا بھی رشتہ نہیں ہے مگر اپنائیت کا رشتہ ضرور ہے اور میں نے انہیں اچھا انسان اس لیے کہا کیوکہ ان میں انسانیت ابھی باقی ہے"
اس آدمی نے دوبارہ مسکرا کر کہا
"آپ کے ساتھ کونسی انسانیت کر بیٹھے ہیں ایس۔ پی صاحب"
شانزے نے اس آدمی کو دیکھ کر پوچھا تو اس آدمی کی مسکراہٹ تھم گئی وہ شانزے پر مرکوز نظریں ہٹا کر بولا
"چند دن پہلے میری چھوٹی بیٹی کے ساتھ ایک لڑکے نے زیادتی کی اور ہم نے انصاف کے خاطر اس لڑکے کے خلاف رپورٹ درج کرائی مگر کسی نے بھی اس کے خلاف ایف۔آئی۔آر کا پرچہ نہیں کاٹا کیوکہ اس لڑکے کے باپ کی پہنچ اوپر تک تھی بہت سے دوسرے انسپکٹر نے تو یہ مشورہ دیا کہ اپنا کیس واپس لے لو،،، میں تو اپنے اندر انصاف کی امید بھی ختم کر چکا تھا مگر ایک دن میری نوفل صاحب سے ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ مجھے انصاف دلائے گے اور واقعی انہوں نے مجھے کوئی جھوٹی تسلی نہیں دی آج میری بیٹی کا گناہگار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے"
اس آدمی کی بات سن کر شانزے چپ ہو گئی
آج تک اس نے زندگی میں ایسے مرد دیکھے تھے جو عورت ذات کو کھلونے سے کم نہیں سمجھتے تھے مگر آج عورت کے حق میں بولنے اور لڑنے والے کے بارے میں وہ پہلی دفعہ سن رہی تھی وہ آدمی نوفل کا انتظار کر کے جا چکا تھا
"کہاں رہ گئے ہیں تمہارے سر ایک نمبر کے نکّمے کام چور اور نکھٹو ٹائپ افسر ہیں جنہیں اپنی ذمہ داری عہدے کا احساس نہیں"
ڈیڑھ گھنٹے کا انتظار کر کے وہ نوفل کی تھوڑی دیر پہلے والی اچھائی کے بارے میں بھول گئی اور صدیق کو دیکھتی ہوئی بولی
"میڈم جی ہمارے سر بڑے ہی دل والے میرا مطلب ہے دلیر ایماندار اور ذمہ دار افسر ہیں اور سب سے بڑی بات اب تک کنوارے ہیں میرا مطلب ہے اکیلے رہتے ہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوگیا ہوگا ورنہ تو وہ اس ٹائم اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔۔۔ آپ یہ ناشتہ کریں ورنہ سر ناراض ہوں گے کہ آپ کو چائے پانی کا پوچھا ہی نہیں"
صدیق نے سامنے والے ہوٹل سے شانزے کے لیے کولڈرنگ کے ساتھ ناشتہ بھی منگوایا تھا
"یہ ناشتہ تم خود ٹھونس لینا اور جس کے ہوٹل سے تم یہ ناشتہ مفت میں لے کر آئے ہو اسے یہ پیسے بھی پکڑا دینا۔۔۔ اور میں نے جو تعریفی کلمات تمہارے سر کے لیے تم سے کہیے ہیں وہ انہیں ضرور بولنا" شانزے صدیق کو پیسے تھما کر غصے میں وہاں سے چلی گئی
****
نمیر اور منال گھر پہنچے ثروت کے کمرے میں عنایہ کو دیکھ کر ان دونوں کو حیرت ہوئی جہاں نمیر نے خوش ہو کر عنایہ کی خیریت معلوم کی وہی عنایہ کی موجودگی پر منال کا منہ بن گیا۔۔۔ وہ ثروت سے اس کی طبیعت پوچھنے کے بعد عنایہ کی طرف مڑی
"تو تم یہاں پہلے سے پہنچی ہوں" منال عنایہ کی طرف دیکھتی ہوئی بولی
"آپی آنٹی کی طبیعت کا معلوم ہوا تھا تبھی مامی کی اجازت سے ڈرائیور کے ساتھ یہاں آئی ہوں"
عنایہ نے ثروت کو میڈیسن دیتے ہوئے منال کو جواب دیا
"ویسے تم نمبر بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی"
منال کرسی پر بیٹھتی ہوئی بولی ثروت اور نمیر کو منال کے لہجے کا کھردراپن صاف محسوس ہوا جبکہ عنایہ خاموش ہوگئی۔۔۔۔ مگر کمرے کے اندر آتا نہال منال کی بات سن چکا تھا
"کچھ نمبر تم بھی اپنے بڑھا لوں منال آخر کو تمہیں بھی اسی گھر میں آنا ہے اور ویسے بھی ماما سے تمہارا ایک رشتہ خالہ کا بھی ہے"
نہال ثروت کے پاس بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا جبکہ دوسری سائیڈ پر ثروت کے پاس نمیر بیٹھا ہوا تھا
"اوہو بڑی سائیڈ لی جارہی ہے اپنی ہونے والی بیگم کی"
نہال نے سب کے سامنے اسے مزاقاً بولا تھا مگر منال نے مذاق میں چھپا طنز صاف محسوس کیا
"وہ منگیتر ہے نہال کی،،، نہال کو اب اسی کی سائیڈ لینی ہے اور خیال بھی رکھنا ہے"
نمیر منال کو جتاتا ہوا بولا۔۔۔ نمیر کو شروع سے ہی منال کی عادت بہت بری لگتی تھی،، وہ عشرت کی طرح عنایہ کو کسی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔۔۔ اور نمیر منال کو کئی دفعہ اس بات کے لئے ٹوک بھی چکا تھا
"تو تم بھی تھوڑا سا سبق اپنے بھائی سے سیکھ لو ناں" منال کی توپوں کا رخ اب ثروت کے برابر میں بیٹھے نمیر کی طرف ہوگیا
"یار اب تمہاری کیا سائڈ لو تم تو اکیلے ہی سب پر بھاری پڑتی ہو"
نمیر مسکراتا ہوا منال سے کہنے لگا جس پر سب ہی مسکرا دیئے
"نمیر نہیں کرو اسے تنگ ہٹو یہاں سے،، منال یہاں آؤ میرے پاس بیٹھو"
منال کا منہ بنا دیکھ کر ثروت بولی تو نمیر اٹھتا ہوا صوفے پر بیٹھا منال پھولے ہوئے منہ کے ساتھ ثروت کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی
"یار ویسے نہال یہ کافی انٹرسٹنگ بات نہیں۔۔۔ ہمارے گھر میں جھٹانی دیورانی سے کم عمر ہوگی"
نمیر نے منال کے پھولے ہوئے منہ کو دیکھ کر شرارتاً کہا
"عمر میں بھی اور ویٹ میں بھی"
نہال نے مسکرا کر ٹکڑا لگایا کیو کہ آجکل منال زور و شور سے اپنا ویٹ کم کرنے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔ نہال کے بعد سن کر جہاں عنایہ جھینپی وہی منال تپ گئی
"دیکھ رہی آپ ثروت آنٹی ان دونوں کو"
منال اب رونے والی ہوگئی
"خاموش ہو جاؤ تم دونوں بہت زیادہ بدتمیزی کر رہے ہو اور عنایہ بیٹا تم بھی تو باتیں کرو کچھ بولو کب سے خاموش بیٹھی ہوئی ہو"
ثروت نے ان دونوں کو ڈانٹ کر خاموش بیٹھی عنایہ سے کہا سب کی نظروں کا زاویہ عنایہ کی طرف ہوا جس پر وہ سٹپٹا گئی
"جی آنٹی میں سب کی باتیں سن رہی ہوں اچھا لگ رہا ہے مجھے"
عنایہ سب کو اپنی طرف متوجہ پا کر فوراً بولی
"او تو یہ دونوں میرا مزاق اڑا رہے ہیں اور تمہیں یہ سب سن کر اچھا لگ رہا ہے"
منال نے گھور کر کھا جانے والی نظروں سے عنایہ کو دیکھا
"نہیں آپی میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا"
عنایہ ایک دم منال سے بولی
"منال مذاق اُڑانے اور کرنے میں فرق ہوتا ہے اور یہاں پر کوئی تمہارا مذاق نہیں اڑا رہا"
نمیر نے منال کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا
"تم تو چپ ہی رہو نمیر،،، چاہے تمہاری فیملی کی بات آئے یا پھر اس عنایہ کی بات آئے۔۔۔ تم تو کبھی میرے فیور میں نہیں بولو گے"
منال نے غصے میں نمیر کو دیکھتے ہوئے بولا کمرے میں ایک دم خاموشی چھا گئی
"شٹ اپ منال،، آئندہ اپنی زبان کو لگام دے کر مجھ سے تمیز سے بات کرنا۔۔۔ بےشک تم خالہ جانی جیسی ہوگی مگر میں فرمان خالو جیسا نہیں ہوں جو تمہاری بدتمیزیوں کو سب کے سامنے یا اکیلے میں برداشت کرو۔۔۔ اس لیے آئندہ بات کرتے ہوئے احتیاط کرنا"
نمیر منال کو دے کر اس سے زیادہ غصے میں بولا کمرے میں ایک دم دوبارہ خاموشی طاری ہوگئی
"کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو کس طرح کی باتیں کر رہے ہو یہ۔۔۔ نمیر یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا"
ثروت ایک دم بیچ میں بولی نمیر نے غصے میں سر جھٹکا
"میں چلتی ثروت آنٹی کافی لیٹ ہوگئی ٹائم بھی کافی ویسٹ ہوگیا میرا یہاں پر بیٹھے بیٹھے"
منال اٹھتی ہوئی بولی
"آو منال تمہیں میں چھوڑ آتا ہوں"
نہال جو کافی دیر سے کمرے میں خاموش بیٹھا تھا منال کو اٹھتا ہوا دیکھ کر خود بھی اٹھتا ہوا بولا۔۔ منال نے غصے میں ایک نظر نمیر کو دیکھا اور دوسری قہر برساتی نظر عنایہ پر ڈالی
"عنایہ تم تو ابھی ہو ناں یہاں پر"
نہال نے ایک نظر خاموش بیٹھی عنایہ کو دیکھ کر پوچھا
"عنایہ آج یہی رکے گی عشرت سے میں نے فون پر بات کر لی تھی"
عنایہ کی بجائے ثروت نے جواب دیا،، عنایہ نے ایک نظر نہال کو دیکھا نہال اسی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
"زبردست ماما یہ تو آپ نے بہت اچھا کام کیا۔۔۔ فرمان خالو اس کے ہاتھ کی بریانی کی بہت تعریف کر رہے تھے۔۔۔ حسین لڑکی سمجھو آج تمہارے سسرال میں تمہارا پہلا امتحان ہے ہر نئی نویلی دلہن پہلے کھیر بناتی ہے لیکن آج تم ہمیں بریانی بنا کر کھلاو گی"
نمیر اپنے موڈ کو بشاش کرتا ہوا بولا جس سے ماحول پر چھائی ہوئی تلخی چھٹ گئی کمرے میں موجود منال کے علاوہ سب ہی مسکرا دیئے۔۔۔ جبکہ منال سر جھٹک کر کمرے سے باہر چلی گئی اور نہال اس کے پیچھے اس کو گھر چھوڑنے چلا گیا
اب نمیر عنایہ سے باتیں کرنے لگا۔۔۔ نمیر کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے منال سے اس کی کوئی جھڑپ ہی نہ ہوئی ہو۔۔۔ عنایہ کو لگا یا تو وہ بہت اچھا ایکٹر ہے یا پھر اسے منال کی پروا ہی نہیں۔۔۔ جبکہ ثروت کو نمیر اور منال کی لڑائی دیکھ کر۔۔۔ وہ نمیر کے مستقبل کے لیے فکر مند ہونے لگی
Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 9
رات کا پہر تھا خوب گرج چمک کے ساتھ بارش ہو رہی تھی ثروت اپنے کمرے سے نکل کر ہال میں آئی تو اس کی نظر نمیر پر پڑی
"نمیر تم اس وقت کیا کر رہے ہو سوئے نہیں ابھی تک"
ثروت نے نمیر کو دیکھ کر پوچھا
"سو ہی رہا تھا مگر کسی کے رونے کی آواز سے آنکھ کھل گئی آپ کیوں جاگ رہی ہیں اس وقت،، طبیعت ٹھیک ہے آپ کی"
نمیر اب ثروت سے پوچھنے لگا
"عنایہ کو دیکھنے آئی تھی اسے ڈر لگتا ہے بارش سے اور بادلوں کے گرجنے سے"
ثروت عنایہ کے کمرے میں جاتی ہوئی بولی
"اف میرے خدا تو یہ پاگل لڑکی رو رہی تھی میرا تو دماغ ہی نہیں گیا اس کی طرف"
نمیر بھی ثروت کے پیچھے عنایہ کے کمرے میں جاتا ہوا بولا۔۔۔ منال نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہی بار نمیر کو عنایہ کے ڈر کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ بارش سے اور اندھیرے سے ڈرتی ہے
"عنایہ بیٹا کیا ہوگیا ہے اس طرح کیوں بیٹھی ہو"
ثروت عنایہ کے بیڈروم میں پہنچی تو اسے بیڈ کی بجائے کمرے کے کونے میں گھٹنوں میں سر دیے بیٹھے دیکھا شاید وہ رو بھی رہی تھی
"آنٹی مجھے بہت خوف محسوس ہو رہا آپ پلیز ماموں جان کو فون کرکے بلالیں"
عنایہ نے اپنا چہرہ اٹھاتے ہوئے کہا خوف کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے مارے خوف کے اس کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔۔ ثروت اور نمیر خوف میں مبتلا عنایہ کی حالت دیکھنے لگے
"اٹھو یہاں آؤ میرے پاس،، میرے روم میں میرے ساتھ سو جاؤ چلو"
ثروت اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہنے لگی تبھی عنایہ ثروت کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہوئی
"حد ہے یار ویسے، تم تو چھوٹے بچوں سے بھی زیادہ گئی گزری ہو۔۔۔ ماما چھوڑیں آپ اس کا ہاتھ آج میں اس کا بارش سے سارا ڈر نکالتا ہو"
نمیر نے ثروت سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر خود عنایہ کا بازو تھاما اور اسے باہر لے جانے لگا
"نہیں۔۔۔ نہیں نمیر بھائی پلیز میرا ہاتھ چھوڑے میں مر جاؤں گی"
عنایہ خوف کے مارے چیختی ہوئی نمیر سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگی
"نمیر کیا کر رہے ہو وہ ڈر رہی ہے" ثروت نمیر کے پیچھے آتی ہوئی بولی مگر نمیر ثروت اور عنایہ کی سنے بغیر اسے باہر لے جانے لگا
"نمیر یہ کیا حرکت ہے چھوڑو عنایہ کا ہاتھ"
نہال شور کی آواز سن کر اپنے کمرے سے نکل آیا سامنے کا منظر دیکھتے ہوئے وہ نمیر سے بولا
"یار آج کے دور میں کون اس طرح بارش سے ڈرتا ہے بھلا صرف پانچ منٹ رک جاؤ میں اس کا ڈر آج ہی ختم کر دوں گا"
نمیر نہال سے بولتا ہوا ہاتھ بڑھا کر باہر کا دروازہ کھولنے لگا۔۔۔ جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس نے عنایہ کا بازو پکڑا ہوا تھا
"اس طرح ڈر ختم کرو گے تم اس کا۔۔۔اس طرح تو وہ اور زیادہ ڈر جائے گی حالت نہیں دیکھ رہے ہو تم اس وقت اسکی"
نہال ان دونوں کے قریب آتا ہوا بولا اور نمیر کے ہاتھ سے عنایہ کا بازو چھڑایا۔۔۔ عنایہ دوڑتی ہوئی ثروت کے پاس گئی اور اس سے جاکر لپٹ گئی
"ماما اگر آپ ڈسٹرب نہ ہو تو آج عنایہ کو اپنے پاس سلا لیں"
نہال نے ثروت سے کہتے ہوئے ایک نظر عنایہ کو دیکھا وہ سہمی ہوئی ابھی بھی ثروت سے چپک کر کھڑی تھی ثروت عنایہ کو اپنے ساتھ اپنے بیڈروم میں لے گئ
"وہ کیا طریقہ ہے ڈر ختم کرنے کا تم اسے اس طرح ٹریٹ کرو گے۔۔۔ اس طرح تو نہ زندگی بھر اس کا خوف ختم ہوگا اور نہ اس میں کبھی کونفیڈنس آئے گا"
ثروت اور عنایہ کے جانے کے بعد نمیر نہال کو دیکھتا ہوا بولا
"میں عنایہ کی نیچر اور عادت تم سے زیادہ نہیں جانتا نمیر بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہو گا وہ شروع سے ہی مجھ سے زیادہ تم سے فرینک رہی ہے۔۔۔ تمہارے اس طرح ری ایکٹ کرنے سے یہ نہ ہو کہ وہ تم سے ہی ڈرنے لگے اور میں چاہتا ہوں وہ تم سے ہمیشہ ایسے ہی فرینک رہے اور کونفیڈنس کا کیا ہے شادی کے بعد وہ لڑکی میں آ ہی جاتا ہے،، ویسے بھی وہ جیسی ہے مجھے ایسے ہی کیوٹ لگتی ہے"
نہال کی بات سن کر نمیر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
"یہ منگنی کے بعد سے کچھ زیادہ ہی کیوٹ نہیں لگنے لگی تمہیں اپنی عنایہ"
نمیر آنکھوں میں شرارت لئے نہال کو چھیڑنے لگا اس کے انداز پر نہال کو ہنسی آگئی
"بکواس کم کیا کروں تم،،، وہ حقیقتاً کیوٹ ہی ہے منگنی کا کیا تعلق اس بات سے"
نہال اس کو گھورتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا
*****
"کیسا فیل کررہی ہوں اب"
عنایہ صبح کچن میں ناشتہ بنانے میں مصروف تھی تب نہال کچن میں آکر اسے پوچھنے لگا
"ٹھیک ہوں۔ ۔۔ آئم سوری کل میری وجہ سے آپ سب لوگ ڈسٹرب ہوگئے"
عنایہ نے نہال کو دیکھتے ہوئے کہا وہ شاید آفس جانے کے لئے تیار کھڑا تھا عنایہ مصروف انداز میں کیٹل میں چائے ڈالنے لگی۔۔۔ کیٹل اس نے ٹرالی میں رکھی تو نہال چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور عنایہ کا ہاتھ پکڑا
"کل رات کے لیے سوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے کل رات کوئی بھی ڈسٹرب نہیں ہوا سوائے میرے۔۔۔۔ عنایہ میں بہت ڈسٹرب ہو گیا ہوں مگر کل رات سے نہیں بلکہ منگنی کے بعد سے"
نہال غور سے عنایہ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا نہال کی بات سن کر عنایہ سر جھکا گئی۔۔۔ نہال نے عنایہ کی تھوڑی کے نیچے اپنی انگلی رکھ کر اس کا چہرہ اوپر کیا
"میرا اب مزید ڈسٹرب رہنے کا کوئی خاص موڈ نہیں ہے۔۔۔ اس لیے سوچ رہا ہوں مما سے شادی کا نیکسٹ منتھ کے لیے کہہ دو"
نہال عنایہ سے رات کو اپنی سوچی گئی پلاننگ شیئر کرنے لگا
"شادی اتنی جلدی کیسے، میرے ایگزمیز ہونے والے ہیں دو مہینے بعد"
عنایہ اس کی بات سن کر ایک دم بوکھلا گئی اور ہچکچاتی ہوئی کہنے لگی
"تو اپنے ایگزیمز شادی کے بعد دے دینا۔۔۔ اچھا ہے نہ میں ٹیوٹر کی بجائے شوہر بن کر زیادہ اچھی تیاری کراو گا"
نہال اس کو گھبراتے ہوئے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اور عنایہ کو ابھی سے اندازہ ہو گیا کہ وہ ایگزیمز میں بری طرح فیل ہونے والی ہے
"نہال یہ بہت جلدی ہے"
عنایہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا
"جلدی کہاں ہے ابھی مہینہ ختم ہونے میں پورے پندرہ دن باقی ہیں۔۔۔ مجھ سے پوچھو یہ پندرہ دن میں کیسے گزاروں گا"
وہ محبت کی پاش نظروں سے عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا اس کے ہاتھ پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر کچن سے نکلنے لگا کچھ یاد آنے پر کچن کے دروازے سے مڑا
"ایک بات اور اب تمہیں کبھی بھی کسی انسان سے،، بارش سے،، اندھیرے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ شادی کے بعد میں تمہیں ان سب سے چیزوں سے اپنی بانہوں میں چھپا کر رکھوں گا اور میری پناہوں میں تم ہمیشہ خود کو محفوظ پاؤگی"
عنایہ نے نظریں اٹھا کر نہال کو دیکھا تو وہ آنکھوں میں نرم تاثر لیے اسی کو دیکھ رہا تھا پھر مسکراتا ہوا کچن سے باہر چلا گیا۔۔ عنایہ کے چہرے پر بھی حسین مسکراہٹ آئی وہ ٹرالی میں ناشتہ سیٹ کر کے کچن سے باہر نکلنے لگی
****
"لو بھئی اب تمہیں بھی نہال والی بیماری لگ گئی اکیلے میں بیٹھ کر مسکرانے کی"
عنایہ ابھی ثروت کو سوتا ہوا دیکھ کر روم سے باہر نکلی مطلع صاف تھا تھبی باہر لان میں ٹہلنے لگی اور ٹہلتے ٹہلتے صبح نہال کی باتیں یاد آنے لگی جس سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی نمیر جو تھوڑی دیر پہلے آفس سے آیا ہے اس کے پاس آ کر بولا
"آپ تو اب مجھ سے بات ہی نہیں کریں ناراض ہو میں آپ سے"
عنایہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی وہ نمیر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی
"اب مجھ معصوم نے کیا خطا کردی جو مجھ سے گندے بچوں کی طرح ناراض ہوا جا رہا ہے"
نمیر نے حیرانگی سے عنایہ کو دیکھا جو واقعی اسے کسی چھوٹی بچی کی طرح روٹھی ہوئی لگی
"کل رات کو کیا کرنے والے تھے آپ میرے ساتھ"
عنایہ آنکھوں میں شکوہ لیے نمیر سے پوچھنے لگی وہ اس طرح شکوہ کرتے ہوئے نمیر کو بھی کیوٹ لگی نہال اسے صحیح کیوٹ کہتا تھا نمیر اسے دیکھ کر مسکرانے لگا
"یار کل رات نہال نے آکر سارا کام خراب کر دیا ورنہ میں تمہیں بارش میں خوب انجوائے کرانے والا تھا"
نمیر شرارتی انداز میں مسکراتا ہوا بولا
"اگر آئندہ کبھی آپ نے میرے ساتھ ایسا کیا نہ تو بہت بری طرح ناراض ہو جاؤ گی آپ سے"
عنایہ نے نمیر کو وارن کرتے ہوئے کہا
"حسین لڑکی یہ بیویوں والے اسٹائل میں نہال کو دھمکایا کرنا شادی کے بعد،،، شکر کرو تمہارے نہال کی نیچر میری طرح نہیں ہے اگر نہال کی جگہ میں ہوتا نہ تو کل رات تمہارا سارا ڈر خوف دس منٹ میں ہوا کر دیتا"
نمیر اسے چیلنج کرتا ہوا بولا عنایہ ابھی بھی نمیر کو ناراضگی سے دیکھ رہی تھی مگر دل میں اس نے واقعی خدا کا شکر ادا کیا
"یار تم نے تو چھوٹے بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا،، بارش جیسے رومنٹک موسم سے بھلا کون ڈرتا ہے۔۔۔ تھوڑا سا بریو بنو۔۔۔ اور آج کل کے دور کے حساب سے خود کو بدلو چلو اب ماما سے مل کر آؤ پھر تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں"
نمیر اس کو دیکھتا ہوا بولا کیوکہ عشرت کا فون اس کے پاس آیا تھا اور وہ عنایہ کو بلوا رہی تھی
****
شانزے کالج سے گھر آئی تو اسے گھر کے باہر نوفل کی گاڑی دکھی وہ ماتھے پر بل لیے گھر میں داخل ہوئی
"آنٹی آپ کو کبھی بھی کسی بھی قسم کی پرابلم ہو یا کوئی بھی کام پڑے آپ بلاجھجک مجھے یاد کریئے گا آپ مجھے اپنے بیٹے کی طرح سمجھیں بلکہ سمجھنے کی ضرورت نہیں میں آپ کا پکا والا بیٹا ہوں"
شانزے صحن میں آئی تو اس کے کانوں سے نوفل کی آواز ٹکرائی
"تو اب تم گھر کے اندر بھی پہنچ گئے۔۔۔ اور یہ کیا باتیں کر رہے ہو میری امی سے۔۔۔ یہ پکا والا بیٹا کیا ہوتا ہے"
شانزے نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوکر نوفل کو دیکھتے ہوئے کہا جو نائلہ کے سامنے کرسی پر برجمان تھا
"شانزے جلدی سے کچن میں جاو چائے کا پانی رکھو فوراً"
نائلہ نے مڑ کر اپنے پیچھے شانزے کو آنکھوں میں تنبیہ کرتے ہوئے وہاں سے جانے کے لیے کہا کیوکہ نائلہ شانزے کے بگڑے ہوئے موڈ کا اندازہ اس کی باتوں سے لگا چکی تھی
"صرف چائے سے کہا کام چلے گا آپ کو معلوم نہیں ہے یہ معصوف تو ایسے ادارے سے تعلق رکھتے ہیں پورے پکوانوں کا انتظام کرنا پڑے گا ان کے لیے تو"
شانزے نوفل کو گھورتی ہوئی بولی نوفل اس کو دیکھ کر مسکرائے جا رہا تھا
"شانزے تمیز سے بات کرو تمیز بالکل بھولتی جارہی ہو تم دن بدن۔۔۔ بیٹا تم اس کی بات کا بالکل برا نہیں ماننا،،، آجکل گرمی زیادہ ہے کالج سے آتی ہے تو اس کا دماغ ایسی ہی خراب رہتا ہے"
نائلہ شانزے کو ڈپٹتے کے ساتھ نوفل سے شائستگی سے بولی
"ارے نہیں آنٹی کیسی باتیں کر رہی ہیں اب بھلا اپنوں کی بھی باتوں کا کوئی برا مانتا ہے"
نوفل نے شانزے کو دیکھ کر لفظ "اپنوں" پر زور دیتے ہوئے کہا
"نائلہ بہن ذرا یہاں آکر بات تو سننا"
نائلہ نوفل کو کچھ بولتی اس سے پہلے صحن سے (کرائے دار) کی آواز آئی
"جائیے امی اکرم کی اماں کو ضرور کسی مصالے یا چائے کی پتی کی ضرورت ہوگی"
شانزے منہ کے زاویے بگڑتی ہوئی بولی۔۔۔ نائلہ اس کو گھور کر نوفل کو مسکرا کر دیکھنے لگی اور کمرے سے نکل گئی
"اتنی چھوٹی سی تمہاری ناک ہے اس پر سارا وقت اتنا غصہ کیسے سوار رکھتی ہوں آخر"
نوفل چہرے پر سنجیدگی لائے مسکراتی ہوئی نظروں سے اس کو دیکھ کر پوچھنے لگا
"تم سے مطلب۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھا کرو"
شانزے اس کو جواب دے کر اپنے کمرے میں جانے لگی
"رکو ظالم حسینہ میری بات تو سنو"
نوفل نے اس کو جاتا ہوا دیکھ کر ایک دم پکارا
"کیا ظالم حسینہ۔۔۔ خبردار جو ایسے گھٹیا نام سے مجھے آئندہ پکارا تو"
شانزے کو اپنا نیا نام بالکل پسند نہیں آیا جیسے اپنے سامنے بیٹھا ہوا یہ ایس۔پی پسند نہیں آیا
"تو پھر تم خود ہی بتا دو تمہیں پیار سے کس نام سے پکارو"
نوفل شانزے کو دیکھ کر شوخی سے پوچھنے لگا
"تمہیں ضرورت نہیں ہے مجھے پکارنے یا مخاطب کرنے کی،، چائے پیو اور فوراً نکلو یہاں سے"
شانزے نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے نوفل کو جواب دیا
"چائے کون پیے گا اس گرمی میں،، کیوں نہ کچھ میٹھا ہو جائے"
نوفل معنی خیزی سے شانزے کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا بولا اس کی ہمت دے کر اور اس کی بات کا مفہوم سمجھ کے شانزے کو اچھا خاصا غصہ آگیا۔۔۔ وہ صرف دوسروں کے ساتھ نیکی کر سکتا تھا، ،، اسکے سامنے وہ صرف اپنا ٹھرک پن دکھاتا
"میٹھا تو میں تمہیں اچھی طرح کھلاتی ہوں"
شانزے غصے میں نوفل کی طرف بڑھی۔۔۔ ارادہ وہ اس کا گال سُجھانے کا رکھتی تھی مگر بدقسمتی سے ٹیبل میں اٹک کر اس کا پاؤں بری طرح لڑکھڑا آیا،،، اور وہ نوفل کے اوپر جاگری
"اف اتنی فرمابرداری سے تم میری خواہش پوری کرنے میرے پاس آئی ہو یقین نہیں ہو رہا مجھے"
شانزے کا پورا وزن ہی نوفل کے اوپر تھا نوفل نے اسے کمر سے تھاما ہوا تھا
"میری کمر پر سے اپنے ہاتھ ہٹاؤ بیہودہ انسان"
شانزے گھبراہٹ میں نوفل کی شرٹ دونوں کندھوں کی طرف سے پکڑ کر بولی
"پہلے یہ بتاؤ کل پولیس اسٹیشن کیوں آئی تھی"
شانزے کا چہرہ قریب ہونے کی وجہ سے وہ غور سے اس کو دیکھ کر سوال کرنے لگا
"یہ پوچھنے کے لیے کہ ہمارے اوپر ہمدردی اور مہربانیوں کے پیچھے آخر کیا وجہ ہے"
شانزے نے نوفل کے کندھے پر وزن ڈال کر خود اس سے الگ ہونا چاہا تو نوفل میں اس کی کمر پر دباؤ ڈال کر اس کا ارادہ ناکام کیا
"اس دن کار میں تمہیں گھر چھوڑتے ہوئے ساری وجوہات میں بتا چکا ہوں۔۔۔ یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا کر رکھو کہ میں تم سے غافل ہرگز نہیں ہوں۔۔۔ جسے تم ہمدردی سمجھ رہی ہو وہ میری کیئر کرنے کا انداز ہے۔۔۔ اب تم جو بھی سمجھو بس خود کو میری امانت سمجھو"
نوفل نے بولتے ہوئے شانزے کو سیدھا کھڑا کیا کیوکہ اب صحن سے اکرم کی اماں کی آواز آنا بند ہو گئی تھی یقینا اکرم کی اماں اب چلی گئی تھی
"بڑے آئے امانت سمجھو زبردستی ہے کیا"
شانزے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے نوفل کو گھورنے لگی
"ہاں۔۔۔ کچھ ایسا ہی ہے"
نوفل شانزے کو آنکھ مارتا ہوا بولا اتنے میں نائلہ کمرے میں آگئی نوفل دوبارہ شریفانہ انداز میں معصوم سی شکل بنا کر بیٹھ گیا شانزے اس کو گھورتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi 10
ثروت نے نہال کی بات پر عمل کرتے ہوئے فرمان سے مشورہ کرکے اگلے ماہ کی 8 تاریخ کو نہال اور عنایہ کی شادی کی ڈیٹ فکس کردی جس کے سسب دونوں فیملیز میں شادی کی تیاریاں عمل میں آگئی۔۔۔ نمیر ایک گھنٹہ پہلے آفس سے گھر آیا تھا اس وقت ثروت اور نہال عنایہ کو لے کر شاپنگ کے سلسلے میں باہر نکلے ہوئے تھے نمیر صوفے پر نیم دراز ہاتھ میں ریموٹ پکڑے ٹی وی کے چینل چینج کر رہا تھا تبھی اس کو جھٹکا لگا وہ اٹھ بیٹھا اور اس نے دو چئینل پیچھے کیے اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئی ہے یہ کوئی موڈلنگ شو تھا۔۔۔ جس میں ریمپ پر کیٹ واک کرتی ہوئی لڑکی کوئی اور نہیں منال تھی نمیر نے کافی دیر تک بے یقینی سے اسکرین پر نظر جمائے رکھی منال کی ڈریسنگ دیکھ کر نمیر کا چہرہ ضبط کے مارے سرخ ہونے لگا وہ اپنا موبائل اٹھا کر منال کا نمبر ڈائل کرنے لگا مگر اس کا نمبر بزی جا رہا تھا دو سے تین بار ٹرائے کرنے کے بعد نمیر غصے میں کار کی کیز اٹھا کر عشرت کی طرف چلا گیا
****
"اچھا ہوگیا نمیر تم آگئے میں تمہیں ہی کال ملانے والی تھی"
منال نمیر کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر بولی
"کیا کرتی پھر رہی ہو منال تم"
نمیر اس کی بات سنی ان سنی کرتا ہوا غصے میں بولا
"ایسا کیا کر دیا ہے میں نے،، یہ تم بات کس طرح کر رہے ہو"
منال کو نمیر کا لہجہ پسند نہیں آیا وہ سیریس ہو کر پوچھنے لگی
"نادان ہی ہو تم تمہیں میری بات اچھی طرح سمجھ میں آ رہی ہے تم نے ماڈلنگ کی،، اسکرین پر آئی کس کی پرمیشن سے"
نمیر کو اس کا انداز مزید بھڑکا گیا وہ تیز آواز میں بولا
"ایکسکیوز می میں چاہے موڈلنگ کرو یا اسکرین پر آؤ مجھے نہیں لگتا کہ اس بات کے لئے مجھے تمہاری پرمیشن کی ضرورت ہے"
منال اس کے روبرو کھڑی ہوکر اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر نمیر کو دیکھ کر بولی ایک لمحے کیلئے نمیر خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا
"تمہیں واقعی اس وقت میری پرمیشن کی ضرورت نہیں ہے مگر آگے جاکر تمہیں میرے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنی ہوگی اور میں ہرگز پسند نہیں کروں گا منال کر تم ڈھیر سارے لوگوں کے مجموعے کے بیچ ریمپ پر اپنی نمائش کرتی ہوئی نظر آؤں اس لیے آئندہ کیلئے احتیاط کرنا"
نمیر اپنے غصے کو بہت مشکل سے کنٹرول کر رہا تھا جوکہ اس وقت اسے منال پر آ رہا تھا
"نمیر پلیز اس طرح کی باتیں کر کے تم اپنی کنزرویٹو سوچ مجھ پر شو مت کرو،، تم ایک پڑھے لکھے میچور انسان ہو اور ماڈلنگ کرنا کوئی ایسی بڑی بات نہیں جس کے لئے تم یوں اوور ری ایکٹ کر رہے ہو بلکہ تمہیں تو چاہیے تم مما پاپا کے سامنے اپنے گھر والوں کے سامنے میرا ساتھ کرو تاکہ آئندہ کے لئے ایٹلسٹ مما پاپا تو مجھ پر کوئی روک ٹوک نہ کرسکیں"
منال اب سیریس ہوکر اس کو سمجھانے لگی مگر منال کی بات سن کر نمیر کا ماتھا ٹھنکا
"آئندہ کیلئے سے کیا مراد ہے تمہاری"
نمیر نا سمجھنے والے انداز میں منال کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"نمیر مجھے فلم کی آفر ہے اور یہ میرے لئے ایک گولڈن اپرچونٹی سے کم نہیں ہے میں اس کو ہر صورت آویل کرنا چاہتی ہوں اور اس کام کے لیے تم میرے پیرنٹس کے ساتھ ساتھ اپنی فیملی کو بھی کو ایگری کرو گے پلیز اسے میری خواہش سمجھ لو"
منال کی بات سن کر نمیر ایک بار پھر خاموشی ہو کر اسے دیکھنے لگا
"منال میری ایک بات دھیان سے سنو میں بےشک ایک پڑھا لکھا انسان ہوں مگر میرے خیالات اور نظریات اتنے ماڈرن ہرگز نہیں ہیں کہ میری ہونے والی بیوی فلموں میں کسی غیر مردوں کے ساتھ کام کرتی ہوئی نظر آئے اور میں اس کی ایکٹنگ دیکھ کر واہ واہ کرتا ہوا تالیاں پیٹو۔۔۔ اگر تم میری اس سوچ کو دقیانوسی سوچ سمجھتی ہوں تو پھر ٹھیک ہے میں دقیانوسی مرد ہوئی،،، اگر تم اپنے گولڈن چانس کو نہیں چھوڑ سکتی تو بے شک تم مجھے چھوڑ دو"
نمیر کو لگا وہ منال کے لیے اتنی اہمیت ضرور رکھتا ہے کہ منال اس کی خواہش کا احترام کریں
"نمیر تم واقعی ایک عام سے مرد ہو جسے بس بیوی کے نام پر ایک چوبیس گھنٹے کی ملازمہ چاہیے جو اس کے بچے پیدا کرے اور ان کی پرورش کرے اور اس کے گھر کی دیکھ بھال کرے لیکن میری زندگی کا مقصد صرف شادی کرنا یا بچے پیدا کرنا نہیں ہے یار،، تم سمجھ کیوں نہیں رہے ہو آخر میری بات کو،، میں یہ موقع اپنے ہاتھ سے ہرگز نہیں گنوانا چاہتی"
منال غصے میں اس کو سنجھانے لگی
"اگر تم شادی کے بعد کہیں اور جاب کرنے کے خواہشمند ہوتی تو میں تمہیں کبھی بھی منع نہیں کرتا۔۔۔۔ چلو آج تمہاری باتوں سے یہ تو ثابت ہوا کہ تمہاری نظر میں مجھ سے یا میرے ریلیشن سے زیادہ اپنے مقاصد ویلیو رکھتے ہیں مبارک ہو تمہیں اپنے نیا مقصد"
نمیر منال کو کہتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکلنے لگا
"آئی تھنک تم اپنے بھائی کی طرح عنایہ جیسی لڑکی ڈیزرو کرتے ہو۔۔۔ تمہیں ایسی ہی کسی دوسری لڑکی سے شادی کرنی چاہیے جو سر جھکا کر تمہارا حکم مانتے ہوئے ساری زندگی تمہارے اشارے پر چلے"
اپنی اگنورنس برداشت نہیں ہوئی تو منال تڑخ کر بولی
"میں کیا ڈیزرو کرتا ہوں کیا ڈیزرو نہیں کرتا یا مجھے کس سے شادی کرنی چاہیے۔۔۔ اب اس سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔ بس آج میں اتنا جان گیا ہوں کہ میں تم جیسی لڑکی ہرگز ڈیزرو نہیں کرتا یہ بات اب تم ہمیشہ اپنے دماغ میں بٹھائے رکھنا"
نمیر اس کو بولتا ہوا کمرے سے نکل گیا
****
"بہت برا کیا ہے اس لڑکی نے اپنے ماں باپ کے ساتھ،، میرے نمیر کے ساتھ کیسا مرجھا سا گیا ہے میرا بچہ،،، دو دن سے نہ کہیں آ رہا ہے نہ جا رہا ہے بس اپنے کمرے میں خود کو بند کیے بیٹھا ہے وہاں فرمان اور عشرت کی رو رو بری حالت ہوگئی ہے۔۔۔۔ ذرا شرم نہیں آئی اس لڑکی کو اپنے ماں باپ کی عزت کو یوں ٹی وی پر نیلام کرتے ہوئے،، بجائے شرمندہ ہونے کے ضد لگائے بیٹھی ہے کہ آگے بھی فلموں میں کام کرنا ہے فرمان اور عشرت کے منع کرنے پر الٹا گھر چھوڑ کر اپنی سہیلی کے گھر جا بیٹھی بے حیا لڑکی"
ثروت ابھی نہال کے ساتھ فرمان کو ہسپتال سے دیکھ کر گھر آکر بیٹھی تھی
اس ساری صورتحال سے جہاں نہال اور عنایہ کی شادی کی خوشیاں پھیکی پڑی وہی سب کو نمیر اور منال کے تعلق کے ختم ہونے کا بھی علم ہو گیا منال کے اس طرح گھر چھوڑ کر جانے سے فرمان کی اچانک طبیعت بگڑی ڈاکٹرز نے سختی سے تلقین کی تھی کہ کوئی بھی بری خبر فرمان کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے لہٰذا انہیں خوش رکھا جائے۔۔۔ شادی کے گھر میں یوں اچانک منال کی وجہ سے اچھا خاصہ ٹینشن زدہ ماحول پیدا ہوگیا تھا
"اس نے خالہ جانی خالو اور نمیر کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ بھی بہت برا کیا ہے اور دعا کریں کہ جب اسے احساس ہو تو زیادہ دیر نہیں ہو چکی ہو اور رہی نمیر کی بات تو جہاں تک میں اپنے بھائی کو جانتا ہوں وہ اپنے اور منال کے رشتے کو روگ لگا کر زندگی برباد کرنے والوں میں سے نہیں ہے وہ ایک میچور انسان ہے مگر کسی بھی ریلیشن کے یوں اچانک ختم ہونے سے دکھ تو ہوتا ہے آپ اس کی ٹینشن مت لیں سیٹ ہو جائے گا وہ،، میں نے نوفل کو ساری صورت حال بتا کر اس بلایا ہے اب وہی نمیر کو ٹھیک کرے گا"
نہال ثروت کو دیکھتا ہوا بتانے لگا
****
"مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ تم منال میں دلچسپی رکھتے ہوں اس لیے اس سے شادی کے خواہشمند ہوں مگر یہ اندازہ ہرگز نہیں کہ تمھیں اس سے عشق ہے۔۔۔ اس ریلیشن کے ختم ہونے کے بعد یوں کمرے میں اس کا جوک لئے بیٹھ جاؤ گے"
نوفل نمیر کے کمرے میں آیا اور کمرے کی لائٹ آن کرکے کھڑکی سے باہر جھانکتے نمیر کو دیکھ کر بولا
"شٹ اپ نوفل میں اس وقت سنجیدہ ہوں مذاق کا موڈ بالکل نہیں ہے میرا"
نوفل کا طنز سن کر نمیر پاس رکھی چیئر پر بیٹھتا ہوا بولا
"میرے بھائی اب سنجیدہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں تمہیں سامنے والے بندے کے انداز اور عادت دیکھ کر بہت پہلے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تھا۔۔۔ اب جب بات آئی گئی ہوگئی ہے تو بات کو مذاق میں اڑا دو یار بھول جاو سب"
نوفل بھی بیڈ پر ریلیکس انداز میں بیٹھے ہوئے نمیر سے کہنے لگا
"نوفل تم جانتے ہو ناں کہ میرے اور منال کے ریلیشن میں پہل اور پیش قدمی اسی کی طرف سے ہوئی تھی،، اس نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھے لائک کرتی ہے میرے ساتھ اپنی باقی کی زندگی گزارنا چاہتی ہے،،، وہ میری کزن تھی میرے لئے قابل احترام بھی،، میں اپنے اور اس کے ریلیشن کو لے کر ہمیشہ اس سے مخلص رہا۔۔۔ اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو ہمیشہ اگنور کرتا رہا اور دو دن پہلے وہ مجھے کہہ رہی ہے کہ میں اس کے اسکرین پر آنے پر اوور ری ایکٹ کر رہا ہوں۔۔۔ میں ایک کنزرویٹیو مرد ہوں،،، یار میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو یہ گوارا کریں کہ اس کی بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ اسکرین پر کام کریں میں ایجوکیٹڈ ہونے کے باوجود ایسی منٹیلٹی نہیں رکھ سکتا نہ اتنا بےغیرت ہو سکتا ہوں کہ اپنے سامنے اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ دیکھو"
نمیر نوفل کے سامنے اپنے دل کا غبار نکالنے لگا نوفل نے بھی اس کو بولنے دیا جب نمیر بول کر چپ ہوا تو نوفل بولا
"نمیر ایک طرح سے یہ اچھا نہیں ہوا کہ منال کی سوچ تم پر شادی سے پہلے واضح ہوگئی اور یہ بھی کہ اس کی لائف میں اس کے خواب پہلے آتے ہیں جنہیں وہ پائے تکمیل پر پہنچانا چاہتی ہے جبکہ تم اپنے آپ کو اس کا خواب سمجھنے کی بھول کر بیٹھے تھے۔۔۔ پہل اگر منال کی طرف سے ہوئی مگر اس کے باوجود تم اس کی فرسٹ پریورٹی نہیں ہو۔۔۔ نمیر تمہیں نہیں لگتا کہ ایسے کھوکھلے ریلیشن کا ابھی نہیں تو بعد میں یہی انجام ہونا تھا۔۔۔ تم سے بریک اپ کے بعد یقیناً منال بھی اپنی زندگی میں مطمئن ہوگی۔۔ میرے خیال میں اب تمہیں بھی اس پر مٹی ڈال دینی چاہیے"
نوفل نمیر کو سمجھاتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا
"مٹی میں دو دن پہلے ہی ڈال چکا ہوں اگر تم یا کوئی اور یہ سمجھ رہا ہے کہ میں منال کا روگ لے کر بیٹھا ہوں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔ صرف مجھے افسوس ہے تو اس بات کا کہ میں نے اپنی فیلنگز اپنے ایموشنز اس لڑکی پر شو کیے جو یہ سب کچھ بالکل ڈیزرو نہیں کرتی تھی"
نمیر سر جھٹکتا ہوا کہنے لگا
"اگر تم اپنے ایموشنز اور فیلنگز یونیورسٹی کے ٹائم پر فرحین کے لیے رکھتے تو اب تک میں اور نہال چاچا بن چکے ہوتے"
نوفل کی بات پر جہاں نمیر کے تاثرات سنجیدہ ہوئے وہی نوفل کو بھی اپنے غلط وقت پر بولے گئے الفاظ کا احساس ہوا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا
"نوفل کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اس رات جو کچھ ہم دونوں نے فرحین کے ساتھ کیا"
نمیر نوفل کو بولنے لگا تبھی نوفل نے اس کی بات کاٹی
"میں نے تمہیں منع کیا تھا ناں نمیر کے اس رات کا ذکر ہمارے بیچ بھی اب کبھی نہیں ہونا چاہیے پلیز لیو دس ٹاپک"
نوفل نے سختی سے اس سے کہا
"کیا چل رہا ہے بھئی۔۔۔ حالات کیسے ہیں اب"
نہال کمرے میں آکر نوفل کو دیکھ کر نمیر کے متعلق پوچھنے لگا
"چند منٹ پہلے موسم ابر آلود تھا مگر اب مطلع ایک دم صاف ہے"
نوفل نے نہال کو آنکھ مارتے ہوئے کہا نہال اور نوفل ہنسنے لگے۔۔۔جس پر نمیر چیئر سے اٹھ کر نوفل کو مُکا جڑتا ہوا خود بھی ہنسا
"انسان کے بچے بن جاؤ تم،، عنایہ کی دوست پر تمہاری ساری مہربانیوں سے واقف ہوں میں" نمیر نوفل کو جتاتے ہوئے بولا نہال مسکراتا ہوا بیڈ پر نوفل کے برابر میں بیٹھ گیا
"وہ معاملہ تو کب کا سنجیدگی اختیار کر گیا ہے یار،،، یہ تو شریف آدمی ہے اس نے منگنی سے کام چلا لیا میں تو ڈائریکٹ شادی کا سوچ رہا ہوں منگنی کی خواریوں کو کون برداشت کرے۔۔۔ اس کی شادی سے فارغ ہو جاؤ تو میرے بیاہ کی خبر سننے کے لیے تیار رہنا"
نوفل مزے سے بولتا ہوا دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا جبکہ نمیر مسکراتا ہوا ڈریسنگ روم میں جانے لگا
"کہاں جا رہے ہو تم"
نہال نمیر سے پوچھنے لگا
"چینج کر کے آتا ہوں،، پھر کہیں باہر چلتے ہیں تم دونوں کا یوم آزادی منانے اس کے بعد تو تم دونوں نے اپنی اپنی بیویوں کے پلوؤں میں چھپے ہوئے نظر آؤ گے"
نمیر مسکرا کر بولتا ہوا ڈریسنگ روم میں چلا گیا نوفل اور نہال نمیر کی بات پر مسکرا دیئے
****
"کیا وہ چڑیل اب فلموں میں آئے گی۔۔۔ کون ہے وہ بے وقوف ڈائریکٹر جو اس نک چری کو اپنی فلم میں لے رہا ہے"
فری پیریڈ میں وہ دونوں کینٹین میں بیٹھی تھی تب عنایہ شانزے کو بتانے لگی
"آپی کے اس عمل سے ماموں جان بہت دکھی ہیں شانزے مجھے بس ان کی بہت فکر رہتی ہے اور مامی وہ تو مجھے ایسے گھور کر دیکھ رہی ہیں جیسے یہ سب میرا کیا دھرا ہے"
عنایہ افسردگی سے بولی
"اپنی مامی کی تو رہنے ہی دو ان کے کچن کا کوئی برتن ہوا سے بھی گر کے ٹوٹا تو وہ تمہیں ہی کھا جانے والی نظروں سے دیکھی گی۔۔ یہ بتاؤ تمہاری شادی کی تیاریاں کیسی چل رہی ہیں"
شانزے نے کولڈرنگ کا سپ لیتے ہوئے ٹاپک چینج کیا جس سے عنایہ کے افسردہ چہرہ پر مسکراہٹ آگئی
"پرسوں ثروت آنٹی اور نہال کے ساتھ جا کر اپنا ویڈنگ ڈریس لے کر آئی ہو پکز بھیجی تو تھی تمہیں"
عنایہ فرائس سے انصاف کرتی ہوئی بولی تو شانزے مسکرائی
"بہت پیارا ڈریس تھا ماشاللہ دیکھا تھا میں نے۔۔۔ یہ بتاؤ ہمارے ایگزامز بھی تمہاری شادی کے بعد ہونے والے ہیں اس کی کیسی تیاری ہے"
شانزے اب آئیبرو اچکا کر اس سے پوچھنے لگی
"سچی بتاؤ تو اب کی بار کچھ بھی تیاری نہیں ہے بہت ڈر لگ رہا ہے"
عنایہ کے فیس ایکسپریشن دیکھ کر شانزے کو ہنسی آگئی
"ڈرنے کی کیا ضرورت ہے اس میں،، اب تو تمہارے ٹیوٹر آل ٹائم تمہارے پاس ہوں گے"
شانزے شرارتی انداز اختیار کرتی ہوئی بولی
"جبھی تو اور بھی زیادہ ڈر لگ رہا ہے"
عنایہ کے بولنے پر وہ دونوں مسکرا دی
Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 11
آج نہال اور عنایہ کی مہندی کا کمبائن فنکشن تھا ان دونوں کی رسم کرنے کے لیے ایک ساتھ اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا۔۔۔ نہال اور عنایہ سمیت سب اپنی اپنی جگہ خوش تھے فرمان کی بھی طبیعت کافی حد تک سنبھل گئی تھی۔۔۔۔ منال نے اس کے بعد گھر والوں سے کوئی کونٹیکٹ نہیں کیا وہ اپنے آنے والی فلم کی وجہ سے بہت بزی تھی اور ٹینا کے گھر پر ہی رہائش پذیر تھی جبکہ عشرت چہرے پر نقلی مسکراہٹ سجائے خوش ہونے کی بھرپور اداکاری کرتی ہوئی نظر آرہی تھی اور ہر رشتے دار اور دوست احباب جو منال کے بارے میں پوچھ رہے تھے خوبصورتی سے انہیں دوسری باتوں میں لگا کر انکی بات ٹال رہی تھی۔۔۔ دوسری طرف نمیر نوفل کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا وہ پچھلے دو دن کی بانسبت آج کافی خوش لگ رہا تھا
"کیا ہوا آئی نہیں ابھی تک"
نوفل کی نگاہیں ہال میں شانزے کو ڈھونڈتی ہوئی نظر آرہی تھی تبھی لہجے میں شوخی سمائے نمیر نوفل سے پوچھنے لگا
"یار آنا تو چاہیے کافی ٹائم ہوگیا ہے"
نوفل نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا اور جنید کو کال ملائی اس نے جنید کو شانزے کو گھر سے پک کرنے کے لیے کہا تھا۔۔۔ جنید ایک قابل اعتبار لڑکا تھا اور نوفل نے اس کو جاب دلائی تھی پارٹ ٹائم میں وہ اوبر چلاتا تھا
"قسم سے یار تم دونوں دنیا کے فارغ ترین انسان لگ رہے ہو ایک ان موصوف کی حالت دیکھو بہانے بہانے سے گھونگھٹ میں جھانکنے کی کوشش میں لگے ہیں اور دوسری طرف تم جس سے انتظار کی گھڑیاں نہیں گزری رہی ہیں"
نمیر نے نہال اور نوفل کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے کہا
"زیادہ ہم دونوں کا مذاق اڑانے کی ضرورت نہیں ہے آج میں دل سے دعا کرتا ہوں اسی محفل میں کوئی ایک لڑکی ایسی ہو جس سے تمہیں اصلی والی محبت ہو جائے اور جلد سے جلد تمہاری اس سے شادی ہو جائے"
نوفل نے ہاتھ اوپر اٹھا کر دعا کی جس پر نمیر زور سے ہنس دیا
"یہ اصلی محبت کیا ہوتی ہے"
نمیر ہنستے ہوئے نوفل سے پوچھنے لگا
"وہی جو تمہیں آج تک نہیں ہوئی۔۔۔ جو منال کے ساتھ تم نے وقت گزارا۔۔۔ اسے وقتی لگاؤ سمجھ لو مطلب وقتی آٹرکشن۔ ۔۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ویلیو کم کرتے کرتے ختم کر دیتی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تم نے مجنوں بننے کا ڈرامہ زیادہ دن تک نہیں کیا مگر اب کی بار جو تمہیں ہوگی نا گرانٹی دیتا ہوں اصلی والی محبت ہوگی نوفل نمیر کو دیکھ کر وثوق سے بولا اس کی بات سن کر نمیر دوبارہ ہنس دیا
"یار مجنوں بننے والی کیا بات منال مجھے پسند تھی مگر ہم دونوں کی سوچیں ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتی تھی اس لئے آج وہ اپنے راستے ہے اور میں اپنے راستے مگر محبت والی بات رہنے دو۔۔۔ یہ محبت والے کام صرف تم دونوں پر ہی سوٹ کرتے ہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں،،، وہ دیکھ آ گئی"
نمیر نے اپنی بات مکمل کرکے آخر میں نوفل کی توجہ اینٹریس پر دلوائی اور وہاں سے چلا گیا
"اُف ظالم حسینہ، یہ کسی دن سچ میں میری جان لے لے گی"
نوفل نے دور سے شانزے کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ڈارک پرپل کلر کی کلیوں کی فراک جس پر سلور نگینوں کا لائٹ سا کام ہوا بالوں کو پراندے میں قید کئے۔۔۔ کانوں میں بڑے بڑے آویزیں پہنے شانزے چلتی ہوئی اسی کے پاس آ رہی تھی نوفل کے لب مسکرائے
"یہ ڈرائیور تم نے بھیجا تھا"
شانزے نوفل سے پوچھنے لگی وہ اسے سہولتیں مہیا کر کے خوب اس کی عادت بگاڑ رہا تھا اب تو اس کا ٹیلر کپڑے سینے کے بعد جب اس سے پیسے نہیں لیتا تو وہ اچھی خاصی چڑ جاتی۔۔۔ لیکن رات کے وقت وہ کسی ٹیکسی میں اکیلی کیسے آتی اس وجہ سے نوفل کی بھیجی گئی گاڑی میں ارام سے آگئی
"کیوں آنے میں کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی یا پیسے تو نہیں مانگے اس نے تم سے"
نوفل شانزے کو دیکھ کر فکرمندی سے پوچھنے لگا
"پولیس والوں کے کرتوتوں سے ہر کوئی واقف ہوتا ہے،، پیسے مانگ کر اسے اپنی شامت تھوڑی لانی تھی تم سے" شانزے گھورتے ہوئے اس کو دیکھ کر کہا شانزے کی بات سن کر وہ اپنے ہونٹوں پر پر آنے والی مسکراٹ چھپا گیا
"ایکسکیوزمی میں اتنا برا بھی افسر نہیں ہوں کافی اچھی امیج ہے لوگوں میں میری" وہ اب شانزے کو جتانے والے انداز میں زرا سیریس ہوکر بولا
"تمہاری بات نے خود ثابت کردیا تم اتنے برے نہیں مگر تھوڑے بہت برے ہو"
شانزے نے فوراً اس کی بات کو پکڑتے ہوئے کہا جس پر نوفل مسکرایا
"تھوڑا بہت تو چلتا ہے اس ادارے میں زیادہ ایمان داری بھی گلے پڑ جاتی ہے"
نوفل دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا
"بہت اچھا ہوا جو تم نے اپنے بارے میں خود ہی بتا دیا بلاوجہ میں میرے دل میں تمہارا اچھا امیج بن رہا تھا" شانزے بولتے ہوئے وہاں سے جانے لگی تبھی نوفل نے اسکا نازک سا ہاتھ پکڑا
"میں چاہتا ہوں تم میرے بارے میں اچھا ہی سوچو کیوکہ میں تمہارے لیے کبھی بھی برا ثابت نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی تمہارے ساتھ کچھ برا کر سکتا ہوں"
نوفل چہرے پر سنجیدگی لائے شانزے کو کہنے لگا ایک پل کے لئے شانزے کا دل چاہا اس کی بات پر ایمان لے آئے
"تمہیں میرے اور امی کے لئے اتنا اچھا بھی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ سبزی والا ہم سے سبزی کے پیسے نہیں لیتا،، میڈیکل اسٹور سے امی کی دوائیں لینے جاؤں تو میڈیکل اسٹور والا دواؤں کے پیسے نہیں لیتا۔۔۔ کہیں جانا ہو تو رکشے والا پہلے سے آن کھڑا ہوتا ہے دروازے پر،،، کل دو آدمی گھر میں آکر یو۔پی۔ایس لگا گئے۔۔۔ اس طرح سے مت کیا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا"
شانزے اس سے اپنا ہاتھ چھڑا کر ناراض ہوتی ہوئی بولی
"مگر مجھے تو اچھا لگتا ہے،، سمپل سی بات ہے میں چاہتا ہوں تمہیں یہ آنٹی کو کسی چیز کا مسئلہ یا خواری نہ ہو اس لیے سب کو ڈیوٹی پر لگایا ہوا ہے۔۔۔ اب اس طرح گھور کر دیکھوں گی تو یہی کھڑے کھڑے فوت ہو جاؤں گا میں اور ایک پولیس والے کو مارنے کا الزام تم پر آئے گا"
وہ سیریس بات کو مذاق کا رنگ دیتے ہوئے بولا،، شانزے ابھی بھی اس کی بات پر ہنسے بغیر اسکو گھور کر دیکھ رہی تھی
"یار میں سوچ رہا تھا،،، تمہیں ہم دونوں کا ملنا کچھ فلمی فلمی سا نہیں لگتا یاد کرو ہماری پہلی ملاقات۔۔۔۔ اور پھر یوں اچانک نہال کی مگنی میں دوبارہ ملنا۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے اوپر والا چاہتا ہے کہ ہم دونوں ملیں اور بار بار ملیں"
نوفل اب بھی شانزے کو دیکھ کر شرارتی انداز میں بولا
"تمہارے ڈائیلاگ دیکھ کر لگتا ہے کہ تم فلمیں بہت زیادہ دیکھتے ہو"
شانزے نے نوفل کو دیکھ کر اس کے بارے میں اپنی تازہ تازہ رائے دی
"ہاں میں رومینٹک موویز بہت شوق سے دیکھتا ہوں مگر تمہیں دیکھ کے لگتا ہے کہ تم صرف مار دھاڑ والی فلمیں دیکھتی ہو"
وہ اب بھی ڈھیٹ پن سے مسکراتا ہوا شانزے کو چھیڑنے کے غرض سے بولا
"میں صرف مار دھاڑ والی فلمیں دیکھتی ہی نہیں اگر سامنے والا چھچھور پن پر اتر آئے تو مار دھاڑ شروع بھی کر دیتی ہوں"
شانزے جتنی سنجیدگی سے بولی نوفل اس کے خیالات جان کر ہنس پڑا
"پھر تو ہماری جوڑی سپر ہٹ رہے گی ایک پولیس والے کی بیوی کو ایسا ہی ہونا چاہیے"
نوفل کے مسکرا کر بولنے پر شانزے اس کو گھورتی ہوئی وہاں سے جانے لگی کیوکہ شانزے کو لگا وہ جتنی دیر وہاں کھڑی رہے گی وہ اتنی ہی دیر تک فضول کی ہانکتہ رہے گا
"سنو ظالم حسینہ۔۔۔ واپسی پر میں تمہیں خود گھر ڈراپ کر دوں گا"
شانزے کو اسٹیج کی طرف جاتا دیکھ کر نوفل نے اس سے کہا
"اس کی ضرورت نہیں ہے میں نے یہاں آنے سے پہلے تمہارے چمچے کو، تم نے جسکی مجھے بہن بنا کر کالج لینے اور چھوڑنے کی ڈیوٹی پر لگایا ہے۔۔۔ دو گھنٹے بعد اسے یہاں آنے کا بول چکی ہوں واپسی پر وہ مجھے گھر چھوڑ دے گا"
شانزے نوفل کو بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
****
"نمیر بیٹا یہاں آنا" نمیر اپنے دوستوں کے پاس کھڑا ان سے باتیں کر رہا تھا عشرت نے اسے پکارا
"کہیے خالہ جانی کوئی کام تھا"
نمیر عشرت کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگا
"کیا مجھ سے بھی ناراض ہو تم" عشرت نمیر کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں آپ سے ناراض ہو" نمیر الٹا عشرت سے سوال پوچھنے لگا
"وہ مجھے لگا کہ منال کی وجہ سے تم مجھ سے بھی"
عشرت بولنے لگی تبھی نمیر بولا
"خالہ جانی نہ ہی میں آپ سے ناراض ہو نہ ہی منال سے۔۔۔ اس کی اور میری سوچے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہم دونوں کے ترجیحات جدا ہیں مگر ساتھ ہی اس سے میرا کزن کبھی رشتہ ہے جو ابھی بھی برقرار ہے آپ ٹینشن مت لے اس بات کی"
نمیر عشرت کو تسلی دیتا ہوں وہاں سے چلا گیا تو عشرت کو تھوڑا سا اطمینان ہوا مگر اسے منال پر اور بھی غصہ آیا نمیر ہر لحاظ سے اچھا تھا عشرت نے ہمیشہ اسے اپنے داماد کی نظر سے دیکھا تھا مگر منال کی وجہ سے اب وہ اس بات کا صرف ملال کر سکتی تھی
****
"کہاں جا رہی ہو میں نے کہا تھا نہ گھر میں ڈراپ کر دوں گا"
نوفل شانزے کو جاتا ہوا دیکھ کر اس کے پاس آ کر بولا
"میں نے بھی تمہیں بتایا تھا نہ کہ تمہارا چمچہ مجھے لینے آئے گا"
شانزے رک نوفل کی طرف دیکھتی ہوئی بولی
"وہ نہیں آئے گا میں نے اسے کال کر کے منع کردیا ہے اور آنٹی کو فون کرکے بتا دیا ہے کہ آپ شانزے کی طرف سے بے فکر ہو جائے اسے گھر تک میں چھوڑ دوں گا"
نوفل اس کو کہتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھا مگر شانزے کو وہی کھڑا دیکھ کر اس کی طرف پلٹا
"اگر تم چاہتی ہو میں تمہیں گاڑی تک گود میں اٹھا کر لے کر جاو تو چالیس کلو کا وزن اٹھانا میرے لیے کوئی مسئلہ کی بات نہیں"
نوفل شانزے کو دیکھ کر شرارت سے بولا
"اگر تم نے اپنی یہ بے ہودہ گفتگو بند نہیں کی تو میں تمہارے ساتھ ہرگز گاڑی میں نہیں بیٹھو گی"
شانزے اس سے سنجیدگی سے مخاطب ہوئی تو نوفل نے اپنی شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے اپنے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور دوسرے ہاتھ سے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارا کیا
شانزے اس پر احسان کرنے والے انداز میں گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔ نوفل گاڑی میں بیٹھ کر منہ سے کچھ نہیں بولا مگر اسکو دیکھ کر مسکرانے لگا
"یہ تم مجھے دیکھ کر اسطرح مسکراتے کیوں ہو"
شانزے اس کو دیکھ کر سیریس انداز میں پوچھنے لگی
"پہلے وعدہ کرو میرے سچ بتانے پر تم گاڑی سے نہیں اتروں گی"
نوفل اس کو دیکھ کر معنی خیزی سے بولا
"خبردار جو تم نے ایک بھی لفظ منہ سے نکالا چپ کر کے گاڑی چلاؤ"
شانزے کو پوری توقع تھی وہ ضرور کوئی نہ کوئی بےہودہ بات ہی کرتا اسلیے اس نے اس بات پر لعنت بھیجی کہ وہ اس کو دیکھ کر کیوں مسکراتا ہے اور اسے گاڑی چلانے کا کہا۔۔۔ نوفل نے بھی فرمابرداری سے گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔۔۔ ڈرائیونگ کے دوران بھی وہ اس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا شانزے نے جب اس کی طرف دیکھا تو نوفل کے ہونٹ اور زیادہ پھیل گئے
"گاڑی روکو مجھے تمہارے ساتھ گھر نہیں جانا"
شانزے اس کو دیکھ کر غصے میں بولی
"مگر میں نے تو اب کچھ نہیں بولا"
نوفل اس کو دیکھ کر معصومیت سے بولا
"تم مجھے اس طرح دیکھ کر مسکراو گے تو میں تمہارے ساتھ ہرگز گھر نہیں جاو گی"
شانزے اس کو دوبارہ وارن کرتی ہوئی بولی
"میں دیکھوں نہیں،، کچھ بولو نہیں،،، دیکھ کر مسکراؤ بھی نہیں،،، اور کس کرنے کا تو سوچو بھی نہیں۔۔۔ سچ میں نوفل تیرا پالا تو واقعی ظالم حسینہ سے پڑگیا"
نوفل ڈرائیونگ کرتا ہوا باآواز اپنے آپ سے مخاطب ہوا جس پر شانزے اس کو گھور کر دیکھنے لگی مگر وہ اب خاموشی سے بنا کچھ بولے یا اس کو دیکھے ڈرائیونگ کر رہا تھا
****
"کیسے بھائی ہو تم یار،، آج میری خوشی والے دن ایک اچھے بھائی کا فرض تو ادا کرنا چاہیے تھا تمہیں"
تھوڑی دیر پہلے ہی تقریب کے اختتام پر وہ لوگ گھر آئے تھے نمیر ڈریس چینج کرکے بیڈ پر لیٹا ہی تھا کہ نہال اس کے کمرے میں آکر بولا
"زیادہ ڈائیلاگ مارنے کی ضرورت نہیں ہے جو بات ہے سیدھی طرح بولو"
نمیر نہال کو دیکھ کر دوبارہ بیٹھتا ہوا بولا
"یار غضب خدا کا ماما نے تو آج ظالم سماج بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بھرے مجموعے میں ایک تو عنایہ سے بات کرنا دور دیکھنا بھی مشکل تھا اوپر سے ماما نے اسکا گھونگھٹ اور نکال دیا کہ روپ آئے گا" نہال کی دکھ بھری داستان سن کر نمیر کو ہنسی آئی
"تو اس میں میرا کیا کردار تھا بھلا،، اسٹیج پر آکر عنایہ کا گھونگٹ ہٹا دیتا اور اس سے کہتا میرے بھائی کو اپنا دیدار تو بخش دو بچارہ بےصبرا ہوا جا رہا ہے"
نمیر دوبارہ لیٹتا ہوا بولا
"یہ نہ کرتے مگر ایک آدھ ملاقات تو چوری چھپے اس سے کرا ہی سکتے تھے"
نہال بھی بیڈ پر بیٹھتا ہوا اس سے شکوہ کرنے لگا
"میرے سامنے زیادہ تڑپنے کی ضرورت نہیں ہے صرف دو دن بعد تمہاری بارات ہے۔۔۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ عنایہ سے تم نے اس کی تصویر نہ مانگی ہو اور اس نے تابعداری سے تمہیں سینڈ نہ کی ہو۔۔۔ اس لئے میرے پاس آکر ڈرامے کرنے کی بجائے اپنے بستر پر جا کر سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو"
نمیر اپنے منہ پر تکیہ رکھتا ہوا بولا مطلب صاف تھا اب وہ سونا چاہتا ہے
"تم سے تو مجھے یہی امید تھی۔۔۔ دو دن ہے برات میں جب یہ گزریں گے تب گزریں گے مگر فی الحال میں ابھی اور اسی وقت عنایہ سے ملنے جا رہا ہوں"
نہال بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس کی بات سن کر نمیر نے اپنے منہ سے تکیہ ہٹایا
"دماغ تو خراب نہیں ہو گیا تمہارا اس وقت رات کے دو بج رہے ہیں تم خالہ جانی کی طرف جاؤ گے"
نمیر سیریس ہو کر نہال کو گھورنے لگا
"اب تمہیں ظالم سماج بننے کی ضرورت نہیں ہے بس تمہیں اس لئے بتانے آیا تھا ویسے تو ماما سو رہی ہیں اگر جاگ جائے اور میرا پوچھیں تو پلیز سنبھال لینا" نہال بولتا ہوا اس کے روم سے نکل گیا نمیر دوبارہ سر پر تکیہ رکھ کے لیٹ گیا
****
نہال اس وقت کار ڈرائیو کر رہا تھا عنایہ کو وہ میسج پر اپنے آنے کا انفارم کرچکا تھا تاکہ وہ سوئے نہیں۔۔۔ وہ نیند کے معاملے میں بہت پکی تھی اگر سو جائے تو اسے جگانا مشکل ہوتا تھا یہ بات خود اسے عنایہ نے اسے بتائی تھی عنایہ کی باتیں سوچ کر وہ مسکرانے لگا۔۔۔ رات ہونے کی وجہ سے روڈ سنسان تھا خالی روڈ کو دیکھ کر نہال نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی
"شادی مبارک"
نہال کے کانوں میں نسوانی آواز گونجی۔۔۔ نہال نے ایک دم پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر فرحین بیٹھی اس کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
صرف ایک لمحے کے لیے اس کا دھیان بٹا تھا اور وہ ایک لمحہ اس کی زندگی کے لیے بھیانک ثابت ہوا گاڑی کی اسپیڈ تیز ہونے کی وجہ سے وہ فوری طور پر گاڑی کو کنٹرول نہیں کر سکا اور گاڑی سامنے پول سے بری طرح ٹکرائی
Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 12
نمیر کافی گہری نیند میں سو رہا تھا تب اسے نیند میں احساس ہوا کہ اس کا موبائل بج رہا ہے اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر اپنا موبائل اٹھایا ایک نظر الارم پیس میں دیکھا ساڑھے تین بج رہے تھے۔۔۔ اپنے موبائل پر نہال کی کال دیکھ کر اسے حیرت ہوئی
"ہیلو"
نمیر نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں بولا
"اسلام علیکم میں پوچھ سکتا ہوں نہال بیگ سے آپ کا کیا ریلیشن ہے"
نمیر کے کان میں اجنبی آواز ٹکرائی تو نمیر کا دماغ بیدار ہوا
"آپ کون بات کر رہے ہیں نہال کہاں ہیں اس وقت"
نمیر بولنے کے ساتھ اٹھ کر بیٹھا اور لیمپ ان کیا
"دیکھئے نہال کے موبائل میں لاسٹ کال اسی نمبر پر ملی تھی اس لئے میں نے یہ نمبر ڈائل کیا ہے تاکہ میں اپکو انفارم کرسکو آپ پلیز ان کے گھر والوں کو انفارم کر دیں۔۔۔ نہال کا کار ایکسیڈنٹ ہونے کے باعث وہ اس وقت ہاسپیٹل میں کافی کریٹیکل کنڈیشن میں ہے"
نمیر پر یہ خبر بجلی کی طرح گری وہ کال ڈسکنیکٹ کرتا ہوا باہر نکلا
****
"عنایہ بیٹا دروازہ کھولیے"
دروازے پر مسلسل ہونے والی دستک سے بھی اس کی آنکھیں نہیں کھل رہی تھی ایک تو وہ سوتی بھی بہت گہری نیند تھی۔۔۔ اوپر سے کل رات کو اس نے بہت دیر تک نہال کا انتظار کیا۔۔۔ نہال کی انوکھی فرمائش پر اس نے کل رات مہندی پر پہنا ہوا چٹاپٹی کا غرارہ ابھی تک نہیں بدلا تھا نہال نے میسج پر عنایہ کو اپنے انے کا بتایا،،، عنایہ اس کا انتظار کرتے کرتے سوگئی
مسلسل دروازے پر ہونے والی دستک نے آخرکار اس کو اٹھنے پر مجبور کر ہی دیا وہ دوپٹہ سر پر ٹکاتی ہوئی بیڈروم کا دروازہ کھولنے لگی
"خیریت تو ہے بوا اتنی صبح صبح آپ نے جگا دیا صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے اور آج چھٹی کا دن تھا عموماً چھٹی کے دن صبح تھوڑا لیٹ اٹھا جاتا تھا مگر بوا کو جلدی اٹھتا دیکھ کر عنایہ کو حیرت ہوئی اس لئے پوچھ بیٹھی
"خیریت ہی تو نہیں ہے بیٹا جی اب آپ کو کیا بتاؤں میں"
بوا عنایہ کو مہندی کے ڈریس میں اس کے مہندی بھرے ہاتھ دے کر آبیدہ ہونے لگی
"کیوں کیا ہوگیا۔۔۔۔ ماموں جان کہاں پر ہیں"
عنایہ کو سب سے پہلا خیال فرمان کا آیا تبھی وہ اپنے کمرے سے نکل کر فرمان کے کمرے میں جانے لگی مگر بوا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا
"فرمان صاحب اور بیگم صاحبہ آدھے گھنٹے پہلے ہسپتال گئے ہیں"
بوا عنایہ کے ہاتھ دیکھتی ہوئی بولی جن پر مہندی کا بڑا گہرا رنگ آیا تھا
"بوا پلیز پہلیاں مت بجھائے خدا کے لیے مجھے بتائیے کیا ہوا ماموں جان کو"
عنایہ گھبراتی ہوئی بوا سے پوچھنے لگی
"فرمان صاحب ٹھیک ہیں بیٹا۔۔۔ کل رات نہال بابا کی کار کا ایکسیڈینٹ ہوگیا انکی حالت کافی تشویش ناک ہے سب اس وقت ہسپتال میں موجود ہیں"
بوا اپنے انسو صاف کرتی ہوئی بولی عنایہ نہال کے ایکسیڈینٹ کی خبر سن کر دو قدم پیچھے ہٹی وہ بے یقینی سے بوا کو دیکھنے لگی اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں یکدم مفلوج ہوگئی صرف اس کے دماغ میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی نہال کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے اس سے پہلے وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرتی بوا نے اس پکڑ کر کرسی پر بٹھایا اب وہ عنایہ کے لیے پانی لینے گئی۔۔۔۔ عنایہ اب خود بھی اپنے ہاتھوں میں رچی مہندی کو خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی
****
نمیر رات میں ہی ڈاکٹر کے بتائے ہوئے اسپتال میں نہال کے پاس پہنچ گیا جہاں نہال کو ٹریٹمینٹ دیا جا رہا تھا۔۔۔ نہال کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال پہنچانے والا کوئی ڈاکٹر تھا جو رات میں اسی جگہ سے گزر رہا تھا جہاں نہال کی گاڑی تباہ کن حالت میں کھڑی تھی۔۔۔ ڈیڑھ سے دو گھنٹے بعد ڈاکٹر نے نمیر کو اپنے روم میں بلا کر یہ بری خبر سنائی کہ دماغ پر خون کے کلوٹز جمنے کی وجہ سے نہال کومے میں جا چکا ہے،،، واپس ہوش میں آنے کی مدت کیا ہے اس کے بارے میں واضح کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ ہوسکتا ہے دو دن دو ماہ دو سال یا پھر وہ ساری زندگی کومے کی حالت میں رہے۔۔۔۔ ڈاکٹر نے ساتھ میں اس اندیشے سے بھی نمیر کو جانکاری دی بہت زیادہ ممکن تھا نہال کے ہوش میں آنے کے بعد اس کی میموری جا چکی ہو یہ ساری خبریں نمیر کو نڈھال کئے دے رہی تھیں۔۔۔ اس میں نہال کے لیے اچھی خبر کوئی نہیں تھی سوائے اس کے کہ اس کی جان بچ گئی ہے مگر بیڈ پر لیٹے نہال کو زندہ لاش بنے دیکھ کر نمیر کو رونا آنے لگا
صبح سات بجے کے قریب نمیر نے موبائل سے کال کرکے نوفل کو نہال کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ثروت کو اپنے ساتھ اسپتال لیتا آئے اس کے بعد نمیر نے فرمان کو بھی کال کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور خود آنکھیں بند کیے تھکے ہوئے انداز میں کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
جب ثروت نے نہال کو پٹیوں میں جگڑے زخمی حالت میں دیکھا تو نوفل اور نمیر دونوں کا ثروت کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھوڑی دیر بعد فرمان اور عشرت بھی اسپتال پہنچ گئے،،،، عشرت خود بھی نہال کی حالت کو دیکھ کر رو پڑی۔۔۔ نہال کو دیکھ کر دکھ فرمان کو بھی ہوا مگر اسے رہ رہ کر اپنی بھانجی عنایا کا خیال آ رہا تھا نہال کو ابھی بھی ائی سی یو میں رکھا گیا تھا۔۔۔۔ سب اس کی حالت دیکھ کر غمزدہ تھے
نوفل نمیر کے کہنے پر ثروت کو بہلاتا ہوا اسپتال سے تھوڑی دیر کے لیے گھر لے گیا جس پر ثروت راضی نہیں تھی تھوڑی دیر بعد فرمان اور عشرت بھی اپنے گھر کے لیے نکل گئے پندرہ سے بیس منٹ گزرے تھے نمیر کے موبائل پر عنایہ کی کال آئی وہ ہسپتال میں موجود تھی
"تم یہاں کیسے پہنچی عنایہ"
نمیر نے عنایہ کے پاس پہنچ کر اس سے سوال کیا
"ڈرائیور کے ساتھ آئی ہوں اسے صرف ہاسپٹل کا علم تھا آپ مجھے نہال کے پاس لے چلیں"
عنایہ نے اس وقت بہت مشکلوں سے اپنی آنسوؤں کو ضبط کیا ہوا تھا۔۔۔
ایک پل اسے دیکھ کر نمیر کو اس پر ترس آیا۔۔۔۔ یہ وقت ان سب کے لئے کسی آزمائش سے کم نہیں کا مگر ان میں سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ آزمائش کا وقت ان سب کے لیے اب شروع ہوچکا ہے اس سے بڑی آزمائش ایک اور ان کی تقدیر میں لکھی جا چکی تھی
****
"عنایہ سنبھلو خود کو"
نہال کو بیڈ کر بے ہوشی کی حالت میں لیٹا دیکھ کر عنایہ کا ضبط جواب دے گیا وہ نہال کی حالت دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگی۔۔۔۔ کل اس کی شادی ہونے والی تھی کل سے متعلق ہر عام لڑکی کی طرح ڈھیر سارے خواب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھ ڈالے تھے مگر آج اس بھیانک حقیقت کو دیکھ کر اس کا دل بری طرح تڑپ گیا تھا
"کیسے سنبھالو خود کو۔۔۔ آپ کو معلوم نہیں ہے کتنی بزدل اور کمزور ہوں میں۔۔۔ ایسا کیوں ہوگیا نمیر بھائی پلیز آپ نہال سے بولیے ناں مجھے ڈر لگ رہا ہے،،، خوف آ رہا ہے ان کو اسطرح دیکھ کر"
عنایہ کے رونے میں شدت آئی تو نمیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینے لگا۔۔۔ نمیر اور عنایہ کاریڈور میں موجود تھے تب نمیر کو دور سے نوفل آتا دکھائی دیا
"تمہاری ضد پر میں آنٹی کو چھوڑ کر آگیا ہوں مگر ان کا اکیلا رہنا مناسب نہیں ہے تم ایسا کرو تھوڑی دیر کے لئے گھر کا چکر لگالو اور ریسٹ بھی کرلو۔۔۔ یہاں کی فکر مت کرو میں یہاں پر موجود ہوں شام تک"
نوفل سر کے اشارے سے عنایہ کو سلام کرکے نمیر سے مخاطب ہوا اور نمیر کے منع کرنے کے باوجود نوفل نے نمیر کو گھر بھیج دیا نمیر عنایہ کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد ثروت کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا تھا
"آپ اندر نہیں آئے گے"
نمیر نے فرمان کے گھر کے پاس کار روکی تو عنایہ نمیر سے پوچھنے لگی
"نہیں ماما اکیلی ہیں بس گھر جاؤگا تم اپنا خیال رکھنا" نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا
"آپ رات سے ہاسپٹل میں ہیں۔۔۔ یقیناً آپ نے کچھ بھی نہیں کھایا ہوگا آپ یہاں پر ناشتہ کرلے پھر ثروت آنٹی کے پاس چلے جائیے گا"
عنایہ نمیر کا احساس کرتی ہوئی بولی نمیر کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے
"اس وقت کچھ بھی کھانے کا دل نہیں کر رہا"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا عنایہ کار سے اترنے لگی تو نمیر دوبارہ بولا
"لیکن اگر تم میرے ساتھ ناشتہ کروگی تو پھر میں ناشتہ کرلوں گا"
نمیر کو لگا یقیناً عنایہ نے بھی ناشتہ نہیں کیا ہوگا وہ بھی اس کے احساس سے بولا عنایہ مسکرا تو نہیں سکی،، سر اقرار میں ہلا کر کار سے اتر گئی اس کے پیچھے نمیر بھی کار سے اتر کر گھر کے اندر داخل ہوا۔۔۔۔ نمیر کچن میں عنایہ پر نظر ڈال کر وہی ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ گیا
"بیٹا اگئے آپ دونوں اب نہال بابا کی طبیعت کیسی ہے"
بوا نے ناشتہ بناتی عنایہ کو دیکھ کر نمیر سے سوال کیا
"تسلی بس اس بات کی ہے کہ اس کی سانسیں چل رہی ہیں اور دل دھڑک رہا ہے آپ پلیز نہال کے لیے دعا کریں"
نمیر کے لہجے میں زمانوں کی تھکن موجود تھی
"اللہ بہت کارساز ہے وہ اپنا کرم کرے گا آپ پریشان مت ہو اور عنایہ بیٹا آپ بھی یہاں آ کر بیٹھو میں آپ دونوں کے لیے ناشتہ بناتی ہوں"
بوا عنایہ کو کہتی خود ان دونوں کے لئے ناشتہ بنانے لگی عنایہ نمیر کے سامنے چیئر پر بیٹھ گئی نمیر اسے دیکھنے لگا مگر وہ گہری سوچ میں گم تھی۔۔۔۔ اپنے ہاتھ پر دوسرے کسی ہاتھ کے لمس سے وہ سوچوں کی دنیا سے واپس آئی اس نے ٹیبل پر رکھے اپنے ہاتھ پر نمیر کا ہاتھ دیکھا اور پھر نمیر کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا
"میں اس وقت تمہارا درد سمجھ سکتا ہوں،،، یہ وقت ہم سب کے لیے بہت گڑا ہے نہال کو لے کر سب بہت دکھی ہیں مگر اس وقت عنایہ تمہیں تھوڑی ہمت سے کام لینا ہو گا پلیز تھوڑا سا خود کو اسٹونگ بناؤ"
نمیر عنایہ کا ہاتھ تھامے اس کا حوصلہ بڑھاتا ہوا کہنے لگا دوسرے ہاتھ سے وہ اپنے آنسو پونچھے لگی رونے کے باعث اس کی آنکھیں سوجھ چکی تھی
"جانتی ہو نہال نے تمہیں تمہارے بارے میں ایک بات کبھی نہیں بتائی ہوگی۔۔۔ معلوم ہے وہ بات کیا ہے"
نمیر عنایہ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ ہٹا کر اسے پوچھنے لگا عنایہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی
"تم مسکراتی ہوئی بہت پیاری لگتی ہو حسین لڑکی"
نمیر اسمائل دیتا ہوا عنایہ کو کہنے لگا نمیر کی بات سن کر وہ ہلکا سا مسکرائی مگر وہ نمیر کو یہ نہیں بول سکی یہ بات نہال نے کہی بار اسے بتائی تھی
"چلو اب ناشتہ کرنے میں میرا ساتھ دو"
بوا ناشتہ لے کر آئیں تو نمیر عنایہ سے بولا
وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے ابھی ناشتے کا دوران تھا کہ عشرت اپنے کمرے سے نکل کر آئی۔ ۔۔ اسے عنایہ پر ویسے ہی کم غصہ نہیں تھا۔ ۔۔۔۔ نمیر کے ساتھ اسے ٹیبل پر بیٹھے دیکھ کر عشرت کو آگ لگ گئی
"بے غیرت،، منحوس،، ڈائن اپنے ہونے والے شوہر کو کھا اب یہاں بیٹھی بےشرمو کی طرح کھانے کھا رہی ہے" عشرت وہی سے چلاتی ہوئی عنایہ کے پاس آئی۔۔۔ عشرت کی بات سن کر عنایہ کے منہ میں جاتا نوالہ پلیٹ میں گر گیا وہی نمیر نے ناگواری سے عشرت کو دیکھا
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 13
"خالہ جانی یہ کس زبان میں کس لہجے میں بات کر رہی ہیں آپ۔۔۔ بولنے سے پہلے انسان کو اپنی عمر رتبے اور رشتے کا لحاظ کرنا چاہیئے معاف کیجیے گا نہایت ہی چھوٹی اور دقیانوسی سوچ کی مالک ہیں آپ"
نمیر کرسی سے اٹھ کر عشرت کے سامنے آتا ہوا بولا
"کیا دقیانوسی اور چھوٹی سوچ والی بات کی ہے میں نے۔۔۔۔ یہ منحوس پیدا ہوتے ہی اپنے باپ کو کھا گئی چند سالوں بعد اپنی ماں کو نگل گئی اور اب ابھی اس نے تمہارے گھر میں قدم بھی نہیں جمائے اس سے پہلے ہی تمہارا بھائی موت کے دہانے پر کھڑا ہے صرف اور صرف اس سبز قدم اور بدنصیب لڑکی کی وجہ سے"
عشرت زہر خواندہ لہجے میں بولتی ہوئی عنایہ کو دیکھنے لگی جو آنکھوں میں آنسو لیے مسلسل سر جھکائے خاموشی سے کھڑی تھی
"افسوس ہو رہا ہے خالہ جانی مجھے آپ کی سوچ پر اور آپ کے پڑھے لکھے ہونے پر بھی"
نمیر ملامت بھری نظروں سے عشرت کو دیکھ کر کہتا ہوا ایک نظر عنایہ کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ کر وہاں سے جانے لگا
"خوبصورتی اور کم عمری دیکھ کر اس کے جال میں پھنس رہے ہو تم۔۔۔ ایسے ہی پہلے اس نے نہال کو اپنی اداؤں سے اور جلوے دکھا کر،،، اسے قابو کیا ابھی اسے بستر سے لگے چند گھنٹے ہوئے ہیں تو اب یہ بے شرم لڑکی تمہیں لبھانے کے چکروں میں پڑی ہے ذرا شرم نہیں ہے اس بے غیرت لڑکی کو"
عشرت کی بات پر عنایہ نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونا شروع کر دیا وہی نمیر نے چونک کر عشرت کو دیکھا
"خالہ جانی آپ کو اپنے بولے ہوئے لفظوں کا احساس ہے کہ آپ کیا بول رہی ہیں۔۔۔ اتنی سطحی اور گری ہوئی سوچ رکھتی ہیں آپ۔۔۔۔ شرم اس کو نہیں شرم آپ کو آنا چاہیی ایسا بولتے ہوئے ایسا سوچتے ہوئے"
نمیر عشرت کی بات سن کر تقریبا چیختا ہوا بولا
"مجھے معلوم ہے آپا،، تم،، نہال سب اس لڑکی کی سائیڈ لو گے اس کی معصوم شکل دیکھ کر۔۔۔ میری باتوں پر تو تمہیں یقین ہی نہیں آئے گا جب تک اس کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تم سب کو،،، مجھے نہیں رکھنا اس چڑیل کو اپنے گھر پر،، اس کو بھی اپنے ساتھ لے کے جاؤ"
عشرت غصے میں بولتی ہوئی عنایہ کے پاس آئی اس سے پہلے نمیر اس کا ہاتھ،، عشرت کے ہاتھ سے چھڑاتا عشرت نے عنایہ کو باہر کی طرف دھکا دیا
"عشرت"
فرمان کی زور دار آواز پر عشرت سمیت نمیر اور عنایہ بھی فرمان کو دیکھنے لگے۔۔۔۔ فرمان قدم بڑھاتا ھوا عنایہ کے پاس آیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے عشرت کو دیکھا
"خبردار جو تم نے اب ایک لفظ معصوم کے لئے بولا تو۔۔۔ ارے تم ہوتی کون ہو اس کو اس گھر سے نکالنے والی یہ میرا گھر ہے عنایہ اسی گھر میں رہے گی تمہیں اس سے تکلیف ہے تو تم جا سکتی ہوں یہاں سے۔۔۔ آج تک تم اس معصوم کو باتیں سناتی آئی ہوں اور میں خاموشی سے برداشت کرتا رہا ہوں مگر آج تم اس کے کردار کو لے کر اتنی گھٹیا باتیں کر رہی ہو،،، کس قماش کی عورت ہو تم،، شرم نہیں آتی تمہیں اگر آئندہ تم نے اس کے لئے بد نصیب، سبزقدم یا منہوس جیسے لفظوں کا استعمال کیا تو میں تمہیں تمہاری عمر کا لحاظ کئے بغیر اس گھر سے چلتا کرو گا"
فرمان بولتا ہوا خود بھی ہانپنے لگا
"چلو بیٹا اندر چلو" وہ عنایہ کو پیار سے بولا
"دور ہٹیے آپ بھی،، مامی ٹھیک کہہ رہی ہیں میں منہوس ہوں بدنصیب ہوں میں۔۔۔ جو میری زندگی میں آتا ہے اسے کھا جاتی ہوں میں۔۔۔ ڈائن ہو میں،،، اپنے ماں باپ کے ساتھ ساتھ نہال کو بھی کھا گئی۔۔۔ آپ بھی دور رہے مجھ سے،،، ورنہ میری نحوست سے آپ کو بھی کچھ ہوجائے گا۔۔۔ سب کو برباد کر دوں گی میں سب کو کھا جاؤں گی"
عنایہ روتی ہوئی ہذیانی انداز میں چیختی ہوئی کہنے لگی
"عنایہ کیا ہوگیا ہے تمہیں،، تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے"
نمیر جو کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا اور یہاں آکر سہی معنوں میں پچھتا رہا تھا آگے بڑھ کر عنایہ کو کندھوں سے پکڑ جھنجھوڑتا ہوا بولا مگر عنایہ کے الفاظ سے فرمان کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات کوئی نوٹ نہیں کر پایا فرمان کے نیچے گرنے پر سب اس کی طرف بھاگے
****
"دیکھا آپا آپ نے اس منحوس کی وجہ سے کیسی بربادی ہوئی ہمارے گھر میں"
فرمان کو نمیر فورا ہاسپیٹل لے کر آگیا ڈاکٹر نے اسے کوئی بڑا دھچکا لگنے کے سبب ہارٹ اٹیک بتایا اس وقت نمیر عنایہ نوفل سمیت ثروت اور عشرت بھی اسپتال میں موجود تھے جبکہ نہال تو پہلے سے ہی آئی سی یو میں تھا اب فرمان کو بھی اسی ہسپتال میں رکھا گیا تھا
"معاف کرنا عشرت مگر آج تمہارے گھر میں جو بھی کچھ ہوا اس حادثے میں عنایہ کی بدقسمتی سے زیادہ تمہاری چرب زبانی کا ہاتھ ہے۔۔۔ نہ تم عنایہ کے لیے ایسی فضول باتیں کرتی نہ فرمان کی یہ حالت ہوتی اور رہی میرے نہال کی بات تو اس کی قسمت میں یہ خاص لکھا تھا اس کے لیے میں عنایہ کو قصور وار نہیں سمجھتی"
نمیر نے ثروت کو وہاں ہونے والا واقعہ من و عمن سنا دیا تھا نمیر عشروت سے بات نہیں کر رہا تھا وہ اس سے سخت خفا تھا جبکہ ثروت کو بھی بہن کی سوچ اور باتوں سے تکلیف ہوئی
"اگر اتنی ہی بےقصور لگتی ہے آپ کو تو آپ اپنے گھر میں رکھ لیں اسے دل کُڑتا ہے میرا اس کو صبح شام اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر"
عشرت نحوست سے سر جھٹک کر بولنے لگی اس سے پہلے ثروت عشرت کی بات کا جواب دیتی نمیر ان دونوں کے پاس آگیا
"ماما خالو کو ہوش آگیا ہے اور وہ آپ کو بلا رہے ہیں"
نمیر عشرت کو اگنور کرکے ثروت سے مخاطب ہو کر کہنے لگا
"فرمان تم عشرت کی باتوں کو دل سے لگا کر بیٹھے ہو اس کی نیچر سے تو تم کتنے سالوں سے واقف ہوں پھر بھی اپنے دل کو روگ لگا لیا۔۔۔ جلدی سے طبیعت بہتر کرو اپنی"
ثروت فرمان کے پاس آئی تو اسے دیکھتی ہوئی بولنے لگی فرمان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آکسیجن کا ماکس منہ سے اتارا
"آپا میں نے آپ کو ہمیشہ عشرت کی نہیں اپنی بڑی بہن سمجھا ہے ہمیشہ آپ کی دل سے عزت کی ہے بالکل بڑی بہنوں کی طرح۔۔۔۔ کیا میں آج آپ سے کچھ کہوں تو اپنا چھوٹا بھائی سمجھ کر میری بات کو پورا کریں گی"
فرمان آہستہ آہستہ بول رہا تھا اس کی کنڈیشن ابھی بھی زیادہ بہتر نہیں تھی
"فرمان تم بھی مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہو اگر میرے بس میں ہوا تو میں ضرور تمہاری بات پوری کروں گی بس تم جلدی سے صحت یاب ہو جاؤ"
ثروت فرمان کو دیکھ کر فکرمندی سے بولی
"آپ ہی کہ بس میں ہے جبھی میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں اسے میری التجا سمجھ لیں۔۔۔ عنایہ کی شادی کل ہونی تھی مگر نہال کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جہاں یہ شادی رکی ہے وہی عنایہ کے لئے عشرت اور اسی کے جیسی سوچ رکھنے والے لوگ باتیں بنائیں گے۔۔ میری بھانجی بہت معصوم ہے بے قصور ہے۔۔۔ وہ قصور وار نہ ہو کر بھی سب کی زہریلی اور کڑوی باتیں برداشت کرے گی مگر آپا اب میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میری بھانجی کو منحوس سبزقدم یا بدنصیب جیسے لفظوں سے پکارے آپا میں چاہتا ہوں عنایہ کی شادی جس دن مقرر کی گئی تھی یعنیٰ کل۔۔۔ اس کی شادی کل ہی ہو۔۔۔ تاکہ سب لوگوں کہ منہ بند ہو جائے فرمان ٹھہر کر ثروت کو کہنے لگا
"فرمان یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے تمہیں معلوم تو ہے اس وقت نہال ہوش میں نہیں ہے پھر کل کیسے عنایہ اور نہال کی شادی ہوسکتی ہے دیکھو فرمان عنایہ مجھے بھی بہت عزیز ہے تم اس کے لیے پریشان مت اور نہ ہی لوگوں کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے،، آج کل تو لوگ تو مرے ہوئے انسان کو نہیں چھوڑتے۔۔۔ عنایہ کی فکر چھوڑ دو اور جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ"
ثروت نے فرمان کو تسلی دینی چاہیے
"آپا میں چاہتا ہوں عنایہ کی شادی کل نمیر سے کردی جائے"
فرمان کی بات سن کر ثروت چپ ہوگئی تھوڑی دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہوئی
"فرمان یہ کیا کہہ رہے ہو تم عنایہ تو میرے نہال کی دلہن ہے تم اللہ سے اچھے کی امید رکھو میرا نہال ٹھیک ہوجائے گا مجھے اس پاک ذات پر پورا یقین ہے۔۔۔ نمیر اور عنائیہ بھلا کیسے"
ثروت فرمان کی بات سن کر پریشان ہو گئی
"آپا نہال مجھے بھی عزیز ہے میں آپ کی دل آزاری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر ایک بیٹی کے باپ ہونے کی ناطے دل میں برے خدشات تو آتے رہتے ہیں اگر خدا نہ خواستہ نہال کو ہوش نہ آیا یا دس سال بعد ہوش آیا تو میری عنایہ رل جائے گی۔۔۔۔ اگر مجھے کچھ ہوجاتا ہے تو عشرت اسے بھی جینے نہیں دے گی آپا آپ مجھے معاف کر دیں اگر میری باتوں سے آپ کا دل دکھا ہو تو مگر میں ہاتھ جوڑ کر آپ سے درخواست کرتا ہوں عنایہ کو نمیر کے لئے اپنا لیں"
فرمان نے بولنے کے ساتھ واقع اپنے ہاتھ ثروت کے آگے جوڑ دئیے اس کے ہاتھ لرز رہے تھے اور آنکھوں سے پانی جاری تھا ثروت کو وہ عنایہ کا ماموں نہیں باپ لگا
"میرے سامنے یوں اپنے ہاتھ مت جوڑو فرمان،، جب تم نے مجھے اپنی بڑی بہن کہا ہے تو اب مجھے بھی بڑی بہن ہونے کا ثبوت دینا ہے تمہاری عنایہ کی شادی کل ہی ہوگی نمیر کے ساتھ"
ثروت بولتے ہوئے نہ جانے کون کون سی باتیں سوچنے لگی پھر ائی سی یو روم سے نکل گئی
****
"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ بھلا ایسے کیسے ممکن ہے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا"
ثروت اور نمیر رات کے وقت جب اپنے گھر آئے رات کے کھانے کے بعد ثروت نے اپنے اور فرمان کے درمیان ہونے والی باتیں نمیر کو بتائی جسے سن کر نمیر کو نا صرف جھٹکا لگا بلکہ وہ بھڑک اٹھا
"یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے جو ناممکن ہو یا اس کے متعلق سوچا نہ جا سکے میں فرمان سے کہہ چکی ہوں کہ کل تمہاری اور عنایہ کی شادی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ تم اپنی ماما کی بات کا اور زبان کا کتنا پاس رکھتے ہو" ثروت سکون سے صوفے پر بیٹھی ہوئی نمیر کو دیکھ کر بولی
"آپ مجھے اس طرح ایموشنلی بلیک میل نہیں کرسکتی ماما عنایہ اور نہال کی شادی ہونے والی تھی وہ نہال کی پسند ہے اور میں عنایہ کے متعلق ایسا سوچ بھی نہیں سکتا"
نمیر ہتے سے اکھڑتا ہوا ثروت سے بولنے لگا
"ٹھیک ہے پھر تو مجھے نوفل کا نمبر ملا کے دو"
ثروت اب کی بار بھی آرام سے بولی جیسے اسے پہلے ہی اس بات کا اندازہ ہو۔۔۔ جس پر نمیر ایک دم چونکا
"یہاں نوفل کیا ذکر وہ نا سمجھنے والے انداز میں ثروت کو دیکھ کر پوچھنے لگا
"ظاہری بات ہے تم میری بات نہیں مان رہے ہو تو کل میں نوفل سے عنایہ کی شادی کروا دوں گی مجھے یقین ہے وہ میری بات کبھی بھی نہیں ٹال سکتا تمہارے سر پر سے تو شاید منال کے عشق کا بھوت ابھی تک نہیں اترا لیکن یاد رکھنا میں اس لڑکی کو بھی اپنے گھر کی بہو کبھی نہیں بناؤں گی"
ثروت کی بات سن کر نمیر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا وہ صوفے سے اٹھ کر چلتا ہوا ثروت کے پاس آیا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گیا
"ماما منال میرے دل میں یا دماغ میں اس زندگی میں اب کہیں بھی موجود نہیں ہے بات منال کی نہیں ہے۔۔۔ آپ مجھے عنایہ کے علاوہ کسی بھی لڑکی سے کہہ لے میں آنکھ بند کر کے اس سے شادی کر لوں گا مگر عنایہ سے کیسے شادی کر سکتا ہوں ماما وہ میرے بھائی کی پسند ہے۔۔۔ اس کو مجھے اپنی بیوی کے روپ میں دیکھنا تو دور اس سوچ سے بھی جھرجھری آرہی ہے آپ پلیز میری فیلینگز بھی تو سمجھیں"
نمیر نے بہت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخری دفعہ ثروت کو سمجھانا چاہا
"تم فرمان کی جگہ خود کو رکھ کر اس کی فیلینگز کا بھی سوچو وہ عنایہ کو نہال کے لیے کب تک باونڈ کرکے رکھ سکتا ہے کوئی وقت دن ٹائم مقرر نہیں کہ جب نہال دوبارہ جاگ جائے اور اس بات کی گرانٹی بھی نہیں ہوش میں آنے کے بعد اسے سب یاد ہو۔۔۔ رہی بات تمہاری سوچ کی۔۔۔ تو نکاح کے تین بولوں میں ایسی طاقت ہوتی ہے کہ تمہاری فیلیگز خود بخود چینج ہوجائے گی میں خود بھی عنایہ کو اس گھر میں بہو کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں اور جو کام بعد میں کرنا ہے وہ کل کیوں نہیں"
ثروت اس کو اپنی بات کے لئے قائل کرتی ہوئی بولی
"کل کو اگر نہال کو ہوش آتا ہے تو میں اس سے کیسے نظر ملا پاؤں گا ماما آپ بات کو ہر پہلو سے سوچیں"
نمیر اب ثروت کو سمجھاتے ہوئے دوبارہ جھجھلانے لگا
"اس کی فکر تم نہیں کرو اس کے سامنے جوابدے میں ہوگی ویسے بھی نہال کے لئے عنایہ کو میں نے پسند کیا تھا وہ اس کی خود کی پسند نہیں ہے تم کل اپنے خاص دوستوں کو بلا لینا مغرب کے بعد فرمان کے گھر میں سادگی سے نکاح کی تقریب رکھی جائے گی اور ساتھ میں ہی رخصتی بھی"
ثروت اس کو مطمئن کرکے کل کا پروگرام ترتیب دینے لگی
نمیر لب بھینچتا ہوا اس کے پاس سے اٹھا اور اپنے کمرے میں جانے کی بجائے گاڑی کی چابی لے کر باہر نکل گیا
****
وہ بیڈ پر گھٹنوں میں اپنا سر دیے بیٹھی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی شانزے اسے سمجھا بجھا کر ڈھیر ساری تسلی اور دلاسے دے کر اپنے گھر کے لئے روانہ ہوئی تھی۔۔۔ عنایہ نے اپنا سر اٹھا کر اپنے دونوں ہاتھ میں لگی مہندی کو دیکھا مہندی کی تقریب والے دن جب یہ مہندی اس کو لگائی جارہی تھی تب وہ بہت خوش تھی یہ بات تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ یہ مہندی نہال کے نام کی نہیں بلکہ نمیر کے نام کی ہوگی۔۔۔ وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی اس کے کانوں میں فرمان کی فریاد اور اس کی التجائیں گونجنے لگی۔۔۔ ایک دم دروازہ کھولا عنایہ نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے تو اس کے سامنے نمیر کھڑا تھا ایک دم دونوں کی نظریں ملی اور دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرا گئے۔۔۔ ہمت جمع کرکے نمیر اس کے پاس آیا اور بیڈ پر بیٹھا
"عنایہ تمہیں معلوم ہے نہ ہمارے بڑوں نے ہماری زندگی کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے، میں نے ماما کو بہت سمجھایا ہے وہ کسی بھی طرح میری باتوں کو نہیں سمجھ نہیں پا رہی پلیز یار تم کچھ کرو یہ سب کیسے ممکن ہے آخر"
نمیر بے بسی سے عنایہ کو دیکھ کر بولا
"میں کیا کر سکتی ہوں اس سب میں" عنایہ نمیر کو دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی
"واٹ ڈی یو مین کیا کر سکتی ہو یار۔۔۔ تم فرمان خالو کو سمجھاؤ کہ تم اس طرح کے بنائے گئے رشتے پر مینٹلی طور پر تیار نہیں ہو تو انہیں دوبارہ سوچنا پڑے گا اس بارے میں۔۔۔ آخر کو شادی کوئی چھوٹی بات نہیں ہوتی یہ زندگی بھر کا معاملہ ہوتا ہے تم پلیز صبح ہوتے ہی اسپتال جانا اور فرمان خالو کے سامنے انکار کر دینا جب تمہاری مرضی نہیں ہوگی تو کوئی بھی تم سے زور زبردستی نہیں کرے گا بلکہ خالو اس بات کو خود ریلائیز کریں گے کہ تم میرے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی عنایہ صرف تمہارے منہ کھولنے سے بات بن سکتی ہے نہیں تو ہم دونوں کے ساتھ ساتھ نہال کے ساتھ بھی بہت برا ہوگا تم سمجھ رہی ہو نا میری بات"
نمیر اس کو بہت آرام سے سب سمجھ آنے لگا عنایہ بہت غور سے اس کی بات سنتی رہی جب وہ خاموش ہوا تو عنایہ بولی
"ڈاکٹر نے سختی سے ہدایت دی ہے کہ ماموں جان کے لئے کسی بھی طرح کی ٹینشن یا ڈپریشن ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے" عنایہ نمیر کو دیکھ کر بولی تو نمیر جبڑے بھینج کر بیڈ سے اٹھا
"یہ اچھی زبردستی ہے ان کے لئے ٹینشن ناگزیر ہے اور وہ ہمیں ٹینشن دیے جارہے ہیں،، میری ایک بات کان کھول کر سن لو عنایہ میں اگر ماما کے دباؤ میں آکر یہ شادی کر بھی لو تو آگے تمہارے ساتھ بہت برا ہوگا اس لئے بہتر یہی ہے کل صبح تم فرمان خالو کے سامنے انکار کر دو اور اگر تم اس وقت کچھ نہیں بولی تو بعد کی ذمہ دار تم خود ہوگی"
نمیر عنایہ سے کہتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ عنایہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی اس سارے واقعے میں اپنا گناہ تلاشنے لگی جس کی سزا اسے مل رہی تھی
Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 14
"کل شام سے لے کر اب تک وہ وہ لاکھوں دعائیں کر چکی تھی کہ کوئی معجزہ ہوجائے نہال کو ہوش آ جائے مگر جب نکاح نامہ اس کے سامنے رکھا گیا تب اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کی ساری دعائیں رائیگاں گئی لرزتے ہاتھوں سے اس نے نکاح نامے پر سائن کیا اور اپنی ساری زندگی اس انسان کے نام کردی جس کے ساتھ کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔۔ نکاح کے بعد ثروت نے گلے لگا کر عنایہ کو دعائیں دیں اور عنایہ کے رونے پر وہ خود بھی رو پڑی عشرت سے یہ سب ڈرامہ زیادہ دیر برداشت کرنا مشکل ہوگیا اس نے کبھی بھی نہیں چاہا تھا نمیر سے عنایہ کی شادی ہو وہ حقارت بھری نظر عنایہ پر ڈال کر اس کے کمرے سے باہر نکل گئی
"بس کرو عنایہ کتنا رو گی یہ سب تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں اور تقدیر کے آگے کب کس کا بس چلا ہے۔۔۔ نہ ہی انسان کبھی اپنی تقدیر سے لڑ سکتا ہے۔۔۔ اس لئے اب جو ہو چکا ہے اس کو ایکسیپٹ کرو میں جانتی ہوں۔۔ اس وقت تمہارے لئے نمیر بھائی کے لئے اس حقیقت کو تسلیم کرنا تھوڑا مشکل ہوگا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا انشاءاللہ"
شانزے گلے لگی ہوئی عنایہ کو سمجھانے لگی وہ کل سے اب تک اس کو اسی طرح سمجھا رہی تھی
"چلو اب منہ دھو کر یہ ڈریس چینج کرکے آؤ۔۔۔۔ ثروت آنٹی دے کر گئی ہیں۔۔۔۔ تمہیں یہ جیولری پہنا کر لائٹ سے میک اپ کردو" عنایہ شانزے کو بے بسی سے دیکھنے لگی شانزے کو اس وقت عنایہ پر ترس آیا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے واش روم کی طرف لے گئی اور اس کے ہاتھ میں ڈریس تھمایا۔۔۔ سی گرین کلر کا ڈریس پر ہلکا سا کام ہوا تھا اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ڈائمنڈ کا سیٹ جو تھوڑی دیر پہلے ثروت شانزے کو روم میں دے کر گئی تھی کہ وہ عنایہ کو پہنا دے
عنایہ کے روم سے جانے کے بعد شانزے اس کا ضروری سامان سوٹ کیس میں رکھنے لگی تاکہ سوٹ کیس کار میں رکھوا دے۔۔۔ عنایہ ڈریس چینج کرکے باہر آئی تو شانزے نے اس کو جیولری پہنائی۔۔۔ عنایہ نے اس کو میک اپ کرنے کے لیے منع کردیا مگر شانزے کے بہت اصرار پر صرف وہ لائٹ سے لپ اسٹک لگوانے پر راضی ہوئی
****
نمیر نے آج صبح ہی نوفل کو ساری سچویشن فون پر بتائی تھی اس وقت نوفل چار دوستوں اور قاضی کے ہمراہ فرمان کے گھر پر موجود تھا۔۔۔ خاص خاص رشتے داروں اور دوستوں کے سامنے نمیر نے تھکے ہوئے انداز میں نکاح نامہ پر سائن کیا۔۔۔ دوست اور رشتے داروں سے مبارکباد وصول کرنے کے بعد نمیر نوفل کی طرف پلٹا، نوفل اس کو مبارک باد دینے کے لیے بغلگیر ہونا چاہا
"کم ازکم تم تو یہ ڈرامے بازی بند کرو" نمیر نوفل کو دیکھ کر طنزیہ ہنستے ہوئے کہنے لگا
"دیکھو نمیر یہ جو بھی کچھ ہوا"
نمیر نے اسے ہاتھ کے اشارے سے کچھ بھی بولنے سے منع کیا
"ابھی لیکچر سننے کا ہرگز موڈ نہیں ہے میرا،، یہاں سب کچھ دیکھ لینا،، اپنے گھر جانے سے پہلے ماما اور عنایہ کو بھی گھر ڈراپ کر دینا میں نہال کے پاس اسپتال جا رہا ہوں"
نمیر اسکو بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا
****
"کیسی ہو"
نوفل نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے شانزے سے پوچھا چند منٹ پہلے اس نے ثروت اور عنایہ کو انکے گھر ڈراپ کیا تھا اب وہ کار شانزے کے گھر کی طرف لے کر جا رہا تھا۔۔۔ نہال کی مہندی والے دن کے بعد وہ شانزے کو آج دیکھ رہا تھا
"شکر ہے خیال تو آیا"
نوفل کے خیریت پوچھنے پر بے ساختہ شانزے کے منہ سے شکوہ نکلا جس پر نوفل اسے گہری نظروں سے دیکھ کر مسکرایا
"مسکرا کیو رہے ہو"
اپنے بے ساختہ جملہ بولنے پر شانزے نے خود پر بھی ملامت کی اب وہ نوفل کو مسکراتا ہوا دیکھ کر اور جھنجھلا گئی
"تمہارے شکر ادا کرنے پر"
وہ اب بھی مسکرا رہا تھا مگر شانزے کی طرف دیکھنے کی بجائے کار ڈرائیو کرتے ہوئے
"اور تو کوئی کام نہیں ہے بس میری باتوں کو ہی پکڑا کرو"
شانزے سر جھٹک کر کہنے لگی تبھی نوفل نے اس کا ہاتھ پکڑا شانزے گھور کر اسے دیکھا تو نوفل نے ایک نظر شانزے پر ڈالی
"ابھی تم نے خود کہا ہے بس باتیں ہی پکڑا کرو"
نوفل شانزے کے ہاتھ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"اگر میں تم سے باتیں کر لیتی ہوں کار میں تمہارے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم مجھ سے فری ہونے کی کوشش کرو میرا ہاتھ چھوڑ دو"
شانزے کے بولنے پر بر خلاف توقع نوفل نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا مگر وہ کار ڈرائیو کرتے ہوئے بولا
"جہاں تک میں تمہیں جانتا ہوں تم کسی بھی مرد کو فری نہیں کرتی کسی سے بلاوجہ باتیں نہیں کرتی نہ ہی کسی کے ساتھ کار میں بیٹھ سکتی ہوں۔۔۔ مگر تم مجھ سے باتیں بھی کر لیتی ہوں اور میرے ساتھ کار میں بیٹھ بھی جاتی ہوں یعنی دوسرے مردوں کی بانسبت تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہوں۔۔۔ مجھے اعتبار کے لائق سمجھتی ہوں۔۔۔ تو پھر میرے یوں ہاتھ پکڑنے پر برہم ہونے کی وجہ۔۔۔ جبکہ تمہارا ہاتھ میں نے چند لمحوں کے لئے نہیں بلکہ زندگی بھر کے لئے تھامے رہنا ہے"
آخری جملے پر نوفل نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے شانزے کی طرف دیکھا وہ بھی نوفل کو ہی دیکھ رہی تھی
"کبھی کبھی جیسا ہم سوچتے ہیں ویسا ہرگز نہیں ہوتا۔۔۔ اب نہال بھائی اور عنایہ کی ہی مثال لے لو"
شانزے کے لہجے میں افسردگی شامل تھی یہ افسردگی عنایہ کے لئے تھی
"اس بات کا یہ ہرگز مطلب نہیں ایک واقعے کو دماغ میں بٹھا کر انسان اپنے لیے اپنے پسند کے متعلق سوچنا چھوڑ دے۔۔۔ شاید نمیر نہال اور عنایہ کے لیے اگے جا کر اسی میں کوئی بہتری ہو۔۔۔ہاں ابھی جو انکی زندگی میں یوں اچانک طوفان آیا ہے اس کے لیے دل افسرہ ہے"
نوفل کار ڈرائیو کرتا ہوا بولا
"طوفان تو یونہی اچانک آیا کرتے ہیں زندگی میں اور پھر سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں،، ہنستی بستی زندگی نوحہ اور ماتم میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور ہم مجبور ہوجاتے ہیں اس تبدیلی کے ساتھ جینے میں،، لوگ کہتے ہیں وہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ زخم بھر جاتا ہے معلوم نہیں زخم واقعی گھر جاتا ہے یا پھر ہم اس زخم کے ساتھ جینے کے عادی ہوجاتے ہیں۔۔ میں امی اور آپی ہم تینوں بھی اپنی چھوٹی سی دنیا میں خوش تھے پھر ایک دن اچانک ہماری زندگی میں بھی طوفان آیا جو ہماری خوشیوں کو بہا کر لے گیا اس وقت میں بارہ سال کی تھی مگر میرا ننھا سا زہن ساری باتیں سمجھنے لگا وہ دن ہمارے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا"
شانزے اپنی رو میں کھو کر بولے جا رہی تھی وہ ماضی کی بےدرد یادوں میں کافی آگے نکل گئی جب اپنے ہاتھ پر نوفل کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تو چونکی اور نوفل کو دیکھنے لگی نوفل بھی اسی کو دیکھ رہا تھا
"تم نے پہلے کبھی نہیں بتایا کہ کوئی تمہاری بہن بھی ہے اور نہ ہی آنٹی نے کبھی ذکر کیا ان کا۔۔۔ کہاں رہتی ہیں تمہاری سسٹر اور یہ کس طوفان کا ذکر کر رہی ہو تم"
نوفل تجسس کے ہاتھوں ایک کے بعد ایک سوال شانزے سے پوچھنے لگا
"معلوم نہیں میں بے خیالی میں کیا کیا بول گئی،، مجھے اندازہ نہیں ہوا چلتی ہوں میں" شانزے کار سے اترنے لگی کیوکہ نوفل کار اس کے گھر کے قریب روک چکا تھا
"شانزے کیا میری ذات اب تک اتنی بے اعتبار ہے کہ تم مجھ سے اپنا آپ شیئر کرتے ہوئے ہچکچاو"
نوفل اس کو کار سے اترتا دیکھ کر پوچھنے لگا
"میں نے اور امی نے خود کو بہت مشکلوں سے سمیٹا ہے ماضی کی بھیانک یادوں کا ذکر کرکے میں خود کو دوبارہ ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی۔۔ اگر تم چاہتے ہو کہ میں ہرٹ نہ ہوں تو اس ٹاپک پر دوبارہ کبھی ذکر مت کرنا"
شانزے نوفل کو کہتی ہوئی کار سے اتر گئی مگر کئی سوالات نوفل کے ذہن میں چھوڑ گئی
****
نہال کے پاس سے ہو کر وہ گھر آیا بارہ بجے کا وقت نمیر اپنے کمرے میں داخل ہوا اپنے بیڈ روم میں بیٹھی عنایہ کو دیکھ کر وہ چونکا۔۔۔ یہ بھی تو ایک مرحلہ تو جسے اپنی پریشانی میں وہ فراموش کیے بیٹھا تھا
"اب تک سوئی کیوں نہیں، کیا سوچ کر میرے انتظار میں یوں سج سنور کر بیٹھی ہو،، کہ میں واپس آ کر تمہارا گھونگھٹ اٹھاو گا،، تمہیں رونمائی دوں گا یا تمہارے حسن کی تعریف کروں گا۔۔۔ اگر تم ان سب باتوں کی توقع کر رہی ہو تو اپنی اس خوش فہمی کو دور کر لو"
نمیر سائڈ ٹیبل پر اپنا والڈ اور کیز رکھتا ہوا، نارمل سے انداز میں بناء اس پر دوسری نظر ڈالے بولا
"آپ کو یہ خوش فہمی کیسے لاحق ہوگئی کہ میں آپ سے ان سب باتوں کی توقع کر رہی ہوں۔۔۔ میری توقعات کا دائرہ کافی محدود ہے، میں جن لوگوں سے اچھے کی توقعات کرتی ہوں، اس لسٹ میں اب آپ کا نام کہیں بھی شامل نہیں۔۔۔۔ نہ ہی مجھے سج سنور کر بیٹھنے کا شوق ہے اور نہ ہی آپ کا انتظار کرنے کا۔۔۔۔ شانزے نے آنٹی کے کہنے پر مجھے تیار کیا ہے اور آنٹی ہی کے کہنے پر میں آپ کا انتظار کر رہی ہوں"
بھلا عنایہ خود کون سا اس شادی پر خوش تھی، جو نمیر اس کو باتیں سنا رہا تھا،، اس لیے عنایہ بھی ہمت جمع کرکے حساب بے باک کرنے لگی۔۔۔ بات مکمل ہونے پر نمیر ناگوار نظر اس پر ڈالتا ہوا قدم بڑھا کر اس کے پاس آیا اور عنایہ کو بازو سے پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا
"آج میرے آگے بہت زبان چل رہی ہے تمہاری،، کل یہ زبان کیوں تالو سے چپکی ہوئی تھی جب تمہیں مجھ سے شادی کیلئے بولا جارہا تھا۔۔۔ کیوں نہیں کھولی تم نے اس وقت اپنی زبان"
نمیر اس کا بازو سختی سے پکڑ کر سخت لہجے میں اس سے پوچھنے لگا
"آپ کیوں خاموش رہے آپ نے کیوں نہیں انکار کیا اپنی ماما کے سامنے۔۔۔ آپ بھی تو اس شادی پر ناخوش ہیں، تو آپ ہی سب کے سامنے انکار کر دیتے۔۔ جب آپ مرد ہو کر مجبور ہوگئے تو پھر مجھ کمزور لڑکی سے کیا توقع رکھتے ہیں آپ"
نم آنکھوں کے ساتھ عنایہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔ نمیر نے اس کا بازو چھوڑا اس پر سخت نگاہ ڈال کر وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگا کپڑے لے کر چینج کرنے کے غرض سے وہ ڈریسنگ روم میں چلا گیا واپس آیا تو عنایہ ویسی ہی کھڑی تھی
"اب کی ساری رات یوں میرے سر پر کھڑے رہنے کا ارادہ ہے ہٹو میرے سامنے سے"
وہ لائٹ بند کرکے بیڈ پر لیٹتا ہوا بولا عنایہ کو سمجھ میں نہیں آیا وہ کہا لیٹے بیڈ پر نمیر کے برابر میں لیٹنے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ روم میں نظر دوڑانے پر بیڈ کے سامنے ٹو سٹر صوفہ نظر آیا مگر بھلا وہ اتنے چھوٹے صوفے پر کیسے سو سکتی تھی اس لئے روم سے باہر نکلنے لگی
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ اب کمرے سے باہر جاکر ماما پر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم کہ میں نے تمہیں اپنے کمرے سے نکال دیا" نمیر لیمپ آن کر کے اٹھ کر بیٹھا اور غصے میں عنایہ کو دیکھ کر کہنے لگا
"تو آپ ہی بتائیں ناں پھر کہاں گم کرو اس وقت میں اپنی شکل"
اسے اپنی بے بسی پر غصہ آرہا تھا وہ ضبط کرتی ہوئی بولی
"یہ اتنا بڑا صوفہ نظر نہیں آ رہا تمہیں، یہاں گم کرو اپنی شکل"
نمیر نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے میں کہا کیوکہ وہ دو راتوں کا جاگا ہوا تھا اور اس وقت اسے شدید نیند آ رہی تھی۔ ۔ ۔ نمیر کے صوفے کی طرف اشارہ کرنے پر، عنایہ اس بڑے صوفے کا سائز دیکھنے لگی اور قدم اٹھاتی ہوئی صوفے کے پاس آکر،، اپنا آپ اس صوفے پر ایڈجسٹ کرنے لگی،،، کوئی اڑتی ہوئی چیز عنایہ کے منہ پر آگری تو بے ساختہ عنایہ کے منہ سے چیخ نکلی مگر ہاتھ سے ٹٹولنے کے بعد اندازہ ہوا وہ تکیہ تھا جو یقیناً نمیر نے اچھال کر اسے سونے کے لئے دیا تھا،،، مہربانی کے اس انداز پر عنایہ کا دل ہی جل گیا
"عنایہ میں بہت تھکا ہوا ہوں اور مسلسل دو راتوں کا جاگا ہوا ہوں اس وقت میں صرف سونا چاہتا ہوں اب مجھے تمہاری کوئی دوسری آواز نہیں آنی چاہیے"
اندھیرے میں عنایہ کے کانوں میں نمیر کی آواز گونجی اس کے تھوڑی دیر بعد عنایہ کو اندازہ ہو نمیر سو چکا ہے وہ آہستہ سے اٹھی ڈریسر کے سامنے کھڑے ہو کر گلے سے پینڈنٹ اور ایئر رنگز ہاتھوں میں موجود کڑے اتار کر ڈریسر پر رکھتی ہوئی ڈریسنگ روم میں چلی گئی جہاں اس کا سوٹ کیس رکھا ہوا تھا۔۔۔ اپنے لئے ارام دے سوٹ نکال کر چینج کر کے وہ دوبارہ روم میں آئی اور آہستہ سے آکر صوفے پر لیٹ گئی جس پر وہ اپنے پاؤں بھی پوری طرح نہیں پھیلا سکتی تھی،، نیند نہ آنے کے باوجود وہ سونے کی کوشش کرنے لگی
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 15 long epi
صبح الارم کی آواز پر نمیر کی آنکھ کھلی وہ اٹھ کر بیٹھا تو اس کی نظر سامنے صوفے پر گئی جہاں پر عنایہ سکڑی سمٹی اپنا دوپٹہ اوڑھے صوفے لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ ایک لمحے کے لئے نمیر کو احساس ہوا وہ ساری رات ٹو سٹر صوفے پر کیسے سوئی ہوگی۔۔۔۔ نمیر بیڈ سے آٹھ کر اس کے پاس آیا۔۔۔ عنایہ کو آواز دے کر اٹھانے ہی لگا تھا نمیر کی نظر اس کے چہرے پر پڑی وہ جھک کر غور سے عنایہ کو دیکھنے لگا سوتے ہوئے وہ نمیر کو کوئی معصوم سی بچی لگی
"حسین لڑکی"
نمیر کے دل سے بے ساختہ آواز آئی۔۔۔ حسین لڑکی کہہ کر وہ پہلے بھی اکثر عنایہ کو پکارتا تھا۔۔۔ مگر آج غور سے اور اتنے قریب سے عنایہ کو دیکھ کر اسے احساس ہوا اس نے کتنا صحیح اس کا نام رکھا تھا
"میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں"
نمیر عنایہ کو دیکھ کر دل ہی دل میں اپنے آپ سے مخاطب ہوا
"بیوی"
ایک اور آواز اس کے اندر سے ابھری۔۔۔ نمیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر عنایہ کے گال کو نرمی سے چھوا۔۔۔ کئی احساسات اس کے اندر پیدا ہونے لگے
"نکاح کے تین بول ایسی طاقت رکھتے ہیں تمہاری فیلنگز خود ہی چینج ہوجائے گی"
نمیر کو ثروت کی بات یاد آئی،،، وہ ماتھے پر آئے عنایہ کے بال ہٹانے لگا
"نہال کی محبت" ایک اور آواز اس کے اندر سے ابھری نمیر نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور ایکدم کھڑا ہوگیا۔۔۔ اب اس کا دم گھٹنے لگا اس نے کمرے میں موجود کھڑکی کھولی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا
"کیا یہ احساس ساری زندگی مجھے تڑپاتا رہے گا کہ میں نے میں نے اپنی بھائی کی محبت سے شادی کی"
نمیر تلخی سے سوچنے لگا۔۔۔ اس نے ایک نظر دوبارہ عنایہ پر ڈالی،، کمرے میں اچھا خاصہ اجالا ہونے کے باوجود وہ گہری نیند میں سو رہی تھی اسے عنایہ کی نیند پر رشک آنے لگا
"عنایہ"
نمیر نے وہی سے اس کو آواز دی مگر وہ اپنے نام کی پکار پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی نمیر دوبارہ اس کے پاس آیا
"عنایہ اٹھو صوفے سے جا کر بیڈ پر لیٹ جاؤ"
نمیر عنایہ کے پاس کھڑا ہو کر اسے کہنے لگا مگر عنایہ دائی کروٹ لیے صوفے پر گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔ کوئی جواب نہ پا کر اس کا بازو ہلانے کے غرض سے نمیر نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا وہی عنایہ نیند میں سیدھی ہو کر لیٹی۔۔۔ نمیر نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کیا،،، اسی لمحے عنایہ اپنی آنکھیں کھول چکی تھی اور وہ نمیر کو ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے بھی دیکھ چکی تھی اس لئے فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی اور بیٹھنے کے ساتھ ہی اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی اب وہ مشکوک نظروں سے نمیر کو دیکھنے لگی
"کون سا نشہ کر کے سو رہی ہو تم کہ تمہاری آنکھیں ہی نہیں کھل رہی ہیں کب سے آواز دیئے جا رہا ہوں۔۔۔۔ کیا دونوں کانوں کے اندر روئی ٹھونسی ہوئی ہے"
عنایہ کو اپنی طرف شک بھری نظروں سے دیکھ کر وہ الٹا اسی پر چڑھ دوڑا معلوم نہیں وہ اس کے بارے میں کیا سوچ رہی تھی نمیر یہ سوچ کر مزید جھنجھلایا
"کیا کوئی کام تھا آپ کو مجھ سے" عنایہ اب اپنے بالوں کو رول کرکے جوڑا بناتے ہوئے اسے پوچھنے لگی
"آفس جانا ہے مجھے کپڑے نکالو میرے اور ناشتہ ریڈی کرو"
اب نمیر اسے یہ تو ہرگز نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اسے بیڈ پر آرام سے لیٹنے کے غرض سے جگا رہا تھا اس لیے اسے آرڈر دیتا ہوا خود واش روم چلا گیا
کل تک ان کو ان کے کپڑے کون نکال کے دیتا تھا۔۔۔ عنایہ سوچتی ہوئی وارڈروب کی طرف بڑھی وارڈروب کا دروازہ کھول کر،،، ترتیب سے ہینگ ہوئی شرٹز میں سے رائل بلو کلر کی شرٹ کے ساتھ بلیک ڈریس پینٹ نکالی۔۔۔
وارڈروب میں موجود دراز کے اندر بہت ساری ٹائی رول ہوئی الگ الگ چھوٹے پیکٹس میں موجود تھی۔۔۔ آفس ٹائم میں اس نے اکثر نمیر کو اسی طرح فل ڈریس اپ یا ڈریس پینٹ،، شرٹ کے ساتھ ٹائی میں دیکھا تھا۔۔۔ اب ٹائی سلیکٹ کرنا اس کے لیے مغزماری کا کام تھا اس لیے وہ ڈراز بند کر کے نمیر کے کپڑے وارڈروب کے ہینڈل پر ہینگ کر کے کمرے سے باہر نکل گئی
"ارے بیٹا تم صبح صبح اٹھ کر کچن میں کیوں چلی آئی یہاں آ کر بیٹھو حمیدہ آتی ہوگی"
ثروت اپنے کمرے سے باہر آئی تو عنایہ کو کچن میں دیکھ کر اس سے کہنے لگی
"جی انٹی"
عنایہ اتنا کہہ کر ثروت کے پاس ڈائننگ ٹیبل پر کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی
"نمیر جاگ گیا"
ثروت عنایہ کو غور سے دیکھ کر پوچھنے لگی
"جی جاگ گئے ہیں آفس کے لیے تیار ہورہے ہیں"
عنایہ نظر یں جھکا کر اپنے ناخنوں کو کھرچتی ہوئی بولی اتنے میں حمیدہ آکر کچن میں ناشتہ تیار کرنے لگی
"نمیر کا رویہ کل رات تمہارے ساتھ ٹھیک رہا"
ثروت جانچتی نظروں سے عنایہ کو دیکھ کر پوچھنے لگی جس پر عنایہ نے نظر اٹھا کر ثروت کو دیکھا
"اس سے کیا پوچھ رہی ہیں،، آپکو جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لیں میرے بارے میں،، ویسے بھی اس کی زبان صرف میرے سامنے چلتی ہے باقی سب کے سامنے تو یہ ایسی بن جاتی ہے جیسے اس کے منہ میں زبان ہی نہ ہو"
نمیر بولتا ہوا آیا اور کچھ کرسی کھسکا کر عنایہ کے سامنے بیٹھا عنایہ نے شکوہ کناں نظر اس پر ڈالی وہ عنایہ کی نکالی ہوئی ڈریسنگ میں موجود تھا جس پر بلیک کلر کی ٹائی کا اضافہ تھا جس پر بلو اور گرے کلر کی دھاریاں موجود تھی
"یہ کون سا طریقہ ہے نمیر اپنی بیوی سے بات کرنے کا،،، میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا جیسے تم نے میری بات مان کر ہمیشہ ایک اچھے بیٹے کا ثبوت دیا ہے اسی طرح میں امید رکھو گی تم عنایہ کے لیے اچھے شوہر ہونے کا ثبوت دو۔۔۔ اگر تم اس کی طرف سے غفلت اور لاپرواہی برتو گے تو میں تم سے خفا ہوگئی اور مجھے معلوم ہے تم مجھے خفا نہیں کروگے"
ثروت نمیر کو دیکھتی ہوئی بولنے لگی،، حمیداں ٹیبل پر ناشتہ رکھنے لگی جب کہا عنایہ دونوں ماں بیٹے کو دیکھنے کے بعد اب ایسے پوز کرنے لگی جیسے اس کا نہیں کسی اور کا ذکر ہو رہا ہے انکے بیچ
"ایکسیلنٹ ماما آپ تو میری توقع سے بھی بڑھ کر اچھی ساس ثابت ہورہی ہیں مگر تھوڑا بہت گائیڈ آپ کو اپنی بہو کو بھی کرنا چاہیے،، یہ اگر میرے کہنے پر عمل کرے گی، میری پسند نہ پسند اور میرے مزاج،، موڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے ساتھ ایڈجسٹ کرے گی تو ہی اچھی بیوی ثابت ہوسکتی ہے آدر وائز اچھی بیوی بنانے کے مجھے دوسرے بھی طریقے بھی آتے ہیں"
نمیر ثروت کو دیکھتا ہوا کہنے لگا جس پر عنایہ کا جھکا ہوا سر مزید جھگ گیا
"ایک بات اور اگر آپ کی بہو کو مجھ سے کسی بھی قسم کی شکایت ہے کہ میں اس سے لاپرواہی برت رہا ہوں یا اس کے حقوق و فرائض میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہو تو پلیز اسے کہیے گا کہ یہ آپ کی بجائے ڈائیرکٹ مجھ سے بات کرے"
اب کی بار نمیر عنایہ کی طرف ایسے دیکھتا ہوا بولا جیسا عنایہ نے ثروت سے اس کی کوئی شکایت لگائی ہو عنایہ سر اٹھا کر نمیر کو دیکھنے لگی
"تمہیں اپنے حقوق وفرائض کا خود خیال رکھنا چاہیے تاکہ اسے مجھ سے یا تم سے کوئی شکایت کا موقع نہ ملے"
ثروت واضح لفظوں میں نمیر کو جتاتی ہوئی بولی
"جی بالکل آج سے ہی خیال رکھوں گا" نمیر کے کہنے پر عنایہ نے ایک بار پھر اسے دیکھا
"دیکھ کیا رہی ہو ناشتہ سرو کرو۔۔۔ آفس کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں میں"
عنایہ کے اس کی طرف دیکھنے پر نمیر اس سے مخاطب ہوا عنایہ کرسی سے اٹھ کر نمیر اور ثروت کو ناشتہ سرو کرنے لگی
"کل سے کمپلیٹ ڈریسنگ نکالنا اور صبح کا ناشتہ اب ڈیلی تم تیار کرنا میرے لئے"
عنایہ کیٹل سے چائے نکالنے لگی تب نمیر اس کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ ثروت نمیر کو گھورنے لگی جس پر وہ کندھے اچکا کر ثروت کو دیکھتا ہوا بولا
"بیوی ہے یہ میری،، جیسے مجھے اسکی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔۔۔ ویسے ہی میری تمام ضرورتوں کا خیال رکھنا اس کا فرض ہے"
نمیر بولتا ہوا ناشتہ کرنے لگا
"کالج کے لئے ریڈی کیوں نہیں ہوئی تم ابھی تک"
عنایہ کے منہ میں پہلا نوالہ گیا ہی تھا نمیر نے اس کو دیکھ کر سوال کیا
"میری بکس ماموں کی طرف رہ گئی ہیں"
نمیر کو دیکھ کر وہ آہستگی سے بولی
"کوئی بات نہیں بیٹا بکس آجائے گے تم دو دن بعد آرام سے چلی جانا کالج،، ویسے بھی کل ہی تو شادی ہوئی ہے" ثروت نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا جس پر عنایہ اس کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی
"شادی کرکے کونسا تیر مارا ہے یا کوئی انوکھا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی خوشی میں کالج کی چھٹیاں کی جائیں،، میں شام میں بکس لیتا آؤ گا کل صبح سے تم کالج کے لیے مجھے ریڈی ملوگی۔ ،۔۔ آفس جانے سے پہلے میں تمہیں کالج ڈراپ کروں گا۔۔۔ واپسی پر ڈرائیور لے آئے گا"
نمیر عنایہ پر حکم صادر کرتا ہوا بولا جس پر عنایہ جی کہہ کر خاموش ہوگئی
"تھوڑی دیر بعد ڈرائیور کے ساتھ نہال کے پاس چلی جاؤں گی،، تم مجھے آفس سے واپسی پر پک کر لینا"
ثروت کے منہ سے نہال کا ذکر سن کر عنایہ کے دل میں پھانس سی چھبی،، جس سے اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے جو نمیر کی نظروں سے چھپ نہیں سکے۔۔۔ اس نے ثروت کو سر ہلا کر جواب دیا اب وہ مگ ہاتھ میں تھامے گھونٹ گھونٹ چائے حلق میں اتارتا ہوا عنایہ کے چہرے پر چھائی افسردگی دیکھنے لگا۔۔۔ ناشتے کے بعد وہ ثروت کو خدا حافظ کہہ کر آفس کے لیے روانہ ہوگیا
"تم پریشان مت ہونا بیٹا یوں اچانک اس طرح شادی ہونے کی وجہ سے نمیر کا مائینڈ تھوڑا ڈسٹرب ہے ورنہ تم تو اس کی نیچر اچھی طرح جانتی ہوں اپنے سے منسلک رشتوں کو لے کر وہ بہت زیادہ حساس ہے۔۔۔ مجھے تمہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ تم نمیر کا خیال رکھنا،،، میں جانتی ہوں تم اس کا خیال رکھو گی کیوکہ تم میری اچھی بیٹی ہو اور اسی وجہ سے میرا انتخاب بھی"
نمیر کے آفس جانے کے بعد ثروت مسکرا کر عنایہ کو سمجھانے لگی۔۔۔ عنایہ اس کی بات پر مسکرا بھی نہیں سکی نہ وہ یہ کہہ سکی وہ اچھی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی ہے جیسے اس کے بیٹے کا مائنڈ اپ سیٹ ہے ویسے اس کا بھی مائنڈ اپ سیٹ ہوا ہے اگر نمیر اپنے سے منسلک رشتوں کو لے کر حساس ہے تو۔۔۔ اس نے کونسا اپنا اور عنایہ کے رشتے کو دلی طور پر قبول کیا ہے جو وہ عنایہ کے لیے حساس ہوگا یہ سوچ کر عنایہ کا دل مزید خراب ہونے لگا
"تھوڑی دیر بعد نہال کے پاس ہاسپٹل جاؤں گی آج اسے آئی سی یو سے پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیں گے۔۔۔۔ اگر مجھے آنے میں دیر ہو جائے تو پریشان مت ہونا اور گھر کے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے آرام کرو اور بیٹا نمیر کے آنے سے پہلے اپنا ڈریس چینج کرکے اچھا سا تیار ہو جانا۔۔۔ نئی شادی ہے تمہاری اس طرح رہو گی تو اس کی طبیعت پر بھی اچھا اثر نہیں پڑے گا،، میں تمہیں اور نمیر کو اچھی خوشحال زندگی گزارتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں ابھی تمہیں تھوڑا مشکل لگے گا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا"
ثروت پیار سے اسے سمجھاتی ہوئی اپنے روم میں چلی گئی
****
"کیا کل نمیر اور عنایہ کی شادی ہوگئی ہے اور آپ مجھے اب بتا رہی
ہیں"
منال موبائل کان پر لگائے صوفے سے شاک کی کیفیت میں اٹھی
"کیوں تم نے انکی شادی میں آکر روڑے ڈالنے تھے جو تمہیں پہلے سے بتا دیتی۔۔ ۔ کیسا اچھا لڑکا ہمارے ہاتھ سے نکل گیا،،، مجھے تو یہ ملال ہی کم نہیں تھا کہ نمیر نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اوپر سے وہ ملا بھی تو کس کو اس نصیبوں جلی اور سبز قدم کو۔۔۔ کیا بتاو کیسے ارے چلے ہیں میرے دل پر نکاح کے وقت"
عشرت اب بیٹی سے موبائل پر بات کرتی ہوئی دل ہلکا کرنے لگی
"تو نمیر نے اس منہوس عنایہ کو مجھ پر فوقیت دی۔۔۔۔ اپنا ایگریمنٹ پورا کر لوں پھر دیکھتی ہوں میں آکر ان دونوں کو"
منال سے یہ نیوز ہضم کرنا مشکل ہو رہی تھی تبھی وہ جلتی ہوئی بولی
"اے بی بی بات غور سے سنو اب تمہارے کسی بھی ڈرامے یا اداکاری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ یہ اداکاری کے جوہر اپنی فلموں میں دکھاؤ یہاں پر ڈرامے کر کے ہمارا مزید تماشہ مت بنانا۔۔۔ بہت مشکل سے ہماری عزت اور بات سنبھالی ہے ویسے بھی اب پچھتانے کا کیا فائدہ جب چڑیاں چک گئیں کھیت"
عشرت اپنی بیٹی کے انداز دیکھ کر چمک کر بولی
"کیسی باتیں کر رہی ہے مما میں ایسے ہی ان دونوں کو چھوڑ دوں گی۔۔۔ نمیر میری پسند تھا میری محبت،،، واپس آکر منا لیتی میں اسے۔۔۔ خیر بگڑا تو اب بھی کچھ نہیں ہے واپس آجاو پھر دیکھتی ہو نمیر کو بھی اور اس عنایہ کی بچی کو بھی"
منال نے زہر خواندہ لہجے میں کہتے ہوئے کال ڈسکنیکٹ کرکے موبائل صوفے پر اچھالا نمیر اور عنایہ کو ایک ساتھ سوچ کر اس کا موڈ خراب ہونے لگا
******
"آج کالج نہیں جانا تمہیں"
نائلہ نے کمرے میں آ کر شانزے سے پوچھا جو چائے کا مگ دونوں ہاتھوں سے تھامے کسی گہری سوچ میں گم تھی نائلہ کی آواز پر اپنے خیالوں سے نکل کر دنیا میں واپس آئی
"نہیں ڈیٹ شیٹ مل گئی ہے ویسے بھی آج کل کالج میں کوئی خاص پڑھائی نہیں ہورہی ہے"
شانزے نے چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے نائلہ کو جواب دیا
"اور تمہاری سہیلی عنایہ کیسی ہے۔۔۔ کیا رخصت ہوکر وہ اپنے سسرال چلی گئی"
نائلہ تخت پر بیٹھتی ہوئی شانزے سے عنایہ کے بارے میں پوچھنے لگی کیوکہ کل رات کو شانزے کے گھر آنے کے بعد ان دونوں کی آپس میں زیادہ بات نہیں ہوئی تھی
"جی کل ہی ثروت آنٹی اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی،، کتنے عجیب لوگ ہیں عنایہ کے گھر والے پہلی منگنی کروا کے اس شخص کے خواب دیکھنے کی اجازت دی اور جب عنایہ اس شخص کو دل ہی دل میں اپنا ماننے لگی تو اچانک اسے بتایا گیا کہ اب وہ تمہارا شوہر نہیں بن سکتا لہذا اس کے خواب دیکھنا بند کرکے اب دوسرے کے بارے میں سوچو"
شانزے تلخی سے کہنے لگی مگر یہ بات وہ عنایہ کے سامنے کرکے اس کا مزید دل نہیں دکھا سکتی تھی
"اسی کا نام زندگی ہے بس آگے اللہ اس بچی کے نصیب اچھے کرے۔۔۔ نوفل نے چکر نہیں لگایا کافی دنوں سے وہ بھی وہاں موجود ہو گا ٹھیک ہے نا وہ"
نائلہ شانزے کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"اب ہر وقت تو وہ چکر نہیں لگائے گا اپنے بھی کام ہوگے اسے آپ کچھ زیادہ ہی یاد نہیں کرنے لگی ہیں اسے،، ویسے کل رات کو اسی نے مجھے گھر چھوڑا تھا"
شانزے نظریں ملائے بغیر نائلہ کو بتانے لگی کہیں وہ اس کی آنکھوں میں کچھ پڑھ نہ لے
"ہر وقت چکر نہیں لگا تھا مگر فون کر کے میری طبیعت خیریت تو اکثر معلوم کرتا ہے۔۔۔ ایک دو دن سے کال بھی نہیں آئی اس لیے پوچھ رہی تھی۔۔۔ نوفل اچھا لڑکا ہے شانزے میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے احترام اور تمہارے لیے پسندیدگی محسوس کی ہے۔۔۔۔ جیسا میں سوچ رہی ہو اگر ایسا ہو جائے تو مجھے دلی طور پر بہت خوشی ہوگی"
نائلہ مسکراتی ہوئی شانزے سے بولی تو شانزے نے ماں کو حیرت سے دیکھا وہ جس بات کو چھپانا چاہ رہی تھی،، وہ اس کی ماں کی بھی دلی خواہش تھی
"امی ہمہیں نوفل کو آپی کے بارے میں بتانا چاہیے"
شانزے کچھ سوچتی ہوئی بولی
"کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں اسے کچھ بھی بتانے کی،، کہیں تم نے اسے فرحین کے بارے میں کچھ بتایا تو نہیں"
نائلہ پریشان ہو کر شانزے سے پوچھنے لگی
"میں نے اسے ایسا کچھ نہیں بتایا مگر جیسا آپ نوفل کے بارے میں سوچ رہی ہے ایک طرح سے پھر حقیقت تو اسے معلوم ہونی چاہیے"
شانزے نائلہ کو دیکھتی ہوئی بولی تو نائلہ نظریں چرا گئی
"مجھے جب اور جو مناسب لگے گا میں اس کو بتا دوں گی مگر شانزے تم اسے کچھ نہیں بولوں گی وعدہ کرو مجھ سے"
نائلہ کو بہت سے خدشات لاحق ہونے لگے تو وہ شانزے کو دیکھ کر بولی۔۔۔
شانزے نے نائلہ کی بات ماننے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور ناشتے کی ٹرے لے کر کچن میں چلی گئی
****
"کیسے ہو کب آئے ہاسپٹل"
نمیر آفس سے ہاسپٹل پہنچا تو ثروت کے علاوہ وہاں پر نوفل بھی موجود تھا۔۔۔ ثروت کی دوست نہال کو دیکھنے آئی تو نمیر اور نوفل کوریڈور میں کھڑے ہوگئے وہی نمیر اس سے پوچھنے لگا
"تمہارے آنے سے ایک گھنٹے پہلے آیا تھا،، میرے سامنے ہی نہال کو آئی سی یو سے روم میں شفٹ کیا ہے"
نوفل نمیر کو بتانے لگا
"ڈاکٹر سے بات ہوئی تمہاری کیا کہتے ہیں ڈاکٹر نہال کے بارے میں"
نمیر آفس سے پانچ منٹ پہلے ہی آیا تھا اسلیے نوفل سے معلومات لینے لگا
"کوئی ایسی گہری یا خطرناک چوٹ نہیں جس کی وجہ سے نہال کو ائی سی یو روم میں رکھا جائے البتہ نہال اس گہری نیند اسے کب جاگے ہے اس کا کچھ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔۔۔ اس لیے فی الحال اسے پرائیویٹ روم میں شفٹ کردیا گیا ہے" نوفل نمیر کو دیکھ کر بتانے لگا
"یعنی کوئی خاص پروگریس نہیں ہے" نمیر مایوس کن لہجے میں بولا
"اس طرح مایوس مت ہو نمیر جس دن نہال کومے سے واپس آجائے گا سب پہلے جیسا ٹھیک ہو جائے گا"
نوفل نمیر کو مایوس دیکھ کر اس کی ہمت باندھتا ہوا کہنے لگا
"ریئلی،، سب پہلے جیسے ٹھیک ہو جائے گا،، تمہیں ایسا لگتا ہے۔۔۔۔ اب نہال کے ہوش میں آنے کے بعد بھی نہ ہی کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے اور نہ ہی کچھ پہلے جیسا ہوسکتا ہے"
نمیر تلخی سے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ جس پر نوفل ایک منٹ کے لئے خاموش ہوگیا پھر بولا
"دیکھو نمیر جو بھی کچھ ہوا اس میں نہ نہال کا قصور تھا،، نہ تمہارا اور نہ ہی عنایہ بھابھی کا۔۔۔۔ یار یہ سب تقدیر کے کھیل ہوتے ہیں ہم اپنی لائف میں آگے کا پلان کر رہے ہوتے ہیں یہ جانے بغیر کے اوپر والے کی کیا پلاننگ ہے۔۔۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔۔۔ یہی سمجھ لو نہال اور عنایہ بھابھی کا ساتھ اتنا ہی لکھا تھا۔۔۔ اصل میں ان کو تمہاری زندگی میں آنا تھا تمہاری وائف بن کر۔۔۔ تم اس حقیقت کو ایکسیپٹ کرو"
نوفل نمیر کو دیکھ کر سمجھ آنے لگا
"تم جانتے ہو کل رات سے میرے اندر ایک جنگ چھڑی ہے کس کشمکش کا شکار ہو میں تمہیں اندازہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ میرا دل اس حقیقت کو قبول نہیں کر رہا ہے اس لڑکی کو میں کیسے بیوی ایکسیپٹ کرو جو میرے بھائی کی پسند تھی،،، جس سے میرے بھائی کی شادی ہونے والی تھی۔۔۔ اگر میں اپنے دل کو سمجھاتا ہوں کہ اب حقیقت اس کے برعکس ہے تو کوئی آواز میرے اندر سے آتی ہے مجھے ایسا کرنے سے روکتی ہے"
نوفل کو اس وقت نمیر بہت بے بس اور لاچار لگا
"دیکھو نمیر میری ایک بات غور سے سنو اس حقیقت کو اب تمہیں اپنے دل اور دماغ میں بٹھانا ہے کہ عنایہ بھابھی تمہاری بیوی ہے شادی کی ہے یار تم نے اور شادی کوئی مذاق بات نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔ نہال کی عنایا بھابھی سے صرف منگنی ہوئی تھی منگنی کوئی ایسا پائیدار رشتہ نہیں ہے منگنی تو انسان دس کر کے توڑ دیتا ہے مگر شادی۔۔۔ شادی کے بعد تو ایک مرد اور عورت شادی مضبوط رشتے میں باندھ جاتے ہیں۔۔۔ میں مانتا ہوں اس بات کو نہال پسند کرتا تھا عنایہ بھابی کو اور ہوسکتا ہے اسکے ہوش میں آنے کے بعد یہ نیوز اسکے لیے کسی شاک سے کم نہیں ہوگی مگر وہ ایک میچور پرسن آہستہ آہستہ وہ حالات کی مناسبت سے ساری سچویشن کو سمجھتے ہوئے اس حقیقت کو قبول کرے گا مگر یہ جب کی بات ہے جب نہال ہوش میں آئے گا،،، ہم اس کے لیے دعا کرسکتے ہیں انشاءاللہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا لیکن اس وقت کیلئے ضروری ہے کہ تم اپنے اور عنایہ بھابھی کے رشتے پر غور کرو اس کو سمجھو۔۔۔ انہیں وائف سمجھ کر اپنے اور ان کے رشتے کا احساس دلاو۔۔۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ رشتہ بنانے کے لیے عورت ہی ہر دفعہ پہل کرے۔۔۔ نمیر اب شادی کر ہی لی ہے تو دل سے اس رشتے کو بھی قبول کرو اپنے دماغ سے یہ بات نکال دو کہ وہ نہال کی منگیتر تھی بلکے یہ سوچو اب وہ تمہاری وائف ہے"
نوفل کی باتیں ڈرائیونگ کے دوران اس کے دماغ میں گردش کر رہی تھی وہ چپ چاپ اس وقت ڈرائیونگ کر رہا تھا ثروت نے بھی اس سے کوئی بات نہیں کی
"ارے لگتا ہے ہمارے ایریے کی لائٹ گئی ہے"
ثروت کی آواز پر نمیر نے چونک کر اسے دیکھا پھر اس کا دھیان عنایہ کی طرف گیا۔۔۔۔ نمیر نے کار کی اسپیڈ تیز کردی یقیناً وہ پاگل لڑکی اندھیرے میں ڈر رہی ہوگی۔۔۔ کیوکہ اتفاق سے آج گھر میں کوئی نوکر بھی موجود نہیں تھا جو جنریٹر آن کر دیتا حمیدہ کھانا بنا کر شام میں ہی گھر چلی گئی تھی
"آپ ایک منٹ کار میں ہی بیٹھے میں عنایہ کو دیکھ کر پھر جنریٹر آن کرتا ہوں"
نمیر ثروت کو کہتا ہوا کار سے اتر کر موبائل کی فلش لائٹ آن کر کے عنایہ کو پکارتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا
****
ثروت کے اسپتال جانے کے بعد عنایہ نمیر کے روم میں آئی خالی بیڈ دیکھ کر اسے دوبارہ نیند آنے لگی رات کو تو ویسے بھی کافی دیر سے سوئی تھی اور بے آرام ہوکر سوئی تھی اوپر سے صبح ہی صبح نمیر نے اسے جگا دیا تھا یہی سوچتے ہوئے عنایہ بیڈ پر لیٹ گئی اور نمیر کے ساتھ اپنا رویہ سوچنے لگی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا نمیر اس سے کبھی اتنی سختی سے بھی بات کر سکتا ہے خیر سوچا تو اس نے کبھی نمیر سے شادی کا بھی نہیں تھا۔۔۔ نمیر کا یہ نیا رویہ عنایہ کو تکلیف دے رہا تھا ابھی ایک بھی دن نہیں گزرا تھا اور اسے نمیر کے ساتھ اسے اپنی پوری زندگی گزارنی تھی باقی کی زندگی اس کی کیسی گزرے گی یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی
دو بجے کے قریب حمیدہ کے زور زور سے اسکا کندھا ہلانے پر عنایہ کی آنکھ کھلی
"عنایہ بی بی کب سے اٹھا رہی ہو جی آپ کو"
حمیدہ عنایہ کے سر پر کھڑی ہوئی اسے بولنے لگی
"ہاں رات کو ٹھیک طرح سے سو نہیں پائی تھی"
اب وہ اسے کیا بتاتی نیند کے معاملے میں وہ شروع سے ہی ایسی تھی کالج جانے کے وقت بوا بھی اسے چار سے پانچ بار اٹھانے آتی تھی
"جی جی وہ تو میں سمجھ گئی تھی رات کو نیند پوری نہیں ہوئی ہوگی"
ْحمیدہ دانت نکالتے ہوئے بولی بےوقت کی ہنسی اور بات عنایہ کے سر پر سے گزر گئی
"کوئی کام کیا تمہیں"
عنایہ حمیدہ سے پوچھنے لگی
"جی کھانا کھانے کے لیے بلا رہی تھی بڑی بیگم صاحبہ نمیر صاحب تو رات کو آئے گے۔۔۔۔ میں نے سوچا آپ سے دوپہر کے کھانے کا پوچھ لو آخر کو نئی دلہن ہو آپ اس گھر میں"
حمیدہ نے دوبارہ بولا لفظ دلہن پر عنایہ نے حمیدہ کو دیکھا۔۔۔ اب وہ اپنی نیند والی بات پر حمیدہ کی معنی خیز جملے اور ہنسی پر شرمندہ ہوگئی
"تم چلو میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں"
عنایہ حمیداں کو کہہ کر واش روم چلے گئی
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ دوبارہ نمیر کے بیڈروم میں آگئی وارڈروب کھول کر،، ڈریسنگ روم سے اپنا سوٹ کیس لاکر اپنا سامان ایک خالی پورشن میں سیٹ کرنے لگی باقی پرفیومز،،، باڈی اسپرے اور تھوڑا بہت میک اپ کا سامان ڈریسر پر موجود نمیر کے پرفیومز کے ساتھ سیٹ کردیا
اب اس نے اپنے حلیے پر غور کیا اس نے کل رات جو سونے کے لئے ڈریس پہنا تھا وہ اب بھی اسی ڈریس میں موجود تھی شاید اسی وجہ سے ثروت نے اس کو ٹوکا تھا۔۔۔ نمیر کے لیے تیار ہونے کا سوچ کر اس کا دل ہی نہیں چاہا کہ وہ ڈریس چینج کرے مگر اب شاید اس سے ہمیشہ آگے بھی اپنا آپ مار کر چلنا تھا۔۔۔ اس لئے لائٹ کلر کا ایک ڈریس نکال کر وہ شاور لینے چلی گئی بالوں میں برش کر کے لائٹ سی لپ اسٹک لگالی تاکہ ثروت ناراض نہ ہو۔۔ شام سات بجے حمیدہ سب کام نپٹا کر عنایہ سے اجازت لے کر اپنے گھر چلی گئی
تھوڑی دیر شانزے سے موبائل پر بات کرکے اب عنایہ نے فرمان کو کال ملائی اس کی خیریت پوچھنے لگی ابھی فرمان سے بات کرکے فارغ ہوئی تھی کہ لائٹ چلی گئی
لائٹ جانے سے عنایہ نے پریشان ہونا شروع کردیا بار بار اس کے دماغ میں ایک ہی خیال آ رہا تھا کہ وہ پورے گھر میں اکیلی تھی موبائل کی لائیٹ سے اس کی ڈھارس نہیں ہورہی تھی بدقسمتی سے موبائل کی بیٹری لو ہوئی اور موبائل بھی آف ہو گیا اب وہ زور شور سے دعا کر رہی تھی کہ کوئی آ جائے مگر آج کل اس کی دعائیں عرش پر نہیں پہنچ رہی تھی خوف کے بعد اسے رونا آنے لگا
"میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے" عنایہ روتے ہوئے شکوہ کرنے لگی
"تمہیں آئندہ بارش سے کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ اگر کسی سے ڈر لگے تو میرے سینے پر اپنا سر رکھ لینا یقیناً میری پناہوں میں تم خود کو محفوظ تصور کرو گی"
عنایہ کے کانوں میں نہال کی آواز گونجی
"کہاں چلے گئے نہال مجھے چھوڑ کر،،، مجھے ڈر لگ رہا ہے آپ پلیز آجائیں"
عنایہ روتی ہوئی کہنے لگی
"عنایہ"
چند منٹ بعد عنایہ کے کانوں نے اپنے نام کی پکار سنی
"نہال"
عنایہ کے لب پڑپڑائے وہ بیڈ سے اتر کر دیوانہ وار،، ٹارچ ہاتھ میں پکڑے نمیر کے سینے سے جا لگی
"کہاں چلے گئے تھے آپ،،، آپ کو معلوم ہے نا اندھیرے سے ڈر لگتا ہے مجھے"
وہ نمیر کے سینے سے لگی سختی سے نمیر کے شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے روتی ہوئی چیخ کر بولی۔۔۔ نمیر کو اندازہ ہوگیا وہ بری طرح ڈری ہوئی تھی اس نے اس نے عنایہ کو خود سے الگ کرنے کے بجائے اس کے گرد اپنے ہاتھوں باندھ کر عنایہ کو مکمل اپنے حصار میں لیتے ہوئے بولا
"آئی ایم سوری مجھے دیر ہوگئی لیکن میں آگیا ہوں نا عنایہ۔۔۔۔ پرامس اب تمہیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا،، نہ خود سے دور کروں گا ہمیشہ تمہارا خیال رکھوں گا بس اب رونا بند کرو"
کل رات سے صبح تک کی تلخی عنایہ کے رونے سے کہاں غائب ہوگئی تھی نمیر کو خود بھی اندازہ نہیں ہوا۔۔۔ نوفل کی باتوں کا اثر تھا یا پھر قائم ہونے والے رشتے کی کشش وہ کافی جلدی نمیر کے دل میں نرم گوشہ بنانے میں کامیاب ہوئی تھی
"مجھے کبھی تنہا چھوڑیے گا نہال پرومس کریں آپ ہمیشہ ہی میرے ساتھ رہیں گے"
عنایہ نمیر کے سینے میں منہ چھپائے آنکھیں بند کئے ہوئے بولی جیسے وہ اس کے حصار میں خود کو محفوظ تصور کر رہی ہو
عنایہ کے منہ سے نہال کا نام سن کر نمیر نے ایک جھٹکے سے اسے خود سے الگ کیا ویسے ہی لائٹ آگئی اور کمرہ روشنی میں نہا گیا۔۔۔ عنایہ نے اپنے سامنے نمیر کو کھڑا پایا۔۔۔۔ جو غصے میں گھورتا ہوا اسے دیکھ رہا تھ
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi #16
عنایہ کے منہ سے نہال کا نام سن کر نمیر نے ایک جھٹکے سے اسے خود سے الگ کیا ویسے ہی لائٹ آگئی اور کمرہ روشنی میں نہا گیا۔۔۔ عنایہ نے اپنے سامنے نمیر کو کھڑا پایا۔۔۔۔ جو غصے میں گھورتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس سے پہلے وہ اپنے جملے پر پچھتاتی نمیر نے آگے بڑھ کر اس کو دونوں شانوں سے پکڑا
"میں نہال نہیں ہوں نمیر ہوں۔۔۔ نمیر تمہارا شوہر جس سے تمہاری شادی ہوئی ہے۔۔۔ اگلی بار میرے سامنے اپنے حواس بحال رکھنا ورنہ مجھے دو سیکنڈ نہیں لگے گے تمہارے حواس ٹھکانے لگانے میں" نمیر کی انگلیاں اسے اپنے کندھوں میں گھڑتی محسوس ہوئی۔۔۔ عنایہ سے کچھ نہیں بولا گیا بس وہ سانس روکے نمیر کے خطرناک تیور دیکھنے لگی جو اس کو خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔ نمیر ایک جھٹکے سے اس کو چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا گیا اور تب عنایہ نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا
****
نمیر کو اس وقت عنایہ پر اتنا غصہ تھا کہ وہ اگر گھر سے باہر نہیں نکلتا تو شاید اپنے ہاتھوں سے عنایہ کا گلا ہی دبا دیتا۔۔۔ اس وقت وہ اس کے نکاح میں تھی، اس کی بانہوں میں خود کو چھپائے،، وہ کیسے اس کے بھائی کا نام لے سکتی ہے،،، وہ اسے نہال سمجھ کر اس کی طرف بڑھی تھی نمیر کو یہ سوچ مزید کھولانے لگی بھلا اتنا بھی کوئی حواس باختہ کیسے ہوسکتا ہے
وہ کم عمر تھی مگر کم عقل نہیں۔۔۔ اور اگر کم عقل تھی تو اب نمیر اس کی عقل اچھی طرح ٹھکانے لگانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ دو گھنٹے سے مسلسل گاڑی کو لیے سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے کے بعد اب اس نے گاڑی کا رخ دوبارہ گھر کی طرف کیا
****
جس وقت وہ گھر پہنچا تقریباً رات کا ایک بج رہا تھا عنایہ کو صوفے پر سوتا ہوا دے کر نمیر کو مزید پتنگے لگے۔۔۔ وہ اس کا آرام اور سکون برباد کرکے کتنے مزے سے سو رہی تھی۔۔۔ بیڈروم کی لائٹ آن تھی یقیناً اس نے اپنے ڈر کی وجہ سے آن رکھی تھی۔۔۔ نمیر نے اپنے کپڑے لینے کے لیے وارڈروب کھولی تو اس پورشن میں ترتیب سے سب عنایہ کے کپڑے رکھے تھے اس نے مڑ کر ایک نظر سوتی ہوئی عنایہ پر دوبارہ ڈالی۔۔۔ اور وارڈروب کا دوسرا ڈور کھول کر اپنا آرام دہ سوٹ نکالا
جب وہ ڈریسنگ روم میں جانے لگا تو سامنے ڈریسر پر بھی اس کے پرفیومز شیونگ کٹ کے ساتھ عنایہ کی چیزوں کا اضافہ تھا۔۔۔ اور سب سے بڑا اضافہ تو اس کی زندگی میں ہوا تھا،، جو اس وقت اس کے کمرے کے صوفے پر اپنے ہوش و حواس سے غافل تھا۔۔۔ نمیر اپنے کمرے میں اور اپنی زندگی میں اچانک اس اضافے پر اگر خوش نہیں تھا تو ناخوش بھی نہیں تھا۔۔۔ وہ ناخوش کیوں نہیں تھا صوفے کے پاس رک کر عنایہ کو دیکھتا ہوا سوچنے لگا
کیا ہر مرد کی طرح اسے بھی ایک خوبصورت بیوی چاہیے تھی،،،، وہ عنایہ کے خوبصورت چہرے پر اپنی نظروں ٹکائے سوچنے لگا۔۔۔۔ وہ صرف خوبصورت تو نہیں تھی بلکے معصومیت بھی اس کے چہرے کا خلاصہ کرتی تھی وہ غور سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو دیکھ کر سوچنے لگا۔۔۔۔ دل میں اچانک خواہش جاگی کہ وہ اس کے چہرے کے نقوش کو چھو کر دیکھے۔۔۔ مگر اس کے جاگ جانے کے ڈر سے نمیر نے اپنا ارادہ ترک کیا۔۔۔۔ نمیر اسکو دیکھ کر اسکی نیچر کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔ وہ بالکل شیشے کی ماند تھی بالکل شفاف،،، اندر سے باہر سے ایک جیسی۔۔۔ ہر طرح کی بناوٹ سے پاک۔۔۔ ہاں اسے یہ معلوم تھا وہ ایک ڈرپوک دبو سی لڑکی ہے چھوٹی چھوٹی چیزوں اور باتوں سے ڈر جانے والی۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے جب وہ خوف سے نمیر کے گلے لگی تھی تب نمیر کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔۔۔ اسکے دل کو اچانک کچھ ہوا جیسے کوئی احساس جاگا ہو نمیر کا دل چاہا وہ اسے اپنی بانہوں میں چھپا کر اس کا سارا ڈر نکال دے مگر پھر کیا ہوا یہ سوچ کر نمیر کا موڈ خراب ہونے لگا۔۔۔ وہ سخت قسم کی گھوری عنایہ پر ڈال کر اپنے کپڑے لے کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں مبلوس جب وہ ڈریسنگ روم سے باہر نکلا تو عنایہ کو اسی اینگل میں سوتا پایا۔۔۔ نمیر نے اس کو سوتا ہوا دیکھ کر جگانے کا ارادہ ترک کیا مگر جیسے ہی اس کو خیال آیا تھوڑی دیر پہلے وہ اس کی بانہوں میں اسے نہال سمجھ بیٹھی تھی
"اگر میرے بیڈروم میں رہنا ہے پھر تو میرا ہی بن کر رہنا ہوگا۔۔۔۔ جب شوہر میں ہوں تمہارا اور تم میرے نکاح میں ہو تو اصولاً تمہارے حواسوں پر مجھے ہی سوار رہنا چاہیے آج کے بعد ایسا ہی ہوگا"
نمیر نرمی سے اس کے ملائم گال کو چھو کر دل ہی دل میں اس سے مخاطب ہوا
"عنایہ"
نمیر اس کے سر پر کھڑا ہوکر اسے پکارنے لگا مگر جب وہ دو سے تین بار پکارنے پر بھی نہیں اٹھی تو۔۔۔ نمیر اپنا منہ اس کے کان کی طرف لاکر زور سے اس نام پکارا۔۔۔۔ جس سے عنایہ ایک دم ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور اب وہ نیند میں ڈوبی آنکھوں سے نمیر کو حیرت سے دیکھ رہی تھی
"سونے کا تم نے کیا کوئی ریکارڈ قائم کرنا ہے،،، میری شکل کیا دیکھ رہی ہوں اٹھو کچن میں چلو اور مجھے کھانا دو" عنایہ کو اپنی طرف گھورتا ہوا دیکھ کر نمیر سنجیدگی سے بولا
"آپ اس وقت کھانا کھائیں گے"
عنایہ نے گھڑی میں ٹائم دیکھا جو کہ رات کے دو بجا رہی تھی اور اس وقت عنایہ کا نیند سے برا حال ہو رہا تھا
"کیوں تم کیا چاہتی ہو کہ میں بھوکا ہی مر جاؤں۔۔۔ تم جیسی بیوی تو کسی دشمن کو بھی نہیں ملنی چاہیے جسے اپنے شوہر کا احساس ہی نہ ہو"
نمیر اسے مزید شرمندہ کرتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔ عنایہ صوفے سے اٹھ کر اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی
"میں نے صرف آپ سے اتنا پوچھا ہے کہ آپ اس وقت کھانا کھائیں گے کیوکہ رات کافی ہو گئی ہے۔۔۔۔ کھانا دینے سے انکار تو نہیں کر رہی میں"
عنایہ اس کو دیکھتی ہوئی افسوس سے بولی
"تم ذرا انکار کر کے تو دیکھو پھر دیکھو کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ"
نمیر اس کے قریب آ کر بولا تو عنایہ کو حیرت ہوئی اسے سمجھ میں نہیں آیا آخر کس بات کو لے کر وہ اس سے لڑنے کے موڈ میں ہے۔۔۔
عنایہ اس کی بات کا کوئی جواب دیئے بنا کچن میں چلی آئی اور فرج سے چاول نکالنے لگی آج حمیدہ نے اس کے کہنے پر ہی یخنیٰ پلاؤ بنایا تھا
"چاول نہیں کھاؤں گا میں اس وقت"
اپنے عقب سے عنایہ کو نمیر کی آواز سنائی دی عنایہ نے بغیر کچھ بولے دوپہر کا رکھا ہوا قورمہ نکالا۔۔۔ نمیر وہی چیئر پر بیٹھ کر اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کرنے لگا اور مائیکرویو اون میں قورمہ گرم کرنے کے بعد وہ چنگیر سے روٹی نکال کر گرم کرنے لگی
"دوپہر کی روٹی نہیں تازہ روٹی بناؤ میرے لئے"
اب وہ عنایہ پر ایک اور حکم صادر کر چکا تھا عنایہ نے گلابی آنکھوں سے جو نیند کی وجہ سے بوجھل ہو رہی تھی ایک نظر نمیر کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ عنایہ نے بغیر کچھ کہے فرج سے آٹا نکالا اور روٹی کے دو پیڑے بنائیے
"چڑیا جتنی خوراک نہیں ہے میری، مرد ہوں میں اور جتنا تمہارے ہاتھ کی روٹی کا سائز ہے بندہ آرام سے چار روٹیاں کھا جائے"
وہ اٹھ کر عنایہ کے پاس آیا تھوڑا سا آٹے نکال کر عنایہ کو تھمایا عنایہ نے اس کا بھی پیڑہ بنایا اور دس منٹ کے اندر تین روٹیاں بنا کر قورمہ پلیٹ میں نکال کر روٹیوں کا چنگیر نمیر کے سامنے رکھتی وہ کمرے میں سونے کے لئے جانے لگی
"کہاں جا رہی ہو یہ دوبارہ گرم کرو روٹیاں بنانے کے چکر میں ٹھنڈا ہوگیا"
نمیر کے کہنے پر عنایہ نے نمیر کو دیکھا ضبط کرتی ہوئی قورمہ دوبارہ گرم کرنے لگی
"جلدی سے کھالیں کہیں روٹیاں ٹھنڈی نہ ہو جائے"
پلیٹ دوبارہ نمیر کے سامنے رکھ کر عنایہ آہستہ سے بولی
"زبان کم چلاؤ پانی کا جگ اور گلاس رکھو ٹیبل پر"
نمیر اس کے تپے ہوئے چہرے کو دیکھ کر ایک بار پھر بولا۔۔۔ عنایہ کا شدت سے دل چاہا کے وہ گلاس ٹیبل پر رکھنے کی بجائے اس کے سر پر دے مارے کیوکہ وہ نوٹ کر رہی تھی وہ کافی دیر سے اسے بلاوجہ زچ کر رہا تھا اس سے پہلے وہ عنایہ کو کبھی اتنا برا نہیں لگا۔۔۔ ٹیبل پر پانی سے بھرا جگ اور گلاس رکھ کر وہ کچن سے نکل گئی
"عنایہ"
اپنے نام کی صدا پر دوبارہ پیر پٹختی ہوئی وہ کچن میں آئی
"آخر ہو کیا گیا ہے آپ کو"
اب عنایہ کی آنکھوں میں نیند کم اور حیرت زیادہ دی آخر وہ کیوں اس کے ساتھ ایسا کر رہا تھا
"تم نے کھانا کھایا تھا"
نمیر سنجیدہ تاثرات سے اس کو دے کر پوچھنے لگا
"جی انٹی کے ساتھ کھا لیا تھا"
آدھا کھانا ٹھونسنے کے بعد اسے عنایہ کا خیال آیا تھا عنایہ تپتی ہوئی سوچنے لگی اور جانے کے لیے واپس مڑی تو دوبارہ نمیر نے اس کو پکارا
"میں تمہاری فکر کر کے کھانا کھانے کا نہیں پوچھ رہا۔۔۔ اس لیے پوچھ رہا ہو تم نے یہ قورمہ ٹیسٹ نہیں کیا اس میں نمک کم ہے چلو نمک اٹھا کر دو مجھے"
نمیر کے بولنے پر عنایہ صدمے سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ قورمے میں نمک بالکل مناسب مقدار میں موجود تھا دوسرا یہ کہ نمک دانی کھانے کی ٹیبل پر ہی موجود تھی مگر وہ ہاتھ بڑھا کر نمک دانی لینے کی بجائے اس کام کے لیے بھی عنایہ کو آواز دے رہا تھا
عنایہ اس کے ہاتھ میں نمک دانی پکڑا کر وہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی
"گڈ یہ پہلا تم نے اچھا کام کیا ہے جب تک شوہر کھانے سے فارغ نہیں ہو جائے بیوی کو اسی طرح اس کے سامنے بیٹھنا چاہیے"
نمیر عنایہ کو بولتا ہوا اب مزے سے کھانا کھانے لگا
"کاش شوہر بھی ایسا ہو جو اپنی بیوی کی نیند کا احساس کر لے"
نہ چاہتے ہوئے بھی عنایہ کے منہ سے شکوہ نکلا
"تو ابھی بیڈ روم میں جاکر تمہیں سونا ہی ہے۔۔۔ کون سا میں تمہیں رات بھر جگانے کا پلان بنانے لگا ہوں"
عنایہ کا شکوہ سن کر نمیر بولا اور چپ کرکے اپنا کھانا کھانے لگا
جبکہ عنایہ اس کی بات سن کر اور اس کے جملے پر غور کر کے خاموشی سے بیٹھی برتنوں کو گھورنے لگی
****
الارم کی آواز پر نمیر کی آنکھ کھلی وہ اٹھ کر عنایہ کے پاس آیا اسے معلوم تھا وہ صرف آواز دینے پر ہرگز نہیں اٹھے گی اس لیے نمیر اس کے نام کی پکڑ کے ساتھ اس کا کندھا زور زور سے ہلانے لگا مگر وہ اپنے کندھے سے نمیر کے ہاتھ جھٹک کر دوبارہ سو گئی تو نمیر اس کو گھورنے لگا
"عنایہ میں آخری بار پوچھ رہا ہو تم اٹھ رہی ہو یا نہیں" نمیر اس کے سر پر کھڑا اسے پوچھنے لگا مگر جواب نہ آنے پر نمیر نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر مضبوطی سے اس کو گود میں اٹھا لیا
"یہ۔ ۔۔۔ یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو،،، کیا کر رہے ہیں نیچے اتاریں مجھے"
عنایہ نے اپنا وجود ہوا میں محسوس کیا۔۔۔ آہستہ اس نے آنکھیں کھولیں تو خود کو نمیر کی گود میں پایا وہ خواس باختہ ہو کر ایک دم بوکھلا کر بولی۔۔۔ نمیر نے اس کے بوکھلائے ہوئے چہرے پر نظر ڈالی بنا اس پر ترس کھائے نیچے اتارنے کی بجائے فرش پر پھینک دیا
"حد ہوتی ہے کوئی لڑکی آخر اتنا بے خبر کیسے سو سکتی ہے،، وہ بھی اتنا سارا۔۔۔ تمہارے لئے تو کوئی تابوت منگوانا چاہیے۔۔۔ سر سے پاؤں تک پٹیاں باندھ کر تمہیں اس میں ڈال دینا چاہیے تاکہ تم صدیوں تک آرام سے سوتی رہو۔۔۔ اب زیادہ مجھے گھورنے کی ضرورت نہیں ہے،،، کپڑے نکالو میرے اور ناشتہ بنا کر خود بھی کالج کے لئے تیار ہو جاؤ" نمیر اس کو بات سناتا ہوا واشروم چلا گیا
عنایہ کو رونا آنے لگا بھلا اس طرح کون نیند سے جگاتا ہے کل رات کو اسکو سوتے سوتے چار بج گئے تھے اور ابھی ساڑھے سات بج رہے تھے جب تک وہ آٹھ گھنٹے کی نیند نہ لے اس کا دماغ سارا دن سن رہتا تھا۔۔۔۔وہ فرش سے اٹھ کر وارڈروب کھول کر جو سامنے ڈریسنگ نظر آئی بیڈ پر پٹخ کر بیڈ روم سے باہر نکل گئی
نمیر نے کل رات کو ہی اسے بتا دیا تھا کہ وہ ناشتے میں پر پراٹھا کھائے گا۔۔۔۔ جبکہ حمیدہ کے مطابق وہ زیادہ تر صبح فریش جوس لیتا تھا اور ناشتہ آفس میں کرتا تھا۔۔۔ اور پراٹھا تو وہ کبھی چھٹی والے دن موڈ ہونے پر بنواتا تھا۔۔۔۔ ابھی تک حمیدہ نہیں آئی تھی عنایہ سستی سے ہاتھ چلاتی ہوئی پراٹھا بنانے لگی
"عنایہ"
نمیر کی چنگھاڑتی ہوئی آواز عنایہ کے کانوں میں پہنچی پراٹھا چھوڑ کر بیڈ روم میں آئی مگر نمیر کو دیکھ کر بےساختہ اس نے اپنے ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا کیوکہ وہ بغیر شرٹ کے ٹراؤزر میں کھڑا تھا اور اس کے گلے میں ٹاول ڈلا تھا یقیناً وہ بھی شاور لے کر نکلا تھا
"یہ کیا ڈریسنگ نکالی ہے تم نے کیا جوکر سمجھ رکھا ہے"
نمیر اس کا شرمانا نظر انداز کرکے بیڈ پر پڑی براون پینٹ کے ساتھ لائٹ پینک شرٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ عنایہ اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر بیڈ پر دیکھنے لگی
"مجھے کیا معلوم آپ کو کس طرح کی ڈریسنگ پسند ہے اور لڑکوں کی ڈریسنگ کا مجھے کیا اندازہ"
عنایہ نمیر کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز کرتی ہوئی بولی۔۔ نمیر اس کے گریز کو دیکھ کر اس کے پاس آیا
"تو آج سے میری پسند اور ناپسند کے بارے میں اچھی طرح جان لو ڈریسنگ چاہے لڑکے کی ہو یا لڑکی کی،،، ڈریسنگ کا سینس ہر ایک انسان میں ہونا چاہیے۔۔۔ چلو میرے سامنے دوسری ڈریس پینٹ سلیکٹ کرو اسی شرٹ کے ساتھ"
نمیر عنایہ کا بازو پکڑ کر وارڈروب کھول کر اسے وارڈروب کے سامنے کھڑا کرتا ہوا کہنے لگا اور خود اس کی پشت پر کھڑا ہوگیا۔۔۔ ابھی پراٹھا بنانے کا مرحلہ طے نہیں ہوا تھا وہ صبح ہی صبح اس پر دوسرا کام مسلط کر چکا تھا۔۔۔ عنایہ کا دھیان سامنے ہینگ ہوئی پینٹس پر جب جاتا جب وہ اپنے پیچھے،، اتنے نزدیک کھڑے نمیر کا سینہ اپنی کمر سے ٹچ ہوتا محسوس نہ کرتی۔۔۔ نمیر کی قربت سے وہ نروس ہونے لگی اور سامنے ترتیب سے ہینگ ہوئی پینٹس کو کنفیوز ہو کر دیکھنے لگی۔۔ تبھی نمیر نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر تھاما
"میں نے تمہیں پینٹ چوز کرنے کو کہا ہے،،، یہاں پر کھڑے کھڑے سونے کو نہیں کہا"
نمیر جھک کر اپنے ہونٹ اس کے کانوں کے قریب لا کر سرگوشی کرتا ہوا بولا عنایہ کو اس کی قربت سے پسینے آنے لگے
"پلیز آپ پہلے پیچھے ہٹیے"
عنایہ گھبراتی ہوئی بولی
"جلدی سے پینٹ چوز کرو ناشتہ بھی کرنا ہے مجھے"
اب کی بار نمیر کی آواز میں سختی کے ساتھ ساتھ عنایہ کو اپنے کندھوں پر اس کے ہاتھ کا دباؤ بھی محسوس ہوا عنایہ نے کانپتے ہاتھوں سے ایک ہینگر تھاما جس میں نیوی بلو پینٹ ہینگ تھی۔۔۔ نمیر نے اس کے کندھے سے اپنا ہاتھ ہٹائے بنا عنایہ کے بازو پر اپنا ہاتھ پھیرتا ہوا ہینگر تک لے گیا۔۔۔ عنایہ نے ہینگر وہی چھوڑ دیا اب وہ عنایہ کا نرم اور گداز ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے ہینگر پر رکھ چکا تھا جس میں گرے پینٹ ہینگ تھی
"تمہارا چوز کیا ہوا کمبینیشن بھی اچھا تھا،،، لیکن اگر غور کرو تو یہ کمبینیشن بھی برا نہیں،، بالکل ہمارے کمبینیشن کی طرح"
بات کرتے ہوئے نمیر کے ہونٹ عنایہ کے بالوں کو چھونے لگے۔۔۔ عنایہ کی پشت نمیر کے سینے سے جڑھی ہوئی تھی۔۔۔ عنایہ پاگل ہو جاتی اگر وہ مڑ کر نمیر کو پیچھے دھکیل کر کمرے سے باہر نہیں نکلتی تو
کچن میں آ کر وہ جلدی جلدی ہاتھ چلا کر پراٹھا بنانے لگی۔۔۔ جب تک نمیر ٹیبل پر آیا عنایہ اس کے لیے ناشتہ بنا چکی تھی
"نمیر یہ بہت غلط بات ہے گھر میں آئے اسے دو دن نہیں ہوئے اور تم نے اسے کام پر لگا دیا"
عنایہ نمیر کو ناشتہ سرو کر کے اپنی چیئر پر بیٹھی ثروت نمیر کو دیکھ کر شکوہ کرتی ہوئی بولی
"غلط بات کونسی ماما،، دو دن بعد بھی اسے میرے سارے کام کرنے ہیں اگر دو دن پہلے کرلے گی تو اس میں کیا برائی ہے۔۔۔۔ ویسے بھی اب ہم دونوں کو ایک ساتھ زندگی گزارنی ہے تو پھر یہ بلاوجہ کی فارمیلیٹز کیوں۔۔۔ اب شادی ہوئی ہے یہ سب تو برداشت کرنا پڑے گا"
عنایہ نے نمیر کو دیکھا تو نمیر اس کو دیکھ کر بول رہا تھا خود نہ جانے وہ اسے کیا جتانا چاہ رہا تھا عنایہ کو تو اس سے خوف ہی آنے لگا۔۔۔۔ عنایہ نے ایک نظر ثروت کو دیکھا تو وہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔ عنایہ چپ کر کے روم میں جانے لگی
"بیٹا ناشتہ تو کرو ناں۔۔۔۔ کہاں جا رہی ہو"
ثروت نے عنایہ کو کرسی سے اٹھتے دیکھا تو ایک دم بولی
"آنٹی کالج کے لیے تیار ہونا ہے لیٹ ہو جاؤں گی،،، کینٹین سے ہی کچھ کھا لوں گی"
عنایہ ثروت کو جواب دینے لگی
"واپس بیٹھو اور ناشتہ کرو اس کے بعد کالج کے لئے تیار ہونا"
اب کی بار نمیر بولا ناچار اسے ناشتے کے لیے بیٹھنا پڑا
نمیر چائے کے گھونٹ بھرتا ہوا ثروت سے باتوں کے دوران عنایہ کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد نظر اٹھا کر دیکھتا وہ کارن فیلکس کے پیالے میں سر جھکائے چھوٹے چھوٹے چمچے منہ میں ڈال رہی تھی
جب نمیر عنایہ کو کالج چھوڑنے گیا وہ تب بھی ایسے ہی سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔ نمیر کو اندازہ تھا وہ اتنی جلدی اس رشتے کو قبول نہیں کر پائے گی۔۔ مگر ان دونوں کی شادی بھی ایک حقیقت تھی۔۔۔۔ اور اس حقیقت کو آج نہیں تو کل اسے قبول کرنا ہی تھا۔۔۔۔ ویسے بھی نمیر کی مردانگی یہ گوارا نہیں کرہی تھی کہ عنایہ اسکے نکاح میں ہوکر اسکے بھائی کی سوچ اپنے دل میں لائے۔ ۔۔۔ نمیر اسے اپنے اور اس کے رشتے کا احساس اس لیے بھی دلانا چاہتا تھا۔۔۔
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 17
"یہ بتاؤ نمیر بھائی کا رویہ تم سے ٹھیک رہا"
شانزے اور عنایہ دونوں کالج پہنچی تو شانزے فکرمندی سے اس سے پوچھنے لگی کیوکہ کل ان دونوں نے موبائل پر سرسری بات کی تھی وہ بھی صرف پڑھائی سے متعلق
"رویہ کیا ٹھیک ہونا ہے،،، وہ تو میری نیندوں کے دشمن بن چکے ہیں"
عنایہ نہ افسوس کرتے ہوئے کہا
"واقعی۔۔۔ چلو یہ تو اچھی نیوز ہے"
شانزے شرارتی انداز میں معنی خیزی سے عنایہ کو دیکھ کر بولی
"اف تم بھی نا بات کو کہاں لے گئی۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔ نمیر بھائی تو اب پہلے جیسے لگتے ہی نہیں ہیں،، وہ تو دوسری مامی بن چکے ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ سخت۔۔۔۔ اب تو مجھے ان سے بہت ڈر لگنے لگا ہے شانزے"
عنایہ نے پریشان ہوکر شانزے کو بتایا مگر شانزے نے نمیر کو بھائی کہنے پر اپنا ہی سر پیٹ لیا
"عنایہ تمہارا کیا ہوگا تم اپنے شوہر کو بھائی بول رہی ہو یار۔۔۔۔ یقیناً اسی طرح کی کوئی دوسری الٹی سیدھی حرکت تم نے ان کی سامنے بھی کی ہوگی اسی لیے نمیر بھائی نے سختی والا رویہ اپنایا ہوگا،، حیرت کی بات تو یہ ہے وہ نوفل کے دوست ہوکر بھی معقول انسان لگے مجھے۔۔۔۔ تم نہ اب بیوقوفیوں والے کام،،، پلس گھبرانا اور ڈرنا چھوڑ دو۔۔۔ اور سب سے بڑی بات اپنے اور نمیر بھائی کے رشتے کو سمجھو"
شانزے اس کو سمجھانے لگی وہ دونوں باتیں کرتے کرتے کلاس میں جارہی تھی
"بھائی تو ویسے ہی منہ سے نکل گیا بچپن سے بھائی ہی بولا ہے،، عادت ایک دن میں تو ختم نہیں ہوگی ناں یہ بھی تم نے خوب کہی کے رشتے کو سمجھو بہت آسان ہے نا تمہاری نظر میں سب کچھ"
عنایہ شانزے کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی
"یہ سب بالکل آسان نہیں ہے عنایہ میں سمجھ سکتی ہوں اس وقت تمہاری سیچویشن مگر یہ سب کوئی دوسرا آکر بھی ٹھیک نہیں کرے گا اسے تمہیں ہی ٹھیک کرنا ہے اب تم پریکٹیکل لائف میں آگئی ہو اس طرح پریشان ہونے کی بجائے حالات کو فیس کر کے،، اس کے حساب سے چلنا سیکھو"
شانزے دوبارہ اس کو سمجھانے لگی
"تمہاری بات ٹھیک ہے مگر میں ابھی اسٹیڈیز کے علاوہ کسی اور دوسری چیز کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی ایک تو ہمارے ایگزیمز بھی بالکل ہمارے سر پہ کھڑے ہیں۔۔۔ ویسے تم بتاؤ نوفل بھائی سے تمہاری بات ہوئی تم نے ان کے بارے میں کیا سوچا ہے"
عنایہ نے اپنی الجھنوں سے نکلتے ہوئے شانزے سے اس کے بارے میں پوچھنے لگی جس پر شانزے اس کو دیکھ کر مسکرانے لگی
"میں اس وقت تمہیں تو اماں بن کر سمجھا رہی ہوتی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ میں خود اپنے معاملے میں بے حد کنفیوز ہو ایک طرف تو نوفل کا انداز اس کا رویہ دیکھ کر دل اس کی طرف مائل ہوتا ہے مگر دوسرے ہی پل یہ سوچتی ہوں کہ کیا کسی مرد پر اعتبار کرنا ٹھیک رہے گا۔۔ مجھے اعتبار کے ٹوٹنے سے بہت ڈر لگتا ہے عنایہ،،وہ بھی تو ایک مرد ہے نا"
وہ دونوں باتیں کرتے کرتے کلاس روم کے اندر پہنچ گئی
"شانزے جو تمہاری آپی کے ساتھ ہوا وہ بہت برا ہوا مگر ہر مرد تو ایک جیسا نہیں ہوتا نا اب یہاں پر تمہیں بھی پریکٹیکل ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے تم بھلا اکیلے اپنی ساری زندگی گزار سکتی ہو یہ ہمارا معاشرہ اس قابل ہے۔۔۔ یہاں عورت کا مرد کے سہارے کے بغیر سروائیو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔ چاہے وہ سہارا باپ کا ہو بھائی کا،، بیٹے یا پھر شوہر کا۔۔۔ عورت کتنی ہی انڈیمانڈینٹ ہوجائے بھلے ہی وہ ایجوکیٹڈ کیوں نہ ہو مگر اسے اکیلے زندگی گزارنے میں کئی طرح کے مشکلات پیش آتی ہیں"
شانزے عنایہ کی باتیں غور سے سننے لگی مگر تھوڑی بعد کلاس اسٹارٹ ہونے پر وہ دونوں چپ ہو گئی
*****
"یہ پولیس والے ان کا تو کوئی دین ایمان کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ سمجھو یہ تو پیسوں کے آگے اپنا ایمان بھی نیچ دیں"
شانزے اور عنایہ کالج کی کینٹین میں موجود تھے تب پیچھے والی ٹیبل سے ایک لڑکی کی آواز آئی جس پر شانزے نے گردن موڑ کر دیکھا وہ لڑکی اپنی تین دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی پولیس پر تبصرہ کر رہی تھی شانزے دوبارہ اپنے سامنے رکھی پلیٹ میں سے سموسہ کھانے لگی عنایہ بھی اپنی جمائی روکے اس کا ساتھ دے رہی تھی
"کیوں ایک ماہ پہلے ہی تو تمہارے کزن کو کسی ایماندار پولیس والے نے پکڑا تھا اور لاک اپ کر کے اس پر کیس بھی تو چلایا تھا"
اسی لڑکی کی ایک سہیلی بولی
"ایماندار کہاں سے آگیا۔۔۔ ایس۔پی نوفل اس نے میرے کزن کو آرسیٹ ضرور کیا تھا اور اس پر کیس بھی چلایا مگر بعد میں اسی نے پیسے لے کر معاملہ رفع دفع کر دیا اب میرا کزن آزاد ہے"
وہی لڑکی دوبارہ بولی عنایہ تو سن ذہن کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی مگر نوفل کے نام پر شانزے کا دماغ ان لڑکیوں کی گفتگو کی طرف گیا
"مگر یہ زیادتی نہیں ہوئی اس لڑکی کے ساتھ تمہارے کزن نے تو۔۔۔۔ میرا مطلب ہے سننے میں آیا تھا کافی برا کیا"
ایک اور لڑکی بولی تو شانزے کا ماتھا ٹھنکا اسے وہ آدمی یاد آیا جو پولیس اسٹیشن میں شانزے کو ملا تھا اور شانزے سے اپنی بیٹی کا ذکر کیا تھا اس بات کو بھی مشکل سے ایک ماہ ہوا تھا
"کیا تمہارے کزن نے نایاب نام کی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی شانزے ایک دم اٹھ کر اس لڑکی کی ٹیبل پر گئی اور اس لڑکی سے سوال کرنے لگی جو زوروشور سے پولیس کی برائیاں کر رہی تھی
"زیادتی تھوڑی کی تھی اس لڑکی نے تو الزام لگایا تھا میرے کزن پر،، جس کی صورت میرے کزن کو گرفتار کیا گیا تھا۔۔۔۔ ویسے تم کون ہو اس لڑکی کی" وہ لڑکی شانزے کے سوال پر پہلے گھبرائی اس کے بعد اپنا اعتماد بحال کرتی ہوئی پوچھنے لگی
"میرا اس لڑکی سے صرف ہمدردی کا رشتہ ہے مگر تمہارے کزن نے اس لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔۔۔۔ اگر پیسے لے کر کسی پولیس والے نے اسے چھوڑ دیا ہے تو اس نے بھی اپنے فرض سے غداری کی ورنہ تمہارے کزن کو اور اسی جیسے مردوں کو بیچ چوراہے پر لے جاکر کوڑے مارنے چاہیے"
شانزے ایک دم جذباتی ہوکر بولی
"شانزے یہ کیا ہوگیا ہے تمہیں یہاں آ کر بیٹھو"
عنایہ تو اچانک شانزے کے لیے ری ایکشن پر بوکھلا گئی ایک دم کرسی سے اٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹیبل پر لے آئی
"کیوں کسی کے پرائے پھڈے میں اپنی ٹانگ اڑا رہی ہو،،، چلو سر مجاہد کی کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے"
عنایہ نے اس کے موڈ کو دیکھکر دیکر اسے وہاں سے لےجانا چاہا
"سر مجاہد کی کلاس تم اٹینڈ کرو مجھے ایک ضروری کام ہے وہی سے سیدھا گھر جاؤں گی کل ملتے ہیں" شانزے اپنے کاندھے پر بیگ لٹکائے دوسرے ہاتھ میں فائل اٹھاتی ہوئی کینٹین سے جانے لگی عنایہ نے دو مرتبہ اسے پیچھے سے آوازیں دی مگر اسے اب نوفل سے ملنا تھا
****
"جی سر یوں سمجھے آپکا کام ہوگیا۔۔۔۔ آپ بالکل بے فکر رہیں"
نوفل جو اپنے موبائل پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھا،،، آج وہ یونیفارم کی بجائے سول ڈریس میں پولیس اسٹیشن آیا تھا۔۔۔ سامنے سے شانزے کو کالج یونیفارم میں آتا دیکھ کر اس نے جلدی سے بات مکمل کی
"خیریت تم یہاں پر کیوں آئی ہو"
نوفل نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے شانزے سے پوچھا
"ضروری بات کرنی ہے مجھے تم سے" شانزے اس کے ٹیبل کے سامنے کھڑی سنجیدگی سے بولی
"تو یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی میں آجاتا شام میں،،، چلوں اس وقت میں تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں آج مجھے ایک ضروری کام سے کسی سے ملنا ہے کل فرصت میں بات کرتے ہیں"
نوفل آس پاس نظر دوڑاتا ہوا اپنا موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا بولا اسے یوں شانزے کا پولیس سٹیشن آنا اچھا نہیں لگا نہ وہ اس وقت اسے ٹائم دے سکتا تھا اس لئے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا
"مجھے تمہارے ساتھ گھر نہیں جانا نہ ہی ابھی تم کہیں جا رہے ہو بلکہ تمہیں میرے سوالات کا جواب دو گے اور بالکل سچ بولو گے"
شانزے بگڑے ہوئے موڈ کے ساتھ بولی
"ٹھیک ہے میں تمہیں گھر نہیں چھوڑ رہا مگر ہم کہیں اور بات کر لیتے ہیں یہاں نہیں کار میں آکے بیٹھو" نوفل اس کا موڈ دیکھ کر بحث کیے بنا نارمل انداز میں بولا اور پولیس اسٹیشن سے باہر نکل گیا شانزے کو بھی اس کے پیچھے آنا پڑا
****
نوفل اور شانزے سے اس وقت ریسٹورینٹ میں موجود تھے مگر نوفل نے یہاں کیبن بک کروایا تھا تاکہ شانزے کو کالج یونیفارم کی وجہ سے آدھی عوام گھور گھور کر نہ دیکھے۔۔۔ کار میں بھی شانزے بالکل سیریز بیٹھی تھی نوفل نے بھی اس جوالا مکھی کو چھیڑنے کی کوشش نہیں کی
"اب بولو کس بات کو لے کر اتنی خاموش ہو"
نوفل نے ویٹر کو آرڈر دینے کے بعد شانزے کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی نرم نگاہوں کے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا
"تم اپنی جاب سے کتنے سنسیئر ہو"
شانزے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی پوچھنے لگی
"ایک پولیس والے کو جتنا سنسیئر ہونا چاہیے اس سے تھوڑا زیادہ۔۔۔۔ مگر تم سے تو میں ہنڈریڈ پرسنٹ مخلص ہوں۔۔۔ تم چاہو تو اس کا ثبوت میں ابھی تم سے نکاح کرکے دے سکتا ہوں کیا ارادہ ہے پھر یہاں سے لنچ کر کے سیدھے کورٹ چلیں"
نوفل اس کی بات کو مذاق کا رنگ دیتا ہوا بولا
"تم نے نایاب کے مجرم کو کیوں چھوڑا نوفل"
شانزے اس کی مسکراہٹ اور مذاق کو نظرانداز کرتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر نوفل کی مسکراہٹ تھمی
"دیکھو شانزے یہ سب میری جاب سے ریلیٹڈ معاملات ہیں ان کو ہماری بیچ میں نہ ابھی نہ بعد میں کبھی،، موضوع بحث ہونا چاہیے۔۔ تم بتاؤ تمھارے ایکزیمز کب سے اسٹارٹ ہو رہے ہیں"
نوفل نے اسٹریٹ فارورڈ ہوکر اسے کچھ بھی پوچھنے سے منع کیا۔۔۔ اب وہ خود بھی سنجیدگی سے اسی کے متعلق بات کر رہا تھا شانزے نوفل کو دیکھنے لگی
"کتنے پیسے لیے تم نے اس نایاب کے مجرم کو چھوڑنے کے لئے"
شانزے طنزیہ لہجے میں بولی ویسے ہی نوفل نے ٹیبل پر ہاتھ مارا
"انف شانزے۔۔۔۔ ان باتوں سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہے،، یہ میرے آفیشل میٹرز ہیں جن میں میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتا اور نہ ہی کسی سے اس موضوع پر بات کرنا پسند کرتا ہوں"
نوفل کے تعصورات بھی غصے والے تھے مگر شانزے اس کے غصے میں دیکھ کر کم از کم اس معاملے میں تو دبنے والی نہیں تھی
"صحیح ہے میرا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے مگر آج سے تمہارا بھی مجھ سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے"
شانزے جیسے ہی صوفے سے اٹھی نوفل نے اس کی کلائی پکڑی
"کیا بکواس ہے یہ۔۔۔ کسی دوسرے کی وجہ سے اپنا اور میرا تعلق ختم کرنے کی دھمکی دے رہی ہو مجھے"
وہ غصے میں اسے دوبارہ صوفے پر بٹھاتا ہوا بولا
"تمہیں معلوم ہے نوفل مجھے تمہاری کون سی بات نے اپنی طرف متوجہ کیا تھا یا میں تمہارا سوچنے پر مجبور ہوئی تھی صرف اسی بات نے کہ تم نے ایک ایسی مظلوم لڑکی کے حق کے لیے آواز اٹھائی اس کے لیے لڑے جس سے تمہارا کوئی لینا دینا کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔ ایسے ہی نہ جانے کتنی لڑکیوں ظلم و زیادتی کا شکار ہوکر زندہ درگور ہو جاتی ہیں مٹی ڈال دی جاتی ہے ان پر۔۔۔ کوئی بھی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے مجرموں کو انجام تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔۔۔ مجھے لگا کہ تم ایک اچھے انسان ہونے کے ناطے اس لڑکی کی تکلیف اس کے قرب کو سمجھو گے مگر جب آج میں نے کسی دوسرے کے منہ سے سنا کے تم نے نایاب کے مجرم کو پیسوں کے بدلے میں چھوڑ دیا مجھے اپنے ہی اوپر دکھ ہوا کہ میں نے تمہارے متعلق سوچا ہی کیوں دل دکھایا ہے آج تم نے میرا بری طرح"
شانزے کا صبط سے چہرہ سرخ ہونے لگا بہت مشکلوں سے اس نے اپنے آنسوؤں کو باہر نکلنے سے روکا کیوکہ نائلہ کے سوا وہ کسی کے سامنے انہیں باہر آنے کی اجازت نہیں دیتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی سے کمزور سمجھے۔۔۔
شانزے نے ایک بار دوبارہ اٹھنا چاہا نوفل نے ایک بار دوبارہ اس کی کلائی پکڑ کر اسے بٹھا دیا
"ہوگی نہ تمہاری بات مکمل اب میری بات بھی سنو۔۔۔ نایاب کے ساتھ زیادتی کرنے والا لڑکا،،، اس کا کوئی عام آدمی نہیں ہے اگر اس پر کیس چلایا بھی جاتا یا اسے سزا ہو جاتی تو اس کے باپ کی اتنی ریسورسس ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے بیٹے کو چھڑوا لیتا۔۔۔ ہاں میں نے پیسے لیے ہیں اس کے باپ سے اور اس کا بیٹا آپ حوالات میں نہیں ہے لیکن تم اگر میری بات سمجھو تو اس میں نایاب کا ہی فائدہ ہے"
نوفل سانس لینے کے لئے روکا تو شانزے بولنا شروع ہوگئی
"ہاں،، اب وہ پیسے تم نے نایاب کے باپ کو دے دو گے تاکہ وہ اپنا منہ بند کرلے اور چار پیسے سے اس غریب آدمی کا بھی بھلا ہوجائے گا۔۔۔ غریب لڑکی کی عزت تو کوئی عزت ہی نہیں ہوتی ناں یا پھر اس کی عزت اتنی ہی سستی ہوتی ہے کہ پیسوں سے ان لوگوں کا منہ بند کر دیا جائے
شانزے کو نوفل کی سوچ نہایت بری لگی
"تم اپنا منہ بند کرو تو میں اپنی بات مکمل کرو۔۔۔ کیوں دونگا وہ پیسے میں نایاب کے باپ کو۔۔۔ کونسا ایسا پولیس والے تم نے دیکھا ہے جو غریبوں اور مظلوموں پر پیسے لٹائے وہ میرا پیسہ ہے اور اس وقت میرے اکاؤنٹ میں موجود ہے"
شانزے کو آج نوفل کی سوچ پر افسوس ہونے لگا کیسے بے شرمی کے ساتھ وہ اپنے اصلی کرتوتوں کا ذکر کر رہا تھا
"اپنے حصے کے پیسے لینے کے بعد میں نے اس کے باپ سے ایک ڈیل کی ہے جسکی وجہ سے اس کا بیٹا ساخوں سے باہر آیا ہے اور وہ ڈیل یہ ہے کہ اس لڑکے کا باپ پوری عزت کے ساتھ نایاب کو اپنے بیٹے کے لئے بیاہ کر اپنے گھر لے جائے گا" نوفل نے شانزے کو دیکھتے ہوئے بتایا
"اس طریقہ کار سے نایاب کی عزت واپس آجائے گی" شانزے نوفل سے پوچھنے لگی
"عزت کا معاملہ ایسا ہے کہ جانے کے بعد واپس نہیں آسکتی،، اگر نایاب کا مجرم سلاخوں کے پیچھے ہوتا نایاب کی عزت تب بھی واپس نہیں آ سکتی تھی۔۔۔۔ آج کے دور میں اتنا اعلی ظرف مرد کوئی بھی نہیں ہے جو بےداغ لڑکی سے شادی کرے اور اسے اپنا نام اور عزت دے۔۔۔۔ اس لڑکے سے شادی کرنے سے کم ازکم لوگ نایاب کو عزت سے جینے دیں گے"
نوفل شانزے کو سمجھانے لگا
"تم قائم کر لو نا اعلیٰ ظرفی کی مثال نایاب سے شادی کر کے"
شانزے نے بے ساختہ نوفل سے کہا کیوکہ اسے نوفل کی بات ہضم نہیں ہوئی تھی
"ٹھیک ہے اگر تم اپنے اوپر سوتن برداشت کرنے کا مادہ رکھتی ہو تو میں ایسا کر لیتا ہوں"
نوفل نے جتنی سنجیدگی سے کہا شانزے اسے گھورنے لگی
"کیوں،،، ایسے کیوں گھور رہی ہو اب تمہاری اعلی ظرفی کہا گئی۔۔۔ چہرہ دیکھو اپنا ذرا سی سوتن والی بات تو برداشت نہیں ہو رہی پوری سوتن برداشت کرو گے" نوفل سر جھٹکتا ہوا کہنے لگا تھوڑی دیر بعد ویٹر کھانا لے آیا تو دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔۔ شانزے نوفل سے مکمل مطمئیں نہ تھی مگر بدگمانی چھٹ گئی تھی
"ویسے تمہاری تنخواہ کتنی ہے نوفل"
کھانے کے دوران شانزے پوچھنے لگی جس پر نوفل اس دیکھ کر ہنسا
"کبھی میں نے تم سے تمہاری عمر پوچھی ہے جو مجھ سے میری تنخواہ پوچھ رہی ہو"
نوفل اسے گول جواب دیتا ہوا دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگیا
"تم تو ہر بات کا مجھے الٹا ہی جواب دینا بس"
شانزے نے پلیٹ کو آگے کھسکاتے ہوئے کہا باہر کھانا وہ کم ہی کھاتی تھی اور نوفل کے ساتھ اس طرح فرسٹ ٹائم باہر کھانا کھاتے ہوئے اسے تھوڑا عجیب لگ رہا تھا مگر اپنا کونفیڈنس برقرار رکھنے کے لئے بنا گھبرائے تھوڑا بہت اس نے کھا ہی لیا
"یار سیدھا جواب یہ ہے میں اتنا کما لیتا ہوں کہ ہم دونوں کے ساتھ ساتھ ہمارے مستقبل میں آنے والے دونوں بچوں کا گزارا بہت آرام سے ہو جائے گا"
نوفل کے سیدھے سے جواب پر شانزے اس کو گھور کر رہ گئی
"میں بہت محنت سے کماتا ہوں یوں کھانا چھوڑ کر رزق ضائع مت کرو تھوڑے سے فرائڈ رائس اور لے لو"
نوفل نے کھانے سے اس کا ہاتھ رکتا ہوا دیکھا تو فوراً سیریز ہو کر بولا
"تمہاری محنت کی کمائی۔۔۔۔ معلوم نہیں اور کتنی محنت کی کمائیاں تمہارے اکاؤنٹ میں جمع ہو گی اس وقت"
شانزے اس پر طنز کرتی بولی جس پر نوفل بنا شرمندہ ہوئے ڈھیٹ بن کر ہنس دیا
"ظالم حسینہ شادی کے بعد بےشک اکیلے میں ایسے طعنے دے کر میرا کلیجہ چھلنی کردیا کرنا مگر ہمارے چنوں اور منوں کے سامنے میری عزت رکھ لینا۔۔۔ بے شک پولس والا ہو مگر میں تو باپ کی عزت ہونی چاہیے نا"
وہ ابھی بھی کھانے سے انصاف کرتا ہوا بولا
"اگر تم چاہتے ہو کہ منچورین سے بھرا ڈونگا میں تمھارے سر پر نہ انڈیلو تو اپنی یہ بے ہودہ گفتگو بند کردو"
چنوں منوں کے ذکر پر شانزے ایک پل کے لئے سٹپٹائی مگر دوسرے ہی لمحے اسے سختی سے وارننگ دی اور وہ وارننگ کام بھی آگئی۔۔۔ اب نوفل نوفل کے گھورنے پر مسکراتا ہوا خاموش ہو کر کھانے سے انصاف کر رہا تھا
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 18 long epi
نمیر اپنے بیڈروم میں آیا تو عنایہ بیڈ پر اپنے نوٹس پھیلائے بڑے سکون سے دلجمعی کے ساتھ پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔ وہ آج وقت سے پہلے ہی آفس سے گھر آ گیا تھا عموماً افس سے ہسپتال جاتا اور پھر گھر آتا مگر آج ہسپتال جانے کی بجائے وہ پہلے گھر آگیا۔۔۔۔۔ آتے کے ساتھ ہی ثروت کے کمرے میں سلام کرنے کے لیے گیا۔۔۔ اب وہ اپنے روم میں آیا تھا۔۔۔ پندرہ دن ہو چلے تھے اسکی اور عنایہ کی شادی کو۔۔۔۔ پندرہ دن سے وہ نمیر کے بیڈ روم اور دل دونوں میں بسی ہوئی تھی،،، ان پندرہ دنوں میں اب نمیر کا معمول بن گیا تھا روز صبح عنایہ کو جگانے کا اور اسے اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا وہ سونے کی کتنی شوقین ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی پڑھتے ہوئے کتابوں پر ہی سر رکھ کر سو جاتی پھر نمیر اسکی کتابیں رکھ کر اسے سیدھا کر کے لٹاتا۔۔۔ ایک مرتبہ نیند میں نمیر کو عنایہ کے رونے کی بھی آواز آئی مگر اس کے پاس جاکر دیکھا تو وہ گہری نیند میں تھی یقیناً وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی تب نمیر کا شدت سے دل چاہا وہ اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹا دے مگر کچھ سوچ کر اپنے ارادے پر عمل نہیں کیا
اکثر نمیر عنایہ کو خاموش یا اداس دیکھتا تو اسے اچھا نہیں لگتا عنایہ کا اداس ہونا۔۔۔۔ وہ اس سے نہیں جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیوں اداس ہے،، نہ وہ اس سے پوچھتا تھا اور نہ ہی خود سوچنا چاہتا تھا وہ اس کو جب خاموش دیکھتا وہ جان بوجھ کر اپنے کام کرواتا،، اسے اپنے سامنے اپنے کاموں میں الجھائے رکھتا۔۔۔ نمیر کو اس کے چہرے پر مسکراہٹ اچھی لگتی تھی وہ چاہتا تھا عنایہ مسکرائے اس کے ساتھ خوش رہے اور سوچے بھی اسی کو
"ماما سے تم نے بولا تھا کہ تمہیں فرمان خالوں سے ملنا ہے"
نمیر اپنا موبائل والٹ سائڈ ٹیبل پر رکھتا ہوا عنایہ کے پاس اکر پوچھنے لگا
"جی میرا دل چاہ رہا تھا ماموں جان کو دیکھنے کا"
عنایہ پاس پڑا دوپٹہ اوڑھتی ہوئی اپنے نوٹس سمیٹ کر اسے جواب دینے لگی،، اسے معلوم تھا نمیر کی موجودگی میں اس وقت وہ بالکل نہیں پڑھ سکتی
"یہ بات تم مجھ سے بھی کہہ سکتی تھی۔۔۔ تمہیں مجھ سے بولنے میں کیا قباحت پیش آ رہی تھی"
نمیر بیڈ پر عنایہ کے نزدیک بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے نوٹس لے کر سائڈ پر رکھتا ہوا سوال کرنے لگا۔۔۔ نمیر کے اچانک اتنے قریب بیٹھنے پر عنایہ بیڈ کے کراون سے چپک گئی
"یہ سوال آپ دور بیٹھ کر بھی مجھ سے پوچھ سکتے ہیں"
عنایہ نے اپنی گھبراہٹ کو چھپا کر اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی جس پر نمیر نے اس کا بازو کھینچ کر اسے خود سے قریب کر لیا
"میں تمہارے بےحد نزدیک آکر تم سے ہر طرح کے سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہوں۔۔۔ اب بتاؤ مجھ سے کیوں نہیں کہا جبکہ میں ماما کے سامنے تم پر یہ واضح کر چکا ہوں کہ جو بات کرنی ہے ڈائریکٹ مجھ سے کرو ماما کو یا کسی دوسرے کو بیچ میں لائے بغیر"
نمیر اس کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کر کے۔۔۔۔ عنایہ کے چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے بولا
"آپ اس طرح میرے ساتھ کریں گے تو میں رو دو گی"
عنایہ اس کی اس انداز پر نظریں جھکائے واقعی رو دینے والی ہوگئی۔۔۔ وہ اکثر نمیر کی نظریں،، اس کی طلب کو پہچانتے ہوئے انجان بن جاتی۔ ۔۔۔ وہ جب گھر میں موجود ہوتا اسے اکثر ایسی ہی اپنی قربت کا احساس دلاتا،، جس سے عنایہ کا دل رکنے لگتا
"اگر تمہاری آنکھ سے ایک بھی آنسو گرا تو میں تمہارے ساتھ وہ کروں گا جس کا تم نے سوچا بھی نہیں ہوگا"
نمیر نے اسے اپنے حصار میں لے کر اسے وارننگ دیتے ہوئے کہا عنایہ نے تڑپ کر اسے دیکھا
"آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے"
عنایہ نے نمیر کے سینے پر ہاتھ رکھ اسے پیچھے ہٹانے کی کوشش کی تو نمیر نے اس کی کمر پر اپنے بازو کی گرفت اور بھی مضبوط کردی،، وہ پوری نمیر کے سینے سے لگی ہوئی تھی نمیر کے پاس سے آتی کلون کی خوشبو وہ واضح محسوس کر سکتی تھی
"تم چیلنج کر رہی ہو مجھے"
اپنی دلی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نمیر نے اپنے ہونٹ اسکے ملائم گال پر رکھنے کی کوشش کی،،، عنایہ نے فوراً اپنے چہرے کا رخ دوسرے سمت پھیرا
"نمیر پلیز"
بغیر کسی مزاحمت کے وہ آنکھیں بند کر کے بےچارگی سے بولی شاید آنسووں کو اس نے نمیر کی وارننگ کے ڈر سے روکا ہوا تھا،،، عنایہ کے منہ سے نمیر کو اپنا نام سن کر اور بھی اچھا لگا نمیر کا دل چاہا وہ ان ہونٹوں کو چوم لے جو اسے مدہوش کیے جارہے تھے مگر عنایہ کی حالت دیکھتے ہوئے نمیر کو اپنے دل کو سمجھانا پڑا۔۔۔ وہ اسے اپنی بانہوں کے گھیرے سے آزاد کرتا ہوا بولا
"میری ایک بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لو آج کے بعد جو بھی بات کرنی ہے ڈائریکٹ مجھ سے کرو۔۔۔ ماما یا کسی دوسرے کو بیچ میں لائے بغیر،،، یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ جس کے لیے تمہیں ماما یا کسی دوسرے کو بیچ میں لانا پڑے میرے ساتھ جانا ہے تو مجھ سے کہنے میں کیا پرابلم ہے،، چلو تیار ہو جاؤ ملوا کر لاتا ہوں تمہیں تمہارے ماموں جان سے"
نمیر عنایہ کو بولتا ہوا وہی بیڈ پر لیٹ گیا نمیر کا ہاتھ اپنی ران پر محوس کر کے عنایہ کرنٹ کھا کر بیڈ سے اٹھی اور وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگی
"یہ نہیں کوئی ڈھنگ کا ڈریس نکالو"
نمیر بیڈ پے لیٹا ہوا اپنے چہرے کا رخ وارڈروب کی طرف کیے عنایہ کا ڈریس دیکھ کر بولنے لگا،، اس ڈریس میں کوئی برائی نہیں تھی مگر عنایہ نے اس سے کوئی بحث کیے بغیر اپنے لیے دوسرا ڈریس منتخب کیا کیمل کلر کا ڈریس جس پر وائٹ موتیوں سے گلا بنا ہوا تھا وہ ڈریس ہر لحاظ سے ڈھنگ کا تھا
"کوئی ضرورت نہیں ہے فضول کلر پہننے کی دوسرا دیکھو کوئی"
نمیر بیڈ پر لیٹے لیٹے اسے آرڈر دینے لگا وہ اپنے ڈریس کی بجائے وہ نمیر کو دیکھنے لگی
"صرف شکل و صورت میں نہیں مجھے میری بیوی ہر چیز میں پرفیکٹ چاہیے"
نمیر عنایہ کے دیکھنے پر اسے آنکھ مارتا ہوا بولا۔ ۔۔ عنایہ نے تاسف سے سر ہلا کر دوسرا ڈریس نکالا یہ گرے اور پنک کلر کے کمبینیشن کا ڈریس تھا جس پر ایپلک ورک ہوا تھا
"یہ بھی کوئی اتنا خاص نہیں لگ رہا کوئی دوسرا ٹرائے کرو یار"
نمیر کو اس میں بھی کیڑے نظر آئے تو عنایہ کا موڈ ہی خراب ہونے لگا۔۔۔ وہ ٹھنڈے مزاج کی مالک تھی اس لئے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے ہینگر پر ہاتھ رکھا جس میں یلو کلر کا ڈریس تھا
"نہیں یار یہ تو بالکل بھی نہیں پہننا"
عنایہ کے کانوں میں دوبارہ نمیر کی آواز ابھری۔۔۔۔ اب کی بار وہ آنکھیں بند کر کے ضبط کرتی ہوئی۔۔۔ وائٹ کلر کی نیٹ کی فراک نکالی اور ساتھ فوراً ہی وارڈروب کا دروازہ بند کر دیا
"ہمیں کسی کے قُل میں نہیں جانا ہے بلکہ تمہارے گھر جانا ہے وہ بھی شادی کے بعد فرسٹ ٹائم رکھو اسے فوراً"
نمیر جتنی سنجیدگی سے اس کو دیکھ کر کہنے لگا وہ اتنا سنجیدہ ہرگز نہ تھا وہ اسے آج پھر زچ کر رہا تھا
"کیا چاہ رہے ہیں آپ برائیڈل ڈریس پہن کر چلو جو آنٹی شادی کے لئے لے کر آئی تھی"
عنایہ تنگ آتی ہوئی بولی
نمیر ایک دم بیڈ سے اٹھا اور اس کے قریب آیا عنایہ ڈر کے دو قدم پیچھے ہوئی،، نمیر کے تاثرات دیکھ کر اسے لگا جیسے کوئی غلط بات بول گئی ہو نمیر نے اسے دونوں بازو سے تھام کر وارڈروب سے لگایا عنایہ کا چہرہ اوپر کرتا ہوا اپنا چہرہ اس کے قریب لایا
"بہت موڈ ہو رہا ہے ماما کا لایا ہوا برائیڈل پہننے کا اپنے ایگزیم سے فارغ ہو جاؤ تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر دوں گا۔۔۔ مگر اب کی بار وہ برائیڈل ڈریس میرے نام کا ہوگا"
نمیر بولتا ہوا پیچھے ہٹا اور وائٹ کلر کا نیٹ کی فراک اس کے ہاتھ سے لی
وارڈروب کا دروازہ کھول کر اس فراک کو واپس ہینگ کرتا ہوا وہ عنایہ کے سارے ڈریسیز کا جائزہ لینے لگا اور افسوس سے سر ہلانے لگا
"ڈریسنگ کے معاملے میں تمہاری چوائس بالکل بے کار ہے۔۔۔ سارے بڈھوں والے کلر بھرے ہیں،،، کل تو آفس میں دن بزی گزرے گا پرسوں ہی تمہارے لئے ڈریسز لانے پڑے گے اپنی پسند کے"
وہ خود کلامی کرتا ہوا بولا۔۔۔ بڑی مشکل سے ایک ڈریس نمیر کی نظر سے گزرا۔۔۔ بلیک کلر کا ڈریس اس نے عنایہ کے ہاتھ میں تھمایا دیا
"یہ سارے ڈریس میں نے اپنی پسند سے بنائے ہیں اور مجھے لائٹ کلر ہی اچھے لگتے ہیں"
عنایہ اس کو جتاتی ہوئی بولنے لگی
وہ شروع سے ہی ایسے ہلکے کلر پہنتی تھی جب ثروت نے اس کی چوائس پوچھی تو اس نے ثروت کو بتایا۔۔۔ ثروت نے بھی اس کی پسند کی مناسبت سے بری تیار کی تھی اور نہال کو بھی اس کی ڈریسنگ سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا عنایہ تو اسے ہر حال میں اچھی لگتی تھی
"تمہیں لائٹ کلر اچھے لگتے ہیں مگر مجھے نہیں،،، مجھے برائٹ کلرز ہی اچھے لگتے ہیں اور آج کے بعد تم میری پسند کے مطابق کپڑے پہنو گی مطلب برائٹ کلرز"
نمیر نے بھی اسی کے اسٹائل میں جتانے والے انداز میں کہا
"منال آپی کے اوپر تو مرضی نہیں چلتی تھی میرے اوپر حق جتا رہے ہیں"
عنایہ بڑبڑاتی ہوئی ڈریسنگ روم میں جانے لگی مگر اس کی بڑبڑاہٹ سن کر نمیر نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے روکا
"میں تمہاری منال آپی پر کوئی حق نہیں رکھتا تھا تو اس پر اپنی مرضی کیوں جتاتا۔۔۔۔ اگر آج وہ یہاں پر تمہاری جگہ پر موجود ہوتی تو وہ بھی میری مرضی کے مطابق ہی چل رہی ہوتی مگر اس کی قسمت اچھی تھی جو میں نے اسے خود چھوڑ دیا مگر میں تمہیں چھوڑوں گا یہ تم بھول جاؤ۔۔۔ میرے بیڈروم میں آگئی ہو تم میری بیوی بن کر۔۔۔ اس کمرے میں موجود ہر چیز میری پسند کی ہے تمہیں خود کو بھی میرے پسند کے مطابق اپنا آپ ڈھالنا ہو گا"
نمیر اس کی نازک سی کلائی چھوڑتا ہوا کمرے سے جانے لگا
"کمرے میں ہر چیز آپ کی پسند کی ہوگی مگر میں آپ کی پسند تو نہیں رہی تو پھر یہ زبردستی کیوں"
وہ عنایہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا وہ منال سے محبت کرتا تھا اب اسکے بدلتے ہوئے انداز دیکھ کر عنایہ کو اس کے رویے سے الجھن ہونے لگی تبھی وہ بول اٹھی نمیر اسکی بات سن کر دوبارہ مڑا
"اگر تم ناقابل برداشت ہوتی تو پہلی رات ہی میں تمہیں اٹھا کر اپنے کمرے سے باہر پھینک دیتا۔۔۔ گزارے لائق ہو تم ایسے ہی کام چلانا پڑے گا۔ ۔۔اب کیا کیا جاسکتا ہے انسان کو کبھی کبھی صبر بھی کرنا پڑتا ہے"
عنایہ اپنے لئے لفظ گزارے لائق سن کر جل ہی گئی۔۔۔ نمیر کو گھورتی ہوئی ڈریسنگ روم میں چلی گئی جبکہ نمیر مسکراتا ہوا کمرے سے باہر اس کا ویٹ کرنے لگا
****
نمیر اور عنایہ ابھی ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھے تھے تو عشرت ڈرائنگ روم کے اندر داخل ہوئی۔۔۔ نمیر کے سلام کرنے کے بعد عنایہ نے بھی عشرت کو سلام کیا عنایہ کے سلام کا جواب دئیے بغیر وہ صوفے پر بیٹھ گئی
"خالہ جانی عنایہ نے بھی آپ پر سلامتی بھیجی ہے،، شاید آپ نے سنا نہیں"
نمیر عشرت کو دیکھ کر گویا ہوا جس پر عشرت نے نراٹھے پن سے عنایہ کو سلام کا جواب دیا
"تو اب یاد آئی ہے پندرہ دنوں بعد تمہیں اپنی خالہ جانی کی"
عشرت عنایہ کو نظرانداز کر کے نمیر سے مخاطب ہوئی
"میں تو 15 دن پہلے توقع کر رہا تھا آپ صبح سویرے ناشتہ وہ کیا بیکار سی رسم ہوتی ہے جو بیٹیوں کے گھر والدین لے کر آتے ہیں۔۔۔ اسی بہانے آپ کا دیدار بھی ہو جاتا مگر شاید آپ کو ہماری یاد ہی نہیں آئی۔۔۔ میں تو خیر آج بھی نہیں آتا،، نہال کے پاس ہسپتال جانے کا ارادہ تھا مگر عنایہ کہ کہنے پر آگیا اسے فرمان خالو سے ملنا تھا"
نمیر نے بغیر لگی لپٹی رکھے عشرت کو جواب دیا
"ناشتہ لے کر بیٹیوں کے گھر آیا جاتا ہے تم نے کونسا میری منال سے شادی کی جو میں شادی کے دوسرے دن رسم نبھانے آتی۔۔۔ ویسے بھی فرمان ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھے تو کہاں باہر نکل سکتی تھی میں"
عشرت کو نمیر کے انداز میں پہلے جیسی گرمجوشی نہیں لگی اس لیے وہ بھی صاف گو انداز اختیار کرتی ہوئی بولی
"میں نے اگر منال سے شادی نہیں کی تو اب اس کا غم منال کو بھی نہیں ہوگا،، آپ بھی اس غم سے نکل آئے خالہ جانی۔۔۔ ہم دونوں کی شادی نہیں ہوئی یہ ہم دونوں کے لئے ہی اچھا ثابت ہوا،، اب منال اپنی لائف میں خوش ہے اور میں خوبصورت بیوی کو پاکر پہلی محبت کو بھول گیا ہوں اس لیے اب آپ بھی ریلیکس رہا کریں"
نمیر کا انداز صاف چڑانے والا تھا عشرت کے ساتھ ساتھ برابر میں بیٹھی ہوئی عنایہ بھی چڑ گئی اور اپنے دوغلے شوہر کو دیکھنے لگی جو گھر میں اسے تھوڑی دیر پہلے گزارہ لائق کہہ رہا تھا اور دوسروں کے سامنے وہ اچانک خوبصورت بیوی بن گئی تھی
"اور نہال۔۔۔۔ اس کا کیا ہوگا تمہاری خوبصورت بیوی کو دیکھ کر اس کے دل پر کیا گزرے گی یہ سوچا ہے تم نے"
عشرت کا انداز صاف چوٹ کرنے والا تھا جس پر عنایہ کے دل پر واقعی چوٹ لگی مگر نمیر اب بھی ریلکس تھا
"نہال کا کیا ہونا ہے نہال کے لئے پہلے بھی ماما نے خوبصورت لڑکی کا انتخاب کیا تھا،،، اب دوبارہ اس کے لیے دوسری کوئی خوبصورت لڑکی ڈھونڈ لی گیں بلکہ اب کی بار میں ماما کو مشورہ دوں گا اس کام پر آپ اپنی بہو کو لگا دیں۔۔۔۔ عنایہ خود ہی اپنے لیے اپنی ہی طرح کی کوئی خوبصورت جٹھانی ڈھونڈے لےگی"
نمیر نے عنایہ کی گود میں رکھا ہوا اس کا ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔ عنایہ کے دل کو ٹھیس لگی وہی عشرت بھی بری طرح جل گئی
"تمہیں کیوں بیٹھے بیٹھے سانپ سونگھ گیا ہے اپنی شوہر کی باتوں سے۔۔۔ جاؤ جاکر دیکھ کر آؤ تمہارے ماموں اٹھے بھی ہیں یا سو رہے ہیں ابھی تک"
عشرت نے اب کی بار عنایہ کو دیکھ کر کہا نمیر کے ہاتھ میں عنایہ کا ہاتھ دیکھ کر گویا اس کے سینے پر سانپ کی رینگنے لگے تب ہی اس نے عنایہ کو وہاں سے جانے کے لیے کہا۔۔۔ عنایہ نے بھی موقع دیکھ کر وہاں سے اٹھنا چاہا مگر نمیر کے ہاتھ کی گرفت اتنی ہلکی بھی نہیں تھی جتنی سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی عشرت کو لگ رہی تھی
"خالہ جانی سانپ نہیں سونگتا اسے،، بس حد سے زیادہ شرمیلی بیوی لکھی تھی میری قسمت میں اب ہر لڑکی تو بے باک اور ماڈرن نہیں ہوسکتی نا۔۔۔ پندرہ دن سے میرے سامنے سیونٹیز کی ہیروئن کی طرح ری ایکٹ کرے جارہی ہے۔۔۔ مجھے دیکھ کر کبھی اپنا دوپٹہ چبانے لگتی ہے تو کبھی پردوں میں جا کر چھپ جاتی ہے۔۔۔ جاؤ عنایہ جلدی سے خالو سے مل کر اور پھر ہمیں چلنا ہے"
نمیر عشرت سے بولتا ہوا آخری جملہ عنایہ کو دیکھ کر ایسے بولا جیسے بہت ہی محبت لٹانے والا شوہر ہوں۔۔۔ نمیر کی بات سن کر عنایہ اس کو دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی
"اب آ ہی گئے ہو تو کھانا کھا کر جانا"
عشرت نے جلے ہوئے دل سے منہ بنا کر بولا بہن کا بیٹا تھا تھوڑی مروت تو دکھانی تھی
"پھر کبھی صحیح خالہ جان آج میرا اور عنایہ کا باہر ڈنر کرنے کا پروگرام ہے واپسی پر نہال کے پاس بھی جانا ہے گھر جاتے جاتے دیر ہو جائے گی۔۔۔ آپ چکر لگائیے گا ماما آپ کو یاد کر رہی تھی
نمیر بولنے کے ساتھ ہی کھڑا ہوا
فرمان کے پاس وہ دونوں ہی دس سے پندرہ منٹ بیٹھے۔۔۔ فرمان کے بہت اصرار پر بھی نمیر کھانا کھانے کے لئے نہیں رکا
****
"کیا تھا اگر ماموں کے کہنے پر وہاں پر رک جاتے کتنا انسیسٹ کر رہے تھے وہ ہم سے"
اوپن ایئر ریسٹورینٹ کے پرسکون ماحول میں ویٹر کو کھانے کا آرڈر دیا تو ویٹر کے جانے کے بعد عنایہ شکوہ کرتی ہوئی نمیر سے بولی
"کیوں خالا جانی کی باتوں کو بہت انجوائے کر رہی تھی تم"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جتنا خوش وہ عشرت کے سامنے پوز کر رہا تھا اس وقت وہ اتنا ہی سیریس تھا
"جوابی کاروائی میں تو آپ نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،، پھر کیوں منہ بنا ہوا ہے آپ کا"
عنایہ ناراض ہو کر اسے کہنے لگی نمیر غور سے اسے دیکھنے لگا
"یہ تمہاری زبان صرف صرف میرے ہی آگے کیوں چلتی ہے،، دوسروں کے سامنے تو تمہاری گھگی بند جاتی ہے۔۔۔ وہاں خالہ جانی کے ٹونٹینگ کرنے پر منہ میں پان رکھ کر کیوں بیٹھی ہوئی تھی"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے سوال کرنے لگا
"ماشاءاللہ سے آپ کافی تو تھے اپنی خالہ جانی کا مقابلہ کرنے کے لیے۔۔۔ بلکہ ایک کیا،، مامی جیسی چار خاتون اور آجاتی مجھے پورا یقین تھا آپ ان پر بھی بھاری پڑتے"
عنایہ نے جتنا سیریس ہو کر کہا نمیر کو اس کی بات اور انداز پر ہنسی آگئی
"پھر تھوڑے سے گڈز تم بھی مجھ سے سیکھ لو کہ سامنے والے کی بولتی کیسے بند کی جاتی ہے"
نمیر دلچسپی سے اس کو دیکھتا ہوا مشورہ دینے لگا
"مجھے آپ سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں نہایت دوغلے انسان ہیں آپ،،، گھر میں آپ مجھے گزارے لائق سمجھ کر صبر کرنے کی بات کر رہے تھے اور مامی کے سامنے میں اچانک خوبصورت بیوی بن گئی"
عنایہ کو اپنے لئے گزارہ لائک الفاظ ابھی تک نہیں بھولے تھے تبھی وہ نمیر سے تپ کر بولی
"اب کیا کیا جا سکتا ہے دوسروں کے سامنے بیوی کو خوبصورت بول کر اپنا بھرم تو رکھنا پڑتا ہے"
نمیر ٹھنڈی آہ بھرتا ہوا اس کی دمکتی ہوئی رنگت کو دیکھ کر بولا سچ تو یہ تھا اسے عنایہ کا یوں بیویوں والے اسٹائل میں لڑنا بہت مزا دے رہا تھا
"بھرم آپ نے نہیں میں نے رکھا ہے آپ کا چپ رہ کر،، خاموش رہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں شرمیلی ہوں نہ ہی میں کوئی سیونٹیز کی ہیروئن ہو نہ ہی انکی کی طرح بےوقوفی والے ایکٹ کر سکتی ہو"
عنایہ اس کو گھورتی ہوئی کہنے لگی وہ عشرت کے سامنے نہ جانے اسے کیا کیا بول رہا تھا
"اور اگر آج رات میں تمہیں سیونٹیز کی ہیروئن کی طرح شرمانے پر مجبور کر دو تو"
نمیر سیریس ہوکر چیلنج کرتا ہوا عنایہ کو دیکھ کر بولا جس پر عنایہ کی نظریں جھک گئی ویٹر کے کھانا سرو کرنے کے بعد بھی وہ سر اٹھائے بغیر اپنی پلیٹ میں جھگی کھانا کھاتی رہی واپسی پر ڈرائیونگ پر بھی اس کی بولتی بند رہی تو نمیر نے اسے مزید نہیں چھیڑا
🌹:Gunnahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 19
وہ دونوں اس وقت ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں موجود تھے جہاں نہال کو سوئے ہوئے آج 17 دن گزر چکے تھے۔۔۔ ثروت نمیر تو روزانہ نہال کے پاس چکر لگالتے اور نوفل بھی روز ہی ہسپتال آتا۔۔۔ مگر عنایہ آج نہال کو اس کے ایکسیڈنٹ کے بعد سے دوسری بار اسے دیکھ رہی تھی،،، دیوار سے ٹیک لگائے اپنے سامنے نہال کو بیڈ پر بےہوش دیکھ کر آج بھی اسے پہلے دن کی طرح رونا آ رہا تھا مگر تب میں اور اب میں بہت فرق آچکا تھا۔۔۔ وہ کھل کر اب اپنے دکھ کا اظہار بھی نہیں کرسکتی تھی اور نہ ہی اسے نمیر سے امید تھی کہ وہ اسے دلاسہ دے کر چپ کر آئے گا،،، کافی ضبط کرنے کے باوجود آخر کار آنسو،، پلکوں کی باڑ توڑ کر عنایہ کی آنکھوں سے نکل آئے
نمیر نہال کے پاس کھڑا اسے کروٹ دلا رہا تھا کیوکہ اسٹریٹ لیٹے رہنے سے بیڈسول کا خدشہ ہو سکتا تھا۔۔۔ ویسے تو نمیر نے نہال کے لیے چوبیس گھنٹے کے لئے ایک اٹینڈینٹ مقرر کیا تھا۔۔۔ جو ہر وقت کے ساتھ رہتا مگر نمیر جب ہسپتال آتا،، تو نہال کے چھوٹے چھوٹے کام اپنے خود کردیتا ان سترہ دنوں میں اس نے ایک بھی دن،، نہال سے غفلت نہیں برتی تھی، ،، ساتھ نوفل بھی اپنی دوستی کا خوب حق ادا کر رہا تھا۔۔۔۔ نہال کو کروٹ دلا کر نمیر کی نظر سامنے کھڑی عنایہ پر پڑی جس کا چہرہ آنسوں سے بھیگا ہوا تھا
نمیر کے دیکھنے پر عنایہ نے جلدی سے ہاتھوں کو اپنے چہرے سے رگڑ کر اپنے آنسوؤں کو صاف کیا اس وقت نمیر کو عنایہ سے ہمدردی کی بجائے اندر کہیں چھبن کا احساس ہونے لگا۔۔۔ نمیر کو غصہ آنے لگا اس کی بیوی اس کے بھائی کے لئے رو رہی ہے۔۔۔ غصہ نمیر کو اس بات پر تھا کہ عنایہ کا رونا نہال کے لیے محض ہمدردی ظاہر نہیں کر رہا تھا بلکہ ہمدردی سے کچھ زیادہ لگ رہا تھا۔۔۔ جب نمیر سے برداشت نہیں ہوا تو وہ ہونٹ بھینچ کر چلتا ہوا عنایہ کے پاس آیا
"کیوں رونا آرہا ہے تمہیں جواب دو"
عنایہ کا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچے وہ سخت لہجے میں عنایہ سے پوچھنے لگا
"و۔۔۔۔ وہ نہال"
عنایہ نے روتے ہوئے نہال کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا
"کیا نہال۔۔۔ مرا نہیں ہے وہ،، کومے میں ہے۔۔۔۔ آج نہیں تو کل اسے ہوش آ جائے گا تب بھی تم اسے دیکھ کر اسی طرح ری ایکٹ کروگی جواب دو مجھے"
لہجے میں سختی کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھوں میں بھی سختی آگئی جس سے عنایہ کو اپنے جبڑے دکھتے ہوئے محسوس ہوئے
"آپ مجھے تکلیف دے رہے ہیں"
عنایہ بناء مزاحمت کیے بمشکل نمیر سے بول پائی،،، تو نمیر نے اس کا منہ چھوڑ کر بازو پکڑا
"نہیں۔۔۔ تم مجھے تکلیف دے رہی ہو،، تمہیں میں اس لیے یہاں نہیں لایا تھا کہ تم میرے بھائی کا سوگ،، میری بیوی بن کر،، میری انکھوں کے سامنے مناو"
نمیر اس کا بازو پکڑ کر ہسپتال کے کمرے سے نکل کر اسے گاڑی تک لے آیا
عنایہ نے ہمت کر کے دو بار نظریں اٹھا کر نمیر کو دیکھا وہ بہت سیریس ہوکر ڈرائیونگ کر رہا تھا۔۔۔ عنایہ کو اس سے ابھی بھی ڈر لگ رہا تھا اس لئے گھر پہنچ کر وہ بیڈ روم میں جانے کی وجہ ثروت کے پاس آکر بیٹھ گئی۔۔۔ نمیر ثروت سے دو تین سرسری باتیں کرکے سونے کا کہہ کر اپنے بیڈ روم میں چلا گیا۔۔۔ جب عنایہ کو یقین ہوگیا کے نمیر سو گیا ہوگا تب وہ ثروت کو شب بخیر کہہ کر اپنے بیڈ روم میں آئی
بیڈ روم کی لائٹ آف دیکھ کر اور نمیر کو آنکھوں پر ہاتھ رکھے بیڈ پر سوتا ہوا دیکھ کر عنایہ نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔۔ وہ آئستہ قدم اٹھاتی بیڈ سے تکیہ اٹھاتی کر صوفے پر رکھتی ہوئی ڈریسنگ روم کی طرف گئی تاکہ خود بھی کپڑے چینج کرکے آرام سے سو سکے
ڈریسنگ روم میں آنے کے بعد اس نے اپنے کپڑوں کی بجائے نائٹی ٹنگی دیکھی۔۔۔ یہ نائٹی تو اس کے وارڈروب میں رکھی تھی جو ابھی تک اس کے استعمال میں نہیں آئی تھی
عنایہ آہستہ قدم اٹھاتی دوبارہ کمرے میں آئی اور وارڈروب کا دروازہ کھولنے لگی۔۔۔ چار سے پانچ بار ہینڈل گھمانے پر جب وارڈروب کا دروازہ نہیں کھلا تو عنایہ کو احساس ہوا کہ وارڈروب لاک جام ہے یا پھر خراب ہوچکا ہے۔۔۔ عنایہ نے بے بسی سے گردن موڑ کر نمیر کو دیکھا۔۔۔ وہ ویسے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھے سو رہا تھا۔۔۔ عنایہ دوبارہ ڈریسنگ روم میں آئی اور کشمکش میں پڑ گئی۔۔ شفون جارجٹ کے اتنے فٹنگ کے سوٹ میں وہ ساری رات بے سکون ہی رہتی
یہ نائٹی نمیر کے سوا بھلا کون رکھ سکتا تھا اور اس نائٹی کا وہ کیا مطلب سمجھے۔۔۔ وہ ایسا کیو سوچ رہی تھی نمیر تو کتنا غصے میں تھا،، سارے خیالات کو جھٹک کر اس نے نائٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا جو بھی تھا نمیر اب سو چکا تھا
نائٹی پہن کر جب وہ صوفے پر لیٹی تو گردن سے لے کر پاؤں تک دوپٹہ اوڑھ کر سونے کی کوشش کرنے لگی تب اسے نمیر کی آواز سنائی دی
"بیڈ پر آ کر لیٹو" نمیر کی آواز سن کر عنایہ کی جھٹ سے آنکھیں کھلی اور اس کی فرمائش سن کر عنایہ کے ماتھے پر پسینے آنے لگے یعنیٰ وہ جاگ رہا تھا
"میں یہی ٹھیک ہو" عنایہ ہمت کر کے بولی
"تم بیڈ کر خود آ رہی ہو یا پھر میں تمہیں اٹھا کر بیڈ پر لاو"
کمرے میں اندھیرے کی وجہ سے وہ نمیر کے تاثرات تو نہیں دیکھ سکتی تھی مگر اس کی لہجے میں سختی اور دھمکی سن کر پریشان ہو گئی۔۔۔ تکیہ کو سینے سے لگائے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ پر آئی اسے بیڈ پر نمیر کے ساتھ لیٹنا عجیب لگ رہا تھا
"بیڈ پر لیٹو میں نے تمہیں یہاں کھڑے رہنے کے لئے نہیں بلایا"
نمیر نے اپنی آنکھوں پر ابھی بھی ہاتھ رکھا تھا اور اس کے لہجے میں سنجیدگی برقرار تھی
عنایہ چپ کرکے بیڈ پر لیٹ گئی مگر لیٹنے سے پہلے اس نے تکیہ کو اپنے اور نمیر کے بیج رکھ کر دیوار بنانا نہ بھولی۔۔۔۔ اپنے دوپٹے کو اس نے اوڑھنے کے ساتھ سختی سے پکڑا ہوا تھا
نمیر نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اس تکیہ کو دیکھا جو اسکے اور عنایہ کے درمیان حائل تھا۔۔۔ نمیر چاہتا تو اس کمزور سی دیوار کو ایک منٹ میں اپنے اور اس کے درمیان سے ہٹا کر اپنا اور عنایہ کا فاصلہ ختم کر سکتا تھا مگر عنایہ کو بیڈ پر لٹانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ آج رات نہال کی جگہ اپنے اور نمیر کے رشتے کو سوچے۔۔۔۔ نمیر دوسری طرف کروٹ لے کر سونے کی کوشش کرنے لگا تاکہ عنایہ کو بھی تھوڑا اطمینان ہوجائے
*****
روز معمول کی طرح آج بھی نمیر کی ہی آنکھ کھلی مگر صوفے کی بجائے اس کی نظر اپنے پہلو پر گئی بیڈ کا دوسرا حصہ کل رات کو عنایہ کے وجود سے آباد ہو چکا تھا۔۔۔۔ کل رات والا غصہ کہیں جا سویا اب وہ اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لائے اپنے برابر میں اپنی سلیپنگ بیوٹی کو دیکھنے لگا جو ہمیشہ کی طرح دنیا جہاں سے بے نیاز ہوکر پورے بیڈ کو چھوڑ کر بیڈ کے آخری حصے میں ٹکی ہوئی تھی اگر نیند میں وہ دوسری سائیڈ کروٹ لیتی تو لازمی فرش پر پائی جاتی نمیر نے اس کی بنائی گئی کمزور دیوار (تکیہ) کو اپنے اور اس کے درمیان سے ہٹا کر آہستہ سے عنایہ کو کھینچ کر بیڈ پر لٹایا۔۔۔ عنایہ کا اوڑھا ہوا دوپٹہ بیڈ سے نیچے گرا ہوا تھا،، وہ غور سے عنایہ کا چہرہ دیکھنے لگا پھر اس کی نظر نائٹی میں عنایہ کے وجود پر گئی۔۔۔ کئی احساسات اس کے اندر جگے وہ اس کی بیوی تھی،، نمیر چاہتا تو اس سے اپنے جائز رشتے کا آغاز کر سکتا تھا مگر وہ عنایہ کو تھوڑا وقت دینا چاہتا تھا یہ وقت وہ اسے اس لیے دے رہا تھا تاکہ عنایہ اس وقت میں اپنے اور اس کے رشتے کے بارے میں سوچے اور عنایہ جب ہی ایسا سوچ سکتی تھی جب نمیر اس کے قریب آکر اسے سوچنے پر مجبور کرتا
"اٹھ جاو یار صبح ہوگئی۔۔۔ نمیر عنایہ کے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا کہنے لگا جبکہ اسے معلوم تھا کہ صرف کہنے سے وہ ہرگز نہیں اٹھنے والی
نمیر نے اس کے چہرے پر جھک کر اس کے گالوں پر اپنے ہونٹ رکھے، جس پر عنایہ ماتھے پر ہلکی سی شکن لائے کسمسائی جیسے اسے اپنی نیند میں یہ مداخلت خاص پسند نہیں آئی ہو،، نمیر ہونٹوں پر مسکراہٹ لائے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگا یعنیٰ اس نے اپنی بیوی کو فرسٹ ٹائم کس کری مگر اس کی بیوی کو خبر بھی نہیں ہوئی،،، نمیر اس کی بے خبری پر افسوس کرتا ہوا عنایہ کا کندھا ہلانے لگا
"اٹھنا نہیں ہے کیا یار، بھوک لگ رہی ہے مجھے"
نمیر نے عنایہ کو ایک بار پھر جگانے کی کوشش کی جس پر عنایہ نے منہ بسورتے ہوئے آنکھیں کھولیں
"مجھے کھا جائے آپ،، معلوم نہیں کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ سونے ہی نہیں دیتے"
عنایہ کو نیند میں نہ اس بات کا ہوش تھا کہ اس وقت وہ صوفے پر نہیں بیڈ پر نمیر کے پاس موجود ہے،، نہ اپنے لباس کا ہوش تھا اور نہ ہی اسے یہ احساس تک کہ اس کی قائم کردہ دیوار اب نمیر اور اس کے بیچ میں موجود نہیں
"یہ بھی ٹھیک ہے آج تمہیں ٹیسٹ کرنے میں کیا حرج ہے"
نمیر نے جھک کر اس کی تھوڑی پر دانت سے دباؤ ڈالا ہی تھا عنایہ بدک کر پیچھے ہٹی،، نمیر اس کا بازو نہیں پکڑتا تو وہ فرش پر پڑی ہوتی
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔ میرا وہ مطلب تو نہیں تھا"
عنایہ اس کی حرکت پر اب پوری طرح بیدار ہوچکی تھی،،، نمیر کی حرکت پر حیرانگی کے چکر میں وہ اپنے لباس کو فراموش ہی کر بیٹھی
"میں نے تو تمہاری اجازت پر ہی ایسا کیا جاو چینج کر کے آؤ صبح صبح میرا دل بے ایمان ہو رہا ہے"
نمیر نے اس کے سراپے پر گہری نظر ڈال کر عنایہ کے لباس پر اس کی توجہ دلائی۔۔۔ عنایہ کی نظر اپنے حلیہ پر گئی۔۔۔ اس نے اپنی پنڈلیاں اور بازو چھپانے کی بجائے چہرے پر ہاتھ رکھ کر اپنا منہ چھپا لیا
"اف میرے خدا میرا دوپٹہ کہاں ہے جو میں آوڑھ کر سو رہی تھی"
عنایہ اپنا چہرہ چھپا کر گھبراتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر نمیر کو ہنسی آئی
"کل رات کو تو کوئی لڑکی مجھ سے بڑے کونفیڈنس سے کہہ رہی تھی نہ وہ شرماتی ہے نہ ہی سیونٹیز کی ہیروئن کی طرح ری ایکٹ کرتی ہے"
نمیر مسکراتا ہوا مزے سے عنایہ کو یاد لانے لگا
"آپ کو معلوم نہیں آپ شوہر بننے کے بعد کتنے گندے ہوچکے ہیں،، میرا دوپٹہ ڈھونڈ کر مجھے دیجیے ورنہ میں آپ سے بات نہیں کروں گی"
وہ ابھی بھی اپنے ہاتھوں سے چہرہ چھپائے اسی کی برائی کرتی ہوئی نمیر کو دھمکی دینے لگی جس پر نمیر نے جھک کر بیڈ کے نیچے سے اس کا دوپٹہ اٹھایا
"تم شرمانے میں سیونٹیز کی ہیروئن کو بھی مات دے چکی ہو،،، سنو ابھی تمہاری اس گندے شوہر نے ایسا کچھ نہیں کیا جو تم اپنی چہرہ چھپانے پر مجبور ہوجاو۔۔۔ اب تمہاری شرم دے کر تو میں خود بھی سوچ میں پڑ گیا ہو کہ۔ ۔۔"
نمیر اس کے گرد دوپٹہ لپیٹا ہوا بات ادھوری چھوڑ کر خود کمرے سے باہر نکل گیا تاکہ وہ چہرے سے ہاتھ ہٹا کر چینج کرلے
نمیر کو ناشتہ دینے سے لے کر کالج جانے تک وہ سر جھکائے اپنا دوپٹہ بار بار صحیح کرتی رہی
****
نائلہ ظہر کی نماز کیلئے وضو کرنے جارہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔۔ شانزے کے کالج آنے میں ایک گھنٹہ تھا۔۔۔ کون ہو سکتا ہے نائلہ نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا سامنے نوفل کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
"السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ"
نائلہ کو دیکھ کر نوفل نے اس کی خیریت دریافت کی
"وعلیکم السلام جیتے رہو اندر آؤ بیٹا"
نائلہ نے اسے راستہ دیتے ہوئے کہا
"بہت دنوں بعد چکر لگایا تم نے"
نائلہ نوفل کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
"بس آج کل تھوڑی مصروفیت چل رہی ہے اس وجہ سے آنا نہیں ہو رہا۔۔۔۔ آپ بتائیں کوئی مسئلہ کوئی پریشانی تو نہیں ہے"
نوفل نائلہ سے پوچھنے لگا
"اللہ کا بہت بڑا کرم ہے بیٹا کوئی پریشانی نہیں اب تو۔۔۔ تم بتاؤ تمھارے دوست کی طبیعت کیسی ہے اب"
وہ نوفل کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"اس کی طبیعت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا وہ ویسی ہی بےہوشی کی حالت میں ہے۔۔۔۔ آپ پلیز دعا کریں گا اس کے لیے"
نوفل نائلہ سے کہنے لگا
"انشاءاللہ اللہ بہتر کرے گا تم سناؤ تمہاری امی اور بھائی کیسے ہیں"
نائلہ نوفل سے پوچھنے لگی
"الحمدللہ وہ دونوں کی ٹھیک ہیں۔۔۔ آنٹی آپ نے کبھی اپنی بڑی بیٹی کا ذکر نہیں کیا میرا مطلب ہے شانزے کے منہ سے ان کا ذکر سنا تھا مگر وہ کبھی دکھی نہیں۔۔۔ اگر آپ نہیں بتانا چاہتی تو اٹس اوکے میں نے بس یونہی پوچھ لیا تھا"
نوفل کے دماغ میں جو سوال گلبلا رہا تھا وہ اچانک ہی نائلہ سے پوچھ بیٹھا مگر نائلہ کے ایک دم بدلتے تاثرات دیکھ کر اس کی مرضی کہہ کر بات ختم کردی
"ایک دردناک حادثہ اس کی زندگی میں رونما ہوا تھا۔۔۔ اس حادثے کی وجہ سے وہ ہم سے کافی دور چلی گئی اب ہمارے پاس موجود نہیں ہے فرحین"
نائلہ ناپ تول کر نوفل کو بتانے لگی مگر نوفل فرحین کے نام پر چونکا ساتھ ہی ایک چہرہ بھی اس کو یاد آیا
"فرحین۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ کی بیٹی کا نام فرحین ہے"
نوفل کو سمجھ میں نہیں آیا وہ آگے کیا پوچھے نائلہ اٹھ کر کمرے میں موجود ڈیوائیڈر کے پاس گئی اور اس میں سے البم نکال کر لائی
"شانزے سے دس سال بڑی تھی یوں سمجھ لو شانزے کو اسی نے پالا ہے۔۔۔ خوش اخلاق جلد گھل مل جانے والی"
نائلہ البم نوفل کے سامنے رکھتے ہوئے سوچنے لگی آگے کیا بولے۔۔۔ نوفل نے البم کھولا۔۔۔ البم کھولتے ہی اس کی پہلی تصویر پر نظر پڑی اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی
"یہ۔ ۔۔ یہ آپ کی بیٹی میرا مطلب فرحین"
نوفل کی حالت غیر ہونے لگی وہ بہت مشکلوں سے اپنے تاثرات پر کنٹرول کر پایا نوفل کے جواب پر نائلہ نے اقرار میں سر ہلایا اور اپنے آنسو پونچھے۔۔۔ نوفل کو اب گھٹن کا احساس ہونے لگا وہ ایکدم کھڑا ہوگیا
"بیٹھو تمہارے لئے چائے لے کر آتی ہوں"
نائلہ نوفل کو دیکھ کر کھڑی ہو کر کہنے لگی
"چائے کی ضرورت نہیں ہے کام یاد آ گیا ہے پھر آؤں گا" نوفل بولتا ہوا نائلہ کا جواب سنے بغیر گھر سے نکل گیا
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 20
"ہہم تو پڑھائی ہو رہی ہے گڈ،، کونسا پیپر ہے کل تمہارا"
رات کے کھانے کے بعد نمیر اپنے کمرے میں آیا تو عنایہ کو کتابوں میں گم دیکھا وہ بیڈ پر اپنے نوٹس پھیلائے پڑھائی میں مگن تھی۔۔۔ فرمان کے گھر سے آنے کے بعد،، دو دن سے وہ دوسرے کمرے میں پڑھتے پڑھتے وہی سو جاتی تھی۔۔۔ آج نمیر ہسپتال سے کافی لیٹ آیا تو عنایہ بیڈ روم میں ہی بیٹھے پڑھنے لگی
"کل نہیں پرسوں ہے پیپر کیمسٹری کا" عنایہ نمیر کے لئے بیڈ خالی کرتی نوٹس اور بکس سمیٹ کر دوسرے کمرے میں جانے لگی
"وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے یہی بیٹھ کر پڑھو" نمیر اس کا ارادہ بھانپ کر اس کے ہاتھ سے بکس اور نوٹس لے کر دوبارہ سائیڈ پر رکھتا ہوا بولا اور خود بیڈ پر اس کے برابر میں نیم دراز ہو گیا
عنایہ کچھ کہے بغیر بیڈ پر ہی نمیر سے تھوڑے فیصلہ قائم کرتی ہوئی بیٹھی اور نمیر کی طرف ہاتھ بڑھا کر اپنا دوپٹہ بیڈ سے اٹھانا چاہا تب ہی نمیر نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے دوپٹہ لے کر سائیڈ پر رکھا
"جیسے میرے آنے سے پہلے ریلیکس پڑھ رہی تھی ویسے ہی پڑھو"
نمیر عنایہ کو دیکھ کر بولا اسکے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا عنایہ دوبارہ اپنے نوٹس میں سرجھکائے پڑھنے لگی مگر اب اس کا دھیان پڑھائی کے ساتھ ساتھ نمیر پر بھی تھا وہ کن اکھیوں سے اپنے برابر میں لیٹے ہوئے نمیر پر نظر ڈال کر اپنا پڑھنے لگی۔۔۔ نمیر خود بھی اس کی بک اٹھائے دیکھنے لگا
"کبھی چیٹنگ کی ہے"
نمیر بک میں دیکھتا ہوا یقیناً عنایہ سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ عنایہ نے گھور کر اس کو دیکھا
"آپ کو شکل سے میں ایسی اسٹوڈنٹ لگتی ہوں"
عنایہ برا مانتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"ایسی اسٹوڈنٹ سے کیا مراد ہے،، چیٹنگ کرنا بھی ایک مہارت کا کام ہے ہر کسی میں چیٹنگ کرنے کے گڈز تھوڑی ہوتے ہیں"
نمیر عنایہ کی بکس رکھتا ہوا اب اس کو دیکھ کر بولنے لگا عنایہ کو اسکے خیالات سن کر افسوس ہوا۔۔ کیسے اسکی خالہ جانی فخر سے بتاتی تھی نمیر نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے۔۔۔ اب کوئی ان کو جاکر ان کی لاڈلے بھانجے کے کارنامے بتائے
"اور اس مہارت کے کام سے آپ یقیناً واقف ہوں گے"
عنایہ طنزیہ لہجے میں کہنے لگی
"تمہارا شوہر ہر کام میں مہارت رکھتا ہے آزما کے دیکھ لینا"
نمیر اس کو دیکھ کر معنی خیزی سے بولا عنایہ نے ایک بار پھر اپنی نظریں نوٹس میں جھکالی
"مجھے کیا ضرورت پڑی ہے آپ کو آزمانے کی،،، اب تو ویسے بھی آپکا کام بس مجھے ڈرانا اور میری جان کو ہلکان کرنا رہ گیا ہے"
عنایہ اپنے نوٹس میں دیکھ کر افسوس کرتی ہوئی بولی جبکہ نمیر اس کی بات سن کر اپنی مسکراہٹ چھپا گیا
"مجھے کیا ملے گا بھلا ننھی سی جان کو ڈرا کر اور ہلکان کر کے۔۔۔۔ میں نے تو تم سے ہمدردی کرتے ہوئے پوچھا اگر پڑھا نہیں جارہا تو چیٹنگ کرنے کی ایک دو ٹرکس سمجھا دیتا ہو"
نمیر شرارتی انداز میں اس سے گویا ہوا عنایہ نے تعجب سے نمیر کو دیکھا وہ یقیناً دنیا کا پہلا شوہر ہوگا جو اپنی بیوی کو نقل کرنے کے گُر سے اگاہی دے رہا تھا
"کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے ٹرکس سیکھنے کی،،، میری بہت اچھی تیاری ہے اور اب تو میں ریوائز کر رہی ہو"
عنایہ مغرورانہ انداز اختیار کرتی ہوئی بولی
"ڈیٹس گڈ،،، چلو پھر دیکھ لیتے ہیں کتنی تیاری ہے تمہاری"
نمیر عنایہ کے آگے سے نوٹس اٹھاتے ہوئے بولا
"Explain the structure of co2"
"نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا
"Carbon dioxide is a linear molecule with two double bonds between.....
"اسطرح تو مت دیکھیں ورنہ مجھ سے بولا نہیں جائے گا"
عنایہ نمیر کے دیکھنے کے انداز سے کنفیوز ہوتی ہوئی بولی
"کسطرح دیکھ رہا ہوں میں"
نمیر اپنی مسکراہٹ چھپاتا حیرانگی سے پوچھنے لگا
"یہی جو آپ مجھے اسطرح گھور رہے ہیں بلکے کنفیوز کر رہے ہیں۔۔۔ اسطرح تو میں یاد کیا ہوا سب سبق بھول جاو گی"
عنایہ اس کو دیکھ کر شکوہ کرنے لگی
"یہ بولو تمہاری خود کی کوئی تیاری نہیں ہے نکمی اسٹوڈینٹ ہو تم"
نمیر اس کو چڑاتا ہوا بولا
"کوئی نکمی اسٹوڈینٹ نہیں ہوں میں،، بک میں سے کہیں سے بھی کچھ بھی پوچھ لیں سب لکھ کر بتا دو گی میں۔ ۔۔۔ بہت اچھی ہو میں کیمسٹری میں یقین نہیں آتا تو بے شک اپنے بھائی سے پوچھ لیں"
عنایہ اپنی رو میں بولتی چلے گئی آخری جملے پر اس نے نمیر کے تنے ہوئے نقوش دیکھے تو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ چپ ہو گئی
"آپ کو صبح افس جانا ہوگا میں دوسرے روم میں جاکر ریویژن کر لیتی ہوں"
عنایہ نے اس کے ہاتھ سے نوٹس لیتے ہوئے کہا
"اب کی بار میں جو بھی کوئیسٹن کروں گا اس کا آنسر مجھے دیکھ کر بنا کنفیوز ہوئے کونفیڈنس سے دینا۔۔۔ ورنہ آج رات تم سو سکوں گی یہ تم بھول جاؤ"
نمیر اس کے ہاتھ سے دوبارہ نوٹس لیتے ہوئے کہنے لگا
اب وہ اس سے دوبارہ سے سوالات کر رہا تھا۔۔۔ عنایہ اب کی بار بھی اس کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اس کی آنکھوں کی تپش نہ سہہ پائی تو بنا بیچ میں رکے اپنا جواب نظریں جھکائے مکمل کرتی رہی
نمیر اس کا ایک ایک انداز نوٹ کر رہا تھا وہ آنکھیں جھکائے اس کے پوچھے گئے ہر سوال کا جواب آہستہ سے دے رہی تھی۔۔۔۔ کافی دیر سے وہ اس کے سامنے بنا دوپٹے کے بیٹھی تھی نمیر اس کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد اب اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔۔ اب عنایہ اپنی جمائیوں کو روک کر اس کے سوالات کا جواب دے رہی تھی۔۔۔ تب نمیر کو اس پر ترس آیا اور اس نے عنایہ سے مزید سوالات پوچھنے کا ارادہ ترک کیا۔۔۔ نوٹس کو ایک طرف اچھال کر وہ خود بھی بیڈ پر سونے کے لئے لیٹ گیا۔۔۔ اس کو لیٹا دیکھ کر عنایہ نے بھی شکر ادا کیا اور بکس اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھی۔۔۔ اب وہ اپنا دوپٹہ دیکھنے لگی جو آدھا نمیر کے کندھے کے نیچے دبا ہوا تھا۔۔۔ کتنی دیر سے وہ نمیر کے سامنے بغیر دوپٹے کے بیٹھی تھی عنایہ کو احساس ہی نہیں ہوا
"نمیر مجھے اپنا دوپٹہ چاہیے پلیز تھوڑا سا ہٹیں"
عنایہ جھجھکتی ہوئی نمیر سے بولنے لگی
"کس لئے چاہیے دوپٹہ"
وہ گہری نظروں سے ایک بار پھر اس کا بھرپور جائزہ لینے میں مصروف ہوگیا
"اوڑھنا ہے مجھے"
عنایہ نظریں نیچی کر کے اس سے کہنے لگی
"کیوں یہاں پر کمرے میں اور کون موجود ہے جو تمہیں دوپٹہ اوڑھنا ہے"
نمیر غور سے اس کا چہرا دیکھتا ہوا پوچھنے لگا،، عنایہ کی جھکی نظریں دیکھ کر اس کا دل شرارت پر آمادہ تھا
"کیوں کمرے میں آپ موجود نہیں ہیں کیا"
عنایہ نے بولنے کے ساتھ خود ہاتھ بڑھا کر اپنا دوپٹہ لینا چاہا تبھی نمیر نے اس کی کلائی پکڑی
"میں کون ہوں تمہارا"
نمیر عنایہ کی نازک کلائی تھامے،، اسکو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے پوچھنے لگا
"ہاتھ چھوڑیے نیند آرہی ہے مجھے"
عنایہ نے بولنے کے ساتھ ہلکی سی مزاحمت کی جس پر نمیر نے اس کی کلائی پر گرفت اور تنگ کردی
"پہلے میرے سوال کا جواب دو میں کون ہو تمہارا"
عنایہ کے ہاتھ پر گرفت سخت رکھنے کے باوجود وہ لہجے میں نرمی لاتا ہوا پوچھنے لگا
"شش۔۔۔ شوہر"
عنایہ کو پچھتاوا ہوا دوپٹہ مانگ کر اس نے اچھی مصیبت خود اپنے گلے میں ڈالی
"شش۔ ۔۔ شوہر کا مطلب جانتی ہو"
نمیر بہت پیار سے لہجے میں نرمی لائے اس سے پوچھنے لگا
"نمیر،، اب آپ مجھے تنگ کر رہے ہیں"
عنایہ نے مزاحمت ترک کی مگر نظریں ابھی بھی اسکی جھکی ہوئی تھی
"یہ بھی الزام ہے تنگ میں نہیں تم مجھے کرنے لگی ہو اب"
نمیر نے اس پر ترس کھا کر اس کی کلائی چھوڑتے ہوئے کہا
"دوپٹے کو میرے سامنے کمرے میں اوڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ ہاں کمرے سے باہر احتیاط اچھی چیز ہے،، چلو اب کمرے کی لائٹ بند کرو"
نمیر اس کو ارڈر دیتا ہوا بولا۔۔۔ عنایہ بغیر دوپٹہ لیے کمرے کی لائٹ بند کر کے نائٹ بلب جلاتی واپس بیڈ پر آئی تاکہ اپنا تکیہ لے کر صوفے پر جاسکے وہ تکیہ اٹھا کر صوفے پر لیٹنے ہی والی تھی کہ نمیر کی آواز پر اس کے قدم تھم گئے
"کیا مجھے یہ روز روز بتانا پڑے گا کہ تمہیں اب کہا پر سونا ہے۔۔۔۔ واپس آکر بیڈ پر لیٹو"
عنایہ نے بیچارگی سے اس کی طرف دیکھا تو نمیر اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ عنایہ سست قدم اٹھاتی۔۔۔۔ بیڈ پر آئی اور لیٹ گئی مگر دو دن پہلے کی طرح تکیہ بیچ میں رکھنا نہیں بھولی
"ویسے یہ تکیہ بیچ میں رکھنے کی کیا لاجک ہے ذرا بتانا"
نمیر زیرو بلب کی روشنی میں اس کا روشن چہرہ دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"تاکہ آپ مجھے سکون سے سونے دیں"
عنایہ جھلا کر بولی وہ آج پھر اپنی باتوں سے اسے زچ کر رہا تھا
"اووو تو تمہارا مطلب ہے رات میں اگر میں تم پر حملہ آور ہوجاو تو یہ تمہارا حفاظتی ہتھیار ہے"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا شرارت اسکی آنکھوں میں ناچتی ہوئی عنایہ کو صاف دکھائی دی
"اگر آپ نے اب مجھے تنگ کیا تو میں آنٹی سے جاکر بولوں گی نمیر"
عنایہ نے اپنی طرف سے اسے ڈرانا چاہا
"کیا بولو گی ماما کو جاکر،،، آپکا بیٹا تنگ کر رہا ہے مجھے"
نمیر معصومیت سے اس سے پوچھنے لگا
"بہت برے ہیں آپ،، مجھے معلوم ہے آپ مجھے یہاں پر سونے ہی نہیں دے گیں"
عنایہ واقعی تنگ آکر اپنا تکیہ اٹھا کر صوفے پر جانے لگی
"اے شرافت سے لیٹو یہی پر۔۔۔ آتا کیا ہے تمہیں سونے کے علاوہ۔۔ شکر کرو بچت ہوئی وی ہے تمہاری اور یہ بارڈر لائن میں پار نہیں کر رہا"
اس کو بیڈ سے اٹھتا دیکھ کر نمیر نے ڈپٹنے کے انداز میں کہا عنایہ خاموشی سے واپس لیٹ گئی نمیر بھی اسکو تنگ کرنا بند کرکے سونے کی کوشش کرنے لگا
****
چھ سال پہلے
آج یونیورسٹی کے آڈیٹوریم ہال میں فائنل آئیر کے پاس آؤٹ ہونے والے اسٹوڈنٹ کی الوداعی پارٹی منعقد کی گئی تھی
"نہال نہیں پہنچا ابھی تک"
نوفل نے اپنی ریسٹ واچ میں ٹائم دیکھتے ہوئے نمیر سے پوچھا
"طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس کی صبح سے،،، بول رہا تھا بہتر فیل کرے گا تو آئے جائے گا۔۔۔ اس کو چھوڑ وہ دیکھ علشباہ"
نمیر نے نوفل کی توجہ علشباہ کی طرف مندمل کی جو کہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھڑی تھی
"اسے چھوڑ بہن جیسی لگنے لگی ہے وہ مجھے۔۔۔ وہاں دیکھ فرحین"
نوفل نے نمیر کی توجہ آڈیٹوریم ہال کے دروازے دلائی جہاں سے فرحین اندر آ رہی تھی۔۔۔ اسے دیکھ کر نمیر کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات ابھرےے
"چیونگم کی طرح فل چپکو ٹائپ چیز ہے۔۔۔ خاص قسم کی چڑ ہے مجھے اس لڑکی سے"
نمیر کی بات سن کر نوفل ہنسا
"اتنی بری بھی نہیں شاید وہ تمہیں لائک کرتی ہے ورنہ آج تک کسی دوسرے لڑکے کو تو لفٹ نہیں کرائی"
نوفل نمیر کا بےزار چہرہ دیکھ کر اسے بتانے لگا
"ہاہا لائک کرتی ہے۔۔۔ اگر لائک کرتی تو چار مہینے پہلے جب میں،، تم،، شہریار اور فواد کلاس روم میں اسموکنگ کر رہے تھے تو ہماری ڈین سے کمپلین نہیں کرتی،، یاد ہے کس طرح ہم چاروں کو وارننگ ملی تھی اور وہ بات بھول گئے تم،، جب اس نے مجھے سر امتیاز کے سامنے کیسا گندہ کروایا تھا۔۔۔ کہ میں اس کی دوست کو چھیڑ رہا ہوں۔۔۔ شازمین اس کو چھیڑوں گا میں اتنے برے دن آگئے ہیں میرے"
نمیر نے فرحین سے چڑ کی اپنی اصل وجہ بتائی
"یار شازمین کو لے کر تو اسے غلط فہمی ہوئی تھی جس کی اس نے بعد میں تم سے معافی مانگ لی تھی"
نوفل نے بھی نمیر کو یاد دلایا
"اس کے سوری بولنے سے کیا ہوتا ہے سر امتیاز کے سامنے تو میرا امیج خراب ہوگیا نہ"
نمیر سر جھٹکتا ہوا بولا
"چل پھر آج ان دونوں باتوں کا اس سے بدلہ لے لیتے ہیں تاکہ فیورل پارٹی ہمارے لیے بھی یادگار رہ جائے اور فرحین صاحبہ کے لیے بھی"
نوفل کی آنکھوں میں نمیر کو چھلکتی ہوئی شرارت اسے صاف دکھائی دی
"وہ کیسے"
نمیر نے نوفل سے جاننا چاہا
"تمہیں وہ کلاس روم یاد ہے جس میں چند سال پہلے بائیلوجی گروپ کی ایک اسٹوڈینٹ نے سوسائڈ کی تھی"
نوفل نے نمیر کو دیکھ کر پوچھا
"وہ روم تو لاک ہے شاید وہاں کسی کو جانا بھی الاؤ نہیں"
نمیر نوفل کو دیکھتا ہوا بتانے لگا جس پر نوفل مسکرایا
"آج وہ لاک نہیں ہے۔۔۔ اب آگے کا آئیڈیا سن"
نوفل نمیر کے کان میں بولنے لگا جس پر نمیر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 21
"یہاں سب سے الگ تھلگ کھڑے ہوکر کیا سوچا جا رہا ہے"
نوفل فرحین کے پاس آتا ہوا بولا۔۔۔
"شازمین کا انتظار کر رہی تھی ابھی تک آئی نہیں وہ"
فرحین نے نوفل کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بتایا
"تو تم یہاں کھڑی ہوکر شازمین کو سوچ رہی تھی"
نوفل نے فرحین کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ دوبارہ مسکرائی
"نہیں میں سوچ رہی تھی یونیورسٹی میں کیسے چار سال گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ کل کی بات لگتی ہے جب یونیورسٹی میں پہلا دن تھا"
اب کے فرحین کی بات سن کر نوفل بھی مسکرایا
"آج یونیورسٹی میں ہم سب کا آخری دن ہے،، یہاں ہم آخری بار جمع ہیں۔۔۔۔ کل سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو جائیں گے معلوم نہیں پھر کون کب کہاں ملتا ہے،، کتنے سال بعد کس کی کس سے ملاقات ہوتی ہے"
نوفل فرحین کو دیکھتا ہوا کہنے لگا نوفل کی بات سن کر فرحین کے چہرے پر مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی
"تمہاری نہال اور نمیر سے دوستی ایسی تو نہیں لگتی کہ تم ان سے بعد میں کانٹیکٹ میں نہ رہو"
فرحین نوفل کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"ارے ان کی بات تھوڑی کررہا ہوں وہ دونوں تو بچپن کے یار ہیں میرے،،، باقی سب کی بات کر رہا ہوں جیسے تمہارا نمیر سے کانٹیکٹ بعد میں ہوں یا نہ ہوں معلوم نہیں"
نوفل فرحین کو غور سے دیکھتا ہوا کہنے لگا جس پر فرحین ایک دفعہ پھر مسکرانا بھول کر نوفل کو دیکھنے لگی
"اس طرح خاموش رہنے سے کام نہیں چلنے والا،، اگر اس کو پسند کرتی ہو تو آج بتا دو یوں سمجھ لو آج ہی تمہارے پاس دن ہے اور موقع بھی،،، مطلب ابھی اسے سر سرمد نے سیمینار کے پاس والے روم میں بھیجا ہے کسی کام سے"
نوفل فرحین کو دیکھتا ہوا بتانے لگا
"وہ روم اس میں تو کسی لڑکی نے خودکشی کی تھی نہ جس کی وجہ سے وہ روم بند رہتا ہے"
فرحین نے حیرت کرتے ہوئے نوفل سے پوچھا
"ہاں یار وہی روم سر سرمد نے وہاں کچھ سامان رکھوایا تھا اسی کو لینے کے لئے نمیر کو بھیجا ہے"
نوفل کی بات سن کر فرحین سر ہلا کر سیمینار ہال کی طرف جانے لگی جس پر نوفل کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگی
*****
اس وقت نوفل کا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا وہ اپنی لوڈیڈ ریوالور اپنے ماتھے پر رکھ کر بیڈ کر بیٹھا تھا۔۔۔ زور سے آنکھیں میچ کر اس نے ریوالور کا ٹریگر دبانا چاہا،،، ایک بار پھر اس کے ہاتھ کپکپانے لگے۔۔۔۔ خود سے اپنی جان لے لینا کوئی آسان عمل نہیں تھا،،،، ماتھے پر اپنی ریوالور رکھے وہ ایک بار پھر چھ سال پہلے کی بھیانک رات یاد کرنے لگا۔۔۔ جس کے سبب فرحین نہ صرف اپنی عزت بلکہ جان بھی گنوائی تھی۔۔۔۔ اس کا مقصد صرف فرحین کے ساتھ مذاق کرنا تھا مگر اس کو یہ بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔ کہ اس کا یہ مذاق کسی معصوم کی زندگی لے لے گا
جب جب اس کا ضمیر اسے کچوکے لگاتا تب وہ بہت پچھتاتا کہ کاش اس نے فرحین کو اس رات اس کمرے میں جانے کے لیے نہ کہا ہوتا کاش نمیر نے فرحین کے پیچھے اس کمرے کی کنڈی نہیں لگائی ہوتی
اسی رات اڑتی اڑتی خبر اسٹوڈنٹ کے بیچ آڈیٹوریم ہال میں گردش کرنے لگی کہ سیمینار کے پاس والے روم میں فرحین کو کسی نے زخمی کر دیا ہے،،، یہ خبر سن کر نوفل اور نمیر دونوں ہکا بکا رہ گئے ایک گھنٹے سے زیادہ ہوگیا تھا انہیں کلاس روم کی کنڈی باہر سے لگائے ہوئے۔۔۔ اپنے بیج کے لڑکوں کے ساتھ باتوں میں لگ کر ان دونوں کا ہی ذہن فرحین کی طرف سے ہٹ چکا تھا۔۔۔ اس خبر کے سنتے ہی بہت سے اسٹوڈنٹس کے ساتھ نمیر اور نوفل نے بھی کلاس روم کی طرف جانے کی کوشش کی مگر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس جگہ پر کسی بھی اسٹوڈنٹ کو جانا الاؤ نہیں کیا۔۔۔ بہت حد تک کوشش کی گئی کہ فرحین کے ساتھ ہونے والا واقعہ دبا دیا جائے کیوکہ یہ دوسرا حادثہ تھا۔ ۔۔۔ اس سے یونیورسٹی کی ریپوٹیشن پر فرق پڑ سکتا تھا مگر اڑتی اڑتی خبروں سے کافی اسٹوڈنٹ میں چہ میگیاں ہونے لگی کہ اس روم میں فرحین کو کسی نے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کی کوشش کی
الوداعی پارٹی کے بعد نوفل کے پتہ لگانے پر صرف اتنا معلوم ہوسکا فرحین نامی اسٹوڈنٹ کی الوداعی پارٹی والے دن سیمینار روم کے پاس والی کلاس میں زخمی ہونے کی وجہ سے ڈیتھ ہوگئی تھی
اس کا مذاق فرحین کو اتنا مہنگا پڑ سکتا ہے نوفل نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔ خواب میں تو اس نے کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا شانزے فرحین کی بہن ہوسکتی ہے۔۔۔ اس نے فرحین سے چھوٹا سا مذاق کرنا چاہا تھا مگر شانزے کو فرحین کی بہن بنا کر تقدیر نے اس کے ساتھ بہت بڑا مذاق کیا۔۔۔ پشیماں حالت میں نوفل کی سوچوں کا محور دروازے کھلنے کی آواز پر ٹوٹا
"کیا ہوا ہے تمہیں تین دن سے،،، نہ کال اٹینڈ کر رہے ہو نہ پولیس اسٹیشن جارہے ہو"
شانزے حیرت زدہ ہو کر اس کے کمرے میں آتی ہوئی بولی
"تم یہاں میرے گھر سب خیریت ہے نا"
شانزے آج فرسٹ ٹائم نوفل کے گھر آئی تھی اس لئے نوفل نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا اور اپنا ریوالور سائیڈ پر رکھا
"یہ تو تم بتاؤ خیریت ہے کہ نہیں امی بتا رہی تھی کہ تین دن پہلے تم گھر آئے تھے اور کچھ کہے بنا ہی واپس چلے گئے۔۔۔ اور فون کالز بھی نہیں ریسیو کر رہے تھے صدیق سے تمہارا ایڈریس لے کر یہاں پر آئی ہو"
شانزے نے ایک نظر اس کی ریوالور کو دیکھا پھر بیڈ پر اس کے پاس بیٹھتی ہوئی بولی وہ خود بھی کالج یونیفارم تھی یقیناً وہ پیپر دے کر سیدھا یہی آئی تھی
"مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو چکی ہے شانزے،، بہت بڑی۔۔۔ معلوم نہیں اس کا ازالہ ممکن بھی ہے کہ نہیں"
نوفل اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھامے شانزے کو بولنے لگا
"الٹے سیدھے کاموں سے اپنا اکاؤنٹ بھرو گے تو ایسے ہی پچھتاوا ہو گا ناں۔۔۔۔ یہ اچھی بات ہے کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہے۔۔۔ اب اس طرح افسردہ مت ہو میرے سامنے اس طرح تو تم اور بھی برے لگ رہے ہو"
شانزہ نوفل کے دونوں ہاتھ پکڑ کر کہا تو نوفل نے اپنا چہرہ اوپر کیا شانزے اسے دیکھ کر مسکرانے لگی نوفل اسے دیکھنے لگا
"اگر تمہیں کبھی یہ معلوم ہوا کہ میں نے تمہارا اعتبار توڑا ہے یا تم سے چیٹنگ کی ہے تو تم کیا کرو گی شانزے"
نوفل شانزے کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا شانزے کی مسکراہٹ چہرے سے غائب ہوئی اس کی نظر نوفل کی ریوالور پڑی
"جان لے لو گی تمہاری"
وہ ریوالور اٹھا کر نوفل کے سینے پر رکھتی ہوئی بولی
"مگر کیا ہے ناں میں جاننے لگی ہوں۔۔۔ دنیا کا کوئی بھی مرد کچھ بھی کرلے مگر تم میرے ساتھ چیٹنگ نہیں کر سکتے نہ ہی میرا اعتبار توڑ سکتے ہو۔۔۔۔ بھئی لمبے لمبے فلمی ڈائیلاگ میں بالکل نہیں بول سکتی،، وہ تم ہی پر سوٹ کرتے ہیں اسی فوراً اپنے پرانے والے موڈ میں واپس آ جاؤ۔۔۔۔ امی تمہیں یاد کر رہی ہیں اس لئے سیٹرڈے کے دن تھوڑا ٹائم نکال کر شرافت سے گھر پہ آ جاؤ۔۔۔ تب تو میں بھی امی کے ساتھ ٹائم نکال کر ایک گھنٹہ دے سکتی ہوں ورنہ منڈے کو تو میرا پیپر ہے میں بزی رہو گی۔ ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے امی تمہیں اپنا بیٹا ماننے لگی ہیں،،، تم ان کی کال ریسیو نہیں کرتے یا گھر نہیں آتے تو وہ تمہیں مس کرتی ہیں۔۔۔ پھر تم نے کیا سوچا ہے تم نے آرہے ہو ناں سیٹرڈے کو"
شانزے نان اسٹاپ بولتی ہوئی آخر میں اس سے گھر آنے کا پوچھنے لگی
"آنٹی کو کہو میرا انتظار مت کیا کریں میں نہیں آ سکتا،،، اور تمہیں بھی مجھ پر اعتبار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،، اعتبار کے ٹوٹنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے"
نوفل کو لگا وہ شانزے اور نائلہ کی محبت کے لائق نہیں ہے اپنے منہ سے تو وہ حقیقت بتانے کی ہمت نہیں رکھتا تھا اس لئے شانزے کے سامنے بے رخی برتتے ہوئے بولا
"کیا مطلب لوں میں تمہارا ان باتوں کا"
شانزے بیڈ سے کھڑی ہو کر اس سے پوچھنے لگی
"مطلب واضح ہے تم چلی جاؤ"
نوفل اس سے نظریں چراتا ہوا بولا
"تم مجھے اپنے گھر سے جانے کے لیے بول رہے ہو"
شانزے کو اپنے اندر کچھ ٹوٹتا محسوس ہوا
"نہیں زندگی سے"
نوفل بولتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا جبکہ شانزے بے یقینی سے اس کے لفظوں پر غور کرنے لگی
****
وہ ایک گھنٹے پہلے پیپر دے کر گھر آئی تھی دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر شاور لینے چلی گئی اس کے بعد اس کا لمبا سونے کا پروگرام تھا کیوکہ نمیر اور ثروت دونوں ہی اسپتال میں نہال کے پاس موجود تھے۔۔۔ آج رات اسے جاگ کر اپنے نیکسٹ پیپر کی تیاری کرنی تھی جو کہ لاسٹ پیپر بھی تھا۔۔۔ عنایہ شاور لے کر نکلی تو بیڈ پر نمیر کو آنکھیں بند کیے لیٹا پایا۔۔۔۔ بیڈ پر رکھا ہوا دوپٹہ لینے کے لئے عنایہ نے ہاتھ بڑھایا تو نمیر کی آنکھ کھل گئی وہ اسے دیکھنے لگا
"پرسو جو ڈریس میں تمہارے لئے لے کر آیا تھا میرے خیال میں وارڈروب میں سجھانے کے لیے نہیں لے کر آیا تھا جاؤ ابھی اور انہی میں سے کوئی ایک ڈریس پہنو"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا نمیر پرسوں ہی اپنے پسند کے کلرز کے اسٹائلش ڈریس عنایہ کے لئے لایا تھا اور یہ بات بھی اس نے واضح کی تھی کہ اب وہ یہی ڈریس پہنے گی
"ابھی تو یہ پہن چکی ہوں نہ کل پہن لوں گی آپ کا لایا ہوا ڈریس"
عنایہ اپنے بالوں کو ٹاول سے رگڑتی ہوئی بولی۔۔۔ یہ پہنا ہوا ڈریس بھی نیا ہی تھا جو اس نے اپنی پسند سے لیا تھا
"تم میری بات کی نفی کرری ہو،،، یہ اچھی بات نہیں ہے۔۔۔ میں نے پہلے دن ہی ماما کے سامنے تم پر واضح کر دیا تھا مجھ سے شادی کی ہے تو میرے مائینڈ اور میرے مزاج کے مطابق تمہیں چلنا پڑے گا"
نمیر بیڈ سے اٹھ کر اسکے سامنے اکر بولا
"نفی کب کر رہی ہو یہی تو کہا ہے کل پہن لوگی آپکا لایا ہوا ڈریس۔۔۔۔ آج دھیان نہیں گیا میرا اسطرف"
عنایہ بیڈ پر ٹاول رکھکر ہیئر برش اٹھاتی ہوئی بولی۔۔۔ نمیر وارڈروب کے پاس جاکر عنایہ کے لیے ایک ڈریس نکال کر لایا
"تمہارا دھیان تب اس طرف جائے گا جب میں یہ ڈریس تمہیں خود پہناو گا"
نمیر نے قریب آکر اس کا دوپٹہ اتارتے ہوئے کہا عنایہ ایک دم پیچھے ہوئی اور دیوار سے ٹک گئی
"پیچھے ہٹیں مت تنگ کریں مجھے اسطرح"
نمیر کو اپنی طرف اتا دیکھ کر عنایہ بولی
"بیوی ہو تم میری،،، تمہارا سارا دھیان میں اپنی طرف دیکھنا چاہتا ہو،،، میری ہر بات تمہارے لیے معنیٰ رکھنی چاہیے۔۔۔ ویسے بھی تمھارے پیپرز تک میں نے تمہیں چھوٹ دی ہے اس کے بعد میں تم سے اپنے سارے جائز مطالبات پورے کرنے کا حق رکھتا ہوں۔۔۔ جاؤ دو منٹ میں چینج کر کے آو"
نمیر کی بات سن کر عنایہ کی سانس تھمنے لگی وہ نمیر کے ہاتھ سے ڈریس لے کر ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔ ۔۔۔ وہ تو منال سے محبت کرتا پھر آخر کیوں وہ اس سے طرح کی بات کر رہا تھا۔۔۔۔ کیا اس کی منال سے محبت ختم ہو گئی تھی اور اگر ختم بھی ہوگئی تھی تو وہ اپنے دل سے نہال کی محبت کیسے ختم کر سکتی تھی عنایہ کے دل میں پھانس سی چبھی
"کیا نہال کے بھائی کے نکاح میں آکر مجھے نہال کے بارے میں ایسا سوچنا چاہیے"
عنایہ کا دل اسی کی نفی کرنے لگا اب نہال کے بارے میں سوچنا ٹھیک نہیں تھا مگر نمیر۔۔۔۔ وہ اس کے بارے میں اس انداز میں کیسے سوچ سکتی تھی۔۔۔ اس نے تو ہمیشہ نمیر کو منال کے ساتھ تھی دیکھا تھا۔۔۔۔ اپنے ساتھ قائم ہونے والے اس دو ماہ کے رشتے کو وہ فوری طور پر قبول نہیں کر پا رہی تھی
ڈریس چینج کرکے وہ واپس روم میں آئی۔۔۔ نمیر موبائل پر محو گفتگو تھا عنایہ کو دیکھ کر کال کاٹ کر موبائل پاکٹ میں رکھتا ہوا عنایہ کے پاس آیا۔ ۔۔ عنایہ پھولے ہوئے منہ کے ساتھ بال بنانے میں مصروف تھی
"کیسا ہو آج کا پیپر"
نمیر بھرپور انداز میں اس کا جائزہ لینے لگا ڈارک بلو کلر کی شارٹ شرٹ،، جس کی چھوٹی سی سلیویز میں عنایہ کے سفید بازو چھلک رہے تھے شفون کا دوپٹہ پھیلا کر اوڑھنے پر بھی اس کا حسین سراپا اور بازو چھپائے نہیں چھپ رہے تھے نمیر اپنی مسکراہٹ چھپائے نرم لہجے میں قریب آکر پوچھنے لگا
"اچھا ہوگیا"
عنایہ نمیر کی قربت محسوس کر کے اتنا ہی کہہ سکی
"انگلش کا پیپر تھا ناں آج"
نمیر اسکی پشت پر پھیلے ہوئے بالوں کو دائیں کندھے سے آگے کرتا ہوا پوچھنے لگا
"جی۔۔۔۔ میں آپکے لیے کھانا لے کر آتی ہو"
نمیر اسکے بالوں سے آتی کنڈشنر کی خوشبو نتھنوں کے ذریعہ اپنے اندر اتار رہا تھا تبھی عنایہ نے فرار ہونا چاہا
"بھوک نہیں صرف پیاس کی طلب ہے اس وقت"
خمار ذدہ لہجے میں کہتا ہوا وہ دوپٹے کے اندر سے چھلکتے ہوئے بازوں پر اپنے ہاتھ دباؤ ڈالتا ہوا کہنے لگا
"پلیز مجھے جانے دیں میتھس کی پریکٹس کرنی ہے"
عنایہ اسکے ہاتھوں کا لمس اپنے بازوؤں پر محسوس کر کے منت بھرے لہجے میں بولی
"میں کراو گا پریکٹس مگر ابھی نہیں رات میں"
وہ عنایہ کا رخ اپنی طرف پھیر کر اس کا چہرہ تھامتا ہوا بولا
"نمیر پلیز"
نمیر کے انداز دیکھ کر عنایہ کی حالت غیر ہونے لگی مگر نمیر عنایہ کے بولنے پر نہیں دروازے کی دستک پر پیچھے ہٹا عنایہ نے شکر ادا کیا
"کیا مسئلہ ہے"
اس وقت نمیر کو حمیداں کی مداخلت ذرا پسند نہیں آئی جب ہی وہ چڑتا ہوا بولا
"وہ جی نوفل صاحب آپ کا ڈرائنگ روم میں انتظار کر رہے ہیں" حمیدہ کی بات سن کر نمیر کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ عنایہ سن ہو کر صوفے پر بیٹھ گئی
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 22
"کہاں غائب ہو تم ہفتے بھر سے،"
نمیر نے ڈرائنگ روم میں آکر صوفے پر بیٹھتے ہوئے نوفل سے پوچھا
"مجھے کہاں غائب ہونا ہے نہال کو دیکھنے سے ڈیلی اسپتال آرہا ہوں" نوفل بھی مصافحہ کرکے واپس صوفے پر بیٹھا
"نہال سے ملنے آ رہے ہو مگر ہم دونوں کی اتنے دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی"
نمیر اس کا چہرہ دیکھ کر جانچ گیا ضرور کوئی بات ہے
"پتہ چلا تھا اقبال (ملازم) سے تم نے گھر پر بھی چکر لگایا تھا۔۔۔ بس مصروف تھا ان دنوں"
نوفل سر صوفے سے ٹیکتا ہوا بولا
"واقعی مصروفیت تھی یا کچھ اور بات ہے"
نمیر نے اصل بات اس سے جاننی چاہی
"فرحین شانزے کی بڑی بہن تھی"
نوفل نے جتنے آرام سے سامنے بیٹھے نمیر کو بتایا نمیر اتنی حیرت سے نوفل کو دیکھنے لگا
"تمہارا مطلب ہماری یونیورسٹی والی فرحین"
نمیر نے جیسے ایک بار اور کنفرم کرنا چاہا جس پر نوفل نے اقرار میں سر ہلایا
"تم نے شانزے کو کچھ بتایا تو نہیں آئی مین اس رات والی بات"
نمیر نوفل کو دیکھتا ہوا سیریس ہو کر پوچھنے لگا
"تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب میں اپنے منہ سے بتا پاو گا شانزے کو۔۔۔ اور وہ یہ سب باتیں سن کر مجھے معاف کردے گی۔۔۔ جب سے یہ بات مجھے پتہ چلی ہے کہ فرحین شانزے کی بہن ہے تب سے میں شانزے سے نظریں نہیں ملا پا رہا شاید کبھی ملا بھی نہ پاو"
نوفل کو عجیب گھٹن اور بے بسی کا احساس تھا اور یہ احساس اسے پچھلے ہفتے بھر سے محسوس ہو رہا تھا
"دیکھو نوفل ہمیشہ تم مجھے سمجھاتے رہے ہو۔۔۔ اس رات جو بھی کچھ فرحین کے ساتھ ہوا،،، اس میں ہمارا قصور صرف اتنا تھا کہ ہم نے اسے شرارت میں کمرے میں لاک کیا،، اس کمرے میں پہلے سے کون موجود تھا یا بعد میں کون آیا اور فرحین کے ساتھ کس نے برا کیا۔۔۔ ان سب باتوں سے ہم بھی انجان ہیں تو پھر قصور وار کیسے ہوئے۔۔۔ ہماری نیت اس کے ساتھ کچھ غلط کرنے کی نہیں صرف اس کے ساتھ مزاق کرنے کی تھی"
نمیر نوفل کو وہی باتیں سمجھانے لگا جو اب تک نوفل اسے سمجھاتا آیا تھا
"اور ہمارے مزاق نے اس لڑکی کی جان لے لی"
نوفل نے بے چین ہوکر کہا۔۔۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ یہ قصہ ہزار بار یاد کرکے پشیماں تھا
"نوفل ہم دونوں میں یہ طے پایا گیا تھا کے اس واقعے کا ذکر ہم دونوں آپس میں بھی نہیں کریں گے۔۔۔ فرحین کے ساتھ برا ہوا،، مگر اس کا گناہگار کوئی اور ہے۔۔۔ اس لیے گلٹی ہونا بند کرو اور تم یہ سب باتیں کبھی بھی شانزے سے ڈسکس نہیں کروگے"
نمیر اسے غور سے دیکھتا ہوا ایک ایک بات سمجھانے لگا
"فرحین شانزے کی بہن ہے یہ حقیقت معلوم ہونے کے بعد تمہیں کیا لگتا ہے مجھے شانزے سے تعلق رکھنا چاہیے"
نوفل کرب سے بولا
"نوفل یار پلیز اب تم یہ مت کہنا کہ تم شانزے سے اپنا تعلق ختم کردو گے۔۔ اس سب قصے میں شانزے کا کیا قصور ہے بھلا"
نمیر جھنجھلاتا ہوا اسے سمجھانے لگا
"میں اس گلٹ کے ساتھ،، اس کے ساتھ ساری زندگی کیسے گزار سکوں گا نمیر"
نوفل بےبسی سے دیکھتا ہوں نمیر سے پوچھنے لگا
"تم اس کے بنا کیسے زندگی گزاروں گے،، ابھی سے حالت دیکھو اپنی۔۔۔۔ جو ہوچکا ہے نوفل اسے میں یا تم بدل نہیں سکتے،،، مگر شانزے کے دل میں اپنی فیلینگز پیدا کرنے کے بعد اس کو چھوڑ دینا یہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوگی اور تم کوئی ایسی بیوقوفی نہیں کروگے۔۔۔ تم شانزے کو فرحین کی بہن ہونے کی سزا نہیں دے سکتے"
نمیر نوفل کو سمجھا ہی رہا تھا تبھی ڈرائنگ روم میں ہونے والی آہٹ پر وہ دونوں چونکے نمیر اٹھ کر ڈرائنگ روم کے دروازے پر گیا۔۔۔۔ عنایہ کھانے پینے کی اشیاء سے بھری ٹرالی ڈرائنگ روم میں لا رہی تھی
"تمہیں لانے کی کیا ضرورت تھی حمیدہ کہاں ہے"
نمیر نے عنایہ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا جیسے اندازہ لگا رہا ہوں کہ اس نے کیا سنا
"حمیدہ رات کا کھانا بنا رہی تھی۔۔۔۔ اس لئے میں لے آئی"
عنایہ نمیر کے دیکھنے پر نظریں جھگاتی بولی۔۔۔ اسے پیڈرو والا منظر یاد آیا
"جاگ کیوں رہی ہو۔۔۔ جا کر سو جاؤ آج رات کو دیر تک جاگنا پڑے گا فی الحال تو میتھ کی پریکٹس کے لیے"
نمیر اسکے ہاتھ سے ٹرالی لےکر کا ڈرائینگ کے دروازے سے چلا گیا
نمیر کی بات سن کر عنایہ کو نیند ذرا مشکل سے ہی آنی تھی مگر وہ سست قدموں سے واپس بیڈروم میں چلی گئی
****
شانزے پیپر دے کر گھر پہنچی مگر وہاں اپنے باپ (اعجاز) کے علاوہ تایا، تائی اور تایازاد کو دیکھ کر وہ چونکی سامنے کرسی پر بیٹھی سرجھکائے نائلہ پر بھی اس کی نظر پڑی
"امی ان لوگوں کو جلدی فارغ کر کے کمرے میں آئے ضروری بات کرنی ہے"
شانزے ان سب پر ایک نظر ڈال کر نائلہ کو مخاطب کرتی ہوئی وہاں سے جانے لگی
"اے لڑکی نہ سلام، نہ کلام، کیا پڑھ لکھ کر بچی ہوئی تمیز بھی چلی گئی ہے تمہاری۔۔۔ معلوم نہیں گھر آئے مہمان سے کیسے ملا جاتا ہے"
شانزے کمرے میں جانے لگی تو اسے اپنی تائی کی آواز سنائی دی اپنے بھاری بھرکم تھل تھل کرتے وجود کو بمشکل صوفے پر پھنسائے وہ شانزے کو گھورتی ہوئی بولیں
"بن بلائے مہمانوں کو آجکل کوئی منہ لگانا پسند نہیں کرتا اور رہی بات کلام کی تو،، جو سلام کرنے کے لائق نہ ہو ان سے کلام بھی نہیں کیا جاتا" شانزے کا ٹکا سا جواب سن کر وہ اپنا منہ لے کر رہ گئی
"بڑی کیا ہوگئی ہے تو۔۔۔۔ پر نکال آئے ہیں تیرے بھی،، بہت زبان چلنے لگی ہے تیری"
شانزے کے تایا جن سے اس کی زبان درازی برداشت نہیں ہوئی شانزے کو گھورتے ہوئے بولے
"یہ آپ کا گھر نہیں ہے یہاں پر نیچی آواز میں ذرا مہذب طریقے سے بات کریں"
شانزے نے اپنے تایا کو دیکھتے ہوئے کہا جو اپنے گنوار پن کا ثبوت اپنی زبان سے دے رہے تھے یہی وجہ تھی اسے اپنے ان رشتےداروں سے سخت چڑ تھی
"تم تمیز سے بات کرو شانزے بھولو نہیں تایا ہیں یہ تمھارے"
اعجاز کے بولنے پر شانزے اپنے باپ کی طرف دیکھ کر طنزیہ ہنسی
"کم از کم آپ کو تو مجھے رشتوں کی پہچان کراتے ہوئے خود شرم آنی چاہیے،،، نہیں مانتی ہوں میں ان کو تایا،، جب آپ میرے پیدا ہونے پر مجھ سے میری ماں اور بہن سے،، اپنا رشتہ ختم کرکے چلے گئے تھے تو یہ کہاں سے میرے تایا لگے" شانزے اپنے باپ کے سامنے بے خوفی سے بولی
"شانزے اندر جاو اپنے کمرے میں"
نائلہ جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھی تھی ایک دم بول اٹھی۔۔۔ شانزے سر جھٹک کر اپنے کمرے میں چلی گئی
"بڑی کی بھی ایسی ہی زبان چلتی تھی دیکھ لینا اس کا انجام۔۔۔ چھوٹی کا بھی مجھے اتنے سالوں بعد خیال آیا صرف اپنی بھائی کی وجہ سے آیا اور خون کی کشش مجھے یہاں کھینچ لائی اگلے جمعہ کو جمشید کے ساتھ نکاح ہے شانزے کا۔۔۔ اچھی طرح سمجھا دینا اسے"
اعجاز کے بھائی نائلہ کو دیکھ کر مخاطب ہوئے جس پر نائلہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے بیٹھے جمشید کو دیکھنے لگی
لمبی لمبی مونچھوں والا،، منہ میں گٹکا بھرے وہ تھوڑی دیر پہلے شانزے کو کیسے گھور کے دیکھ رہا تھا
"ایسے کیا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی ہے میرے ہیرے جیسے بیٹے کو۔۔۔۔ اسکے سوا اور کون بیاہ نے آئے گا تیری بیٹی کو۔۔۔ آدھا شہر ڈر کے مارے کانپتا ہے ایسا مرد کا بچہ پیدا کیا ہے میں نے،، اگر تو نے یا تیری بیٹی میں ذرا بھی نخرے دکھائے نا تو پھر دونوں ماں بیٹی اپنا انجام بھی دیکھ لینا"
نائلہ کی بھاوج دھمکی دیتی ہوئے کہنے لگی اور جمشید اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا خود کو مرد ثابت کرنے لگا
"کیسی باتیں کرتی ہو تم بھابھی بیگم ان دونوں ماں بیٹیوں کیا مجال ہے جو منع کرے گی۔۔۔ میں باپ ہو شانزے کا اور میرا کہا ان دونوں کو ہی ماننا پڑے گا فرحین کے بارے میں جان کر کون آئے گا چھوٹی کے لیے۔۔۔ یہ تو بھائی جی کا احسان ہے جو شانزے کو اپنے گھر کی عزت بنانے کا سوچ رہے ہیں"
اعجاز اپنی بھاؤج سے مخاطب ہوا نائلہ افسوس سے اعجاز کو دیکھنے لگی
"اگلا جمعہ یاد رکھنا اچھی طرح"
نائلہ کا جیٹھ ایک دفعہ پھر اسے یاد دہانی کراتا ہوا اٹھا اور باقی سب کو بھی اٹھنے کا اشارہ کیا
****
"کیا ضرورت تھی ان لوگوں کے سامنے آ کر زبان چلا کر یوں بدتمیزی کرنے کی"
اعجاز کے گھر والوں کے جاتے ہی نائلہ نے کمرے میں آکر شانزے کی خبر لی شانزے تخت پر بیٹھی ہوئی کھانا کھانے میں مگن تھی
"آخر آئے ہی کیوں تھے وہ لوگ،، چڑ ہے مجھے ان کی شکلوں سے،، گھر کے اندر کیو کھسنے دیا آپ نے ان لوگوں کو"
شانزے کا ان لوگوں کے ذکر سے دوبارہ موڈ خراب ہونے لگا
"اگلے جمعہ کو نکاح کا بول کر گئے ہیں تمھارے تایا"
نائلہ نظریں چراتی ہوئے شانزے سے بولی
"کیا مطلب کس کا نکاح"
شانزے ناسمجھنے والے انداز میں نائلہ کو دیکھنے لگی تبھی نائلہ نے شانزے کو دیکھا
"تمہارا اور جمشید کا"
لفظ ہے کہ خنجر شانزے سے ضبط کرنا مشکل ہوگیا
"آخر کیا سوچ کر وہ لوگ یہ بات کر کر گئے ہیں منہ نہیں توڑا اپنے ان کے بیٹے کا"
شانزے کو جمشید کا چہرہ یاد آنے لگا کتنی کراہیت آرہی تھی شانزے کو جب وہ اپنی گندی نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا
"غنڈو میں اور موالیوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے جمشید کا،،، میرے کچھ بھی کہنے ہے انکار کرنے سے اگر وہ تمہیں اپنے ساتھ اٹھا کر لے جاتا تو"
نائلہ کو اپنی ہی کہی ہوئی بات سے خوف آنے لگا
"اندھی لگی ہوئی ہے جو اٹھا کر لے جاتا قتل نہ کر دیتی اس کا اسی کے ماں باپ کے سامنے"
شانزے کو نکاح والی بات کا سوچ پر غصہ آنے لگا
"اعجاز کی اس رشتے میں پوری پوری مرضی ہے اس لئے ان لوگوں سے کسی بھی قسم کی بعید نہیں تم نوفل کو بلاؤ ابھی کہ ابھی اس سے کہو مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے"
نائلہ ایک دم شانزے کا ہاتھ پکڑ کر بولی
"کیا بات کریں گی آپ اس سے میرے لیے بھیک مانگے گیں۔ ۔۔ نہیں کرنی مجھے اس سے شادی اور آپ کو بھی اس کے آگے گڑگڑانے کی ضرورت نہیں"
شانزے نائلہ کو دیکھتی ہوئی بولی نائلہ کی آنکھوں میں بے بسی سے آنسو آگئے
"ایک بیٹی کو معلوم نہیں کس نے بھاڑ میں جھونک دیا دوسری کو اپنے ہاتھ سے کیسے جھونک سکتی ہو" نائلہ بےبسی سے روتی ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔ اب شانزے کو رہ رہ کر نوفل پر بھی غصہ آ رہا تھا جو اسے چند دن پہلے گھر نے نکل جانے کے بعد دو دن سے کال اور سوری کے میسجز کر رہا تھا۔ ۔۔۔ اپنے موبائل پر شانزے کی نظر پڑی جو کہ نوفل کے نام کے ساتھ بلنگ کر رہا تھا
"مرو تم بھی"
شانزے ہے اپنا موبائل غصے میں سوئچ آف کرتے ہوئے کہا
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 23
"عنایہ کہا ہے ماما" نمیر آفس سے گھر پہنچا،، اپنے بیڈ روم میں عنایہ کو موجود نہ پاکر ثروت کے پاس آ کر پوچھنے لگا
"آج پیپر ختم ہوگئے ہیں اس کے تو کہنے لگی کہ تین چار دنوں کے لیے فرمان کے پاس جانا چاہتی ہے ایک گھنٹے پہلے ہی ڈرائیور کے ساتھ نکلی ہے"
ثروت نمیر کو بتانے لگی
"اور آپ نے اس کو جانے دے دیا"
نمیر بگڑے ہوئے زاویوں کے ساتھ شکوہ کرتے ہوئے ثروت سے پوچھنے لگا
"اس کا دل چاہ رہا تھا نمیر،، اپنے ماموں سے ملنے کا اس کو دیکھنے کا"
ثروت بیڈ سے اٹھ کر نمیر کے پاس آتی ہوئی اسے سمجھانے لگی
"جانتا ہوں میں کیوں دل چاہ رہا تھا اس کا۔۔۔۔ ماما آپ اسے طور طریقے سکھائے سسرال میں کیسے رہا جاتا ہے شوہر کو کس طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے" نمیر سر جھٹکتا ہوا ثروت سے کہتے ہوئے وہی صوفے پر بیٹھ گیا
"کیا طور طریقے سکھانے ہیں اسے،، تمہارے کہنے پر پہلے دن سے تمہارے لیے ناشتہ بنانے لگی ہے جو کہتے ہو چپ کر کے مان جاتی ہے کبھی آگے سے زبان نہیں چلاتی بحث نہیں کرتی جواب دینا تو دور کی بات"
ثروت نمیر کے پاس بیٹھ کر اسے کو سمجھانے لگی
"بہت سیدھی لگتی ہے آپ کو،،، کسی دن دیکھیے گا میرے سامنے کیسے زبان چل رہی ہوتی ہے سارے جوابات دینے آتے ہیں اسے"
نمیر نے ثروت کو دیکھ کر جتنا سیریس ہو کر کہا ثروت مسکرانے لگی
"اب لڑکی کے سیدھے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں وہ اپنی زبان کو تالو سے ہی چپکا لے شوہر ہو تم اس کے تم سے باتیں نہیں کرے گی تو اور کس سے کرے گی۔۔۔ ویسے اگر تمہاری شادی منال سے ہوجاتی تو تم اس سے کیا توقع کر رہے تھے وہ تمہارے لیے صبح اٹھ کر ناشتہ بنا رہی ہوتی تمہاری بات سن رہی ہوتی،، تقدیر کے فیصلوں پر شکر ادا کرنا چاہیے جو بھی ہوتا ہے اچھے کیلئے ہوتا ہے"
ثروت نمیر کو دیکھ کر کہنے لگی جیسے وہ اس فیصلے پر خوش تھی
"منال کا ذکر مت کیا کریں ماما اس کے ساتھ تین سالوں کی کمٹمینٹ شاید میری زندگی کی بے وقوفی تھی اور رہی تقدیر کے فیصلوں پر شکر ادا کرنے کی بات تو دعا کریں،، جب نہال ہوش میں آئے تو وہ بھی اس تقدیر کے فیصلے کو جلد سے جلد قبول کرلے"
نمیر اس تقدیر کے فیصلے کو نہ صرف دل سے قبول کر چکا تھا بلکہ اندر کہیں خوش بھی تھا مگر جب اس کا دماغ نہال کی طرف جاتا تو اس کے دل کو دھڑکا لگا رہتا۔۔۔۔ اس نے عنایہ سے یہ رشتہ توڑنے کے لئے ہرگز قائم نہیں کیا تھا اس لیے نمیر چاہتا تھا عنایہ بھی اس حقیقت کو قبول کرلے
"معلوم نہیں میرے نہال کی قسمت میں کیا لکھا ہے آج پورے دو ماہ دس دن ہو گئے اسے ہوش و خروش سے بیگانہ ہوئے۔۔۔ کبھی کبھی تو کوئی اچھی امید نظر ہی نہیں آتی ہے"
ثروت آج صبح سے نہال کے پاس اسپتال میں موجود تھی وہ روز نہال سے یہ سوچ کر باتیں کرتی کہ ایک دن تو وہ اس کی باتوں پر جواب دے گا ثروت آج صبح سے ہی نہال کے بارے میں سوچ کر کافی افسردہ تھی
"بس اب آپ اداس ہونے لگ جائیں اور اپنی طبیعت خراب کر لیں۔۔۔۔ ماما میں نے نہال کے لیے ہمیشہ پوزیٹو سوچ رکھی ہے کبھی اس کے لئے کوئی برا خیال دل میں نہیں لایا میں،، وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ آپ تو ماں ہے نہ پھر اس طرح کیوں سوچ رہی ہیں"
نمیر ثروت کے کندھے کے گرد اپنے ہاتھ باندھ کر اسے دلاسہ دینے لگا
"چلو چینج کر پر آؤ حمیدہ سے کہہ کر کھانا لگاتی ہوں" ثروت اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی نمیر گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہوا اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
تھوڑی دیر پہلے نمیر اور ثروت رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے کمرے میں چلیں گئے تھے نمیر کافی دیر تک دیوار میں نصب ایل ای ڈی پر ٹاک شوز دیکھتا رہا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جب بیڈ پر لیٹا تو اسے عنایہ کی حرکت پر غصہ آیا۔۔۔۔ آدھے گھنٹے تک کروٹ بدلنے کے بعد جب اسے نیند نہیں آئی تو کار کی چابی لے کر باہر نکل گیا
****
عنایہ پیپر دے کر گھر آئی تو اسے اپنے سر سے بوجھ اترتا ہوا محسوس ہوا مگر بیڈروم میں آکر اسے نمیر کے جملے یاد آئے
"تمہارے پیپر تک تمہیں چھوٹ دی ہے اس کے بعد میں اپنے ہر جائز مطالبات خود پورے کرنے کا حق رکھتا ہوں"
عنایہ کو گھبراہٹ ہونے لگی ایک مصیبت اس کے سر سے ٹلتی نہیں کی دوسری تیار کھڑی رہتی تھی وہ بے دلی سے سوچتی ہوئی بیڈ پر لیٹ گئی
اور کل رات کیا ہوا تھا،، کس طریقے سے نمیر نے اس کو میتھ کی پریکٹس کرائی تھی عنایہ کل رات والا منظر سوچ کر سرخ ہونے لگی
"تمہیں معلوم ہے تمہارے چہرے پر سب سے خوبصورت چیز کیا ہے"
نمیر جو کافی دیر سے اس کو بےحد سنجیدگی سے شرافت کے دائرے میں پڑھا رہا تھا اچانک عنایہ سے پوچھنے لگا
"مجھے معلوم ہے میری آنکھیں خوبصورت ہیں کالج کی لڑکیاں اور شانزے نے مجھے یہ بات بتائی ہے"
پرابلمز سولو کرتی ہوئی عنایہ نمیر کو دیکھے بغیر بولی
"یہ خیال تو میرا بھی تم سے شادی سے پہلے تھا کہ تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں مگر اب میں نے غور سے دیکھا ہے تمہارے ہونٹ بھی بہت خوبصورت ہیں اور ہونٹوں کے علاوہ۔۔۔۔"
نمیر کی بات سن کر عنایہ نے رجسٹر سے سر اٹھا کر نمیر کو دیکھا ہونٹوں سے ہوتی ہوئی اس کی نظر جہاں گٙئی عنایہ اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی پرابلم سولو کرتے کرتے اسے اپنے دوپٹے کا خیال ہی نہیں گیا
"باقی کی پریکٹس میں خود دوسرے روم میں کر لوں گی۔۔۔ اب آپ سو جائیں"
اچھا خاصا سنجیدہ پڑھاتے پڑھاتے نہ جانے اس کی کون سی رگ پھڑکتی تھی،، جو وہ عنایہ کا دل دہلا دیا کرتا تھا۔۔۔ عنایہ رجسٹر اور پین لے کر اٹھنے لگی تبھی نمیر نے اس کی کلائی پکڑی
"نہ ہی میں سو رہا ہوں اور نہ ہی تم کہیں جا رہی ہو۔۔۔ کافی دیر سے میں سیریس ہو کر تمہیں پڑھا رہا ہوں اب مجھے بریک چاہیے"
وہ عنایہ کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"آپ اس طرح سے مجھے پڑھائے گے،،، آپ چاہتے ہیں کہ میں فیل ہو جاؤ۔۔۔ چھوڑیے مجھے"
عنایہ نے اسے اپنی کلائی چھڑائی مگر وہ اس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کر چکا تھا
"اس لئے تو آج تک میں نے تمہارے علاوہ کسی کو ٹیوشن نہیں دی۔۔۔ تم فیل ہو گئی تو میں بار بار تمہیں میتھ کی پریکٹس کراو گا۔۔۔۔ ویسے بھی آج شام شدت سے میرا دل چاہتا کہ میں حمیدہ کو گولی مار دو اب خاموشی سے مجھے بریک دو تھوڑا"
نمیر بولتا ہوا عنایہ کے ہونٹوں پر جھکا۔۔۔ مگر عنایہ کی مزاحمت پر ایک سیکنڈ بعد پیچھے ہوا
"میں اپکو بلاوجہ ڈیسنٹ انسان سمجھتی تھی اب کھبی بھی نہیں پڑھو گی آپ سے"
عنایہ ایک ہاتھ اپنی آنکھوں پر دوسرا ہونٹوں پر پھیرتی ہوئی دوبارہ اٹھنے لگی تو نمیر بھی کھڑا ہوا
"میں ڈیسنٹ ہی ہوں یار۔۔۔۔ مگر شوہر بھی تو ہو میری بھی تو فیلنگز سمجھا کرو،،، پچھلے ایک گھنٹے سے تم رجسٹر میں جھکی ہوئی دوپٹے سے بے پرواہ پرابلمز سولو کرتی ہوئی۔۔۔۔ مجھے پرابلم میں ڈال رہی تھی"
نمیر بےبسی سے کہنے لگا تو عنایہ مزید ناراض ہوتی ہوئی اسے دیکھنے لگی
"اچھا بس اب مذاق ختم اب سیریس ہو کر پڑھیں گے شاباش بیٹھو واپس"
وہ عنایہ کو بٹھا کر دوبارہ سنجیدگی سے پڑھانے لگا
عنایہ کی آنکھوں کے آگے کل رات والے منظر کی فلم سی چلی عنایہ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا اسے لگا جیسے نمیر اس کے سامنے ہی بیٹھا ہوا ہے
شام کے وقت اسکی آنکھ کھلی تب تک ہسپتال سے ثروت گھر آ چکی تھی عنایہ ثروت سے اجازت لے کر فرمان کی طرف چلی گئی فلحال تو اسے اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر یہاں آ کر عشرت کا رویہ اس کے ساتھ وہی تحقیر آمیز تھا۔۔ وہ کرید کرید کر نمیر اور اس کے بیچ تعلقات کا پوچھنے لگی عنایہ نے اسے تسلی بخش جواب دیا مگر تسلی والی بات سن کر عشرت کو خاص تسلی نہیں ہوئی،،، وہ جل بھن کر رہ گئی
عنایا فرمان کے پاس بیٹھی ہوئی اس سے باتیں کر رہی تھی تو اسے باتوں کے دوران منال کا معلوم ہوا منال اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے کہیں دوسرے ملک گئی ہوئی ہے فرمان کا دل بھی منال سے کافی دکھا ہوا تھا۔۔۔ فرمان بھی عنایہ سے نمیر اور اس کے متعلق پوچھنے لگا اسے نصیحتیں کرنے لگا عنایہ نے اسے بھی تسلی بخش جواب دیا جس پر فرمان خوش ہوا اور عنایہ کو ڈھیر ساری دعائیں دی بیٹی
عنایا کا دل چاہا وہ فرمان سے اور بھی باتیں کرے مگر عشرت کو ماموں بھانجی کی محبت زیادہ دیر گوارا نہ ہوئی وہ تھوڑی دیر بعد فرمان کو آرام کا کہہ کر بیڈ روم میں لے گئی اور جاتے جاتے عنایہ کو گھورنا ہرگز نہیں بھولی عنایہ بھی خاموشی سے اپنے کمرے میں آگئی دوپہر وہ کافی دیر تک سوئی تھی اس لیے اس وقت اسے نیند کا احساس نہیں ہوا گھڑی رات کے بارہ بج آرہی تھی فرمان اور عشرت یقیناً سو چکے تھے عنایہ ابھی شانزے کو کال ملانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا سامنے نمیر کو دیکھ کر اس کے ہاتھ سے موبائل بیڈ پر گر گیا۔۔۔ نمیر روم کا دروازہ لاک کر کے اس کے پاس آیا تو عنائہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی
"فرار کی کوشش بے کار ہے کب تک بھاگو گی تمہارے سارے راستے اب مجھ تک ہی آتے ہیں۔۔۔ یہ بات تو اب تمہیں اپنی ذہن میں بٹھا لینی چاہیے"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا بولنے لگا
"مجھے کیا ضرورت ہے آپ سے بھاگنے کی میں کیوں بھاگو گی، پیپر ختم ہوگئے تھے اور ماموں جان سے ملنے کا دل چاہ رہا تھا۔۔۔ آپ تو معلوم نہیں کونسی باتیں کر رہے ہیں مجھے تو آپکی باتیں ہی سمجھ میں نہیں آتی"
عنایہ کے بالکل وہم و گماں میں نہیں تک کہ وہ رات کو یہاں چلا آئے گا۔۔۔ عنایہ سے جو باتیں نمیر کر رہا تھا وہ اس ٹاپک سے بچنا چاہتی تھی اس لئے یکسر انجان بنتی ہوئی بولی اس کے انجان بننے پر نمیر نے عنایہ کا بازو پکڑ کر خود سے قریب کیا
"اس وقت یہی باتیں تو سمجھانے آیا ہو تمہیں،، پہلے یہ بتاؤ تم نے مجھ سے پرمیشن لی تھی یہاں آنے کی"
نمیر اس کا بازو پکڑ کر اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھنے لگا
"میں آنٹی سے پوچھ کر ان کی اجازت پر آئی تھی"
عنایہ اس کے سنجیدہ موڈ کو دیکھ کر سر جھکاتی ہوئی بولی عنایہ کو کیا معلوم تھا وہ یہاں آ کر اس سے سوال جواب شروع کر دے گا
"میں ماما کی بات نہیں کر رہا اپنی بات کر رہا ہوں شوہر ہوں تمہارا۔۔۔ میری پرمیشن کے بغیر کیا تمہیں گھر سے باہر نکلنا چاہیے تھا"
نمیر نے اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھا اس کا بازو چھوڑ کر اس کا چہرہ اوپر کر کے اس سے سوال کرنے لگا
"آپ کون سا گھر پر موجود تھے جو آپ سے اجازت لیتی"
عنایہ نمیر کو دیکھتی ہوئی ہمت کر کے اپنی دفاع میں بولی
"یہ موبائل تم نے شانزے سے باتیں کرنے اور گیم کھیلنے کے لئے لے کر رکھا ہے ایک کال نہیں کرسکتی تھی تم"
نمیر اس پر طنز کرتا ہوا بولا کیوں کہ اکثر فارغ وقت میں اس نے عنایہ کو انہی دو کاموں میں لگے دیکھا تھا
"آپ کو کال کر کے اجازت لیتی تو کیا آپ مجھے یہاں آنے کی اجازت دیتے"
نمیر کے بار بار سوال پوچھنے پر وہ جھنجھلاتی ہوئی بولی تو نمیر کو ہنسی آئی
"نہیں میں تمہیں آج یہاں آنے کی اجازت بلکل نہیں دیتا۔۔۔ وجہ سے تم لاعلم نہیں ہوں۔۔۔۔ لیکن اگر تم چاہو تو وجہ میں بتا بھی سکتا ہوں کہ میں تمہیں آج یہاں کیوں نہیں آنے دیتا"
وہ عنایہ کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کرتا ہوا بولا
"مم۔۔۔ مجھے نیند آرہی ہے"
عنایہ اس کے خطرناک عزائم دیکھ کر ہکلا کر بولی اور پیچھے ہٹنا چاہا
"سو جانا۔۔۔ مگر سونے سے پہلے میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں شوہر کسی کہتے ہیں یعنی شوہر کی اصل ڈیفینیشن"
نمیر عنایہ کو بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکتا ہوا بولا
"آ۔۔۔۔پ کیا کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ اس طرح نہیں کر سکتے"
نمیر کو اپنے اوپر جھکا دیکھ کر عنایہ کی سانسوں میں روانی آگئی
"میں تمہارے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرسکتا،،، شادی ہوئی ہے ہماری جب آگے زندگی ہم دونوں نے ساتھ گزارنی ہے تو پھر ان ڈراموں کا مطلب"
نمیر اپنا چہرہ عنایہ کے قریب لاکر اس کے اعتراض کی وجہ جاننے لگا
"مجھے یہ سب کو قبول کرنے میں تھوڑا وقت چاہیے۔۔۔ میں نے ابھی ہم دونوں کی رشتے کے متعلق ایسا نہیں سوچا آپ پلیز سمجھیں"
نمیر اس کے بےحد قریب تھا عنایہ آنکھیں بند کئے تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے التجا کرنے لگی
"جب تم نے ایسا سوچا نہیں،، تمہارا دل و دماغ اس رشتے کو قبول نہیں کر پا رہا تو پھر شادی کے لیے حامی کیوں بھری انکار کیوں نہیں کیا جواب دو"
عنایہ آنکھیں بند کیے نمیر کے لہجے میں سختی کے ساتھ اپنے چہرے ہر اس کی گرم سانسیں بھی محسوس کر سکتی تھی
"مجھے تھوڑا ٹائم دیں پلیز"
عنایہ دوبارہ نمیر سے التجا کرنے لگی کیوکہ مزاحمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا وہ اس پر پورا پورا کسی دیو کی طرح قابض تھا
"فاصلے صرف دوریاں پیدا کرسکتے ہیں تمہارا دل اور دماغ اس حقیقت کو جبھی تسلیم کرے گا،،، جب تم مجھے شوہر کے روپ میں دیکھوں گی۔۔۔ ہمہارے رشتے کی حقیقت کو قبول کرنے کے لیے ایسا ضروری ہے،، اب کوئی بے کار کا جواز میں تمہارے منہ سے نہ سنو"
نمیر نے بولتے ہوئی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو عنایہ کے بالوں میں پھنسایا اس کا چہرہ اوپر کیا اور عنایہ کی گردن پر جھک کر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔۔ نمیر کی سانسوں کی گرمائش اور ہونٹوں کا لمس عنایہ اپنی گردن پر محسوس کرکے تڑپ گئی۔۔۔ عنایہ کا پورا وجود نمیر کے مضبوط حصار میں چھپ سا گیا وہ عنایہ کی گردن پر محبتِ مہر ثبت کرتا مزید پیش قدمی پر اتر آیا۔۔۔ اس کا نرم و نازک وجود نمیر کو مزید مدہوش کیے دے رہا تھا۔۔۔ جب عنایہ کا بولنا کام نہیں آیا،،، تو نمیر کی بڑھتی جسارت پر اسے رونا آنے لگا وہ اس وقت کر بھی کیا سکتی رونے کے علاوہ۔۔۔ دوسری طرف نمیر جو پوری طرح مدہوش ہوئے اپنا جائز وقت حق وصولنے کے موڈ میں تھا مگر عنایہ کے رونے پر اس موڈ خراب ہونے لگا۔۔۔ نمیر اٹھ کر بیٹھا اور عنایہ کو بھی کھینچ کر بٹھایا
"پرابلم کیا ہے تمہاری،، تم یوں رو کر کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہو مجھ پر،،، زیادتی کر رہا ہوں میں تمہارے ساتھ،، یا زبردستی کررہا ہوں۔ ۔۔۔ چل کیا رہا ہے تمہارے دماغ میں۔۔ کلیئر کرو ابھی اور اسی وقت،، یہاں میری طرف دیکھ کر"
وہ عنایہ کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ کر غصّے میں بولا عنایہ کا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچتا ہوا اوپر اٹھایا
"تم اس طرح خاموشی اختیار کر کے میرے غصے کو مزید ہوا دے رہی ہوں۔۔۔ میری ایک بات کان کھول کر سن لو بلکہ آج ہی اپنے دماغ میں بٹھا لو،،، عنایہ تم میرے نکاح میں ہو میری بیوی ہو اور میری مردانگی یہ بات بالکل برداشت نہیں کرے گی تمہارے دل اور دماغ میں میرے علاوہ کوئی دوسرا نام آئے۔۔۔۔ اگر اب تمہیں رونا آیا یا تم نے مجھے ظالم ظاہر کرنے کی کوشش کی تو اس کا خمیازہ تم ہر رات جنونیت کی صورت بھگتو گی"
نمیر نے بولتے ہوئے جھٹکے سے عنایہ کو لٹایا اور اپنے شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اس پر دوبارہ جھکا تبھی اس کے موبائل پر کال آنے لگی نمیر کا بالکل ارادہ نہیں تھا اس وقت کسی سے بھی بات کرنے کا۔۔۔۔ وہ اپنا موبائل پاکٹ سے نکال کر اسے سوئچ آف کرنے لگا تبھی موبائل کے اسکرین پر جگمگاتا ہوا نمبر دیکھا تو اسے کال ریسیو کرنی پڑی
"آپ کے لیے گڈ نیوز یہ ہے کہ آدھے گھنٹے پہلے آپ کے پیشنٹ کوما سے واپس آگئے ہیں"
نہال کے ڈاکٹر نے نمیر کو یہ خبر دی تو بے یقین سا ہو کر رہ گیا،، اس وقت وہ اس خبر کی توقع نہیں کر پا رہا تھا مگر اس خبر کے لیے اس نے ڈھیر ساری دعائیں بھی مانگی تھی
"یہ بہت بڑی خبر ہے میرے لیے تھینک یو سو مچ۔۔۔۔ میں آدھے گھنٹے میں پوچھتا ہوں"
نمیر نے ڈاکٹر کو کہہ کر موبائل اپنی پاکٹ میں رکھا اور شرٹ پہن کر اپنی گاڑی کی کیز اٹھانے لگا
نمیر کو شرٹ پہنتے اور گاڑی کی کیز اٹھانے پر عنایہ اسے دیکھنے لگی مگر اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ نمیر سے کچھ پوچھتی نمیر بھی اس سے کچھ بولے بغیر ہی کمرے سے باہر نکل گیا عنایہ اسے حیرت زدہ ہوکر جاتا ہوا دیکھنے لگی
جاری ہے
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 24
نمیر جیسے ہی اسپتال کے کمرے میں داخل ہوا نہال اس کو دیکھ کر بے چینی سے اٹھ بیٹھا نمیر اس کی طرف بڑھا
"سب کے سب مایوس ہو جائیں مگر میں نے اس بات کی امید بلکل نہیں چھوڑی،، مجھے پورا یقین تھا میرا دل کہتا تھا تم ٹھیک ہو جاؤ گے" نمیر اسے گلے لگاتا ہوا بولا
"ماما کیسی ہی کہاں آئی وہ"
نہال نمیر سے الگ ہوکر ثروت کے بارے میں پوچھنے لگا
"ٹھیک ہے ماما بھی معلوم ہے آج ہی وہ مجھ سے تمہاری باتیں کرکے اتنی دلبرداشتہ ہو رہی تھی انہیں معلوم ہوگا تم ہوش میں آگئے وہ بہت خوش ہوگیں"
نمیر نہال کو دیکھ کر خوشی سے بتانے لگا۔۔۔ نمیر اپنی آنکھوں کے سامنے اسے بات کرتا ہوا دیکھ کر خوش تھا اس کے دل میں اطمینان تھا کہ نہال اب بالکل ٹھیک ہو چکا ہے
"عنایہ وہ کیسی ہے"
نہال کے سوال پر نمیر کا مسکراتے لب ایکدم سکڑے گئے نہال غور سے اسے دیکھنے لگا تو نمیر بولا
"وہ ٹھیک ہے"
نمیر نے جواب دیا
"کیسے سمنبھالا ہوگا تم نے ماما اور ان عنایہ کو عنایہ کا دل کی بہت کمزور ہے وہ بہت روۓ ہوگی ناں"
نہال نے دوبارہ نمیر سے سوال کیا
"وقت سنبمال لیتا ہے انسان کو اب تم اپنے دماغ پر زیادہ زور مٹ ڈالو، ڈاکٹرز نے تمہیں ریلیکس رہنے کے لیے کہا ہے"
نمیر فلحال اس ٹاپک سے بچنا چاہتا تھا اس لئے نہال سے بولا اور ساتھ ہی اس کے دل و دماغ میں کئی سوالات گردش کرنے لگے
اتنے میں دوبارہ روم کا دروازہ کھلا اور نوفل کمرے میں آیا۔۔۔۔ نمیر کو جب ڈاکٹر نے نہال کے بارے میں اطلاع دی تھی اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے نمیر نے نوفل کے لیے میسج چھوڑ دیا تاکہ جب بھی وہ میسج دیکھے اسے معلوم ہوجائے اب نوفل اور نہال ایک دوسرے سے مل رہے تھے
"نہال اے بی سی ڈی سناو جلدی سے" نوفل اسے گلے مل کر سیریس ہوکر کہنے لگا نمیر اور نہال دونوں ہی نہ سمجھنے والے انداز میں نوفل کو دیکھنے لگے
"مگر کیوں"
نہال حیرت سے اس سے پوچھنے لگا
"چیک کرنا ہے تمہاری یادداشت تو نہیں گئی ڈاکٹرز نے کہا تھا زیادہ تر چانس ہے کہ ایسا ہو جائے"
نوفل کی بات پر وہ دونوں ہنس دیے
"نمیر مجھے ماما کے پاس جانا ہے انہیں دیکھنا ہے"
تھوڑی دیر تک وہ تینوں باتیں کرتے رہے اس کے بعد نہال نمیر کو دیکھتا ہوا بولا
"ڈاکٹرز اپنی تسلی کے لئے ایک دو ٹیسٹ کرلیں پھر چلیں گے گھر"
نمیر ریلکس انداز میں صوفے پر بیٹھا ہوا نہال کو دیکھ کر بولا وہ اب عنایہ اور اپنے رشتے کے متعلق سوچنے لگا۔۔۔ عنایہ ابھی بھی ریلیشن اسٹارٹ نہیں کرنا چاہتی تھی یہ سوچ اسے تھکانے لگی
"میرے پیچھے تمہاری لو اسٹوری کا کیا بنا،، شادی تو نہیں کرلی ان دو ماہ میں"
نہال اب نوفل کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا نہال کے سوال پر نمیر نے بھی نوفل کو دیکھا وہ اپنی طرف سے تو اسے سمجھا چکا تھا شانزے سے تعلق ختم کرنا بےوقوفی کے علاوہ کچھ بھی نہیں
"مجھے تم سے ساری زندگی طعنے ہرگز نہیں سننے تھے کہ میرے پیچھے شادی کرلی اور ولیمہ بھی نہیں کھلاتا۔۔۔ اب ریڈی ہو جاؤ کیوکہ میرے نکاح کے گواہوں میں ایک گواہ تم بھی ہوں گے"
نوفل نے بات کو مذاق کا رنگ دیتے ہوئے کہا مگر سچ تو یہ تھا وہ اتنے دنوں سے شانزے کو بہت مس کر رہا تھا اور وہ اس سے اتنی سی خفا تھی کہ اس کی کال بھی رسیو نہیں کر رہی تھی اتفاق سے وہ نائلہ سے بھی ملنے نہیں جا سکا مگر اب وہ کل صبح انکے گھر جانے کا پورا ارادہ رکھتا تھا
"اور تم نے اپنے بارے میں کیا سوچا۔۔۔ میں ماما سے کہوں گا کوئی عنایہ جیسی لڑکی دوسری ملے تو میرے ساتھ ہی تمہاری بھی شادی کر دیں"
نہال نمیر کو دیکھتا ہوا بولا
"اف نہال خاموش بھی کرو ہوش میں آتے ہی کتنا بول رہے ہو تم۔۔۔ ڈاکٹر سے پوچھ کر آتا ہوں چھٹی کا کب تک ممکن ہے"
نمیر چڑتا ہوا بولا اور اسپتال کے روم سے باہر نکل گیا
"ایسا کیا ہو گیا اچانک، یہ تو شادی کے نام سے ایسا چڑا ہے جیسے کوئی روگ لگا کر بیٹھا ہوں"
نہال اب نوفل کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"دراصل تم دو ماہ سے خاموش تھے۔۔۔ میں، نمیر، آنٹی آکر تم سے روزانہ باتیں کرتے کے شاید ہمیں بولتا ہوا دیکھ کر تمہاری خاموشی ٹوٹے۔۔۔۔ اور آج جب تمہیں ہوش آیا ہے تو تم نان اسٹاپ شروع ہوچکے ہو"
نوفل مسکراتا ہوا بولا مگر وہ نہال کو یہ نہیں بتا سکتا نمیر کو واقعی روگ تو لگ چکا ہے اپنی بیوی سے محبت کا
****
"میرا بچہ میری جان"
ثروت روتی ہوئی بار بار نہال کا چہرہ چوم کر خدا کا شکر ادا کر رہی تھی
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نوفل اور نمیر اسے گھر لے کر آئے تھے۔۔۔ دوماہ لیٹے رہنے کی وجہ سے وہ فوری طور پر اپنے ہاتھ پاؤں موو نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔ ثروت نہال کے بیڈروم میں اس کے برابر میں ہی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ نوفل اجازت لے کر وہاں سے نکلا۔۔۔ ثروت کے کہنے پر نمیر میں فرمان اور عشرت کے ساتھ باقی رشتہ داروں کو بھی نہال کے ہوش میں آنے کی اطلاع دی
****
"یہ کیا بدتمیزی ہے راستہ کیوں روکا ہے میرا ہٹو سامنے سے" شانزے نائلہ کی میڈیسن لے کر واپس اپنے گھر جا رہی تھی تو اچانک اس کے سامنے جمشید آگیا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ گٹکے کی بدبو کے ساتھ جمشید کی شکل دیکھ کر شانزے کو متلی ہونے لگی
"بہت زبان چلتی ہے تیری،، چند دن ٹہر تجھے صحیح کا مزا چکھاؤں گا پھر تجھے سمجھ میں آئے گا جمشید چیز کیا ہے"
جمشید نے اس کے قریب آکر اسے دھمکاتے ہوئے ڈرانے کی پوری کوشش کی
"تم چند دن میں مزہ چکھانے کا ارادہ رکھتے ہوں مگر میں اپنے ہاتھ کا مزہ تمہیں ابھی چکھاتی ہو"
شانزے کے ہاتھ نے اس کا گال پر سرخ نشان چھوڑا
"آئندہ میرے سامنے میرے گھر میں یا راستے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ ورنہ جوتی اتار کر بھرے بازار میں تمہاری ایسی درگت بناؤں گی کہ آنے والی نسلیں منہ چھپاتی پھریں گی"
شانزے اسے وارن کرتی ہوئی وہاں سے جانے لگی
"رک تیری یہ مجال تو نے جمشید پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔ اب نکاح تو ہوگا بعد میں، پہلے میں بتاتا ہوں کہ منہ کون چھپاتا پھرے گا"
جمشید شانزے کا ہاتھ کھینچتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا
ہاتھ چھوڑو میرا بےغیرت انسان ورنہ جان سے مار دوں گی تمہیں"
وہ شانزے کا ہاتھ پکڑتا ہوا اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا شانزے زور لگا کر بھی اپنا ہاتھ جمشید کے ہاتھ سے نہیں چھوڑا پائی تو دوسرے ہاتھ سے اس پر مکے برسانے لگی اس نے روڈ پر کھڑے بے حس لوگوں کو دیکھا جو تماشہ دیکھنے اور ویڈیو بنانے میں مصروف تھے
اتنے میں نوفل جو کہ نائلہ سے ملنے آرہا تھا روڈ پر بھرے مجموعے پر اس کی نظر پڑی اور جو منظر اس کی آنکھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی شانزے کو زبردستی کار میں بٹھا رہا ہے نوفل کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔
نوفل اپنے گاڑی سے اترتا ہوا اس آدمی پر جھپٹا اور تابڑ توڑ گھونسوں مُکوں اور لاتو کی اس پر بوچھار شروع کردی
"ابے تو ہے کون۔۔۔ مجھے نہیں جانتا کیا،، آدھا شہر مجھ سے ڈرتا ہے"
جمشید اپنے پھٹے ہوئے ہونٹ سے خون صاف کرتا ہوا نوفل کو بولا
"آج کے بعد ادھا شہر تجھ پر ہنسے گا"
نوفل نے جمشید کے سینے پر لات ماری،،، وہ نوفل کی گاڑی کے آگے جا گرا نوفل نے اسے گریبان سے اٹھا کر کھڑا کیا اور اپنی گاڑی کے بونڈ پر اس کا سر دے مارا
"چھوڑ مجھے وہ میری چچازاد ہے شادی ہونے والی ہے میری اس سے" جمشید بری طرح زخمی ہو چکا تھا وہ نڈھال ہوتا ہوا بولا اس کے جملے پر نوفل کا ہاتھ ہوا میں ہی ٹھہر گیا نوفل اب مزید غصے سے جمشید کو دیکھنے لگا۔۔۔ نوفل کے رکنے پر جمشید کو مہلت ملی وہ نوفل کو دھکا دے کر اپنی گاڑی چھوڑ کر بھاگ نکلا
نوفل اٹھا اور اپنے کپڑے جھاڑتے لگا شانزے ابھی بھی مجمعے کو دیکھ کر جمشید کی گاڑی میں دوپٹے سے چہرہ چھپائے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ آج اسے صحیح معنوں میں نائلہ اور عنایہ کی باتیں سمجھ میں آرہی تھی یہ معاشرہ ہی ایسا تھا جہاں اکیلی عورت کو دیکھ کر ہر کوئی اس کی مجبوری اور بے بسی سے فائدہ اٹھاتا
نوفل نے شانزے کے پاس جانے سے پہلے لوگوں کے مجموعے میں سے ان دو لڑکوں کو گریبان سے پکڑ کر بیچ میں لاکر کھڑا کیا جن کے ہاتھوں میں موبائل موجود تھے اور جو بڑے اطمینان سے ویڈیو بنانے میں مصروف تھے۔۔۔ نوفل نے باری باری دونوں کے منہ پر طماچے مار کر ان سے موبائل چھینا اور زمین پر پھینک کر جوتے مار کر موبائل کی اسکرین کو چکنا چور کردیا
"جب تمہاری ماں بہنوں کے ساتھ کوئی آدمی ایسا سلوک کر رہا ہو تب بھی تم لوگ ایسے ہی ویڈیو بنانا۔۔۔۔ اوئے تم تینوں بھی یہاں ہوں اور اپنے اپنے موبائل دو"
نوفل نے چیخ کر تین لڑکوں کو مزید بلایا جو سوری سر کرتے ہوئے اپنا موبائل نوفل کو دینے لگے
"تمہیں معلوم ہے نہ میں کس تھانے کا ایس پی ہو"
ان لڑکوں میں سے ایک کو نوفل بھی جانتا تھا اس لڑکے نے فورا جی کہہ کر سر ہلایا
"اپنے اپنے موبائل کل پولیس سٹیشن سے آ کر لے جانا اور اگلی بار اگر کسی مجبور کے ساتھ زیادتی ہوتے دیکھو تو اس کی ویڈیو بنانے کی بجائے تھوڑی سی مردانگی دکھا دینا۔۔۔ چلو اب نکلو یہاں سے سب کے سب"
موبائل نوفل اپنے پاس رکھتا ہوا بولا وہ لڑکے وہاں سے چلے گئے
"سنائی نہیں دے رہا تم لوگوں کو،، خالی کرو روڈ مفت کا تماشہ دیکھنے والی بغیرت عوام"
نوفل نے چیخ کر تماشبین سے کہا جو ابھی بھی کھڑے کسی اور فلمی سین کے انتظار میں تھے آئستہ آئستہ رش چھٹنے لگا اس کے بعد نوفل شانزے کی طرف بڑھا
"نکلو کار سے"
کار کا دروازہ کھول کر وہ شانزے سے محاطب ہوا۔۔۔۔ شانزے اپنے چہرے سے دوپٹہ سرکا کر اسے دیکھنے لگی شانزے کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی جبکہ نوفل کے چہرے پر سنجیدگی طاری تھی
شانزے کار سے نکل کر اپنے گھر کی طرف رخ کرنے لگی تبھی نوفل اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی گاڑی تک لایا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر شانزے کو اندر بٹھایا شانزے خاموشی سے بنا احتجاج کئے بیٹھ گئی
"کون تھا یہ چھچھوندر اور کیا بکواس کرکے گیا ہے۔۔۔ کہ تمہاری اس سے"
نوفل جملہ مکمل کیے بنا سنجیدگی سے شانزے کو دیکھنے لگا
"صحیح کہہ رہا تھا وہ، تایا ذات ہے میرا اور اگلے جمعہ کو میرا نکاح ہے اس کے ساتھ،،، امی تمہیں آج کل میں انویٹیشن دینے کے لئے کال کریں گی"
شانزے نے بھی اتنی ہی سنجیدگی سے نوفل کو دیکھ کر بولا
"شانزے۔۔۔۔ میں اس وقت مذاق کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں"
نوفل نے غصے میں شانزے کا نام پکارا اور سخت لہجے میں اپنا جملہ مکمل کیا،، ایسا تو وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا
"میں نے تم سے آج تک مذاق کیا ہے جو میں اب تم سے مذاق کروگی،، تمہیں تکلیف کس بات پر ہو رہی ہے تمہی نے تو مجھے اپنی زندگی سے نکل جانے کے لیے کہا تھا"
شانزے بھی سنجیدگی سے اسے یاد دلانے لگی جس پر نوفل نے بے بسی سے اپنی آنکھیں بند کی اور دوبارہ کھولی
"فراموش کر بیٹھا تھا اس بات کو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا تمہارے بنا زندگی گزر جائے گی مگر ان چند دنوں میں ہی احساس ہوگیا یہ ناممکن سی بات ہے"
نوفل اب شانزے کو دیکھتا ہوا اعتراف کرنے لگا اتنی سنجیدگی سے اعتراف شاید اس نے پہلی بار آج شانزے کے سامنے کیا تھا
"ابھی چند دن تو ایسا لگے گا ہی مگر چند سال بعد جب تمہاری زندگی میں کوئی دوسری آجائے گی تو شانزے کون تھی شاید تمہیں میرا نام تک یاد نہ رہے"
شانزے تلخی سے بولی
"تم کوئی سنعیہ ماریہ یا علشباہ تھوڑی ہو۔۔۔ بلکہ میری سچی محبت ہو جس سے میں نہ صرف شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔۔۔ بلکہ میرے چنوں اور منوں کی ماں بھی تم ہی بنو گی"
نوفل شانزے کا ہاتھ تھام کر محبت بھری نظریں اس پر لٹاتا ہوا بولا۔۔۔ مگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ پرانی محبوباؤں کا نام لے کر وہ اپنی شامت لے آیا ہے
"سنعیہ، ماریہ علیشباہ یعنی مجھ سے پہلے یہ بھی تمہاری محبتیں رہی ہیں اور تم اپنے کرتوت اپنے ہی منہ سے کتنے فخر سے بتا رہے ہو مجھ کو،،، چُلو بھر پانی میں ڈوب مرو تم"
شانزے کا یہ سب سن کر دماغ ہی گھوم گیا یعنی وہ اچھا خاصا چھچورا انسان تھا،، جسے وہ شریف آدمی سمجھ بیٹھی تھی کس ڈھٹائی سے وہ اپنی پرانی محبتوں کا اعتراف کر رہا تھا۔۔۔ شانزے گاڑی سے اتر کر پیدل چلنے لگی
"شانزے رکو،، میری بات سنو یار۔۔۔ ان میں سے دو تو بچپن کی تھی اور ایک یونیورسٹی کی،، مجھے معلوم تھا علشبا خود بھی میرے ساتھ ٹائم پاس کر رہی تھی اس لیے میں بھی اس کے ساتھ وقت گزاری کر رہا تھا،، تمہارے سر کی قسم"
نوفل بھی گاڑی سے اتر کر شانزے کے ساتھ پیدل چلتا ہوا اپنی بےگناہی کا یقین دلانے لگا شانزے اس کی بات سن کر رکی اور رخ نوفل کی طرف کیا
"تمہیں یاد ہے پہلی ملاقات میں جو تپھڑ میں نے تمہارے گال پر مارا تھا وہ کونسا گال تھا"
شانزے اسے دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگی
"سیدھے گال پر الٹے ہاتھ کا تھپڑ مارا تھا مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو"
نوفل اب شانزے سے پوچھنے لگا
"تاکہ آج تمہارے دوسرے گال پر بھی الٹے ہاتھ کا تھپڑ مار کر سارا حساب بےباک کر دوں"
شانزے نے سچ میں اس کے دوسرے گال پر تپھڑ مارنا چاہا مگر نوفل نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"دماغ خراب ہے تمہارا چلتے ہوئے روڈ پر میرا تماشہ بناؤں گی،، لوگ ہنسیں گیں مجھ پر کہ ایک مچھڑ کی دھلائی کرنے کے بعد ایس۔پی نے لڑکی کے ہاتھوں تھپڑ کھا لیا"
نوفل شانزے کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی عزت کا احساس دلانے لگا
"تو پھر اس چلتے ہوئے روڈ پر خود بھی چلتے ہوئے بنو،، اب میرا پیچھا کیا نہ تو واقعی تھپڑ کھاؤ گے"
شانزے غصے میں یہ بھی بھول گئی کہ تھوڑی دیر پہلے وہ اس کو جمشید سے بچا کر احسان نام کی کوئی چیز کر چکا ہے اور گھر کی طرف چل دی نوفل جو نائلہ سے ملنے جا رہا تھا اپنا ارادہ ملتوی کرتا ہوا کار میں بیٹھ کر پولیس اسٹیشن نکل گیا
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # ²5
"بیٹا یقین جانو تمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے صحیح سلامت دیکھ کر دل کو بہت اطمینان ہورہا ہے۔۔۔ ورنہ جس حالت میں تمہیں ایکسیڈنٹ کے بعد دیکھا تھا بہت برے خیالات آتے تھے" شام میں فرمان اور عشرت کے ساتھ عنایہ بھی نہال کے ہوش کی خبر سن کر ثروت کے گھر پر موجود تھی مگر اس وقت نے نہال کے کمرے میں فرمان اور عشرت کے علاوہ ثروت اور نمیر موجود تھے
"بے شک اللہ کی ہی ذات ہے جو تنکے میں جان ڈالنے والی ہے، میری وجہ سے آپ سب کو بہت پریشانی ہوئی مجھے اس بات کا افسوس ہے،، ماما نے بتایا تھا آپ کی بھی کافی طبیعت خراب ہوگئی تھی اب کیسی طبیعت ہے آپ کی"
نہال فرمان کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا فرمان نہال سے نظریں چرا گیا
"بس بیٹا اللہ پاک نے زندگی لکھی تھی یا پھر عنایہ کی فکر نے مرنے ہی نہیں دیا"
فرمان نہال کو دیکھ کر بولنے لگا۔۔۔ عنایہ کے نام سے نہال کے ذہن ایک بار پھر ان عنایہ کی طرف چلا گیا۔۔۔۔ فرمان اور عشرت کو دیکھ کر اسے حیرت ہوئی کہ عنایہ اس سے ملنے نہیں آئی۔۔۔ صبح سے سارے رشتے وقفے وقفے سے آئے سب کی کال آئی مگر اسے جس کا انتظار تھا،، انتظار انتظار ہی رہا
"خالہ جانی آپ بات نہیں کررہی مجھ سے،، کیا ناراض ہیں آپ"
عشرت کافی دیر سے خاموش بیٹھی تھی نہال اس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"ارے نہیں چندا بھلا میں کیوں ناراض ہوگیں تم سے،، میں تو اب تمہاری ناراضگی کا سوچ رہی ہوں کہ تم کس کس سے ناراض ہوتے ہو" عشرت نے بہت میٹھے لہجے میں طنز کیا جس سے کمرے میں موجود تمام نفوس کو سانپ سونگھ گیا
"میں کسی سے کیوں ناراض ہو گا بھلا"
عشرت کی بات نہال کے سر پر سے گزر گئی اس لیے وہ پوچھنے لگا
"یہ بھی جلد معلوم ہو جائے گا بس تم حوصلہ رکھو" عشرت شیریں لہجے میں بولی
آج ثروت کو اپنی بہن کی باتوں پر دلی طور پر بہت افسوس ہوا جبکہ نمیر خار کھانے والی نظروں سے عشرت کو دیکھ رہا تھا
"خالہ جانی عنایہ کیسی ہے، وہ نہیں آئی یہاں پر"
نہال تھوڑا جھجکتا ہوا عشرت سے پوچھنے لگا
"بیٹا جانی عنایہ کو تو آپ بھول جاؤ"
عشرت مزے سے نہال کو بولی
"عشرت"
فرمان نے نظروں میں عشرت کو تنبیہ کرتے ہوئے کچھ بھی کہنے سے باز رکھا جبکہ ثروت اپنی بہن کو ملامتی نظروں سے دیکھنے لگی نمیر سے تو اب عشرت کا وجود اس کمرے میں برداشت کرنا مشکل ہو گیا اس لئے وہ خود کمرے سے باہر نکل گیا
"عنایہ کو بھول جاؤ مطلب کیا ہے اس بات کا"
نہال کو عشرت کا اس طرح بولنا برا لگا جبھی وہ عشرت سے پوچھنے لگا
"میرا مطلب ہے اسے بھول کر خود کو مکمل صحت یاب کرو اپنی فکر کرو اور خیال رکھو" عشرت فرمان کے گھورنے پر اب سمبھل کر بولی
****
کل رات کو نمیر کا یوں اچانک چلے جانا عنایہ کو سمجھ میں نہیں آیا تھا مگر جب صبح بوا نے یہ خبر سنائی کہ نہال ہوش میں آگیا ہے تو چند منٹ کے لئے یہ خبر سن کر عنایہ سکتے میں چلی گئی۔۔۔
فرمان کی پریشان نظریں،،، عشرت کی مذاق اڑاتی نظریں،، وہ صبح سے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ فرمان کا دوپہر میں ڈاکٹر سے اپوائنمنٹ تھا وہ تینوں ہی ڈرائیور کے ساتھ شام میں نہال کو دیکھنے پہنچے فرمان اور عشرت تو نہال کے کمرے میں اس کو دیکھنے چلے گئے مگر عنایہ کے پاؤں جیسے کسی نے جکڑ لئے ہو۔۔۔ وہ وہی لان میں بیٹھ گئی وہ کافی دیر سے لان میں بیٹھی ہوئی کسی گہری سوچ میں گھم تھی اسے نمیر کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا
"یہاں کیوں بیٹھی ہوں اکیلے"
نمیر نہال کے کمرے سے نکلا تو داخلی دروازے سے لان میں اسے کرسی پر عنایہ بیٹھی ہوئی نظر آئی وہ کل رات کو اسے سے کچھ بتائے بغیر ہی آ گیا تھا،، عنایہ کو گہری سوچ میں گم دیکھ کر نمیر نے اسے متوجہ کرنے کے لیے سوال کیا
"کیوں اب یہاں بیٹھنے پر بھی پابندی لگائیں گے آپ"
عنایہ نے اپنے سامنے کھڑے نمیر سے منہ بنا کر پوچھا اسے نمیر کا کل رات والا انداز بالکل اچھا نہیں لگا تھا اور وہ نمیر سے خفا بھی تھی وہ اسے اپنی خفگی کا احساس دلانا چاہتی تھی
"تم کون سا میری پابند رہتی ہو وہ بیویاں اور ہی ہوتی ہیں جو اپنے شوہر کا حکم بجا لائیں ان کی خواہشات کا احترام کریں"
نمیر عنایہ کے پاس رکھی دوسری کرسی پر ریلیکس انداز میں بیٹھتا ہوا بولا تو عنایہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی یعنی وہ اپنی خفگی کا اظہار کر رہی تھی مگر نمیر کے الٹے اس سے شکوے کم نہیں ہو رہے تھے
"اور کس طرح اپنا پابند بنانا چاہتے ہیں آپ کپڑے تک تو میں آپ کے لائے ہوئے آپ کی مرضی سے پہنتی ہو اب کیا ایکسپیکٹ کر رہے ہیں مجھ سے اپنا سر قلم کرکے آپ کے قدموں میں رکھ دوں"
عنایہ کو نمیر کے اوپر غصہ آنے لگا وہ اپنا غصہ جتاتی ہوئی بولی مگر شاید سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو تو اس کے غصے کی پرواہ ہی کہاں تھی وہ ابھی بھی اپنی مسکراہٹ ضبط کیے عنایہ ہی کو دیکھ رہا تھا جس پر عنایہ تپ کر رہ گئی
"بیوی میری ہو تو کپڑے بھی میری پسند کے ہی پہنوں گی کوئی احسان تھوڑی کر رہی ہو میری ذات پر،، شوہر ہوں میں تمہارا،، میرا حکم ماننا تمہارا فرض ہے۔۔۔ اور تمہارے قلم ہوئے سر کا میں کیا کروں گا،، بات اپنے دل کی کرو تو شاید کچھ بات بنے"
نمیر عنایہ کا نازک ہاتھ تھام کر اسے دیکھتا ہوا بولا
"دل کے سودے زبردستی نہیں ہوتے"
عنایہ چڑتی ہوئی بولی۔۔۔ اسے معلوم تھا ان سب باتوں کا کوئی جواز نہیں ہے اب اسے زندگی بھی نمیر کے ساتھ ہی گزارنی ہے
"مگر جو چیز میری ملکیت میں آجائے میں اسے اپنی دسترس سے دور جانے نہیں دیتا" نمیر نے سنجیدگی سے اسے جتانے کے ساتھ اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا۔۔۔۔ عنایہ شکوہ کرتی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی شاید وہ اسے انسان نہیں کوئی چیز سمجھتا تھا جو زور زبردستی سے اسے حاصل کرلے
"ان شکوہ کرتی نگاہوں کا میں کیا مطلب سمجھو،، کل رات کونسا کچھ ہوگیا تھا ہمارے درمیان جو یوں ناراضگی دکھا رہی ہو"
نمیر نے جتنی بے باکی سے عنایہ کو دیکھتے ہوئے سوال کیا عنایہ کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہوگیا۔۔۔ کل رات والا منظر یاد آنے پر وہ نظریں چرائے اٹھنے لگی مگر اس کا ہاتھ ابھی بھی نمیر کے ہاتھ میں تھا اور گرفت ایسی جیسے اب وہ اسے کبھی بھی نہیں چھوڑنے والا تھا
"کہاں جا رہی ہو"
نمیر کی نگاہیں اس کے چہرے سے گردن پر گئی کل رات کی طرح اس وقت بھی نمیر کے دل میں خواہش جاگی کے وہ اپنے ہونٹ عنایہ کی گردن پر رکھ دے
"ماموں جان کو بلانے کے لیے کافی دیر ہوگئی ہے، اب ہمیں واپسی کیلئے نکلنا چاہیے"
عنایہ نظریں ملائے بغیر بولی جیسے وہ نمیر کے دل کی خواہش سے باخبر ہو
"عجیب سا نہیں لگے گا تمہیں اپنے ماموں جان اور مامی کو یہ کہتے ہوئے کہ کافی دیر ہو گئی ہے اب آپ لوگوں کو چلنا چاہیے"
نمیر ایسے ہی اس کا ہاتھ پکڑے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا
"کیا مطلب ہے آپ کی بات وہ دونوں اکیلے تھوڑی جا رہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ جاؤں گی"
اب کی بار وہ نمیر کو دیکھتی ہوئی بولی
"تم کہیں نہیں جا رہی ہوں ایک دن ہی کافی ہے بعد میں کبھی میرا موڈ ہوا تو چھوڑ دوں گا تمھیں مزید ایک دن کے لیے"
نمیر کے اتنے آرام سے بولنے پر عنایہ سلگ کر رہ گئی
"میں اپنا سارا سامان لے کر نہیں آئی ہوں میرے کپڑے وہی پر موجود ہیں اور ماموں جان جب پوچھیں گے کہ میں ان کے ساتھ کیوں نہیں جا رہی ہوں تو میں کیا بولوں گی"
عنایہ کو ایک بار پھر اس پر غصہ آنے لگا
"تمہارے کپڑے کل ڈرائیو لے کر آ جائے گا اور رہی بات فرمان خالو کی،، تو انہیں صاف کہہ دینا میرا شوہر مجھے واپس بھیجنے کے موڈ میں نہیں سمپل"
نمیر نے بڑے پرسکون انداز میں اس کے مسئلے کا حل نکالا اور خود بھی اٹھ کر کھڑا ہوگیا
"میں آج صوفے پر ہی سوو گی"
عنایہ غصے میں اپنا ہاتھ اس سے چھڑاتی ہوئے بولی
"کوشش کرکے دیکھ لینا"
نمیر اسے چیلنج کرتا ہوا گھر کے اندر چلا گیا
****
عنایہ فرمان کے ساتھ واپس تو نہیں گئی مگر اس کا موڈ اچھا خاصہ خراب ہوچکا تھا نہال ابھی بھی اٹھ نہیں پا رہا تھا اور ثروت مستقل نہال کے پاس اسکے روم میں ہی بیٹھی ہوئی تھی اس نے رات کا کھانا بھی حمیدہ سے نہال کے کمرے میں ہی منگوایا
"کیا ہوا کھانے کا موڈ نہیں ہے کیا آج"
نمیر اپنے کمرے میں آتا ہوا عنایہ سے بولنے لگا جوکہ موبائل پر شانزے سے محو گفتگو تھی
"میرا موڈ نہیں ہورہا آپ کھالیں"
عنایہ کال کاٹ کر منہ بناتی ہوئی بولی
"میں یہاں تم سے کھانا کھانے کا پوچھنے نہیں آیا ہوں اٹھو اور چل کے مجھے کھانا دو"
نمیر عنایہ کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا جس پر عنایہ مزید تپ اور نمیر کو گھورتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی۔۔۔ وہ ابھی حمیدہ سے کھانا نکالنے کا کہنے ہی لگی تھی
"حمیدہ تم جاو ماما سے پوچھو اور کسی چیز کی ضرورت تو نہیں" نمیر نے کچن میں آکر بولا عنایہ نے نمیر کو ایک دفعہ پھر کھا جانے والی نظروں سے دیکھا
"کھانا تم ٹیبل پر رکھو اپنا اور میرا" نمیر عنایہ کو بولتا ہوا چیئر کھسکا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ عنایہ نے خاموشی سے ٹیبل پر کھانا لگایا
"تمہاری پلیٹ کہاں ہیں"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"بتایا تو تھا مجھے کھانا نہیں کھانا" عنایہ دوبارہ منہ بناتی ہوئی بولی
"غصہ کھانے سے بہتر ہے انسان کھانا کھا لے جلدی سے پلیٹ لاؤ"
نمیر اب کی بار نرمی سے بولا
"آپ کو کیا ضرورت ہے میری فکر کرنے کی آپ اپنا پیٹ بھرے بس"
عنایہ نمیر کو دیکھ کر کہنے لگی
"کاش اس وقت خالہ جانی یہاں پر موجود ہوتی اور وہ تمہاری چلتی ہوئی زبان کے نظارے ملاخطہ فرماتی خیر یہ بھی ٹھیک ہے مجھے کیا ضرورت پڑی ہے تمہاری فکر کرنے کی، مجھے تو بس اپنی ضروریات کی پرواہ کرنی چاہیے"
نمیر کندھے اچکا کر لاپروائی سے کہتا ہوا بولا۔ ۔۔ عنایہ اس کی بات سن کر پٹختی ہوئی وہاں سے جانے لگی
"عنایہ"
نمیر کی آواز پر پلٹ کر وہ اسے دیکھنے لگی
"تم ڈش کا اسپون لانا بھول گئی ہو یہ کھانا میں اپنے ہاتھ سے نکالوں گا"
نمیر نے بولتے ہوئے پوری کوشش کی کہ اپنے چہرے پر سنجیدگی برقرار رکھے عنایہ اس کو گھورتی ہوئی کچن میں واپس آئی اور اسپون لا کر ڈش میں ڈالا
"اور کسی چیز کی ضرورت ہے آپ کو"
عنایہ نمیر کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی اسے معلوم تھا وہ تھوڑی دیر بعد پھر اس کا نام پکارے گا
عنایہ کی بات سن کر نمیر کے چہرے پر مسکراہٹ رینگی
"فکر نہیں کرو اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو گی تو تمہیں سے طلب کروں گا"
نمیر محبت لٹانے والی نظروں سے اس کو دیکھ کر کہنے لگا عنایہ دوبارہ اس کی فضولیات کا جواب دیے بغیر وہاں سے جانے لگی
"عنایہ"
اپنے نام کی پکار پر دانت پیس کر عنایہ نے مڑ کر اسے دیکھا
"پانی بالکل ٹھنڈا نہیں ہے کیوبز ڈالو اس میں"
نمیر بالکل سنجیدگی اختیار کیا ہوا بولا اور کھانے میں مصروف ہوگیا عنایہ فریج کی طرف بڑھی کیوبس نکال کر جگ میں انڈیلی وہ واپس مڑنے ہی لگی
"گلاس میں بھی پانی نکال دو"
نمیر نوالہ چباتا ہوا مگن انداز میں عنایہ سے بولا
"عنایہ نے شدت سے پانی کا گلاس اس کے سر پر مارنے کی اپنی خواہش کو دباتے ہوئے گلاس میں پانی نکالا اور گلاس نمیر کے قریب رکھا وہ بیڈ روم میں جانے لگی
"عنایہ"
عنایہ گھورتی ہوئی دوبارہ پلٹی
"اب کیا نیا مسئلہ نکل آیا آپ کے ساتھ"
عنایہ جنھجنھلاتی ہوئی بولی
"سیلڈ نہیں ہے آج کھانے میں"
نمیر بالکل نارمل انداز میں اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ یقیناً حمیدہ سیلڈنہال کے روم میں لے کر جا چکی تھی
"نہیں ہے تو کیا کروں، مجھے سیلڈ بنا کر کھا جائیں آپ"
عنایہ عشرت کے الفاظ استعمال کرتی ہوئی بولی وہ بدتمیز ہرگز نہیں تھی مگر نمیر جب سے اس کی زندگی میں آیا تھا وہ اسے اب اکثر بدتمیزی کرنے پر مجبور کردیتا تھا
"آئیڈیا برا نہیں ہے مگر یہ رات کو ٹرائی کروں گا اب مجھے یوں کھا جانے والی نظروں سے گھورنا بند کرو اور خاموشی سے سیلڈ بناؤ میرے لیے۔۔ کھیرے کاٹ کر مت رکھ دینا میرے سامنے، ریشین سیلیڈ بناؤ"
نمیر کی نئی فرمائش پر عنایہ کھول کر رہ گئی
دوبارہ کچن میں آکر فرج سے کیبج نکال کر باریک کاٹنے لگی
"ذرا شرم نہیں آتی بیوی کو تنگ کرتے ہوئے بلکہ جان بوجھ کر تنگ کرتے ہوئے"
منہ ہی منہ میں بولتی ہوئی ابلی ہوئی مٹر فریزر سے نکال کر چکن اسٹریڈ میں مکس کرنے لگی جلدی جلدی ہاتھ چلا کر ریشین سیلیڈ تیار کرکے عنایہ نے باول ٹیبل پر رکھا اور وہی چیئر پر بیٹھ گئی اسے معلوم تھا دوبارہ بیڈروم میں جانا بیکار ہے۔۔۔ اس کو چیئر پر بیٹھا دیکھ کر نمیر مسکرایا
نمیر رشین سیلیڈ کا باول اٹھا کر کانٹے کی مدد سے سیلڈ کھانے لگا
"وینیگر نہیں ڈالا اس میں"
ایک نوالہ منہ میں رکھ کر اب نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میں نے وینیگر ڈالا ہے اس میں"
عنایہ ضبط کرتی ہوئی تحمل سے بولی
"اچھا ٹیسٹ کرکے دیکھو"
وہ کانٹے میں سیلڈ بھر کر وہ کانٹا اس کے منہ کی طرف لے گیا
"میں کسی کا جھوٹا فارک یا اسپون یوز نہیں کرتی"
عنایہ نمیر کو دیکھ کر کہنے لگی
"میں کسی تھوڑی ہوا ہبی ہوں تمہارا،، منہ کھولو شاباش"
نمیر مزید اس کے منہ کے قریب نوالہ لے کر گیا تو عنایہ کو منہ کھولنا پڑا اس نے آج پہلی دفعہ کسی کا جھوٹا فارک یوز کیا تھا
"اچھا خاصہ وینیگر کا ٹیسٹ آرہا ہے" عنایہ نمیر کو دیکھ کر بولی
"اچھا"
نمیر نے دوبارہ اپنے منہ میں فارک کی مدد سے نوالہ ڈالا
"ہاں وینیگر ڈالا ہے تم نے، لیکن بلک پیپر ڈالنا بھول گئی ہو تم"
نمیر نے فارک میں سیلڈ بھر کر عنایہ کے کچھ بولنے سے پہلے اور اس کے منہ میں ڈال دیا
"اس میں بلیک پیپر بھی موجود ہے" عنایہ منہ چلاتی ہوئی نمیر کو گھورتی ہوئی بولی
"اچھا میں نے نوٹ نہیں کیا"
نمیر اب نوالہ اپنے منہ میں ڈال کر بلیک پیپر ٹیسٹ کرنے لگا
"دیکھو مٹر صحیح سے ابلی ہوئی نہیں لگ ری"
نمیر نے اس کے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے پوچھا
"مٹر پہلے سے ہی بوائل فریز میں رکھی ہوئی تھی
عنایہ منہ میں بھرے ہوئے سیلڈ کی وجہ سے بامشکل بول پائی
"اچھا مجھے فیل نہیں ہوا"
نمیر نے دوسرا نوالہ خود اپنے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا
اس طرح نمیر کسی نہ کسی چیز کی کمی ظاہر کرتے ہوئے ایک نوالہ خود اپنے اور دوسرا عنایہ نوالہ عنایہ کے منہ میں ڈال دیتا اسطرح کھانا کھانے کے بعد وہ نہال کے کمرے میں گیا تو عنایہ نے سکون کا سانس لیا اس میں کوئی شک نہیں تھا وہ عنایہ کے لیے کبھی کبھی دوسری عشرت ثابت ہوتا عنایہ بیڈ روم میں آکر اپنا تکیہ لے کر صوفے پر لیٹ گئی
اب اسے نمیر کے کمرے میں آنے سے پہلے سونا تھا اور اسے اپنی نیند پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ چند منٹ میں سو جائے گی
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 26
ابھی وہ سونے کا سوچ ہی رہی تھی کہ بیڈروم کا دروازہ کھلا اور نمیر روم کے اندر آیا ایک نظر روم میں صوفے پر لیٹی ہوئی عنایہ پر ڈالی اور اپنے کپڑے لے کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
نمیر چینج کر کے واپس آیا تو عنایہ کی پشت اس کی طرف تھی وہ اسے کچھ کہے بغیر روم کی لائٹ بند کرکے جا کر خود بیڈ پر لیٹ گیا اور ایل ای ڈی ان کرکے چینل بدلنے لگا
"اوہو تو میری نیند خراب کرنے کے لیے تیز آواز میں فلم دیکھی جارہی ہے مگر یہ شاید بھول چکے ہیں میں نیند کی کتنی پکی ہوں میرے کانوں کے پاس کوئی لاؤڈاسپیکر میں بھی بولے تو مجھے سونے میں کوئی مسئلہ نہیں"
عنایہ دل ہی دل میں مسکراتی ہوئی خود سے مخاطب ہوئی۔۔۔ وہ واقعی تھوڑی دیر میں سو جاتی اگر ایل ای ڈی میں سے بادل گرجنے،، جناتی قہقہوں کے ساتھ رونے کی آوازیں نہیں آتی۔۔۔ عنایہ کا ذہن اب اسکرین کی طرف چلتی ہوئی مووی کی طرف چلا گیا
نمیر شاید کوئی ہارر مووی دیکھ رہا تھا ڈراہونے میوزک کے ساتھ ساتھ بجلی کٹرکنے جانورں کی آوازیں اور بچے کے رونے کی آوازوں سے عنایہ کو اب صوفے پر لیٹے لیٹے خوف آنے لگا
"کیوں ڈسٹرب کر رہے ہیں آپ،، بند کریں نہ یہ مووی" عنایہ نے صوفے سے اٹھ کر نمیر سے کو دیکھتے ہوئے کہا
"اوکے مائی ڈیئر وائف"
عنایہ کو حیرت ہوئی اس نے بڑی تابعداری سے ایک دفعہ ریموٹ اٹھا کر سوئچ آف کر دیا اور خود بھی سونے کے لئے لیٹ گیا۔۔۔ عنایہ کو لگا اب اسے آرام سے نیند آجائے گی مگر اسے محسوس ہوا جیسے نمیر بیڈ سے اٹھا ہے عنایہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا
"کیا ہوا، کیا دیکھ رہے ہیں"
عنایہ نے اسے روم کی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا تو تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھنے لگی
"کچھ نہیں مجھے ایسا لگا جیسے یہاں کھڑکی میں کوئی کھڑا اندر جھانک رہا ہو۔۔۔ وہم ہوگا میرا کوئی نہیں ہے، اب تمہارا نام سے سو جاؤ"
نمیر نے نارمل انداز میں عنایہ کو جواب دیا اور خود بیڈ پر جا کر لیٹ گیا مگر اب بھلا عنایہ آرام سے کیسے سو سکتی تھی
"سنیے"
عنایہ صوفے سے اٹھ کر بیٹھی اور نمیر کو پکارا
"سنائیے"
نمیر نے اسی کے انداز میں پوچھا
"وہ میں کہنا چاہ رہی تھی کہ ایک دفعہ آپ کمرے سے نکل کر پورے گھر کا چکر لگا لیں ذرا تسلی ہو جائے گی" عنایہ نے عاجزانہ انداز اختیار کر نمیر سے گزارش کی
"اور میرے کمرے سے نکل کر جانے کے بعد کوئی کمرے میں آگیا تو"
نمیر نے بیڈ پر لیٹے لیٹے عنایہ کو بغیر دیکھے بغیر کہا
"اللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ"
نمیر کے بولنے پر وہ پوری جان سے لرز گئی اور اب بےبسی کی انتہا یہ تھی اسے نیند آ رہی تھی مگر خوف کے مارے وہ سو نہیں پا رہی تھی
"تھوڑی سی بہادر بنو یار۔۔۔ تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے کوئی بد روح ابھی صوفے کے نیچے سے نکل کر آ جائے گی اور تمہیں اپنے قابو میں کر لے گی"
نمیر کے بولنے کی دیر تھی عنایہ صوفے سے چھلانگ لگا کر دوڑتی ہوئی بیڈ پر آئی
"کیوں کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ ایسا،، رحم نہیں آتا آپ کو مجھ پر،، آپ کو اندازہ ہے ناں میں ایک وقت بھوک برداشت کرسکتی ہوں مگر نیند نہیں"
عنایہ نے نمیر کے سینے میں منہ چھپا کر رونا شروع کردیا
"تم تو بڑا رحم کھاتی ہو مجھ پر،، بڑا ترس آتا ہے اپنے شوہر پر۔۔۔ اب رونا بند کرو میری بیوی ہو تم،، اپنے علاوہ کسی دوسرے کو تمہارے پاس بھٹکنے نہیں دوں گا"
عنایہ کا سر اس وقت نمیر کے سینے پر تھا جبکہ نمیر نے ایک ہاتھ عنایہ کی کمر کے گرد لپیٹا ہوا تھا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے عنایہ کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا
"نمیر مجھے نیند آرہی ہے اس وقت میں سونا چاہتی ہوں"
عنایہ کی آواز واقعی نیند میں ڈوبی ہوئی تھی
"تو روکا کس نے ہے میری جان سو جاؤ۔۔۔ میں پوری کوشش کروں گا تمہاری نیند خراب نہ ہو"
نمیر نے عنایہ کا ہاتھ اپنے سینے سے ہٹا کر اپنے گرد لپیٹتے ہوئے کہا
چند منٹ بعد نمیر کو محسوس ہوا عنایہ گہری نیند میں جا چکی ہے۔۔۔ وہ اس کے سینے پر سر رکھ کے سو چکی تھی نمیر کا دایاں ہاتھ جو آدھا عنایہ کے نیچے دبا ہوا تھا وہ سن ہوچکا نمیر نے بائیں ہاتھ سے اپنے تکیے کے بالکل قریب دوسرا تکیہ رکھا اب وہ عنایہ کو اس تکیہ پر لٹانے لگا
تکیہ پر عنایہ کا سر رکھنے کے بعد اب وہ جھک کر عنایہ کا چہرہ دیکھنے لگا سوتے ہوئے وہ اسے کوئی ڈری سہمی بچی لگ رہی تھی۔۔۔ نمیر نے عنایہ کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔ نمیر اپنی جگہ پر لیٹنے لگا تو اسے اپنی ٹی شرٹ پر کچھاو محسوس ہوا۔ ۔۔ نمیر نے جھک کر اپنی سینے پر دیکھا تو مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی۔۔ عنایہ نے سوتے میں اس کی شرٹ پکڑی ہوئی تھی شاید وہ بری طرح ڈر گئی تھی
نمیر نے اس کے ہاتھ سے اپنی شرٹ نکالی اور عنایہ کا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھا،، اب وہ اپنے سینے پر عنایہ کا ہاتھ رکھ کر خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا
****
"عنایہ۔۔۔ عنایہ میری جان کبھی تو ایک ہی آواز میں جاگ جایا کرو"
صبح نمیر کی آنکھ کھلی تو معمول کے مطابق وہ عنایہ کا کندھا ہلاتا ہوا اسے جگانے لگا مگر وہ بھی معمول کی طرح نمیر کے ایک دفعہ جگانے میں ٹس سے مس نہیں ہوئی
"یار یہ تو جگانے کا طریقہ ہی فضول ہے"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا سوچنے لگا اور عنایہ کے چہرے پر سے بالوں کی لٹوں کے پیچھے کرنے لگا اب وہ اپنی انگلیاں اس کے چہرے پر پھیرتا ہوا گردن تک لایا عنایہ کے چہرے کے تاثرات نیند میں تبدیل ہوئے وہ اپنی بھنویں سکھڑنے لگی جیسے آنکھیں کھولنے کی کوشش میں لگی ہو اس سے پہلے نمیر کا ہاتھ گردن سے مزید نیچے جاتا عنایہ نے آنکھیں کھول کر اس کا ہاتھ پکڑا
"کیا کر رہے تھے آپ"
عنایہ فوراً اٹھ کر بیٹھی اور نمیر کو غصے میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
"تجربہ کامیاب ہوا۔۔۔ تمہیں جگانے کا نیا طریقہ ڈھونڈا ہے جوکہ کارآمد بھی ہے"
نمیر بیڈ پر لیٹا ہوا عنایہ کو دیکھ کر بولا
"بس کر دیں آپ،، کوئی اس طرح اپنے درمیان رشتے کا احساس دلاتا ہے،،، زبردستی دوسرے کے اوپر مسلط ہوکر اس پر جبری حق استعمال کر کے"
عنایہ جو پرسوں سے بھری بیٹھی تھی اچانک اس وقت پھٹ پڑی
"شٹ آپ،، بکواس بند کرو اپنی،، کون سا جبر کیا ہے میں نے اس وقت تم پر،، اگر مجھے زبردستی حق وصول نہ ہوتا تو کل رات تم خود میری بانہوں میں آئی تھی،، خوفزدہ اور بے بس تھی آرام سے تمہاری بے بسی کا فائدہ کل رات بھی اٹھا سکتا تھا اور ابھی بھی اٹھا سکتا ہوں،، کیا کر لو گی تم جواب دو" نمیر عنایہ کی بات پر غصے میں آٹھ بیٹھا اور اب غصے میں اس کو دیکھنے لگا
"اپنے اور تمہارے درمیان موجود رشتے کا احساس میں جب تک تمہیں دلاؤں گا جب تک تمہارے دل اور دماغ میں وہ نام کھرچ نہ دو جس کی وجہ سے تمہیں اپنے اور میرے رشتے کا احساس ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس رشتے کی قدر ہے لیکن اب تم مجھ سے کبھی پیار یا نرمی کی توقع مت کرنا۔۔۔ ایک بات میری کان کھول کر سن لو اس رشتے میں اب چاہے تمہاری دلچسپی ہو یا نہیں تمہیں کسی دوسرے کے لئے تو میں ہرگز نہیں چھوڑنے والا"
نمیر غصے میں عنایہ کو بولتا ہوا کمرے سے چلا گیا
عنایہ کے دل کو اچانک کچھ ہوا اس کا دل چاہا وہ جائے اور نمیر کو سوری بولے غصے میں شاید وہ ہی اوور ری ایکٹ کر گئی تھی وہ شوہر تھا اس کا،،، عنایہ سوچ میں پڑ گئی مگر پھر وہی انا آڑے آگئی سستی سے اٹھ کر راوڈوب سے نمیر کے کپڑے نکالنے لگی اسکے بعد اسے نمیر کے لیے ناشتہ بنانا تھا
مگر اسے اپنی غلطی کا احساس جب ہوا جب نمیر نہ ہی اس کے نکالے ہوئے کپڑے پہن کر آفس گیا اور نہ ہی اس کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کرکے
****
دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی تو شانزے دروازے کھولنے گئی۔۔۔ سامنے نوفل کو کھڑا پایا ایک پل کے لئے وہ ٹھہر گئی، وہ شانزے کو دیکھتا ہوا مسکرا رہا تھا
"امی گھر پر نہیں ہیں"
شانزے دروازہ بند کرنے لگی تبھی نوفل نے دونوں ہاتھوں سے دروازہ کھولا اور گھر کے اندر داخل ہوا
"میں امی کے ساتھ ساتھ امی کی بیٹی سے بھی ملنے آیا ہوں"
نوفل گھر کا دروازہ بند کرتا ہوا شانزے کے پاس آیا
"مگر امی کی بیٹی تم سے ملنا نہیں چاہتی"
شانزے اپنے کمرے میں جانے لگی تبھی نوفل نے اس کا ہاتھ پکڑا
"تو کیا اب امی کی بیٹی مجھے معاف بھی نہیں کرے گی"
نوفل سنجیدگی سے اس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"کس کس بات کی معافی چاہیے تمہیں"
شانزے نوفل کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے پوچھنے لگی
"میرے جس جس عمل سے یا بات سے تمہارا دل دکھا ہے"
نوفل بھی سنجیدگی سے اسے دیکھتا ہوا کہنے لگا
"آئندہ کبھی چھوڑنے یا دور جانے کی بات کرو گے"
شانزے اس کو غور سے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی تو نوفل نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لئے
"نہ ہی کبھی تمہیں چھوڑ سکتا ہوں اور نہ ہی دور جا سکتا ہوں اور نہ ہی کبھی تم کو خود سے دور جانے دوں گا"
نوفل اس کے دونوں ہاتھ تھامتا ہوا اسے یقین دہانی کرانے لگا
"ابو جمشید سے میرا تین دن بعد نکاح پڑھانے والے ہیں"
شانزے نے نوفل کو بتایا۔۔ شانزے کی بات سن کر نوفل کے چہرے کے نرم تاثرات میں ایک دم سختی آئی
"وہی کل والا موچھڑ"
نوفل کے تصدیق کرنے پر شانزے نے سر ہلا کر تاکید کی
"نوفل وہ لوگ اس گھر کی لالچ میں نکاح کرنا چاہ رہے ہیں اور میں اس نکاح کی بجائے خودکشی کو ترجیح دوں گی"
شانزے نے کسی ڈر کے احساس سے بولا
"شش میری ایک بات یاد رکھنا تمہیں کوئی بھی شخص مجھ سے چھین نہیں سکتا۔۔۔ نہ تمہارے ابو، نہ تمھارے تایا اور نہ ہی وہ موچھڑ اور اس اُلو کے پٹھے کو تو میں ایسا مزہ چکھاؤں گا، شادی اور لڑکی دونوں کے ہی ارمان اس کے دل اور دماغ سے نکل جائیں گے"
نوفل نے جتنی سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی اس کی بات سن کر شانزے کو ہنسی آگئی۔۔۔ کتنے دن بعد اسے اپنے دل اور دماغ سے کوئی بوجھ اترتا ہوا محسوس ہوا تھا
"تمہیں معلوم ہے تم ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حسین بھی ہو"
نوفل شانزے کو کھکھلا کر ہنستا ہوا دیکھر کر اسے کمر سے پکڑ کر اپنے ہونٹ قریب لاتا ہوا بولا
"اوئے زرا تمیز سے،، اس وقت پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے" شانزے نے اسے دھکا دیتے ہوئے کہا تو نوفل کا اچھا خاصا موڈ خراب ہوگیا
"تو پھر میرے پھیلنے کا وقت مقرر کر دو تاکہ میرے موڈ کا ستیاناس نہ ہوسکے"
نوفل برا مانتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ مگر شانزے اسکی بات کا جواب دئیے بغیر اسے شک بھری نظروں سے گھورنے لگی
"کیا ہوا تم ایسے کیوں دیکھ رہی ہوں"
نوفل اس کی نظروں سے کنفیوز ہوتا ہوا پوچھنے لگا
"تم نے یقیناً سنعیہ ماریہ اور علیشبا کو بھی کس کرنے کی کوشش کی ہوگی"
شانزے غور سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتی ہوئی بولی نوفل شانزے کی بات سن کر چونکا شانزے نے مزید آنکھیں بڑی کر کے اسے گھورا
"توبہ توبہ کیسی گندی گندی باتیں کر رہی ہو تم۔۔۔ تمہیں میں اتنا گھٹیا لگتا ہوں"
نوفل اب حیرت سے اپنے کان پکڑتے ہوئے شانزے کو دیکھ کر کہنے لگا
"گھٹیا تو تم ہو اس میں رتی برابر شک نہیں۔۔۔ امی آنے والی ہیں ان کے آنے سے پہلے جلدی سے میرے سوال کا جواب دو،،، جیسے تم نے آج مجھے کس کرنے کی کوشش کی ویسے ہی تم نے ان لڑکیوں کو بھی کی کس کرنے کی کوشش کری ہوگی۔۔۔ تم نے کس کری تھی انہیں یا نہیں"
شانزے اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر اس کے قریب آتی ہوئی بولی تو نوفل اس کے غضب ناک تیور دے کر پیچھے ہوتا ہوا کرسی پر جا بیٹھا
"یار کیسی باتیں کر رہی ہو تم،، اس وقت میرے اسکول جانے کی عمر تھی اور میں ایک معصوم بچہ تھا اتنی چھوٹی عمر میں کسی لڑکی کو کس کرونگا۔۔ کتنا گھٹیا سمجھا ہوا ہے تم نے مجھے"
نوفل شانزے کو صفائی دیتے ہوئے کہنے لگا
"معصوم تو تم اپنی پیدائش کے وقت بھی نہیں رہے ہوں گے اتنا تو مجھے یقین ہے۔۔ سنعیہ ماریہ کے وقت تم اسکول لائف میں تھے مگر علیشباہ تمہاری یونیورسٹی فیلو تھی تم نے خود مجھے کل بتایا تھا۔۔ یعنی تم نے اس کو کس کری ہوگی"
شانزے غصے میں کرسی کے قریب آکر نوفل کو گھورتی ہوئی کہنے لگی
"نہیں کری"
نوفل بھی جیسے اسے آنکھیں دکھا کر مکرتے ہوئے کہنے لگا
"تم جھوٹ بول رہے ہو تم نے اس کو کس کی تھی"
شانزے اپنی بات پر اڑی رہی اور غصے میں دانت پیستے ہوئے بولی
"تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ میں نے کس کر رہی تھی،، کیا تم اس وقت وہاں موجود تھی جب میں اسے کس کر رہا تھا"
نوفل نے اپنے دفاع میں پوائنٹ اٹھاتے ہوئے کہا
"اس لئے کہہ سکتی ہوں کیونکہ اس وقت تمہارا لہجہ صاف چغلی کھا رہا ہے مطلب صاف ہے تم نے اس کو کس کی تھی"
شانزے اپنی بات پر زور دیتی ہوئی بولی اور غصے میں مڑنے لگی تو نوفل کرسی سے اٹھا اور شانزے کا بازو پکڑ کر اسے کھینچا
"میں نے اسے کس نہیں کر رہی تھی لیکن تم نے اب کی بار دوبارہ بولا تو میں تمہیں کس ضرور کروں گا" نوفل اس کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا بولا
"اور تم ایسا کرو گے تو میں تمہارا سر پھاڑ دوگی"
شانزے اسے ڈرے بغیر بولی اور نوفل اس کی دھمکی پر مسکرانے لگا
"اور شادی والے دن کیا کروگی"
نوفل کی بات سن کر شانزے کا چہرہ سرخ ہوا مگر دروازے پر دستک ہوئی یقیناً نائلہ آ چکی تھی شانزے دروازہ کھولنے جانے لگی
"جب تک تم مجھے سچ نہیں بتاؤ گے میں تم سے شادی نہیں کروں گی" شانزے اس کو دھمکی دیتی ہوئی دروازہ کھولنے چلی گئی تو نوفل اسکی بات سن کر مسکرا دیا
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 27
نہال شاور لے کر روم میں آیا وہ کل کی بانسبت آج اپنے آپ کو بہتر فیل کر رہا تھا صرف اسے رائٹ ہینڈ اٹھانے میں پرابلم ہو رہی تھی مگر اب وہ آرام سے چل پھر رہا تھا۔۔۔ وہ آفس بھی آنا چاہتا تھا مگر نمیر نے اسے ایک ہفتے کے لیے آرام کرنے کا کہا،، نوفل نے بھی نمیر کی تائید کی۔۔ صبح آفس پہنچ کر نمیر نے اسے کال کی اور شاور لینے سے پہلے نوفل نے کال کر کے اس کی طبیعت پوچھی۔۔۔ ثروت نے دوپہر کا کھانا اسی کے ساتھ اسی کے بیڈروم میں کھایا۔۔۔ اب وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹے لیٹے اکتا چکا تھا تبھی اس نے اپنے بیڈ روم کی کھڑکی کھولی
"عنایہ"
لان میں اسے عنایہ ٹہلتی ہوئی نظر آئی تو نہال کو اسے دیکھ کر حیرت ہوئی،، وہ اپنے کمرے سے نکل کر لان میں جانے لگا
****
آج صبح اس کے اور نمیر کے درمیان جو تلخ کلامی ہوئی عنایہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اس نے اپنی زندگی میں کسی کو چاہنے یا محبت کرنے کا سوچا نہیں تھا جب اس کے لئے نہال کا رشتہ آیا ہوں تب بھی وہ حیرت زدہ تھی۔۔۔ اس نے نہال کو لے کر کبھی ایسا نہیں سوچا تھا وہ دونوں تو ایک دوسرے سے مخاطب بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے مگر نہال سے منگنی کے بعد اس نے نہال کے بارے میں سوچنا شروع کیا
کیا تھی وہ۔۔۔ ایک عام سی لڑکی،،، ہر عام لڑکی کی طرح وہ بھی نہال کے ساتھ اپنی باقی کی زندگی گزارنے کا سوچنے لگی اسے لگا نہال سے اس کی شادی ہوگئی تو اس کی زندگی سہل ہوجائے گی ہر وقت کی نفرت اور حقارت بھری نظروں سے اس کی جان چھوٹ جائے گی مگر پھر کیا ہوا اس کے ساتھ۔۔۔ نہال کے ایکسیڈنٹ اور عشرت کے اس کو کوسنے پر عنایہ کو یقین ہوتا چلا گیا شاید عشرت ٹھیک کہتی ہے وہ تھی ہی منحوس۔۔ سب کی زندگی نگلنے والی
عنایہ اس رات بہت روئی،، جہاں اس نے فرمان کی زندگی کی دعا مانگی ساتھ اپنے لیے بھی موت کی دعا مانگی تھی مگر دوسری صبح، اس کے لیے ایک اور امتحان لے کر کھڑی تھی جب فرمان نے اسے اسپتال میں بلاکر نمیر سے شادی کا بتایا تو فرمان کی آنکھوں میں بےبسی اور لہجے میں التجا کو دیکھ کر وہ سر جھکا گئی مگر نمیر۔۔۔۔ وہ نہال کی جگہ اس کے چھوٹے بھائی کا تصور کیسے کر سکتی تھی بھلا اور وہ نمیر کے بارے میں کیسے سوچ سکتی تھی وہ اسے منال کے ساتھ دیکھتی آئی تھی جب اس کی نمیر سے شادی ہوگئی۔۔۔ اسے لگا نمیر بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا آخر کو وہ بھی تو منال سے پیار کرتا تھا اس نے بھی تو منال کے ساتھ خواب دیکھے ہوگے مگر نمیر کو اپنے سامنے ایک نئے روپ میں دیکھ کر وہ پریشان تھی۔۔۔ اس کا دل اور دماغ یہ سب کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔
فرمان نے جب اسے نہال کے ہوش میں آنے کا بتایا تو وہ کتنی دیر تک فرمان کو خالی نظروں سے دیکھتی رہی،،، وہ نہال کا سامنا کیسے کرے گی اس کا ذہن پریشان تھا مگر آج صبح نمیر کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر اپنے اوپر اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے وہ بری طرح پھٹ پڑی۔۔ ۔ اب نمیر اس سے ناراض تھا اسے نمیر کا ناراض ہونا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ ان دو ماہ میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب نمیر نے اس کے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ نہ کیا ہو اسے بھی نمیر کا ناشتہ بنانے کی عادت ہوگئی تھی۔ ۔۔
آج نمیر نہ ہی اس کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کر کے گیا اور نہ ہی اس کے نکالے گئے کپڑے پہن کر آفس گیا تو عنایہ کو بالکل بھی اچھا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ اس نے آج دوپہر میں خاص طور پر اپنے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا ڈرائیور کے ہاتھ نمیر کے لیے آفس بھیجا میسج میں سوری بھی لکھ کر بھیجا۔ ۔۔ مگر نمیر کا کوئی رپلائی نہیں آیا اس بات کو لے کر عنایہ کا دل کافی اداس تھا۔۔۔ وہ تو جیسے اپنے آپکو دو حصوں میں بٹا ہوا محسوس کر رہی تھی
"عنایہ"
ٹہلتے ٹہلتے وہ یہ سب باتیں سوچ رہی تھی تب اسے اپنے نام کی پکار سنائی دی۔۔۔ عنایہ نے مڑ کر دیکھا تو سامنے نہال کھڑا تھا وہ اسی وقت کا تو کل سے سوچ رہی تھی اور شاید ڈر بھی رہی تھی آخر کار وہ وقت آ ہی گیا
"کیسی ہو"
نہال جیسے توقع کر رہا تھا عنایہ اس کو دیکھ کر خوش ہوگی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا نہال کے پکارنے پر وہ گم سم سی اسے دیکھ رہی تھی تب نہال نے اس کی خیریت پوچھی
"ٹھیک۔ ۔۔۔ اور آپ۔۔۔ کیسے ہیں"
عنایہ ٹہر ٹہر کر پوچھنے لگی
"تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو،، ماما کی دعائیں اور تمہاری محبت مجھے موت کے منہ سے کھینچ لائی"
نہال بشاش لہجے کے ساتھ بولا مگر عنایہ اس کی بات سن کر بہت مشکل سے مسکرائی
"محبت کا تو نہیں پتہ،، دعائیں تقدیر بدل سکتی ہیں۔۔۔ ثروت آنٹی واقعی بہت دعائیں کرتی تھیں آپ کے لیے"
عنایہ نے نہال کو دیکھ کر کہا۔۔۔ نہال نے اس کے لہجے میں اداسی واضح محسوس کی
"تم کب آئیں یہاں پر"
نہال بات تبدیل کرتا ہوا عنایہ سے اس کے آنے کے متعلق پوچھنے لگا
"کل ماموں اور مامی کے ساتھ آئی تھی"
عنایہ کو سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا جواب دے اس لیے سچ ہی بول دیا جس پر نہال کو بہت زیادہ حیرت ہوئی
"کیا تم کل سے یہاں پر موجود ہو،، نمیر یا ماما میں سے کسی نے مجھے بتایا بھی نہیں اور تم۔۔۔۔ تم میرے پاس کیوں نہیں آئی"
نہال حیرت سے عنایہ سے پوچھنے لگا مگر وہ نہال سے نظریں چرا کر چپ ہوگئی
"عنایہ کیا تم ناراض ہو مجھ سے"
نہال نے عنایہ کے نظریں چرانے پر اس سے سوال کیا۔۔۔ نہال کے ایکسیڈنٹ سے پہلے وہ جیسی تھی نہال کو اب ویسی نہیں لگی بجھی بجھی افسردہ سی۔۔۔۔ یوں بے معنی باتیں کرتی ہوئی۔۔۔۔ کچھ بدل گیا تھا۔۔۔۔ کیا بدلا تھا یہ نہال کو سمجھ میں نہیں آیا
"آپ سے ناراض نہیں ہوں شاید اپنے نصیب سے ناراض ہو"
عنایہ نے آنسوؤں کی نمی کو آنکھوں میں لائے بغیر اپنے اندر اتارنا چاہا جو کہ اس کے لیے تکلیف دے عمل تھا
"ایسے مت بولو عنایہ، میرا کومے میں جانا ہماری شادی کا ڈیلے ہونا یہ سب قسمت میں لکھا تھا ۔۔۔ میرے اور تمہارے درمیان وقت تھوڑی دیر کے لئے تھما تھا مگر کچھ بدلا تو نہیں ہے ناں۔۔۔ اب سب ٹھیک ہو جائے گا میرا یقین کرو"
نہال کو لگا عنایہ اس کے ایکسیڈنٹ اور شادی کے کینسل ہو جانے پر اداس ہے اس لیے وہ اس کا ہاتھ تھامتا ہوا اسے یقین دلانے لگا
عنایہ کا دل چاہا وہ چیخ کر نہال کو بتائے کچھ بھی اب ٹھیک نہیں ہوسکتا اتنے نمیر کار پارک کرتا ہوا لان میں نہال اور عنایہ کے پاس آیا۔۔۔ وہ ابھی اسی وقت آفس سے گھر آیا تھا۔۔ نمیر چلتا ہوا ان دونوں کے پاس آیا مگر اس کی نظر میں عنایہ کے ہاتھ پر تھی جو اس وقت نہال کے ہاتھ میں تھا۔۔۔ عنایہ کی نظر نمیر کی آنکھوں پر۔۔۔ عنایہ نے کھینچ کر نہال سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر نہال نے اس کا ہاتھ تھامے رکھا شاید اتنے دن کی دوری ان دونوں کے درمیان آ گئی تھی اس لئے نہال کا دل نہیں چاہا کہ وہ عنایہ کا ہاتھ چھوڑے
"کب سے یہاں نہال کے ساتھ مصروف ہو میں تمہیں کافی دیر سے کال ملا رہا تھا"
نمیر نے قریب پہنچ کر عنایہ کو مخاطب کیا۔۔۔ وہ نمیر کے لہجے کی کاٹ اور طنز کو صاف محسوس کر سکتی تھی اب اسے نمیر سے ڈر لگنے لگا
"اسے چھوڑو تم مجھ سے بات کرو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں یہ کل رات سے ہماری طرف رکی ہوئی ہے"
نہال بیچ میں مداخلت کرتا ہوا نمیر سے بولا
"تم بھی اسے چھوڑو اور جاکر روم میں اپنی میڈیسن لو ٹائم ہوگیا ہے"
نمیر نے نہال کو بولنے کے ساتھ ہی عنایہ کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑا کر خود پکڑا
"اووو تو اب تم ہمارے بیچ میں ولن کا رول پلے کرو گے" نہال مسکراتا ہوا نمیر سے بولنے لگا جس پر نمیر بھی استزائیہ ہنسا
"یہی سمجھ لو تمہاری اسٹوری کا ولن میں ہی ہو"
نمیر نے نہال کو بولنے کے ساتھ عنایہ کے ہاتھ پر اپنی گرفت سخت کردی۔۔۔ جتنی نزاکت سے نہال نے اس کا ہاتھ تھاما تھا اتنی ہی سختی اس وقت نمیر کے ہاتھ میں تھی۔۔۔ ۔ عنایہ خاموش کھڑی ان دونوں کو باتیں کرتا ہوا دیکھنے لگی
"میں تمہیں ولن ہرگز نہیں بننے دوگا۔۔۔ ماما سے ابھی جا کر کہتا ہوں وہ تمہارے لیے بھی جلدی کوئی لڑکی کا بندوبست کریں"
نہال نمیر کو کہتا ہوا ایک مسکراتی نظر عنایہ پر ڈال کر اندر چلا گیا۔۔۔ نہال کے جانے کے بعد نمیر نے مضبوطی سے عنایہ کا بازو پکڑا اور داخلی راستے کی بجائے پچھلے دروازے سے عنایہ کو اپنے بیڈروم میں لا کر بیڈ پر دھکا دیا۔۔۔ عنایہ اندھے منہ بیڈ پر گری۔۔۔ نمیر بیڈروم کا دروازہ لاکڈ کر کے عنایہ کے پاس آیا اور اسے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کیا
"کیا سزا دو تمہارے ہاتھ کو اس وقت بولو"
نہال کا تھاما ہوا عنایہ کا ہاتھ نمیر موڑتا ہوا عنایہ سے پوچھنے لگا۔۔۔ ہاتھ کے موڑنے پر درد کی شدت سے عنایہ کے منہ سے چیخ نکل گئی
"پلیز نمیر چھوڑیے میرا ہاتھ مجھے درد ہو رہا ہے"
جب وہ عنایہ کا ہاتھ موڑتا ہوا کمر تک لے گیا تب عنایہ کراہتی ہوئی بولی۔۔۔ نمیر نے دوسرے ہاتھ سے عنایہ کا منہ دبوچا
"اس کمرے سے اگر تمہاری آواز باہر نکلی تو میں تمہارا گلا دبا دوں گا"
نمیر نے اسے غصے میں بولتا ہوا بیڈ پر دھکا دیا
"اگلی بار اگر میں نے تمہارا ہاتھ نہال کے ہاتھ میں دیکھا تو میں تمہارا ہاتھ کندھے سے الگ کر دوں گا"
نمیر بیڈ پر سسکتے ہوئے وجود کو دیکھ کر وارننگ دینے لگا۔۔۔آج صبح وہ اس کے چھونے پر کیسا ری ایکٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ اور اب نہال کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے وہ مزے سے نہال سے باتیں کر رہی تھی یہ سوچ ہی نمیر کو جلانے لگی
"تو پھر بتا دیں ناں جاکر اپنے بھائی کو اصلیت۔۔۔ کہ میں آپ کے گھر کا ہی نہیں بلکہ آپ کے بیڈ روم کا بھی حصہ بن گئی ہو"
عنایہ بیڈ پر لیٹی روتی ہوئی بولی
"اس کو بھی بتاؤں گا مگر یہ بات تم خود بھی یاد رکھو تو زیادہ بہتر ہے"
نمیر عنایہ کو غصے میں بولتا ہوا وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔۔۔ آج صبح اسے عنایہ پر غصہ تھا مگر جب دوپہر میں عنایہ نے اس کو اپنے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا بھیجا تو نمیر کا غصی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ۔۔ وہ اس کی ناراضگی کا احساس کرتی تھی یعنی نمیر اس کے لئے اہمیت رکھتا تھا اور وہ اس کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتا تھا یہ نمیر کو جاننا ضروری ہوگیا تھا مگر کھانے کے بعد اسے ایک امپورٹنڈ میٹینگ اٹینڈ کرنا تھا اس لیے وہ عنایہ کو تھینک نہیں بول سکا۔۔۔ آفس سے گھر آتے ہوئے اس نے موبائل پر عنایہ کا سوری کا میسج دیکھا تو نمیر اسے کال ملانے لگا مگر عنایہ کال اٹینڈ نہیں کر رہی تھی نمیر گھر آکر اسے تھینکس کہنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔ مگر جو منظر نمیر نے دیکھا وہ اسے بڑی طرح جلا گیا
****
نہال کھانے کی ٹیبل پر آیا تو ثروت اور نمیر پہلے سے ہی موجود تھے جبکہ عنایہ ان دونوں کو کھانا سرو کر رہی تھی عنایہ کو اپنے گھر میں اس روپ میں دیکھ کر نہال اندر تک سرشار ہوا
"آئیز اتنی ریڈ کیوں ہو رہی ہیں تمہاری کیا ہوا"
نہال کرسی کھسکا کر بیٹھا تو اس نے عنایہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ نمیر کے منہ میں جاتا ہوا نوالہ رک گیا اس نے نہال کو ایک نظر دیکھا اور پھر کھانا کھانے لگا۔۔۔ نمیر کو نہال کا عنایہ پر اتنا غوروفکر کرنے پر،، نمیر کا موڈ مزید خراب ہونے لگا
"پانی دو عنایہ"
عنایہ نہال کو نہ جانے کیا بولنے والی تھی بیچ میں نمیر نے عنایہ کو مخاطب کیا۔۔۔ جب کے پانی کا جگ نمیر کے بالکل پاس ہی رکھا تھا عنایہ گلاس لے کر نمیر کے پاس آئی اور الٹے ہاتھ سے جگ میں پانی انڈیلنے لگی۔۔۔ وہ ان دونوں کو الٹے ہاتھ سے ہی کھانا سرو کر رہی تھی نمیر اس بات کو نوٹ کر چکا تھا
"بیٹا سیدھے ہاتھ کو کیا ہوا تمہارے" اب کی بار ثروت نوٹ کرتی ہوئی پوچھنے لگی
"انٹی موو کرنے میں درد ہو رہا ہے"
عنایہ کرسی پر نمیر کے برابر میں بیٹھتی ہوئی نظریں جھکا کر بولنے لگی اس کی بات سن کر تینوں ہی عنایہ کو دیکھنے لگے
"تھوڑی دیر پہلے تو ٹھیک تھا اچانک کیا ہوا تمہارے ہاتھ کو" نہال فکرمندی سے پوچھنے لگا
"تم اس کی فکر چھوڑ دو نہال،، اب صرف اپنی فکر کیا کرو تم خود ابھی مکمل طور پر اسٹیبل نہیں ہوئے"
نمیر کی بات سن کر نہال چپ ہوگیا اسکو نمیر کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آیا
"کیا ہوا ہے تمہارے ہاتھ کو دکھاؤ"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا مخاطب ہوا
"نمیر تم بھی چپ کرکے کھانا کھاؤ عنایہ بیٹا آپ میرے روم میں جاؤ میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں"
ثروت کے کہنے پر عنایہ وہاں سے اٹھ کر اس کے روم میں چلی گئی
نمیر نے اس کا ہاتھ اتنی زور سے موڑا تھا کہ اسے ہاتھ کو حرکت دینے میں تکلیف ہو رہی تھی ابھی دوسرا دن تھا نہال کو ہوش میں آئے ہوئے مگر عنایہ کو اپنی مٹی پلید ہوتی نظر آرہی تھی
آج اسے اپنے ماموں جان کے فیصلے پر جی بھر کے رونا آرہا تھا اس سے پہلے وہ اپنی ذات پر ماتم کرتی،، کمرے کا دروازہ کھلا نمیر کمرے کے اندر آیا اس کے ہاتھ میں چاولوں سے بھری پلیٹ تھی۔۔۔ نمیر کو افسوس ہونے لگا اس کے ہاتھ موڑنے پر،، عنایہ کو درد ہو رہا ہوگا یہ سوچ کر نمیر سے خود بھی کھانا نہیں کھایا گیا عنایہ سے لاکھ شکوہ صحیح مگر وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا
"کھانا لایا ہوں تمہارے لیے سیدھی ہو کر بیٹھو تم سے خود نہیں کھایا جائے گا میں کھلا دیتا ہوں"
نمیر لہجے میں نرمی لائے عنایہ کو بولنے لگا عنایہ سیدھی ہو کر بیٹھی نمیر بھی اس کے سامنے بیٹھا
اسی وقت دوبارہ دروازہ کھلا اور نہال بھی ہاتھ میں پلیٹ پکڑے اندر داخل ہوا وہ بھی عنایہ کی فکر کر کے اس کے لئے کھانا لایا تھا
"نمیر تم نے میرے پیچھے عنایہ کا بہت خیال رکھا اس بات کے لئے میں تمہارا تھنک فل ہو مگر اب میں ٹھیک ہوگیا ہوں"
کچھ تھا جو نہال کو کھٹک رہا تھا نہال سیریس ہوکر نمیر سے بولا جس پر نمیر اسے غور سے دیکھنے لگا اس سے پہلے وہ نہال کو کچھ کہتا کمرے کا دروازہ دوبارہ کھلا
"تم دونوں کو ہی اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے عنایہ میری بیٹی ہے اور اسے کھانا میں خود کھلا دو گی اپنے ہاتھوں سے۔۔۔ تم دونوں ہی اپنے کمرے میں جاؤ" ثروت کمرے میں داخل ہوتی ہوئی بولی اس کے پیچھے حمیدہ ٹرالی میں کھانا رکھے اندر داخل ہوئی نمیر نے شکایتی نظروں سے ثروت کو دیکھا اور کھانے کی پلیٹ وہی رکھ کر اپنے روم کی بجائے گھر سے باہر نکل گیا جبکہ نہال ایک نظر عنایہ پر ڈال کر اپنے روم میں چلا گیا۔۔۔ عنایہ آنکھوں میں آنسو بھرے ثروت کو دیکھنے لگی
"میں اس وقت تمہاری کیفیت کا اندازہ لگا سکتی ہو،، نہال کو فوری طور پر دھچکا دینا ٹھیک نہیں ہے اس لئے یہ بات میں نے نہال کو ابھی نہیں بتائی اور نمیر کو بھی منع کیا ہے مگر جس طرح کے حالات نظر آرہے ہیں،، میں نہال کو جلد سب سمجھا دوں گی تم پریشان مت ہو"
ثروت عنایہ کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دیتی ہوئی اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے لگی
****
نمیر اپنے بیڈ روم میں آیا تو عنایہ صوفے کے بجائے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔۔۔۔ نمیر گاڑی کی کیز اور موبائل سائڈ پر رکھتا ہوا وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
"آپ کیسا ہے تمہارے ہاتھ کا درد"
چینج کرنے کے بعد اب نمیر بیڈ کے پاس عنایہ کے سامنے کھڑا اس سے پوچھنے لگا
"خود ہی ٹھیک ہو جائے گا صبح تک" عنایہ لیٹی ہوئی بولی
"خود ہی کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا بگڑے ہوئے کام انسان کو خود سے ٹھیک کرنے پڑتے ہیں اٹھ کر بیٹھو"
نہ جانے وہ کون سے کام ٹھیک کرنے کی بات کر رہا تھا نمیر بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا
"کیا کریں گے آپ" عنایہ نے بیٹھتے ہوئے ڈر کر اس سے پوچھا
"تمہارا علاج"
بولنے کے ساتھ نمیر اس کے قریب آ کر بیٹھا۔۔۔ ۔ اب وہ عنایہ کا سیدھا ہاتھ دبانے لگا
"یہاں درد ہو رہا ہے"
عنایہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔ نمیر نے ہلکا سا دباؤ کہنی پر ڈالا تو عنایہ کی چیخ نکل گئی
"ہاتھ اوپر کرو شاباش"
نمیر عنایہ کو بچوں کی طرح بہلاتا ہوا کہنے لگا
"نہیں درد ہو رہا ہے"
عنایہ کو رونا آنے لگا۔۔۔ مگر نمیر کے آنکھیں دکھانے پر وہ آہستہ سے ہاتھ اٹھانے کی کوشش کرنے لگے نمبر نے اچانک اسکا ہاتھ پکڑ جھٹکے سے اونچا کیا اور دوسرا ہاتھ عنایہ کے چیخنے سے پہلے منہ پر رکھا
"اس گھر کی دیواریں سائنڈ پروف نہیں ہیں"
نمیر عنایہ کے کان میں کہتا ہوا بیڈ سے اٹھا
"موو کرو ہاتھ"
نمیر اس کو دوبارہ حکم دیتا ہوا بولا مگر اب کی بار ہاتھ اٹھانے پر عنایہ کو تکلیف نہیں ہوئی
"آپ اتنے ظالم ہو سکتے ہیں مجھے اندازہ نہیں تھا" عنایہ شکایتی انداز میں بولتی ہوئی بیڈ پر لیٹ گئی
"میری بھی تمہارے بارے میں کچھ ایسی ہی سوچ ہے" نمیر کمرے کی لائٹ بند کرتا ہوا بیڈ پر لیٹ کر بولا
****
صبح نمیر کی الارم سے آنکھ کھلی پہلے اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر عنایہ کو جگانا چاہا مگر کچھ سوچ کر اسے اٹھانے کا ارادہ ترک کیا اور واش روم چلا گیا ڈریس اپ ہوکر جب وہ آفس جانے کے لئے ریڈی ہوا تو ایک نظر عنایہ پر ڈالی جو ابھی بھی گہری نیند میں سو رہی تھی۔۔ اس کی نیند پر رشک کرتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکلا۔۔۔ ثروت اور نہال پہلے سے ہی ٹیبل پر موجود تھے نہال بھی آفس کے لئے تیار تھا نمیر نے اسے کچھ نہیں کہا ناشتے کے دوران ان تینوں میں سے کسی نے عنایہ کا ذکر نہیں کیا۔۔۔۔۔ خاموشی سے ناشتہ کرکے نمیر اور نہال دونوں ہی آفس کے لیے نکل گئے جبکہ ثروت کل سے یہی سوچ رہی تھی کہ ساری حقیقت نہال کو کیسے بتائے
جاری ہے
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 28
"کون"
ڈور بیل کی آواز پر نائلہ نے پوچھنے کے ساتھ دروازہ کھولا۔۔۔۔ وہ اپنے سامنے اعجاز اس کے بھائی بھاوج جمشید اور قاضی کو دیکھ کر حق دھک رہ گئی
"دروازے پر ہی کھڑا رکھنا ہے یا اندر آنے کا راستہ بھی دینا ہے"
جمشید بدتمیزی سے بولتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا تو ناچار نائلہ کو راستہ دینا پڑا باری باری سب گھر کے اندر داخل ہوگئے۔۔۔ نائلہ کا دل بیٹھنے لگا
"جمعہ تو کل ہے ناں"
نائلہ نے اعجاز کی بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ لوگ قاضی سمیت ایک دن پہلے ہی آگئے تھے یقیناً ان کا آج ہی نکاح کا ارادہ تھا۔۔۔ نوفل نے کل ہی اسے اطمینان دلایا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا اور وہ بے فکر ہو جائے
"ہماری بات کوئی حدیث کا درجہ رکھتی ہے اگر ایک دن پہلے نکاح ہوجائے گا تو کون سا دنیا کا نظام بدل جائے گا اور اچھے کاموں میں دیر کیسی"
اعجاز کی بھاوج نائلہ کو دیکھ کر چمک کر بولی
"شانزے کہاں ہے جاو اسے بتاؤ کے تیار ہو جائے ابھی اور اسی وقت اس کا نکاح ہے جمشید سے"
اعجاز نائلہ کو دیکھتا ہوا بولا وہ افسوس بھری نظر اعجاز پر ڈال کر شانزے کے کمرے میں چلی گئی
****
"کیا ہوا آپ اتنا گھبرائی ہوئی کیوں ہے اور یہ کمرے کا دروازہ کیوں بند کر دیا"
شانزے جو کہ شاور لے کر ابھی واش روم سے نکلی تھی نائلہ کو پریشان حال دیکھ کر ایک دم بولی
"بھاگ جاو پیچھے کے دروازے سے تمہارا باپ اپنے بھائی بھاوج کے ساتھ قاضی بھی لے کر آگیا ہے،،، جمشید سے تمہارا نکاح کرانے کے لئے اس گھر کو حاصل کرنے کے لیے یہ لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔ میں اس موالی کے ساتھ نکاح کروا کے تمہاری زندگی کو برباد ہوتا ہوا کیسے دیکھ سکوں گی"
نائلہ نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا
"امی آپ پریشان مت ہوں یہ لوگ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے"
شانزے کا دل خود بھی اندر سے ڈر رہا تھا مگر وہ روتی ہوئی نائلہ کو تسلی دیتی ہوئی بولی۔۔۔ شانزے نے نوفل کو کال ملانے کے غرض سے موبائل اٹھایا ہے نوفل کی خود کال آنے لگی
"نوفل ابو تایا،، تائی نکاح خواہ کو لے کر اس وقت ہمارے گھر پر موجود ہیں"
شانزے نے کال ریسیو کرتے ہی بولنا شروع کر دیا
"میری بات غور سے سنو شانزے،، بیس منٹ تک کسی بھی طرح سب سنبھال لوں اور کسی بھی کاغذ پر سائن مت کرنا میں پہنچنے والا ہوں۔۔۔ تم مینج کر لو گی ناں"
نوفل کی آواز کے ساتھ ٹریفک کی آوازیں بھی وہ باآسانی سن سکتی تھی شانزے کو اس کی بات سن کر اطمینان ہوا
"میں مینج کر لوگی،،، تمہارا انتظار کر رہی ہوں پلیز جلدی سے آ جاؤ دیر مت کرنا"
شانزے کی آواز میں وہ بے بسی اچھی طرح محسوس کر سکتا تھا کال کاٹ کر اس نے صدیق کے کار کی اسپیڈ مزید تیز کروائی
دس منٹ پہلے جب وہ پولیس اسٹیشن میں موجود تھا تب جمال (رکشے والا) نے اسے شانزے کے گھر اعجاز سمیت 4 افراد کے آنے کی اطلاع دی تھی یعنی نوفل نے جو کل کا پلان بنایا ہوا تھا اسے آج اس پر عمل کرنا تھا۔۔۔ اس لیے بغیر دیر کیے اپنے ساتھ تصدیق کے علاوہ تین پولیس کے اہلکار کو لے کر پولیس وین میں شانزے کے گھر کے لئے نکل گیا
"صدیق جلدی پہنچنا ہے تیز ڈرائیو کرو"
نوفل نے تیسری بار صدیق کو سختی سے ٹوکا
"سر آپ فکر نہیں کریں پولیس بیشک موقع واردات پر جرم ہونے کے بعد پہنچتی ہے مگر صدیق آپ کو آج وقت سے پہلے پہنچا دے گا"
صدیق جو کہ پہلے ہی تیز ڈرائیو کر رہا تھا مزید کار کی اسپیڈ تیز کرتا ہوا بولا
"ہاں نہال میری بات غور سے سنو،، بیس منٹ کے اندر اندر نمیر کو لے کر عنایہ کی دوست کے گھر پہنچوں"
نوفل کو ایک اور ضروری کام یاد آیا تو اس نے فوراً نہال کو کال ملائی
"کیا ہوا سب خیریت تو ہے نا"
نہال آج ہی آفس آیا تھا اور آفس کے ورکرز کو اکٹھا کرکے پچھلے دو ماہ کی پروگریس کا پوچھ رہا تھا تبھی نوفل کی اس کے پاس کال آئی
"ہاں سب خیریت ہے شانزے کے گھر کا ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں اگر میرے نکاح میں شریک ہونا ہے تو بیس منٹ کے اندر یہاں پہنچو،، ورنہ تم دونوں بھائی شکوہ نہیں کرنا کہ میں نے بتایا نہیں۔۔۔ سخت ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی تم دونوں کو انوائٹ کر کے میں نے اپنا فرض نبھا دیا ہے"
نوفل نے کال کاٹی۔۔۔ دوسری طرف نہال نوفل کی بات سنتے ہی چیئر سے کھڑا ہوگیا
"آپ سب اپنی اپنی سیٹوں پر واپس جائیں۔۔۔ ظفر صاحب آپ یہ فائل چیک کریں اور آج ہونے والی میٹنگ تین سے چار گھنٹے لیٹ یعنی 9 بجے تک کا ٹائم رکھ دیں"
نہال اپنا ہینگ ہوا کوٹ پہنتے ہوئے مینجر کو ہدایت دیتا ہوا گاڑی کی چابی اور موبائل اٹھا کر باہر نکلا کار میں بیٹھ کر وہ نمیر کو نوفل کی کار کے بارے میں بتانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ نمیر اس وقت آفس کے کام کے سلسلے میں آؤٹ نکلا ہوا تھا
****
"اے اندر سے دروازہ بند کرکے کیوں بیٹھ گئی ہو تم دونوں ماں بیٹی کھولو دروازہ۔۔۔ ورنہ ابھی جمشید کو بلاتی ہوں"
دس منٹ گزرنے کے بعد جب شانزے اور نائلہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تو شانزے کی تائی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔۔۔ شانزے نے اٹھ کر دروازہ کھولا
"آرام سے کیا توڑنا ہے دروازہ کو"
شانزے اپنی تائی کو دیکھ کر بولی
"اے آنکھیں نیچے کر کے ادب سے بات کر آج سے تیری تائی کے ساتھ ساتھ تیری ساس بھی کہلاؤ گی۔۔ زیادہ اکڑ دکھائی نا چٹیاں میں بل دے کر معافی مانگواوں گی تجھ سے"
شانزے کی تائی اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ نکاح سے پہلے ہی ان دونوں ماں بیٹی کو اپنی باتوں سے ڈرانے کا ارادہ رکھتی ہوئی بولی
"ادب سے ان سے بات کی جاتی ہے جو ادب کے معنوں سے باخبر ہوں مگر آپ اور آپ کی فیملی کا اس لفظ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔۔۔ کوشش کریے گا اس بات کی کہ میں آپ کی بہو نہ بنو تو اچھا ہوگا۔۔۔ ورنہ نیوز چینل میں یہ خبر نشر ہوگی کہ ایک بہو نے اپنے شوہر سمیت اپنے ساس سسر کے کھانے میں چوہے مارنے والی دوا ملاکر تینوں کو جان سے مار کر ان کی لاشوں کو گٹر میں پھینک دیا"
شانزے کے بولنے پر نائلہ پریشان ہوگئی وہی تائی اس کی چلتی ہوئی زبان پر اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی
"ارے توبہ اعجاز ذرا اپنی بیٹی کی زبان تو دیکھ اور اس کے خیالات سن ہمارے بارے میں"
تائی اپنے دونوں گال تھپتھپاتی ہوئی اعجاز کو دیکھ کر بولی
"اے لڑکی بہت زبان چل رہی ہے تیری یاد نہیں ہے تھوڑے دن پہلے کیا حشر کرنے والا تھا میں"
اعجاز کے کچھ بولنے سے پہلے جمشید چیختا ہوا شانزے کو دیکھ کر بولا
"شاید تم اس دن اپنا حشر بھول گئے کس طرح اس ایس۔پی نے کتوں کی طرح تمہاری دھلائی بھرے مجمع کے سامنے کی تھی اور کسطرح تم دم دبا کر تم وہاں سے بھاگے تھے۔۔۔۔ کس منہ سے تم قاضی کو لے کر آئے ہو تم جیسے ڈرپوک اور بھگوڑے آدمی سے شادی کرنے سے بہتر میں ساری زندگی کنوارا رہنا پسند کرو گی"
شانزے بنا خوف کے جمشید کو دیکھتی ہوئی بولی جبکہ نائلہ اس کا بازو بار بار کھینچ کر اسے زیادہ بولنے سے روک رہی تھی
"شانزے اگر اب تمہاری زبان چلی تو میں ہاتھ اٹھانے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔۔۔ شرافت سے اس نکاح نامے پر سائن کرو"
اعجاز بولنے کے ساتھ ہی اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا
"کس حق سے آپ ہاتھ اٹھانے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ جب آپ باپ ہوکر اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر مجھے میری ماں کو اور بہن کو چھوڑ کر چلے گئے تھے تو اب آپ مجھ سے کیا توقع کر رہے ہیں میں سر جھکا کر آپ کا حکم بجا لاؤں گی۔۔۔ اب دوبارہ ہاتھ اٹھانے کی یا مجھ سے زور زبردستی نکاح کرانے کا سوچیے گا بھی نہیں،، نکاح میں لڑکی کی دلی رضہ مندی شامل ہونی چاہیے اتنا تو آپ بھی جانتے ہوں گے"
شانزے نے اپنے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا
"یہ جو تیری بیٹی بناء ڈرے اتنی تقریریں کر رہی ہے ذرا معلوم کر اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ۔۔ ضرور کوئی چکر ہے تیری بیٹی کا کسی کے ساتھ"
اب کی بار شانزے نے اپنے تایا کو افسوس سے دیکھا اس سے پہلے کوئی کچھ بولتا دروازہ بجنے لگا
"اس وقت کون آگیا،، اے مولوی جلدی سے نکاح پڑھوا یہ دروازہ اب نکاح کے بعد ہی کھلے گا"
اعجاز کا بھائی بولا
"مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے سمجھ میں نہیں آرہا آپ کو"
شانزے اپنے تایا کے سامنے چیختی ہوئی بولی
"اب بول نکاح کے لیے راضی ہوگی یا نہیں"
اچانک جمشید چاقو نکال کر نائلہ کی گردن پر رکھتا ہوا بولا
"میری امی کو چھوڑو ورنہ میں تمہاری جان لے لوں گی"
شانزے چیخ کر جمشید سے بولی
اتنے میں صحن میں کسی کے کودھنے کی آواز آئی سب کی توجہ صحن کی طرف مندمل ہوئی،،، صحن میں کودنے والے نے باہر کا دروازہ کھولا تو گھر کے اندر پولیس داخل ہوئی
"کیا تماشا لگا رکھا ہے تم لوگوں نے یہاں پر"
نوفل کمرے میں داخل ہوکر سب پر نظر ڈالتا ہوا گرجدار آواز میں بولا اس کے پیچھے مزید چار پولیس والے موجود تھے جنھوں نے ہاتھوں میں بندوقیں تھامی ہوئی تھی۔۔۔ اعجاز سمیت تایا تائی جمشید سب کو سانپ سونگھ گیا،،، وہی نائلہ اور شانزے کا سانس بحال ہوا
"ایس۔ پی یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے تم کون ہوتے ہو بیچ میں مدالت کرنے والے"
اعجاز کا بھائی ہمت کرتا ہوا نوفل سے بولا۔۔۔ نوفل چلتا ہوا اس کے پاس آیا
"ابھی علم ہو جائے گا تمہیں کہ میں کون ہوتا ہوں"
نوفل بولتا ہوا جمشید کے پاس آیا اور چاقو اس کے ہاتھ سے لے کر اس کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا
"اے ایس۔ پی یہ تم اپنے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہو۔۔۔ تم جانتے نہیں ہو کہ میرا کن لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے"
اعجاز کا بھائی دوبارہ نوفل کو دھمکاتا ہوا بولا
"صدیق اب کی بار کسی نے بھی آواز نکالی تو اپنی بندوق سے اس کی کھوپڑی کھول لینا اور اس چلغوزے کو حراست میں لو۔۔۔ کافی علاقوں کا بدمعاش بنا پھرتا ہے کل میں تھانے میں آکر اس کی ساری بدمعاشی خود نکالوں گا"
نوفل نے جمشید کو گریبان سے پکڑ کر صدیق کی طرف دھکا دیا اب اس کا رخ قاضی کی طرف تھا۔۔۔۔ نوفل نے اپنی جیب سے خاکی لفافہ نکال کر اس میں سے دوسرا نکاح نامے میں کا فارم نکالا۔۔۔ اتنے میں نمیر اور نہال بھی وہاں پہنچ گئے
"ہاں تو قاضی صاحب نکاح شروع کریں"
نہال اور نمیر سے ملنے کے بعد اس نے سب کو کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا وہی نائلہ کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔۔۔ نائلہ نے مسکرا کر سر ہلایا اور شانزے کے سر پر دوپٹہ پہنانے لگی
"میں شانزے کا باپ ہوں اور اس نکاح کے لیے ہرگز راضی نہیں ہوں"
اعجاز کرسی پر بیٹھا ہمت کرکے بولا
نوفل اٹھ کر اعجاز کے برابر والی کرسی پر بیٹھا
"اب بھی راضی نہیں ہیں آپ"
وہ اپنی ریوالور ٹیبل پر اعجاز کے سامنے رکھتا ہوا سنجیدگی سے پوچھنے لگا جس پر اعجاز خاموش ہوگیا
اچھی خاصی سنجیدہ صورتحال میں بھی نہال اور نمیر اپنی مسکراہٹ چھپانے پر مجبور ہوگئے۔۔۔ نوفل کے اشارہ کرنے پر قاضی نے نوفل کا شانزے سے نکاح پڑھوایا
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 29
"اتنی دیر کیوں ہوگئی گھر آنے میں شانزے کے گھر سے تو آپ سات بجے نکل گئے تھے ناں" اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے نہال اور نمیر اسی وقت گھر پہنچے تھے،،، نمیر اپنے بیڈروم میں آیا وہ توقع کر رہا تھا اس وقت عنایہ سوچکی ہوگی مگر توقع کے خلاف وہ جاگ رہی تھی بلکہ اس سے کل رات والے واقعہ پر ناراض ہونے کی بجائے وہ خوش لگ رہی تھی اور یہ خوشی کی وجہ یقیناً اس کی دوست کا نکاح تھا، جس کی ڈیٹیل اسے شانزے موبائل پر دے چکی تھی
"آفس میں میٹنگ تھی اسی وجہ سے لیٹ ہو گیا تم کیوں جاگ رہی ہو اس وقت"
نمیر کوٹ اتارنے کے بعد ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کرتا ہوا عنایہ سے پوچھنے لگا
"خوشی کے مارے میری تو آج نیند ہی اڑ گئی ہے، شانزے سے ملنے کا اتنا دل چاہ رہا کیا بتاؤں"
عنایہ نمیر کا کوڈ ہینگ کرتی ہوئی بولی۔۔۔ نمیر نے ایک نظر اس کو دیکھا وہ واقعی خوش تھی جبھی اس وقت بغیر ناراضگی کے نارمل انداز میں اس سے باتیں کر رہی تھی
"ڈئیر وائف اپنی خوشی میں آپ یہ بھی بھول گئی ہیں کہ آپ کے شوہر نے رات کا ڈنر کیا بھی ہے کہ نہیں"
نمیر اس کو دیکھتا ہوا کہنے لگا تو عنایہ کے لب سکھڑے
"او سوری میرا دھیان نہیں گیا آپ چینج کرکے آجائیں میں کھانا لگاتی ہوں"
عنایا نمیر کو بولتی ہوئی کچن میں جانے لگی تب ہی نمیر نے اس کا ہاتھ پکڑا
"رہنے دو ڈنر کر چکا ہوں میں"
نمیر اپنا ڈریس لے کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔۔ چینج کرکے جب وہ واپس آیا تو عنایہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ نمیر نے محسوس کیا کل سے اسے بیڈ پر سونے کے لیے کہنا نہیں پڑ رہا تھا۔۔۔۔ نمیر بیڈ پر آکر اپنی سائڈ پر لیٹا۔ ۔۔۔ آج صبح سے ہی وہ آفس کے کاموں میں، اس کے بعد نوفل کے نکاح میں اور پھر میٹنگ میں بزی رہا اس لیے تھکن کے باعث اسے کافی نیند آ رہی تھی
"آپ کو معلوم ہے شانزے کے فادر نے نائلہ آنٹی کو فرائیڈے کے دن نکاح کا بولا تھا کہ شانزے کا نکاح اس کے کزن سے ہوگا اور وہ لوگ ایک دن پہلے ہی یعنیٰ آج اچانک نکاح کرنے کے لئے آ گئے تھے"
عنایہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی نمیر کو دیکھ کر ایسے بتانے لگی جیسے کہ کوئی بہت ہی ضروری واقعہ ہو
"ہاں معلوم ہے نوفل سے پورا سین معلوم ہوا تھا پھر میں اور نہال نکاح کے وقت وہی پر موجود تھے ہمیں خود بھی معلوم ہوگیا آگے کیا ہوا"
نمیر نے عنایہ کو بتاتے ہوئے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تاکہ عنایہ سمجھ جائے وہ سونا چاہتا ہے اور لائٹ بند کر دے
"ارے یہ تھوڑی معلوم ہوگا جب آنٹی شانزے کو نکاح کا بتانے آئی تو شانزے اور آنٹی روم کا دروازہ بند کر کے بیٹھی رہی تاکہ اسطرح تھوڑا وقت گزر جائے"
عنایہ نمیر کا بازو آنکھوں سے ہٹا کر اسے باقی کا سین سنانے لگی جس میں نمیر کو ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ وہ نمیر کے گھورنے کا نوٹس لیے بغیر فل انجوائے کرتی ہوئی شانزے کے ایک ایک ڈائیلاگ بتانے لگی۔۔۔ جس سے نمیر کو احساس ہوا ان دونوں سہیلیوں کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو اپنا پورا دن کا روٹین اپنی سہیلی کو فون کرکے بتاتی ہے اور بعد میں کال رکھنے کے بعد انہیں افسوس ہوتا ہے کہ آج کھانے میں لوکی کا رائیتہ بھی تھا یہ تو بتانا ہی بھول گئی
"نمیر سنئے نا،،، میں آگے اور بھی انٹرسٹنگ بات بتانے لگی ہو معلوم ہے جب شانزے کے کزن نے۔۔۔۔"
نمیر جو اس کا قصہ سن کر تھکن کے باعث غلطی سے آنکھیں بند کر گیا تھا۔۔۔ عنایہ نے اس کا بازو ہلا کر اسکو دوبارہ جگایا اور پھر شانزے کے کارنامے بتانے لگی اب نمیر بے بسی سے آنکھیں کھولے عنایہ کی بات پر سرہلانے لگا مگر جب وہ سن سن کر پک گیا اور برداشت کا پیمانہ لبریز ہوا تو ایک دم بول پڑا
"عنایہ پلیز یار کل صبح میں لیٹ آفس جاؤ گا اور صبح اٹھنے کے ساتھ ہی شانزے کی پوری اسٹوری تم سے ڈیٹیل میں سنوں گا۔۔۔ چندا ابھی یہ لائٹ بند کر دو اور تم بھی سونے کی کوشش کرو اچھے بچوں کی طرح شاباش"
نمیر عنایہ کو بہلاتا ہوا بولا اور تکیہ اپنے سر کے نیچے سے نکال کر اپنے چہرے پر رکھ لیا مگر تب اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب عنایہ نے "ایک لاسٹ انٹرسٹنگ بات" کہہ کر اس کے چہرے سے تکیہ ہٹایا اور ایک بار پھر نان اسٹاپ شروع ہوگئی
اب نمیر اسے حیرت کی بجائے مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ شاید اتنی باتیں تو اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی سے نہیں کی ہوگی جتنی باتیں وہ نمیر سے پچھلے آدھے گھنٹے سے کر رہی تھی،،، جب کسی بات پر ہنستی ہوئی اس نے نمیر کے آگے تالی کے لئے ہاتھ بڑھایا،، نمیر نے تالی مار کر عنایہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے سینے پر رکھا اب وہ نمیر کی شرٹ کہ بٹن سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہوئی اسے شانزے کی باتیں بتا رہی تھی۔۔۔ نمیر کو شانزے کے ٹاپک میں تو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی مگر وہ عنایہ کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کو غور سے دیکھنے لگا اب عنایہ کی باتیں اسے سمجھ نہیں آرہی تھی بلکہ غور سے وہ اس کے ہونٹوں کا شیپ دیکھنے میں مصروف تھا
ایک دم نمیر کے دل میں ایک خیال آیا وہ اپنے خیال کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے اچانک اٹھ کر بیٹھا اپنا ایک ہاتھ عنایہ کی کمر کے گرد حاہل کرکے دوسرے ہاتھ سے اس کا جوڑا پکڑ کر اپنے ہونٹ وہ عنایہ کے ہونٹوں پر رکھتا ہوا وہ اسے بیڈ پر لٹا کر خود اس پر جھک چکا تھا
عنایہ جو بڑے مگن انداز میں نمیر کے تاثرات نوٹ کئے بغیر اسے شانزے کی باتیں بتانے میں مصروف تھی اچانک ہونے والی کروائی پر پہلے تو حیرت سے اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلتی چلی گئی اور جب نمیر نے اسے بیڈ پر لٹایا تب وہ اپنی آنکھیں زور سے بند کر چکی تھی۔۔۔ کمرے نہ ہونے والی معنیٰ خیز خاموشی کا دورانیہ جب طویل ہوا تو عنایہ کو لگا نمیر اگر اس سے دور نہیں ہوا تو وہ سانس نہیں لے پائے گی۔۔۔ تب عنایہ نے نمیر کی شرٹ کا مضبوطی سے پکڑا ہوا کالر چھوڑ کر اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا جس کے لیے نمیر ابھی ہرگز تیار نہیں تھا
بلکہ عنایہ کے پیچھے ہٹانے سے نمیر کے انداز میں مزید شدت آگئی۔۔۔ جب عنایہ نے اپنے نازک ہاتھوں سے نمیر کے بازو پر مُکے مارنے شروع کیے تب نمیر اس پر ترس کھا کر اٹھ بیٹھا اور ایک لمبا سا سانس خارج کیا جبکہ عنایہ حیرت سے اس کو دیکھتی ہوئی اپنی پھولی ہوئی سانس بحال کرنے لگی۔۔۔ اس سے پہلے نمیر اس پر دوبارہ جھکتا۔۔۔ عنایہ کروٹ لے کر دوسری طرف اپنا رخ کر کے لیٹ گئی
یہ شرم تھی۔ ۔۔۔ جھجھک یا گریز نمیر سمجھ نہیں پایا۔۔۔ چند سیکنڈ وہ عنایہ کو یونہی دیکھتا رہا پھر کچھ سوچ کر کمرے کی لائٹ بند کرتا ہوا بیڈ پر اپنی جگہ پر لیٹ گیا
****
کل رات نوفل شانزے کے علاوہ نائلہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اس کو بھی اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا جس سے شانزے کو دل میں ایک طرح سے اطمینان ہوا ورنہ اسے نائلہ کی فکر لگی رہتی
گھر میں آنے کے بعد رات کے کھانے سے فارغ ہوکر نوفل نے فریدہ (اسٹیپ مدر) کو ویڈیو کال ملائی جس پر نوفل نے سرسری انداز میں آج رونما ہونے والے واقعہ کا ذکر کیا اس کے بعد اپنے نکاح کے بارے میں بتایا۔۔۔ وہ فریدہ کو اپنی پسند سے پہلے ہی اگاہ کرچکا تھا۔۔۔ فریدہ نوفل کے فیصلے سے خوش تھی۔۔۔ اسے اس کی نئی زندگی کے لیے ڈھیر ساری دعائیں اور مبارکباد بھی دی اس کے بعد نوفل نے ویڈیو کال پر ہی فریدہ اور خرم سے شانزے کا بھی تعارف کرایا۔۔۔ فریدہ کو شانزے سے بہت پسند آئی اس نے نوفل سے جلد ہی پاکستان آنے کا وعدہ کیا۔۔ کال سے فارغ ہونے کے بعد نائلہ کو اس کا روم دیکھا کر جب نوفل شانزے کو بیڈ روم میں لے کر آیا تو۔۔۔ نوفل کے موبائل پر کال آئی کمشنر صاحب نے اسے ایمرجنسی میں لگنے والی ڈیوٹی پر فوراً طلب کیا۔۔۔ نوفل منہ لٹکاتا ہوا یونیفارم پہننے لگا جس پر شانزے نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔۔۔ وہ اسے ریسٹ کرنے کا کہہ کر گھر سے نکل گیا
کار ڈرائیو کرتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھا آج اس کی ظالم حسینہ اس کے پاس موجود تھی مگر کمشنر صاحب اس سے بھی بڑھ کر ظالم ہوگئے جنہوں نے شادی والی رات ہی اس کی نائٹ ڈیوٹی لگادی۔۔۔ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر وہ صبر کرتا ہوا نائٹ ڈیوٹی انجام دے کر وہ ابھی گھر لوٹا تھا
اس وقت صبح کے سات بج رہے تھے بیڈروم میں آیا تو بیڈ پر شانزے کو سوتا ہوا پایا۔۔۔ نوفل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اپنے بیڈ پر اس اضافے پر وہ جی بھر کے خوش ہوا۔۔۔ یونیفارم چینج کرتا ہوا وہ بیڈ پر آیا۔۔۔ شانزے کے برابر لیٹ کر وہ اسے دیکھنے لگا
مسلسل اپنے چہروں پر کسی کی نظروں کا حصار محسوس کرکے شانزے کی آنکھ کھل گئی آنکھ کے کُھلتے ہی اس نے اپنے برابر میں نوفل کو اپنی طرف کروٹ سے لیٹے دیکھا وہ اس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
"تم کب واپس آئے" شانزے بیڈ سے اٹھ کر نوفل سے پوچھنے لگی
"تھوڑی دیر پہلے ہی واپس آیا ہوں تم بتاؤ نیند آرام سے آگئی تھی"
نوفل اب سیدھا لیٹتا ہوا شانزے سے پوچھنے لگا
"اتنے دنوں بعد ہی تو آج سکون کی نیند آئی ہے ورنہ تو چند دنوں سے میں اور امی مسلسل خوف کے ساتھ جی رہے تھے کہ ابو اور تایا مل کر زبردستی میرا جمشید سے نکاح ہی نہ کرا دیں"
شانزے نوفل کو دیکھ کر اپنے خدشے کو ظاہر کرنے لگی تبھی نوفل نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا
"میرے ہوتے ہوئے ایسا ممکن ہو سکتا تھا بھلا اب تمہیں آنٹی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جبکہ تم نے سکون سے نیند پوری کرلی ہے تو اب میرے قریب آ کر تھوڑے سے سکون کے لمحات مجھے فراہم کرو"
نوفل نے نرمی سے اسکا ہاتھ سہلاتے ہوئے جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ نوفل کے سینے پر آ گری
"صبح کا آغاز ہوتے ہی تم نے اپنا چھچھورپن شروع کردیا"
شانزے نے اسے سنجیدگی کا لبادا اتارتے ہوئے دیکھا تو وہ اس کو گھورتی ہوئی بولی
"میری جان اسے چھچوراپن نہیں رومینس کہتے ہیں جس کو کرنے کا اجازت نامہ مجھے کل رات ہی درکار ہو گیا ہے۔۔۔ اب تم کوشش کرنے کے باوجود مجھے ہرگز نہیں روک سکتی"
نوفل شانزے کو اپنے حصار میں لیتا ہوا اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھگتا ہوا بولا
"ایسا کچھ بھی کرنے سے پہلے اٹلیسٹ تمہیں مجھ سے معافی مانگنی چاہیے"
نوفل جو شانزے کی گردن پر جھکنے لگا تھا اس کی بات سن کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا
"معافی۔۔۔۔ مگر کس بات کی"
نوفل حیرت زدہ ہوکر شانزے سے پوچھنے لگا
"مجھ سے پہلے تم اس علشباہ کو کس کر چکے ہو"
شانزے نے ٹکا کر اسے طعنہ مارا
"یار تم تو ظالم حسینہ سے ظالم بیوی بن چکی ہو۔۔۔۔ تمہیں اس وقت میرے جذبات کا تھوڑا سا احساس کرنا چاہیے اور تم ایسی سچویشن میں مجھے علشباہ کے طعنے مار رہی ہو"
نوفل نے معصوم شکل بنا کر اسے احساس دلایا۔۔۔ اسے پچھتاوا ہونے لگا کیوں اس نے اپنے پرانے افیئرز کا شانزے کو بتایا
"بچپن سے ہی تمہارے کرتوت ایسے ہیں کہ تمہیں طعنے دیئے جائیں۔۔۔ ایسا تو کچھ بھی نہیں کہا میں نے سمپل معافی مانگنے کو کہا ہے"
شانزے سیریس ہو کے بولی جیسے اب یہی اس کے لیے اہم موضوع تھا
"میں معافی مانگو ہی کیوں،، جب میں نے کس کی ہی نہیں۔۔۔ کس تو میں اب تمہیں کرو گا"
نوفل دوبارہ مکرتا ہوا اپنے ہونٹ شانزے کے گال پر رکھ چکا تھا شانزے اس کی حرکت پر ایک دم سٹپٹائی
"اگر کس نہیں کی تھی تو تم اس طرح مسکراہٹ کیوں چھپا رہے ہو۔۔۔ اب مجھے پہلے یہ بات بتاؤ ورنہ میں تمہیں زندگی بھر اس بات کے طعنے دیتی رہو گی"
شانزے اس کے حصار میں بنا خوف کے بولی
"کس نہیں کی تھی میری جان صرف اسے کس کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی"
نوفل ہار مانتا ہوا اب تھکے انداز میں بولا
"پھر"
شانزے نے تجسس سے پوچھا
"پھر یہ کہ اس نے کہا اگر دم ہے تو اپنی خواہش پوری کرکے دکھاؤ"
نوفل پشیمان ہو کر بولنے لگا اور اٹھ کر بیٹھ گیا
"پھر"
شانزے بھی اٹھی اور اپنا غصہ ضبط کرتی ہوئی پوچھنے لگی
"پھر یہ کہ میں خوش ہوتا ہوا جیسے ہی اس کے قریب اپنا چہرہ لایا اس نے بالکل تمھارے ہی والے اسٹائل میں الٹے ہاتھ کا میرے سیدھے گال پر تھپڑ کھینچ کے مار دیا اور اس تھپڑ کھانے کے بعد وہ ہمیشہ مجھے بہنوں کی طرح لگنے لگی جبکہ تمہارا تھپڑ کھا کر میں نے اسی دن تمہیں بہن بنانے کی بجائے اپنے چنوں منوں کی ماں بنانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔ میں قسم کھا کر کہہ رہا ہوں ایک ایک لفظ سچ بولا ہے اور علشباہ کے تھپڑ والی بات تو میں نے نہال اور نمیر کو بھی نہیں بتائی صرف آج پہلی دفعہ تمہیں ہی بتا رہا ہوں۔۔۔۔ کس میں نے کسی بھی لڑکی کو نہیں کی آج پہلی دفعہ تمہیں یعنی اپنی بیوی کو کی ہے"
نوفل بالکل معصوم بچوں کی طرح شانزے کے سامنے اپنا اعتراف جرم کرنے والے سٹائل میں راز شیئر کرنے لگا جس پر شانزے کو ہنسی آگئی
"اب تو ایک اور کس کرلو نا۔۔۔ اجازت ہے"
وہ شانزے کو لٹا کر اس پر جھکتا ہوا بولا شانزے کے کچھ بولنے سے پہلے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ چکا تھا
"نوفل بس اب ہٹو پیچھے"
شانزے اس کی بے باکی پر بلش کرتی ہوئی بولی۔۔۔ مگر اب نوفل اس کی سننے کے ہرگز موڈ میں نہیں تھا اس لئے چھوٹی چھوٹی گستاخیاں کرنے کے بعد اب وہ پورا پورا من مانی پر اتر آیا تھا۔۔۔ شانزے کو بھی اندازہ ہوگیا اب اسے روکنے یا منع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں اس لئے وہ اپنی دلی آمادگی سے اپنا آپ اپنے شوہر کو سونپنے کے لیے تیار ہوگئی
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 30 long epi
صبح نمیر کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر اپنے برابر میں خالی بستر پر پڑی آج پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ عنایہ نمیر سے پہلے ہی اٹھ گئی تھی پھر نمیر کو کل رات والا منظر یاد آیا ساتھ ہی ایک جاندار مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھوگئی۔۔۔ نمیر اٹھ کر بیٹھا تو وارڈروب کے ہینڈل پر اس کے آفس کا ڈریس ہینگ تھا جو یقیناً عنایہ ہی ہینگ کر کے روم سے باہر نکلی ہوگی
"اوو تو اب مسسز اپنے شوہر کا سامنا نہیں کر پا رہی ہیں"
نمیر سوچتا ہوا مسکرانے لگا
****
"عنایہ بی بی آج تو آپ سویرے سویرے جاگ گئی"
عنایہ آج حمیدہ کے کچن میں آنے سے پہلے موجود تھی تبھی حمیدہ حیرت کرتی ہوئی بولی
"ہاں رات کو صحیح سے نیند نہیں آئی تھی،، اب نمیر کے جانے کے بعد ہی سو گی"
عنایہ نمیر کے لیے پراٹھا جبکہ ثروت اور اپنے لئے کارن فلیکس تیار کرنے لگی
"ہاں جی شادی کے بعد تو اکثر ہی ایسا ہوتا ہے"
حمیدہ ٹھنڈی آہ بھرتی ہوئی بولی جس پر عنایہ حمیدہ کو گھورنے لگی
"حمیدہ فضول باتیں کم کیا کرو،، جلدی سے چائے کا پانی رکھو"
عنایہ حمیدہ کو ڈپٹتے ہوئے بولی تو حمیدہ جلدی سے چائے کا پانی رکھنے لگی
کل رات نمیر کی بےباکی کے مظاہرے پر ایک بار پھر عنایہ کو شرم آنے لگی۔۔۔ اسے بھی کیا ضرورت تھی نمیر کے سامنے اتنا پٹر پٹر بولنے کی۔۔۔ وہ اپنے اوپر ملامت کر کے نمیر کا سوچنے لگی۔۔۔ ذرا لحاظ نہیں بے شرم کہیں کے۔۔۔ عنایہ دل ہی دل میں نمیر سے مخاطب ہوئی
"اف میں شرما کیوں رہی ہو مجھے تو نمیر کی حرکت پر غصہ آنا چاہیے۔۔۔۔ یا اللہ مجھے غصہ کیوں نہیں آرہا"
عنایہ گھبراتی ہوئی کچن میں چاروں طرف نظر دوڑانے لگی۔ ۔۔۔ کہیں کوئی اس کے اندر کا چور نہ پکڑ لے۔۔۔۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی تبھی عنایہ کو نمیر کی آواز سنائی دی وہ یقیناً کمرے کے دروازے پر کھڑا اسے پکار رہا تھا
عنایہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی وہ تو شکر تھا آج صبح اس کی خود ہی آنکھ کھل گئی اور وہ نمیر کے اٹھنے سے پہلے ہی کمرے سے باہر نکل گئی مگر وہ یہ بھول گئی تھی نمیر اب صبح اس کو دیکھے بنا تو ناشتہ بھی نہیں کرتا تھا۔۔۔ اس لیے سست قدموں سے چلتی ہوئی روم کے اندر جانے لگی
"آپ نے بلایا"
نمیر اپنی شرٹ پہن رہا تھا تب عنایہ نے کمرے میں آکر سرجھکائے اس سے پوچھا
"ہاں یہاں آو اور جلدی سے میری ہیلپ کرو"
نمیر اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھتا ہوا بولا
"کیا۔۔۔ کیا ہلیپ کرنی ہے"
عنایہ اس کے قریب آکر جھجھکتی ہوئی پوچھنے لگی
"پہلے اپنی شکل تو دیکھاو،، یہ کیا نالائق اسٹوڈنس کی طرح سر جھکایا ہوا ہے"
نمیر نے باروعب لہجے میں بولتے ہوئے عنایہ کی تھوڑی پکڑ کر چہرہ اٹھایا
"بولیں کیا کرنا ہے" نمیر عنایہ کو دیکھنے لگا تو عنایہ نے اس کی نظروں سے کنفیوز ہو کر پوچھا
"ٹائی اٹھا کر لاو میری"
نمیر عنایہ کو کہتا ہوں کف کے بٹن لگانے لگا عنایہ نے بیڈ پر رکھی ہوئی ٹائی اٹھا کر نمیر کو دینی چاہیے
"مجھے کیا پکڑا رہی ہو جلدی سے باندھو اسے"
نمیر مگن انداز میں اپنے اوپر پرفیوم چھڑکتا ہوا عنایہ سے بولا
"کس کے آپ کے باندھنا ہے"
عنایہ بدحواس ہو کر بولی
"تو کیا اپنے باندھو گی ٹائی"
نمیر اس کو کنفیوز دیکھ کر پوچھنے لگا
"مگر مجھے تو ٹائی باندھنا آتی ہی نہیں ہے"
عنایہ اس کو دیکھ کر پریشان ہو کر بولی
"کیا تمہیں ٹائی باندھنی نہیں آتی"
نمیر نے جتنی حیرت سے اس سے سوال کیا وہ عنایہ کے شرمندہ ہونے کے لئے کافی تھا
"تو کیا میں کالج ٹائیز لگا کر جاتی تھی"
مگر عنایہ برا مانتی ہوئی بولی۔۔ جس پر نمیر مسکرایا
"یہاں آؤ میں تمہیں ٹائی باندھنا سکھاتا ہوں"
نمیر عنایہ کا ہاتھ پکڑ کر اسکو اپنے قریب کھڑا کرکے اس کا دوپٹہ بیڈ پر رکھنے لگا اور مہارت سے اسی کے گلے میں ٹائی باندھ کر اسے دکھانے لگا
"چلو شاباش اب تم میرے باندھو"
نمیر اس کے گلے سے ٹائی نکال کر اپنے گلے میں ڈالتا ہوا بولا۔۔۔ عنایہ جھجھکتی ہوئی ٹائی باندھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ تب نمیر اپنے دونوں ہاتھ اسکی کمر پر رکھتا ہوا اسے اپنے سے قریب کرنے لگا
"آپ اس طرح کریں گے تو پھر میں کیسے باندھ پاو گی"
عنایہ شکایتی انداز میں اس کو دیکھ کر کہنے لگی
"اپنی توجہ اپنے کام پر رکھو میرے اوپر نہیں، باندھو جلدی سے"
نمیر روعب دار لہجے میں اس سے کہنے لگا۔۔۔ اسے بھی چن کر شوہر ملا تھا جو اسے تنگ کرنے کا موقع ہرگز ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔۔۔ عنایہ دوبارہ سے ٹائی باندھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ مگر نمیر کی مسلسل اپنے اوپر اٹھنے والی نظروں سے وہ نروس ہونے لگی۔۔۔۔ نمیر کی نظریں اسے یہ احساس دلارہی تھی کہ وہ بغیر دوپٹے کے اسکے بےحد قریب کھڑی ہے
"نہیں مجھ سے نہیں باندھے گی یہ ٹائی۔۔۔ آپ خود باندھے اسے"
عنایہ نمیر کو کہنے کے ساتھ ہی اپنا دوپٹہ اٹھا کر روم سے جانے لگی۔۔۔ عنایہ کو معلوم تھا وہ جان بوجھ کر اسے پریشان کررہا ہے
"جب تک تم ٹائی نہیں باندھو گی،، اس کمرے سے باہر نہیں جاسکتی"
نمیر کی بات پر عنایہ کی رونے والی شکل ہوگئی
"مجھ سے نہیں باندھے گی نمیر،، آپ کوئی اور کام بول دیں"
عنایہ بیچارگی سے دیکھتی ہوئی کہنے لگی گویا کبھی کبھی وہ اسے بہت پریشان کرتا تھا تب عنایہ کا شدت سے دل چاہتا تھا کہ وہ اس کا گلہ ہی دبا دے
"ٹھیک ہے پھر یہاں آو"
نمیر کی بات سن کر وہ شکر ادا کرتی ہوں اس کے پاس کم از کم ٹائی باندھنے سے تو اسکی جان چھٹی۔۔۔ عنایہ کے قریب آنے پر نمیر نے دوبارہ عنایہ کی کمر پر اپنے ہاتھ رکھے
"کس می"
نمیر کے پہلے سے بھی زیادہ خطرناک کام پر۔۔۔ عنایہ نے پوری آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا جبکہ نمیر اسے بالکل نارمل انداز میں اپنا دوسرا کام بتا چکا تھا۔۔۔نہ جانے وہ کیوں اسے صبح صبح تنگ کر رہا تھا
"مجھے ناشتہ بنایا ہے"
عنایہ بولتی ہوئی اس کے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانے لگی مگر نمیر کے آگے اس کی زور آزمائی نہیں چلی
"کس کرو گی یا ٹائی باندھو گی جلدی بتاؤ"
نمیر اس کو مزید خود سے قریب کرتا ہوا پوچھنے لگا
"میں رات تک ٹائی باندھنے کی پریکٹس کر لوں گی۔۔۔ اگر کل صبہح نہیں باندھ سکی تو آپ کو کس کرو گی"
عنایہ ایک سانس میں تیزی سے بولی نمیر کے ہونٹوں پر ایک دم مسکراہٹ آئی
"اسمارٹ گرل۔۔۔۔ اگر کل صبح تم ٹائی نہیں باندھ سکی تو میں ایک کس پر تو ہر گزارا نہیں کروں گا"
نمیر معنی خیزی سے اس کو دیکھتا ہوا بولا اور عنایہ کو اپنی گرفت سے آزاد کیا عنایہ فوراً کمرے سے باہر نکل گئی
"یہ تم صبح صبح نمیر کے کمرے میں کیا کر رہی تھی" ابھی وہ اپنی سانس بھی بحال نہیں کر پائی تھی نہال اپنے کمرے سے نکل کر عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا جس پر وہ گھبرا کر نہال کو دیکھنے لگی
"جج۔ ۔۔۔۔ جی مجھ سے نمیر کو کام تھا"
عنایہ ہکلاتی ہوئی بولی
"یہ نمیر تمہارے لئے نمیر بھائی سے نمیر کب ہوگیا"
نہال فوراً اس کا جملہ پکڑتا ہؤا بولا
"شاید جلدی جلدی میں منہ سے نکل گیا دھیان نہیں دیا میں نے"
عنایہ مزید گھبراتی ہوئی اسے وضاحت دینے لگی گی۔۔۔ وہ کہاں پھنس چکی تھی بےبسی سے سوچنے لگی
"دھیان تو واقعی اب لگتا ہے تمہارا مجھ پر نہیں رہا،،، مگر مجھے اب بھی تمہارا خیال ہے یہ بتاو ہاتھ کا درد کیسا ہے تمہارا"
نہال اس کو غور سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ نہال کو لگا جیسے عنایہ میں کچھ چینج آیا ہے مگر وہ سمجھنے سے قاصر تھا
"ہاتھ کا درد تو ٹھیک ہوگیا ہے چلیں آئے ناشتہ کر لیں" وہ نہال کی توجہ اپنے اوپر سے ہٹا کر ناشتے کی طرف لگاتی ہوئی بولی تو نہال ڈائننگ ٹیبل پر چلا آیا عنایہ بھی چیئر گھسکا کر بیٹھ گئی
"حمیدہ ماما کہاں ہے"
ناشتہ ٹیبل پر رکھتی ہوئی حمیدہ کو نہال نے مخاطب کیا
"جی وہ بیگم صاحبہ کہہ رہی تھی کہ تھوڑی دیر میں ناشتہ کریں گے ابھی وہ تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہیں"
حمیدہ نے نہال کو ثروت کے بارے میں بتایا
"وہ بھئی یہ پراٹھا دیکھ کر تو میرا یہی کھانے کا موڈ ہو رہا ہے، عنایہ چائے نکالنا پلیز"
نہال اپنی پلیٹ میں پراٹھا نکالتا ہوا بولا اور عنایہ اس سے یہ بھی نہیں کہہ سکی یہ پراٹھا اس نے نمیر کے لئے، اس کے کہنے پر بنایا ہے خاموشی سے عنایہ نہال کے لئے چائے نکالنے لگی اس سے پہلے وہ دوسرا پراٹھا بنانے کے لئے اٹھتی تبھی نمیر اپنے روم کا دروازہ کھول کر باہر آیا
"کیا ہوا آفس کے لئے تیار ہوگئے،، رات کو تو تم کہہ رہے تھے کہ صبح لیٹ جاؤں گا"
نہال نے نمیر کو آفس کے لئے تیار دیکھا تو اس سے پوچھا
"ارادہ تو لیٹ جانے کا تھا مگر رات کو سونے سے پہلے تھکن اتر گئی نیند اچھی آئی اسی وجہ سے صبح آفس کے لئے تیار ہوگیا"
نمیر اپنے برابر میں بیٹھی عنایہ پر ایک نظر ڈال کر نہال کو بتانے لگا۔۔۔ نمیر کی بات سن کر عنایہ کی نظریں جھک گئی
"کیوں کیا رات میں کوئی انرجی ڈرنگ لے لی تھی"
نہال نمیر سے پوچھنے لگا تو عنایہ کرسی سے اٹھ کر کچن میں جانے لگی
"ہاں یہی سمجھ لو"
نمیر نے ٹیبل کے نیچے عنایہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔ اب نمیر دوسرے ہاتھ سے ہاٹ پاٹ کھول کر اپنا پراٹھا نکالنے لگا مگر ہاٹپاٹ خالی دیکر اس کی نظر نہال کی پلیٹ میں گئی،، دوسری سنجیدہ نظر اس نے عنایہ پر ڈالی،، وہی عنایہ نے نمیر کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچا
"کہاں ہے میرا پراٹھا"
نمیر عنایہ کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگا نہال جوکہ اپنے ناشتے میں مگن ہوچکا تھا چونک کر سر اٹھا کر نمیر کو دیکھنے لگا
"اوہو یہ پراٹھا تم نے اپنے لیے بنوایا تھا مجھے معلوم نہیں تھا تم چاہو تو یہ لے سکتے ہو"
نہال نے نمیر کو دیکھتے ہوئے کہا اسے نمیر کی طبیعت کا اندازہ تھا وہ اپنی چیزوں کے معاملے میں شروع سے ہی حساس تھا۔۔۔ نوفل اور نہال تو ایک دوسرے سے اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں وغیرہ شیئر بھی کر لیتے مگر نمیر بچپن سے ہی اپنی چائے کا مگ تک کسی دوسرے کو نہیں دیتا تھا
"نہیں یہ تم ہی کھاؤ۔۔۔ جاؤ عنایہ پانچ منٹ کے اندر دوسرا پراٹھا بناؤ،، پانچ منٹ سے اوپر ایک منٹ بھی نہیں ہونا چاہیے"
نمیر نے نہال کی پلیٹ میں نظر ڈالی جس میں ادھا پراٹھا بچا ہوا تھا پھر وہ عنایہ کو دیکھ کر بولا۔۔۔ عنایہ نمیر کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر فوراً اٹھ کر کچن میں چلی گئی
"یہ کس انداز میں تم عنایہ سے بات کر رہے ہو"
نہال کو نمیر کا یوں ارڈر دینے والا انداز پسند نہیں آیا جبھی وہ نمیر کو ٹوکتا ہوا بولا
"تم میرے اور اس کے بیچ میں مت بولو اور چپ کر کے یہ پراٹھا کھاو"
نمیر اپنے غصے کو دبانے کے لیے پانی کا گلاس اٹھاتا ہوا بولا۔ ۔۔۔ وہ اتنے چھوٹے دل کا مالک ہرگز نہیں تھا کہ ایک پراٹھے پر اپنے بھائی سے بچوں کی طرح لڑنا شروع کردیتا۔۔۔ مگر یہاں بات عنایہ کے ہاتھ سے بنائی گئی چیز کی تھی جو اسکی بیوی نے خاص اس کے لیے بنائی تھی۔۔۔ اسلیے نہال کے پراٹھا کھانے پر نمیر کو جلن کا احساس ہونے لگا
"کیا مطلب ہے تمہاری بات کا،، اس کا اور تمہارا بیچ۔۔۔ نوکر ہے وہ تمہاری یا پیسے دے کر خریدہ ہے تم نے اسے۔۔۔ جو تم اس پر اپنا حق جتا رہے ہو"
نہال کو نمیر کی بات سن کر غصہ آیا
"حق صرف نوکر یا غلاموں پر نہیں جتایا جاتا نہال"
نمیر بولتا ہوا پانی کے گھونٹ بھرنے لگا
ان دونوں کے بیچ بحث شروع ہوگئی جس کی آواز عنایہ،،، کچن میں اچھی طرح سن سکتی تھی۔ ۔۔ ان دونوں کی غصے میں آوازیں سن کر عنایہ کے ہاتھ پاوں پھولنے لگے۔۔۔ وہ جلدی سے پراٹھا لے کر کچن سے باہر آنے لگی گھبراہٹ میں اس کا پاوں پھسلا،، پراٹھے کی پلیٹ سمیت وہ نیچے گری
ان دونوں کی توجہ عنایہ کی طرف مندمل ہوئی۔ ۔۔ نمیر اور نہال دونوں ہی اسکی طرف بڑھے۔۔۔۔ کیوکہ نہال سے عنایہ کا فاصلہ کم تھا اس لیے نہال نے عنایہ کو اٹھنے میں مدد دی
نمیر جو سامنے سے آتی عنایہ کو سلپ ہوتا دیکھ چکا تھا،، پانی کا گلاس ہاتھ میں تھامے تیزی سے اسکی طرف بڑھا مگر اس سے پہلے نہال عنایہ کو سہارا دے کر اٹھا چکا تھا۔۔ نمیر ان دونوں کو وہی دیکھ کر رک گیا
"لگی تو نہیں تمہیں"
نہال فکر مندی سے عنایہ سے پوچھنے لگا جبکہ عنایہ اپنے سامنے کھڑے نمیر کو دیکھنے لگی،،، وہ چہرے پر پتھریلے تاثرات لائے ان دونوں کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھ میں موجود گلاس پر گرفت مضبوط کی چھناکے کی آواز سے گلاس ٹوٹا نہال نے مڑ کر نمیر کو دیکھا،، وہ اپنا غصہ گلاس پر نکال کر قدم بڑھاتا ہوا نہال کے پاس آیا
"نہال تم اس سے دور رہا کرو"
نمیر نہال کو تنبہی کے انداز میں بولا
نہال حیرت سے نمیر کو دیکھنے لگا۔۔۔ نمیر کا رویہ اس کی سوچ سے بالاتر تھا۔۔۔ اب نمیر عنایہ کی طرف بڑھا
"دکھاؤ کہاں لگی" نمیر اپنا ایک ہاتھ عنایہ کے گال پر رکھتا ہوا دوسرے ہاتھ کے انگوٹھا عنایہ کی تھوڑی پر پھیرنے لگا،۔۔ سامنے بیٹھے ہونے کی وجہ سے اس نے عنایہ کی تھوڑی فرش پر لگتے دیکھی تھی۔۔۔ مگر نمیر اور عنایہ کا یہ منظر نہال نہیں دیکھ سکا اس نے نمیر کا بازو پکڑ کر جھٹکے سے اسے دور ہٹایا۔۔۔ نمیر کی توجہ عنایہ کی طرف ہونے کی وجہ سے وہ نہال کے دھکا دینے سے دو قدم پیچھے ہوا۔۔۔
اب نمیر آنکھوں میں ناگواری لئے نہال کو دیکھ رہا تھا دوسری طرف نہال کے بھی کچھ اسی طرح کے تاثرات تھے صرف ایک عنایہ تھی جس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا اور وہ بالکل خاموش سہمی ہوئی کھڑی تھی
"اس سے دور رہنے کی مجھے نہیں تمہیں ضرورت ہے، یہ تمہاری ہونے والی بھابھی ہے"
نہال کوئی دقیانوسی سوچ کا مالک ہرگز نہیں تھا مگر نمیر کا یوں عنایہ کے چہرے کو چھونا اس کی اتنے قریب کھڑے رہنے پر نہال کو غصہ آگیا۔۔ جبھی وہ نمیر کو عنایہ سے رشتہ یاد دلاتے ہوئے بولا۔۔۔ شور کی آواز سن کر ثروت بھی اپنے کمرے سے نکل آئی اس نے دونوں بھائیوں کو روبرو کھڑے دیکھا تو معاملے کی سنگینی سمجھنے کی کوشش کرنے لگی
"نہیں نہال تم غلطی پر ہو اپنا جملہ درست کرو یہ میری نہیں تمہاری بھابھی ہے۔۔۔ سوری میں بھی غلط بول گیا۔۔ ہونے والی بھابھی نہیں بلکہ ہوچکی بھابھی"
نمیر نے نہال کو دیکھ کر جتنے آرام سے بولا نہال نے اس کا گریبان پکڑنے میں دیر نہیں لگائی
"نہال چھوڑو اسے" ثروت بیچ میں آکر بیچ بچاؤ کروانے لگی جبکہ عنایہ وہی آنکھوں میں آنسو لیے سہمی ہوئی تماشہ دیکھ رہی تھی۔۔۔ نمیر نے اپنے گریبان سے نہال کے ہاتھ جھٹکے
"سنا نہیں آپ نے، ابھی کیا بکواس کی ہے اس نے"
نہال چیخ کر ثروت کو کہنے لگا وہ ایسی طبعیت یا مزاج کا مالک نہیں تھا مگر نمیر کی بات سن کر اس کا خون کھول اٹھا
"نہال وہ صحیح کہہ رہا ہے دو ماہ پہلے نمیر کی عنایہ شادی ہو چکی ہے" ثروت ہمت جمع کرکے اسے سچائی بتانے لگی۔۔ نہال خاموشی سے شاک کی کیفیت میں ثروت کو دیکھنے لگا پھر اس نے دوسری نظر عنایہ کے روتے ہوئے چہرے پر ڈالی اس کے بعد وہ خاموش کھڑے نمیر کو دیکھنے لگا
"نہال میری بات سنو"
نمیر اسکی دلی کیفیت سمجھتا ہوا اس کے قریب آ کر بولا
"دور ہو جاؤ میری نظروں سے تم"
نہال اسے دھکا دیتا ہوا بولا نمیر خاموشی سے روتی ہوئی عنایہ کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے بیڈ روم میں پورے استحقاق کے ساتھ نہال کے سامنے لے گیا۔۔۔۔ وہ خالی نظروں سے نمیر اور عنایہ کو دیکھنے لگا اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگی
"یہ کیا کر دیا آپ نے ماما میرے ساتھ" وہ اب آنکھوں میں نمی لیے ثروت کو دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا۔۔۔۔ نہال کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ثروت کو لگا جیسے اس کے سینے پر کسی نے بھاری سل رکھ دیا ہو
"نہال بیٹا اس وقت حالات ایسے تھے یہ سب کرنا پڑا"
ثروت میں نہال کو دیکھ کر سمجھ آتی ہوئی بولی
"کم ازکم آپ میرے مرنے کا انتظار تو کر لیتی"
نہال آنکھوں سے نمی پوچھتا ہوا ثروت سے کہنے لگا
"اللہ نہ کرے میری عمر بھی لگ جائے تمہیں۔۔۔ تحمل سے میری بات سنو میں تمہیں سب بتاتی ہوں"
ثروت اس کا چہرہ تھامے بولی نہال نے ثروت کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر ثروت کو روکا
"آپ مجھ سے میری خوشی چھین کر مجھے لمبی عمر کی دعا دے رہی ہیں۔۔۔ مجھے کچھ نہیں سننا،، اکیلا رہنا چاہتا ہوں پلیز مجھے ڈسٹرب مت کریئے گا"
نہال وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ ثروت اپنا سر تھامے وہی کرسی پر بیٹھ گئی
جاری ہے
🌹: Gunnahar
By zeenia sharjeel
Epi # 31
"عنایہ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرو فوراً"
عنایہ کو کمرے میں لانے کے بعد نمیر سنجیدگی سے بولا عنایہ نے تڑپ کر اسے دیکھا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے وہ اپنے بھائی کی فیلنگز کو سمجھ کر اسے سمجھانے کے لئے تو آگے بڑھا تھا مگر اس کو تو وہ رونے بھی نہیں دیتا تھا عنایہ نے بے دردی سے اپنے ہاتھ چہرے پر رگڑ کر اپنے آنسو صاف کیے تبھی نمیر اس کے قریب آیا،، اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے شانوں کو تھاما
"بہت برا لگتا ہوں نا میں تمہیں جب اس طرح زور زبردستی کرتا ہوں تمہارے ساتھ،، بالکل اسی طرح مجھے تمہاری آنکھوں میں یہ آنسو برے لگتے ہیں جو نہال کے لیے نکلتے ہیں۔۔۔ میں تمہاری آنکھوں میں نہال کے لئے آنسو کی بجائے ان ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہوں جو صرف مجھے دیکھ کر آئے"
نمیر عنایہ کا چہرہ دیکھتا ہوا اپنے دل کا حال بتا رہا تھا مگر عنایہ کی نظر اس کے زخمی ہاتھ پر تھی جو اس کے کندھے پر موجود تھا
"آپ کا ہاتھ زخمی ہوگیا نمیر،، اپکو تکلیف ہورہی ہوگی"
معلوم نہیں کہ عنایہ نے اس کی بات سنی بھی کہ نہیں۔۔ یا پھر سن کر انجان بنی رہی۔۔۔ وہ اپنے کندھے سے نمیر کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔۔۔ جو کہ گلاس کے ٹوٹنے سے زخمی ہوا تھا
"تمہیں یہ زخم نظر آرہا ہے تو تم اس پر افسوس کر رہی ہو۔۔۔۔ اور میری محبت،،، وہ نظر نہیں آتی تمہیں۔۔ یا پھر میری محبت کو بھی جان بوجھ کر نظر انداز کرتی ہو میری باتوں کی طرح"
نمیر عنایہ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر اس سے جواب طلب کرنے لگا
"جب آپ خود میرے اندر رونما ہونے والی تبدیلی کو محسوس نہیں کر سکتے تو مجھ سے شکوہ مت کریں"
عنایہ بھلا کھلے لفظوں میں کیسے اظہار کر سکتی تھی
"کون سی تبدیلی کی بات کر رہی ہو تم۔۔۔ جو تمہارے دل میں ہے اسے زبان پر لے کر آؤ۔۔۔ بیوی ہو تم میری یار دو مہینے ہونے کو آئے ہیں ہماری شادی کو۔۔۔ پھر کون سی شرم، کیسی جھجھک… عنایہ یوں اپنے اور میرے رشتے کو مذاق بناؤں گی تو میں تم سے شکوہ کروں گا۔۔۔۔ اس سے پہلے دوسرے لوگ ہمارے رشتے کو سمجھنے لگے خدارا تم اپنے اور میرے رشتے کو سمجھو"
نمیر عنایہ کو بولتا ہوا بگڑے موڈ کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا
****
نوفل بیڈروم میں آیا تو شانزے آئینے کے آگے کھڑی تیار ہو رہی تھی وہ ابھی ابھی ڈیوٹی سے واپس آیا تھا۔۔۔ شانزے کو دیکھکر مسکراتا ہوا اس کے قریب آیا
"تو ایس۔پی صاحب آ گئے اپنی ڈیوٹی انجام دے کر"
نوفل کے قریب آنے پر شانزے نے پلٹ کر اس سے پوچھا۔۔۔ معلوم نہیں وہ ان دو دنوں میں زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی یا پھر نوفل کی قربتوں کا اعجاز تھا
"تم نے انتظار کیا میرے واپس آنے کا" نوفل اسے بانہوں میں لیتا ہو پوچھنے لگا
"تو تمہیں کیا لگ رہا ہے کوئی ایکشن مووی دیکھ کر ٹائم پاس کر رہی ہوگی۔۔ دو دن کی بیاہی لڑکی اپنی شوہر کا ہی انتظار کرے گی"
شانزے کے دلفریب انداز اور اعتراف نے نوفل کو اندر تک سرشار کر دیا
"میں تو چاہتا ہوں میں جب بھی ڈیوٹی دے کر واپس آؤ تو تم مجھے ایسے ہی تیار ہوکر میرا انتظار کرتی ہوئی ملو"
نوفل نے بولنے کے ساتھ شانزے کو کمر سے اونچا اٹھایا اور بیڈ کر گرنے والے انداز میں اس کو لے کر لیٹا
"کیا ہوجاتا ہے تمہیں بچوں جیسی حرکتیں شروع کر دیا کرو بس"
شانزے بیڈ سے اٹھتی لگی تبھی نوفل نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنی طرف کھینچا
"ان دو دنوں میں تمہیں میری کون سی حرکت بچوں والی لگی"
نوفل اس کو دیکھ کر معنی خیزی سے پوچھنے لگا تو شانزے کے چہرے پر لالی چھائی
"آف نوفل بدتمیزی نہیں کرو اس وقت،، جاکر چینج کرو فوراً۔۔۔ میں بالکل ریڈی ہو،،، اور میں دیر تک اپنی سہیلی کے ساتھ بیٹھو گی مجھے وہاں سے جلدی اٹھنے کا اشارہ بالکل مت کرنا"
آج صبح ہی نوفل کے پاس نمیر کی کال آئی تھی جس پر اس نے اپنا اور نہال کا کل والا واقعہ بتایا اور ساتھ ہی اسے اور شانزے کو اپنے گھر انوائٹ کیا کیوکہ آج عنایہ کی برتھ ڈے تھی۔۔۔ اور وہ اس دن کو اچھی طرح سلیبریٹ کرنا چاہتا تھا
"ریڈی تو میں فوراً ہو جاؤں گا مگر کہیں جانے کے لیے نہیں بلکہ۔۔۔"
نوفل شانزے پر جھگتا ہوا کہنے لگا شانزے نوفل کو پیچھے دھکیل کر بیڈ سے اٹھی
"نوفل اگر تم نے اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے دیر کی ناں۔۔۔ تو میں تمہیں آج بیڈروم میں ہرگز نہیں سونے دو گی"
شانزے اس کو وارن کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی
"واہ نوفل،،، بیوی بھی تو نے اپنے لئے چن کر تلاش کی ہے"
نوفل اپنے آپ سے مخاطب ہوتا ہوا وارڈروب سے اپنے لئے ڈریس نکالنے لگا
****
"یہ تمہاری مامی کا گھر نہیں ہے جو آج کا دن تم یوں بند کمرے میں گزار دو گی۔۔۔ جلدی سے تیار ہو جاؤ میں نے نوفل کو آٹھ بجے کا ٹائم دیا تھا پہنچنے والا ہوگا وہ تمہاری سہیلی کے ساتھ"
عنایہ بیڈروم کی کھڑکی کھولے کھڑی تھی۔۔۔ نمیر کمرے میں داخل ہو کر اس کو دیکھتا ہوا بولا،، کل صبح ہونے والی تلخی کے بعد اب تک نہال اپنے آپ کو کمرے میں موجود تھا۔۔۔۔ نمیر نے اور ثروت نے کافی کوشش کی کہ اس سے بات کرے مگر وہ ان دونوں میں سے کسی کی بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔۔۔ بات تو اس کی اور عنایہ کی بھی روبرو اسی وقت ہو رہی تھی کیوکہ وہ کل صبح آفس کا نکلا، رات کافی دیر گھر آیا جب تک عنایہ سوچکی تھی۔۔۔۔ صبح بھی وہ عنایہ کو جگائے بغیر آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔ آج دوپہر میں اس نے آفس سے فون کر کے عنایہ کو بتایا کہ وہ فرمان اور اس عشرت کے ساتھ نوفل اور شانزے اور اپنے چند دوست کی فیملی کو بھی انوائٹ کرچکا ہے
"کیا ضرورت تھی برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے کی۔۔۔۔ آپ نے مجھے پہلے کبھی برتھ ڈے سیلیبریٹ کرتے دیکھا ہے"
عنایہ نمیر کو دیکھتی ہوئی کہنے لگی تو نمیر اس کے قریب آ کر اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولا
"ایسا ضروری تو نہیں جو کام پہلے کبھی نہیں ہوا وہ اب بھی نہ ہو۔۔۔ اب تمہاری مجھ سے شادی ہوچکی ہے میرا دل چاہ رہا تھا تمہاری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے کا مجھے اچھا لگے گا آج کے دن تم میرے لیے سجھو سنوارو۔ ۔۔ میرا لایا ہوا ڈریس پہنو،، کیا تم میری خوشی کے لیے ایسا کرو گی"
نمیر عنایہ کا چہرہ تھامے اس سے پوچھنے لگا تو عنایہ نے اقرار میں سر ہلایا۔۔۔ نمیر نے اسمائل کے ساتھ اسکے چہرے سے اپنے ہاتھ ہٹائے اور وارڈروب سے عنایہ کے لیے ڈریس نکالنے لگا جو وہ کل ہی اس کے لئے لایا تھا
"یہ۔۔۔۔ یہ میں کیسے پہن سکتی ہوں آج سے پہلے میں نے ساڑھی کبھی نہیں پہنی،، نہ ہی مجھے پسند ہے اور نہ ہی اسے باندھنا آتا ہے" نمیر کے ہاتھ میں ریڈ کلر کی ساڑھی دیکھی تو عنایہ گھبراتی ہوئی بولی۔۔۔ ساڑھی نہال کو بھی اتفاق سے بالکل نہیں پسند تھی۔۔۔ اس وجہ سے شادی کے کپڑوں میں اس نے ایک بھی ساڑھے نہیں لے تھی اور خود اسے بھی ساڑھی پہننے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا
"آج سے پہلے تو تم نے برتھڈے بھی سیلیبریٹ نہیں کی۔۔۔ آج کر رہی ہو نا ایسے ہی آج پہلی دفعہ یہ ساڑھی بھی پہنو گی،،، تمہیں پسند نہیں ہے مگر مجھے پسند ہے اچھی لگے گی تم پر،،، اس لئے تمہارے لئے لایا ہوں"
نمیر نے ہینگر میں لٹکی ہوئی ساڑھی عنایہ کے ہاتھ میں تھمائی
"میں نے یہ بھی کہا ہے مجھے یہ باندھنا نہیں آتی"
عنایہ نے منہ بنا کر کہا کیوکہ ساڑھی پہننے کا اس کا ذرا برابر موڈ نہیں تھا
"ٹائی باندھنا تمہیں نہیں آتی،، ساڑھی باندھنا تمہیں نہیں آتی،، شوہر سے پیار کیسے کیا جاتا ہے اسے خوش کیسے رکھا جاتا ہے اس سے تم لاعلم ہوں۔۔۔ بے فکر رہو ایک ایک کرکے سب کچھ سیکھا دوگا"
نمیر گہری نظروں سے اس کو دیکھتا ہوا بولا تو عنایہ اس کی نظروں سے کنفیوز ہونے لگی
"ساڑھی باندھنا کوئی مہارت کا کام نہیں ہے تم نے ٹائی باندھنا نہیں سیکھی مگر ساڑھی پرچیز کرنے کے بعد میں نے اس کو باندھنے کا طریقہ دیکھ لیا ہے۔۔۔ آج صبح ٹائی نہ باندھنے کا حرجانہ تو دینا ہی پڑے گا۔۔۔ مگر وہ بات کی بات ہے۔۔۔ جاؤ اب یہ بلاؤز پہن کر آؤ جلدی سے"
نمیر کی بات سن کر وہ سست قدموں سے ساڑھی لیے ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔۔۔۔ اس کے بعد جب تک نمیر نے اس کو ساڑھی نہیں باندھی عنایہ نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے رکھا۔۔۔ نمیر افسوس سے اس کو دیکھ کر سر ہلانے لگا
"ایسا لگتا ہے شادی میری کسی جوان لڑکی سے نہیں بلکہ کسی چھوٹی سی بچی سے ہوئی ہے۔۔۔۔ جسے پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہر کام سکھانا پڑے گا"
پیچھے بلاؤز کی ڈوری باندھنے کے بعد نمیر نے اس کے شولڈر پر اپنے ہونٹ رکھے
"نمیر"
عنایہ ایک دم نمیر کی طرف مڑی۔۔۔ شرم سے اس کا چہرہ ساڑھی کے رنگ جیسا ہونے لگا
"کیا نمیر۔۔۔ اب شرمانہ چھوڑو جلدی سے باقی کا خود تیار ہو اور فوراً باہر نکلو"
نمیر اس کے بالوں کو کلپ سے آزاد کرتا ایک نظر اس کے حسین سراپے پر ڈالتا خود بھی چینج کرنے چلا گیا۔۔
عنایہ جلدی جلدی باقی کا خود تیار ہو کر بال کھلے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل آئی ثروت نے اسے دیکھا تو پیار کرتے ہو ڈھیر ساری دعائیں دی
نوفل، شانزے، فرمان اور عشرت اور دوسرے گیسٹ آ چکے تھے عشرت کے علاوہ اس نے سب سے تعریفیں اور مبارکباد وصول کی
عشرت آج بھی عنایہ کو دیکھ کر اس پر طنز کرنا نہیں بھولی اس کی سالگرہ بنانے پر اور تیار ہونے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔۔۔۔ اس کے خیال میں آج کے دن عنایہ کو صرف اپنے ماں باپ کا سوگ منانا چاہیے تھا
جس پر عنایہ تو خاموش رہی مگر اس کی جگہ نمیر نے عشرت کو ٹکا سا جواب دیا۔۔۔ یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ مرنے والوں کو صرف رو رو کر یاد کیا جائے آج عنایہ کے پیرنٹس کی برسی تھی وہ ان کو پڑھ کر بخش چکی ہے۔۔۔ مرنے والے اگر ماں باپ ہو تو وہ کبھی بھی نہیں چاہے گے ان کی اولاد دنیا میں آنسو بہائے۔۔۔ آج عنایہ کا برتھ ڈے ہے اور اپنی خوشیوں پر اس کا بھی حق ہے۔۔۔ نمیر کی بات سن کر جہاں شانزے خوش ہوئی وہی عشرت کا منہ آخر تک بنا رہا
"نمیر میں کیک کیسے کاٹو گی"
سب لوگ ٹیبل پر موجود تھے تب عنایہ نروس ہوتی ہوئی نمیر سے آہستہ سے پوچھنے لگی
"عنایہ تمہیں کیک کاٹنا ہے کوئی گائے یا اونٹ نہیں ذبح کرنا جو تم ایسے گھبرا رہی ہو"
نمیر نے اس کو گھبراتے ہوئے دیکھا تو ریلکس کرتے ہوئے کہا
"مگر میں نے یوں سب کے سامنے کھبی کیک کاٹا نہیں سب دیکھیں گے مجھے"
عنایہ منمناتی ہوئی بولی
"ابھی بھی سب ہم دونوں کو ہی دیکھ رہے ہیں آو شاباش"
نمیر اس کے کندھے کے گرد ہاتھ رکھ کر اسے ٹیبل پر لایا اور عنایہ کو چھری پکڑائی۔۔۔ سب کی موجودگی میں تالیوں کی گونج میں عنایہ نے کیک کاٹا
****
"اف شکر ہے تم اپنے کمرے میں لے آئی وہاں سب کے سامنے تو انسان بات ہی نہیں کر سکتا۔۔ ۔ اب بتاؤ موبائل پر کیا ضروری بات بتا رہی نمیر بھائی کے بارے میں تم"
عنایہ اسے اپنے کمرے میں لائی تو شانزے اس سے بولی
"بتاتی ہوں مگر پہلے اپنی شادی کی مبارکباد وصول کرو اور یہ بتاؤ نوفل بھائی کا رؤیہ کیسا ہے تمہارے ساتھ"
عنایہ شانزے کے برابر میں بیٹھی اس سے پوچھنے لگی
"بالکل ویسے ہی رویہ ہے جیسے دو دن کی نئی نویلی دلہن کے ساتھ ایک شوہر کا ہونا چاہیے" شانزے نے شرمانے کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا جس پر عنایہ کو ہنسی آئی
"اللہ بری نظر سے بچائے بہت پیاری لگ رہی ہو آج تم"
عنایہ نے شانزے کو خوش اور مطمئن دیکھ کر دل سے دعا دی
"میں پیاری لگ رہی ہو، یہ نوفل مجھے بتا چکا ہے اور تم کتنی پیاری لگ رہی ہو یہ نمیر بھائی کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لینا ان کی نظریں بار بار تم پر اٹھ رہی ہیں"
شانزے نے شرارتی انداز میں بولا تو عنایہ ایکدم جھینپ گئی۔۔۔ کیوکہ نمیر کو ہر تھوڑی دیر بعد اپنی طرف دیکھتا ہوا محسوس تو وہ خود بھی کر چکی تھی
"ویسے نظریں تو تمہاری مامی کی بھی بار بار تم پر اٹھ رہی ہیں خدا کی قسم کیسے گھورتی ہیں یہ خاتون تمہیں۔۔۔ لگتا ہی نہیں تمہاری ساس اور مامی دونوں بہنیں ہیں" شانزے کو عشرت یاد آئی۔۔۔ جو مہمانوں کے بیج عنایہ کو خار کھانے والی نظروں سے وقفے وقفے سے دیکھے جا رہی تھی
"یار دراصل انہیں اچھا نہیں لگا میری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنا میں جبھی نمیر کو روک رہی تھی"
عنایہ شانزے کو عشرت کے ناخوش ہونے کا ریژن بتانے لگی
"ارے چھوڑو اپنی مامی کو نمیر بھائی نے بہت اچھا کیا جو تمہاری برتھ ڈے سیلیبریٹ کی۔۔۔ میں تمہاری جگہ ہوتی تو کیک کاٹ کر سب سے پہلے بڑا والا کیک کا ٹکڑا اپنے پیارے سے ہاتھوں سے ان کے منہ میں ہی ڈالتی۔۔۔ اب بتاؤ نمیر بھائی کے بارے میں کیا کہہ رہی ہو تم"
شانزے عنایہ کو دوبارہ اسی ٹاپک پر لے آئی
"شانزے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے مجھے نمیر اچھے لگنے لگے ہیں۔۔۔۔ یعنی وہ دوسری طرح سے بہت زیادہ اچھے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے نمیر سے۔۔۔ افوہ تم سمجھ جاو نا خود سے"
عنایہ جو لفظوں میں اپنی فیلنگز شانزے کو نہیں بتا سکی تو جھنجھلا گئی۔۔۔ شانزے تو ہنسی روکے ہوئے اس کی بات سن رہی تھی کھلکھلا کر ہنس دی
"اف عنایہ کیا چیز ہو تم،، اگر تمہیں نمیر بھائی اچھے لگنے لگے ہیں تو اس میں اتنا شرمانے کی کیا بات ہے وہ شوہر ہیں تمہارے۔۔۔ یہ تو نیچرل فیلینگ ہے تمہاری ان کے لیے اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے اور تم کتنی بدھو ہو اس بات کا اقرار اپنے شوہر کی بجائے دوست کے سامنے کر رہی ہوں"
شانزے اس کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ ڈانٹنے لگی۔۔۔ اتنے میں روم کا دروازہ کھلا اور نمیر اندر آیا
"ڈسٹرب کرنے کے لیے سوری۔۔۔ مگر نوفل بلا رہا ہے آپ کو"
نمیر کمرے میں داخل ہوتا ہوا شانزے کو دیکھ کر بولتا ہوا واپس چلاگیا تو شانزے عنایہ کے کمرے سے باہر نکلی
*****
"کیوں آ جاتی ہوں تم بار بار میرے سامنے، آخری پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتی میرا"
نہال فرحین کا عکس اپنے کمرے کے آئینے میں دیکھ کر ایک دم چیختا ہوا بولا
وہ کل سے بار بار اس کے سامنے آئے جا رہی تھی اس کو دیکھ کر زور زور سے ہنس رہی تھی نہال کو لگا جیسے وہ اس کو شکست خور اور ٹوٹا ہوا دیکھ کر خوش تھی۔۔۔۔ جشن تو شاید باہر بھی بن رہا تھا تھوڑی دیر پہلے آنے والی تالیوں کی آواز،،، نہال کے دماغ پر ہتھوڑے کی ماند پڑ رہی تھی
"سوری نہال بھائی،، میں سمجھی نوفل یہاں ہو گے۔۔ اسی وجہ سے ان کو یہاں دیکھنے آئی تھی"
نہال نے دوبارہ آئینے میں دیکھا پھر حیرت سے پلٹ کے دیکھا تو نوفل کی بیوی کو سامنے کھڑا پایا۔۔۔ وہ فرحین نہیں شانزے تھی،،، نوفل کی بیوی۔۔۔ غلطی سے شانزے کو وہ فرحین سمجھ بیٹھا تھا
جاری ہے
2.5 k pe sec epi @aj he😇
🌹:gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 33
"چندا اٹھنا نہیں ہے کیا"
تیسری بار نمیر کے آواز دینے پر عنایہ نے آنکھیں کھولی۔۔۔ وہ مندی مندی آنکھوں سے نمیر کو دیکھنے لگی جو پوری طرح بیدار ہوکر عنایہ کی طرف کروٹ سی لیٹا ہوا اسی کو دیکھ رہا تھا
"کیا آپ وہ سونا بالکل پسند نہیں ہے نمیر"
نیند سے بوجھل آواز میں عنایہ نمیر کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی اس کے انداز پر نمیر کو ہنسی آگئی
"میں چھٹی والے دن بھی اتنا نہیں سو سکتا،، جتنا سارا تم سوتی ہو میری سلیپنگ بیوٹی"
نمیر بولنے کے ساتھ ہی عنایہ کو اپنی طرف کھینچتا ہوا اس پر جھکا۔۔ اب وہ عنایہ کو پوری طرح بیدار کرنے کے موڈ میں تھا۔۔۔ کل رات کی بانسبت اس وقت اس کا موڈ بھی ٹھیک ہوگیا تھا
"سنو میرے آفس جانے کے بعد جتنا سونا ہے سو جانا کل سیٹر ڈے ہوگا یعنی آفس کا آف۔۔۔۔ اور آج رات میں تمہاری نیند کو لے کر کوئی بھی ایکسکیوز نہیں سنوں گا"
نمیر عنایہ کی نیند بھگانے کے بعد اب اس کو دیکھتے ہوئے شرارتی انداز میں بولا۔۔۔ نمیر کی بات پر عنایہ شرما گئی۔۔ وہ عنایہ کی پیشانی پر ہونٹ رکھ کر مسکراتا ہوا بیڈ سے اٹھا
"یار جلدی سے ناشتہ ریڈی کرو،، لگ رہا ہے آج آفس کے لیے لیٹ ہو جاو گا"
نمیر واش روم کا رخ کرتا ہوا بولا تو عنایہ بھی سستی بھگاتی ہوئی بیڈ اٹھی
کچن کا رخ کرنے سے پہلے اس نے وارڈروب سے نمیر کے لئے کپڑے نکالے بیڈ کور صحیح کرتی ہوئی وہ کچن میں چلی آئی۔۔ تقریباً روز ہی نمیر اس کے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ کرتا تھا۔۔۔ حمیدہ کے ساتھ ٹیبل پر ناشتہ رکھوایا تو باری باری سب اپنے روم سے نکل آئے۔۔۔ نمیر گھر کیجول حلیے میں تھا شاید ناشتہ کرکے آفس کی تیاری کا ارادہ رکھتا تھا،، جبکہ نہال آفس کے لیے تیار تھا۔۔۔ ثروت نے نہال کو اپنے کمرے سے آتا دیکھا تو اسے گلے لگا کر پیار کرنے لگی۔۔۔ نہال بھی ثروت سے نارمل انداز میں اس کی طبیعت پوچھ رہا تھا
"یہ کیا تم اپنے شوہر کے لیے ایک پراٹھا بنا دیتی ہوں اگر جیٹھ کا بھی پراٹھا کھانے کا دل چاہے تو اسے کیا کرنا چاہیے پھر"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا بالکل فرینک انداز میں بات کرنے لگا۔۔۔ نمیر نے نہال کو ایک نظر دیکھا پلیٹ میں اپنے لیے پراٹھا نکالنے لگا۔۔۔ اپنی چیز نہال کو آفر کرنے یا اس سے شیئر کرنے کا نمیر کا قطعی ارادہ نہیں تھا
"میں ابھی حمیدہ سے کہتی ہوں وہ بنا دیتی ہے تمہارے لئے بھی پراٹھا"
ثروت نہال کو دیکھتی ہوئی بولی
"رہنے دیں ماما،، حمیدہ کے ہاتھ کا ذائقہ اس پراٹھے جیسا تھوڑی ہوگا میں سینڈوچ سے ہی کام چلا لیتا ہوں"
نہال نے ایک نظر نمیر کو دیکھتے ہوئے کہا پھر سینڈوچ کی پلیٹ اٹھانے لگا۔۔۔ نمیر بھی اسکی بات پر کوئی رسپانس دیئے اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف تھا
"آپ پانچ منٹ رک جائے میں آپ کے لیے بھی پراٹھا بنادیتی ہوں"
عنایہ کی آواز پر ایک پل کے لیے نمیر کا ہاتھ روکا مگر وہ پھر دوبارہ نارمل انداز میں اپنا ناشتہ کرنے لگا۔۔۔ عنایہ کو اچھا نہیں لگا نہال کا سینڈوچ کھانا۔۔۔ وہ بھی اسی گھر کا فرد تھا،،، نمیر کا بڑا بھائی اس کا جیٹھ۔۔۔ اگر وہ اس کے لئے بھی پراٹھا بنا دیتی تو اس میں کیا مذائقہ تھا۔۔ عنایہ سوچتی ہوئی اپنا ناشتہ چھوڑ کر اٹھ گئی
"پانچ منٹ نہیں میں 15 منٹ بھی ویٹ کر سکتا ہوں تم آرام سے پراٹھا بناؤ"
نہال نے مسکراتے ہوئے عنایہ کو کہا۔۔۔ وہ ہلکی سی اسمائل دے کر کچن کا رخ کرنے لگی۔۔۔ نمیر نے چائے کا سپ لیتے ہوئے نہال کو دیکھا۔۔۔ وہ کافی خوش اور فریش لگ رہا تھا۔۔ نہال شروع سے خاموش طبع تھا اور اتنا مسکرا کر کسی دوسرے سے بات بھی نہیں کیا کرتا تھا مگر اب اس کا انداز بلخصوص عنایہ سے بات کرنے کا مختلف ہوگیا تھا
"رکو عنایہ پہلے یہاں آؤ اور میری چائے گرم کر کے لاو یہ ٹھنڈی ہوچکی ہے"
نمیر کی آواز سن کر عنایہ چائے گا کپ لینے اس کے پاس آنے لگی
"اوہو تم جاو کچن میں۔۔۔ نمیر تم یہ میرا کپ لے لو میں اتنی گرم چائے نہیں پیتا"
نہال نے بولنے کے ساتھ ہی چائے سے بھرا کپ نمیر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ تو عنایہ کچن میں جا چکی تھی
"عنایہ واپس آو اور میری چائے گرم کر کے لاؤ"
نمیر نہال کو دیکھتا ہوا تیز آواز میں بولا تو عنایہ کو کچن سے واپس آنا پڑا۔۔۔ ثروت بھی خاموشی سے نہال کی طرح نمیر کو دیکھنے لگی۔۔ نہال نے اپنا آگے بڑھا ہوا کپ واپس ٹیبل پر رکھا۔۔۔ تھوڑی دیر میں حمیدہ کچن سے چائے کا کپ لے کر آئی اور نمیر کے آگے رکھا
"عنایہ کہاں ہے"
نمیر ایک نظر اپنے چائے کے کپ کو دیکھتا ہوا حمیدہ سے پوچھنے لگا
"جی وہ نہال صاحب کے لیے پراٹھا بنا رہی ہیں"
حمیدہ نے نمیر کو جواب دیا
"یہ چائے کا کپ اٹھا کر واپس لے کر جاؤ۔۔۔ عنایہ سے کہو پہلے آکر مجھے خود آکر چائے دے کر جائے پھر پراٹھا بنائے"
نمیر حمیدہ کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ تھوڑی دیر میں چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے عنایہ کچن سے نکلی اور نمیر کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھمایا
"اگلی دفعہ کسی بھی دوسرے کام کے لیے میرا کام ڈیلے یا اگنور نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ بیوی تم ہو میری، آئندہ حمیدہ کو میرا کام کرنے کے لیے مت کہنا"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا عنایہ نے ایک نظر ثروت اور نہال پر ڈالی نمیر کو جی کہہ کر واپس کچن میں چلی گئی
"صبح صبح تمہارے دماغ پر گرمی چڑھ گئی،، اوپر سے اتنی گرم چائے پی کر کیا کرو گے۔۔ کیا تم اپنی چائے مجھ سے شیئر کر سکتے ہو"
نہال اس کے غصے کی پروا کیے بنا نمیر کو بولا
"تمہیں اچھی طرح میری عادت کا معلوم ہے میں اپنی استعمال کی چیزیں دوسروں سے شئیر نہیں کرتا"
نمیر نہال کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے بولا
"واقی تم اب بھی یہی کہو گے"
نہال کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھنے لگا جیسے وہ کچھ جتانا چاہ رہا ہو
"جو کہنا ہے کھل کر کہو صاف لفظوں میں"
نمیر نہال کو دیکھ کر ایک ایک لفظ چبا کر بولا،، اسے تو کل رات کو ہی نہال کا یوں اپنے بیڈ روم میں آنا کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا
"کیوں ماما ذرا یاد دلائے اپنی لاڈلے کو، بچپن میں جب بابا اس کے اور میرے لیے کوئی کھلونا لاتے تھے اسے ہمیشہ میرا والا ہی کھلونا پسند آتا تھا اور یہ اسی کے لئے ضد کرتا تھا۔۔۔ آپ دونوں ہمیشہ مجھے سمجھاتے تھے کہ چھوٹا بھائی ہے اسے اپنا کھلونا دے دو اور میں اپنے چھوٹے بھائی کو ہمیشہ اپنی چیز، اس کی ضد دیکھ کر دے دیا کرتا تھا یاد ہے ناں ماما آپ کو" نہال ہنستا ہوا ثروت سے پوچھنے لگا نہال کی بات سن کر ثروت خاموش ہوگئی جبکہ نمیر لب بھینچ کر اپنا غصہ کنٹرول کرنے لگا۔۔۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے تو اس کا اشارہ کس طرف ہے
"بڑے تو ہمیشہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں نہال۔۔۔ تم میرے بہت پیارے اور صابر بیٹے ہو"
نہال کی آنکھوں میں قرب دیکھ کر ثروت اس کو سمجھانے لگی
"بڑا ہو تو اس کا یہ مطلب ہے کہ میں ہر دفعہ بڑے پن کا مظاہرہ کرو،، اللہ کسی کو بھی بڑا بھائی نہ بنائے"
نہال بولتا ہوا چائے کے گھونٹ حلق میں اتارنے لگا
"یہ لیجیے آگیا آپکا پراٹھا بھی۔۔۔۔ کیا باتیں چل رہی ہیں"
عنایہ جو کہ کچن میں موجود تھی اسے ٹیبل پر ہونے والی گرما گرمی کا علم نہیں تھا۔۔ اس لئے نہال کے آگے پراٹھے کی پلیٹ رکھنے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھتی ہوئی نمیر کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"اس سے مت پوچھو میں بتاتا ہوں۔۔۔ دراصل میں تمہارے شوہر کو اس کے بچپن کے کارنامے یاد دلا رہا تھا۔۔۔۔ تمہیں میں ایک مزے کا قصہ سناتا ہوں،، تم اس وقت بہت چھوٹی ہوگی یا اس وقت تو پیدا بھی نہیں ہوئی ہوگی۔۔۔ شاید میری ساتویں سالگرہ تھی ہماری کلاس میٹ نے مجھے برتھ ڈے پریزنٹ میں ایک پرشین کیٹ گفٹ کی۔۔ جسے ہم پیار سے سویٹی کہتے تھے۔۔۔ ہمیشہ کی طرح سویٹی نمیر صاحب کو پسند آگئی"
نہال مزے سے نمیر کا ایک اور بچپن کا قصہ عنایہ کو سنانے لگا عنایہ بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ لائے دلچسپی سے سننے لگی جبکہ نمیر نہال کو کھولتی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ ثروت اپنی ہی کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
"تو پھر ہوا یوں کہ نمیر کا رونا دھونا شروع ہوا کھانا پینے سے بھوک ہڑتال دیکھ کر،، بڑے بھائی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے میں نے اپنی سویٹی،، دل بڑا کر کے نمیر کو سونپ دی۔۔۔ نمیر دل و جان سے کسی ننھے سے بچے کی طرح سویٹی کا خیال رکھتا۔۔۔ اس کے کھانے پینے کا نہلانے دھلانے یہاں تک کہ اس کی ویکسینیشن بھی نمیر کو یاد رہتی۔۔۔۔ یہ سویٹی سے خود کھیلتا مجھے یا نوفل کو تو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا۔۔۔ شروع سے عادت ہے اسکی اپنی چیزوں سے کافی ٹچی رہتا ہے پھر ایک دن اس کو بہت تیز بخار چڑھا یہ سو رہا تھا۔۔۔ سویٹی کو بہت زور سے بھوک لگی میں نے اس کی بھوک کا احساس کر کے سویٹی کو غلطی سے دودھ دے دیا۔۔۔ اور یہ بات بعد میں اسے گھر کے نوکر سے معلوم ہوگئی۔۔۔ اس نے اپنے بخار کی پروا نہ کرتے ہوئے سویٹی کو ایک باکس میں بند کیا اور گلی کے آخر میں وہ باکس رکھ کر آگیا۔۔۔۔ کیوکہ سویٹی کو غلطی سے میں نے دودھ دے دیا تھا۔۔۔ میری ہی چیز کا اگر میں نے احساس کیا تو اسے اتنا برا لگا اس نے وہ چیز اپنے آپ سے ہی دور کردی"
نہال ہنستا ہوا عنایہ کو بتانے لگا۔۔۔ عنایہ کی مسکراہٹ نہال کی بات سن کر غائب ہوگئی۔۔۔ وہ گردن موڑ کر اپنے برابر میں بیٹھے نمیر کو دیکھنے لگی نمیر اب بھی سنجیدہ تاثرات لئے غور سے نہال کو دیکھ رہا تھا
"جب میں چھوٹا تھا نادان تھا،، چیزوں کی قدر اور احساس نہیں تھا مجھ میں۔۔۔۔ آگے کی بات نہیں بتائی تم نے عنایہ کو چلو آگے میں خود ہی بتا دیتا ہوں"
نمیر جو کافی دیر سے خاموش ہوکر نہال کی باتیں برداشت کر رہا تھا اب عنایہ کی طرف دیکھ کر اس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا
"سویٹی کو خود سے دور کرنے کے بعد یہ مجھے اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا کہ اس دن غصے میں،، میں نے اپنی پیاری چیز کو خود سے دور کر کے اپنا ہی نقصان کیا۔۔۔ میں اس دن بہت پچھتایا،، بچہ تھا تو رویا بھی۔۔۔ مگر پھر اس واقعے کے بعد سے مجھے یہ سبق حاصل ہوا کہ اپنی چیزوں کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔۔ غصے میں یا جذبات میں آکر انہیں خود سے دور کرنے کی بجائے ان کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے"
عنایہ کو بتانے کے ساتھ آخری جملہ نمیر نے نہال کو دیکھ کر کہا۔۔۔
نہال اسے اپنے دونوں ہاتھ کے انگوٹھوں سے تھمس اپ کر کے ناشتہ کرنے لگا جبکہ نمیر چینج کرنے اپنے روم میں چلا گیا۔۔۔ عنایہ ثروت کو گہری سوچ میں دیکھ کر ان دونوں بھائیوں کی باتوں کا مفہوم سمجھنے لگی۔۔۔ جب اسے خود بھی سمجھ میں نہیں آیا تو وہ بھی بیڈروم میں جانے لگی۔۔۔ تبھی نہال اس کو دیکھ کر بولا
"عنایہ ویسے مجھے تم سے بھی ایک شکوہ رہے گا"
نہال کی آنکھوں میں ایسا کچھ تھا عنایہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ ثروت بھی اپنی سوچوں کے بھنور سے نکل کر نہال کو دیکھنے لگی
"کل تم نے سب کو اپنی برتھ ڈے کا کیک کھلایا مگر مجھے نہیں،، جبکہ میں تمہارے ویل ویشرز میں سے ہی ہو"
نہال کا شکوہ سن کر عنایہ بمشکل مسکرائی
"اپ کا کیک مجھ پر ادھار ہے"
عنایہ نہال سے کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی
****
عنایہ کمرے میں آئی تو نمیر آئینے کے سامنے کھڑا کالر اوپر کیے ٹائی کی نوٹ باندھ رہا تھا وہ آئینے سے عنایہ کو دیکھ کر اپنے کام میں مشغول رہا۔۔۔ عنایہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی،،، وہ نمیر کے ہاتھ نیچے کر کے اس کے ٹائی کی نوٹ درست کرتی ہوئی کالر کو فولڈ کرنے لگی،، نمیر کے چہرے تاثرات جوکہ تھوڑی دیر پہلے تک سنجیدہ تھے۔۔۔ عنایہ کے انداز پر اسکے ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ ابھری۔۔۔ عنایہ نے بھی اس کو اسمائل دے کر دیکھا
"میں آج شام ٹائی باندھنے کی پریکٹس کرلو گی پھر منڈے سے یہ کام میں خود انجام دیا کروں گی"
عنایہ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اسکالر ٹھیک کرتی ہوئی بولی، نمیر نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر باری باری چومے۔۔۔ عنایہ کے دونوں ہاتھ اپنے شولڈر پر رکھکر خود اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتا ہوا وہ اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولا
"مجھے منڈے کا انتظار رہے گا"
نمیر کی بات پر عنایہ مسکرا دی اور عنایہ کی مسکراہٹ دیکھ کر نمیر مسکرا دیا
"سنو آج شام اچھی سی تیار رہنا میں آج آفس سے جلدی گھر آ جاؤں گا "
نمیر کی بات پر عنایہ نے حیرت سے اس کو دیکھا
"تیار رہنا مطلب ہمیں کہیں جانا ہے"
عنایہ اس سے پوچھنے لگی تو وہ مسکرایا
"ہاں میں آج شام سے لے کر کل کا پورا دن صرف تمہارے ساتھ، تمہیں دیکھتے ہوئے گزارنا چاہتا ہوں مگر اپنے اس گھر میں نہیں"
نمیر کا ارادہ ہوٹل میں روم بک کرانے کا تھا عنایہ کے ساتھ وہ بھرپور دن گزارنا چاہتا تھا تاکہ اپنے حسین لمحات کو مزید دلکش بنائے گھر کے ٹینشن زدہ ماحول سے نکل کر وہ اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتا تھا
"میں شام کو آپ کا ویٹ کروں گی" عنایہ کی بات پر نمیر نے اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے
"اوکے چلتا ہوں اور میرے آفس کی جانے کے بعد اپنی نیند بھی پوری کر لینا"
نمیر شرارت بھرے انداز میں عنایہ کو بولتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔۔۔ عنایہ اس کی بات کا مفہوم سمجھتے ہوئے شرمیلی مسکان ہونٹوں پر سجائے مسکرا دی
****
عشرت اپنے کمرے سے باہر نکلی تب اسے منال کے کمرے سے آوازیں سنائی تھی عشرت اس کے روم کا دروازہ کھول کر اندر پہنچی تو منال موبائل پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھی عشرت کو دیکھ کر وہ کال کاٹ کر اس کی طرف بڑھی
"کیسی ہیں مما آپ میں نے آپ کو اور بابا کو بہت مس کیا"
منال عشرت کے گلے لگتی ہوئی بولی
"بس بس یہ اپنی اداکاری مجھے مت دکھاؤ،،، بےوقوف نہیں ہو میں خوب جانتی ہو میں تمہیں"
عشرت نے منال کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا
"کیا ماں اب آپ ساری زندگی مجھے ایسے ہی طعنے دو گی اچھا سنیے۔۔۔ ہوگیا میرا فلموں کا شوق پورا، اب آپ جیسا چاہو گی میں ویسا کرو گی۔۔۔ اچھی بیٹیوں کی طرح سچی"
منال لجاہت بھرے انداز میں عشرت کو یقین دلاتی ہوئی بولی
"سپرفلاپ اداکارہ رہی ہوگی تم انڈسٹری کی۔۔۔ کوئی ڈائریکٹر اب دوبارہ گھاس نہیں ڈالے گا تمہیں،، تو تم واپس چلی آئی۔۔۔ آئی بڑی اچھی بیٹی۔۔۔ میں نے تمہیں 9 ماہ پیٹ میں رکھا ہے تمہاری رگ رگ سے اچھی طرح واقف ہوں۔۔۔ جاؤ جاکر اپنے باپ کے سامنے اداکاری کرو دو تین آنسو بہاؤ جھوٹی معافی مانگو شاید ان کا دل نرم پڑ جائے اور وہ تمہیں معاف کردیں"
عشرت جلی کٹی سناتی ہوئے منال کے کمرے سے نکل گئی، وہ بھی منال کی ماں تھی اس کی فطرت سے اچھی طرح باخبر۔۔۔ وہ منال کے بارے میں ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی
ٹینا کا باپ اسے اپنی فلم میں لے کر واقعی پچھتا رہا تھا اور منال کا کچھ کر دکھانے کا بھوت بھی اتر چکا تھا وہ کمرے سے نکل کر فرمان کے پاس جانے لگی عشرت تو اس کی باتوں میں نہیں آ سکی مگر فرمان کو منالے گی منال کو یقین تھا
جاری ہے
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 35
Nehal anaya special😛
"پلیز جلدی چلے نہ گھر ٹائم دیکھیں کتنی دیر ہوگئی ہے ہمیں"
عنایہ اب بےزار ہوتی ہوئی نہال سے کہنے لگی
کیک لینے کے بعد وہ اسے مال لے آیا تاکہ عنایہ کے لیے گفٹ لے سکے۔۔۔ عنایہ کے منع کرنے کے باوجود نہال اس کے لئے ایک سے زیادہ چیزیں برتھ ڈے گفٹ کہہ کر لیے جا رہا تھا عنایہ کے خود اکیلی گھر جانے کی دھمکی پر وہ عنایہ کو مال سے لے کر نکلا۔ ۔۔ مگر پھر اچانک نہال کو کافی شاپ دیکھ کر اسے کافی پینے کا خیال آیا تب عنایہ کو اور بھی الجھن ہونے لگی
"کیا ہوگیا ہے عنایہ ریلکس۔۔۔ کافی ختم کرو اپنی پھر چلتے ہیں"
نہال کافی کا سپ لیتے ہوئے کہنے لگا وہ بالکل ریلیکس انداز میں بیٹھا تھا
"نہیں مجھے یہ کافی نہیں ہے پینا ہے کتنا ٹائم ہوگیا اب راستے میں ٹریفک ملے گا گھر سے اتنی دور آنا ہی نہیں چاہیے تھا آپ اٹھے بس"
عنایہ خود چیئر سے اٹھ کر باہر نکلنے لگی تو نہال کو اسکے پیچھے جانا پڑا
"پہلے کے مقابلے میں تھوڑی ضدی ہوگئی ہو تم،، اپنی منوانا آگیا ہے تمہیں،، مگر یہ چینج بھی برا نہیں ہے"
نہال آگے بڑھ کر عنایہ کے لیے کار کا دروازہ کھولنے لگا
"لڑکی میں شادی کے بعد چینجنگ اس کے شوہر کے مزاج کے مطابق آتی ہے آپ کہہ سکتے ہیں، نمیر میری ضد پوری کرتے ہیں اس لیے ایسی ہوگئی ہوں میں"
اسے معلوم تھا آج نمیر کا موڈ بہت خراب ہوگا اس سے۔۔۔ مگر وہ نہال کو کچھ اور جتانا چاہتی تھی
"دو ماہ کم عرصہ ہے کافی جلدی بدلاو آیا ہے تم میں یہی کاالٹی تو مجھے تمہاری پسند ہے کہ تم جلدی اپنا مائنڈ سیٹ کر لیتی ہوں،، اس سے اگے کے لئے آسانی رہے گی۔۔۔۔ ویسے عنایہ تمہیں نہیں لگتا انسان اسی کے سامنے ضد کرتا ہے جہاں اسے توقع ہو کہ اسکی ضد پوری ہوگی" نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا جو مسلسل کار کی سیٹ بیلٹ لگانے کی بجائے اس سے لڑے جا رہی تھی۔۔۔ تبھی نہال اطمینان سے اس کی سیٹ بیلٹ لگانے لگا۔۔۔ اس نے فرسٹ ٹائم کی طرح اب بھی پوری کوشش کی عنایہ کی اس سے انگلیاں ٹچ نہ ہو اور دوسری طرف عنایہ بھی فرسٹ ٹائم کی طرح سانس روکے اسٹریٹ بیٹھی رہی۔۔۔ نہال کو بہت کچھ یاد آیا مگر وقت کب ایک سا رہتا ہے وہ سوچنے لگا جبکہ عنایہ نے سر جھٹکا
"ہر چیز وقت اور توجہ مانگتی ہے تم آرام سے سیٹ بیلٹ لگاتی تو تم سے بھی لگ جاتی"
نہال کار اسٹارٹ کرتا ہوا بولا
"میری ساری توجہ اس وقت نمیر کے اوپر ہے وہ ویٹ کر رہے ہوں گے میرا" عنایہ سامنے دیکھ کر بولی نہال اس کو ایک نظر دیکھتا ہوا ڈرائیونگ کرنے لگا
"آگے جاکر لیفٹ سائیڈ پر گلی میں نوڑ لیے گا وہ راستہ شارٹ پڑے گا"
عنایہ نہال کو دیکھتی ہوئی کہنے لگی
"شارٹ تو ہے مگر کافی سنسان بھی ہے رات کے وقت ہم دونوں کا وہاں سے جانا مناسب نہیں رہے گا"
نہال نے عنایہ کو دیکھ کر سمجھانا چاہا اور اس کی بات درست بھی تھی
"پلیز ہمیں دو گھنٹے پہلے ہی گزر چکے ہیں یہاں سے جائیں گے تو ٹریفک میں پھنس جائیں گے مزید دیر ہو جائے گی۔۔۔ یا تو آپ میری بات مانے یا پھر میں کار سے اتر رہی ہو"
عنایہ اب تنگ آکر بولی اب وہ نہال کے ساتھ آکر پچھتا رہی کتنا اچھا ہوتا کہ وہ منہ پر ہی منع کر دے دیتی بلاوجہ مروت نبھانے کے لیے اس کے ساتھ آگئی۔۔۔۔ نہال نے خاموشی سے لیفٹ سائیڈ گلی میں کار ٹرن کرلی تو عنایہ تھوڑی ریلیکس ہوئی
کار میں مکمل خاموشی تھی اور روڈ سنسان تھا جبھی ایک بائیک ان کی کار کے پاس سے گزر کر بیچ روڈ پر رکی جس کی وجہ سے نہال کو کار روکنی پڑی۔۔۔ بائیک سے دو لڑکے اتر کر کار کے پاس آئے پسٹل کے اشارے سے ایک لڑکے نے نہال کو کار کا شیشہ نیچے کرنے کو کہا
"اب کیا ہوگا"
عنایہ کار میں بیٹھی گھبرانے لگی
"پریشان مت ہو کچھ نہیں ہوگا"
نہال عنایہ کو تسلی دیتا ہوا بولا مگر ایسی سچویشن میں عنایہ ساتھ تھی اسے خود ٹینشن ہونے لگی وہ لڑکے کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر کار کا شیشہ نیچے کرنے لگا
"آوئے چلو جلدی سے دونوں گاڑی سے باہر نکلو"
نہال کے شیشہ نیچے کرتے ہی پسٹل ہاتھ میں لیے لڑکا بولا نہال عنایہ کو اترنے کا کہہ کر خود بھی گاڑی سے نکل گیا
"اب جو مال تم لوگوں کے پاس موجود ہے فوراً نکالو بنا کسی کو ہوشیاری کے"
وہی لڑکا دوبارہ نہال کو بولا جبکہ خوف کے مارے عنایہ نہال کا بازو پکڑے کھڑی تھی۔۔۔ نہال نے خاموشی سے اپنا والٹ اور موبائل نکال کر اس لڑکے کے حوالے کیا
"اے لڑکی یہ بندے اور انگوٹھیاں دے گلے سے چین بھی نکال"
دوسرا لڑکا عنایہ کا بیگ چھینتے ہوئے بولا۔۔۔۔ عنایا نے کانپتے ہاتھوں سے کانوں کے ٹاپس اور ائیررینگ اتاری
"یہ گھڑی بھی اتار" پسٹل والا لڑکا نہال سے بولا نہال نے اپنی کلائی پر باندھی گھڑی اتار کر ان کے حوالے کردی
"اے لڑکی یہ چین بھی دے جلدی کر" دوسرا لڑکا عنایہ کو دیکھ کر بولا تو عنایہ نمیر کا دیا ہوا پینڈنٹ دیکھنے لگی
"پلیز یہ مت لیں آپ لوگ"
عنایہ ہمت کر کے بولی
"کیا کر رہی ہو عنایہ،، یہ پینڈیٹ دو انہیں"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا جلدی سے بولا
"یہ مجھے نمیر نے فرسٹ گفٹ دیا تھا" عنایہ روتی ہوئی بولنے لگی
"نخرے دکھا رہی ہے اتارے اس کے گلے سے"
پستول والا لڑکا اپنے ساتھی سے بولا
"اے ہاتھ مت لگانا اسے"
وہ لڑکا جیسے ہی عنایہ کی طرف بڑھا اور اس کے گلے سے چین کھینچنے لگا ویسے ہی نہال اسے دھکا دیتے ہوئے بولا
"ابے تو ہیرو بن رہا ہے سالے"
جس لڑکے کے ہاتھ میں پسٹل تھی اس نے پسٹل کا بٹ نہال کے سر پر مارتے ہوئے کہا
"پلیز انہیں چھوڑ دیجئے آپ یہ لے لو پلیز۔۔۔ بس آپ ہمیں جانے دیں" عنایہ نے فوراً پینڈنٹ اتار کر انکو دیتے ہوئے رونا شروع کر دیا
"دیکھو تم لوگوں کو جو چاہیے تھا اور وہ جو ہمارے پاس موجود تھا وہ تم لوگ لے چکے ہو اب ہمیں جانے دو"
نہال اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتا ہوا خون کو روک کر کہنے لگا
"گاڑی کی چابی دے جلدی"
نہال سے ایک بار پھر وہ لڑکا بولا
"نہال نے خاموشی سے اپنی کار کی چابی بھی ان کے حوالے کردی اب وہ عنایہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کھڑا رہا۔۔۔۔ ان لڑکوں نے آنکھوں میں اشارے سے بات کی۔ ۔۔ ایک لڑکا بائیک پر بیٹھا جبکہ دوسرا لڑکا گاڑی کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔ ان دونوں کے جاتے ہیں عنایہ کے رونے میں مزید تیزی آگئی
"عنایہ ریلکس وہ لوگ چلے گئے ہیں۔۔۔ پلیز پریشان مت ہو رونا بند کرو۔۔۔ ابھی کوئی کار آتی ہے تو میں لفٹ لے لیتا ہوں"
نہال اپنے ماتھے کی چوٹ کو بھول کر اسے چپ کرانے لگا
"بہت زور سے مارا ہے انہوں نے، آپ کو درد ہو رہا ہوگا ناں" رحمدل فطرت ہونے کی وجہ سے وہ اپنا غصہ بھولتی ہوئی نہال سے روتی ہوئی پوچھنے لگی
"نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے بالکل درد نہیں ہو رہا"
نہال واقعی اپنا درد بھول کر اس کی طرف مسکراتا ہوا دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔ عنایا کو مزید رونا آیا
"مجھے آج نمیر کا دیا ہوا پینڈینٹ پہنا ہی نہیں چاہیے تھا،، وہ لوگ پینڈنٹ بھی لے گئے"
عنایہ کو اب نمیر کا دیا گیا گفٹ یاد آیا تو اسکے رونے میں مزید روانی آگئی
"میں تمہیں ویسے ہی پینڈینٹ لادو گا پلیز تم چپ ہوجاو" نہال اس کو چپ کرانے کی کوشش میں بولا
"مگر وہ نمیر کا دیا ہوا گفٹ تو نہیں ہو سکتا ناں"
عنایا روتی ہوئی بولی تو نہال تلخی سے ہنسا
"آپ کو کار ایسی جگہ سے لے کر آنا ہی نہیں چاہیے تھی"
عنایہ کی بات پر اب کی بار نہال اسکو گھور کر دیکھنے لگا
"کار یہاں پر موڑنے کی فرمائش کس نے کی تھی"
نہال عنایہ کو حیرت سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"تو میں کچھ بھی بولوں گی آپ مان لیں گے میری بات،، حد ہوتی ہے"
عنایہ اب کہ اس پر سارا الزام دھرتی ہوئی بولی جس پر نہال کو ہنسی آنے لگی
"یہ اتنی ٹینشن والی سچوئیشن بن گئی ہے اور آپ کو ہنسی آرہی ہے"
عنایہ پریشان ہو کر بولی اتنے میں دور سے ایک کار آتی دکھائی دی۔۔۔ وہ انہی کے پاس آ رہی تھی نہال نے اس کار کو ہاتھ دے کر روکا
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 37
صبح دروازے پر دستک کی آواز سے نمیر کی آنکھ کھلی۔۔۔ اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو صبح کے 10 بج رہے تھے عموماً وہ صبح اتنی دیر تک سوتا نہیں تھا مگر کل رات کافی دیر سے سونا ہوا۔۔۔ عنایہ بھی برابر میں لیٹی ہوئی کمفرٹر منہ پر ڈالے ابھی تک سو رہی تھی۔۔ ۔ نمیر اپنے اوپر سے کمفرٹر ہٹاتا ہوا بیڈ سے اٹھا اور روم کا دروازہ کھولا
"خیریت"
اپنے سامنے حمیدہ کو کھڑا دیکھ کر نمیر نے پوچھا
"بڑی بیگم صاحبہ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے کافی دیر سے اٹھا رہی ہوں وہ اٹھ نہیں رہی۔۔۔ نہال صاحب بھی اپنے کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہے ہیں شاید ابھی تک سو رہے ہیں"
نمیر حمیدہ کی بات سن کر ثروت کے کمرے میں پہنچا۔۔۔
ثروت کو ایک دو بار پکارنے کے بعد وہ ثروت کی نبض چیک کرنے لگا
"بیگم صاحبہ ٹھیک تو ہیں"
حمیدہ بیڈ کے پاس کھڑی نمیر سے پوچھنے لگی
"ہاں۔۔۔ بی پی کافی ہائی ہوگیا ہے۔۔۔ یہ سیکنڈ ڈراز سے ماما کی دوا نکالو۔۔۔ اور جاکر ڈرائیور سے کہو کہ گاڑی نکالے"
نمیر حمیدہ سے دوا کی شیشی لینے کے بعد ثروت کو سہارا دے کر اٹھانے لگا۔۔۔۔ ثروت کا بی پی بڑھ جاتا یا شوگر لیول کم ہوجاتا تو اکثر ایسے ہی طبیعت بگڑ جاتی تھی
****
"ہیلو نمیر کیسی طبیعت آنٹی کی آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں"
نمیر کے ہسپتال جانے کے ایک گھنٹے بعد عنایہ کی آنکھ کھلی۔۔۔ حمیدہ سے اسے ثروت کی طعبیت کے بارے میں معلوم ہوا تبھی وہ کارلیس اٹھا کر نمیر کا نمبر ملاتی ہوئی ثروت کے بارے میں پوچھنے لگی
"ماما کا بی پی کافی ہائی ہوگیا تھا مگر اب خطرے والی بات نہیں ہے کنٹرول ہوگیا ہے۔۔۔۔ شوگر لیول کافی کم ہوگیا ہے اسی وجہ سے ڈاکٹر نے ایڈمٹ کرلیا ہے۔۔۔ اور تمہیں اس لیے نہیں جگایا کیوکہ کل رات کو تم بھی کافی لیٹ سوئی تھی"
نمیر ثروت پر نظر ڈالتا ہوا آہستہ آواز میں عنایہ کو بتانے لگا تاکہ اس کی آواز سے ثروت ڈسٹرب نہ ہو
"آپ نے ناشتہ کیا۔۔۔ کیسے کرسکتے ہیں بھلا میں تھوڑی دیر میں ڈرائیور کے ساتھ پہنچتی ہو وہاں پر"
عنایہ کو اب ثروت کے ساتھ ساتھ نمیر کی بھی فکر ہونے لگی کل رات کو بھی شاید وہ عنایہ کا ساتھ دینے کے لئے کھا رہا تھا اور ویسے بھی اب وہ گھر میں اکیلی رہ کر کیا کرتی اس لیے اس نے نمیر کو اپنا پروگرام بتایا
"نہیں تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے،، میری فکر نہیں کرو یہی کینٹین سے کچھ لے لوں گا ویسے بھی ماما کو شام تک میں خود لے کر گھر آ جاؤں گا۔۔۔ اب جاکر تم بھی بریک فاسٹ کرو"
نمیر کو یوں عنایہ کا ثروت اور اس کی فکر کرنا بہت اچھا لگا
"نمیر کیا آپ کل ہی اسلام آباد کے لیے نکل جائیں گے"
عنایہ کی رات کو نمیر سے بات نہیں ہو سکی تھی وہ معلوم نہیں کب رات کو روم میں آیا۔۔۔ اس کا انتیظار کرتے عنایہ کی آنکھ کب لگ گئی عنایہ کو احساس نہیں ہوا اس لیے وہ فون پر ہی اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ عنایہ کی بات سن کر شرارت بھری مسکراہٹ نمیر کے ہونٹوں پر رینگی
"ہاں یار جانا تو پڑے گا نا بلکہ دو دن تو نہال کم کہہ رہا تھا شاید پورا ہفتہ لگ جائے۔۔۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ایک ہفتہ کیسے گزرے گا تمہیں معلوم بھی نہیں ہوگا"
نمیر اپنے لہجے میں سنجیدگی لاتا ہوا عنایہ کو پریشان کرنے لگا
"کیسی بات کر رہے ہیں آپ، یہاں تو مجھ سے ایک گھنٹہ نہیں گزر رہا اور آپ ایک ہفتے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ آپ نہال بھائی کو کہہ دیں وہ چلے جائیں گے آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے جانے کی"
عنایہ سچ مچ پریشان ہونے لگی
"چندا اس کی پرابلم تم جانتی تو ہو،، سفر کیسے کر سکتا ہے ابھی اس کی کنڈیشن پوری طرح اسٹیبل نہیں خیر جانا تو مجھے ہی پڑے گا"
عنایہ کی بات سن کر نمیر کا مزید اسے تنگ کرنے کا ارادہ ہوا
"تو کوئی اور حل نکالیں اس مسئلے کا آپ اپنے مینیجر کو بھیج دیں"
عنایہ اب نمیر کو مشورہ دینے لگی
"ویسے میرے پاس ایک اور آئیڈیا بھی ہے کیوں نہ میں تمہیں اپنے ساتھ اسلام آباد لے جاؤ اور وہاں سے ہم مری کے لیے نکل جائیں۔۔۔ کام کا کام بھی ہوجائے گا اور ساتھ میں ہنی مون بھی"
نمیر کی بات سن کر عنایہ بلش کر گئی اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا
"یار اب موبائل پر تو میں تمہیں دیکھنے سے رہا،، جب شام میں تمہارے سامنے آ جاؤں تو پھر شرما لینا"
نمیر مسکراتا ہوا عنایہ کو کہنے لگا عنایہ اس کی بات سن کر خود بھی مسکرا دی۔۔۔ جس وقت نہال نے اسے اسلام آباد جانے کے لیے کہا تبھی نمیر نے پروگرام بنا لیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ عنایہ کو بھی لے کر جائے گا نہال ثروت کے پاس موجود تھا تو اسے فکر بھی نہیں تھی۔۔ وہ چند دن عنایہ کے ساتھ ریلیکس گزارنے کے موڈ میں تھا
"نہال کہاں ہے اس وقت"
اب نمیر سنجیدہ ہوکر عنایہ سے پوچھنے لگا۔۔۔ اس کی آدھے گھنٹے پہلے ہی نہال سے بات ہوئی تھی وہ دوسری کار لے کر مارکیٹ تک گیا ہوا تھا۔۔۔ وہاں سے وہ اسپتال آنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ نمیر نے جب اسے بتایا کہ ثروت کی شام تک چھٹی ہو جائے گی تو اس نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا
"میں نے دیکھا نہیں ان کو شاید اپنے کمرے میں موجود ہوں گے آپ کیوں پوچھ رہے ہیں"
عنایہ نمیر سے پوچھنے لگی
"ویسے ہی پوچھ رہا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ اگر ماما شام تک واپسی کرلیتی ہیں تو وہ ہسپٹل نہیں آ رہا۔۔۔ حمیدہ سے اس کے لئے ناشتے کا کہہ دینا اور حمیدہ کو بھی کہہ دینا کہ وہ شام تک گھر پر ہی رہے"
نمیر کھڑکی سے باہر موسم کے آثار دیکھتا ہوا عنایہ کو ہدایت دینے لگا
"اور میرے لیے کیا حکم ہے میں کیا کرو اتنی دیر"
نمیر کے اتنے سیریس لہجے میں بولتے ہوئے،، عنایہ چہرے پر مسکراہٹ لائے اس سے پوچھنے لگی
"تم شام تک ٹائی باندھنے کی پریکٹس کرلو،،، نہیں تو پھر مزید شرمانے کی پریکٹس کرلو"
عنایہ کی بات سن کر نمیر شرارتی انداز میں بولا
"اف آپ بہت گندے ہیں۔۔۔ اچھے بچوں کی طرح بی ہیو کیا کریں اپنی وائف سے"
عنایہ کو اس کی بات سن کر ابھی سے شرم آنے لگی
"یہ گندا بچہ اپنی بیوی کو اسلام آباد لے جا کر اچھی طرح سے میتھ کی پریکٹس کرانے کا ارادہ رکھتا ہے"
نمیر مزید اسکو ستاتا ہوا بولا
"میں آپ سے آگے زندگی میں اب کھبی ٹیوشن نہیں لینے والی"
عنایہ نے بولنے کے ساتھ ہی لائن کاٹ دی جبکہ دوسری طرف نمیر مسکرانے لگا
****
"سوری سر کل آپکو پسٹل ذرا زور سے لگ گیا تھا"
موبائل سے اسی لڑکے کی آواز ابھری تو نہال کو کل والا منظر یاد آیا
"شٹ اپ۔۔۔ تمہاری بکواس سننے کے لیے میں نے فون نہیں کیا ہے۔۔۔ اب غور سے صرف میری بات سنو۔۔۔ گاڑی کو کھنڈر حالت میں کرکے آبادی سے دور جگہ پر کھڑی کر دو تاکہ پولیس تم لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔۔۔ جو سامان تمہارے ہاتھ لگا ہے وہ تم رکھ سکتے ہو مگر اس لڑکی کے پاس جو لاکٹ تھا وہ مجھے واپس چاہیے۔۔۔ یہاں پر خود آنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اپنی شکل دکھانے کی۔۔۔ میں کل موقع دیکھ کر خود تمہارے پاس آؤں گا"
نہال نے بات کرکے لائن ڈسکنیکٹ کی۔۔۔ تبھی اسے اپنے دائیں طرف کرسی پر فرحین بیٹھی نظر آئی ہمیشہ کی طرح وہ اب بھی اسے دیکھ کر ایک پل کے لیے خوفزدہ ہوا
"تمہیں دیکھ کر احساس نہیں ہوتا کہ تم اتنا بھی گر سکتے ہو"
فرحین کرسی پر بیٹھی ہوئی نہال کو دیکھ کر بولی
"میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور ہر بار تم سے بولتا ہوں۔۔۔ اس رات میں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا تھا وہ سب مجھ سے انجانے میں ہوا تھا۔۔۔ اس لئے مجھے بار بار شرم دلانے کے لئے مت آیا کرو"
نہال نے آخری جملہ دانت پیس کر غصے میں کہا
"شرم ان کو دلائی جاتی ہے جن میں شرم و حیا باقی ہوں تم جیسے بے شرم انسان کے لیے تو ضروری ہے کہ پوری دنیا کے سامنے تمہارے چہرہ سے یہ شرافت کا نقاب ہٹے اور پوری دنیا تمہارا اصل روپ دیکھے"
فرین کرسی سے اٹھتی ہوئی بولی
"کیا بےشرمی کی تھی میں نے اس دن تمہاری چیخوں کی آواز سن کر،، تمہیں کلاس روم میں لاک دیکھ کر تمہیں وہاں سے نکالنے، تمہاری مدد کرنے تو آیا تھا"
نہال سنجیدگی سے اس کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"اور میری پھٹی ہوئی قمیض دیکھ کر تمہاری نیت بدل گئی۔۔۔ تم نے میری مدد کرنے کی بجائے میری عزت کو پامال کیا"
فرحین جب کلاس روم میں لاک تھی۔۔۔ وہ چیخ کر اپنی مدد کے لیے پکار رہی تھی کوئی وہاں پر آتا اور کلاس روم کا دروازہ کھول دیتا۔۔۔ وہ یہاں نمیر کے لئے آئی تھی مگر کلاس روم میں نمیر موجود نہیں تھا۔۔۔ کلاس روم میں کاٹھ کبار اور بے جا حبث سے اسکو گھٹن ہونے لگی۔۔۔ تبھی اس کی دوسرے دروازے پر نظر گئی جس کے آگے ٹوٹی پھوٹی کرسیاں موجود تھی وہ کرسیاں ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تاکہ اس دروازے سے باہر نکل جائے مگر ایک کرسی میں کیل ہونے کے باعث وہ اس کی قمیض میں لگ گئی۔۔ ۔ اپنی قمیص سے کیل نکالنے کے چکر میں اس کی قمیض چاک سے پھٹتی چلی گئی۔ ۔۔۔ اس کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے مگر اتنی دیر میں کلاس روم کا دروازہ کھلا
"شیطان غالب آ گیا تھا مجھ پر، بہک گیا تھا میں اس وقت۔۔۔۔ سو دفعہ تمہیں بتا چکا ہوں تم سے معافی مانگ چکا ہوں"
نہال چیختا ہوا اس سے بولا
"اور اب اپنی بھابھی کو دیکھ کر تم پر شیطان آگیا ہے۔۔۔ تم دوبارہ بہکنے لگ گئے ہو نہال"
فرین اس کو آئینہ دکھانے لگے
"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ نہیں مانتا ہو میں اسے بھابھی۔۔ محبت ہے وہ میری۔۔۔ میری منگیتر،، جس سے میری شادی ہونے والی تھی۔۔۔ وہ بیشک وہ سب بھول گئی ہے مگر میں اسے سب یاد دلاو گا"
نہال فرحین کو دیکھتا ہوا چیلنجنگ انداز میں بولا
"تم اپنے بھائی سے اس کی بیوی کو چھینو گے"
فرحین اس کے سامنے آتی ہوئی بولی
"مجھ سے میری منگیتر کو چھینا گیا ہے ناانصافی میرے ساتھ ہوئی ہے۔۔۔ بڑا بھائی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں اپنی محبت چھوٹے بھائی کو دے دو۔۔۔ خوشیوں پر میرا بھی حق ہے۔۔ جانتی ہو کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے، جب میرے گھر میں ہی میری محبت،، مجھے اپنے بھائی کی بیوی کے روپ میں دکھتی ہے۔۔۔ کس قرب سے گزر رہا ہوتا ہو میں کوئی میری تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا تم بھی نہیں اسلیے چلی جاؤ یہاں سے"
نہال نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا واز اٹھا کر فرحین کی طرف مارا۔۔۔ مگر اس سے پہلے فرحین کا عکس ہوا میں تحلیل ہو گیا
****
"کیا ہو رہا ہے"
عنایہ کچن میں اپنے لئے کارن فلیکس بنا رہی تھی تب نہال کچن میں آ کر اس سے پوچھنے لگا
"ناشتہ بنا رہی تھی اپنے لیے"
عنایہ نے اس کو دیکھتے ہوئے جواب دیا ساتھ ہی عنایہ کی نظر نہال کے ہاتھ میں موجود چھوٹے سے پیکٹ پر پڑی وہ اگنور کر کے دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی
"یہ لو یہ میں تمہارے لئے لایا تھا"
نہال عنایہ کو دیکھتے ہوئے اسے کہنے لگا
"کیا ہے یہ"
عنایہ اب نہال کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"آج صبح اپنے لیے موبائل لینے گیا تو تمہارا خیال آیا۔۔۔ تمہیں بھی موبائل کی ضرورت ہوگی"
نہال اس کو یہ نہیں بول سکا، خیال تو اب اس کو ہر وقت اسی کا رہتا ہے
"مجھے موبائل کی کوئی ایسی خاص ضرورت نہیں ہے اور اگر ہوگی تو میں نمیر سے بول دو گی"
عنایہ مسکراتی ہوئی نہال سے کہنے لگی۔۔۔ اسے موبائل کی ضرورت تو تھی کیو کہ کل بھی اس کی اور شانزے کی بات نہیں ہو پائی تھی۔۔۔ مگر نہال سے موبائل لینا اسے مناسب نہیں لگا اور نہال کو منع بھی اس نے اس انداز میں کیا کہ نہال کا دل نہ دکھے، ،، اس کی وجہ سے کسی کا بھی دل دکھے عنایہ کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی
"تو میں بھی تو نمیر کا بھائی ہوں مجھ سے یہ موبائل لینے میں کیا حرج ہے، ویسے بھی اگر نمیر کو تمہارا خیال ہوتا تو وہ تمہیں خود ہی لاکر دے دیتا"
نہال غور سے اس کو دیکھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔ عنایہ کا یوں تکلف برتنا، نہال کا موڈ خراب کر گیا
"مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اس وقت نمیر کو سب سے زیادہ ثروت آنٹی کا خیال ہے۔۔۔ آپ کے بھائی میرے ہسبینڈ ہیں تو میں موبائل بھی انہی سے لینا پسند کرو گی۔۔۔ یہ حمیدہ کہاں چلے گئی،،، حمیدہ۔۔۔ حمیدہ"
عنایہ کو نہال کا نمیر کے بارے میں اس طرح بولنا پسند نہیں آیا وہ اس کو جواب دے کر حمیدہ کو پکارنے لگی
"حمیدہ تو اس وقت گھر پر موجود نہیں ہے،، اسے ضروری کام تھا اس لیے میں نے چھٹی دے دی"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا بتانے لگا۔۔۔ اسے اندازہ ہوگیا عنایہ اس سے موبائل نہیں لے گی اس لیے دوبارہ نہال نے ضد بھی نہیں کی
"عنایہ"
عنایہ کارن فلیکس ٹرے میں رکھکر اپنے روم میں جانے لگی تک نہال نے اسے پکارا
"جی بولیں"
عنایہ مڑ کر نہال سے پوچھنے لگی
"کیا تم میرے لئے ناشتہ بنا سکتی ہو۔۔۔ حمیدہ ہوتی تو اسے کہہ دیتا،، مجھے اپنی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ورنہ میں اپنا ناشتہ خود بنا لیتا"
نہال نے مظلوموں والی شکل بنا کر عنایہ سے کہا۔۔۔ اپنی رحمدلی فطرت سے مجبور ہوکر عنایہ اقرار میں سر ہلا کر اپنا ناشتہ ٹیبل پر رکھتی ہوئی دوبارہ کارن فیلکس کا پیکٹ نکالنے لگی
"نہیں کارن فلیکس نہیں کھاو گا میں۔۔۔ پلیز میرے لیے بھی پراٹھا بنا دو جیسے روز نمیر کے لیے بناتی ہوں"
وہ التجائی انداز میں عنایہ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔ نہال کی بات سن کر عنایہ کچھ بولے بغیر فریج سے آٹا نکالنے لگی۔۔۔ نہال وہی چیئر پر بیٹھ گیا اور عنایہ کو غور سے دیکھنے لگا
"تمہیں برا تو نہیں لگتا میں تم سے اپنے کام کا کہہ دیتا ہوں"
نہال کا دل چاہا کہ عنایہ بھی اس سے بات کرے اس لیے اس سے پوچھنے لگا
"برا لگنے کی کیا بات ہے آپ بھی گھر کے فرد ہیں،، نمیر کے بھائی"
عنایہ پراٹھے کے ساتھ چائے کا پانی بھی رکھتی ہوئی بولی
"تم نے رات میں مجھے پینڈینٹ والی بات نمیر کو بتانے سے کیوں روکا"
نہال کل رات والی بات عنایہ سے پوچھنے لگا
"وہ پینڈینٹ مجھے نمیر نے برتھڈے پر گفٹ کیا تھا مجھے اچھا نہیں لگا کہ انہیں معلوم ہو میں ان کے دیے ہوئے گفٹ کی حفاظت نہیں کر پائی"
عنایہ باتوں کے دوران توے پر پراٹھا ڈالنے لگی تبھی توے پر موجود گرم گھی کے چھینٹے چھلک کر اس کے ہاتھ پر آئے،، عنایہ چیخ مارتی ہوئی پیچھے ہٹی
"کیا ہوا عنایہ"
نہال کرسی سے اٹھ کر جلدی سے اس کے پاس آیا
"ہاتھ دکھاو اپنا"
عنایہ کا ہاتھ سرخ ہوچکا تھا نہال نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا
"نہیں ٹھیک ہے زیادہ نہیں جلا"
عنایہ اپنا ہاتھ پیچھے کرتی ہوئی بولی۔۔ ۔ مگر چہرہ اس کی بات کی چغلی کھا رہا تھا
"وہی چیک کر رہا ہوں زیادہ جلا ہے کہ نہیں"
نہال اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا
"پلیز نہال بھائی میرا ہاتھ چھوڑیں"
عنایہ نے جھنجھلا کر اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا۔۔۔ مگر لفظ بھائی سن کے نہال کی ہاتھ میں اور چہرے پر مزید سختی آگئی
"باہر جاکر چیئر پر بیٹھو"
وہ حتی الامکان اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھتا ہوا بولا اور دونوں چولہے بند کرنے لگا۔۔۔ نہال کے لہجے میں اور آنکھوں میں ایسا کچھ تھاکہ عنایہ سہم گئی اور کچن سے باہر نکل کر کرسی پہ بیٹھ گئی
"میں ٹھیک ہوں نہال بھائی اب تکلیف نہیں ہے میں سچ کہہ رہی ہوں"
وہ نہال کے ہاتھ میں آئینمیںنٹ دیکھ کر بولی
"کتنا سچ کہہ رہی ہو وہ تو تمہارا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے ہاتھ دکھاؤ جلدی سے"
نہال اس کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہوا بولا۔۔۔۔ پھر خود ہی عنایہ کا ہاتھ تھام کر آئینمینٹ لگانے لگا۔۔۔ اسے تکلیف میں دیکھ کر نہال کو بے چینی ہوئی کچھ بھی تھا وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا
"سوری میں انجانے میں تمہیں تکلیف دے گیا۔۔ نہ میں تمہیں پراٹھے کا کہتا نہ تم پراٹھا بناتی اور نہ تمہارا ہاتھ جلتا"
وہ عنایہ کے جلے ہوئے ہاتھ پر آئینمینٹ لگاتا ہوا بولا۔۔۔ کچھ تھا اسکے لہجے میں جو عنایہ کو عجیب سا محسوس ہوا عنایہ نے نہال سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا۔۔۔ مگر اس سے پہلے فلیش لائٹ کے ساتھ کلک کی آواز آئی جس پر وہ دونوں چونکے اور دونوں کی نظریں دروازے پر گئی منال مسکراتی ہوئی اپنا موبائل بیگ میں رکھنے لگی
"یہ کیا چیپ حرکت کی ہے تم نے منال۔۔۔ اس طرح کسی کی بلااجازت تصویریں کھینچنا انتہائی گھٹیا فعل ہے"
نہال کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور سخت لہجے میں منال کو دیکھتا ہوا بولا مگر حقیقت تو یہ تھی کہ نہال کو یہ حرکت اتنی بھی بری نہیں لگی تھی
"تم اپنے بھائی کی بیوی کے ساتھ کچھ بھی کرتے پھرو تو وہ نیک عمل ہے اور میں کچھ کر لو تو وہ گھٹیا فعل ہے۔۔۔ واہ بھئی مان گئے نہال صاحب آپ کو تو"
وہ اپنی آنکھیں جھپکاتی ہوئی طنزیہ ہنسی سے نہال کو دیکھنے لگی
"آپی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں،،، سوچ سمجھ کر تو بولیں میرا ہاتھ جل گیا تھا اس لئے نہال بھائی اس پر مرہم لگا رہے تھے"
منال کی بات سن کر عنایہ کو شرم آنے لگی جبھی وہ صدمے سے وضاحت دینے لگی
"چپ کرو تم میںسنی کہیں کی،، شکل دیکھو کیسی معصوم ہے اور حرکتیں دیکھو اپنی۔۔۔ ایک ہی گھر کے دو دو آدمیوں کو اپنے پیچھے بیوقوف بنایا ہوا ہے۔۔۔ آئی بڑی مرہم لگا رہے تھے"
منال نے آخری جملہ باریک آواز میں عنایہ کی نقل اتارتے ہوئے ادا کیا۔۔۔ عنایہ اس کی بات سن کر گنگ رہ گئی لبالب اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا
"عنایہ کے لیے اب کوئی بھی گھٹیا الفاظ استعمال مت کرنا،، منال یہ میں تمہیں وارن کر رہا ہوں"
نہال منال کے سامنے آکر اسے وارننگ دیتا ہوا بولا
"تو کیا کر لوگے تم،، ارے ڈرنا تو تمہیں چاہیے،، جو تمہارے کرتوت میری نظروں میں آگئے ہیں اور تم الٹا مجھے دھمکا رہے ہو۔۔۔ تمہیں معلوم بھی ہے میں کیا کر سکتی ہو"
منال اب شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے نہال کو دھمکاتی ہوئی بولی عنایہ باقاعدہ کچھ نہ کر کے بھی مجرموں کی طرح رونے لگی
"یہ اپنی دو پیسے کی ایکٹنگ اور ڈائیلاگز وہاں یوز کرو جہاں ان سے کوئی امپریس ہو،، یہ تصویر تمہیں نمیر کو دکھانی ہے یا پھر دنیا کو۔۔۔ آئی ڈیم کیئر"
نہال ابرو اچکاتا ہوا جیسے اسے خود ہی آپشنز دینے لگا
"یہ کیا بول رہے ہیں آپ اور آپی پلیز آپ بات کا کیوں بتنگڑ بنا رہی ہیں جب کہ آپ جانتی ہیں کہ۔۔۔
عنایہ ایک بار پھر بولنے لگی
"عنایہ بار بار اسے وضاحت دینا بند کرو اور منال تم اس وقت یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔ تمہیں اس گھر میں صرف ایک ہی شخص اپنے منہ لگاتا پسند کرتا ہے اور اس وقت وہ گھر پر موجود نہیں ہے"
نہال کی بات سن کر منال کا چہرہ خجالت سے سرخ ہوگیا
"اب آگے آگے دیکھو تمہیں بھی معلوم ہوجائے گا کون کس کو کتنا منہ لگاتا ہے"
منال نہال کو وارن کرتی ہوئی ایک نظر عنایہ پر ڈال کر چلی گئی
"تم رو کیوں رہی ہو عنایہ آخر ایسا ہو کیا گیا ہے"
منال کے جانے کے بعد نہال عنایہ کو روتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگا
"آپ نے سنا نہیں آپی کس طرح کی باتیں کرکے گئی ہیں"
عنایہ روتی ہوئی نہال کو دیکھ کر بولی
"تمہیں اس کی نیچر کا بچپن سے ہی علم ہے پھر اس طرح پریشان ہونے کا فائدہ"
نہال آگے برھ کر اسکے آنسو تو صاف نہیں کر سکتا تھا مگر اپنے لہجے میں نرمی لاتا ہوا بولا
"وہ نمیر کو کچھ الٹا سیدھا بولیں گیں۔۔۔ انہوں نے تصویریں لی ہیں ہماری"
عنایہ کے دل میں نہ جانے کیا کیا خدشات آنے لگے
"کیا کیا سوچ رہی ہو یار، ایسا کچھ بھی نہیں کرنے والی وہ۔۔۔۔ وہ صرف ڈرا رہی تھی اور تم اس سے ڈر گئی"
وہ عنایہ کو ریلیکس کرتا ہوا بولا خود تو وہ بالکل ریلکس تھا
"اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو"
منال جس طرح کی باتیں اور دھمکی دے کر گئی تھی۔۔ اگر وہ تصویر دکھانے کے ساتھ نمیر کو کچھ بولتی۔۔۔ آگے عنایہ سے سوچا ہی نہیں گیا
"تو پھر یہ کہ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارا شوہر تم پر کتنا ٹرسٹ کرتا ہے۔۔۔ دیکھو عنایہ رشتہ وہی قائم رکھنا چاہیے جسکی بنیاد ٹرسٹ پر ہو"
نہال اس کو بولتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 38 long epi
"نوفل یہ پسٹل چلتی کیسے ہے" نوفل ابھی ڈیوٹی سے واپس گھر آیا تھا شانزے اس کا یونیفارم وارڈروب میں رکھتی ہوئی،، اس کا پسٹل ہاتھ میں لے کر پوچھنے لگی جو کہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی ڈراز میں ہر وقت موجود رہتا تھا
"یہ نہیں شوہر گھر آیا ہے تو اس کے قریب آ کر اس کی خاطر مدارت کرو،، اس کی تھکان اتارنے کا کچھ سامان کرو۔۔۔ الٹا پسٹل چلانے کے بارے میں پوچھ رہی ہو یار تم میں رومانس نام کے جراثیم بھی موجود ہیں کہ نہیں"
نوفل شانزے کے پاس آکر اس سے سنجیدگی سے پوچھنے لگا
"نہیں سارے رومانس کے جراثیم تم میں جو آگئے ہیں،، میں نوٹ کر رہی ہو تم دن بہ دن بہت ہی بہودہ ہوتے جارہے ہو، بتاؤ نا پسٹل کیسے چلتا ہے"
شانزے ضد کرتی ہوئی نوفل سے دوبارہ پوچھنے لگی نوفل نے شانزے کے ہاتھ سے پسٹل لیا اس کا چمبر کھول کر دکھایا
"اس کے بعد یہاں سے ٹریگر دباتے ہیں" نوفل اسے بتانے لگا
"اب بتاؤ۔۔۔ کس کی جان لینے کا ارادہ ہے"
نوفل پسٹل واپس دراز میں رکھتا ہوا شانزے کو دیکھ کر پوچھنے لگا
"اف اب میں اتنی بھی ظالم نہیں ہوں۔۔۔ میں تو بس اس لیے پوچھ رہی تھی کہ ایک پولیس والے کی بیوی کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے"
شانزے مسکراتے ہوئے نوفل کو کہنے لگی
"میرے لیے تو ظالم ہی ہونا کتنی مشکل سے ہاتھ آتی ہو۔۔۔ اے مجھے آج رات اپنے ساتھ نائٹ ڈیوٹی لگانے دینا کیوکہ کمشنر صاحب اپنی دوسری بیوی کے ساتھ گھومنے پھرنے چھٹیوں پر گئے ہیں،، اس لئے ان کی طرف سے نو ٹینشن نو پنگا"
نوفل شانزے کو بانہوں کے حصار میں لیتا ہوا بولا تو شانزے اسے آنکھیں دکھانے لگی روم کا دروازہ بجا
"آپ سے ملنے کوئی آیا ہے ہے کہہ رہا تھا آپ کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے"
نوفل دروازہ کھولنے گیا تو اقبال اسے بتانے لگا
"ہاں انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاو اور چائے کا انتظام کرو" نوفل اقبال کو کہتا ہوا ڈرائنگ روم کا رخ کرنے لگا
"کیا نمیر بھائی یا نہال بھائی میں سے کسی کو آنا تھا" شانزے نوفل سے پوچھنے لگی کیوکہ اس کے دوست صرف یہی دو تھے
"نہیں ان دونوں میں سے کوئی نہیں ہے۔۔آدھے گھنٹے میں فری ہو کر آتا ہوں شام کی چائے پھر ایک ساتھ پیئے گے"
نوفل شانزے کو کہتا ہوا ڈراننگ روم میں چلا گیا
آپ بے فکر ہوکر پوری کروائی آرام میں سے کریں،، پولیس ہمیشہ کی طرح دو گھنٹے سے پہلے وہاں نہیں پہنچے گی"
شانزے نوفل کو ڈرائنگ روم میں اس کا موبائل دینے آئی تو نوفل کی آواز اس کے کان سے ٹکرائی۔۔۔ ڈرائنگ روم میں پردہ ڈالا ہونے کی وجہ سے وہ یہ تو نہیں دیکھ سکی کہ نوفل کس سے بات کر رہا ہے لیکن ان کی گفتگو باآسانی سن سکتی تھی
"ہاہاہا آپ جیسے افسر موجود ہو تو ملِک صاحب کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ملِک صاحب کی طرف سے یہ آپ کے لئے چھوٹا سا نظرانہ"
شانزے کو کسی آدمی کی آواز سنائی دی
"کیا ساجد صاحب دن بدن نوٹوں کی گڈی کا سائز چھوٹا ہوتا جارہا ہے۔۔۔ذرا ملِک صاحب کو یاد دلائے نوفل ان کے وفادار اور راز داروں میں سے ہے"
شانزے کے کان میں نوفل کی آواز ابھری لیکن ساتھ ہی نوفل کا موبائل بجا جوکہ شانزے کے ہاتھ میں موجود تھا،، اس سے پہلے وہ موبائل کی کال کاٹتی ڈرائنگ روم کا پردہ ہٹا اور نوفل اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا
"کیا کر رہی تھی یہاں پر"
نوفل ماتھے پر لاتعداد شکنے لائے شانزے کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"یہ تمہارا موبائل بیڈروم میں رہ گیا تھا میں نے سوچا تمہیں دے دوں"
ایک لمحے کے لئے نوفل کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر شانزے گھبرائی اور اس کی طرف موبائل بڑھا کر بولنے لگی نوفل نے سنجیدگی سے اس کے ہاتھ سے موبائل لیا
"بیڈروم میں جاو واپس"
نوفل کا انداز وارن کرنے والا تھا ساتھ ہی اسکی آنکھوں میں بےپناہ سنجیدگی تھی۔۔۔ شانزے کچھ بھی کہے بغیر اپنے بیڈ روم میں واپس چلی گئی
****
شام سات بجے کا وقت ہے جب بادلوں کی گڑگڑاہٹ شروع ہوئی عنایہ جو کہ دوپہر سے اپنے کمرے میں بیٹھی تھی، بادلوں کے گرجنے سے سہم گئی،، موسم کے آثار دیکھ کر وہ کارلس ہاتھ میں اٹھائے وہ نمیر کا نمبر کافی دیر سے ٹرائی کر رہی تھی۔۔۔ زمین پر پڑتے بارش کے چھینٹے،،، اب تیز بارش میں بدل گئے عنایہ اٹھ کر اپنے کمرے کی کھڑکی بند کرنے لگی۔۔۔ وہ کھڑکی بند کرکے پلٹی تو اچانک کمرے میں چار سو اندھیرا پھیل گیا لائٹ جا چکی تھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ اور بجلی کی آواز عنایہ کو خوف میں مبتلا کرنے لگی
"نمیر پلیز آجائے" عنایہ نے وہی اکھڑو بیٹھ کر رونا شروع کردیا۔۔۔ اتنے میں بیڈروم کا دروازہ کھلا
"عنایہ کیا ہوا،، تم پریشان مت ہو،، میں یہی ہو، اٹھو اپنا ہاتھ دو مجھے"
نہال اس کے رونے کی آواز پر جنریٹر کھولنے کی بجائے ٹارچ لائٹ لے کر عنایہ کے پاس نمیر کے بیڈروم میں آیا۔۔۔ وہ سہمی ہوئی زمین پر بیٹھی تھی نہال نے اس کے آگے ہاتھ بڑھایا
"نہیں آپ نمیر کو کال کریں۔۔۔ ان کو گھر بلائے پلیز"
عنایہ نہال کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر روتی ہوئی بولی
"نمیر نے اسپتال سے نکلنے سے پہلے مجھے انفارم کردیا تھا وہ پہنچنے والا ہوگا۔۔۔ تم پریشان مت ہو اور اٹھو یہاں سے"
نہال اب جھک کر عنایہ کو خود اٹھانے لگا۔۔۔ عنایہ روتی ہوئی اب تیز بارش کو دیکھ کر نمیر کے جلد گھر آنے کی دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی
"عنایہ دو منٹ رکو میں جنریٹر آن کر کے آتا ہوں"
شاید لائٹ جانے کی وجہ سے وہ مزید خوفزہ تھی۔۔۔ تبھی نہال عنایہ سے کہنے لگا
"نہیں۔۔ نہیں آبھی آپ کی یہی رہیے پلیز،،، مجھے چھوڑ کر مت جائیے گا"
عنایہ خوف کے مارے نہال کا بازو سختی سے پکڑ کر بولی۔۔۔ نہال نے ایک نظر اپنے بازو پر ڈالی دوسری نظر عنایہ کے خوف سے سہمے ہوئے چہرے پر
"اوکے میں کہیں نہیں جا رہا تم پریشان مت ہو میں یہی ہوں تمہارے پاس"
نہال نے عنایہ کو دونوں بازور سے تھاما۔۔۔ بارش کے دوران بادل ایک بار پھر زور سے گرجا عنایہ سرجھکا کر رونے لگی
"عنایہ"
ویسے ہی کمرے کا دروازہ کھلا نمیر عنایہ کو پکارتا ہوا تیزی سے اندر آیا۔۔۔ مگر کمرے کے اندر کا منظر دیکھ کر اس کے قدموں وہی رکے۔۔۔۔ نمیر کے ہاتھ میں موجود فلیش لائٹ عنایہ اور نہال کے اوپر تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے تھے، نہال نے عنایہ کو دونوں بازو سے تھاما ہوا تھا
"نمیر شکر ہے آپ آگئے میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی"
اپنے نام کی پکار اور فلیش لائٹ کی تیز روشنی پر عنایہ تیزی سے نمیر کی طرف بڑھی اور اس کے سینے سے جا لگی نمیر نے عنایہ کو دونوں بازو سے تھام کر خود سے الگ کیا۔۔۔ وہی لائٹ بھی آگئی اس وقت عنایہ کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں تھے،،، جسے نمیر نے غصے میں نظر انداز کرکے عنایہ کو بیڈ پر دھکا دیا
"کیوں آئے ہو تم میرے بیڈروم میں" نمیر نہال کی طرف آتا ہوا پیشانی پر بل لائے اس سے پوچھنے لگا
"وہ رو رہی تھی، ڈر رہی تھی۔۔۔ تمہیں معلوم ہے اسے ڈر لگتا ہے بارش سے"
نہال نمیر کو دیکھتا ہوا جواب دینے لگا جبکہ عنایہ بیڈ پر بیٹھی اب بارش کے ساتھ ساتھ نمیر کے غصے سے بھی مزید خوفزدہ تھی
"ڈر رہی تھی ناں مر تو نہیں جاتی، ڈر ڈر کر۔۔۔ تم کو معلوم ہے ناں کہ وہ میری بیوی ہے تم دور رہا کرو اس سے"
نمیر نے غصے میں چیختے ہوئے نہال کو پیچھے دھکا دیا وہ چار قدم پیچھے ہوا۔۔۔ اب نمیر بیڈ پر بیٹھی عنایہ کی طرف بڑھا
"کیوں ڈر لگ رہا تھا تمہیں بارش سے،، کیا کرتی ہے تمہیں یہ بارش۔۔۔ آج بتاؤ مجھے"
نمیر روتی ہوئی عنایہ کو بازو سے کھینچ بیڈ سے اٹھانے لگا
"نو۔ ۔۔۔ نمیر کک۔۔ کیا کر رہے ہیں چھوڑیں مجھے"
نمیر عنایہ کا بازو پکڑتا ہوا اسے کمرے سے باہر لے جانے لگا تبھی عنایہ رونے کے ساتھ خوف سے ہکلاتی ہوئی بولی
"نمیر یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو اس کا ہاتھ"
نمیر عنایہ کو گھر سے باہر لے جانے لگا عنایہ مسلسل روتی ہوئی نمیر سے اپنا ہاتھ چھڑا رہی تھی۔۔ نہال،، اسکے اور عنایہ کے پیچھے آتا ہوا نمیر سے بولا… نمیر ایک دم رک کر بغیر عنایہ کا ہاتھ چھوڑے نہال کی طرف مڑا
"آج تم میرے اور میری بیوی کے بیچ میں مت آنا نہال" نمیر شہادت کی انگلی اٹھا کر نہال کو وارن کرتا ہوا بولا
"نمیر نہیں مجھے معاف کر دیں پلیز ایسا مت کریں میرے ساتھ"
نمیر نے جب عنایہ کو گھر سے باہر نکال کر اندر سے دروازہ بند کیا تب عنایہ روتی ہوئی دروازہ زور سے بجاتی ہوئی بولی
"کیوں کر رہے ہو تم اس کے ساتھ ایسا،، وہ ڈر رہی ہے باہر۔۔۔ کھولو دروازہ"
نہال اب چیختا ہوا نمیر سے کہنے لگا
"وہ میری بیوی ہے میں اس کے ساتھ جو چاہے کرو تم مجھے آرڈر دینے والے یا پھر میری بیوی پر حق جتانے والے کون ہوتے ہو جواب دو"
نمیر بھی نہال کے سامنے اسی کے انداز میں اس سے زیادہ چیختا ہوا بولا
"اس پر حق کیوں جتا رہا ہوں یہ تم اچھی طرح جانتے ہو یا پھر جان کر نظر انداز کر رہے ہو۔۔۔ تمہاری بیوی وہ بعد میں بنی ہے اس سے پہلے وہ میری منگیتر تھی"
نہال نے نمیر کے قریب آکر بے خوفی سے کہا تب نمیر نے غصے میں آکر اس کا گریبان پکڑا
"آئندہ اگر تم نے میری بیوی کا نام اپنی زبان سے لیا تو میں تمہارے بھائی ہونے کا لحاظ کئے بنا تمہیں زندہ زمین میں گاڑ دوں گا سنا تم نے،، وہ اب بیوی ہے میری،،، میری عزت۔۔۔ اس کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو نہال"
نمیر نے غصے میں سرخ آنکھوں کے ساتھ نہال کا گریبان جھٹکتا ہوا بولا
"اور اگر کل کو عنایہ مجھے تم پر فوقیت دے تب کیا کرو گے تم"
نہال اپنا گریبان ٹھیک کرتا ہوا آرام سے نمیر کی غصے کی پرواہ کیے بنا پوچھنے لگا
"عنایہ میری بیوی ہے اور مجھ سے محبت کرتی ہے،، اپنے دماغ سے یہ فطور نکال دو نہال کہ وہ کبھی بھی تمہیں مجھ پر فوقیت دے گی"
نمیر طنزیہ ہنستا ہوا اس کی خوش فہمی دور کرنے لگا
"بالفرض اگر ایسا ہوا تو پھر کیا کرو گے تم"
نہال نہ جانے اس سے کیا سننا چاہ رہا تھا یا پھر وہ نمیر کے غصے کو ہوا دے رہا تھا
"بالفرض اگر ایسا ہوتا ہے تب بھی میں عنایہ کو تمہارے لئے ہرگز نہیں چھوڑوں گا اگر وہ میری جگہ تمہارے ساتھ کی خواہش کرتی ہے تو میں اسے بھی زندہ زمین میں گاڑھنا پسند کرو گا۔۔۔ مل گیا تمہیں جواب،، اب چلے جاو یہاں سے"
نمیر مزید گلا پھاڑ کر چیختا ہوا بولا
نہال خونخوار نظروں سے نمیر کو گھورتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ اسے اندازہ تھا۔ ۔۔ وہ جتنی دیر وہاں کھڑا رہتا یا نمیر سے عنایہ کو اندر بلانے کا کہتا۔۔۔ نمیر عنایہ کو اتنی ہی دیر باہر کھڑا رکھتا
اپنے کمرے میں آکر موبائل پاکٹ سے نکالتا ہوا منال کا نمبر ملانے لگا
"کیا تم نمیر کے ساتھ کچھ وقت گزارنے میں انٹرسٹڈ ہو۔۔۔ میرا مطلب ہے پہلی محبت کو انسان بھلائے نہیں بھولتا۔۔۔ کیا تم اسکو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہو"
نہال اپنے بیڈ روم میں ٹہلتا ہوا منال سے پوچھنے لگا دوسری طرف منال زور سے ہنسی
"اوہو تو یعنی تم عنایہ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہو"
الٹا منال نہال سے پوچھنے لگی
"میری چھوڑو تم اپنی بات کرو۔۔۔ یوں تصویریں بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔۔ کل نمیر اسلام آباد کے لیے نکل رہا ہے۔۔۔ وہ کس ہوٹل میں اسٹے کرتا ہے یہ میں تمہیں نمیر کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد بتا دوں گا۔۔۔ آگے تو ماشاءاللہ تم خود ہی سمجھدار ہو"
نہال نے اپنی بات مکمل کر کے کال کاٹی۔۔۔۔ اسے باہر لان میں کھڑی عنایہ کا بار بار خیال آرہا تھا اور ساتھ میں نمیر پر غصہ بھی۔۔۔ اگر منال نمیر کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اسکا راستہ خود صاف ہوجائے گا۔۔۔۔۔ اس کا بھائی بھی خوش اور وہ تو عنایہ کو دوبارہ پاکر بےانتہا خوش
****
"اور اپنے فرض سے کتنے غداری کروگے نوفل"
نوفل وارڈروب کھول کے لاکر میں خاکی رنگ کا پیکٹ رکھنے لگا۔۔۔ تب شانزے کمرے میں آ کر بولی
"کیا کہنا چاہتی ہو تم"
نوفل وارڈروب کا دروازہ بند کر کے شانزے کے سامنے آتا ہوا بولا
"جو تم سمجھنا نہیں چاہتے یہ پھر سمجھتے ہوئے بھی انجان بن رہے ہو" شانزے نوفل کو دیکھ کر جتاتی ہوئی بولی
"دیکھو شانزے یہ بات میں نے تمہیں پہلے بھی کہی تھی میری جاب سے متعلق ہم دونوں کے بیچ کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ یہ میرے آفیشیلی میٹرز ہیں ان سے تم دور رہو"
نوفل دو ٹوک انداز میں شانزے سے بولا
"نوفل تم ایک اچھے عہدے پر فائز ہو،، تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں اپنے پیشے سے ایماندار ہونا چاہیے"
شانزے اسے تحمل سے سمجھانے لگی
"شانزے میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے کیا نہیں۔۔۔ یہ تمہارے سوچنے کی بات نہیں ہے تم ان سارے معاملات سے دور رہو"
نوفل نے دوبارہ سختی سے شانزے کو اس ٹاپک پر کوئی بھی بات کرنے سے منع کیا کمرے میں خاموشی ہوئی بادلوں کی گڑگڑاہٹ کی آواز کمرے میں سنائی دی
"مجھے خوشی ہوتی اور فخر بھی کہ میرا شوہر ایک ایماندار افسر ہوتا" شانزے نوفل کو دیکھتی ہوئے بولی۔۔ نوفل نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اپنا موبائل کھینچ کر دیوار پر دے مارا
"کیا بار بار ایمانداری کی رٹ لگائی ہوئی ہے تم نے اتنی دیر سے،، کون ایماندار ہے آج کل کے دور میں۔۔۔ ایماندار انسان کو دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے اور میرا تعلق جس پیشے سے ہے وہاں ایمانداری پر صرف گولی ملتی ہے سنا تم نے"
نوفل تیز لہجے میں شانزے سے مخاطب ہوا
"جن لوگوں سے تمہارے تعلقات ہیں نا ان لوگوں سے وفاداری کی صورت میں بھی گولی ہی ملتی ہے"
شانزے کو لگا اسے سمجھانا بےکار ہے جبھی وہ کمرے سے باہر جانے لگی مگر نوفل نے اس کا بازو پکڑا
"جب کسی بات کے بارے میں علم نہ ہو تو بہتر ہے انسان خاموشی اختیار کرلے اگر میری بیک پر کوئی مضبوط سپورٹ نہ ہو تو دو گھنٹے میں میرا ٹرانسفر کر کے مجھے کہیں بھی پھینکا جا سکتا ہے۔۔۔ ایمانداری کے نام پر گولی کھا کر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔۔۔ یہ پیسہ میرے کام کا معاوضہ ہے میں کوئی نچلا درجے کا افسر نہیں ہوں جو غریبوں یا مظلوموں کے خون پسینے کی کمائی سے اپنا حصہ مانگو میرے کچھ اصول ہے کچھ قاعدے قانون ہیں۔۔۔ جن کی خلاف میں نہیں جاتا نہ کسی دوسرے کو جانے دیتا ہو۔۔۔ جس شعبے سے میرا تعلق ہے وہاں ایمانداری کا ڈنگا پیٹنے سے، ایمانداری اپنے ہی گلے کا طوق بن جاتی ہے۔۔۔ تم ان باتوں کو نہیں سمجھو گی اس لیے آئندہ کبھی اپنے اور میرے بیچ میں ان معاملات کو زیر بحث مت لانا"
نوفل شانزے سے کہتا ہوں خود کمرے سے نکل گیا بارش اب بھی زور و شور سے برس رہی تھی شانزے خاموشی سے کھڑکی سے باہر جل تھل سارا منظر دیکھنے لگی
****
نہال کے اپنے روم میں جانے کے بعد نمیر نے باہر کا دروازہ کھولا۔۔۔ عنایہ بارش کے پانی سے بچتی ہوئی دیوار کے ساتھ چپکی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رونے میں مصروف تھی۔۔۔۔ دروازہ کھولنے کی آواز سے عنایہ دوڑتی ہوئی نمیر کے پاس آئی
"نمیر۔ ۔۔۔ نمیر پلیز مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے میں اب نہیں ڈروں گی بارش سے"
وہ ابھی بھی خوفزدہ ہوکر روتی ہوئی نمیر کے دونوں بازو پکڑے اس سے کہنے لگی
"تم بارش سے نہیں ڈرتی تو یہ بات یہاں کھڑے ہوکر نہیں بلکہ لان میں جاکر کہو پھر چلتے ہیں اپنے کمرے میں"
وہ دونوں جہاں کھڑے تھے اوپر شیڈ کی وجہ سے دونوں ہی بارش کے پانی سے محفوظ تھے جبکہ نمیر کی بات سن کر عنایہ رحم طلب نظروں سے نمیر کو دیکھنے لگی
"آپ تو مجھ سے پیار کرتے ہیں ناں تو پھر کیوں اسطرح بول رہے ہیں"
وہ روتی ہوئی نمیر کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"میں تم سے پیار کرتا ہوں جبھی تم سے ایسا بول رہا ہوں،، چلو میرے ساتھ اور اس برسات میں کھڑی ہوکر بولا کہ تم بارش سے نہیں ڈرتی"
نمیر اب اس کا بازو پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا لان میں لے جانے لگا۔۔۔ عنایہ رو رو کر زور سے چیختی ہوئی نمیر سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگی
"چلو اب بولو کہ تم بارش سے نہیں ڈرتی"
نمیر اس کے رونے کی پروا کیے بغیر اور اس کے خوف کو خاطر میں نہ لاکر اسے لان میں لے کر آیا اب وہ دونوں بارش میں پورے بھیک چکے تھے
"میں نہیں ڈرتی بارش سے،، اب نہیں ڈرو گی پلیز مجھے یہاں سے لے چلیں نمیر"
عنایہ روتی ہوئی نمیر کے سینے سے لگ کر بولی جیسے اپنے آپکو اسکے سینے میں چھپا رہی ہو۔۔۔ بادل زور سے گرجا تو نمیر نے اسکے گرد اپنے ہاتھ باندھے،، عنایہ مزید سختی سے اسے جکڑے نمیر کے سینے میں منہ چھپائے رونے لگی
"بتاؤ مجھے کیا کر رہی ہے یہ بارش تمہیں"
نمیر اسے اپنے حصار میں لیتا ہوا عنایہ سے پوچھنے لگا مگر وہ نمیر کے سینے سے لگی اب ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی معلوم نہیں سردی کی وجہ سے یا خوف کی وجہ سے۔۔۔ اس سے پہلے وہ نیچے گرتی نمیر اسے بانہوں میں اٹھا چکا تھا
نمیر عنایہ کو بے ہوشی کی حالت میں کمرے میں لایا اور بیڈ پر لٹایا،،، عنایہ کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر اس نے وارڈروب سے اسکے لیے دوسرے کپڑے نکالے۔۔۔ آج جو بھی کچھ ہوا وہ اس کا قصور وار صرف نہال کو نہیں مانتا تھا
شام میں جب ثروت کا شوگر لیول کنٹرول نہیں ہوا تو ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق ثروت کو مزید ایک دن کیلئے اسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا۔۔۔ ثروت کی دوست نے نمیر کو یقین دلایا کہ وہ ثروت کے پاس موجود ہے اگر وہ چاہے تو تھوڑی دیر کے لئے گھر جاکر آرام کرسکتا ہے
تب نمیر اپنا اور عنایہ کا کل کا ٹکٹ کروا کر گھر کی طرف آ رہا تھا راستے میں ہی اسے موسم کے تیور دیکھ کر بارش ہونے کا اندازہ ہو گیا۔۔۔ اسے سب سے پہلا خیال عنایہ کا ہی آیا مگر شکر تھا کہ حمیدہ گھر میں موجود تھی لیکن پھر بھی وہ جلد سے جلد عنایہ کے پاس گھر پہنچنا چاہتا تھا۔۔ جب وہ گھر پہنچا تو پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا یقیناً گھر کی لائٹ چلی گئی تھی عنایہ لازمی ڈر رہی ہوگی،، نمیر فلیش لائٹ آن کرتا ہوا اپنے کمرے میں جانے لگا تب اسے عنایہ کی آواز آئی
"نہیں ابھی یہی رہے پلیز، مجھے چھوڑ کر مت جائیں"
وہ یقیناً یہ جملہ حمیدہ کو نہیں رہا کو کہہ رہی تھی نمیر نے روم کا دروازہ کھولا تو وہ نہال کے بے حد قریب کھڑی تھی اور نہال اس کا بازو پکڑے۔۔۔ نمیر کو نہال کے ساتھ ساتھ عنایہ پر بھی غصہ آیا آخر وہ کیوں اتنی لا پرواہ تھی کیوں اس کے بھائی کے اتنے قریب کھڑی تھی۔۔۔ آخر ایسا بھی کیا ڈر تھا۔۔۔۔ اور نہال اس کا اپنا بھائی،،، کیا وہ اپنی ساری شرم لحاظ بھول چکا تھا آخر وہ اس بات کو سمجھتا کیو نہیں تھا کہ عنایہ اب اسکے بھائی کی بیوی ہے
نمیر کو ان دونوں پر ہی غصہ آنے لگا نہال کو اچھی طرح جتانے کے بعد کہ وہ عنایہ کو کسی صورت نہیں چھوڑے گا،،،ساتھ ہی وہ آج عنایا کا ڈر بھی نکالنے کا اور اسے اچھی طرح سبق سکھانے کا ارادہ رکھتا تھا
وہ کبھی بھی عنایہ پر،، نہال کو لے کر شک نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ اسے اپنی بیوی پر اس کی محبت پر اعتبار تھا۔۔۔۔ اسے معلوم تھا عنایہ نے بارش کے ڈر کی وجہ سے نہال کو اپنے پاس روکے رکھا تھا مگر دو ماہ میں وہ نمیر کی نیچر سے بھی اچھی طرح واقف ہو گئی تھی اور نمیر نے اسے واضح لفظوں میں بتا بھی دیا تھا کہ وہ اس کا نہال کے ساتھ ایک لمٹ میں بات کرنا پسند کرتا ہے اور بس۔۔۔۔
عنایہ کے گیلے کپڑے واش روم میں رکھنے کے بعد وہ عنایہ کے ہاتھ پر نشان دیکھنے لگا یہ جلنے کا نشان تھا،، اسے مزید عنایہ کی لاپرواہی پر غصہ آیا اسکے ہاتھ پر آئینمینٹ لگانے کے بعد اس کو کمفرٹر اڑھانے ہوئے نمیر نے عنایہ کے چہرے پر نظر ڈالی،،، وہ ابھی بھی بے ہوش تھی
نمیر نے نہ چاہتے ہوۓ بھی نہال کو میسج کر کے اسے ثروت کے بارے میں انفارم کیا کہ آج رات ثروت ہسپتال میں ہی ایڈمن رہے گی مگر اب وہ ہسپتال جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اور گھر میں ہی ریسٹ کرنا چاہتا تھا۔۔۔ نمیر خود بھی چینج کرتا ہوا عنایہ کے برابر میں لیٹ گیا۔۔۔ بارشوں جو تھوڑی دیر پہلے تھم چکی تھی اب دوبارہ شروع ہوگئی نمیر نے گردن موڑ کر عنایہ کو دیکھا وہ بے ہوشی میں خوف کے مارے سسکیاں لے رہی تھی اور اپنے ہاتھ سے بیڈ پر کچھ تلاش کر رہی تھی،، تب نمیر نے اس کا ہاتھ پکڑا تاکہ اسے احساس ہو وہ اکیلی نہیں،،، پھر اپنا تکیہ عنایہ کے قریب کرکے عنایہ کو خود سے قریب کرلیا
اب عنایہ کی سسکیاں بند ہو چکی تھی چہرے پر سکون طاری تھا مگر بے ہوشی میں بھی اس نے نمیر کی شرٹ مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھی۔۔۔ نمیر اپنا سن ہوتا بازو عنایہ کے نیچے سے نکالنے کے بجائے ایسے ہی سونے کی کوشش کرنے لگا تاکہ عنایہ کو مزید خوف محسوس ہو اور اسے یقین رہے کہ نمیر اس کے پاس ہے
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 39
صبح جب عنایہ کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر ڈریسر کے سامنے کھڑے نمیر پر پڑی جوکہ بالوں میں برش پھیر رہا تھا
آج چھٹی کا دن تھا وہ تیار ہو کر آخر کہاں جانے کا ارادہ رکھتا تھا عنایہ سوچنے لگی مگر وہ اس سے پوچھ نہیں سکی کیوکہ کل والی حرکت سے وہ نمیر سے ناراض تھی پھر اس کی نظر اپنے کپڑوں پر پڑی کل رات اس نے یہ کپڑے تو نہیں پہنے تھے تو پھر اس کے کپڑے کس نے بدلے بے ساختہ اس نے سر اٹھا کر نمیر کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ بھی آئینے میں سے اسی کو دیکھ رہا تھا عنایہ دوبارہ اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔ اب وہ عنایہ کی طرف رخ کرتا ہوا کلائی میں ریسٹ واچ باندھ رہا تھا
"آپ نے کل میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا"
عنایہ نے اس سے شکوہ کیا مگر وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا اپنا والٹ اور موبائل پاکٹ میں رکھنے لگا۔۔۔ عنایہ کو اس کے یوں بے رخی برتنے پر مزید غصہ آیا
"اگر اتنا ہی خفا ہے مجھ سے تو کیوں کل رات کو اندر لے کر آئے مجھے، کیوں چینج کیے آپ نے میرے کپڑے۔۔۔ مر جانے دیا ہوتا نہ مجھے خوف سے اور ٹھنڈ سے"
وہ بیڈ سے اٹھ کر نمیر کے سامنے آتی ہوئی بولنے لگی
"زیادہ میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ہے اس وقت،، راستے سے ہٹو"
نمیر سنجیدگی سے بولتا ہوا ڈریسنگ روم میں چلا گیا واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں سفری بیگ موجود تھا اب وہ عنایہ کو نظر انداز کرتا ہوا بیگ میں اپنے کپڑے رکھنے لگا
"نمیر کہاں جا رہے ہیں آپ"
عنایہ کا دماغ بھک سے اڑا وہ چلتی ہوئی نمیر کے پاس آ کر اس سے پوچھنے لگی
"کل رات بارش میں بھیگنے کے بعد کیا تمہارا دماغ بھی پانی میں بہہ گیا۔۔۔ تمہیں نہیں معلوم کہ آج مجھے اسلام آباد جانا ہے آفیشیلی کام سے"
نمیر کپڑے رکھنے کے دوران بولا تو عنایہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی
"مگر آپ نے تو کل مجھ سے کہا تھا کہ آپ مجھے بھی لے کر چلیں گے اپنے ساتھ۔۔۔ تو آپ صرف اپنے کپڑے کیوں رکھ رہے ہیں"
عنایہ اس سے اپنی ناراضگی بھلائے پریشان ہوتی ہوئی وارڈروب سے جلدی جلدی اپنے کپڑے بھی نکالنے لگی
"وہ بات میں نے اسلیے بولی تھی کہ مجھے لگا تم میرے ساتھ زیادہ خوش رہو گی مگر اب مجھے لگ رہا ہے تم میرے بغیر گھر میں زیادہ انجوائے کرو"
نمیر اس کے ہاتھ سے ہینگ کیے اسکے سوٹ لے کر دوبارہ وارڈروب میں رکھتا ہوا بولا تو عنایہ کو دھچکا لگا
"یہ کیا بول رہے ہیں آپ۔۔۔۔ آپ مجھ پر شک کررہے ہیں نمیر"
عنایہ بے یقینی سے آنکھوں میں آنسو لیے نمیر کو دیکھنے لگی۔۔۔ نمیر اسکے پاس آیا اور عنایہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما
"شک نہیں کر رہا ہوں میری جان تم پر۔۔۔ مگر کیا ہے نہ کل رات سے میرا دل بہت جلا ہوا ہے۔۔۔ اس لئے تھوڑی بہت زیادہ سزا کی تو تم بھی مستحق ہو،، اب دو دن تک میرے بغیر گھر میں رہ کر اپنی غلطی ریلائز کرنا جب تک میں اپنا کام نمٹا کر واپس آتا ہوں پھر ڈیسائڈ کر لیتے ہیں کہ اپنے ہنی مون کے لیے کہاں جانا چاہیے"
نمیر اسے بچوں کی طرح بہلاتا ہوا بولا وہ اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھنے ہی لگا تو عنایہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکا دیا
"آپ کون ہوتے ہیں مجھے یوں سزا دینے والے،، کیا کل کم سزا دی تھی آپ نے مجھے۔ ۔۔ جو آج یوں مجھے دو دن کے لیے چھوڑ کر جارہے ہیں۔۔۔ اکیلے میں آپ کو ہرگز نہیں جانے دو گی نمیر"
عنایہ باقاعدہ روتی ہوئی اس کو دیکھ کر بولی نمیر اس کے پاس آیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگا
"اس طرح طوفان کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی میں اس برسات سے ڈرنے والا ہوں، نہ ہی تمہیں اپنے ساتھ لے جانے والا خیال رکھنا اپنا"
وہ واقعی اس وقت عنایہ کہ آنسووں سے اپنا ارادہ بدلنے والا نہیں تھا بلکہ نمیر کو لگا دو دن عنایہ اس کے بغیر رہ کر اپنی غلطی پر پچھتائے گی۔۔۔ اور نہال سے بات کرنے سے ایوائیڈ کرے گی تبھی نہال بھی عنایہ کے رویے سے مایوس ہوکر اس سے دور ہو جائے گا۔۔۔ وہ عنایہ کے آنسو صاف کرتا ہوا بیگ لے کر روم سے نکل گیا
****
نمیر اس وقت ہوٹل کے روم میں بیڈ پر لیٹا ہوا اپنے موبائل میں عنایہ کی تصویر دیکھ رہا تھا۔۔۔ آج صبح جب عنایہ رو رہی تھی ایک پل کے لیے نمیر کا دل شدت سے چاہا وہ اسے یہاں اپنے ساتھ لے آئے مگر اس کے آنسو دیکھ کر وہ کمزور نہیں پڑھنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ نہال کی وجہ سے عنایہ کو الگ گھر میں نہیں رکھ سکتا تھا، وہ ثروت کے بغیر الگ ہوکر رہنے کا تصور نہیں کرسکتا تھا اس عمر میں اس کی ماں کو بھی اس کی ضرورت تھی اور وہ خود کونسا ثروت سے دور رہ سکتا تھا۔۔۔ وہ دوسرے گھر میں شفٹ ہوکر ثروت کو اپنے ساتھ نہیں رکھ کر نہال سے بھی دور نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ بس وہ چاہتا تھا نہال اس کی بیوی سے دور رہے اور یہ تبھی ممکن تھا جب عنایہ خود نہال سے بے رخی برتتی
وہ عنایہ کی نیچر سے اچھی طرح واقف تھا، وہ دل کی بالکل صاف تھی اور معصوم بھی،، وہ نہال کا لحاظ کرتے ہوئے کبھی بھی اس سے بدلہاظی نہیں کر سکتی تھی جب تک اس کے پاس کوئی جواز موجود نہ ہو اور وہ عنایہ کو اپنے ساتھ نہ لا کر جواز پیدا کر کے آیا تھا۔۔۔ مگر اب وہ عنایہ کو بری طرح مس کررہا تھا اور عنایہ کے پاس موبائل موجود نہیں تھا اس کی آواز سننے کے لیے نمیر نے لینڈ لائن پر کال کی مگر حمیدہ نے اسے بتایا وہ اپنے کمرے میں موجود سو رہی ہے۔۔۔ نمیر کو صاف محسوس ہوا، ایسا حمیدہ عنایہ کے کہنے پر کہہ رہی تھی۔ ۔۔۔ اور عنایہ وہی موجود تھی نمیر نے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔۔۔۔ عنایہ اس سے خفا تھی مگر وہ اس کو واپس گھر جاکر پیار سے منالے گا کیوکہ اس کا اپنا گزارہ اپنی بیوی کہ بناء مشکل تھا بہت جلدی عنایہ نے اس کو اپنا عادی بنا لیا تھا۔۔۔ نمیر عنایہ کی تصویریں دیکھتا ہوا یہ سب باتیں سوچ رہا تھا اس کے موبائل پر منال کی کال آنے لگی
"خیریت"
نمیر نے کال ریسیو کرتے ہوئے منال سے پوچھا
"ہاں خیریت ہی ہے تم باہر آؤ جلدی سے"
منال اس سے بولنے لگی
"میں اس وقت اسلام آباد میں موجود ہو آفس کے کام سے آیا ہوں"
نمیر اسے سنجیدگی سے جواب دینے لگا
"جس ہوٹل میں تم اسٹے کر رہے ہو میں بھی وہی موجود ہوں باہر آو"
منال نے اپنی بات مکمل کر کے کال ڈسکنیکٹ کی۔۔۔۔ نمیر نے پہلے سوچا کہ وہ منال کو کال کرکے منع کردے مگر کچھ سوچ کر اپنی جیکٹ اٹھاتا ہوا روم سے باہر نکل گیا
"تم اسلام آباد میں کیا کر رہی ہو"
نمیر ہوٹل کے روم سے باہر نکلے تو ہوٹل کی لابی میں منال کو کھڑا دیکھا
"میری فرینڈ رہتی ہے یہاں، تو اسی سے ملنے آئی تھی۔۔۔ تم کیسے ہو"
منال نے اسے جواب دے کر نمیر کی خیریت پوچھی
"تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں پر موجود ہو"
نمیر نے اپنی خیریت بتائے بغیر دوبارہ منال سے پوچھا
"ایک گھنٹے پہلے ہی تمہیں ریسپشن پر دیکھا تھا۔۔ تم کیسے ہو نمیر"
منال نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے دوبارہ اس سے پوچھا
"خوش۔۔۔ تم سناؤ" نمیر اب اس سے پوچھنے لگا
"میں بھی خوش،،، مگر تم جتنی نہیں۔۔ کیا ہم واک کر سکتے ہیں"
منال نمیر کو جواب دیتی ہوئی بولی
"پہلی فلم فلاپ ہو جائے تو بندہ خوش کیسے رہ سکتا ہے۔۔ نیکسٹ کے لئے تھوڑا اور اچھا پرفارم کرنا"
نمیر منال کے ساتھ واک کرتا ہوا اسے سیریس ہوکر مشورہ دینے لگا۔۔۔ جس پر منال کھول کر رہ گئی،، منال کو نمیر کا یوں سنجیدگی سے بھگو بھگو کر مارنے والا انداز ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔۔۔ مگر وہ ضبط کر گئی
"ایک فلم میں کام کرکے میرا شوق پورا ہوگیا مجھے اس کے فلاپ ہونے کا کوئی غم نہیں۔۔۔ غم ہے تو بس اس بات کا کہ تم نے مجھے چھوڑنے اور شادی کرنے میں بہت جلدی کی۔۔۔ کیا یہ تمہاری یہ جیکٹ مل سکتی ہے مجھے"
منال جوکہ سلیو لیس ٹاپ پہنی ہوئی تھی۔۔۔ اپنے دونوں بازوں کو سہلاتی ہوئی نمیر سے بولی سنسان سڑک پر وہ دونوں ہی واک کر رہے تھے
"مجھے پورا یقین ہے دوسری فلم ملنے کے بعد تم جلد ہی میرے چھوڑنے اور شادی کرنے کے غم سے باہر نکل آؤ گی" نمیر اپنی جیکٹ اتار کر منال کی طرف بڑھاتا ہوا بولا
"کب تک یوں ناراض رہو گے مجھے سے نمیر۔۔۔ اپنی غلطی کا احساس ہے مجھے"
وہ نمیر کی جیکٹ لے کر پہنتی ہوئی بولی
"ریلکس یار میں تم سے کوئی ناراض وراض نہیں ہو۔۔۔ تم سے اگر ناراض ہوتا تو یوں باتیں نہیں کر رہا ہوتا۔۔۔ میں نے یہ بات خالہ جانی سے بھی کہی تھی۔۔۔ ہم دونوں کی بیچ صرف ایک ریلیشن نہیں تھا۔۔۔ ہم دونوں آپس میں کزنز بھی ہیں۔۔۔ تمہیں اگر اپنی غلطی کا احساس ہے تو یہ اچھی بات ہے۔۔۔ زیادہ دور جانے کا فائدہ نہیں واپس آجاو عنایہ میری کال کا ویٹ کر رہی ہوگی"
نمیر واپس مڑتا ہوا بولا تو منال کو بھی ہوٹل کی طرف مڑنا پڑا۔۔۔ اس کے منہ سے عنایہ کا نام سن کر منال کے دل میں عنایہ کے لیے نفرت مزید بڑھ گئی
****
صبح سے ہی عنایہ کا دل اداس تھا۔۔ نمیر اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔ وہ سارا دن اپنے کمرے میں بند رہی جب حمیدہ نے اسے بتایا نہال ثروت کو گھر لے کر آگیا ہے تب وہ ثروت سے ملنے گئی اور کافی دیر اس کے پاس بیٹھی اس سے باتیں کرتی رہی پھر اس کو کھانا کھلا کر میڈیسن دے کر خود لان میں اپنے گرد شال لپیٹ کر کرسی کے اوپر پاوں رکھکر بیٹھ گئی۔۔۔ اسے افسوس ہونے لگا نمیر اسے ایک کال تو کرسکتا تھا بےشک اس کے پاس موبائل نہیں تھا مگر اسے لینڈ لائن پر ہی بات کر لیتا ہوں ۔ مگر نمیر نے اسے کال کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا
"ایسے اداس ہو کر کیوں بیٹھی ہو کل شام تک تو نمیر آ ہی جائے گا"
نہال لان میں آکر اس کے برابر والی چیئر پر بیٹھا ہوا اسے کہنے لگا
"آپ کو میری فکر کرنے کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ کوئی اداس نہیں ہوں میں بلکہ نمیر کی کال کا ویٹ کر رہی ہوں"
وہ نہال سے اکھڑے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔ وہ نہ جانے کیوں اس کے پاس آکر بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے لگتا تھا۔۔۔۔ نا وہ کل رات کو اس کے بیڈروم میں آتا نہ نمیر کو غصہ آتا اور نہ وہ نمیر اس کو چھوڑ کر جاتا
"تمہیں میرا فکر کرنا اور پروا کرنا اچھا نہیں لگتا"
نہال عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میری فکر کرنے کے لئے اور پروا کرنے کے لئے نمیر موجود ہیں۔۔۔ آپ آنٹی کی فکر اور پروا کیا کیجئے اس عمر میں انہیں آپ کی ضرورت ہے"
عنایہ اسے جتاتی ہوئی بولی نہ جانے نہال اسے کیا جتانا چاہ رہا تھا
"نمیر تمہاری کتنی فکر کرتا ہے یہ تو میں کل رات کو دیکھ ہی چکا ہوں۔۔۔ اور اگر اسے تمہاری پرواہ ہوتی تو وہ یوں تمہیں چھوڑ کر اکیلا نہ جاتا"
نہال طنزیہ مسکراتا ہوا سامنے کھڑی کار کو دیکھتا ہوا بولا
"آخر کہنا کیا چاہ رہے ہیں آپ"
عنایہ برا مانتی ہوئی نہال سے پوچھنے لگی نہال سے بات کرکے اس کا موڈ مزید خراب ہوگیا جبھی وہ وہاں سے اٹھی
"یہی کہ اس وقت نمیر کی کال کا ویٹ کرنا بے کار ہے۔۔۔ وہ اسلام آباد میں منال کے ساتھ بزی ہے۔۔ میرا مطلب ہے آج صبح ہی خالہ جانی کی کال آئی تھی انہوں نے بتایا کہ منال اسلام آباد پہنچی ہوئی ہے۔۔۔ ابھی تو دونوں وہاں واک کر رہے ہیں اس کے بعد ان دونوں کا ڈنر کرنے کا پروگرام ہے"
نہال نارمل انداز میں عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ آج دوپہر کو جب نمیر کی لینڈ لائن پر کال آئی تھی تو حمیدہ سے اسی نے کہلوایا تھا کہ عنایہ سو رہی ہے
"نہال بھائی آپ کچھ بھی بولیں گے اور میں مان لو گی شرم آنی چاہیے آپ کو اپنے بھائی کے بارے میں اس طرح بولتے ہوئے"
عنایہ نہال کو کہتی ہوئی غصے میں گھر کے اندر چلی گئی
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 40 (A)
Achi khasi long epi😃
"کیسا فیل کررہی ہیں آپ۔۔۔ کیسی طبیعت ہے اب آپ کی"
نہال شام میں آفس سے گھر آیا ثروت کے کمرے میں آکر اس کی طبیعت پوچھنے لگا
"کل سے تو کافی بہتر ہے، تم جلدی آگئے آج"
ثروت نے نہال کو اپنے روم میں آتا ہوا دیکھ کر بیڈ سے اٹھ کر بیٹھی اور پوچھنے لگی
"جی موسم آج ابرآلود ہے، نمیر بھی گھر پر نہیں ہے اور آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ان سب باتوں کو سوچتا ہوا گھر آگیا۔۔ آپ بتائیں کھانا کھایا آپ نے دوپہر کا"
نہال کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھتا ہوا ثروت سے پوچھنے لگا
"ہاں عنایہ نے کھانا کھلا دیا تھا اور میڈیسن بھی دے دی تھی"
ثروت نہال کو بتانے لگی
"گڈ، عنایہ بہت اچھی ہے۔۔۔ بہت اچھے طریقے سے خیال رکھ لیتی ہے آپ کا"
نہال ثروت کی بجائے سامنے دیوار کی پینٹنگ کو دیکھتا ہوا بولا ثروت غور سے نہال کو دیکھنے لگی
"نہال میرے خیال میں اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے" ثروت کی بات پر نہال اس کی طرف دیکھنے لگا
"کس سے"
وہ ثروت کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میں ٹھیک ہوجاو تو ایک دو دن میں دیکھتی ہوں تمہارے لیے کوئی لڑکی۔۔۔ بہت خوبصورت سی"
ثروت نہال کو دیکھ کر مسکراتی ہوئی کہنے لگی
"عنایہ جیسی"
نہال ثروت کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"عنایہ سے بھی خوبصورت لڑکی ڈھونڈو گی تمہارے لیے"
وہ نہال کی آنکھوں میں چھپی اداسی دیکھ کر بولی
"اگر کوئی عنایہ سے بھی زیادہ خوبصورت لڑکی ہوئی تو وہ تب بھی عنایہ جیسی نہیں ہو سکتی۔۔۔ آپ نے عنایہ کو مجھ سے لے کر نمیر کو دے دیا"
نہال زخمی مسکراہٹ کے ساتھ مسکراتا ہوا ثروت کو دیکھ کر بولا
"بیٹا اس وقت حالات ایسے تھے یہ قدم اٹھانا پڑا۔۔۔ نہال تم سمجھنے کی کوشش کرو اب وہ تمہارے بھائی کی بیوی ہے"
ثروت پرسوں ہونے والے واقعے سے بےشک بے خبر ہوں مگر گھر میں جس طرح کا ماحول دونوں بھائیوں کے بیچ چل رہا تھا وہ اس سے بے خبر نہیں تھی
"جی ہمیشہ سے میں ہی تو سمجھتا آیا ہوں، آپ میری شادی کے لیے پریشان مت ہوں اپنے لئے کوئی بہتر فیصلہ میں جلد خود ہی کر لوں گا۔۔۔بس اب آپ اپنا خیال رکھا کریں" نہال صوفے سے اٹھ کر ثروت کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر تھپکی دیتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
****
"کیا سوچا جا رہا ہے یہاں کھڑے ہوکر اکیلے اکیلے"
نوفل گھر میں داخل ہوا تو شانزے کو ٹیرس میں کھڑا دیکھ کر اس کے پاس آیا۔۔۔ شانزے نے مڑ کر نوفل کو دیکھا تو وہ اپنے ہونٹوں سے شانزے کا گال کو چھوتا ہوا مسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔ پرسوں ان کے درمیان بحث کے بعد وہ دونوں ہی ضروری بات کے سوا کوئی بات نہیں کررہے تھے اور آج کے دن دونوں ہی کو ایک دوسرے کی خاموشی پریشان کیے دے رہی تھی اس لئے نوفل اپنے پرانے موڈ میں آ کر اس خاموشی کو توڑنے کی کوشش کرنے لگا
"میں یہی سوچ رہی تھی کہ اپنے ایس۔ پی صاحب کو کیسے منایا جائے"
نائلہ نے ان دونوں کے درمیان خاموشی محسوس کرکے آج صبح شانزے کو خوب کھری کھری سنائی تھی مگر اندر سے خود شانزے بھی نوفل سے یوں بے رخی برت نہیں پا رہی تھی اس لیے اسے دیکھتی ہوئی کہنے لگی
"پھر کیا آئیڈیا سمجھ میں آیا کیسے مناؤ گی اپنے ایس۔پی کو"
نوفل شانزے کو خود سے قریب کر کے سنجیدگی سے پوچھنے لگا
"یہی تو سمجھ نہیں آرہا صبح سے کوئی دس گھٹیا ٹائپ فلمیں دیکھ چکی ہوں شاید انہی میں کوئی آسان طریقہ کار دکھ جائے مگر ہر دوسری مووی نے ہیروئن بیوقوف بنی ہوئی،، روٹھے ہوئے ہیرو کے آگے گلا پھاڑ پھاڑ کر گانے گا کر اچھلتی کودتی ہوئی عجیب حرکتیں کر رہی ہے ایسا مجھ سے تو بالکل نہیں ہو پائے گا"
شانزے نے جتنی سنجیدگی سے اسے بتایا نوفل اپنی ہنسی روک نہیں سکا
"ایک آئیڈیا میں دو"
وہ شانزے کو اٹھاتا ہوا کمرے میں لایا اور بیڈ پر بٹھایا
"کوئی ضرورت نہیں اپنے چھچھورے آئیڈیاز کا بنڈل اپنے پاس رکھو اور شرافت سے خود ہی مان جاؤ"
شانزے اس کے خطرناک تیور دیکھتی ہوئی بولی تو نوفل ہنسا اور خود بھی بیڈ پر اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا
"ماننا تو خود ہی پڑے گا،، کیا کرو ناراض جو نہیں رہ سکتا تم سے زیادہ دیر تک"
وہ شانزے کو دیکھ کر اس کے ہاتھ پر محبت مہر ثبت کرتا ہوا بولا
"میری ناراضگی واقعی تمہارے لیے اتنی معنی رکھتی ہے"
شانزے اب نوفل کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"میری زندگی میں تمہاری موجودگی بہت معنی رکھتی ہے شانزے،، پلیز میرے اور اپنے بیچ میں ایسے مسلئے مت لے کر آیا کرو جس سے ہمارے بیچ میں بحث ہو،، میں بہت زیادہ نیک انسان ہر گز نہیں ہوں مگر اتنا برا بھی نہیں ہے میرا یقین کرو"
نوفل شانزے کو دیکھتا ہوں اس سے سنجیدگی سے کہنے لگا تو شانزے ہلکا سا مسکرائی اور خاموش رہی
"چلو آج رات میں تمہیں بتاتا ہوں جب بیوی اپنے شوہر سے ناراض ہو جائے،، تو شوہر کو کیسے منانا چاہیے،، مگر پہلے ہم آنٹی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جائیں گے ان کا اپوائنمنٹ ہے آج کا،، پھر واپسی پر ڈنر کریں گے۔۔ آنٹی کو ریڈی ہونے کا بول کر آیا تھا اب تم بھی جلدی سے ریڈی ہو جاؤ"
نائلہ کی کچھ دنوں سے طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس وجہ سے نوفل اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتا تھا ساتھ ہی اس نے شانزے کے ساتھ ڈنر کا پروگرام بنا لیا۔۔۔ آج موسم کافی خوشگوار تھا اس لئے شانزے نخرے دکھائے بغیر تیار ہونے چلی گئی
****
نمیر ایئرپورٹ سے گھر پہنچا تو رات کے نو بج رہے تھے باہر لان میں ہی چیئر پر اسے نہال بیٹھا ہوا ملا۔۔۔ وہ نمیر کو گیٹ سے اندر آتا ہوا دیکھ کر اسی کی طرف بڑھا تو نمیر بھی ایک ہاتھ میں بیگ، دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ پکڑے نہال کے پاس آیا
"مجھے کال کر دیتے میں لینے آجاتا"
نہال نمیر کو دیکھتا ہوا کہنے لگا نہال کے لہجے میں دو دن پہلے ہونے والی تلخ کلامی کا شائبہ تک نہیں تھا۔۔۔ وہ بالکل ویسے ہی بات کر رہا تھا جیسے شروع سے کرتا آیا تھا
"نہیں، کیپ کر لی تھی میں نے۔۔۔ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔۔ تم بتاؤ ماما کی کنڈیشن کیسی ہے اب"
نہال کو نارمل انداز میں بات کرتے ہوئے دیکھ کر نمیر بھی ہر بات بھلائے اس سے نارمل انداز میں پوچھنے لگا
"بی پی ابھی بھی تھوڑا سا ہائی ہے شام میں چیک کیا تھا۔۔۔ تمہارا پوچھ رہی تھی ماما، تم نے بات نہیں کی ان سے"
نہال نمیر سے پوچھنے لگا
"نہیں دوپہر میٹنگ کے چکر میں سارا دن گزر گیا۔۔۔ اس کے بعد فلائٹ کرانے میں اور واپس آنے میں ٹائم ہی نہیں ملا۔۔۔ میٹنگ کافی اچھی رہی ہے ہمدانی صاحب نے ایک اور پرپوزل بھی دیا ہے جس کی ڈیٹیلیز اس میں موجود ہیں تم چیک کر لینا۔۔ اگر تمہیں سوئٹیبل لگے تو پھر کل صبح آفس میں ڈسکس کر لیں گے"
نمیر اپنا لیپ ٹاپ نہال کی طرف بڑھاتا ہوا بولا
"ایسا کرو اپنا لیپ ٹاپ میرے بیڈروم میں رکھ دو پلیز۔ ۔۔ میں ڈنر کے بعد دیکھ لوں گا۔۔ اس وقت واک کا موڈ ہو رہا ہے تو باہر جا رہا ہوں"
نہال نمیر کو دیکھتا ہوا بولا نمیر اثبات میں سر ہلا کر گھر کے اندر چلا گیا۔۔۔
وہ نہال کے روم میں پہنچا اور بیڈ کے پاس موجود ٹیبل پر اپنا لیپ ٹاپ رکھ کر پلٹنے ہی لگا تو نہال کے بیڈ پر موجود، عنایہ کے پینڈینٹ نے اسے پلٹنے پر مجبور کیا۔۔۔ نمیر نے آدھا تکیہ کے نیچے دبا ہوا عنایہ کا پینڈینٹ ہاتھ میں لیا یہ وہی پینڈینٹ تھا جو نمیر نے عنایہ کو گفٹ میں دیا تھا اور اس وقت وہ نہال کے بیڈ پر موجود تھا۔۔۔ نمیر پینڈینٹ کو غور سے دیکھتا ہوا اسے اپنی پاکٹ میں رکھ کر نہال کے روم سے نکل گیا
****
عنایہ اپنے روم میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی نہال پر اسے پہلے ہی غصہ تھا نہال کی وجہ سے نمیر اسے اپنے ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔۔۔
کل شام اسے نہال کی بات سن کر اور بھی زیادہ غصہ آیا آخر نہال کیسے کہہ سکتا تھا نمیر اور منال اسلام آباد میں ایک ساتھ ہیں۔۔۔ اس وجہ سے وہ اور بھی نہال سے سیدھے منہ بات نہیں کر رہی تھی
اور نمیر کیسے اسے اپنا احساس دلا کر ایسے اکیلا اسکا احساس کیے بنا اسے چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔ آج موسم کے تیور دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے بارش ہوگی،، بس اب اسے مضبوط بن کر رہنا ہے وہ سوچ چکی تھی مگر اس کے باوجود بےچینی سے بار بار اپنے روم کی کھڑکی سے موسم کا جائزہ ہر دس منٹ بعد لے رہی تھی
اس وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جب کھڑکی میں سے اس نے نمیر کو گھر آتا دیکھا۔۔۔۔ مگر وہ گھر آنے کی بجائے لان میں کھڑا نہال سے باتیں کر رہا تھا نمیر چہرے کے تاثرات بالکل نارمل تھے،، اپنا غصہ تو وہ صرف اسی پر جتاتا تھا۔۔۔ عنایہ نے سر جھٹک کر سوچا
عنایہ کھڑکی بند کر کے پردے برابر کرتی ہوئی جلدی سے وارڈروب کھول کر اپنے لئے ڈریس نکالنے لگی
کل سے اسکا موڈ خراب تھا اسلیے اپنے حلیے پر بھی اسکی نظر نہیں گئی مگر نمیر کو گھر میں آتا دیکھکر جلدی جلدی وہ ڈریس چینج کر کے آئینے میں کھڑی بال بنانے لگی۔۔۔ بالوں کو کھلا چھوڑ کر ہونٹوں کو گلوس سے رنگنے کے بعد اپنے اوپر پرفیوم چھڑکتی ہوئی وہ کمرے میں ٹہل کر نمیر کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ جیسے ہی کمرے کے باہر قدموں کی آواز آئی اور دروازہ کھلا۔۔۔ عنایہ نے جلدی سے بیڈ پر بیٹھ کر اپنے چہرے کے تاثرات سنجیدہ کر لیے۔۔ مگر نمیر کی جگہ حمیدہ نمیر کا بیگ لے کر کمرے میں داخل ہوئی
"صاحب کہاں ہیں تمہارے"
عنایہ چہرے کے زاویے درست کرتی ہوئی حمیدہ سے نمیر کا پوچھنے لگی
"وہ تو جی بڑی بیگم صاحبہ کے کمرے میں بیٹھے ہیں"
حمیدہ عنایہ کو بتاتی ہوئی نمیر کا بیگ صوفے پر رکھنے لگی
"ٹھیک ہے دونوں بھائیوں سے کھانے کا پوچھا کر ٹیبل پر لگا دینا۔۔۔ آنٹی کو میں خود کھلا دو گی"
عنایہ حمیدہ کو ہدایت دیتی ہوئی بولی
پورے پینتالیس منٹ بعد کمرے کا دروازہ دوبارہ کھلا اور نمیر کمرے کے اندر داخل ہوا
اس کی نظر اپنی بیوی پر پڑی۔۔۔ جو کہ مغرورانہ انداز میں نہ جانے کس بات پر گردن اکڑائے بیڈ پر برجمان تھی
"کیسی ہو"
نمیر بیڈ کے پاس آ کر کھڑا ہو کر عنایہ سے پوچھنے لگا
"آخرکار 45 منٹ بعد آپ کو اپنی بیوی کا خیال آہی گیا کہ اس سے بھی خیریت پوچھ لی جائے"
عنایہ سنجیدگی سے اس پر طنز کرتی ہوئی بولی۔۔۔ مخصوص بیویوں والے اسٹائل میں عنایہ اس پر طنز کرتی ہوئی نمیر کو بہت کیوٹ لگی
"مجھے نہیں معلوم تھا میری بیوی کا ایک ایک لمحہ اپنے شوہر کے بغیر گزارنا مشکل ہو رہا ہے۔۔۔ ورنہ اتنی دیر تھوڑی لگاتا اپنی بیوی کے پاس آنے میں"
نمیر چہرے پر مسکراہٹ لائے عنایہ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"خیر ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔۔ اچھا ہی ہوا جو آپ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے کر گئے۔۔۔ بہت اچھے گزرے ہیں یہ دو دن میرے"
عنایہ نے اتراتے ہوئے کہا جیسے اسے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا
"تو پھر میرے ساتھ جانے کے لئے اتنا تڑپ کیوں رہی تھی۔۔۔ اب واپس آیا ہوں تو منہ پھولا ہوا ہے۔۔۔ یہ بھی نہیں معلوم کے گھر آئے شوہر کا استقبال کیسے کیا جاتا ہے"
نمیر اس کو کہتا ہوا صوفے پر بیٹھ کر اپنے شوز اتارنے لگا
"کیسے استقبال کروں آپ کا۔۔۔ آپ کی راہ میں اپنی پلکیں بچھا کر بیٹھ جاؤ یا آپ کے گھر آنے پر بھنگڑے ڈال کر خوشیوں کے گیت گاؤ"
عنایہ منہ بناتی ہوئی بولی جس پر نمیر کو ہنسی آئی۔۔۔ وہ صوفے سے اٹھ کر مسکراتا ہوا بیڈ پر عنایہ کے پاس آیا
"یہ سب نہیں کرو مگر شوہر تھکا ہارا گھر آئے تو بیوی اسے پیار کے دو بول تو بول سکتی ہے نہ"
نمیر عنایہ کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام کر بولا
"کیوں اتنی تھکن ہو رہی ہے آپ کو،، کیا اسلام آباد سے گھر تک پیدل چل کر آرہے ہیں"
عنایہ کہ بولنے پر نمیر اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا
"غصہ کس بات پر آرہا ہے تمہیں"
نمیر بیڈ پر اس کے قریب لیٹتا ہوا پوچھنے لگا
"سوری بھول گئی تھی غصہ کرنے کا حق تو صرف آپ ہی کا تو ہے"
عنایہ آئستہ سے بول کر بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے جانے لگی
"کہاں جا رہی ہو" نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"آنٹی کو کھانا کھلانے جا رہی ہوں آپ تھکے ہوئے ہیں ریسٹ کریں"
عنایہ نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو نمیر فوراً بولا
"ماما کو میں کھانا کھلا چکا ہوں۔۔۔ اور تم ابھی کمرے سے باہر کہیں نہیں جا رہی ہو یہی رہو میری آنکھوں کے سامنے"
نمیر کے بولنے پر عنایہ بیڈ کی بجائے سات قدم دور فاصلے پر صوفے پر جا کر بیٹھی تو نمیر نے اس کو گھورا
"فوراً اٹھو صوفے سے اور وارڈروب سے مجھے کپڑے نکال کر دو تاکہ میں ایزی ہو جاؤ"
نمیر بیڈ پر لیٹا ہوا عنایہ کو دیکھ کر بولا۔۔۔ عنایہ نمیر کے کپڑے وارڈروب سے نکالتے ہوئے الجھنے لگی کہ وہ اس سے منال کے بارے میں کیسے پوچھے۔۔۔ کیا وہ واقعی نمیر کے ساتھ اسلام آباد میں موجود تھی۔۔۔ نمیر عنایہ کے چہرے پر الجھن کے آثار دیکھتے ہوئے اس سے اپنے کپڑے لے کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا ہے۔۔۔ چینج کرکے واپس آیا تو وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ نمیر کا شدت سے دل چاہا کہ وہ اپنے کمرے سے اس صوفے کو آگ لگا دے یا اٹھا کر باہر پھینک دے
"یہ بیگ ابھی تک ایسے ہی کیوں رکھا ہے۔۔۔ اس میں سے کپڑے نکال کر وارڈروب میں رکھو اور بیگ کو جگہ پر رکھ کر آؤ"
نمیر اسکو سوچوں میں گم دیکھ کر بولا اور خود دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔ عنایہ اس کا چہرہ دیکھتی ہوئی بیگ ہاتھ میں تھامے اٹھی وارڈروب میں کپڑے رکھنے لگی
"یہ کیا ہے"
بیگ میں ایک چھوٹا ڈبا نکال کر عنایہ نمیر کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگی
"موبائل ہے میری بیگم کے لیے تاکہ وہ دو دن کی جمع باتیں آسانی سے اپنی سہیلی سے کر سکے"
نمیر کی بات سن بامشکل اس نے آنے والی ہنسی روکی
"کھانا کھا لیا تھا آپ نے"
عنایہ اب نمیر کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"دوپہر کا لنچ کافی لیٹ کیا تھا ابھی موڈ نہیں ہے کھانے کا"
نمیر کا جواب سن کر عنایہ واپس صوفے پر جانے لگی تبھی نمیر نے اسے پکارا
"عنایہ"
وہ مڑی
"ذرا میرا موبائل اٹھا کر چارج پر تو لگانا"
وہ نمیر کی آنکھوں میں شرارت صاف محسوس کرسکتی تھی، نمیر کو گھورتی ہوئی اس کا موبائل چارج پر لگانے لگی
"اور کوئی کام ہے یا پھر میں بیٹھ جاؤ"
عنایہ نمیر کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"یہاں میرے پاس آکر بیٹھو پھر بتاتا ہو کام"
نمیر بیڈ کے کنارے سے تھوڑا سائیڈ پر ہو کر لیٹا تاکہ عنایہ بیٹھ سکے
"اب بولیے"
عنایہ اسکے پاس آکر بیٹھتی ہوئی اگلا کام پوچھنے لگی
"پہلے تم بولو،، تمہارے ذہن میں کیا چل رہا ہے فوراً شیئر کرو مجھ سے"
وہ عنایہ کا ہاتھ تھام کر دوستانہ انداز میں پوچھنے لگا
"وہاں اسلام آباد میں منال آپی آپ کے ساتھ تھیں"
عنایہ نمیر سے پوچھنے لگی
"ہاں،، وہ وہاں اپنی فرینڈ سے ملنے گئی تھی اس نے مجھے یہی بتایا تھا اور یہ بھی کہ وہ کل صبح واپس آ جائے گی"
نمیر بناء چونکے نارمل انداز میں عنایہ کو بتانے لگا مگر اسے حیرت اس لیے ہوئی منال عنایہ سے اتنی فرینک کبھی نہیں رہی کہ وہ اپنے اسلام آباد جانے کا اسے بتاتی یعنیٰ یہ بات عنایہ کو خاص طور پر بتائی گئی ہے۔۔۔ منال نے خود یا پھر کسی اور نے۔۔۔
"وہ آپ ہی کے ہوٹل میں رکی ہوئی تھی آپ دونوں نے ڈنر ایک ساتھ کیا اور پھر واک بھی کی" عنایہ آنکھوں میں ناراضگی لاتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"عنایہ پہلی بات تو یہ کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ منال اسلام آباد میں موجود ہے اور اسی ہوٹل میں رکی ہوئی ہے جہاں میں اسٹے کر رہا ہوں اور اگر مجھے معلوم بھی ہو کہ وہ اسی ہوٹل میں رکھی ہے تو یار اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ رہی بات اس کے ساتھ واک کرنے کی تو،،، منال اور میں کزن بھی ہیں اگر وہ مجھے کہیں پر باہر یا پھر کسی بھی جگہ ملے گی مجھ سے خود سے ہی بات کرے گی تو میں نہیں سمجھتا اس سے تمہیں خطرہ لاحق ہونا چاہیے،، بلکہ یہ بات اپنے مائنڈ میں رکھنی چاہیے میری اس سے بے شک کمٹمنٹ رہی ہو مگر وہ میری خالہ زاد بھی ہے۔۔۔ رہی بات ڈنر کی تو اس نے مجھے ڈنر کا بولا مگر میں نے اسے منع کردیا۔۔۔ چلو اب تم مجھے بتاؤ کہ یہ سب باتیں تمہیں کس نے بتائی"
نمیر نے ایک ایک بات اس کو واضح کرتے ہوئے آخر میں جاننا چاہا کہ آخر کون عنایہ کو اس سے بد گمان کر رہا ہے
"نہال بھائی نے"
عنایہ کے منہ سے نہال کا نام سن کر بھی وہ چونکا یعنیٰ نہال اور منال مل کر۔۔۔۔ اسے تھوڑی دیر پہلے نہال کے بیڈروم میں عنایہ کے پینڈینٹ کا بھی مطلب سمجھ میں آیا
"عنایہ یہاں دیکھو میری طرف اور میری بات غور سے سنو۔۔ میاں اور بیوی کے رشتے کو کامیاب بنانے کے لیے صرف اس رشتے میں محبت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔۔۔ بلکہ ایک دوسرے پر مکمل اعتماد ہی اس رشتے کو مضبوط بناتا ہے بلکہ میرا ماننا ہے کسی بھی رشتے کی پائیداری اعتماد سے ہی ممکن ہے اور میں تم سے اپنا ایسا ہی رشتہ بنانا چاہتا ہوں۔۔۔ ہمارے رشتے میں محبت کے علاوہ ہمیں ایک دوسرے کا اعتبار بھی حاصل ہو۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ ایسا رشتہ قائم کرنا چاہوں گی"
نمیر بیڈ پر لیٹے ہوئے عنایہ کا ہاتھ تھام کر اسے پوچھنے لگا جس پر عنایہ نے مسکرا کر اقرار میں سر ہلایا۔۔۔ نمیر مسکرا کر اپنی پاکٹ سے عنایہ کا پینڈینٹ نکال کر اس کے گلے میں پہنانے لگا
"یہ۔۔۔ یہ آپ کو کہاں سے ملا، میرا مطلب ہے آپ کے پاس کیسے آیا"
عنایہ کو اپنا پینڈینٹ دیکھ کر خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی
"تم بتاو، کہاں گھما دیا تھا میرا دیا ہوا گفٹ۔۔۔ کتنے پیار سے لایا تھا یہ میں تمہارے لیے"
نمیر یونہی لیٹے ہوئے آنکھوں میں مصنوعی ناراضگی لاکر عنایہ سے پوچھنے لگا
"یہ پینڈینٹ تو اس رات ان لڑکوں نے دوسری چیزوں کے ساتھ لے لیا تھا،، جب نہال بھائی کی گن پوائنٹ پر گاڑی چھینی تھی۔۔۔ مگر یہ آپکو کہاں سے ملا"
عنایہ افسوس سے نمیر کو بتاتی ہوئی دوبارہ نمیر سے پینڈینٹ کے بارے میں پوچھنے لگی
"چھوڑو اس بات کو یہ کہاں سے ملا،، اسے ہمیشہ پہنے رکھنا،، تمہیں تمہاری چیز دوبارہ مل گئی بس اس بات پر خوش ہو جاؤ"
نمیر کو جو باتیں نہال کے بارے میں سمجھ آ رہی تھی اس سے نمیر کو دلی طور پر بہت افسوس ہوا۔۔۔ اس کا بھائی عنایہ کو اس سے الگ کرنے کے لئے اس حد تک جا سکتا ہے ایسا نمیر کبھی نہیں سوچ سکتا تھا مگر وہ عنایہ کو نہال کے بارے میں کچھ بھی بول کر عنایہ کی نظروں میں اپنے بھائی کا امیج نہیں گرا سکتا تھا اس لیے بات کو ٹال گیا۔۔۔ عنایہ اپنے گلے پہنے ہوئے پینڈینٹ کو دیکھتی ہوئی مسکرا کر بیڈ سے اٹھی ویسے ہی باہر بادل بہت زور سے گرجا۔۔۔۔ عنایہ تیزی سے بیڈ پر لیٹے ہوئے نمیر کے سینے سے جا لگی
2.5 k like k bad part b post kardia jaye ga ahem ahem epi... Tooba tooba kar k pharna wale part B se gurhaiz karin🙏
Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 40 (B)
"نمیر اب کیا ہوگا"
وہ نمیر کے سینے سے لگی خوفزدہ ہوکر نمیر سے پوچھنے لگی
"تم بتاؤ اب کیا ہونا چاہیے"
نمیر نے بیڈ پر لیٹے لیٹے عنایہ کو اپنے حصار میں لے کر اسے تحفظ کا احساس فراہم کرتے ہوئے الٹا اس سے سوال کیا
"نمیر مجھے ڈر لگ رہا ہے"
وہ نمیر کے دونوں بازوں کو تھامے خوفزدہ ہو کر بولی کیوکہ باہر تیز بارش شروع ہوچکی تھی
"کس سے مجھ سے یا پھر برسات سے"
عنایہ کے خوشبو میں بسے ہوئے وجود کو بیڈ پر لٹانے کے بعد اس پر جھکتا ہوا پوچھنے لگا
"خوف سے میری جان ہلکان ہوئے دے رہی ہے اور آپ ہیں کہ۔ ۔۔"
نمیر کے ہونٹ گردن کے بعد سینے پر محسوس کرکے باقی لفظ اس کے منہ میں ہی دم توڑ گئے
"تمہاری یہ قربت میری جان بھی تو ہلکان کر رہی ہے میری جان"
نمیر اسکی خوشبو کو اپنی سانسوں اتارنے کے بعد اب عنایہ کی سانسوں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتار رہا تھا
"نمیر"
جیسے ہی نمیر نے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخشی عنایہ نے بند آنکھوں کے ساتھ اسکا نام پکارا۔ ۔۔
سردی کے موسم میں اسکے ماتھے پر ننھی ننھی پسنے کی بوندھے اسکے خوف اور گھبراہٹ کا پتہ دے رہی تھی۔۔ ہاتھ کے انگوٹھے سے نمیر نے اس کے ماتھے سے ان بوندو کو صاف کیا
"آج اس برساتی رات میں میرا وعدہ ہے کہ میں تمہیں بالکل ڈرنے نہیں دو گا۔۔۔ تم اپنے سارے خوف کو بھلائے صرف اور صرف میری شدتوں کو محسوس کرو گی"
نمیر عنایہ کو بولتا ہوا اٹھ کر بیٹھا اور اپنی شرٹ اتارنے لگا تبھی عنایہ شرم سے رخ پھیر کر لیٹ گئی۔۔۔ جب نمیر نے عنایہ کی شرٹ کی زپ کھولنے کی گستاخی کی تو عنایہ نے زور سے انکھیں میچ لی۔۔۔ اب وہ باہر تیز طوفانی بارش کو بھلائے،، اپنی کمر پر نمیر کی انگلیوں اور ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرنے لگی،، نمیر کی انگلیاں اسکی کمر کو چھوتی ہوئی دونوں شانوں تک آئی بالوں کو ہٹا کر دوسری گستاخی پر عنایہ کا دل زور سے دھڑکا۔۔۔ اس نے تکیہ کو دونوں مٹھیوں میں دبوچا
"نمیر پلیز لائٹ آف کریں"
عنایہ کی کانپتی ہوئی آواز نمیر کے کانوں میں ٹکرائی۔۔۔ وہ اسکی کیفیت کے مدنظر اسکی بات ماننے کو مجبور ہوا عنایہ کو کمفرٹر اڑھا کر نمیر لائٹ آف کرنے اٹھا
اسکے موبائل پر نہال کی کال آنے لگی جسکو دیکھ کر وہ کافی بد مزہ ہوا اسکی کال کاٹ کر اپنے موبائل آف کرنے کے بعد وہ روم کی لائٹ آف کر کے وہ دوبارہ بیڈ پر عنایہ کے پاس آیا اور لیمپ کی مدھم روشنی میں عنایہ کو دیکھنے لگا
عنایہ رخ موڑے ویسے ہی لیٹی تھی اپنے دونوں ہاتھ کی مٹھیوں سے تکیہ کو دبوچے۔۔۔
نمیر نے آئستگی سے اسکے ہاتھ تکیہ سے ہٹائے اور بہت نرمی سے اسکا رخ اپنی طرف کیا تو عنایہ نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔۔۔ شرمانے کی اس ادا پر نمیر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
"اسطرح شرما کر تو تم مجھے مزید شرارت کرنے پر آمادہ کر رہی ہو"
نمیر اس پر جھکتا ہوا بولا۔ ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف عنایہ کی زبان اب تالو سے چپک چکی تھی
"مجھے نہیں معلوم تھا کوئی شوہر اتنا شریف بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اپنے ہی بیوی سے سچی والی محبت ہوجائے۔۔۔ بہت پیار کرنے لگا ہو میں تم سے حسین لڑکی۔۔۔ اس دنیا میں اب تم سے زیادہ حسین شاید ہی کوئی اور لگے"
نمیر اس کے کانوں میں رس گھولتا ہوا اسے کسی قیمتی متاع کی طرح اپنے اندر سمائے۔۔۔عنایہ پر اپنی محبت کی برسات کرنے لگا۔۔۔
عنایہ اپنا سارا ڈر سارا خوف بھلائے نمیر کی نچھاور کردہ محبت کی برسات میں بھیگ رہی تھی۔۔ نمیر کی دسترس میں وہ خود کو نہ صرف محفوظ بلکے خوش بخت بھی محسوس کر رہی تھی۔۔۔ نمیر کی قربتوں کے سبب وہ باہر ہونے والی برسات سے غافل ہوگئی۔۔۔۔ پوری رات برسات کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا،، اسی طرح نمیر بھی آوارہ بادل کی طرح وقفے وقفے سے عنایہ پر اپنی محبت کی بارش کرتا ہے
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 41
عنایہ کی آنکھ کھلی تو اس کی پشت نمیر کے سینے سے لگی ہوئی،، جبکہ نمیر کا ہاتھ اسکے گرد لپٹا ہوا تھا نمیر خود سکون کی نیند سو رہا تھا۔۔۔ ساری رات بارش کے بعد ایک حسین صبح ان دونوں کی منتظر تھی۔۔۔ عنایہ نے دیوار پر ٹنگی گھڑی میں ٹائم دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی،، صبح کے دس بج رہے تھے اور وہ دونوں ہی ابھی تک سوئے ہوئے تھے
اس نے کمفرٹر ہٹانے کے بعد نمیر کا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹا کر اٹھنا چاہا۔ ۔۔ تو نمیر نے اس کے اوپر اپنی ٹانگ بھی رکھ دی۔۔۔ وہ کل رات کی طرح اس وقت بھی مکمل نمیر کے حصار میں تھی۔۔۔ عنایہ نے ایک بار پھر خود کو اس کے حصار سے نکالنا چاہا مگر نمیر کی گرفت اتنی کمزور ہرگز نہیں تھی۔۔۔ وہ شاید کل رات کی طرح نیند میں بھی اسے اپنی پناہوں میں رکھنا چاہتا تھا
"اوفو کیا مسئلہ ہے خاموشی سے لیٹی رہو"
اب کی بار مزاہمت پر نمیر نیند میں ڈوبی آواز میں اسے ڈپٹتے ہوئے بولا
"آپ جاگ رہے ہیں نمیر،، ذرا ٹائم دیکھے کیا ہوگیا ہے"
کیوکہ عنایہ کے پشت اس کی طرف تھی اس لئے عنایہ کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ نمیر کب جاگا۔۔ نمیر تھوڑا سا سر اٹھا کر دیوار پر گھڑی میں ٹائم دیکھنے لگا
"یار دس بج گئے صبح کے،، آفس کے لیے تو لیٹ ہوگیا میں۔۔۔ تم نے بھی کل ساری رات جگائے رکھا ہے مجھے"
نمیر ٹائم دیکھنے کے بعد عنایہ کے اوپر سے اپنا ہاتھ اور پاؤں ہٹاتا ہوا بولا۔۔۔۔ تو عنایہ نے کروٹ لے کر حیرت سے اسے دیکھا
"میں نے آپ کو جگائے رکھا،،، نمیر کل ساری رات آپ نے مجھے سونے نہیں دیا"
اپنے اوپر لگے الزام پر تڑپ کر عنایہ اس کو دیکھ کر بولی مگر نمیر کی اپنی طرف اٹھتی نظریں اور اپنی بات کا مفہوم سمجھ کر وہ خود نظریں جھکا گئی
"پہل تم نے کی،، ہوش کل رات کو تو نے میرے اڑائے۔۔۔ پھر میں بھلا کیسے تمہیں سونے دیتا"
چہرے پر آئے عنایہ کے بالوں کو وہ پیچھے کرتا ہوا بہت گہری نظروں سے عنایہ کو دیکھ کر بولا۔۔۔ عنایہ کا جھکا ہوا سر شرم سے مزید جھک گیا۔۔۔ نمیر کی نظریں اپنے اوپر محسوس کر کے وہ بیڈ سے اٹھنے لگی تبھی نمیر نے اس کا ہاتھ پکڑا
"کہاں جا رہی ہو ابھی یہی لیٹی رہو نہ تھوڑی دیر۔۔۔ آفس سے لیٹ تو ہوچکا ہو ویسے بھی"
وہ عنایہ کے شرمائے ہوئے روپ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔ وہ نمیر سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی
"اتنی دیر تک بیڈ روم کا دروازہ بند رہے گا تو باہر سب لوگ کیا سوچے گے"
عنایہ سر جھکائے نمیر سے بولی
"باہر سب لوگ کیا سوچیں گے یہ تمہیں سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ویسے بھی میں سوچ رہا ہوں اتنے رومنٹک موسم میں آفس جانے کی بجائے اپنی بیوی کے ساتھ اس موسم کو انجوائے کرنا چاہیے"
نمیر عنایہ کو بانہوں میں لیتا ہوا بولا
"جی نہیں آپ شرافت سے آفس جا رہے ہیں اور میں کچن میں۔۔۔ ویسے بھی آپکے آفس جانے کے بعد مجھے اپنی نیند پوری کرنی ہے"
نمیر کا پلان سن کر،، عنایہ ایک دم پیچھے ہوئی۔۔۔ رومانٹک موسم کو انجوائے کرنے کا مطلب۔۔۔ نمیر کا یقیناً کل رات والے موڈ میں واپس آنا تھا۔۔ جس کے لیے عنایہ فوری طور پر بالکل تیار نہیں تھی اپنے آخری جملے پر عنایہ کی نظریں مزید جھک گئی
"ٹھیک ہے اگر تم اپنی نیند ابھی پوری کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں تو پھر میں آج رات کو بھی کوئی ایکسکیوز نہیں سنو گا"
وہ عنایہ کا گال لبوں سے چھوتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر واش روم چلا گیا کیوکہ آج وہ افس کا آف نہیں کرسکتا تھا۔۔ عنایہ اپنے بالوں کا جوڑا بناتی ہوئی نمیر کی بات پر اپنے ہی اندر سمٹنے لگی اب اسے آفس کا ڈریس نکالنے کے بعد نمیر کے لیے ناشتہ بنانا تھا
****
ناشتے کی ٹیبل پر نہال آیا تو نمیر اور عنایہ پہلے سے ہی وہاں پر موجود تھے
کل رات برستی ہوئی بارش نے اسے ساری رات بے چین رکھا اپنے کمرے میں اسے گھٹن کا احساس ہوا تو وہ ہال میں نکل کر آیا۔۔۔ بھٹک بھٹک کر اس کی نگاہیں نمیر کے کمرے کے بند دروازے پر جا رہی تھی۔۔۔ وہ تو یہ سمجھ رہا تھا عنایہ کا پینڈینٹ اسکے بیڈ پر دیکھنے کے بعد نمیر غصے میں بے قابو ہو جائے گا۔۔۔ وہ عنایہ سے سوالات پوچھے گا اور عنایہ کا دل اس سے برا ہوگا۔۔۔ پھر وہ عنایہ پر اور بگڑتی ہوئی سچویشن پر آسانی سے قابو پا لے گا
مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ اور اب تو تیز بارش بھی برس رہی تھی۔۔۔۔ وہ منتظر تھا بارش سے عنایہ کے ڈرنے اور رونے کی آوازوں کا۔۔۔ مگر وہاں تو گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔۔۔ نمیر عنایہ کے پاس موجود تھا۔۔۔ تو کیا وہ اس پر غصہ نہیں کر رہا تھا۔۔۔ وہ اس کا ڈر پیار سے ختم کر رہا تھا۔۔۔ یہ سب سوچ کر نہال نے نمیر کا نمبر ملایا۔۔۔ مگر دو بیلز کے بعد اس کی کال کاٹ دی گئی اور موبائل بند کردیا گیا۔۔۔ نہال کے دماغ میں آنے والی سوچیں اسے جھلسائے دے رہی تھی۔۔۔ اور فرحین بار بار اس کے سامنے آ کر قہقہے لگا کر اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔۔۔ جب تک بارش جاری رہی نہال ساری رات ان دیکھی آگ میں جلتا رہا اس وجہ سے صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی
"آج تم دونوں بھی ناشتے کے لیے لیٹ ہوگئے"
نہال چیئر پر بیٹھ کر اپنے آپ کو فریش ظاہر کرتا ہوا ان دونوں سے مخاطب ہوا
"ہاں کل رات کو کافی لیٹ سونا ہوا ہم دونوں کا"
نمیر نے نہال کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ نمیر کے جواب پر نہال نے چائے کا کیٹل کا ہینڈل کو مضبوطی سے تھاما اور اپنے لئے چائے نکالنے لگا جبکہ عنایہ نمیر کی بات سن کر اپنا سر پلیٹ میں جھکا گئی
"ماما نہیں آئی ناشتے کے لیے طبیعت ٹھیک ہے ان کی"
وہ اپنے آپ کو نارمل پوز کرتا ہوا عنایہ کی طرف دیکھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ مگر عنایہ کے گلے میں پیندینٹ دیکھ کر ایک پل کے لئے ٹھٹھکا
"ہاں ماما کہہ رہی تھی تھوڑی دیر بعد ناشتہ کریں گی۔۔۔ عنایہ ان کو ناشتہ کرا دے گی،،، تم فکر نہیں کرو"
ابھی بھی جواب عنایہ کی بجائے نمیر کی طرف سے ہی آیا اب نمیر بھی عنایہ کو دیکھنے لگا
"عنایہ اپنی ڈائٹ پر دھیان دیا کرو۔۔۔ میں نوٹ کرتا ہوں تم کسی دوسرے کے سامنے ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتی۔۔۔ ریلیکس ہو کر ناشتہ کرو جیسے پہلے کر رہی تھی"
نمیر عنایہ کا ٹیبل پر رکھا ہوا ہاتھ تھام کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ نہال کا عنایہ کا پینڈینٹ دیکھنا نمیر نوٹ کر چکا تھا۔۔۔ اسے ذرا شرم نہیں آئی کہ اس حرکت سے اگر نمیر غصہ ہوتا اور ثروت کی طبیعت بگڑتی تو نقصان ان دونوں بھائیوں کا ہوتا۔۔۔ آگر نہال عنایہ اور اس میں پھوٹ ڈلوا کر خود اسکی جگہ لینا چاہتا تھا۔۔۔ تو یہ نہال کی خام خیالی تھی۔۔۔ نمیر نے بھی تہیا کرلیا کہ وہ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا
"تم اس کے ساتھ بچوں جیسا بی ہیو کر رہے ہو عنایہ بچی نہیں ہے۔۔۔۔ اگر اسے بھوک لگے گی تو وہ ٹھیک سے کھانا کھائے گی۔۔ کوئی بھی انسان بلاوجہ بھوکا نہیں رہ سکتا"
نہال خود بھی ناشتہ کرتے ہوئے نمیر سے بولا
"وہ بچی نہیں ہے مگر میری بیوی ہے۔۔۔ اس کا ہر طریقے سے مجھے ہی دھیان رکھنا ہے۔ ۔۔ ہسبینڈ اور وائف کا رشتہ ایسا ہی ہونا چاہیے جس میں وہ ایک دوسرے کی فکر کریں خیال رکھیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کریں تاکہ کوئی دوسرا شخص ان کے بیچ میں بدگمانی نہیں پیدا کر سکے" نمیر کی بات سن کر نہال نے سر اٹھا کر نمیر کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا بلکہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ جتا رہا تھا۔۔۔ نہال سمجھ گیا اس کا اشارہ کس طرف ہے وہ یقیناً عنایہ کے پینڈینٹ کو دیکھ کر یہ سب کہہ رہا تھا عنایہ کا ہاتھ اس نے ابھی بھی تھاما ہوا تھا نہال کو یہ منظر تکلیف دینے لگا
"آج واپسی پر آفس سے آتے ہوئے میں تمہارے لئے فارم لے کر آؤ گا یونیورسٹی میں ایڈمشن اسٹارٹ ہوگئے ہیں بہت عیش ہوگئی تمہاری،،، اب دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی اسٹڈی بھی کنٹینیو کرو"
نمیر اب دوبارہ عنایہ کو دیکھتا وہ بالکل نورمل انداز میں بات کرنے لگا جس پر عنایہ نے سر اٹھا کر نمیر کو دیکھا
"نمیر میں ایک سال گیپ لینا چاہتی ہو اس کے بعد کنٹینو کرو گی اپنی اسٹڈی"
پورے عرصے میں عنایہ اب نمیر کو دیکھتی ہوئی بولی
"کوئی ضرورت نہیں ہے گیپ کی۔۔ گیپ کے بعد اسٹڈی کنٹینیو کرنا مشکل لگے گا۔۔ ویسے بھی نیکسٹ آئیر ہم اپنا بےبی پلان کریں گے"
نمیر کے آخری جملے پر جہاں عنایہ نے سٹپٹا کر دوبارہ اپنا سر پلیٹ میں جھکا لیا وہی نہال ایک دم کرسی کسکا کر اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔ نہال کے جانے کے بعد اب عنایہ بلش کرتی ہوئی نمیر کر دیکھ رہی تھی وہ بھی آنکھوں میں شرارت لیے ناشتہ چھوڑ کر عنایہ کو دیکھنے لگا
"کسی دوسرے کے سامنے خیال تو کر لیا کریں، ایسے بولتا ہے کوئی"
عنایہ کے انداز پر نمیر کو زور سے ہنسی آئی
"وہ بچہ تھوڑی ہے کوئی،، اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ ہم ہسبنڈ وائف ہیں" نمیر نے بولتے ہوئے عنایہ کے آگے اپنا چائے کا مگ رکھا تو عنایہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی
"اب تم سے کہوں گا شوگر جار لے کر آو تو تم مجھے گھور کر دیکھوں گی۔۔۔ اس لیے میری چائے میں سے دو سپ لے لو تاکہ چائے میں مٹھاس محسوس ہو اور میرا سارا دن آفس میں اچھا گزرے"
نمیر کی بات سن کر عنایہ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔۔۔ وہ واقعی اپنی چائے کا مگ کسی کو نہیں دیتا تھا۔۔۔ مگر وہ تو اس کی اپنی تھی
"چلو تم اب مجھے اچھے طریقے سے بائے بولو تاکہ میں آفس جا سکوں" ناشتے سے جب وہ دونوں فارغ ہوئے تو نمیر نے عنایہ کے ہونٹوں کو دیکھ کر ایک نئی فرمائش کی جس پر عنایہ جھینپ گئی
"کیا ہوگیا ہے نمیر آپ کو،، آپ پہلے ہی اچھا خاصا لیٹ ہو چکے ہیں"
عنایہ اسے آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی جو اسے شوخ نظروں سے دیکھا جا رہا تھا
"جب تک تو مجھے بائے نہیں بولو گی میں آفس جانے والا نہیں"
نمیر نے اس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کیے اور اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ویسے ہی کچن سے حمیدہ گنگناتی ہوئی باہر آئی۔۔ نمیر جلدی سے پیچھے ہوا اور عنایہ مسکرانے لگی
"تھینکس حمیدہ بائے بائے نمیر۔۔۔ اب آپ آفس جائیں"
عنایہ حمیدہ کو اور پھر نمیر کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ حمیدہ ہونقوں کی طرح جبکہ نمیر عنایہ کو ابرو اچکا کر دیکھنے لگا
"حمیدہ کچن میں جو واپس اور پانچ منٹ سے پہلے تمہیں کچن سے نکلتا ہوا نہیں دیکھو"
نمیر حمیدہ کو باروعب لہجے میں بولا وہ سر ہلاتی ہوئی فوراً کچن میں چلی گئی۔۔۔ آب نمیر انگلی کے اشارے سے عنایہ کو اپنے قریب بلانے لگا
"آپ واقعی بہت گندے بچے ہیں نمیر"
عنایہ منہ ہی منہ میں منمناتی ہوئی نمیر کے قریب آئی تو اس نے دوبارہ عنایہ کی کمر میں بازو ڈالے۔۔۔ عنایہ جیسے ہی اپنے ہونٹ نمیر کے گال کے قریب لائی مگر نمیر اس کے ہونٹوں پر اپنا ہونٹ رکھ چکا تھا
"صاحب جی آجاو پانچ منٹ ہوگئے ہیں"
حمیدہ کی آواز کچن سے آئی تو نمیر عنایہ سے دور ہوا۔۔۔ وہ عنایہ کے چہرے پر بکھرے شرم کے رنگ دیکھکر اسمائل دیتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا
"حمیدہ باہر آجاو نمیر یہاں پر نہیں ہے وہ تو کب کے چلے گئے"
عنایہ حمیدہ کو بولتی ہوئی ٹیبل پر سر جھکا کر چائے کے مگ اٹھانے لگی
"تو نمیر صاحب نے آپ سے ضروری بات نہیں کی جس کے لئے انہوں نے مجھے کچن میں بھیجا تھا"
حمیدہ کی بات سن کر عنایہ نے سر اٹھا کر حمیدہ کو دیکھا مگر وہ اس کے تاثرات سے اندازہ نہیں لگا پائی کہ یہ بات حمیدہ نے کس انداز میں عنایہ سے بولی ہے
"چلو آنٹی سے پوچھ کر آؤ وہ ناشتہ کریں گی تو ان کے لیے کارن فلیکس بنا دو"
عنایہ حمیدہ کو بولتی ہوئی کچن میں چلی گئی جبکہ حمیدہ مسکراتی ہوئی اپنی شرمیلی سی چھوٹی بی بی کو دیکھ کر ثروت کے کمرے میں چلی گئی
****
"کتنا شیشے میں اتارا ہے تم نے اب تک نمیر کو۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ تمہاری ایکٹنگ کچھ کر پائے گی"
نہال آفس میں بیٹھا ہوا موبائل پر منال سے بولا آج صبح ناشتے کی ٹیبل پر اسے عنایہ اور نمیر کا رشتہ پہلے سے زیادہ مضبوط لگا۔۔۔ نمیر کی محبت بھری نظروں سے عنایہ کو دیکھنا، اس کی فکر کرنا، اس کا ہاتھ پکڑنا اور سب سے بڑی بات عنایہ کے گلے میں نمیر کا دیا ہوا پینڈینٹ،،، یہ سب نہال کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا
"کیا تم اپنے بھائی کو جانتے نہیں ہو۔۔۔ وہ اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والی چیز ہرگز نہیں ہے،، مگر پھر بھی میں نمیر کی زندگی سے عنایہ کو الگ کر دوں گی کیوکہ تم مجھے بھی نہیں جانتے ہو"
منال اس وقت ایئرپورٹ پر موجود تھی اس کی واپسی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوئی تھی
"جو بھی قدم اٹھانا ہوگا جلدی اٹھانا ہوگا۔۔۔۔ بہت زیادہ دیر ہوگئی تو ہم دونوں کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا"
نہال منال کو سمجھانے لگا
"تو پھر تم ایسا کرو عنایہ کا کڈنیب کروا لو۔۔۔ تین چار دن تک جب لڑکی کا کچھ اتا پتہ نہیں ہوگا تو اس کو اسکا شوہر تو کیا یہ معاشرہ بھی قبول نہیں کرتے گا"
منال نے نہال کو آسان سا حل بتاتے ہوئے ٹیکسی کو ہاتھ دے کر روکا اور ٹیکسی میں بیٹھ گئی
"بوکس آئیڈیا۔۔۔مجھے اسے حاصل کرنا ہے، اپنے آپ سے بدگمان نہیں"
نہال کو لگا اس دو پیسے کی اداکارہ سے کچھ بھی نہیں ہو پائے گا
"تو ٹھیک ہے اگر اسے خود سے بدگمان نہیں کر سکتے تو پھر اسے نمیر سے بدگمان کردو۔۔۔ یہ بھی چھوڑو یہ کام آج میں ہی کردیتی ہو"
منال نے نہال کو بولنے کے ساتھ کال کاٹی۔۔۔ اب وہ اپنے گھر جانے کی بجائے عنایہ سے ملنے کا ارادہ رکھتی ہے
***
ثروت کو ناشتہ کروا کے حمیدہ سے گھر کا کام کروانے کے بعد عنایہ اپنے بیڈروم میں سونے کے غرض سے جانے لگی۔۔۔ تبھی اسے گھر کے اندر منال آتی ہوئی دکھائی دی اسکے پاس چھوٹے سائز کا سوٹکیس کے علاوہ نمیر کی جیکٹ بھی تھی شاید تو اسلام آباد سے سیدھا یہی واپس آئی تھی
"کہاں ہے نمیر"
منال عنایہ کو دیکھتی ہوئی ایسے پوچھنے لگی جیسے بات کر کے وہ گویا اسی پر احسان کر رہی ہو
"نمیر تو اس ٹائم آفس میں موجود ہوتے ہیں"
عنایہ منال کے ہاتھ میں نمیر کی جیکٹ کو دیکھتی ہوئی کہنے لگی
"وہ آئے تو اسے یہ جیکٹ دے دینا میرے روم میں بھول گیا تھا"
منال نے جیکٹ کو عنایہ کی طرف اچھالتے ہوئے کہا۔۔۔ عنایہ اگر جیکٹ نہیں پکڑتی تو اس کے منہ پر لگتی
"کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا"
عنایہ کو منال کی بات ناگوار گزری تبھی وہ ایک دم بولی
"اب تک تو تمہارے مطلب سمجھ میں آجانے چاہیے کنواری کہاں ہو تم،، تین ماہ ہو جائیں گے تمہیں شادی کو۔۔ اب تک نمیر کی نیچر کا اندازہ نہیں ہوا کتنا رومینٹک ہے وہ۔۔۔ یوں سردیوں کی راتیں میرڈ آدمی تنہا کہاں گزار سکتا ہے۔۔۔ اس لئے وہ میرے روم میں کمپنی لینے کے لئے آ گیا تھا"
منال عنایہ کے قریب آتی ہوئی بولی عنایہ نمیر کی جیکٹ پکڑے منال کو دیکھنے لگی
"ہم نے پرانے دنوں کی یادیں تازہ کر کے بہت انجوائے کیا۔۔۔ نمیر مجھ سے کہہ رہا تھا کبھی کبھی ٹیسٹ چینج کرنے میں کوئی برائی بھی نہیں ہے" منال عنایہ کو دیکھ کر مسکراتی ہوئے بتانے لگی عنایہ ناگوار نظروں سے منال کو دیکھنے لگی
"معلوم ہے اس وقت نمیر کس کرتے ہوئے بہت اچھا لگتا ہے جب وہ۔۔۔
منال جیسے ہی عنایہ سے سرگوشی کے انداز میں بولی تب عنایہ بول پڑی
"پلیز آپی چپ ہو جائے۔۔۔ مت اتنا گرائے اپنے آپکو کو میری نظروں میں"
عنایہ کو رونا آنے لگا مگر وہ ضبط کرتی ہوئی بولی
"ارے جانو اب رونا مت،، ہم دونوں کزنز تو ہیں۔۔۔ اگر مل بانٹ کر کچھ یوز کرلیں گے تو اس میں ہرج کیا ہے"
منال عنایہ کو دیکھ کر آنکھ مارتی ہوئی بولی
"اس وقت آنٹی آرام کر رہی ہیں اور میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ آپ یہاں سے چلی جائے پلیز"
منال عنایہ کو بولتی ہوئی اپنے بیڈروم میں چلی گئی
****
اپنے بیڈ روم میں آکر عنایہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جیکٹ پر نظر ڈالی۔۔۔ جس میں سے لیڈیز پرفیوم کی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔ جیکٹ کے کالر پر لپ اسٹک کے نشان پر عنایہ کی نظر گئی اس نے جیکٹ کو اچھال کر دور پھینکا
کل رات ہی اس کے اور نمیر کے بیچ ایک جائز رشتہ قائم ہوا تھا اور آج صبح ہی۔۔۔
"میاں بیوی کے رشتے میں صرف محبت کا ہونا ضروری نہیں۔۔۔۔ بلکہ ایک دوسرے کے مکمل اعتماد سے یہ رشتہ مضبوط رہتا ہے"
عنایہ کو نمیر کی کل رات والی بات یاد آئی۔۔۔۔ وہ منال کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہتی تھی مگر کوئی لڑکی اتنی بڑی بات اپنے بارے میں کیسے کہہ سکتی ہے۔۔۔ مگر نمیر،، عنایہ کا دل نہیں مان رہا تھا کہ نمیر اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔۔۔ پھر یہ نمیر کی جیکٹ،، یہ جیکٹ کیا کر رہی تھی منال کے پاس۔۔۔ یہ سب سوچیں عنایہ کو الجھانے لگی۔۔۔ وہ بیڈ پر آکر لیٹی،، نیند تو اب اسے کیا ہی آنی تھی یہ سب سوچ کر اس کا سر مزید بھاری ہونے لگا
****
"اقبال ذرا یہاں آ کر یہ دروازہ کھولو شاید بند رہنے کی وجہ سے یہ جام ہو چکا ہے"
شانزے اقبال (ملازم) کو آواز دیتی ہوئی بولی
کل رات فریدہ نے نوفل اور اسے اپنے اور خرم کے پاکستان آنے کی خبر سنائی۔۔۔ نوفل بہت خوش تھا۔۔۔ وہ صبح ناشتے پر ہی شانزے کو خرم اور فریدہ کے بیڈ رومز کی صفائی کروانے کی ہدایت دے گیا تھا۔۔۔ ان لوگوں کی شام کی فلائٹ تھی۔۔۔ نوفل واپسی پر فریدہ اور خرم کو لیتا ہوا گھر آتا
نوفل کے نکلنے کے بعد شانزے نے فرید اور خرم کے رومز کی صفائی کروائی ساتھ ہی دوسرے رومز کی بھی صفائی کر کے سیٹنگ چینج کی اور سارا فالتو کا سامان اور ایک پینٹنگ جو کہ اس کے بیڈروم میں ٹنگی رہتی تھی وہ اٹھا کر اسٹوروم میں رکھنے لگی مگر اسٹوروم کا دروازہ اس سے کھل نہیں رہا تھا
"لائیے باجی یہ سب سامان اسٹور میں، میں رکھ دیتا ہوں اندر کافی گرد مٹی ہوگی"
اقبال شانزے کو دیکھتا ہوا کہنے لگا وہ اسٹور کا دروازہ کھلنے پر ناک پر اپنا دوپٹہ رکھے کھڑی تھی
"اف یہاں پر تو کافی کاٹھ کباڑ جمع ہے،، اسٹور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اسے صاف ہی نہیں رکھا جائے جاو ایک بڑا شاپر لے کر آؤ یہ ساری فالتو کی چیزیں نکال کر گھر سے دور کرو"
شانزے اسٹور میں جاتے ہوئے اقبال سے بولی اب وہ اسٹور میں جاکر ٹوٹے بکھرے سامان کا جائزہ لینے لگی جبکہ اقبال سارا کاٹھ کباڑ ایک طرف جمع کر رہا تھا
"اس ٹرنگ میں کیا موجود ہے"
ایک بڑے سے ٹرنک کو دیکھتے ہوئے شانزے اقبال سے پوچھنے لگی
"اس میں تو نوفل بھائی کے پرانے کپڑے۔۔۔ بستر وغیرہ موجود ہیں"
اقبال سارا ٹوٹا ہوا سامان شاپر میں ڈالتا ہوا شانزے کو بتانے لگا
شانزے نے ٹرنک کھولا تو ایک بدبو کا بھپکا اس کی ناک سے ٹکرایا۔۔۔ وہ دوبارہ اپنا دوپٹہ منہ پر رکھ کر کھانسنے لگی
"تمہارے نوفل بھائی کو تو کباڑی کی دکان کھول لینی چاہیے بلاوجہ میں ایس۔پی بن گئے ہیں"
شانزے اقبال سے بولتی ہوئی ٹرنج سے پرانے کپڑے اور بیڈ شیٹ نکال کر ایک جگہ جمع کرنے لگی تبھی اس کی نظر ایک شرٹ پر پڑی جو تھوڑی دیر پہلے وہ باہر نکال چکی تھی۔۔۔ ایک گوندھا سا اس کے ذہن میں لپکا بے ساختہ اس نے شرٹ کو اٹھا کر دیکھا
حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی خوف کے مارے ننھی پسینے اسکے ماتھے پر نمودار ہوئی
"یہ شرٹ کس کی ہے اقبال"
وہ اقبال کو دیکھے بغیر، شرٹ کو گھورتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی جس کی فرنٹ کی پاکٹ غائب تھی
"باجی یہ تو نوفل بھائی کی شرٹ ہے شاید خرم بھائی نے دی تھی انہیں،، صحیح سے یاد نہیں"
اقبال شانزے کو بتانے لگا شانزے کو لگا اسے سانس نہیں آئیں گی یا پھر اس کا دل بند ہو جائے گا وہ شرٹ ہاتھ میں لیے بھاگتی ہوئی نائلہ کے کمرے میں آگئی
الماری کھول کر چھوٹا سا پیکٹ نکالنے لگی جس میں "این" الفابیڈ کی پاکٹ موجود تھی
اس شرٹ کو کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بیڈ پر بچھا کر شانزے نے لرزتے ہاتھوں سے وہ پاکٹ شرٹ پر رکھنے لگی۔۔۔ وہ دل میں کتنی دعائیں کرچکی تھی یہ پاکٹ اس شرٹ کی نہ ہو مگر چھ سال گزرنے سے صرف شرٹ کا کلر بدرنگ ہوا تھا وہ پاکٹ اسی شرٹ کی تھی
"نوفل"
جاری ہے
🌹: gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 42
"عنایہ عنایہ آنکھیں کھولو یار کیا ہوا" نمیر کی آواز پر عنایہ کا ذہن بیدار ہونا شروع ہوا عنایہ نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولی تو خود کو بیڈ پر لیٹا اور نمیر کو اپنے اوپر جھکا دیکھا
"کیا ہوگیا میری جان تم ٹھیک ہو"
نمیر عنایہ کی سوجھی ہوئی آنکھوں پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہوا پوچھنے لگا
وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے گھر آیا تھا۔۔۔ گھر آنے کے ساتھ ہی وہ ثروت کے پاس کے روم میں گیا۔۔ ثروت کی خیریت پوچھ کر اپنے بیڈروم میں آیا تو عنایہ کو بے وقت سوتا دیکھا نمیر کو اس کا چہرہ کافی بجھا بجھا لگا جبھی وہ اس کو اٹھانے لگا۔۔ نمیر کے جگانے پر عنایہ نمیر کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹا کر بیڈ اٹھنے لگی
"کیا ہوا تمہیں طبیعت ٹھیک ہے تمہاری"
عنایہ کو بیڈ سے اٹھتا دیکھ کر،، کوئی جواب نہ پا کر۔۔۔ نمیر نے اس کا ہاتھ تھام کر پوچھا عنایہ کا یوں اس کے ہاتھوں کو پیچھے ہٹانا نمیر نے محسوس کیا
"کیا ہونا ہے مجھے، آپ کے سامنے سہی سلامت تو ہوں"
عنایہ اس کا ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی بولی اور واش روم چلی گئی۔۔۔۔ نمیر وہی بیٹھا اس کے رویے پر غور کرنے لگا۔۔۔ نہال ابھی تک آفس میں ہی موجود تھا وہ گھر نہیں پہنچا تھا اور وہ صبح عنایہ کو مسکراتا ہوا چھوڑ کر آفس گیا تھا۔۔۔ ابھی وہ یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی نظر بیڈ کی دوسری سائڈ نیچے فرش پر پڑی اپنی جیکٹ پر گئی
نمیر نے بیڈ سے اٹھ کر اپنی جیکٹ اٹھائی یعنی اس کے پیچھے منال گھر آئی تھی اب اسے عنایہ کا رویہ سمجھ آنے لگا۔۔ اس کی نظر جیکٹ کے کالر پر لپ اسٹک کے نشان پر گئی
اتنے میں عنایہ بھی واش روم سے نکل کر روم میں واپس آئی،، اب وہ نمیر کو اگنور کر کے ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنے بال بنانے لگی تبھی نمیر ماتھے پر شکنیں لاکر اس کے پاس آیا
"کیا کہہ رہی تھی منال تمہیں"
نمیر اپنی جیکٹ صوفے پر اچھالتا ہوا عنایہ کو دیکھ کر پوچھنے لگا مگر عنایہ ایسے اپنے بال بنا رہی تھی جیسے اسے نمیر کی آواز ہی سنائی نہیں دی۔۔۔ تب نمیر نے اس کے ہاتھ سے ہیر برش لے کر ڈریسر پر پٹخا اور عنایہ کا بازو پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا
"کیا پوچھ رہا ہوں میں، سنائی نہیں دے رہا تمہیں کیا کہہ کر گئی ہے منال تمہیں"
نمیر اب سنجیدگی سے عنایہ کو دیکھتا ہوا اپنا سوال دہرانے لگا
"وہی سب کچھ کہہ کر گئی ہیں جو آپ کے اور انکے بیچ معلوم نہیں کب سے چلتا آرہا ہے"
عنایہ اپنی آنکھوں کی نمی پیتی ہوئی بنا خوف نمیر سے بولی
"اچھا کیا چلتا آ رہا ہے اس کے اور میرے بیچ۔۔۔ ذرا مجھے بھی تو معلوم ہو"
نمیر اب اپنا غصہ ضبط کرتا ہوا عنایہ سے پوچھنے لگا
"آپ کو کچھ غلط کر کے شرم نہیں آتی مگر مجھے آپ کے کارنامے آپ کے سامنے کھول کر شرم آئے گی۔۔ آپ کو جو پوچھنا ہے جاکر منال آپی سے خود پوچھ لے"
ضبط کیے ہوئے آنسو صاف کرتی ہوئی عنایہ نمیر سے اپنا بازو چھڑا کر بولی
"ٹھیک ہے اب میں پہلے اپنے کارنامے اس سے پوچھ کر آتا ہوں،، بعد میں آکر تمہارا دماغ درست کرتا ہوں"
نمیر عنایہ کو غصے میں بولتا ہوا کار کی چابی اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔ جتنے فریش موڈ میں وہ آفس گھر آیا تھا اتنی ہی بگڑے ہوئے موڈ میں وہ منال کی خبر لینے فرمان کی طرف چلا گیا
****
"کیا یار تمہیں پورے گھر میں تلاش کر رہا ہوں اور تم یہاں بیٹھی ہو اور یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے۔۔۔ ڈرائیور امی اور خرم کو لے پہنچنے ہی والا ہوگا۔۔۔ کم ازکم کپڑے تو چینج کر لو"
شانزے ڈرائنگ روم میں صوفے پر پاؤں اونچے کئے اپنے گرد شال لپیٹے بیٹھی تھی۔۔۔ نوفل چند منٹ پہلے ہی گھر پہنچا تھا
"میں نے آج تمہارا بہت انتظار کیا ایک ایک پل بہت بھاری محسوس ہو رہا تھا وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا بلکہ آج سے نہیں میں تو کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی اللہ سے بہت دعائیں کی تھی میں نے۔۔۔ کہ وہ مجھے تم سے ایک دفعہ ملوا دے میری دعا کب قبول ہوئی یہ مجھے خود نہیں معلوم ہوا"
وہ نوفل کی بات سنے بغیر اپنی ہی بات کئے جا رہی تھی
"کیا مطلب ہے تمہاری ان باتوں کا میں سمجھا نہیں" نوفل کو واقعی نہیں سمجھ میں آیا کہ شانزے اس سے کیا کہہ رہی ہے
"تمہیں معلوم تھا فرحین آپی میری بہن ہے"
شانزے اپنے سامنے کھڑے نوفل کو دیکھ کر پوچھنے لگی نوفل اس کی بات سن کر چونکا ساتھ ہی اس کے چہرے کا رنگ بھی بدلا۔۔ یہ بات شانزے کو کیسے معلوم ہوئی وہ پریشان تھا
"ہاں یونیورسٹی فیلو تھے ہم۔ ۔۔۔ آنٹی نے اس دن تصویریں دکھائی تو مجھے معلوم ہوا کہ تم فرحین کی بہن ہو۔۔۔ مجھے اس کا بہت دکھ ہے شانزے"
نوفل اب بھی سنبھل کر اصلی بات چھپاتا ہوا بولا اسے شانزے کی ناراضگی کا ڈر تھا اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا شانزے کا دل دکھے
"یہ جیب کا ٹکڑا تمہارا ہے ناں نوفل" شانزے نے اپنا ایک ہاتھ شال سے باہر نکالا اور اس کی طرف جیب کا ٹکڑا اچھالتے ہوئے نوفل سے پوچھا۔۔۔ نوفل نے جھک کر فرش پر گرا ہوا ٹکڑا اٹھایا اور غور سے دیکھنے لگا
"ہاں یہ میری ہی ایک پرانی شرٹ کی جیپ ہے مگر یہ تمہارے پاس کیسے آئی"
نوفل نے غور سے جیب کے ٹکڑے کو دیکھا اور پہچاننے کے بعد شانزے کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔ شانزے کی آنکھوں سے اچانک آنسو ٹپکنے لگے
"یہ جیب مجھے فرحین آپی کے پاس سے ملی، نوفل تم وہ مرد ہو جسے میں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ پیار کیا اور تم ہی نے میری بہن کے ساتھ"
شانزے نے اپنی بات ادھوری چھوڑی اور اپنا شال سے دوسرا ہاتھ نکالا جس میں پسٹل تھی
"شانزے نہیں میری بات سنو میں نے فرحین۔۔۔"
نوفل اس کی بات سن کر پہلے تو شاک میں آیا مگر اس کے کچھ بولنے سے پہلے شانزے نے اس کے اوپر فائر کیا اور نوفل فرش پر گرا شانزے روتی ہوئی خود بھی فرش پر بیٹھ گئی
"شانزے یہ کیا کیا تم نے۔۔۔ اپنی شوہر کو مار ڈالا،،، بے غیرت،، بے حیا ہوش میں تو ہو تم"
نائلہ فائر کی آواز سن کر بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم میں آئی۔۔۔ نوفل فرش پر اوندھے منہ گرا ہوا تھا اسکا خون تیزی سے فرش کو سرخ کر رہا تھا اور شانزے اس سے تھوڑی دور فرش پر بیٹھی آنسو بہاتی ہوئی اسے ہی دیکھ رہی تھی پسٹل شانزے کے قریب پڑا تھا۔۔۔ تبھی نائلہ چیخ کر شانزے کو جھنجوڑتی ہوئی پوچھنے لگی
"آپی کا گناہگار تھا یہ۔۔ امی میرا شوہر میری بہن کا مجرم تھا۔۔۔ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والا درندہ ہی میرا شوہر تھا"
شانزے چیخ چیخ کر روتی ہوئی نائلہ کو بتانے لگی۔۔ نائلہ خود بےیقینی سے سکتے کی کیفیت میں نوفل کو دیکھنے لگی
"شانزے اٹھو جلدی سے اس سے پہلے کوئی یہاں آجائے جلدی سے چلو"
نائلہ ایک دم ہوش میں آ کر فرش پر بیٹھی ہوئی شانزے کو اٹھانے لگی
"نہیں میں کہیں نہیں جا رہی"
شانزے نفی میں سر ہلانے لگی
"پولیس والا ہے یہ پولیس والے پر گولی چلائی ہے تم نے"
نائلہ اپنی قسمت کو روتی ہوئی شانزے کو سمجھانے لگی
"میں اپنے جرم کا اعتراف کروں گی آپ جائیں یہاں سے" شانزے نائلہ کو دیکھتی ہوئی کہنے لگی
"میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں شانزے، خدا کا خوف کر مجھے اس عمر میں ذلیل مت کر۔۔۔ ارے میں کیسے اس عمر میں اس پگلی کو سنبھال پاؤگی چل جلدی سے۔۔۔ اس سے پہلے یہاں کوئی آجائے"
نائلہ شانزے کو گھسیٹتی ہوئی کمرے سے لے گئی
****
"کیسے ہو"
دروازہ ناک کیے بنا نمیر منال کے بیڈروم میں آکر صوفے پر بے تکلفانہ انداز میں بیٹھا۔۔۔ منال اس کے پرانے انداز پر مسکراتی ہوئی اس کی خیریت پوچھنے لگی
"بہت خوش تم سناؤ کیسی ہو"
وہ سامنے رکھی چھوٹی سی ٹیبل پر جوتے رکھ کر مزید ریلکس ہوا
"تم بہت خوش، تو تمہیں دیکھ کر میں بھی بہت خوش" منال مسکراتی ہوئی ایک ادا سے اس کو دیکھ کر بولی
"تو دور کیوں کھڑی ہو قریب آؤ"
وہ منال کے آگے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس سے کہنے لگا منال مسکراتی ہوئی جھٹ سے نمیر کے قریب آئی اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا نمیر نے اسے اپنے قریب بٹھایا
"کیا ہوا آج تمہاری بیوی نے فاصلہ رکھا ہوا ہے جو تم یوں میرے پاس آئے ہو" منال نمیر سے مزید چپکتی ہوئی پوچھنے لگی وہ فلم میں کام کر کے کافی بےباک ہوگئی تھی
"بورنگ لڑکی ہے یار سمجھ نہیں آتا کب کس بات پر موڈ آف کر کے بیٹھ جاتی ہے۔۔۔ آدمی تھکا ہارا گھر پر آتا ہے اور بیوی کا منہ بنا ہو سوچو کیسا فیل کرے گا بندہ"
نمیر بدمزہ ہوتا ہوا بولا۔۔۔ منال کو اپنی چال کامیاب ہوتی لگی،، ڈرپوک عنایہ نے یقیناً منال کے بارے میں نمیر کو کچھ نہیں بولا ہوگا الٹا نمیر سے ناراض ہو کر بیٹھ گئی ہو گی
"تو دفع کرو اسے اپنی زندگی سے کیا ضرورت ہے اتنی لفٹ کرانے کی"
منال بھی منہ بگاڑ کر سر جھٹکتی ہوئی کہنے لگی
"دفع ہی تو نہیں کرسکتا بیوی جو بنا لیا ہے اتنی آسان سے تھوڑی نہ ہوتا ہے چھوڑ دینا"
نمیر صوفے کے پیچھے اپنا سر ٹیکتے ہوئے تھکے انداز میں منال کو کہنے لگا
"اتنا مشکل بھی نہیں ہے اسے چھوڑنا۔۔۔ ایسا کرو تم یہ کام مجھ پر چھوڑ دو۔۔۔ دو دن میں اسے تمہاری زندگی سے نکال سکتی ہو اتنی محبت تو میں تم سے کرتی ہوں نہ" منال نمیر کے سینے پر اپنا خوبصورت رنگین ناخنوں والا ہاتھ رکھ کر اسے ریلیکس کرتی ہوئی بولی
"کیسے نکال سکتی ہوں اسے میری زندگی سے"
نمیر سر اٹھا کر اسے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو منال ایک ادا سے مسکرائی
"کچھ پانے کے لئے حاصل کرنے کے لئے ہم چھوٹی موٹی بے ایمانی تو کر سکتے ہیں ناں"
منال نمیر کے قریب اپنا چہرہ لاتے ہوئے کہنے لگی
"مطلب یہ کہ میں جاکر تمہاری بیوی کو کہہ دیتی ہوں کہ ہم دونوں اسلام آباد میں ایک ہوٹل کے ایک ہی روم میں ایک ساتھ تھے"
منال اسے دیکھتی ہوئی بتانے لگی
"یہ بات تم عنایہ سے جاکر کہو گی یا آج صبح آلریڈی کہہ چکی ہو"
نمیر نے اپنے سینے سے اسکا ہاتھ پکڑ کر دور جھٹکا اور کھڑا ہوگیا
"شیم ان یو منال،، تم اس حد تک گر سکتی ہو۔۔۔ ایسا میں نے کھبی بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔ اپنی باتوں سے اور سوچ سے تم نے ثابت کردیا تم ایک گھٹیا اداکارہ ہی نہیں ایک گھٹیا قسم کی لڑکی ہو"
نمیر کا دل چاہا وہ اسکے منہ پر تھپڑ لگا دے ناجانے وہ عنایہ سے اپنی اور اسکی کتنی جھوٹی اور چیپ باتیں کرچکی ہوگی
"بکواس کر رہی ہے تمہاری بیوی۔۔۔ میں نے اسے ایسا کچھ بھی نہیں کہا"
منال کو اپنی بےوقوفی کا احساس ہوا تو وہ فوراً بولی
"بکواس اس نے نہیں، اس جیسی یا پھر یہی سب بکواس یقیناً تم نے میری بیوی سے کی ہوگی۔۔۔ ایک فلم میں ہی کام کر کے تم نے اپنی شرم اتار پھینکی ہے۔۔۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے تم جیسی لڑکی سے ریلیشن رکھا۔۔ میری ایک بات کان کھول کر سن لو منال،، اگر تم نے کبھی عنایہ سے کوئی بھی الٹی سیدھی بات کری یا کوئی ایسی حرکت کری جسکی وجہ سے میرا اور عنایہ کا ریلیشن خراب ہوا۔۔۔۔ تو میں تمہارا وہ حشر کرو گا جو تم نے کھبی سوچا نہیں کیا ہوگا"
نمیر منال کو بولتا ہوا وہاں سے نکل گیا اب وہ اپنی کار میں بیٹھ کر گھر جانے کا ارادہ کررہا تھا کہ اسکے موبائل پر نوفل کی کال آنے لگی
"ہیلو"
نمیر کال ریسیو کرتے ہوئے بولا
"نمیر بھائی میں خرم بات کر رہا ہو۔۔۔ آپ پلیز ہسپٹل آجائے بھیا کو کسی نے جان سے مارنے کی کوشش کی ہے"
نمیر کے لیے یہ خبر کسی شاک سے کم نہیں تھی۔۔۔ وہ اب جلد از جلد نوفل کے پاس پہنچنے کا ارادہ رکھتا تھا
****
عنایہ خاموشی سے اپنے بیڈروم میں آکر بیٹھی۔۔۔ نمیر کو نکلے کافی دیر ہوچکی تھی۔۔۔ اس نے اور ثروت نے ابھی کھانا کھایا تھا۔ ۔
اسے نمیر پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا مگر وہ جیکٹ منال کے پاس کیوں تھی یہ سوچ کر عنایہ بے بس ہو جاتی ابھی بھی وہ اسی بات میں الجھی ہوئی تھی کہ اس کے موبائل پر ان نون نمبر سے کال آنے لگی
"ہیلو"
عنایہ نے کال ریسیو کرتے ہوئے اپنی سوچوں کو جھٹکا
"عنایہ میں بات کر رہی ہوں شانزے پلیز میری بات غور سے سنو، آج جو بھی کچھ ہوا وہ میں نے اپنی بہن کا بدلہ لینے کے لیے کیا،،، تم تو جانتی ہو نا میری آپی کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا۔۔۔ اس کا گناہ گار اسی سلوک کا مستحق تھا پلیز مجھے غلط مت سمجھنا پلیز نمیر بھائی یا نہال بھائی کو کوئٹہ والے گھر کا ایڈریس مت بتانا۔۔ میں چند دنوں بعد تم سے خود کانٹیک کروں گی"
شانزے نے روتے ہوئے کال ڈسکنکٹ کری شانزے کی ساری باتیں عنایہ کے سر پر سے گزر گئی
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 43
"خرم، آنٹی۔۔۔ نوفل کہا ہے اس وقت،، وہ ٹھیک تو ہے نا یہ سب کچھ کب اور کیسے ہوا"
نمیر خرم کے بتائے ہوئے اسپتال پہنچا اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ایک ساتھ ان دونوں کو دیکھ کر سوالات کرنے لگا
"شولڈر کے پاس بولڈ لگی تھی۔۔ اللہ کا احسان ہے بولڈ نکال دی گئی ہے۔۔ اب بھیا کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے مگر ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آئے ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں چند گھنٹے تک ہی ہوش آئے گا" خرم نمیر کو دیکھتا ہوا بتانے لگا جس پر نمیر نے آنکھیں بند کر کے شکر ادا کیا
"آخر کون ہو سکتا ہے کس نے کیا ہوگا اس کے ساتھ ایسا"
نمیر خرم کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"اس کی بیوی نے کیا ہے ایسا۔۔۔ میرے خدا شکل سے کیسی معصوم لگتی تھی اور کیسے اس نے اپنے شوہر پر گولی چلائی مجھے تو ابھی تک حیرت ہورہی ہے"
فریدہ نمیر کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی نمیر ایک بار پھر شاک کی کیفیت نے فریدہ کو دیکھنے لگا
"کیا کر رہی ہیں امی آپ، آئستہ تو بولیں"
خرم نے فریدہ کو ٹوکتے ہوئے کہا۔۔۔ پھر نمیر کو اپنا موبائل نکال کر ویڈیو دکھانے لگا جس میں شانزے نوفل پر فائر کر رہی تھی
"اومائی گاڈ شانزے ایسا کیسے کر سکتی ہے"
ویڈیو دیکھ کر بے یقینی سے نمیر کے منہ سے نکلا۔۔۔ اب وہ حیرت سے خرم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ یہ تو نمیر کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ نوفل کے ڈرائنگ روم کی ویڈیو تھی اور نوفل نے اپنے ڈرائنگ روم میں خفیہ کیمرا لگایا تھا یہ بات اسے اور نہال کو بہت پہلے سے معلوم تھی مگر کیمرے کی رینج کے حساب سے وائز کلیئر نہیں آرہی تھی
"یہی تو مجھے بھی سمجھ میں نہیں آرہا جب ہم لوگ ایئرپورٹ سے گھر پہنچے تو بھیا زخمی حالت میں فرش پر بے ہوش پڑے تھے اور بھابھی اور ان کی امی گھر پر موجود نہیں تھی"
خرم نمیر کو بتانے لگا
"تم نے یہ بات اور کسی سے شیئر تو نہیں کی"
نمیر کچھ سوچتا ہوا خرم سے پوچھنے لگا
"میں تو اس سے کہہ رہی ہوں کہ پولیس کو بتاؤ تاکہ وہ اریسٹ کرے ایسی خطرناک لڑکی کو مگر یہ میری بات مان ہی نہیں رہا اور نہ ہی مجھے بتانے دے رہا ہے"
فریدہ نمیر کو دیکھتی ہوئی بولی
"آنٹی پلیز آپ میری بات اطمینان سے سنیں،، شانزہ ایسی لڑکی نہیں ہے آخر کیا وجہ ہوئی ہوگی جو اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔۔۔ میرے خیال میں ہمہیں نوفل کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا چاہیے،، اس کے بعد ہی کوئی ایکشن لینا چاہیے تب تک یہ بات ہم تینوں کے درمیان رہے گی" نمیر کی بات کی خرم نے تائید کی،، فریدہ، خاموش ہوگئی تھوڑی دیر بعد نہال بھی اسپتال میں ان لوگوں کے پاس پہنچ گیا
****
"ارے واہ یہ شرٹ بڑی زبردست لگ رہی ہے نیو ہے کیا" نمیر نوفل اور نہال تینوں ہی اس وقت جم سے آکر نوفل کے روم میں بیٹھے ہوئے تھے تب نہال اس کی وارڈروب میں رکھی ایک شرٹ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس کی پاکٹ پر این ایلفابیٹ موجود تھا
"یہ شرٹ مجھے پرسوں خرم نے پریزنٹ کی تھی" نوفل نے اسکرین سے نظریں ہٹا کر شرٹ کو دیکھتے ہوئے نہال کو جواب دیا جبکہ نمیر ان دونوں کی باتوں پر توجہ دیے بغیر بیڈ پر لیٹا ہوا مووی دیکھ رہا تھا
"ٹھیک ہے اسے پہلے میں پہن کر حلال کروں گا اس کے بعد تم یوز کرنا"
نہال بولتا ہوا وہ شرٹ اپنے بیگ میں رکھنے لگا،، جو بیگ وہ جم لے کر جاتا تھا۔۔۔ نوفل اور نہال اکثر ایک دوسرے کے کپڑے اور چیزیں استعمال کرلیتے تھے مگر نمیر کی یہ عادت بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔ نوفل نہال کی بات سن کر جواب دیے بغیر مووی دیکھنے لگا
"نہال۔۔۔ نہال"
نوفل نے بے ہوشی کی حالت میں نہال کو پکارا تو وہ اٹھ کر نوفل کے پاس آیا
"میں یہی موجودہ نوفل آنکھیں کھولو پلیز"
نوفل کے پکارنے پر جہاں فریدہ خرم نمیر اس کی طرف متوجہ ہوئے وہی نہال بیڈ پر اس کے پاس آ کر بولا۔۔۔ اب وہ دوبارہ غشی کی حالت میں جا چکا تھا اور خاموش ہوچکا تھا۔۔۔ فریدہ کے چہرے پر افسردگی کے آثار نمایاں ہوئے
"آنٹی آپ پریشان مت ہوں پلیز،، ڈاکٹر نے کہا ہے اسے صبح تک ہوش آجائے گا۔۔۔ میرے خیال میں آپ دونوں کو گھر جاکر ریسٹ کرنا چاہیے آج ہی فلائٹ لے کر آئے ہیں آپ دونوں" نمیر فریدہ کو دیکھتا ہوا بولا
"اتنے بڑے حادثے کے بعد کیسے ریسٹ کر سکتی ہو مجھے تو بہت زیادہ ٹینشن ہو رہی ہے"
فریدہ پریشان ہوتی ہوئی بولی
"آنٹی اس طرح تو آپ اپنی طبیعت خراب کرلے گیں۔۔۔ نمیر ٹھیک کہہ رہا ہے میرے خیال میں، نمیر تم آنٹی اور خرم کو گھر ڈراپ کر دوں میں آج یہی نوفل کے پاس موجود ہوں۔۔۔ اگر اسے رات میں ہی ہوش آتا ہے تو میں سب کو انفارم کر دوں گا"
نہال فریدہ کے ساتھ باقی ان دونوں کو بھی دیکھتا ہوا بولا
"ٹھیک کہہ رہا ہے نہال،، میں صبح ہاسپٹل پہنچ جاؤں گا آنٹی آپ ٹینشن نہیں لے،، چلو خرم تم بھی کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو"
نمیر فریدہ اور خرم کو وہاں سے لے کر چلا گیا
جب کے نہال نوفل کو دیکھتا ہوا سوچ میں پڑ گیا آخر اس کی حالت کا ذمہ دار کون ہے کیوکہ نمیر کے منع کرنے پر فریدہ اور خرم نے یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائی تھی
*****
نمیر واپس گھر آ کر ثروت سے ملتا ہوا اپنے بیڈ روم میں آیا تو ناگوار نظر اس نے صوفے پر ڈالی جس پر اس کی بیگم بیٹھی ہوں یقیناً اپنے شوہر کی بیوفائی کا سوگ منا رہی تھی
عنایہ کو دیکھتا ہوا وہ سائیڈ ٹیبل پر اپنا والٹ اور موبائل رکھنے لگا۔۔۔ آج نوفل کے چکر میں وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے مسئلے مسائل تو بھول ہی گیا تھا دوسری طرف عنایہ نے نمیر کے آنے کے بعد گھڑی میں ٹائم دیکھا تو وہ مزید جل گئی۔۔۔ نمیر اسے شام میں یہ کہہ کر گیا تھا کہ وہ منال کی طرف جا رہا ہے اب رات کے بارہ بجے اس کی واپسی ہوئی تھی عنایہ شانزے کی باتوں کو ذہن سے جھٹکتی ہوئی اپنے بے وفا شوہر کو دیکھنے لگی
"تم میں کچھ آداب، طور طریقے ہیں کہ نہیں۔۔۔ شوہر گھر آیا ہے اور تم یہاں بیٹھی اس کا منہ تک رہی ہو۔۔۔ کھانے کا کون پوچھے گا مجھ سے یہ گھر کی دیواریں"
جب عنایہ نے آگے بڑھ کر اس سے کوئی بات نہیں کی تو نمیر اسکے سر پر کھڑا ہو کر اسے باتیں سنانے لگا اور اپنے اگنور ہونے کا بدلہ لینے لگا
"جہاں آپ اتنی دیر لگا کر آئے ہیں اس نے کھانے کو بھی نہیں پوچھا"
عنایہ صوفے سے اٹھ کر طنز کرتی ہوئی کچن میں جانے لگی تبھی نمیر نے اس کا بازو پکڑا
"اس نے کھانے کے علاوہ کچھ دوسری پرکشش آفر پیش کی تھی۔۔۔ اب گھر آکر بیوی کو تو ہر بات نہیں بتائی جا سکتی نا"
نمیر نے اس کا دل جلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس پر عنایہ شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ نمیر مسکراہٹ چھپائے اسے بانہوں میں لینے لگا۔۔ تبھی عنایہ ایک دم پیچھے ہوئی
"کیوں پرکشش آفر کو ٹھکرا کر آئے ہیں کیا۔۔۔ جو یہاں آکر ارمان نکال رہے ہیں یا پھر ابھی بھی دل نہیں بھرا آپ کا"
عنایہ کو اب نمیر کی ڈھٹائی پر غصہ آنے لگا وہ اسے کچھ ایکسپلین کرنے کی بجائے اس کا دل جلا رہا تھا۔۔ اور یوں دل جلانے کے بعد وہ اپنے چہرے کی مسکراہٹ جس انداز میں چھپاتا مطلب جلتی پر تیل کا کام کرتا تھا
"مفت کی آفر کو تو کوئی پاگل مرد ہی ٹھکرا سکتا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہیے اپنے شوہر کہ اتنے اینرجیٹک ہونے پر وہ باہر کی آفر پوری کرنے کے بعد بھی گھر آکر تمہیں اگنور نہیں کرتا"
نمیر مزید اس کی جان جلاتا ہوا۔۔ اب صوفے پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگا اور عنایہ قہر برساتی نظر اس پر ڈال کر روم سے باہر نکلنے لگی
"کھانا بعد میں لے کر آنا پہلے وارڈروب سے کپڑے نکال کر دو مجھے"
عنایہ کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا بولا۔۔۔ آج صبح اس نے عنایہ کو بہت مشکل سے ٹائی کی ناٹ باندھنے دی تھی۔۔۔۔ وہ بھی تب جب عنایہ نے اسے سچی والا ناراض ہونے کی دھمکی دی۔۔۔ عنایہ نے اسے کپڑے تھمائے اور اس کا کوٹ ہینگ کر کے کمرے سے باہر نکل گئی
"بیوقوف لڑکی"
نمیر اپنے کپڑے لے کر ڈریسنگ روم میں جاتا ہوا بڑبڑایا۔ ۔۔ اس کا فی الحال عنایہ کی غلط فہمی دور کرنے کا یا اسے وضاحت دینے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔۔ ابھی تک وہ اسے اتنا ہی جان پائی تھی،، جو شام میں اس کا تعلق منال کے ساتھ جوڑ رہی تھی۔۔۔ اگر بدلے میں وہ عنایہ سے صرف یہ سوال کرلیتا کہ اسکا پینڈینٹ نہال کے بیڈ پر کیا کر رہا ہے تھا تو یقیناً اس نے کھڑے کھڑے ہی فوت ہو جانا تھا
"ماما کو کھانا کھلا دیا"
عنایہ اس کے لئے ٹرالی میں کھانا لے کر آئی تو وہ عنایہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جبکہ ثروت اسے بتا چکی تھی کہ وہ دونوں ساس بہو کھانا کھا چکی ہیں
"جی کھانا کھلا دیا تھا اور میڈیسن بھی دے دی آنٹی کو"
عنایہ بولتی ہوئی صوفے پر جا کر بیٹھی
"اتنا نہیں ہوسکا کہ بیوی سے بھی پوچھ لیا جائے اس نے کھانا کھایا ہے کہ نہیں، بہت ہی اچھا ہوا جو میں نے ان کا انتظار کیے بنا کھانا کھا لیا"
عنایہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوئی
"آج شانزے سے بات ہوئی تمہاری"
نمیر کے سوال پر عنایہ نے چونک کر نمیر کو دیکھا وہ اسی کو غور سے دیکھ رہا تھا
"نہیں اتفاق سے آج نہ اس کی کال آئی نہ ہی میں نے کی"
عنایہ کو سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا بولے اس لئے صاف مکر گئی ایک تو اسے شانزے کی بات بھی سمجھ میں نہیں آئی تھی وہ کس کو گناہگار کہہ رہی تھی بس اپنی بات کرکے اس نے فون رکھ دیا
"شانزے کے فادر کہاں رہتے ہیں کچھ آئیڈیا ہے تمہیں یا اس کے کوئی رشتے دار یا پھر شانزے کا کوئی دوسرا گھر" نمیر کھانا کھانے سے زیادہ تفشیش کے موڈ میں تھا۔۔۔ وہ ایک ایک کر کے عنایہ سے سوال کرنے لگا کیوکہ نوفل کو گولی مار کر وہ اپنے گھر تو جانے سے رہی ہوسکتا ہے عنایہ ہی کچھ اس کے متعلق جانتی ہوں
"نہیں مجھے کیا معلوم ہوگا ان سب باتوں کے متعلق شانزے نے کبھی ایسا کچھ بتایا ہی نہیں"
جبکہ عنایہ کو معلوم تھا کہ کوئٹہ میں اس کی امی کی کزن رہتی ہے۔۔۔ شانزے کا دو بار کوئٹہ جانا ہوا تھا تو اس نے وہاں سے عنایہ کو فون بھی کیا تھا۔۔۔ مگر آج فون پر شانزے نے اسے شاید کوئٹہ والے گھر کے بارے میں بات کرنے کو بھی منع کیا تھا۔۔۔ دوستی کی لاج رکھتے ہوئے عنایہ نے کانفیڈینس بحال رکھا اور نمیر کو جواب دینے لگی۔۔ نمیر کھانا کھانے کے ساتھ بہت غور سے جانچتی ہوئی نظروں سے عنایہ کو دیکھ رہا تھا
"بقول تمہارے کہ تمہاری شانزے سے بات نہیں ہوئی نہ تمہیں اس کے فادر کا یا کسی دوسرے رشتے دار کا معلوم ہے۔۔۔ ٹھیک ہے لیکن اگر کل کو مجھے معلوم ہوا تمہیں ان میں سے کسی ایک بھی بات کا آئیڈیا تھا تو پھر دیکھنا میں تمہاری کیسے بینڈ بجاتا ہوں "
نمیر اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر اسے دھمکاتے ہوئے بولا
"بینڈ تو آپ میری شادی کے پہلے دن سے ہی بجا رہے ہیں۔۔ حد ہوتی ہے اگر اعتبار نہیں ہے تو سوالات کیو کر رہے ہیں"
عنایہ اس کی دھمکی سے واقعی ڈر گئی مگر اب وہ اس کے سامنے خود کو جھوٹا بھی ثابت نہیں کرنا چاہتی تھی
"اعتبار کی بات کم از کم تم میرے سامنے مت کرو عنایہ"
نمیر نے اپنا سر جھٹکا
"تو پھر بتائے آپکی جیکٹ منال آپی کے پاس کیا کر رہی تھی ویسے تو آپ اپنی چیزیں کسی سے شئیر نہیں کرتے"
عنایہ کو یہی سوال تو صبح سے پریشان کر رہا تھا
"تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو،، جو سوچنا ہے سوچتی رہو۔۔ میں تمہیں اپنے کریکٹر کی وضاحت دینے والا نہیں۔۔۔ کھانا اٹھاو کھا چکا ہو میں"
نمیر عنایہ کو جھڑکتا ہوا بولا،،، کوئی اور وقت ہوتا وہ منال کو کبھی اپنی جیکٹ نہیں دیتا۔۔۔ مگر وہ اسکے ساتھ سلیوز لیس ٹاپ میں واک کر رہی تھی گزرنے والوں کی نظریں اس پر محسوس کرکے نمیر نے اپنی جیکٹ منال کے مانگنے پر اسکو دی اور منال نے اس بات کا فائدہ اٹھایا بلکہ جیکٹ مانگی بھی شاید اسی وجہ سے تھی
نمیر نے برائے نام ہی کھانا کھایا تھا۔۔۔ عنایہ روم سے ٹرالی واپس لے گئی
"نمیر ویسے آپ شانزے کے بارے میں کیو پوچھ رہے تھے وہ ٹھیک ہے نا"
عنایہ کچن سے واپس آئی تو اس نمیر کو بیڈ پر لیٹے دیکھا وہ خود بھی لائٹ بند کر کے بیڈ پر لیٹ گئی ایک دفعہ پر اسکا دھیان پھر شانزے کی باتوں کی طرف چلا گیا۔۔۔ نمیر آخر کیو اسطرح اس سے شانزے کے متعلق پوچھ رہا تھا عنایہ سوچنے لگی
"وہ ٹھیک ہے، اب سونے کی کوشش کرو"
نمیر کا جواب سن کر وہ خاموش ہوگئی
شانزے نے کافی دیر سے اپنا نمبر آف کیا ہوا تھا وہ نمیر کے آنے سے پہلے کافی دیر سے ٹرائے کر رہی تھی پھر نمیر کا یوں اچانک سوال کرنا۔۔۔۔ شانزے کی عجیب سی باتیں۔ ۔۔ لازمی کوئی بات تھی
وہ صبح شانزے کے متعلق اسکی خالہ سے کوئٹہ فون کر کے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔ شانزے کی خالہ کا لینڈ لائن نمبر اسکے پاس ڈائری میں موجود تھا اور ڈائری فرمان کے گھر میں مگر وہ کوئی اتنا بڑا مسلئہ نہیں تھا، وہ بوا کو کال کر کے پوچھ لیتی۔۔۔ یہی سب سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی
****
اپنے اوپر جھکاو محسوس کرکے صبح عنایہ کی آنکھ کھولی۔۔۔ نمیر کو اپنے اوپر جھکے دیکھ کر اس کا ذہن پوری طرح بیدار ہوا۔۔۔ عنایہ نے نمیر کے شولڈرز پر اپنے ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا مگر نمیر نے اس کی دونوں کلائی تھام کر اپنا کام جاری رکھا
عنایہ کا موڈ خراب ہونے لگا کل رات وہ کتنی برے طریقے سے اس کا دل جلا رہا تھا اور اب مزے سے اپنا مطلب پورا کرنے میں مگن تھا۔۔۔ عنایہ نے کچھ بولے بغیر ہلکی سی مزاحمت کی اور دوبارہ اپنے ہاتھ چھڑانے چاہے،، جس پر نمیر نے اس کی کلائی پر اپنی گرفت سخت کردی۔۔۔ مطلب صاف تھا وہ اس وقت اس کے نخرے برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھا
"مت اتنا بدگمان ہوا کرو مجھ سے میری جان،، میں نے بتایا تو ہے میں صرف تمہارا ہوں"
اب وہ عنایہ کو دیکھتا ہوا اس کا گال سہلا کر کہنے لگا
"پھر وہ جیکٹ منا"
عنایہ کے لفظ منہ میں ہی رہ گئے کیوکہ وہ اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا۔۔۔ شاید نمیر اس وقت اپنے اور اسکے درمیان منال کا نام سننے کے موڈ میں نہیں تھا
جب اس نے عنایہ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے تو بہت سارے شکوے عنایہ کے لبوں پر ہی دم توڑ گئے۔۔۔ اب وہ نمیر کی باقی کی من مانیاں خاموشی سے برداشت کر رہی تھی
****
"کل کی فلائٹ سے فریدہ آنٹی اور خرم پاکستان آئے ہیں۔۔۔ آنٹی آپ کا پوچھ رہی تھی۔۔۔ اگر آپ بہتر فیل کررہی ہیں تو ملنے چلیں میں ابھی وہی جا رہا ہوں ساتھ ہی نوفل کو بھی دیکھ لئے گا"
نمیر اور ثروت ناشتے کی ٹیبل پر موجود عنایہ ان دونوں کو ناشتہ سرو کر رہی تھی تبھی نمیر ثروت کو بتانے لگا
"کیا فریدہ پاکستان آگئی ہے۔۔ ہفتے بھر پہلے تو بات ہوئی تھی اس نے تو ایسا کچھ نہیں بتایا تھا۔۔ پھر تو میں ضرور چلتی ہوں اس سے مل بھی لوگی اور نوفل کو کیا ہوگیا" ثروت اپنی سہیلی فریدہ سے ملنے کا پلان بناتے ہوئے نوفل کے بارے میں پوچھنے لگی۔۔۔ جبکہ عنایہ ان دونوں کو ناشتہ سرو کر کے نمیر کے برابر میں کرسی پر آکر بیٹھی
"کل نوفل کے ساتھ ایک برا حادثہ پیش آگیا تھا اس بچارے کو نہ جانے کسی نے گولی مار دی مگر گولی کندھے پر لگی ہے اس لیے اب وہ خطرے سے باہر ہے" نمیر کے بتانے پر ثروت اور عنایہ دونوں اسے حیرت سے دیکھنے لگی
"اتنی بڑی بات ہوگئی اور تم نے مجھے کل رات کو نہیں بتایا"
ثروت نمیر سے حیرت سے کہنے لگی کہنا تو عنایہ بھی یہی چاہتی تھی مگر خاموش رہی
"رات میں اس لیے نہیں بتایا آپ پریشان ہوتی ٹینشن سے سو نہیں پاتی۔۔ ویسے بھی وہ اب ٹھیک ہے۔۔۔ نہال اسی کے پاس ہے،، صبح اس کو ہوش آگیا تھا ہم چلتے ہیں، تو آپ خود دیکھ کر اطمینان کر لیے گا"
نمیر ثروت کو ریلیکس کرتا ہوا بولا
"نمیر شانزے کیسی ہے مجھے بھی اس سے ملنا ہے"
عنایہ کی بات پر نمیر نے اس کا پریشان چہرہ دیکھا
"شانزے وہاں پر موجود نہیں ہے نوفل نے ہوش میں آ کر پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے کہ وہ گولی مارنے والے کو نہیں جانتا۔۔۔ اسے چند دن سے فون کالز پر دھمکیاں مل رہی تھی اسی وجہ سے وہ پہلے ہی اپنی وائف کو سیف جگہ پر چھوڑ آیا تھا"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا وہی بتانے لگا جو صبح پانچ بجے نوفل نے ہوش میں آنے کے بعد اپنے بیان میں بتایا یہ سب ڈیٹیلسز وہ صبح ہی خرم سے لے چکا تھا اور اسے ابھی بھی خاموش رہنے کی تلقین کی تھی
اب وہ خود نوفل کے پاس جا کر اس سے سارا معاملہ جاننے کا ارادہ رکھتا تھا
"میں گھر پر اکیلی رہ کر کیا کروں گی مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں دس منٹ دیں،، میں چینج کرکے آتی ہوں"
عنایہ نمیر کو بولتی ہوئی اٹھی۔۔ اب وہ نمیر کو کافی الجھی ہوئی لگی۔۔۔ جبکہ عنایہ کے کانوں میں شانزے کی آواز بازگشت کر رہی تھی
اس کی بہن کا گناہگار اسی سزا کا مستحق تو اس کا مطلب شانزے نے نوفل بھائی کو۔۔۔ او کاڈ اس کا مطلب یہ ہوا فرحین آپی کے ساتھ وہ سب نوفل بھائی نے۔۔۔
عنایہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔ کوئٹہ والے گھر کا شانزے نے اسی وجہ سے بتانے کا منع کیا کیوکہ وہ اس وقت کوئٹہ میں موجود تھی ساری کی ساری کڑیاں عنایہ کے ذہن میں خود جڑنے لگی
جاری ہے
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # ⁴4
نمیر، عنایہ اور ثروت کو لے کر نوفل کے گھر پہنچا تھوڑی دیر پہلے ہی خرم اور نہال اسے اسپتال سے گھر لے کر آئے تھے۔۔۔ فریدہ کو اطمینان ہوا اس نے نوفل کے اوپر سے صدقہ اترا۔۔۔ ثروت بھی نوفل کیلئے فکر مند نظر آرہی تھی،،، نہال اور نمیر کا یہ دوست اسے بھی عزیز تھا جبکہ عنایہ نے سر کے اشارے سے سلام کے علاوہ نوفل سے کوئی دوسری بات نہیں پوچھی وہ سب کے درمیان خاموش بیٹھی تھی۔۔۔۔ تھوڑی دیر گزری تو فریدہ ثروت اور عنایہ کو لے کر دوسرے روم میں بیٹھ گئی
"مجھے تو لگتا ہے جیسے ان تینوں کی دوستی کو کسی کی بری نظر لگ گئی ہے، دیکھا تم نے ایک ماہ بھی نہیں ہوا نہال کو کومے سے واپس آئے اور اب نوفل کے ساتھ یہ حادثہ پیش آگیا۔۔۔ بس اللہ پاک ہمارے بیٹوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے" ثروت کو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ڈپریشن ہوجاتا تھا اس لئے وہ پریشان ہوکر فریدہ سے بولی
"کہتی تو تم ٹھیک ہو واقعی اللہ ہمارے بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے مگر نوفل کی طرف سے اب مجھے بہت فکر ہونے لگی ہے۔۔۔ تمہیں معلوم ہے ثروت اس کو کسی اور نے نہیں اُسی کی اپنی بیوی نے جان سے مارنے کی کوشش کی ہے اور جب میں نے پولیس کو انفارم کرنا چاہا تو نمیر اور خرم نے مجھے منع کردیا اور دیکھو ذرا نوفل کو ہوش میں آنے کے بعد اس نے پولیس کو غلط بیان دیا مجھے تو رہ رہ کر اسکے اوپر بھی حیرت ہو رہی ہے"
فریدہ نے اپنا غصہ دبا کر ثروت کو اصل بات بتائی جس پر ثروت تو شاک ہوئی عنایہ کو بھی یقین آگیا یعنی وہ جو بات سمجھی تھی وہ بالکل ٹھیک تھی
"فریدہ یہ تم کیا کہہ رہی ہوں شانزے وہ تو اتنی پیاری بچی ہے بھلا ایسا کیسے کر سکتی ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہوگی"
ثروت کو اسکے انکشاف پر حد درجہ حیرت ہوئی
"نوفل جب میری اس سے بات کرواتا تھا تب مجھے بھی وہ بہت پیاری لگتی تھی مگر اب میری رائے اس کی بیوی کے بارے میں بالکل بدل چکی ہے ابھی تو میں نے چیک نہیں کیا نہ جانے وہ کتنا کیش اور قیمتی سامان لے کر فرار ہوئی ہوگی"
فریدہ موڈ آف کرتی ہوئی ثروت سے کہنے لگی
"آنٹی آپ شانزے کو غلط سمجھ رہی ہے وہ ایسی ہرگز نہیں ہے جب ہمیں اپنے کی حقیقت معلوم نہ ہو تو اس طرح کسی دوسرے پر بھی الزام لگانا ٹھیک نہیں"
عنایہ کو فریدہ کا یوں شانزے کے بارے میں بولنا اچھا نہیں لگا اس لئے وہ خاموش رہنے کی بجائے ایک دم بول اُٹھی فریدہ نمیر کی بیوی کو دیکھنے لگی نوفل نے اسے بہت پہلے بتایا تھا کہ شانزے اور نمیر کی وائف بھی بہت اچھی فرینڈز ہیں آپس میں
"حقیقت جو بھی ہو شوہر سے لڑائی کی جاتی ہے،، زیادہ سے زیادہ گھر چھوڑا جاتا ہے۔۔ یوں گولی نہیں ماری جاتی۔۔۔ میں نے تو ارادہ بنا لیا ہے آب نوفل کی ایک نہیں سنی گی بلکہ اب واپس اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤگی۔۔۔ پہلے تو اس کی جاب کی وجہ سے ہی کم دھڑکا نہیں لگا رہتا تھا اب تو میں اس کی بیوی سے بھی خوفزدہ ہوگئی ہو معلوم نہیں کب آ جائے اسکو دوبارہ مارنے کے لیے"
فریدہ عنایہ پر نظر ڈال کر ثروت کو اپنا پلان بتانے لگی تب عنایہ اٹھ کر روم میں جانے لگی
"کہاں جا رہی ہو بیٹا"
ثروت میں عنایہ سے پوچھا
"نمیر سے کہتی ہوں تھوڑی دیر مجھے ماموں کی طرف چھوڑ آئے یا ڈرائیور کے ساتھ بھیجوا دیں ضروری کام تھا مجھے وہاں پر، ایک گھنٹے میں واپسی کرلو گی"
عنایہ ثروت کو بتانے لگی تو ثروت نے سر ہلایا عنایہ روم سے باہر نکل گئی
"تم بھی ذرا اس پر نظر رکھو شکل کی تو یہ بھی بہت معصوم لگ رہی ہے بالکل شانزے کی طرح اللہ پاک نمیر کا بھلا کرے"
فریدہ ثروت کو سمجھاتی ہوئی نمیر کو دعا دینے لگی
"اوفو فریدہ کیسی باتیں کر رہی ہو میری بہو شکل کی ہی نہیں ویسے بھی معصوم ہے۔۔۔ معلوم نہیں شانزے ایسا کیسے کر سکتی ہے بچی تو وہ بھی بہت پیاری ہے اللہ آگے بہتر کرے"
ثروت نے فریدہ کو دیکھتے ہوئے کہا
****
"کیسا محسوس کر رہے ہو اب،، طبیعت ٹھیک ہے تمہاری"
فریدہ ثروت اور عنایہ کے روم سے جانے کے بعد نمیر نوفل سے پوچھنے لگا
"پسٹل کی گولی کھا کر آدمی کیسا محسوس کر سکتا ہے کافی درد ہو رہا ہے پین کلر دو مجھے"
نوفل نمیر کو دیکھتا ہوا برا سا منہ بنا کر بولا۔۔۔ ڈاکٹر نے اسے ہر چھ گھنٹے بعد پین کلر دینے کو بولا تھا۔۔۔ نمیر نے پین کلر نکال کر خود سے اس کے منہ میں ڈالی اور پانی پلانے لگا نہال اور خرم بھی اس وقت نوفل کے روم میں ہی موجود تھے
نہال کو نوفل کا رویہ کافی محسوس ہوا وہ جب سے ہوش میں آیا۔۔۔ تو نہال کی طرف دیکھنا تو دور اس سے بات بھی نہیں کر رہا تھا نہال نے اس سے خود سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ کافی روڈ لہجے میں اس کی بات کا جواب سرسری انداز میں دینے لگا تھوڑی دیر پہلے جب فریدہ نوفل کے لیے سوپ بنا کر لائی تھی اور نہال نے اسے سوپ پلانا چاہا تو نوفل نے کہہ دیا
"وہ یہ سوپ خرم سے پینا چاہتا ہے"
نہال کو اس کی بات محسوس ہوئی مگر وہ یہ سوچ کر چپ ہو گیا خرم اس کا چھوٹا بھائی تھا اور کافی عرصے بعد اس سے مل رہا تھا
مگر ابھی تھوڑی دیر پہلے جب پین کلر کا ٹائم ہوا اور نہال نے اسے خود سے اٹھ کر پین کلر دینی چاہی تو نوفل نے صاف کہہ دیا اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے پین کلر وہ کھا لے گا جب اس کا موڈ ہوا
نہال اس کی بات سن کر دوبارہ خاموش ہو گیا وہ خرم کا لحاظ کر کے نوفل سے اس کے رویے کی وجہ نہیں پوچھ سکا،، جو شاید نوفل نے اس سے زندگی میں پہلی دفعہ برتا تھا اور اب وہ پین کلر مزے سے نمیر کے ہاتھ سے کھا رہا تھا
"بھیا میرے دوست ملنے آئے ہیں میں اپنے روم میں موجود ہوں آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اقبال سے کہہ کر مجھے بلا لینا"
خرم موبائل پر اپنے دوست کی آمد کا سن کر نوفل کو بولتا ہوا دروازہ کھول کر کمرے سے چلا گیا۔۔۔ اب کمرے میں نوفل نمیر اور نہال موجود تھے
"کیا ہوا ایسے کیوں گھور رہے ہو"
نوفل نے جب نمیر کو اپنی طرف مسلسل دیکھتا ہوا محسوس کیا تب وہ نمیر سے پوچھنے لگا
"آدمی جب پسٹل کی گولی کھائے تو اسے درد ہوتا ہے۔۔۔ لیکن جب وہی پسٹل کی گولی وہ اپنی بیوی کے ہاتھ سے کھائے تو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ جھوٹا بیان دے کر کیوں بچایا تم نے شانزے کو"
نمیر کی آواز پر کمرے میں آتی عنایہ کہ قدم وہی رک گئے اب وہ دیوار کے ساتھ لگ کر ان کی بات سننے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔ نمیر کی بات سن کر جہاں نوفل چونکا وہی نہال نے بھی حیرت سے ان دونوں کو باری باری دیکھا اب نوفل مسکرا کر نمیر کو دیکھنے لگا
"کچھ انکشاف ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیوی کے ہاتھ کی گولی کھانے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں"
نوفل نے نمیر کو بولتے ہوئے ایک نظر نہال کے حیرت زدہ چہرے پر ڈالی اور پھر نمیر کو دیکھتا ہوا بولا سے
"تمہیں معلوم ہے نمیر میں نے اس شخص کے نام کی گولی اپنی بیوی سے اپنے اوپر کھائی ہے" نوفل دانت پیس کرنے نہال کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا ویسے ہی نہال صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا
"یہ کیا فضول بکواس کر رہے ہو تم بھلا تمہاری بیوی اور تمہارے معاملے سے میرا کیا لینا دینا ہے"
نہال غصے میں نوفل کو دیکھتا ہوا بولا جبکہ نمیر خاموش کھڑا نہال کو اور پھر نوفل کو دیکھنے لگا
"تمہارا مجھ سے یا میری بیوی کے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں مگر میری بیوی کی بہن سے تمہارا ہی لینا دینا ہے"
نوفل لہجے میں تلخی سمائے نہال کو دیکھتا ہوا بولا پھر اس نے نمیر کو دیکھا
"تمہیں معلوم ہے نمیر فرحین کا مجرم اسکا گنہگار کوئی دوسرا شخص نہیں بلکہ یہ شخص ہے۔۔۔ہم تو اس بات کا ملال کرتے رہتے تھے کہ اس رات ہم دونوں نے شرارت میں اس بیچاری کو کلاس روم میں بند کیا مگر اس کے ساتھ بے رحمی سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک اس نے کیا"
نوفل حقارت بھری نظر نہال پر ڈال کر نمیر سے بولا۔۔۔ نمیر بے یقینی اور صدمے کے مارے نہال کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھنے لگا اسے تو جیسے نوفل کی بات سے چپ ہی لگ گئی۔۔۔ یہ سب کچھ نوفل نہال کے بارے میں بول رہا تھا وہ اتنی بڑی بات ایسے ہی نہیں بول سکتا تھا اور نہال کا گھبرایا ہوا چہرہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ نوفل کی بات سے پریشان ہوگیا ہے
"کیا بکواس کر رہے ہو تم میرے بارے میں،، اتنی بڑی بات بولتے ہوئے تمہیں پہلے دس مرتبہ سوچنا چاہیے تھا"
نہال اپنی پول کھلتا ہوا دیکھ کر چیختا ہوا بولا
"چیخو مت نہال، یہ بات ہم تینوں کے علاوہ کوئی اور سنے گا تو شرمندگی سے تمہیں اپنا منہ چھپانا پڑے گا"
نوفل نہال کو آپے سے باہر آتا دیکھ کر سختی سے بولا مگر اس کمرے سے باہر کھڑا وجود جو ساری باتیں سن رہا تھا نہ صرف سن رہا تھا بلکہ کمرے میں ہونے والے انکشاف پر عنایہ کا اپنے پیروں پر کھڑے رہنا مشکل ہو گیا تھا
"فیورل پارٹی والی رات ہم دونوں سمجھے کہ یہ طبیعت خرابی کی وجہ سے وہاں نہیں آ سکا ہے مگر سچ تو یہ ہے یہ اس رات یونیورسٹی آیا۔۔۔ فرحین کی آوازیں سن کر کلاس روم کا دروازہ کھولا مگر اس کی مدد کرنے کی بجائے اس نے اس کی آبرو کو پامال کیا۔۔۔ یہی نہیں اس کو زخمی کیا وہ تڑپ رہی ہوگی اس کو بزدلوں کی طرح وہاں سے چھوڑ کر فرار ہو گیا۔۔۔ تم جانتے ہو نمیر اس دن اس نے وہی شرٹ پہنی تھی جو خرم میں مجھے پریزنٹ کی تھی۔۔۔ جو اس نے بعد میں مجھے سوری کہہ کر لوٹائی تھی کہ کسی سے جھگڑے میں اس کی جیب پھٹ گئی۔۔۔ وہ جیب بعد میں فرحین نے شانزے کو دی۔۔۔ اور اسی جیب کی وجہ سے شانزے نے مجھے فرحین کا گنہگار سمجھا۔۔۔ اس نے مجھ سے اپنی بہن کی عزت کی پامالی اور موت کا بدلہ لیا"
نوفل نمیر کو دیکھتا ہوا نہال کی ساری حقیقت بتانے لگا
نہال ابھی اپنی دفاع میں کچھ بولتا اس کی نظر دروازے پر کھڑی عنایہ پر پڑی جو آنسوؤں سے تر چہرے سے نہال کو دیکھ رہی تھی
"عنایہ"
نہال عنایہ کو دیکھ کر اس کو پکارتا ہوا عنایہ کے قریب پہنچا نوفل اور نمیر بھی نہال کے ساتھ عنایہ کو دیکھنے لگے
"وہ سب جھوٹ بول رہا ہے تم پلیز اس کی بات پر یقین نہیں کرنا۔۔۔ مجھے اس طرح مت دیکھو عنایہ"
وہ اپنے جرم کا اعتراف دنیا کے سامنے کر سکتا تھا مگر عنایہ اور ثروت کے سامنے نہیں اس وقت عنایہ کی آنکھوں میں اپنے لیے مان اور وقار کو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر اسے شدید تکلیف ہوئی
"میں تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ آپ اتنی گری ہوئی حرکت بھی کرسکتے ہیں"
عنایہ کے لفظ اسے چابق کی طرح لگے کے وہ تڑپ کر رہ گیا۔۔۔ نمیر قدم اٹھاتا ہوا عنایہ کے پاس آیا تو عنایہ اسے دیکھنے لگی
"مجھے یہاں سے جانا ہے نمیر پلیز مجھے گھر لے چلیں"
وہ جو فرمان کے پاس جانے کا ارادہ رکھتی تھی نمیر کے پاس آکر اب اس کا دل چاہا وہ اپنے گھر چلی جائے نمیر نے ایک ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کیے۔۔۔ دوسرا ہاتھ اس کے کندھے کے گرد حائل کرکے، نہال کو دیکھتا ہوا عنایہ سے بولا
"چلو"
نمیر کا یوں عنایہ کے کندھے کے گرد ہاتھ رکھ کر اس کے پاس سے لے جانا۔۔۔ نہال کو ایسا لگا جیسے نمیر عنایہ کے گرد اپنا حفاظتی حصار باندھ رہا ہو،، عنایہ کو اسکے شر سے بچانے کے لئے۔۔۔ وہ اتنا گرا ہوا انسان تو نہیں تھا جو عنایہ پر بری نظر رکھتا وہ تو اسکی محبت تھی
نمیر کی آنکھوں میں اس وقت کتنی بےاعتباری تھی۔۔۔ نمیر اسکو کن نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ نہال کو اپنا آپ کسی کھائی میں گرتا ہوا محسوس ہوا
"اقبال میرے کمرے کی لائٹ بند کردو میں آرام کرنا چاہتا ہوں اب یہاں آکر کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے"
نوفل کی آواز پر گم صم کھڑے نہال نے نوفل کو دیکھا وہ اس سے لاتعلق ہوکر بیڈ پر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔۔۔ نہال کو لگا اس کا سانس بند ہو جائے گا۔۔۔ وہ سب لوگ اسے کیا سمجھ رہے تھے بہت مشکلوں سے اپنے پیروں پر زور دے کر وہ خود بھی نوفل کے کمرے سے باہر نکل گیا
****
"کب تک اس طرح بیٹھی رہو گی"
وہ دونوں تھوڑی دیر پہلے نوفل کے گھر سے آئے تھے نمیر اپنے مینیجر کو فون کرکے اسے اپنے آج آفس نہ آنے کا انفارم کر رہا تھا اور چند ضروری ہدایات بھی دے رہا تھا جب وہ کمرے میں واپس آیا تو عنایہ بیڈ پر اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی نمیر اسکے پاس بیڈ آکر بیٹھتا ہوا بولا
"آپ کو زرا بھی دکھ نہیں ہورہا نہال بھائی کی حرکت پر"
عنایہ نمیر کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"دکھ تو بہت چھوٹا لفظ ہے اس کی نیچ اور گھٹیا حرکت پر خون کھول رہا ہے میرا۔۔ شرم آ رہی ہے اسے اپنا بھائی کہتے ہوئے"
نمیر نے تلخی سے کہتے ہوئے اپنا سر جھٹکا
"نمیر مجھے شانزے کی بہت فکر ہو رہی ہے وہ سب کچھ بہت غلط سمجھ بیٹھی ہے"
عنایہ نمیر کو دیکھتی ہوئی بولی
"یار اب نوفل ایسے ہی تو نہیں بیٹھے گا وہ معلوم تو لازمی کروائے گا شانزے کے بارے میں آخر کو وہ اس کی بیوی ہے"
نمیر عنایہ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"نمیر میں جانتی ہوں وہ اس وقت کوئٹہ میں ہوگی اپنی خالہ کے پاس"
عنایہ بہت دھیمی آواز میں نمیر کو بتانے لگی جس پر نمیر نے اس کو گھور کر دیکھا
"یعنی تمہیں معلوم تھا شانزے کا"
نمیر نے ڈپٹتے ہوئے اس سے پوچھا تو وہ سرجھکا گئی
"یہ تھوڑی معلوم تھا وہ اپنے شوہر کو گولی مار کر وہاں سے گئی ہے،، وہ تو بس اس نے فون کرکے مجھے منع کیا کہ آپ کو اور نہال بھائی کو کوئٹہ والے گھر کے بارے میں کچھ نہ بتاؤ"
عنایہ سرجھکائے مجرموں کی طرح اس کی کال کا بھی بتانے لگی
"اور میرے کل رات پوچھنے پر تم نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا یہ اعتبار ہے تمہارا اپنے شوہر پر"
نمیر اس کے جھکے ہوئے سر کو گھورتا ہوا بولا۔۔۔ وہ عنایہ سے ناراض ہوکر اٹھنے لگا تبھی عنایہ جلدی سے اس کے سینے سے لگی
"نمیر پلیز مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا پھر مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگے گا"
وہ نمیر کی کمر پر اپنے ہاتھ باندھ کر نمیر اسکے سینے سے لگی کہنے لگی۔۔۔ نمیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی
"میں بھی یہی چاہتا ہوں تمہیں میرے علاوہ کچھ اچھا بھی نہیں لگے"
نمیر کا جملہ سن کر عنایہ نے نمیر کے سینے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو نمیر نے اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے
"جلدی سے شانزے کی خالہ کا ایڈرس دو،، مجھے پکا یقین ہے اپنے دوست کا، بیوی کے ہاتھ سے گولی کھانے کے باوجود وہ ابھی بھی اسی کے لیے پریشان ہو رہا ہوگا۔۔۔ پکا زن مرید نکلا ہے وہ"
نمیر ایک طرف نوفل کے لئے ریلیکس ہوا کہ شانزے کا پتہ معلوم ہوگیا تبھی عنایہ کو خود سے الگ کرتا ہوا بولا
"آپ نہیں ہے اپنے دوست کی طرح زن مرید"
عنایہ اپنی مسکراہٹ کنٹرول کر کے نمیر سے پوچھنے لگی۔۔۔ اسکی بات سن کر نمیر کے چہرے پر سنجیدگی آئی،، وہ گھورتا ہوا عنایہ کو دیکھنے لگا
"سمجھنا بھی نہیں مجھے ایسا"
نمیر نے چہرے کے تاثرات سنجیدہ رکھ کر پوری کوشش کی کہ عنایہ اس سے ڈر جائے
"آپ کتنی ہی بڑی بڑی آنکھیں کرکے مجھے گھوریں میں نہیں ڈرنے والی آپ سے"
عنایہ اب مسکرا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی
"واقعی"
وہ اب بھی گھورتا ہوا پوچھ رہا تھا
"واقعی مجھے اب ڈر نہیں لگ رہا"
عنایہ مسکراتی ہوئی نمیر کو دیکھ کر کہنے لگی
"پھر تو اللہ ہی بچائے ہم دو معصوم شوہروں کو"
نمیر سنجیدگی سے اپنے اور نوفل کے لئے دعا کرنے لگا عنایہ دوبارہ مسکرا دی اور اسے دیکھ کر نمیر بھی مسکرا دیا
"آپ نے شانزے کے گھر کا پتہ پوچھا تھا مگر مجھے اس کی خالہ کا لینڈ لائن نمبر معلوم ہے ایڈرس نہیں"
عنایہ اب اصل بات پر آکر اپنی بیڈ سے اٹھتی ہوئی نمیر کو بتانے لگی
"ہاں تو نمبر دو مجھے، ایڈریس معلوم کرنا کون سا مشکل ہے تب میں شانزے کی خالہ کے گھر جاکر اسے سب حقیقت بتا دوں گا"
نمیر کی بات سن کر عنایہ نے مڑ کر اسے دیکھا
"آپ کوئٹہ جائیں گے"
عنایہ اپنا موبائل اٹھا کر نمیر کے پاس آئے اور اس سے پوچھنے لگی
"چندا اب تم یہ مت بولنا تمہیں بھی کوئٹہ جانا ہے۔۔۔یہ مسئلہ سولو ہوجائے ہے پھر ہم دونوں ہنی مون کے لیے چلیں گے"
نمیر اس کے تاثرات دیکھ کر عنایہ کو بہلاتا ہوا بولا
"آف کورس میں چلو گی کوئٹہ نمیر اب کی بار آپ مجھے نہیں روک سکتے۔۔۔ مجھے اپنی دوست سے ملنا ہے وہاں جاکر"
عنایہ نے بولنے کے ساتھ فرمان کے گھر کا نمبر ملایا
"جی بوا میں ٹھیک ہوں آپ ٹھیک ہے اچھا میری بات سنیں۔۔۔ میرے روم میں الماری کی ڈراز میں ایک ریڈ کلر ڈائری ہے وہ مجھے ابھی فوراً چاہیے آپ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوادیں"
عنایہ نے بات مکمل کرکے کال کاٹی تو کمرے کی کھڑکی سے ان دونوں کو نہال کی گاڑی آتی دکھائی دی جسے دیکھ کر نمیر نے سر جھٹکا
"نمیر مجھے ایک بات کنفیوز کر رہی ہے نوفل بھائی نے یہ کیوں کہا کہ شانزے نے اپنی بہن کی موت کا بدلہ لیا جبکہ فرحین آپی تو زندہ ہیں"
عنایہ کی بات سن کر نمیر کو ایک بار پھر حیرت کا جھٹکا لگا کل سے اب تک اسے صرف شاک پر شاک ہی لگ رہے تھے
"کیا واقعی فرحین زندہ ہے۔۔۔ او گاڈ یونیورسٹی میں تو یہ بات مشہور تھی اس کی کلاس روم میں ایک لڑکی نے خودکشی کی تھی جبکہ ایک لڑکی کو مارا گیا تھا"
نمیر نفی میں سر ہلاتا ہوا خود سے کہنے لگا مگر اندر کہیں اسے تھوڑا اطمینان ہوا۔۔۔ اب اسے نوفل سے یہ سب باتیں جلد سے جلد شئیر کرنی تھی
"نمیر کیا سوچ رہے میری ایک بات تو سنیں"
عنایہ اسکو غائب دماغ دیکھ کر فوراً بولی
"سنائیے اپنی ایک بات مجھے میری جان"
نمیر اسکو بانہوں میں لیتا ہوا بولا
[01/01 4:14 PM] 😍😍😍😍: 🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Second last epi
"کب تک کا ارادہ ہے واپس نکلنے کا" صبح ناشتے کی میز پر ان چاروں کے علاوہ نائلہ اور صائمہ بھی موجود تھی تب نوفل سے نمیر پوچھنے لگا
"ابھی بہت ضروری کام باقی ہے اس کے بعد چلتے ہیں"
نمیر کے جواب میں نوفل بولا تو سب اس کی سمت دیکھنے لگے۔۔۔ اس سے پہلے وہ اپنی بات کی وضاحت کرتا اس کے موبائل پر کال آنے لگی
"ٹھیک ہے میں آتا ہوں"
نوفل موبائل پر بولتا ہوا باہر دروازہ کھولنے گیا
نوفل کے ساتھ اندر آنے والے شخص کو دیکھ کر سب حیرت زدہ ہوگئے سب سے پہلے شانزے کرسی سے اٹھی اور چلتی ہوئی نہال کے پاس آئی اس سے پہلے وہ اس پر جھپٹتی یا اسکا گریبان پکڑتی نوفل نے شانزے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے قابو کیا
"شانزے رکو میری بات سنو"
نوفل شانزے کو پکڑتا ہوا بولا۔۔۔ سب اپنی جگہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے
"چھوڑو مجھے نوفل اس شخص نے میری بہن کی زندگی برباد کی ہے میں اسے نہیں چھوڑو گی" شانزے کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اپنے سامنے کھڑے نہال کا منہ نوچ لے یقیناً وہ ایسا ہی کرتی یا اس سے بھی برا اگر نوفل نے اس کے سختی سے دونوں ہاتھ نہیں پکڑے ہوتے
"وہ یہاں معافی مانگنے آیا ہے"
نوفل اسے پکڑتے ہوئے سمجھانے لگا تب شانزے نوفل کو دھکا دے کے زور سے چیخی
"کس بات کی معافی اس شخص کا گناہ معافی لائق ہے،، جانتے ہو تم میری بہن جب بے آبرو ہو کر واپس لوٹی تھی میری ماں اور میری کیا حالت تھی۔۔ کیسی قیامت گزری تھی ہمارے اوپر اور میری بہن اس پر کیا بیتی تھی تم جانتے ہو اس شخص کو،،، یہ آدمی میری بہن کو بے آبرو کر کے اس کو زخمی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گیا تھا۔۔۔ آپی ہر میل ڈاکٹر کو دیکھ کر ہر آدمی کو دیکھ کر،،، زور زور سے چیخے مارتی تھی۔۔۔ اس حادثے نے میری بہن کے دل میں مرد ذات کے لئے خوف بٹھا دیا،، وہ ہمیں دیکھ کر روتی تھی اب چھ سال گزرنے کے بعد وہ نارمل ہوئی ہے مگر وہ نارمل ہونے کے باوجود اب بھی نارمل نہیں ہے وہ مسکرانا بھول گئی ہے۔۔۔ خوش ہو یا دکھی ہو وہ کوئی ری ایکٹ نہیں کرتی۔۔۔ صرف اور صرف تمہارے اس دوست کی وجہ سے"
شانزے نے نوفل کو بولتے ہوئے نہال کی طرف رخ کر کے فرش پر تھوکا۔۔
نہال آنکھوں میں ندامت کے آنسو لئے شرمندگی سے سر جھکا گیا کمرے میں ایک پل کے لیے خاموشی ہوگئی شانزے اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے سے چلی گئی جبکہ نائلہ روتی ہوئی دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی نہال چلتا ہوا نائلہ کے پاس آیا اور نائلہ کے قدموں میں بیٹھ گیا
"میرا گناہ معافی لائق نہیں میں نے بہت برا کیا آپ کی بیٹی کے ساتھ،، میں فرحین کا گناہ گار ہوں،، مجھے اپنے کیے گئے گناہ کا پچھتاوہ پچھلے چھ سالوں میں اتنا نہیں ہوا جتنا دو دن سے ہو رہا ہے۔۔۔ اندر سے بہت بے سکونی محسوس کر رہا ہوں میں،، مجھے معلوم ہے آپ مجھے معاف کریں یا نہ کریں مگر اب میں کبھی بھی اپنا سر نہیں اٹھا پاؤں گا کسی کے بھی سامنے۔۔۔ آپ کے لئے مجھے معاف کرنا بہت مشکل ہوگا مگر میں چاہتا ہوں آپ مجھے معاف کر دیں،، اگر دل سے معاف نہیں کر سکتیں تو کم ازکم منہ سے بول دیں آپ نے مجھے معاف کیا شاید مجھے سکون مل جائے"
نہال آنکھوں میں ندامت کے آنسو لیے ہاتھ جوڑ کر نائلہ کے سامنے معافی مانگنے لگا
"ایک ماں اتنا بڑا دل کیسے لا سکتی ہے جس شخص نے اس کی بیٹی کی عزت کو پامال کیا وہ اس کو معاف کردے بہت مشکل عمل ہے یہ۔۔۔ اگر میرے بولنے سے تمہیں سکون ملتا ہے تو ٹھیک ہے میں بول دیتی ہو میں نے تمہیں معاف کیا۔۔ اور کوشش بھی کروں گی تمہیں معاف کردو اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے"
نائلہ اٹھ کر وہاں سے شانزے کے پاس چلی گئی اس کے پیچھے صائمہ بھی
نوفل نے آگے بڑھ کر نہال کے کندھے پر ہاتھ رکھا نہال نے اپنے آنسو صاف کر کے اسے دیکھا۔۔۔ نہال اٹھ کر کھڑا ہوا تو نوفل اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا۔۔۔ نمیر خاموشی سے سارا ڈرامہ دیکھ کر روم میں چلا آیا عنایہ بھی نمیر کے پیچھے کمرے میں چلی آئی
****
"تو میری بہن کے لیے تمہارا انصاف یہ کہتا ہے کہ ہم اس کے مجرم کو اسی کے ساتھ بیاہ کر ساری زندگی کے لیے اسی کے حوالے کردیں واہ نوفل"
شام میں جب نمیر عنایہ شانزے نائلہ صائمہ موجود تھے تب نوفل نے نائلہ سے فرحین کے لئے نہال کی بات کی۔۔۔ جس کا سن کر سب سے اپنی جگہ حیرت زدہ ہوئے مگر شانزے نوفل کی بات پر فوراً بولی
"یہ فرحین کے لئے میرا انصاف نہیں کہتا شانزے،، نہال کو اپنے کیے گئے عمل کا احساس ہے وہ شرمندہ ہے اور اپنی غلطی کا مداوح کرنا چاہتا ہے خود اس نے مجھ سے بات بولی ہے تبھی میں نے آنٹی سے ایسا کہا"
نوفل جانتا تھا سب سے پہلا اعتراض اس کی بیوی کی طرف سے ہی اٹھنا تھا۔۔ نہال کی آمد پر وہ اس کے روم سے دوبارہ نائلہ کے پاس چلی گئی تھی
"غلطی نہیں گناہ۔۔۔گناہ کیا ہے تمہارے دوست نے اور گناہ کی سزا ہوتی ہے مداوح نہیں،، میں واپس جاکر اس کے خلاف مقدمہ دائر کروں گی"
شانزے نوفل کی بات کی تصدیق کرتی ہوئی اسے اپنا ارادہ بھی بتانے لگی
"ٹھیک ہے میں اس کے گناہ کو نظر میں رکھتا ہوا اسے اریسٹ کرلیتا ہوں۔۔۔ اس کے بعد تم نہال پر اپنی بہن کے ریپ کا کیس فائل کر دینا۔۔۔ عدالت کورٹ کچہری کے چکر لگاتی رہنا ہر ماہ پیشی پر اپنی بہن کو لے کر عدالت کے چکر لگانا جہاں اس سے کھلم کھلا سارے سوالات کی تصدیق کی جائے گی۔ ۔۔ جس کے جوابات اس نے آج تک تمہیں نہیں بتائے ہوگے مگر وہ سب اسے وہاں بتانا پڑے گے۔۔۔ سال ڈیڑھ سال تک مقدمہ چلتا رہے گا ہر ماہ بعد اگلے ماہ پیشی کی تاریک ملتی رہے گی۔۔۔ یہ سب باتیں جن کے علم میں ابھی تک نہیں آئی ہے ان کے سامنے بھی کھل کر آئے گیں اور پھر تم ان کو بھی وضاحتیں پیش کرنا۔۔۔ اس کے بعد نہال کو سات سے آٹھ سال تک کی سزا ہو جائے گی۔۔۔ اور سات سے آٹھ سال بعد اپنی سزا پوری کر کے وہ ہر چیز سے بری الذمہ ہوجائے گا۔۔۔ یہ آپشن تمہاری نظر میں بیسٹ ہے یا پھر یہ کہ فرحین اپنی باقی کی زندگی اس کے ساتھ گزارے نہال واقعی شرمندہ ہے۔۔۔ اگر اس نے فرحین کی زندگی برباد کی ہے تو اسے آباد بھی وہی کرے گا وہ اسے واپس نارمل لائف میں لے کر آئے گا۔۔۔ فوری طور پر نہ سہی مگر آہستہ آہستہ اس کی لائف نارمل ہوجائے گی۔۔۔۔ یا تم یہ چاہتی ہو کہ ساری زندگی فرحین بے سہارا اور مظلوم عورتوں کے بیچ میں رہ کر انہی کے ساتھ زندگی گزارتی ہوئی اپنے آپ کو ان جیسا سمجھتی رہے"
نوفل کی بات سن کر تھوڑی دیر کے لئے شانزے سے چپ ہو گئی
"میرا دل نہیں مانتا کہ میری بہن اپنی باقی کی زندگی اس انسان کے ساتھ گزارے جس نے اس کی زندگی خراب کی"
شانزے نوفل کو دیکھتی ہوئی بولی
"تو اب وہ اسے اپنی زندگی میں شامل کرکے اس کی زندگی سنوارے گا تو اس میں حرج کیا ہے"
نوفل بھی شاید اس سے بحث کے موڈ میں لگ رہا تھا جبھی سنجیدگی سے بولا
"اپنے دوست کی وکالت کرنا بند کرو نوفل۔۔۔ تمھاری ایمانداری کی نشر خبریں میں ٹی وی پر دیکھ چکی ہوں۔۔۔ اب ویسے ہی ایمانداری سے اپنا فرض نبھاؤ اور آریسٹ کرو اپنے دوست کو"
شانزے کی بات پر نوفل نے غصے میں گھور کر اسے دیکھا اس سے پہلے وہ کچھ دوبارہ شانزے کو بولتا نائلہ بول اٹھی
"فرحین کی زندگی کا فیصلہ تم نہیں کرسکتی شانزے،، میں ماں ہو اسکی جیسا میں چاہو گی وہی کرو گی تم کل نوفل کے ساتھ اپنے گھر واپس جانے کی تیاری کرو اور نوفل آپ تھوڑی دیر بعد نکاح خواں کو لے کر آ جاؤ۔۔۔ فرحین سے میں بات کرتی ہوں" نائلہ کے بولنے پر کمرے میں موجود سب افراد اسی کی طرف دیکھنے لگے
"امی آپ کیا کر رہی ہیں، اگر وہ داماد ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں آپ اس کی ہر بات مانے گیں" شانزے نائلہ کو دیکھتی ہوئی بولی
"میں کسی کی بات نہیں مان رہی جو مجھے فرحین کے لیے صحیح لگے گا میں وہ کروں گی،، اب اپنی زبان چلائے بغیر کمرے سے جاؤ"
نائلہ آنکھوں سے شانزے کو تنبیہی کرتے ہوئے بولی شانزے نوفل پر ناراض نگاہ ڈال کر وہاں سے چلی گئی
****
"تو دوستی کا فرض نبھایا جارہا ہے گڈ" شانزے کے روم سے جاتے ہی عنایہ اس کے پیچھے چلی گئی جبکہ صائمہ اور نائلہ دوسرے خواتین والے پورشن میں چلی گئی فرحین سے بات کرنے، تب نمیر نوفل کو دیکھتا ہوا بولا
"تو تم ایسا نہیں چاہتے تم بھی شانزے کی بات سے ایگری کرتے ہو"
نوفل نمیر کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"اپنی جگہ وہ بھی غلط نہیں ہے ظاہری بات ہے فرحین اس کی بہن ہے اس لیے تمھاری اس کا دل دکھا ہوا ہے اپنی بہن کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر۔۔ اس لیے وہ تمہاری تجویز قبول نہیں کر پا رہی ہے ویسے تمہیں کیا لگتا ہے نہال کے لیے یہی سزا کافی ہے"
نمیر نوفل کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"یار نہال کو اس کے کیے کی سزا دینے والے ہم کون ہوتے ہیں،، نمیر اسے اس کے گناہ کی سزا اوپر والے سے مل چکی ہے۔۔۔ وہ دو ماہ تک زندہ لاش کی طرح بستر پر پڑا رہا جسے اس نے سچے دل سے چاہا وہ اب اس کے بھائی کی زندگی میں شامل ہے اس کی بھابھی کے روپ میں۔۔۔ وہ اپنے گناہ کی وجہ سے اب ساری زندگی کسی کے سامنے نظر نہیں ملا پائے گا وہ واقعی بہت شرمندہ ہیں نمیر۔۔۔ کل اس نے مجھے خود کال کی تھی وہ یہاں نائلہ آنٹی سے معافی مانگنے آنا چاہتا تھا اور آج صبح اس نے خود مجھ سے خود کہا وہ فرحین کو نارمل لائف میں واپس لانا چاہتا ہے۔۔۔ شاید اسطرح وہ ریلیکس ہو جائے اسے سکون مل جائے مجھے لگتا ہے اگر کوئی اپنی غلطی پر نادم ہو تو اسے ایک موقع ملنا چاہیے"
نوفل نمیر کے سامنے اپنی رائے دیتا ہوا بولا
"اور تمہاری بیوی جو تم سے اچھا خاصا ناراض ہوگئی ہے اس کا کیا کروگے"
نمیر اب بھی سنجیدگی اس سے پوچھ رہا تھا جس پر نوفل نے اس کو مسکرا کے دیکھا
"وہ زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتی مجھ سے منا لوں گا"
نوفل کی بات پر نمیر مسکرایا
"زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتی بس غصے میں گولی مار سکتی ہے"
نمیر کی بات سن کر نوفل نے گھور کر اسے دیکھا
"ایسے طعنے تم مجھے نہیں دو۔۔ یہ طعنے میں اپنی بیوی کو اگلے دس سال تک دینے کا ارادہ رکھتا ہوں" نوفل کی بات سن کر نمیر دوبارہ مسکرایا
"مجھے معلوم ہے تم کتنے بڑے زن مرید ہو یہ طعنے تم کبھی نہیں دے سکتے اپنی بیوی کو"
نمیر کی بات سن کر نوفل بھی ہنسا
"چلو اب میرے ساتھ نکاح کے کچھ انتظامات کرواؤ میرا اکیلے کا دوست نہیں لگتا، وہ تمہارا بھی بھائی ہے" نوفل اسے بولتا ہوا باہر نکلا نمیر بھی گاڑی کی چابی پاکٹ میں چیک کرتا ہوا اسکے پیچھے نکل گیا
****
معلوم نہیں نائلہ اور صائمہ نے فرحین کو کیسے اور کیا کہہ کر نکاح کے لیے راضی کیا۔۔۔ گھر میں چند خواتین اور گھر کے افراد کے سامنے اس کا نکاح نہال سے پڑھایا گیا جبکہ شانزے ان سب میں شامل نہ ہوئے بغیر نائلہ کے کمرے میں بیٹھی روتی رہی۔۔۔ وہ نوفل کے پاس اس کے کمرے میں بھی نہیں جا رہی تھی نوفل نے بھی ابھی خاموشی برتی۔۔وہ اسے اپنے ساتھ واپس لے جاکر اسے منانے کا ارادہ رکھتا تھا
****
فرحین کو اس وقت صائمہ خالہ کے گھر والے پورشن میں لاکر ایک بیڈ روم میں بٹھایا گیا اس کا دل اب ان عورتوں کے درمیان ہی لگتا تھا۔۔۔ صائمہ اور نائلہ بہلا کر اسے اپنے ساتھ لائی تھی پھر نائلہ نے بہت پیار سے اسے سمجھایا تھا کہ آج اس کا نکاح ہے وہ ایک اچھی بیٹی کی طرح اپنی ماں کا مان رکھ لے اور نکاح کے لئے راضی ہو جائے جس پر فرحین بہت روئی۔۔۔ اسے صائمہ اور نائلہ نے بہت پیار کیا۔۔۔ اسے اپنی چھوٹی (شانزے) نہیں دکھائی دے رہی تھی کل سے،،، مگر اب وہ اپنے دل میں آئی بات کسی سے پوچھتی نہیں تھی دل میں ہی رکھتی تھی مگر چھوٹی کو اس وقت اس کے پاس آنا چاہیے تھا
نائلہ ایک خوبصورت لڑکی کو اس کے پاس لے کر آئی،، نائلہ نے بتایا یہ شانزے کی دوست ہے وہ پیاری سی لڑکی اس سے بہت پیار سے مل رہی تھی۔۔۔ اس سے بہت کم لوگ پیار سے ملتے تھے زیادہ تر لوگوں کی آنکھوں میں اس کے لیے افسوس، ترس، رحم اور کبھی کبھی کرائیت بھی ہوتی تھی
جب نکاح کا وقت آیا اور اسے رضامندی پوچھی گئی نہال کے نام پر وہ خوفزدہ نظروں سے نائلہ کو دیکھنے لگی
"میری لاج رکھ لے بیٹا قبول کرلے"
نائلہ کے الفاظ پر اس نے نکاح نامے پر یہ سوچ کر سائن کیا وہ اپنی عزت گنوا کر ایک دفعہ اپنی ماں کی لاج نہیں رکھ سکی تھی اب دوبارہ وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی۔۔۔ بہت سارے آنسو اسکی آنکھ سے گرے جس کے ساتھ اس نے نکاح نامہ پر سائن کیے
دروازہ کھلنے کی آواز پر فرحین کی سوچوں کا ارتکاز ٹوٹا۔۔ آنے والے شخص کو اس نے اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو حیرت اور خوف سے اس کی آنکھ کھل گئی جسم کے اوپر جیسے چونٹیاں رینگنے لگی وہ تیزی سے اٹھ کر خوف کے مارے دیوار سے جا لگی
نہال بہت ساری ہمت جمع کر کے فرحین کے پاس کمرے میں گیا تھا اس کی نظر فرحین پر پڑی تو چونک گیا وہ اس فرحین سے بالکل مختلف تھی جو چھ سال پہلے اس کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔۔۔ وقت اور حالات نے اسے اس کی عمر سے بڑا کردیا تھا وہ اپنی عمر سے تین چار سال بڑی لگ رہی تھی دبلی پتلی ہڈیوں کا ڈھانچا،، وقت سے پہلے جگہ جگہ بالوں میں آئی چاندی،، چہرے کی رونق بھی اس حادثے نے چھین لی تھی۔۔۔ اس کی حالت دیکھ کر نہال کو مزید پچھتاوے نے گھیرا فرحین اسے دیکھ کر پہچان گئی تھی تبھی وہ خوفزدہ ہو کر دیوار سے جا لگی جیسے اپنے لئے کوئی جائے پناہ تلاش کر رہی ہو نہال کو مزید شرمندگی ہونے لگی
"فرحین مجھے معاف کر دو پلیز صرف ایک بار مجھے معاف کردو۔۔ میں اپنے گناہ پر شرمسار ہو بہت بے سکونی ہے مجھے،، جب تک تم مجھے معاف نہیں کروں گی تو میرے دل پر بوجھ بڑھتا رہے گا۔۔ میں نے تمہارے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی زیادتی کی ہے۔۔۔ آج مجھے احساس ہو رہا ہے عزت کتنی قیمتی چیز ہوتی ہے میں نے اس وقت اپنے نفس پر قابو نہ پا کر تمہاری عزت کو پامال کیا تھا۔ ۔۔۔ دیکھو آج میرے اپنوں کے سامنے میری عزت کی دھجیاں بکھری ہیں۔،۔۔ میں نمیر، عنایہ نوفل شانزے کسی سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہا میں اسی کا مستحق ہو کیوکہ میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا پلیز مجھے معاف کردو"
نہال فرین کے قریب آ کر اس سے معافی مانگنے لگا وہ دیوار سے چپک کر نیچے فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔ اب وہ دونوں ہی زمین پر بیٹھے ہوئے رو رہے تھے،، نہال واقعی اپنے کیے پر نادم تھا اس کے سامنے زمین پر بیٹھا ہاتھ جوڑ کر رو رہا تھا
"تم نے میری عزت نہیں چھینی مجھ سے میری زندگی کی ہر خوشیوں سے محروم کردیا۔۔ میرا دل اندر سے مار دیا، میری مسکراہٹ تم چھین چکے ہو،، زندگی کی امنگ، زندہ رہنے کی خواہش۔۔۔ سب کچھ،، اب کچھ اچھا نہیں لگتا مجھے،، مجھے کسی چیز کی چاہ نہیں بچی ہے،،، تم مجھ سے معافی مانگ رہے ہو میرے پاس بچا ہی کیا ہے تمہیں دینے کے لیے تم میرا سب کچھ چھین چکے ہو نہال، اب تمھیں مجھ سے معافی چاہیے ٹھیک ہے میں نے تمہیں معاف کیا"
مختصر سے جملے بولنے والی فرحین چھ سال بعد بولی تھی
"میں واقعی تم سے سب کچھ چھین چکا ہوں میں اس لائق نہیں کہ مجھے معاف کیا جائے مگر میں وعدہ کرتا ہوں تم سے، تمہارا دل دوبارہ آباد کر دو گا تمہارے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھینی ہے تو میں ہی ان پر مسکراہٹ لے کر آؤں گا۔۔۔ تمہاری زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھر دوں گا تمہیں دوبارہ زندگی سے پیار ہو جائے گا پرامس ہے میرا تم سے"
نہال اپنے چہرے سے آنسو صاف کرتا ہوا یہ سب جیسے فرحین سے نہیں خود سے عہد کر رہا تھا۔۔۔ اس نے جب فرحین کے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا تو فرحین روتے ہوئے اسے دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔ نہال نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما فرحین کو مزید رونا آیا تو نہال اس کے آنسو پوچھنے لگا
****
آخری قسط دو دن کے بعد پوسٹ ہوگی
[01/01 4:15 PM] 😍😍😍😍: 🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Last episode (A)
"بھابھی پلیز یار بولے نا میری بات مانے گی"
نوفل پولیس اسٹیشن سے گھر میں داخل ہوا تو اسے خرم کی آواز اپنے بیڈروم سے آتی سنائی دی وہ شانزے سے کسی بات کی منتیں کر رہا تھا۔۔۔ کل ہی ان سب کی کوئٹہ سے واپسی ہوئی تھی شانزے ابھی بھی نوفل سے ناراض تھی
"کیا باتیں ہے منوانی ہے تم نے اپنی بھابھی سے، بہت کم ہی یہ کسی کو خاطر میں لاتی ہے میرے بھائی"
نوفل بیڈ روم میں آکر بیڈ پر نیم دراز ہوتا ہوا خرم سے بولا
"بھیا آپ کا اور میرا معاملہ الگ ہے آپ کو بیشک وہ خاطر میں نہ لائے۔۔۔ مگر میں ان کا بہت پیارا دیور ہو کیوں بھابھی ایگری کرتی ہے ناں آپ میری بات سے"
خرم نوفل کو چڑا کر شانزے سے پوچھنے لگا
"تمہاری بات سے میں ایگری کرتی ہوں اور تمہاری بات بھی مان لیتی ہوں مگر چوائس میری بھی ہوگی۔۔۔ میں اوکے کرنے کے بعد ہی بات آگے کروگی"
وہ نوفل کو یکسر نظر انداز خرم سے بولی
"او گریٹ یار پھر کل کا ہی پھر ڈن کر لیتا ہوں اور اس کے بعد سارا کچھ آپ کو بھی سنبھالنا ہے۔۔ اب میں چلا" خرم اور وہ نجانے کون سی اپنی باتیں کر رہے تھے۔ ۔۔ بات مکمل ہونے پر خرم خوش ہوکر کمرے سے نکل گیا
"اے ظالم حسینہ وہاں کیا کر رہی ہو یہاں آو نہ زرا"
نوفل نے بیڈ پر لیٹے شانزے کو دیکھ کر مخاطب کیا جو دور رکھی چیئر پر بیٹھی تھی۔۔۔ شانزے اپنی روم کا دروازہ بند کرکے نوفل کے پاس آئی
"اب تو میں تمہیں اور بھی ظالم لگو گی گولی جو چلا چکی ہو تم پر۔۔ اب تمہیں ذرا محتاط رہنا چاہیے"
شانزے کی بات سن کر نوفل نے اپنے چہرے کی مسکراہٹ چھپائی اس کا ہاتھ تھام کر بیڈ پر اپنے پاس بٹھایا خود بھی اٹھ کر بیٹھ گیا
"تمہارے ہاتھ کا تپھڑ کھا مجھے تم سے محبت ہوگئی تھی،،، اور اب گولی کھانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے عشق ہو جائے گا۔۔۔ کافی خراب نشانہ ہے ویسے تمہارا۔۔۔ دل کو چھوتے چھوتے رہ گئی تمہاری چلائی گئی گولی"
نوفل اسے چھیڑنے والے انداز میں بولا تو شانزے نے اس کی سینے پر سر رکھا تھا
"بہت فضول بولتے ہو تم۔۔۔ امی ناجانے کیوں صائمہ خالہ کے پاس رک گئی۔۔۔ اب مجھے بہت فکر ہو رہی ہے نوفل آپی کی وہ عادی نہیں ہے اس طرح اجنبی ماحول میں سب کے ساتھ رہنے کی"
شانزے فرحین کے لیے اپنی فکر مندی ظاہر کرتی ہوئی بولی
"کوئی بھی لڑکی عادی نہیں ہوتی سب کو ہی ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے یار۔۔ اب اسے اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنا ہے، عادت تو ڈالنی ہوگی،، تم بتاؤ اس طرح کمرے میں کیوں بیٹھی تھی"
نوفل پیار سے شانزے کو سمجھاتا ہوا بولا
"تمہاری امی مجھ سے ناراض ہیں نوفل،، بتاؤ میں ان کو کیسے مناو۔۔۔ ان کو کھانے میں کیا ڈش پسند ہے بلکہ ایسا کرتے ہیں ان کے لیے شاپنگ کر کے آتے ہیں پھر وہ خوش ہو جائیں گی"
فریدہ سے جب وہ فون پر بات کرتی تھی،، فریدہ بہت اچھے طریقے سے اس سے بات کرتی تھی مگر آج وہ کافی روکھے پھیکے لہجے میں شانزے سے بات کر رہی تھی جو شانزے کو کافی فیل ہوا مگر شانزے کو اپنی غلطی کا احساس تھا اس لیے اب اسے ہی اپنی ساس کو منانا تھا
"شاپنگ اور کھانوں سے تو وہ نہیں مانیں گیں اب تو ایک ہی طریقہ ہے ان کو منانے کا"
نوفل اسے بانہوں میں لیتا ہوا سنجیدگی سے بولا
"کیا"
شانزے نوفل سے پوچھنے لگی
"یہی کہ اب ہمیں انکو جلد سے جلد دادی بنانے کے بارے میں سوچنا چاہے وہ بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ"
نوفل شرارت بھرے انداز میں کہتا ہوں اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکا
"نوفل پیچھے ہٹو یہ کونسا وقت ہے"
شانزے اسے اوور ہوتا دیکھ کر آنکھیں دکھا کر بولی
"یار تمہارے موڈ کی وجہ سے میرے چنوں منوں دنیا میں آنے سے لیٹ ہو رہے ہیں پلیز اتنی ظالم نہ بنو اب تو کمشنر صاحب بھی چھٹیاں گزار کر واپس آگئے ہیں وہ پھر سے میری نائٹ ڈیوٹی لگا دیں گے"
نوفل بیچارگی سے بولا تو شانزے ہنس دی
"بالکل سہی ڈیوٹی لگاتے ہیں تمہاری، تمہارے کمشنر صاحب۔۔۔ اچھا میری بات سنو اور خرم کو ایک لڑکی پسند ہے وہ مجھے اس سے ملوانا چاہتا ہے اب امی کو منانے کا کام تمہارا ہے کیوکہ آنٹی تو خرم کی نہیں مانیں گی اور تم باتوں ہی باتوں میں انہیں آرام سے منا سکتے ہو"
شانزے نوفل کو خرم کی بات بتانے لگی مگر وہ اپنے ہی کام میں مگن ہو چکا تھا
*****
کوئٹہ سے رخصت ہونے پر فرحین کو معلوم ہوا عنایہ اس کی دیورانی تھی یعنیٰ نمیر کی بیوی۔۔۔ تو وہ دل ہی دل میں مسکرا دی نمیر کی بیوی اتنی ہی خوبصورت ہونی چاہیے تھی۔۔۔ کافی سال بعد اس نے نمیر کو دیکھا مگر اسے دیکھکر اب اس کا دل بالکل نارمل اسپیڈ میں دھڑک رہا تھا جبکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔۔۔
نمیر اور نوفل دونوں نے فرحین سے اپنی شرارت کی معافی مانگی۔۔۔ جب اس نے نہال کو معاف کر دیا تھا تو پھر وہ ان دونوں کو کیسے معاف نہیں کرتی
نمیر، نہال، عنایہ کے علاوہ ایک نیا چہرہ دیکھ کر ثروت کو کافی حیرت ہوئی۔۔۔ اس کے سوالات پر نمیر نے ثروت کو کیا کہہ کر مطمئن کیا نہال نہیں جانتا تھا مگر اسے معلوم تھا،،، ثروت کو نمیر نے اسکی طبیعت کے پیش نظر سچ ہرگز نہیں بتایا ہوگا۔۔۔ جو بھی تھا ثروت نے فرحین کو بہو کے روپ میں قبول کیا اور اس کا خوش دلی سے استقبال کیا
گھر کا ہر فرد اس کا خیال رکھ رہا تھا وہ عنایہ سے جلد گھل مل گئی تھی،، ثروت بھی اسے شفیق خاتون لگی اس نے صبح نہال کے آفس جانے کے بعد بھی کچھ الٹا سیدھا سوال نہیں کیا۔۔۔ وہ اس سے چھوٹی موٹی باتیں اس کی پسند ناپسند کوالیفیکیشن وغیرہ پوچھتی رہی۔۔ دوسری طرف نمیر اس سے فرینگ ہو کر بات کر رہا تھا وہ پہلے کبھی یونیورسٹی میں اس سے فرینک نہیں ہوتا تھا مگر وہ اب اس سے نارمل گھر کے فرد کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا
فرحین ابھی اپنے کمرے میں مغرب کی نماز سے فارغ ہوئی تھی،،، سر سے دوپٹہ بھی نہیں اتارا تھا کہ نہال کمرے میں آیا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپر موجود تھا جس میں سے گجرے نکال کر وہ فرحین کو پہنانے لگا
"یہ کیوں لائے ہو تم"
فرحین نہال کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی وہ فرحین کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا
"مجھے ان کی مہک بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔ میں نے سوچ رکھا تھا جب بھی میری شادی ہوگی تو میں اپنی بیوی کو گجرے لا کر پہنایا کروں گا"
نہال اس کو گجرے پہناتا ہوا بتانے لگا
"تم نے اپنی شادی کے متعلق مجھے تو نہیں سوچ رکھا ہوگا۔۔۔ کوئی تو ہوگی تمہاری زندگی میں جسے تم"
فرحین کی بات مکمل ہونے سے پہلے نہال اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ چکا تھا
"اب میں صرف تمہارے متعلق سوچتا ہوں اور سوچنا چاہتا ہوں"
نہال اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔۔۔ وہ فرحین کو دیکھ رہا تھا نماز کے دوپٹے میں لپٹا ہوا اس کا چہرہ نہال کو بھلا لگا
"تم پر اس سٹائل میں دوپٹہ کافی سوٹ کر رہا ہے اچھی لگ رہی ہو تم"
نہال نے فرحین کو دیکھتے ہوئے کہا وہ دونوں نکاح کے بندھن میں تو بند چکے تھے مگر رشتے کا تقاضا ابھی پورا نہیں ہوا تھا
"مجھے خوش رکھنے کے لیے ضروری نہیں کہ تم میری تعریف کرو"
فرحین نہال کو دیکھ کر کہتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تب نہال نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا فرحین کے قدم وہی رک گئے
"یہ تعریف میں نے تمہیں خوش کرنے کے لئے نہیں کی ہے فرحین میں نے یہ بات دل سے بولی ہے"
نہال فرحین کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا بولا اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما
"پلیز نہال نہیں"
فرحین کی آنکھوں میں نمی آئی اس نے التجائی انداز میں کہا ویسے ہی نہال نے اپنے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹالیے اور خود بھی پیچھے ہوا
"میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا فرحین،،، نہ ابھی نہ آگے زندگی میں کبھی پلیز اب رونا نہیں"
نہال اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا شاید فرحین نے نکاح تو کرلیا تھا مگر وہ ایک دم اتنی جلدی اس رشتے کو ایکسپٹ نہیں کر پا رہی تھی اور اس معاملے میں نہال پوری پوری فرحین کی رضامندی چاہتا تھا
"اوکے ایسا کرتے ہیں آج ہم دونوں باہر ڈنر کرتے ہیں"
نہال اپنا موڈ فرش کرتا ہوا بولا اور فرحین کو اپنا پروگرام بتانے لگا
"مجھے بھیڑ پسند نہیں ہے نہال۔۔۔ لوگوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے اب"
فرحین بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی نہال بھی اس کے برابر میں بیٹھا اور آہستہ سے اس کا ہاتھ تھاما
"معلوم ہے فرحین تم بہت پیارے دل کی لڑکی ہو میرے اتنے بڑے گناہ کو معاف کر کے تم نے ظرف دکھایا ہے۔۔۔ مجھے واقعی خوشی ہوگی اگر میں تمہیں خوش رکھوں گا کیا تم میری خوشی کی خاطر ڈنر پر چل سکتی ہو۔۔ بھیڑ تو مجھے بھی پسند نہیں ہے ہم اپنے لئے کیبن بک کروا لیں گے"
نہال اس کا ہاتھ تھامتا ہوا مسکرا کر پوچھنے لگا تو فرحین نے اسے دیکھ کر اقرار میں سر ہلایا
"مجھے لگ رہا تھا آسان نہیں ہے پر اب لگتا ہے اتنا مشکل بھی نہیں ہے"
نہال فرحین کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا
"کیا"
فرحین ناسمجھنے والے انداز میں پوچھنے لگی
"تم سے محبت کرنا" نہال مسکراتا ہوا اس کے پاس سے اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
****
نمیر صبح کے وقت آفس میں نہال کے روم میں، آفس کے ہی کسی کام سے آیا نہال اس وقت اپنے کمرے میں موجود نہیں تھا اس کے لیپ ٹاپ پر نمیر کی نظر پڑی تو آسٹریلیا سے میل آئی ہوئی تھی۔۔۔۔ ای میل پڑھنے کے بعد اس کے ماتھے پر شکنیں ابھری۔۔۔ ویسے ہی نہال دروازہ کھول کر اپنے روم میں آیا
"یہ کیا ہے نہال تم نے آسٹریلیا میں جاب کے لیے اپلائی کیا ہے"
نمیر حیرت سے نہال کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"ہاں میں اگلے ماہ فرحین کے ساتھ آسٹریلیا شفٹ ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں"
نہال نے اپنے لیپ ٹاپ پر ایک نظر ڈال کر اپنے فیس ایکسپریشن نارمل رکھتے ہوئے نمیر کو جواب دیا
"مگر کیوں،، کیا میں وجہ جان سکتا ہوں"
نمیر اب بھی حیرت سے اسے دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا
"کیا وجہ تمہیں معلوم نہیں"
نہال نمیر کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"نہیں مجھے تمہارے آسٹریلیا شفٹ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی ہے پلیز اب یہ مت بولنا کہ تم شرمندہ ہو اس لیے یہاں رہ کر کسی کو فیس نہیں کر پا رہے ہو"
نمیر نہال کو دیکھتا ہوا چڑ کر بولا
"ایسا ہی ہے نمیر"
نہال نمیر کے جواب میں بولا۔ ۔۔ نمیر نے لمبا سانس کھینچا
"شرمندگی سے منہ چھپا کر تمہیں جب جانا پڑتا جب فرحین زندہ نہیں ہوتی تب تمہارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔۔۔ اب جبکہ تم فرحین سے شادی کر چکے ہوں نائلہ آنٹی اور فرحین تمہیں معاف کر چکی ہیں،، سب کچھ نارمل ہو چکا ہے تو پھر یوں جانے کی وجہ"
نمیر نہال کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میرے اور فرحین کے بیچ سب کچھ نارمل نہیں ہے۔۔ آئی تھینک ہمارے رشتے کے لئے بھی یہ ضروری ہے"
نہال نے ایک جواز پیش کیا
"جو شادیاں نارمل نہیں ہوتی ان کا ریلیشن بھی نارمل نہیں ہوتا،، وہ سب کچھ تم یہاں اپنی فیملی کے بیچ میں رہ کر نارمل کر سکتے ہو۔۔۔ اگر اکیلے باقی فیملی سے دور، تنہا رہ کر ہسبنڈ وائف کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہوجاتا تو میں بھی عنایہ کو لے کر کب کا جا چکا ہوتا۔۔۔ تم ہم سے دور جا کر نہ صرف مجھے اور ماما کو تنہا کر رہے ہو بلکے خود کو بھی اکیلا کر رہے ہو۔۔۔ اور فرحین کو بھی اس کی بہن سے دور کر رہے ہو نہال پلیز اس طرح مت کرو" نمیر نے نہال کو سمجھانا چاہا
"یہ تم کہہ رہے ہو تمہیں معلوم ہے نہ میں کتنا خود غرض ہو گیا تھا میں نے صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہوئے تمہیں عنایہ سے دور کرنا چاہا۔۔۔ میں کس کس بات سے شرمندہ ہوں مجھے خود نہیں سمجھ میں آتا" نہال نمیر سے نظریں چراتا ہوا بولا
"نہال تو میرے بھائی ہو ایک ہی بھائی۔۔۔ میں تم پر غصہ کر سکتا ہوں مگر تم سے نفرت بالکل نہیں کرسکتا۔۔۔اب جبکہ سب کچھ بالکل ٹھیک ہو چکا ہے تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے تو پلیز یوں مجھے اور ماما کو تنہا مت کرکے جاؤ یار میں ویسے بھی تمہارے کومے میں جانے کے بعد بہت اکیلا ہو گیا تھا،، اب دوسری بار اکیلا نہیں ہونا چاہتا" نمیر کے بولنے کی دیر تھی نہال نے اسے گلے لگا لیا۔۔۔ آج اسے لگا رشتوں کے معاملے میں وہ کتنا خوش نصیب ہے اس کا چھوٹا بھائی اس سے کتنا پیار کرتا ہے ان دونوں کے گلے لگنے سے وقتی کدورتیں ختم ہوچکی تھی
"یہ میری آنکھیں کون سا جذباتی منظر دیکھ رہی ہے بھائی،، مجھے کیو اکیلا چھوڑ دیا تم دونوں نے ظالموں" نوفل دروازہ کھول کر اندر آیا نہال اور نمیر کو گلے لگے دیکھ کر معصومیت سے بولا
جس پر نہال مسکراتا ہوا جو نمیر سے الگ ہوا اور نوفل کی طرف بڑھتا ہوا اسے بھی گلے لگا لیا
"مجھے ہمیشہ تمہاری دوستی پر فخر رہے گا"
نہال اس کے گلے لگتے ہوئے بولا
نوفل کا رخ نمیر کی طرف تھا نوفل اشارے سے نمیر سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا سین ہے
"یہ تمہیں گلے اس لیے لگا رہا ہے تاکہ تمہارے جوتوں سے بچ جائے۔۔۔ تمہاری سالی صاحبہ کے ساتھ موصوف آسٹریلیا بھاگنے کا پلان بنا رہے تھے"
نمیر اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے نوفل کو بتانے لگا نہال مسکراتا ہوا نوفل سے الگ ہوا
"او میرے بھائی یہ دیکھ میرے جڑے ہوئے ہاتھ ایسا کبھی سوچنا بھی مت ورنہ میری بیوی اپنی بہن کی جدائی میں میرا جینا حرام کر دے گی،، بات بات پر شانزے مجھے طعنے دے گی کیوں کرائی تم نے میری بہن کی شادی اس بھگوڑے کے ساتھ"
نوفل کی بات سن کر ایک بار پھر نمیر اور نہال ہنس دیئے
****
"سنا ہے تم نے کوئٹہ جاکر شادی کر لی ایسی کی ایمرجنسی آگئی تھی جو اپنی ماں اور خالہ جانی کا خیال بھی نہیں آیا"
عشرت نہال کی شادی کی خبر سن کر منال کے ساتھ ثروت سے ملنے پہنچ گئی۔۔۔ نہال اور نمیر افس سے اسی وقت آئے تھے،، ثروت کے علاوہ اس وقت ڈرائنگ روم میں نہال اور فرحین بھی موجود تھے تب عشرت میں نہال سے بولی
"فرحین کو دیکھ کر عشق ہوگیا تھا خالہ جانی جبھی دوسری بار منگی یا مہندی کا چانس نہیں لیا بس جلدی سے نکاح کرلیا۔۔۔ اب آپ بھی منال کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ ہی لیں"
نہال نے اس عشرت کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ فرحین نہال کی بات پر اس کو دیکھنے لگی دیکھ تو منال بھی اس کو رہی تھی آخری نہال نے اچانک شادی کیسے کرلی منال کو سمجھ میں نہیں آیا
"منال کے لیے کوئی لڑکوں کی کمی ہے کیا،، ہوجائے گی اس کی شادی میری بیٹی کی کونسی عمر نکلی جارہی ہے"
عشرت اتراتی ہوئی بولی،، اسے نہال کی گونگی بیوی ذرا اچھی نہیں لگی جو کب سے خاموش بیٹھی ہوئی تھی
"اللہ اب سب لڑکوں پر رحم کرے اپنا،، اوکے خالہ جانی ڈنر پر ملتے ہیں ابھی آفس سے آیا ہوں ذرا ریسٹ کرو گا،، فرحین ذرا روم میں آنا"
نہال عشرت کو بولتا ہوا ساتھ ہی فرحین کو بھی لے گیا کیوکہ وہ کافی دیر سے عشرت کے گھورنے اور باتوں پر نروس ہو رہی تھی
"چھوٹی بہو کہاں ہے آپ کی آپا۔۔۔ ذرا آداب نہیں سکھائے آپ نے اسے کہ گھر آئے مہمانوں کو سلام بھی کر لیا جاتا ہے"
نہال اور فرحین کے اٹھنے کے بعد عشرت کی توپوں کا رخ اب عنایہ کی طرف ہوگیا
"اس کو معلوم نہیں ہوگا عشرت ورنہ وہ سلام نہ کرے ایسا ممکن نہیں،، کچن میں مصروف ہو گی بچاری۔۔۔ آج صبح ہی نمیر ناشتے پر اس سے بریانی کھانے کی فرمائش کر رہا تھا"
ثروت کا جواب سن کر عشرت منہ بناتی ہوئی چپ ہو گئی جبکہ منال اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئی
****
Part B 3k like k bad post kiya jYe ga
[01/01 4:16 PM] 😍😍😍😍: 🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Last episode (B)
"فرحین کچھ کہنا چاہ رہی ہو یا کوئی بات ہے تو بولو"
نہال ڈریس چینج کرکے نکلا تو فرحین ابھی تک سر جھکائے بیڈ پر بیٹھی، بیڈ شیٹ کے ڈیزائن پر انگلی پھیر رہی تھی نہال کی بات پر سر اٹھائے وہ اسے دیکھنے لگی
"تمہیں کیسے معلوم میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں"
فرحین نہال کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"ایک ہفتے میں تھوڑا بہت جاننے کی کوشش کی ہے ایک سال گزرے گا تو مجھے یقین ہے میں تمہارے دل کی میں چھپی بات خود سے کہہ دیا کروں گا"
نہال مسکراتا ہوا فرحین کو دیکھ کر بولنے لگا تب فرحین خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگی
"ابھی وہاں تم نے سب کے سامنے کہا دوسری بار منگنی یا مہندی کا چانس لیے بغیر جھٹ سے نکاح کرلیا مطلب تمھاری پہلے"
فرحین کچھ سوچتی ہوئی بولی پھر خاموش ہوگئی
"میری پہلے عنایہ سے شادی ہونے والی تھی پھر میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی شادی نمیر سے ہوگئی۔۔۔ ہوش میں آنے کے بعد مجھے سب کے ساتھ ساتھ خدا سے بھی شکوہ تھا مگر اب سمجھ میں آیا جو ہوا بہت اچھا ہوا یہ بات بالکل ٹھیک کہی جاتی ہے ہر کام میں خدا کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔۔۔ نمیر کی شادی عنایہ سے ہونا قسمت میں لکھا تھا کیوکہ تمہیں میری زندگی میں آنا تھا"
نہال دھیمے لہجے میں اسے بتا رہا تھا فرحین غور سے نہال کو دیکھنے لگی
"کیا ہوا یہی سوچ رہی ہوں کہ میں عنایہ کو پسند کرتا تھا۔۔۔ دیکھو میں ابھی سے تمہارے دل کی باتیں جاننے لگ گیا ہوں"
نہال مسکراتا ہوا فرحین سے بولا وہ خاموشی رہی۔۔۔ اس نے اقرار نہیں کیا نہال کی بات کا مگر وہ سچ میں یہی سوچ رہی تھی نہال نے فرحین کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا
"فرحین محبت کے بغیر زندگی گزاری جا سکتی ہے تمہیں بھی تو نمیر پسند تھا ناں مگر مجھے معلوم ہے وہ اب تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔۔ اس طرح ایک وقت آئے گا جب عنایہ کا تصور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا،، دو ایسے لوگ جن کو محبت نہ ملے وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے پاٹنر کی فیلینگز کو سمجھتے ہوئے زندگی گزار سکتے ہیں مجھے یقین ہے" نہال اس کا ہاتھ تھامے نرم لہجے میں سمجھا رہا تھا فرحین ابھی بھی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی
"مگر ہم دونوں یہ کوشش کریں گے کہ ہمارے بچے کو زندگی میں اس کی محبت ضرور ملے"
نہال اب شرارت سے فرحین کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"بچہ"
فرحین نہال کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالتی ہوئی حیرت سے بولی
"ہاں ہم دونوں کا بچہ"
نہال نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا وہ پریشان ہو کر نہال کو دیکھنے لگی
"اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں دس سال تک بھی انتظار کر سکتا ہوں"
نہال مسکراتا ہوں فرحین سے کہنے لگا تو فرحین سر جھکا گئی
****
"یار عنایہ میری بلیک شرٹ کہاں پر رکھ دی تم نے"
نمیر ابھی آفس سے گھر لوٹا تھا روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو وہ وارڈروب میں اپنی شرٹ دیکھتا ہوا عنایہ کو بولا مگر جب اس کی نظر دروازے پر پڑی
"تم"
نمیر کے تاثرات سنجیدہ ہوئے وہ وارڈروب کا دروازہ بند کرتا ہوا منال کو دیکھ کر بولا
"مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے نمیر"
منال اس کے قریب آتی ہوئی سنجیدگی سے بولی
"اوکے جو بھی بات کرنی ہے ڈرائنگ روم میں چلو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں" نمیر کو یوں منال کا اپنے بیڈ روم میں آنا اچھا نہیں لگا مگر وہ چہرے کے تاثرات نارمل رکھتا ہوا بولا
"ڈرائنگ روم میں نہیں یہاں اکیلے بات کرنی ہے مجھے، دیکھو میں جانتی ہوں میں تمہیں اپنی بیوقوفی سے کھو چکی ہوں مگر مجھے اب احساس ہوگیا ہے اپنی غلطی کا پلیز نمیر سب بھول جاؤ مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لو۔۔۔ ایسے تو نہیں ہے نا صرف میں نے تم سے محبت کی تھی بے شک اظہار پہلے میں نے کیا تھا مگر تم بھی تو چاہتے تھے نہ مجھے اور یہ دیکھو اس تصویر میں نہال نے کیسے عنایہ کا ہاتھ تھاما ہوا ہے عنایہ کے دل میں ابھی تک تمہارا بڑا بھائی بستا ہے جیسے ابھی تک تم میرے دل میں بستے ہو۔۔۔ نہال اگر شادی نہیں کرتا تو عنایہ خود تم سے علیحدگی لے کر"
منال اپنے موبائل میں ثبوت کے طور پر عنایہ اور نہال کی تصویر دکھانے لگی مگر نمیر کے پڑنے والے تھپڑ سے اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔۔۔ منال بے یقینی سے نمیر کو دیکھنے لگی
"میں نے تمہیں پہلے بھی بولا تھا، تم جو بھی بات کرنا بہت سوچ سمجھ کر کرنا ایک طرف میرا بھائی ہے دوسری طرف میری بیوی۔۔۔ تم ہوتی کون ہو عنایہ کے کردار کے بارے میں اتنی گھٹیا بات کرنے والی۔۔۔ عنایہ کس کردار کی مالک ہے یہ تمہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں تم سے زیادہ اچھی طریقے سے اپنی بیوی کو جانتا ہوں اور اب میں تمہیں بھی جان گیا ہوں۔۔۔ ہاں میں پہلے تمہیں چاہتا تھا مگر مجھے تب تک یہ اندازہ نہیں تھا کہ تم ایک گری ہوئی لڑکی ہوں اور آج کے بعد تو میں تمہاری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔۔۔ آئندہ اگر تم نے عنایہ کے خلاف میرے سامنے یا کسی کی بھی سامنے زہر اگلنے کی کوشش نہیں تو میں تمہیں ہرگز نہیں بخشوں گا"
نمیر اسے وارن کرتا ہوا بولا اور اپنے کمرے سے باہر جانے لگا تبھی منال نے اس کا ہاتھ پکڑا
"اوکے میں اب عنایہ کے بارے میں تم سے کچھ نہیں بولوں گی مگر میں گری ہوئی ہرگز نہیں ہوں پیار کرتی ہوں تم سے۔۔۔ ٹھیک ہے تم عنایہ کو بھی اپنی زندگی سے مت نکالو مگر مجھے اپنی زندگی میں شامل کرلو۔۔۔ میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر" منال روتی ہوئی نمیر سے کہنے لگی اور اچانک اس کے سینے سے لگ گئی اس سے پہلے وہ اسے خود سے پیچھے دور کرتا اسی لمحے کمرے کا دروازہ کھلا اور عنایہ اندر آئی وہ اندر کا منظر دیکھ کر وہی رک گئی۔۔۔ نمیر نے منال کو پیچھے دھکا دیا اب وہ عنایہ کو دیکھ رہا اور عنایہ چہرے سے آنسو صاف کرتی ہوئی منال کو
"کم از کم آپ میں اتنے ایٹی کیٹز تو ہونے چاہیے منال آپی کے یوں کسی میرڈ کزن کے بیڈروم میں اتنے دھڑلے سے نہیں آیا جاتا"
"مجھے یہاں نمیر نے میسج کرکے بلایا تھا"
منال کی بات سن کر نمیر کو آگ لگ گئی اس سے پہلے وہ منال کو اپنے بیڈ روم سے دھکا دے کر نکالتا
"ایک منٹ نمیر مجھے بات کرنے دیں منانا آپی سے" عنایہ نمیر کا غصہ دیکھ کر اس سے بولی
"اور کتنا گرائے گی آپ خود کو منال آپی میری نظروں میں،،، آپ کو شرم آنی چاہیے ایسی گھٹیا باتیں کرتے ہوئے ایک شوہر اور اس کی بیوی کے بیچ میں نااتفاقی پیدا کرتے ہوئے۔۔۔ یہ اونچی حرکتوں کرکے خدارا اپنے آپ کو میری اور نمیر کی نظر میں خود کو نہ گرائے۔۔۔۔آپ تو اپنے اپکو عورت کے معیار سے گرانے پر تل گئی ہیں۔۔۔ مجھے اپنے شوہر پر اپنے سے زیادہ بھروسہ ہے، آپ ان کے بارے میں کچھ بھی بول کر مجھے نمیر سے بدگمان نہیں کر سکتی"
عنایہ کی باتیں سن کر منال ایک پل کے لئے کچھ بھی نہیں بولی۔۔۔ وہ تو کبھی اس کے سامنے زبان تک نہیں چلاتی تھی اور آج کیسے اس کے سامنے بڑھ بڑھ کر بول رہی ہے یقیناً یہ نمیر کی محبتوں کا ہی اعجاز تھا اور اس کا فراہم کردہ اعتبار بھی
"میری جان جانے دو اسے، اپنی انرجی ویسٹ مت کرو،، یہ اپنی عادت سے مجبور ہے۔۔۔ نہیں جانتی کہ ہم دونوں کا رشتہ کتنا مضبوط ہے"
نمیر عنایہ کے پاس آکر اس کے کندھے کے گرد بازو حائل کر کے دوسرا ہاتھ عنایہ کے گال پر رکھتا ہوا بولا۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر منال کا اب ان کے بیڈروم میں ٹھہرنا بے مقصد تھا وہ بیڈروم سے جانے لگی
"منال دروازہ بند کرتی ہوئی جانا پلیز"
کمرے سے نکلتی ہوئی منال کو نمیر کی آواز آئی۔۔۔ اس نے دھندلی آنکھوں سے مڑ کر دیکھا۔۔۔ نمیر جھکا ہوا عنایہ کے کان میں شرارت سے کچھ کہہ رہا تھا جس پر عنایہ نے مسکرا کر اسے گھور کر دیکھا اب نمیر بھی عنایہ کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا منال بیڈروم کا دروازہ بند کر کے اپنے آنسو پوچھتی ہوئی وہاں سے نکل گئی
****
ایک سال بعد
وہ ڈیوٹی پر تھا جب فریدہ نے اسے کال کر کے بتایا کہ شانزے کی اچانک حالت بگڑ گئی ہے اور وہ اسے ہاسپٹل لے کے جا رہی ہے۔۔۔ نوفل خود بھی فوری طور پر اسپتال کے لئے روانہ ہوا مگر ٹریفک میں پھنسنے کے باعث اسے پہنچنے میں دیر ہو گئی۔۔۔ جب وہ ہسپتال پہنچا تو اسے خبر ملی وہ ایک پیارے سے بیٹے اور بیٹی کا باپ بن چکا ہے فریدہ نے اسپتال کے کوریڈور میں ہی اس کو خوشخبری سنائی تھی وہ دادی بن کر بے حد خوش تھی نوفل مسکراتا ہوا ہاسپٹل کے روم میں اپنی ظالم حسینہ کے پاس پہنچا
شانز بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اس کے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی جبکہ چہرے پر کافی سویلنگ تھی۔۔۔ ایمرجنسی میں اس کا سیزر کرنا پڑا اس وقت وہ نیم بے ہوش تھی جب اسے نوفل کے ہونٹوں کا لمس اپنی پیشانی پر محسوس ہوا شانزے نے آئستہ سے اپنی آنکھیں کھولی نوفل اس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
"تمہیں چنوں اور منوں چاہیے تھے۔۔۔۔ چنوں تو آگیا مگر منوں کی جگہ منی آگئی ہے"
شانزے نے نوفل کو دیکھ کر دھیمے لہجے میں بولا مگر نوفل اس کی بات سن کر مسکرا دیا
"میں ابھی بےبی نرسری میں دونوں کو دیکھ کر آیا ہوں اور مزے کی بات یہ ہے کہ منی ہمارے چنوں سے بھی زیادہ کیوٹ ہے۔۔۔ دل چاہ رہا تھا اسے انکیوپٹر سے نکال کر ڈھیر سارا پیار کرو"
نوفل کی بات سن کر شانزے آہستہ سے مسکرائی
"کیا ہوا زیادہ پین ہو رہا ہے نوفل بیڈ پر جھگا شانزے کا گال سہلاتا ہوا فکرمندی سے پوچھنے لگا
"اس سے تھوڑا کم جو تم پر گولی چلا کر محسوس ہوا تھا"
شانزے کو اپنے عمل پر شاید ابھی بھی شرمندگی تھی جبھی وہ یہ بات ابھی تک نہیں بھول پائی تھی
"اے میں نے منع کیا تھا نہ کہ اب ہمارے درمیان فضول قسم کی بات دوبارہ نہیں ہوگی۔۔۔ جب میں نے تم سے کوئی شکوہ نہیں کیا غصہ نہیں کیا تم پر۔۔۔ تو پھر تم یہ ٹاپک کیوں لاتی ہو ہمارے بیچ میں"
نوفل شانزے کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا
"تم اتنی اچھے کیوں ہو نوفل" شانزے نوفل کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی وہ نوفل کی محبت پر اپنی قسمت پر جتنا رشک کرتی کم تھا
"تم اتنی ظالم جو ہو"
نوفل اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا بولا
"اب کیا ظلم کر دیا میں نے اپنے ایس۔پی پر"
شانزے درد کے باوجود مسکراتی ہوئی پوچھنے لگی
"یہ بات یہاں پر نہیں گھر جا کر اپنے بیڈ روم میں بتاؤں گا"
نوفل ہاتھ کا پنچ بنا کرآئستہ سے شانزے کے گال پر لگاتا ہوا بولا
"امی کو بتا دیا تھا تم نے میرا"
شانزے نوفل سے نائلہ کا پوچھنے لگی
"تھوڑی دیر پہلے ہی بات ہوئی تھی رات کی فلائٹ سے پہنچ رہی ہیں وہ"
نوفل شانزے کو لگی ڈرپ کی اسپیڈ سلو کرتا ہوا اسے بتانے لگا
"آپی اور عنایہ کو بھی بتا دیا"
شانزے کو اب دوسری فکر دونوں دیورانی اور جھٹانی کی ہوئی جن کی آپس میں کافی زیادہ بنتی تھی
"بےفکر ہوجاؤ میں نے نمیر اوا نہال دونوں کو اطلاع دے دی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر میں سب یہاں آن دھمکے گے۔۔۔ ابھی تھوڑا سا ریسٹ کر لو"
نوفل شانزے کے خیال سے اسے دیکھتا ہوا بولا تو شانزے نے مسکرا کر اپنی دونوں آنکھیں بند کر لی
عنایہ اور فرحین کی آپس میں کافی اچھی انڈراسٹینڈنگ تھی بلکہ دو ماہ کا چھوٹا سا عالیان عنایہ سے زیادہ فرحین کی گود میں رہتا 2 ماہ پہلے عنایہ نے گول مٹول سے صحت مند بچے کو جنم دیا جو کہ اپنے ماں باپ کے علاوہ اپنی دادی تایا تائی گھر بھر کا لاڈلا تھا اس کی دیکھ بھال فرحین بغیر کسی کے کہے کرتی تھی۔۔۔ عالیان خود بیان عنایہ کی بانسبت فرحین سے مانوس تھا اور گھر میں زیادہ تر اسی کے پاس پایا جاتا
کیوکہ نمیر نے عنایہ کی ایک نہ سنتے ہوئے اس کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن کرادیا تھا ہر روز رات میں وہ اس کی کلاس لینے سے پہلے اسی ٹینشن دینا نہیں بھولتا
فرحین اب کافی حد تک نارمل ہو گئی تھی اور آہستہ آہستہ زندگی کی طرف بھی راغب ہو رہی تھی وہ اب باتیں کرتی تھی سب کی باتوں پر مسکراتی بھی تھی اس نے سارے گھر کی ذمہ داری کے ساتھ علیان کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھالی تھی۔۔۔ نہال اس کا بہت اچھے طریقے سے خیال رکھتا تھا ہر ممکن اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔۔۔ اب وہ اس کے دل کی ہر بات اس کے بولنے سے پہلے جان جاتا۔۔۔ عالیان کے ننھے سے وجود کو دیکھ کر فرحین کو بھی اپنے اندر ایک کمی کا احساس محسوس ہوتا جوکہ ماں بن کر پوری ہو سکتی تھی مگر اس سے بھی اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ سب اسے نہال سے کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔۔ نہال نے فرحین کی دلی آمادگی کو دیکھتے ہوئے اپنے اور فرحین کے رشتے کو اس کا اصل مقام دے دیا تھا۔۔۔ اب کی بار نہال کی قربت سے فرحین کو اپنے آپ سے گھن نہیں آئی بلکہ اسے اپنا آپ معتبر لگنے لگا
****
چھ سال بعد
"عالیان فوراً اندر آو ورنہ ابھی میں تمہارے ڈیڈ کو بلاتی ہوں"
گھر کے لان میں پانچ سالہ عالیان بارش میں کافی دیر سے بھیگ رہا تھا۔۔۔ عنایہ ہیوی ڈیل ڈول کے ساتھ شیلٹر کے نیچے کھڑی اپنے بیٹے کو دیکھتی ہوئی بولی اسکا نائنتھ منتھ اسٹارٹ تھا
"مما پلیز خود تو آپ بارش سے ڈرتی ہیں میرے کو ڈیڈ سے مت ڈرائے"
بارش میں بھیگتا ہوں عالیان عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا
"میں بارش سے بالکل نہیں ڈرتی مگر مجھے یوں بے وقوفوں کی طرح بارش میں بھیگنا پسند نہیں لیکن تم اپنے ڈیڈ سے نہیں ڈرتے یہ بات میں ابھی جاکر نمیر کو بتاتی ہوں"
عنایہ کا ڈر اب بارش سے ختم ہوچکا تھا۔۔۔ وہ اب بارش میں نارمل ری ایکٹ کرتی تھی مگر برسات میں بھیگنا اسے ذرا بھی پسند نہیں تھا
"مما پلیز آپ ڈیڈ کا نام لے کر مجھے کیوں ڈرا رہی ہے ٹرسٹ می دس منٹ بعد خود آ جاؤں گا" نمیر کی دھمکی دینے پر عالیان ایک دم سیدھا ہوگیا کیوکہ ثروت، نہال، فرحین کے لاڈ پیار نے اسے کافی شیطان بنا دیا تھا وہ صرف نمیر کے آنکھیں دکھانے پر اپنے ڈیڈ سے ہی ڈرتا ورنہ سارا وقت شور شرابے اور شیطانیوں میں لگا رہتا
نوفل کے بیٹے ماز سے اس کی خوب بنتی کیوکہ وہ دونوں عادتوں میں ایک جیسے تھے پورے گھر کو سر پر اٹھانے والے۔۔۔ دونوں ہی مل کر آئزہ (نوفل کی بیٹی) کو بہت تنگ کرتے۔۔۔ جس کی صورت میں ان دونوں کو اپنے اپنے ڈیڈ سے خوب ڈانٹ بھی پڑتی
"نمیر ذرا جاکر عالیان کی خبر لیں،، مجھے بہت تنگ کرنے لگا ہے اب میں ڈانٹو گی تو فوراً بھابھی کے کمرے میں چلا جائے گا وہ ریسٹ کر رہی ہیں، ڈاکٹر نے انہیں ریسٹ کا بتایا ہے" عنایہ بیڈ روم میں آکر لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے نمیر کو دیکھ کر بولی
شادی کے 6 سال بعد فرحین کو بھی گڈ نیوز ملی تھی اس کا ففتھ منتھ اسٹارٹ ہو چکا تھا اور وہ ایک بیٹی کی ماں بننے والے تھی جس کا نہال کو بے صبری سے انتظار تھا
"لے لیتا ہو جا کر اس کی خبر بھی پہلے تم اپنی خبر تو دو۔۔۔ کیا کر رہی تھی کچن میں اتنی دیر سے"
نمیر لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پر رکھتا ہوا عنایہ کے پاس آیا اس کے بلکی فگر کو اپنی بانہوں میں لے کر اس کی سانسوں کی مہک اپنے اندر اتارنے لگا
"تم پیزا بیک کرنے گئی تھی یا کھانے" نمیر چیز کا ٹیسٹ محسوس کرتا ہوا شرارت سے پوچھنے لگا جس پر عنایہ نے اسے گھورا
"نمیر دوسرے بیٹے کی ڈیڈ بننے والے ہیں۔۔۔ اب آپ سیریس ہو جائیں" عنایہ اس کو گھورتی ہوئی وارڈروب سے عالیان کے کپڑے نکالنے لگی
"چندا میرے سیریس ہونے پر ہی تم سیکنڈ ٹائم اکسپیکٹ کر رہی ہو۔۔۔ چھوڑو یہ کپڑے، صبح سے تمہیں اِدھر سے اُدھر پھرتا ہوا دیکھ رہا ہوں،،، ڈاکٹر نے تمہیں بھی ریسٹ بولا ہے اب شرافت سے بیڈ پر لیٹ جاؤ"
نمیر نے عالیان کے کپڑے عنایہ کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹایا اور خود بھی اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اب وہ معمول کی طرح اپنے دوسرے بیٹے کو کس کر کے اس سے باتیں کرنے لگا
"مائی لٹل بوائے کب آنے کا ارادہ ہے اپنے ڈیڈ اور مما کے پاس،، تمہارے ڈیڈ کو تمہارا بےصبری سے انتظار ہے پلیز یار تم اپنے بھائی کی طرح افلاطون مت نکلنا،، بالکل اپنی نے مما پر جانا ایک دم کول اور باتونی"
آخری جملہ بولتے ہوئے نمیر نے عنایہ کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے آنکھ ماری جس پر عنایہ بھی مسکرانے لگی وہ اب بہت باتونی ہوگئی تھی
"اپنے بیٹے سے باتیں کرلی ہیں تو آپ میری بات بھی سن لیں۔۔۔ آج منال آپی کی بارات ہے نمیر، ہم دونوں جائے گے ناں"
عنایہ بیڈ پر لیٹی ہوئی نمیر سے پوچھنے لگی
منال نے 6 سالوں میں آنے والے ہر رشتے کو ریجیکٹ کیا۔۔۔ اب ایک رشتے پر وہ مانی تھی جس پر عشرت اپنا سر پکڑ کر رہ گئی جبکہ فرمان نے تو اپنی ہی اولاد کو اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ عدنان یعنی منال کا ہونے والا شوہر جو کہ پہلے سے شادی شدہ تھا اور دو بچوں کا باپ تھا منال سے ایک سال پہلے اسے دھواں دھار محبت ہوگئی اور اب منال اس سے ضد کر کے شادی کر رہی تھی
"یار ہفتے بھر کے بعد مجھے ایک چھٹی ملی ہے میں یہ دن ریلکس گزارنا چاہتا ہوں اور تمہاری خود کی کنڈیشن ایسی کہاں ہے جو تم جاسکو۔۔۔ میں نے صبح ہی نہال سے کہہ دیا تھا وہ اور ماما چلے جائیں گے۔۔۔ تم بس ریسٹ کرو اور مجھے ریلکس کرو اور اپنی افلاطون اولاد کو یہ کپڑے میں خود پہنا دوں گا مگر تھوڑی دیر بعد کیوکہ اگر وہ یہاں کمرے میں آ گیا تو مجھے تمہارے قریب رہنے کا موقع مشکل سے ہی ملے گا"
نمیر بولتا ہوا عنایہ کے چہرے پر جھکا
"ڈر تو نہیں لگ رہا" نمیر اپنی کہنی عنایہ کے تکیہ پر ٹکا کر دوسرا ہاتھ عنایہ کے پیٹ رکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا کیوکہ عالیان کی دفعہ میں وہ کافی ڈری ہوئی تھی
"زیادہ نہیں مگر تھوڑا تھوڑا"
عنایہ نمیر کے شولڈر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی
"تھوڑا تھوڑا بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں تمہارے پاس موجود ہوگا نہ اس ٹائم"
نمیر نے جیسے ہی اپنے ہونٹ عنایہ کی پیشانی پر رکھے ویسے ہی بیڈروم کا دروازہ کھلا عنایہ نے فوراً اپنا ہاتھ نمیر کے کندھے سے ہٹایا نمیر ایک دم پیچھے ہوا
"اُپس پرامس ڈیڈ میں نے کچھ نہیں دیکھا"
عالیان نے بولنے کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں کی جگہ ہونٹوں پر رکھ لئے
"کتنی بار کہا ہے تمہیں پہلے دروازہ ناک کرتے ہیں پھر کسی کے روم میں جاتے ہیں کب آئے گے تم میں مینرز معلوم نہیں تمہاری مما کو سہلا رہا تھا میں"
نمیر اپنے بیٹے کو ڈانٹنے کے ساتھ بات بناتا ہوا بولا
"رئیلی ڈیڈ میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے کچھ نہیں دیکھا" عالیان نے اپنے غصے میں بھرے ڈیڈ کو ریلیکس کرنا چاہا
"شیٹ اپ ڈیڈ کا بچہ،، اٹھاو اپنے یہ کپڑے دادو کے روم میں جاکر چینج کراو ان سے اور خبردار جو تم تائی کے روم میں گئے یہ پھر دوبارہ باہر نکلے"
نمیر دوبارہ اسے آنکھیں دکھا کر وارن کرنے لگا عالیان معصوم شکل بنا کر اپنے کپڑے اٹھاتا ہوا روم سے باہر نکل گیا جس پر عنایہ نمیر کو دیکھ کر مسکرانے لگی
"آنٹی مجھے بتاتی ہیں یا پورا آپ پر ہی گیا ہے"
عنایہ کی بات سن کر نمیر بھی مسکرا دیا
"غلط بولتی ہیں ماما۔۔ یہ مجھے اپنا بھی باپ لگتا ہے" نمیر کے بولنے پر عنایہ دوبارہ ہنس دی
The end
پوسٹ کو لائک کرئیے گا تاکہ میری محنت وصول ہو
"آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ منال آپی کے پاس آپکی جیکٹ کیسے آئی"
عنایہ کے دماغ میں بھی یہ بات بھی چپک کر رہ گئی تھی۔۔۔ عنایہ کی بات سن کر نمیر نے مسکرا کر اس کا چہرہ تھاما
"یہ ایک بہت امپورٹنٹ بات ہے اور میں چاہتا ہوں
تم اب اسی بات کو چوبیس گھنٹے سوچو"
نمیر پیار سے اس کے دونوں گال تھپتھپاتا ہوا بیڈروم سے باہر نکل گیا
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Second last epi
"کب تک کا ارادہ ہے واپس نکلنے کا" صبح ناشتے کی میز پر ان چاروں کے علاوہ نائلہ اور صائمہ بھی موجود تھی تب نوفل سے نمیر پوچھنے لگا
"ابھی بہت ضروری کام باقی ہے اس کے بعد چلتے ہیں"
نمیر کے جواب میں نوفل بولا تو سب اس کی سمت دیکھنے لگے۔۔۔ اس سے پہلے وہ اپنی بات کی وضاحت کرتا اس کے موبائل پر کال آنے لگی
"ٹھیک ہے میں آتا ہوں"
نوفل موبائل پر بولتا ہوا باہر دروازہ کھولنے گیا
نوفل کے ساتھ اندر آنے والے شخص کو دیکھ کر سب حیرت زدہ ہوگئے سب سے پہلے شانزے کرسی سے اٹھی اور چلتی ہوئی نہال کے پاس آئی اس سے پہلے وہ اس پر جھپٹتی یا اسکا گریبان پکڑتی نوفل نے شانزے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے قابو کیا
"شانزے رکو میری بات سنو"
نوفل شانزے کو پکڑتا ہوا بولا۔۔۔ سب اپنی جگہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے
"چھوڑو مجھے نوفل اس شخص نے میری بہن کی زندگی برباد کی ہے میں اسے نہیں چھوڑو گی" شانزے کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اپنے سامنے کھڑے نہال کا منہ نوچ لے یقیناً وہ ایسا ہی کرتی یا اس سے بھی برا اگر نوفل نے اس کے سختی سے دونوں ہاتھ نہیں پکڑے ہوتے
"وہ یہاں معافی مانگنے آیا ہے"
نوفل اسے پکڑتے ہوئے سمجھانے لگا تب شانزے نوفل کو دھکا دے کے زور سے چیخی
"کس بات کی معافی اس شخص کا گناہ معافی لائق ہے،، جانتے ہو تم میری بہن جب بے آبرو ہو کر واپس لوٹی تھی میری ماں اور میری کیا حالت تھی۔۔ کیسی قیامت گزری تھی ہمارے اوپر اور میری بہن اس پر کیا بیتی تھی تم جانتے ہو اس شخص کو،،، یہ آدمی میری بہن کو بے آبرو کر کے اس کو زخمی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گیا تھا۔۔۔ آپی ہر میل ڈاکٹر کو دیکھ کر ہر آدمی کو دیکھ کر،،، زور زور سے چیخے مارتی تھی۔۔۔ اس حادثے نے میری بہن کے دل میں مرد ذات کے لئے خوف بٹھا دیا،، وہ ہمیں دیکھ کر روتی تھی اب چھ سال گزرنے کے بعد وہ نارمل ہوئی ہے مگر وہ نارمل ہونے کے باوجود اب بھی نارمل نہیں ہے وہ مسکرانا بھول گئی ہے۔۔۔ خوش ہو یا دکھی ہو وہ کوئی ری ایکٹ نہیں کرتی۔۔۔ صرف اور صرف تمہارے اس دوست کی وجہ سے"
شانزے نے نوفل کو بولتے ہوئے نہال کی طرف رخ کر کے فرش پر تھوکا۔۔
نہال آنکھوں میں ندامت کے آنسو لئے شرمندگی سے سر جھکا گیا کمرے میں ایک پل کے لیے خاموشی ہوگئی شانزے اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے سے چلی گئی جبکہ نائلہ روتی ہوئی دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی نہال چلتا ہوا نائلہ کے پاس آیا اور نائلہ کے قدموں میں بیٹھ گیا
"میرا گناہ معافی لائق نہیں میں نے بہت برا کیا آپ کی بیٹی کے ساتھ،، میں فرحین کا گناہ گار ہوں،، مجھے اپنے کیے گئے گناہ کا پچھتاوہ پچھلے چھ سالوں میں اتنا نہیں ہوا جتنا دو دن سے ہو رہا ہے۔۔۔ اندر سے بہت بے سکونی محسوس کر رہا ہوں میں،، مجھے معلوم ہے آپ مجھے معاف کریں یا نہ کریں مگر اب میں کبھی بھی اپنا سر نہیں اٹھا پاؤں گا کسی کے بھی سامنے۔۔۔ آپ کے لئے مجھے معاف کرنا بہت مشکل ہوگا مگر میں چاہتا ہوں آپ مجھے معاف کر دیں،، اگر دل سے معاف نہیں کر سکتیں تو کم ازکم منہ سے بول دیں آپ نے مجھے معاف کیا شاید مجھے سکون مل جائے"
نہال آنکھوں میں ندامت کے آنسو لیے ہاتھ جوڑ کر نائلہ کے سامنے معافی مانگنے لگا
"ایک ماں اتنا بڑا دل کیسے لا سکتی ہے جس شخص نے اس کی بیٹی کی عزت کو پامال کیا وہ اس کو معاف کردے بہت مشکل عمل ہے یہ۔۔۔ اگر میرے بولنے سے تمہیں سکون ملتا ہے تو ٹھیک ہے میں بول دیتی ہو میں نے تمہیں معاف کیا۔۔ اور کوشش بھی کروں گی تمہیں معاف کردو اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے"
نائلہ اٹھ کر وہاں سے شانزے کے پاس چلی گئی اس کے پیچھے صائمہ بھی
نوفل نے آگے بڑھ کر نہال کے کندھے پر ہاتھ رکھا نہال نے اپنے آنسو صاف کر کے اسے دیکھا۔۔۔ نہال اٹھ کر کھڑا ہوا تو نوفل اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا۔۔۔ نمیر خاموشی سے سارا ڈرامہ دیکھ کر روم میں چلا آیا عنایہ بھی نمیر کے پیچھے کمرے میں چلی آئی
****
"تو میری بہن کے لیے تمہارا انصاف یہ کہتا ہے کہ ہم اس کے مجرم کو اسی کے ساتھ بیاہ کر ساری زندگی کے لیے اسی کے حوالے کردیں واہ نوفل"
شام میں جب نمیر عنایہ شانزے نائلہ صائمہ موجود تھے تب نوفل نے نائلہ سے فرحین کے لئے نہال کی بات کی۔۔۔ جس کا سن کر سب سے اپنی جگہ حیرت زدہ ہوئے مگر شانزے نوفل کی بات پر فوراً بولی
"یہ فرحین کے لئے میرا انصاف نہیں کہتا شانزے،، نہال کو اپنے کیے گئے عمل کا احساس ہے وہ شرمندہ ہے اور اپنی غلطی کا مداوح کرنا چاہتا ہے خود اس نے مجھ سے بات بولی ہے تبھی میں نے آنٹی سے ایسا کہا"
نوفل جانتا تھا سب سے پہلا اعتراض اس کی بیوی کی طرف سے ہی اٹھنا تھا۔۔ نہال کی آمد پر وہ اس کے روم سے دوبارہ نائلہ کے پاس چلی گئی تھی
"غلطی نہیں گناہ۔۔۔گناہ کیا ہے تمہارے دوست نے اور گناہ کی سزا ہوتی ہے مداوح نہیں،، میں واپس جاکر اس کے خلاف مقدمہ دائر کروں گی"
شانزے نوفل کی بات کی تصدیق کرتی ہوئی اسے اپنا ارادہ بھی بتانے لگی
"ٹھیک ہے میں اس کے گناہ کو نظر میں رکھتا ہوا اسے اریسٹ کرلیتا ہوں۔۔۔ اس کے بعد تم نہال پر اپنی بہن کے ریپ کا کیس فائل کر دینا۔۔۔ عدالت کورٹ کچہری کے چکر لگاتی رہنا ہر ماہ پیشی پر اپنی بہن کو لے کر عدالت کے چکر لگانا جہاں اس سے کھلم کھلا سارے سوالات کی تصدیق کی جائے گی۔ ۔۔ جس کے جوابات اس نے آج تک تمہیں نہیں بتائے ہوگے مگر وہ سب اسے وہاں بتانا پڑے گے۔۔۔ سال ڈیڑھ سال تک مقدمہ چلتا رہے گا ہر ماہ بعد اگلے ماہ پیشی کی تاریک ملتی رہے گی۔۔۔ یہ سب باتیں جن کے علم میں ابھی تک نہیں آئی ہے ان کے سامنے بھی کھل کر آئے گیں اور پھر تم ان کو بھی وضاحتیں پیش کرنا۔۔۔ اس کے بعد نہال کو سات سے آٹھ سال تک کی سزا ہو جائے گی۔۔۔ اور سات سے آٹھ سال بعد اپنی سزا پوری کر کے وہ ہر چیز سے بری الذمہ ہوجائے گا۔۔۔ یہ آپشن تمہاری نظر میں بیسٹ ہے یا پھر یہ کہ فرحین اپنی باقی کی زندگی اس کے ساتھ گزارے نہال واقعی شرمندہ ہے۔۔۔ اگر اس نے فرحین کی زندگی برباد کی ہے تو اسے آباد بھی وہی کرے گا وہ اسے واپس نارمل لائف میں لے کر آئے گا۔۔۔ فوری طور پر نہ سہی مگر آہستہ آہستہ اس کی لائف نارمل ہوجائے گی۔۔۔۔ یا تم یہ چاہتی ہو کہ ساری زندگی فرحین بے سہارا اور مظلوم عورتوں کے بیچ میں رہ کر انہی کے ساتھ زندگی گزارتی ہوئی اپنے آپ کو ان جیسا سمجھتی رہے"
نوفل کی بات سن کر تھوڑی دیر کے لئے شانزے سے چپ ہو گئی
"میرا دل نہیں مانتا کہ میری بہن اپنی باقی کی زندگی اس انسان کے ساتھ گزارے جس نے اس کی زندگی خراب کی"
شانزے نوفل کو دیکھتی ہوئی بولی
"تو اب وہ اسے اپنی زندگی میں شامل کرکے اس کی زندگی سنوارے گا تو اس میں حرج کیا ہے"
نوفل بھی شاید اس سے بحث کے موڈ میں لگ رہا تھا جبھی سنجیدگی سے بولا
"اپنے دوست کی وکالت کرنا بند کرو نوفل۔۔۔ تمھاری ایمانداری کی نشر خبریں میں ٹی وی پر دیکھ چکی ہوں۔۔۔ اب ویسے ہی ایمانداری سے اپنا فرض نبھاؤ اور آریسٹ کرو اپنے دوست کو"
شانزے کی بات پر نوفل نے غصے میں گھور کر اسے دیکھا اس سے پہلے وہ کچھ دوبارہ شانزے کو بولتا نائلہ بول اٹھی
"فرحین کی زندگی کا فیصلہ تم نہیں کرسکتی شانزے،، میں ماں ہو اسکی جیسا میں چاہو گی وہی کرو گی تم کل نوفل کے ساتھ اپنے گھر واپس جانے کی تیاری کرو اور نوفل آپ تھوڑی دیر بعد نکاح خواں کو لے کر آ جاؤ۔۔۔ فرحین سے میں بات کرتی ہوں" نائلہ کے بولنے پر کمرے میں موجود سب افراد اسی کی طرف دیکھنے لگے
"امی آپ کیا کر رہی ہیں، اگر وہ داماد ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں آپ اس کی ہر بات مانے گیں" شانزے نائلہ کو دیکھتی ہوئی بولی
"میں کسی کی بات نہیں مان رہی جو مجھے فرحین کے لیے صحیح لگے گا میں وہ کروں گی،، اب اپنی زبان چلائے بغیر کمرے سے جاؤ"
نائلہ آنکھوں سے شانزے کو تنبیہی کرتے ہوئے بولی شانزے نوفل پر ناراض نگاہ ڈال کر وہاں سے چلی گئی
****
"تو دوستی کا فرض نبھایا جارہا ہے گڈ" شانزے کے روم سے جاتے ہی عنایہ اس کے پیچھے چلی گئی جبکہ صائمہ اور نائلہ دوسرے خواتین والے پورشن میں چلی گئی فرحین سے بات کرنے، تب نمیر نوفل کو دیکھتا ہوا بولا
"تو تم ایسا نہیں چاہتے تم بھی شانزے کی بات سے ایگری کرتے ہو"
نوفل نمیر کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"اپنی جگہ وہ بھی غلط نہیں ہے ظاہری بات ہے فرحین اس کی بہن ہے اس لیے تمھاری اس کا دل دکھا ہوا ہے اپنی بہن کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر۔۔ اس لیے وہ تمہاری تجویز قبول نہیں کر پا رہی ہے ویسے تمہیں کیا لگتا ہے نہال کے لیے یہی سزا کافی ہے"
نمیر نوفل کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"یار نہال کو اس کے کیے کی سزا دینے والے ہم کون ہوتے ہیں،، نمیر اسے اس کے گناہ کی سزا اوپر والے سے مل چکی ہے۔۔۔ وہ دو ماہ تک زندہ لاش کی طرح بستر پر پڑا رہا جسے اس نے سچے دل سے چاہا وہ اب اس کے بھائی کی زندگی میں شامل ہے اس کی بھابھی کے روپ میں۔۔۔ وہ اپنے گناہ کی وجہ سے اب ساری زندگی کسی کے سامنے نظر نہیں ملا پائے گا وہ واقعی بہت شرمندہ ہیں نمیر۔۔۔ کل اس نے مجھے خود کال کی تھی وہ یہاں نائلہ آنٹی سے معافی مانگنے آنا چاہتا تھا اور آج صبح اس نے خود مجھ سے خود کہا وہ فرحین کو نارمل لائف میں واپس لانا چاہتا ہے۔۔۔ شاید اسطرح وہ ریلیکس ہو جائے اسے سکون مل جائے مجھے لگتا ہے اگر کوئی اپنی غلطی پر نادم ہو تو اسے ایک موقع ملنا چاہیے"
نوفل نمیر کے سامنے اپنی رائے دیتا ہوا بولا
"اور تمہاری بیوی جو تم سے اچھا خاصا ناراض ہوگئی ہے اس کا کیا کروگے"
نمیر اب بھی سنجیدگی اس سے پوچھ رہا تھا جس پر نوفل نے اس کو مسکرا کے دیکھا
"وہ زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتی مجھ سے منا لوں گا"
نوفل کی بات پر نمیر مسکرایا
"زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتی بس غصے میں گولی مار سکتی ہے"
نمیر کی بات سن کر نوفل نے گھور کر اسے دیکھا
"ایسے طعنے تم مجھے نہیں دو۔۔ یہ طعنے میں اپنی بیوی کو اگلے دس سال تک دینے کا ارادہ رکھتا ہوں" نوفل کی بات سن کر نمیر دوبارہ مسکرایا
"مجھے معلوم ہے تم کتنے بڑے زن مرید ہو یہ طعنے تم کبھی نہیں دے سکتے اپنی بیوی کو"
نمیر کی بات سن کر نوفل بھی ہنسا
"چلو اب میرے ساتھ نکاح کے کچھ انتظامات کرواؤ میرا اکیلے کا دوست نہیں لگتا، وہ تمہارا بھی بھائی ہے" نوفل اسے بولتا ہوا باہر نکلا نمیر بھی گاڑی کی چابی پاکٹ میں چیک کرتا ہوا اسکے پیچھے نکل گیا
****
معلوم نہیں نائلہ اور صائمہ نے فرحین کو کیسے اور کیا کہہ کر نکاح کے لیے راضی کیا۔۔۔ گھر میں چند خواتین اور گھر کے افراد کے سامنے اس کا نکاح نہال سے پڑھایا گیا جبکہ شانزے ان سب میں شامل نہ ہوئے بغیر نائلہ کے کمرے میں بیٹھی روتی رہی۔۔۔ وہ نوفل کے پاس اس کے کمرے میں بھی نہیں جا رہی تھی نوفل نے بھی ابھی خاموشی برتی۔۔وہ اسے اپنے ساتھ واپس لے جاکر اسے منانے کا ارادہ رکھتا تھا
****
فرحین کو اس وقت صائمہ خالہ کے گھر والے پورشن میں لاکر ایک بیڈ روم میں بٹھایا گیا اس کا دل اب ان عورتوں کے درمیان ہی لگتا تھا۔۔۔ صائمہ اور نائلہ بہلا کر اسے اپنے ساتھ لائی تھی پھر نائلہ نے بہت پیار سے اسے سمجھایا تھا کہ آج اس کا نکاح ہے وہ ایک اچھی بیٹی کی طرح اپنی ماں کا مان رکھ لے اور نکاح کے لئے راضی ہو جائے جس پر فرحین بہت روئی۔۔۔ اسے صائمہ اور نائلہ نے بہت پیار کیا۔۔۔ اسے اپنی چھوٹی (شانزے) نہیں دکھائی دے رہی تھی کل سے،،، مگر اب وہ اپنے دل میں آئی بات کسی سے پوچھتی نہیں تھی دل میں ہی رکھتی تھی مگر چھوٹی کو اس وقت اس کے پاس آنا چاہیے تھا
نائلہ ایک خوبصورت لڑکی کو اس کے پاس لے کر آئی،، نائلہ نے بتایا یہ شانزے کی دوست ہے وہ پیاری سی لڑکی اس سے بہت پیار سے مل رہی تھی۔۔۔ اس سے بہت کم لوگ پیار سے ملتے تھے زیادہ تر لوگوں کی آنکھوں میں اس کے لیے افسوس، ترس، رحم اور کبھی کبھی کرائیت بھی ہوتی تھی
جب نکاح کا وقت آیا اور اسے رضامندی پوچھی گئی نہال کے نام پر وہ خوفزدہ نظروں سے نائلہ کو دیکھنے لگی
"میری لاج رکھ لے بیٹا قبول کرلے"
نائلہ کے الفاظ پر اس نے نکاح نامے پر یہ سوچ کر سائن کیا وہ اپنی عزت گنوا کر ایک دفعہ اپنی ماں کی لاج نہیں رکھ سکی تھی اب دوبارہ وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی۔۔۔ بہت سارے آنسو اسکی آنکھ سے گرے جس کے ساتھ اس نے نکاح نامہ پر سائن کیے
دروازہ کھلنے کی آواز پر فرحین کی سوچوں کا ارتکاز ٹوٹا۔۔ آنے والے شخص کو اس نے اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو حیرت اور خوف سے اس کی آنکھ کھل گئی جسم کے اوپر جیسے چونٹیاں رینگنے لگی وہ تیزی سے اٹھ کر خوف کے مارے دیوار سے جا لگی
نہال بہت ساری ہمت جمع کر کے فرحین کے پاس کمرے میں گیا تھا اس کی نظر فرحین پر پڑی تو چونک گیا وہ اس فرحین سے بالکل مختلف تھی جو چھ سال پہلے اس کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔۔۔ وقت اور حالات نے اسے اس کی عمر سے بڑا کردیا تھا وہ اپنی عمر سے تین چار سال بڑی لگ رہی تھی دبلی پتلی ہڈیوں کا ڈھانچا،، وقت سے پہلے جگہ جگہ بالوں میں آئی چاندی،، چہرے کی رونق بھی اس حادثے نے چھین لی تھی۔۔۔ اس کی حالت دیکھ کر نہال کو مزید پچھتاوے نے گھیرا فرحین اسے دیکھ کر پہچان گئی تھی تبھی وہ خوفزدہ ہو کر دیوار سے جا لگی جیسے اپنے لئے کوئی جائے پناہ تلاش کر رہی ہو نہال کو مزید شرمندگی ہونے لگی
"فرحین مجھے معاف کر دو پلیز صرف ایک بار مجھے معاف کردو۔۔ میں اپنے گناہ پر شرمسار ہو بہت بے سکونی ہے مجھے،، جب تک تم مجھے معاف نہیں کروں گی تو میرے دل پر بوجھ بڑھتا رہے گا۔۔ میں نے تمہارے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی زیادتی کی ہے۔۔۔ آج مجھے احساس ہو رہا ہے عزت کتنی قیمتی چیز ہوتی ہے میں نے اس وقت اپنے نفس پر قابو نہ پا کر تمہاری عزت کو پامال کیا تھا۔ ۔۔۔ دیکھو آج میرے اپنوں کے سامنے میری عزت کی دھجیاں بکھری ہیں۔،۔۔ میں نمیر، عنایہ نوفل شانزے کسی سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہا میں اسی کا مستحق ہو کیوکہ میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا پلیز مجھے معاف کردو"
نہال فرین کے قریب آ کر اس سے معافی مانگنے لگا وہ دیوار سے چپک کر نیچے فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔ اب وہ دونوں ہی زمین پر بیٹھے ہوئے رو رہے تھے،، نہال واقعی اپنے کیے پر نادم تھا اس کے سامنے زمین پر بیٹھا ہاتھ جوڑ کر رو رہا تھا
"تم نے میری عزت نہیں چھینی مجھ سے میری زندگی کی ہر خوشیوں سے محروم کردیا۔۔ میرا دل اندر سے مار دیا، میری مسکراہٹ تم چھین چکے ہو،، زندگی کی امنگ، زندہ رہنے کی خواہش۔۔۔ سب کچھ،، اب کچھ اچھا نہیں لگتا مجھے،، مجھے کسی چیز کی چاہ نہیں بچی ہے،،، تم مجھ سے معافی مانگ رہے ہو میرے پاس بچا ہی کیا ہے تمہیں دینے کے لیے تم میرا سب کچھ چھین چکے ہو نہال، اب تمھیں مجھ سے معافی چاہیے ٹھیک ہے میں نے تمہیں معاف کیا"
مختصر سے جملے بولنے والی فرحین چھ سال بعد بولی تھی
"میں واقعی تم سے سب کچھ چھین چکا ہوں میں اس لائق نہیں کہ مجھے معاف کیا جائے مگر میں وعدہ کرتا ہوں تم سے، تمہارا دل دوبارہ آباد کر دو گا تمہارے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھینی ہے تو میں ہی ان پر مسکراہٹ لے کر آؤں گا۔۔۔ تمہاری زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھر دوں گا تمہیں دوبارہ زندگی سے پیار ہو جائے گا پرامس ہے میرا تم سے"
نہال اپنے چہرے سے آنسو صاف کرتا ہوا یہ سب جیسے فرحین سے نہیں خود سے عہد کر رہا تھا۔۔۔ اس نے جب فرحین کے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا تو فرحین روتے ہوئے اسے دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔ نہال نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما فرحین کو مزید رونا آیا تو نہال اس کے آنسو پوچھنے لگا
****
آخری قسط دو دن کے بعد پوسٹ ہوگی
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Last episode (A)
"بھابھی پلیز یار بولے نا میری بات مانے گی"
نوفل پولیس اسٹیشن سے گھر میں داخل ہوا تو اسے خرم کی آواز اپنے بیڈروم سے آتی سنائی دی وہ شانزے سے کسی بات کی منتیں کر رہا تھا۔۔۔ کل ہی ان سب کی کوئٹہ سے واپسی ہوئی تھی شانزے ابھی بھی نوفل سے ناراض تھی
"کیا باتیں ہے منوانی ہے تم نے اپنی بھابھی سے، بہت کم ہی یہ کسی کو خاطر میں لاتی ہے میرے بھائی"
نوفل بیڈ روم میں آکر بیڈ پر نیم دراز ہوتا ہوا خرم سے بولا
"بھیا آپ کا اور میرا معاملہ الگ ہے آپ کو بیشک وہ خاطر میں نہ لائے۔۔۔ مگر میں ان کا بہت پیارا دیور ہو کیوں بھابھی ایگری کرتی ہے ناں آپ میری بات سے"
خرم نوفل کو چڑا کر شانزے سے پوچھنے لگا
"تمہاری بات سے میں ایگری کرتی ہوں اور تمہاری بات بھی مان لیتی ہوں مگر چوائس میری بھی ہوگی۔۔۔ میں اوکے کرنے کے بعد ہی بات آگے کروگی"
وہ نوفل کو یکسر نظر انداز خرم سے بولی
"او گریٹ یار پھر کل کا ہی پھر ڈن کر لیتا ہوں اور اس کے بعد سارا کچھ آپ کو بھی سنبھالنا ہے۔۔ اب میں چلا" خرم اور وہ نجانے کون سی اپنی باتیں کر رہے تھے۔ ۔۔ بات مکمل ہونے پر خرم خوش ہوکر کمرے سے نکل گیا
"اے ظالم حسینہ وہاں کیا کر رہی ہو یہاں آو نہ زرا"
نوفل نے بیڈ پر لیٹے شانزے کو دیکھ کر مخاطب کیا جو دور رکھی چیئر پر بیٹھی تھی۔۔۔ شانزے اپنی روم کا دروازہ بند کرکے نوفل کے پاس آئی
"اب تو میں تمہیں اور بھی ظالم لگو گی گولی جو چلا چکی ہو تم پر۔۔ اب تمہیں ذرا محتاط رہنا چاہیے"
شانزے کی بات سن کر نوفل نے اپنے چہرے کی مسکراہٹ چھپائی اس کا ہاتھ تھام کر بیڈ پر اپنے پاس بٹھایا خود بھی اٹھ کر بیٹھ گیا
"تمہارے ہاتھ کا تپھڑ کھا مجھے تم سے محبت ہوگئی تھی،،، اور اب گولی کھانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے عشق ہو جائے گا۔۔۔ کافی خراب نشانہ ہے ویسے تمہارا۔۔۔ دل کو چھوتے چھوتے رہ گئی تمہاری چلائی گئی گولی"
نوفل اسے چھیڑنے والے انداز میں بولا تو شانزے نے اس کی سینے پر سر رکھا تھا
"بہت فضول بولتے ہو تم۔۔۔ امی ناجانے کیوں صائمہ خالہ کے پاس رک گئی۔۔۔ اب مجھے بہت فکر ہو رہی ہے نوفل آپی کی وہ عادی نہیں ہے اس طرح اجنبی ماحول میں سب کے ساتھ رہنے کی"
شانزے فرحین کے لیے اپنی فکر مندی ظاہر کرتی ہوئی بولی
"کوئی بھی لڑکی عادی نہیں ہوتی سب کو ہی ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے یار۔۔ اب اسے اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنا ہے، عادت تو ڈالنی ہوگی،، تم بتاؤ اس طرح کمرے میں کیوں بیٹھی تھی"
نوفل پیار سے شانزے کو سمجھاتا ہوا بولا
"تمہاری امی مجھ سے ناراض ہیں نوفل،، بتاؤ میں ان کو کیسے مناو۔۔۔ ان کو کھانے میں کیا ڈش پسند ہے بلکہ ایسا کرتے ہیں ان کے لیے شاپنگ کر کے آتے ہیں پھر وہ خوش ہو جائیں گی"
فریدہ سے جب وہ فون پر بات کرتی تھی،، فریدہ بہت اچھے طریقے سے اس سے بات کرتی تھی مگر آج وہ کافی روکھے پھیکے لہجے میں شانزے سے بات کر رہی تھی جو شانزے کو کافی فیل ہوا مگر شانزے کو اپنی غلطی کا احساس تھا اس لیے اب اسے ہی اپنی ساس کو منانا تھا
"شاپنگ اور کھانوں سے تو وہ نہیں مانیں گیں اب تو ایک ہی طریقہ ہے ان کو منانے کا"
نوفل اسے بانہوں میں لیتا ہوا سنجیدگی سے بولا
"کیا"
شانزے نوفل سے پوچھنے لگی
"یہی کہ اب ہمیں انکو جلد سے جلد دادی بنانے کے بارے میں سوچنا چاہے وہ بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ"
نوفل شرارت بھرے انداز میں کہتا ہوں اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکا
"نوفل پیچھے ہٹو یہ کونسا وقت ہے"
شانزے اسے اوور ہوتا دیکھ کر آنکھیں دکھا کر بولی
"یار تمہارے موڈ کی وجہ سے میرے چنوں منوں دنیا میں آنے سے لیٹ ہو رہے ہیں پلیز اتنی ظالم نہ بنو اب تو کمشنر صاحب بھی چھٹیاں گزار کر واپس آگئے ہیں وہ پھر سے میری نائٹ ڈیوٹی لگا دیں گے"
نوفل بیچارگی سے بولا تو شانزے ہنس دی
"بالکل سہی ڈیوٹی لگاتے ہیں تمہاری، تمہارے کمشنر صاحب۔۔۔ اچھا میری بات سنو اور خرم کو ایک لڑکی پسند ہے وہ مجھے اس سے ملوانا چاہتا ہے اب امی کو منانے کا کام تمہارا ہے کیوکہ آنٹی تو خرم کی نہیں مانیں گی اور تم باتوں ہی باتوں میں انہیں آرام سے منا سکتے ہو"
شانزے نوفل کو خرم کی بات بتانے لگی مگر وہ اپنے ہی کام میں مگن ہو چکا تھا
*****
کوئٹہ سے رخصت ہونے پر فرحین کو معلوم ہوا عنایہ اس کی دیورانی تھی یعنیٰ نمیر کی بیوی۔۔۔ تو وہ دل ہی دل میں مسکرا دی نمیر کی بیوی اتنی ہی خوبصورت ہونی چاہیے تھی۔۔۔ کافی سال بعد اس نے نمیر کو دیکھا مگر اسے دیکھکر اب اس کا دل بالکل نارمل اسپیڈ میں دھڑک رہا تھا جبکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔۔۔
نمیر اور نوفل دونوں نے فرحین سے اپنی شرارت کی معافی مانگی۔۔۔ جب اس نے نہال کو معاف کر دیا تھا تو پھر وہ ان دونوں کو کیسے معاف نہیں کرتی
نمیر، نہال، عنایہ کے علاوہ ایک نیا چہرہ دیکھ کر ثروت کو کافی حیرت ہوئی۔۔۔ اس کے سوالات پر نمیر نے ثروت کو کیا کہہ کر مطمئن کیا نہال نہیں جانتا تھا مگر اسے معلوم تھا،،، ثروت کو نمیر نے اسکی طبیعت کے پیش نظر سچ ہرگز نہیں بتایا ہوگا۔۔۔ جو بھی تھا ثروت نے فرحین کو بہو کے روپ میں قبول کیا اور اس کا خوش دلی سے استقبال کیا
گھر کا ہر فرد اس کا خیال رکھ رہا تھا وہ عنایہ سے جلد گھل مل گئی تھی،، ثروت بھی اسے شفیق خاتون لگی اس نے صبح نہال کے آفس جانے کے بعد بھی کچھ الٹا سیدھا سوال نہیں کیا۔۔۔ وہ اس سے چھوٹی موٹی باتیں اس کی پسند ناپسند کوالیفیکیشن وغیرہ پوچھتی رہی۔۔ دوسری طرف نمیر اس سے فرینگ ہو کر بات کر رہا تھا وہ پہلے کبھی یونیورسٹی میں اس سے فرینک نہیں ہوتا تھا مگر وہ اب اس سے نارمل گھر کے فرد کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا
فرحین ابھی اپنے کمرے میں مغرب کی نماز سے فارغ ہوئی تھی،،، سر سے دوپٹہ بھی نہیں اتارا تھا کہ نہال کمرے میں آیا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپر موجود تھا جس میں سے گجرے نکال کر وہ فرحین کو پہنانے لگا
"یہ کیوں لائے ہو تم"
فرحین نہال کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی وہ فرحین کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا
"مجھے ان کی مہک بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔ میں نے سوچ رکھا تھا جب بھی میری شادی ہوگی تو میں اپنی بیوی کو گجرے لا کر پہنایا کروں گا"
نہال اس کو گجرے پہناتا ہوا بتانے لگا
"تم نے اپنی شادی کے متعلق مجھے تو نہیں سوچ رکھا ہوگا۔۔۔ کوئی تو ہوگی تمہاری زندگی میں جسے تم"
فرحین کی بات مکمل ہونے سے پہلے نہال اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ چکا تھا
"اب میں صرف تمہارے متعلق سوچتا ہوں اور سوچنا چاہتا ہوں"
نہال اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔۔۔ وہ فرحین کو دیکھ رہا تھا نماز کے دوپٹے میں لپٹا ہوا اس کا چہرہ نہال کو بھلا لگا
"تم پر اس سٹائل میں دوپٹہ کافی سوٹ کر رہا ہے اچھی لگ رہی ہو تم"
نہال نے فرحین کو دیکھتے ہوئے کہا وہ دونوں نکاح کے بندھن میں تو بند چکے تھے مگر رشتے کا تقاضا ابھی پورا نہیں ہوا تھا
"مجھے خوش رکھنے کے لیے ضروری نہیں کہ تم میری تعریف کرو"
فرحین نہال کو دیکھ کر کہتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تب نہال نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا فرحین کے قدم وہی رک گئے
"یہ تعریف میں نے تمہیں خوش کرنے کے لئے نہیں کی ہے فرحین میں نے یہ بات دل سے بولی ہے"
نہال فرحین کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا بولا اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما
"پلیز نہال نہیں"
فرحین کی آنکھوں میں نمی آئی اس نے التجائی انداز میں کہا ویسے ہی نہال نے اپنے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹالیے اور خود بھی پیچھے ہوا
"میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا فرحین،،، نہ ابھی نہ آگے زندگی میں کبھی پلیز اب رونا نہیں"
نہال اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا شاید فرحین نے نکاح تو کرلیا تھا مگر وہ ایک دم اتنی جلدی اس رشتے کو ایکسپٹ نہیں کر پا رہی تھی اور اس معاملے میں نہال پوری پوری فرحین کی رضامندی چاہتا تھا
"اوکے ایسا کرتے ہیں آج ہم دونوں باہر ڈنر کرتے ہیں"
نہال اپنا موڈ فرش کرتا ہوا بولا اور فرحین کو اپنا پروگرام بتانے لگا
"مجھے بھیڑ پسند نہیں ہے نہال۔۔۔ لوگوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے اب"
فرحین بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی نہال بھی اس کے برابر میں بیٹھا اور آہستہ سے اس کا ہاتھ تھاما
"معلوم ہے فرحین تم بہت پیارے دل کی لڑکی ہو میرے اتنے بڑے گناہ کو معاف کر کے تم نے ظرف دکھایا ہے۔۔۔ مجھے واقعی خوشی ہوگی اگر میں تمہیں خوش رکھوں گا کیا تم میری خوشی کی خاطر ڈنر پر چل سکتی ہو۔۔ بھیڑ تو مجھے بھی پسند نہیں ہے ہم اپنے لئے کیبن بک کروا لیں گے"
نہال اس کا ہاتھ تھامتا ہوا مسکرا کر پوچھنے لگا تو فرحین نے اسے دیکھ کر اقرار میں سر ہلایا
"مجھے لگ رہا تھا آسان نہیں ہے پر اب لگتا ہے اتنا مشکل بھی نہیں ہے"
نہال فرحین کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا
"کیا"
فرحین ناسمجھنے والے انداز میں پوچھنے لگی
"تم سے محبت کرنا" نہال مسکراتا ہوا اس کے پاس سے اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
****
نمیر صبح کے وقت آفس میں نہال کے روم میں، آفس کے ہی کسی کام سے آیا نہال اس وقت اپنے کمرے میں موجود نہیں تھا اس کے لیپ ٹاپ پر نمیر کی نظر پڑی تو آسٹریلیا سے میل آئی ہوئی تھی۔۔۔۔ ای میل پڑھنے کے بعد اس کے ماتھے پر شکنیں ابھری۔۔۔ ویسے ہی نہال دروازہ کھول کر اپنے روم میں آیا
"یہ کیا ہے نہال تم نے آسٹریلیا میں جاب کے لیے اپلائی کیا ہے"
نمیر حیرت سے نہال کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"ہاں میں اگلے ماہ فرحین کے ساتھ آسٹریلیا شفٹ ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں"
نہال نے اپنے لیپ ٹاپ پر ایک نظر ڈال کر اپنے فیس ایکسپریشن نارمل رکھتے ہوئے نمیر کو جواب دیا
"مگر کیوں،، کیا میں وجہ جان سکتا ہوں"
نمیر اب بھی حیرت سے اسے دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا
"کیا وجہ تمہیں معلوم نہیں"
نہال نمیر کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"نہیں مجھے تمہارے آسٹریلیا شفٹ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی ہے پلیز اب یہ مت بولنا کہ تم شرمندہ ہو اس لیے یہاں رہ کر کسی کو فیس نہیں کر پا رہے ہو"
نمیر نہال کو دیکھتا ہوا چڑ کر بولا
"ایسا ہی ہے نمیر"
نہال نمیر کے جواب میں بولا۔ ۔۔ نمیر نے لمبا سانس کھینچا
"شرمندگی سے منہ چھپا کر تمہیں جب جانا پڑتا جب فرحین زندہ نہیں ہوتی تب تمہارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔۔۔ اب جبکہ تم فرحین سے شادی کر چکے ہوں نائلہ آنٹی اور فرحین تمہیں معاف کر چکی ہیں،، سب کچھ نارمل ہو چکا ہے تو پھر یوں جانے کی وجہ"
نمیر نہال کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میرے اور فرحین کے بیچ سب کچھ نارمل نہیں ہے۔۔ آئی تھینک ہمارے رشتے کے لئے بھی یہ ضروری ہے"
نہال نے ایک جواز پیش کیا
"جو شادیاں نارمل نہیں ہوتی ان کا ریلیشن بھی نارمل نہیں ہوتا،، وہ سب کچھ تم یہاں اپنی فیملی کے بیچ میں رہ کر نارمل کر سکتے ہو۔۔۔ اگر اکیلے باقی فیملی سے دور، تنہا رہ کر ہسبنڈ وائف کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہوجاتا تو میں بھی عنایہ کو لے کر کب کا جا چکا ہوتا۔۔۔ تم ہم سے دور جا کر نہ صرف مجھے اور ماما کو تنہا کر رہے ہو بلکے خود کو بھی اکیلا کر رہے ہو۔۔۔ اور فرحین کو بھی اس کی بہن سے دور کر رہے ہو نہال پلیز اس طرح مت کرو" نمیر نے نہال کو سمجھانا چاہا
"یہ تم کہہ رہے ہو تمہیں معلوم ہے نہ میں کتنا خود غرض ہو گیا تھا میں نے صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہوئے تمہیں عنایہ سے دور کرنا چاہا۔۔۔ میں کس کس بات سے شرمندہ ہوں مجھے خود نہیں سمجھ میں آتا" نہال نمیر سے نظریں چراتا ہوا بولا
"نہال تو میرے بھائی ہو ایک ہی بھائی۔۔۔ میں تم پر غصہ کر سکتا ہوں مگر تم سے نفرت بالکل نہیں کرسکتا۔۔۔اب جبکہ سب کچھ بالکل ٹھیک ہو چکا ہے تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے تو پلیز یوں مجھے اور ماما کو تنہا مت کرکے جاؤ یار میں ویسے بھی تمہارے کومے میں جانے کے بعد بہت اکیلا ہو گیا تھا،، اب دوسری بار اکیلا نہیں ہونا چاہتا" نمیر کے بولنے کی دیر تھی نہال نے اسے گلے لگا لیا۔۔۔ آج اسے لگا رشتوں کے معاملے میں وہ کتنا خوش نصیب ہے اس کا چھوٹا بھائی اس سے کتنا پیار کرتا ہے ان دونوں کے گلے لگنے سے وقتی کدورتیں ختم ہوچکی تھی
"یہ میری آنکھیں کون سا جذباتی منظر دیکھ رہی ہے بھائی،، مجھے کیو اکیلا چھوڑ دیا تم دونوں نے ظالموں" نوفل دروازہ کھول کر اندر آیا نہال اور نمیر کو گلے لگے دیکھ کر معصومیت سے بولا
جس پر نہال مسکراتا ہوا جو نمیر سے الگ ہوا اور نوفل کی طرف بڑھتا ہوا اسے بھی گلے لگا لیا
"مجھے ہمیشہ تمہاری دوستی پر فخر رہے گا"
نہال اس کے گلے لگتے ہوئے بولا
نوفل کا رخ نمیر کی طرف تھا نوفل اشارے سے نمیر سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا سین ہے
"یہ تمہیں گلے اس لیے لگا رہا ہے تاکہ تمہارے جوتوں سے بچ جائے۔۔۔ تمہاری سالی صاحبہ کے ساتھ موصوف آسٹریلیا بھاگنے کا پلان بنا رہے تھے"
نمیر اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے نوفل کو بتانے لگا نہال مسکراتا ہوا نوفل سے الگ ہوا
"او میرے بھائی یہ دیکھ میرے جڑے ہوئے ہاتھ ایسا کبھی سوچنا بھی مت ورنہ میری بیوی اپنی بہن کی جدائی میں میرا جینا حرام کر دے گی،، بات بات پر شانزے مجھے طعنے دے گی کیوں کرائی تم نے میری بہن کی شادی اس بھگوڑے کے ساتھ"
نوفل کی بات سن کر ایک بار پھر نمیر اور نہال ہنس دیئے
****
"سنا ہے تم نے کوئٹہ جاکر شادی کر لی ایسی کی ایمرجنسی آگئی تھی جو اپنی ماں اور خالہ جانی کا خیال بھی نہیں آیا"
عشرت نہال کی شادی کی خبر سن کر منال کے ساتھ ثروت سے ملنے پہنچ گئی۔۔۔ نہال اور نمیر افس سے اسی وقت آئے تھے،، ثروت کے علاوہ اس وقت ڈرائنگ روم میں نہال اور فرحین بھی موجود تھے تب عشرت میں نہال سے بولی
"فرحین کو دیکھ کر عشق ہوگیا تھا خالہ جانی جبھی دوسری بار منگی یا مہندی کا چانس نہیں لیا بس جلدی سے نکاح کرلیا۔۔۔ اب آپ بھی منال کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ ہی لیں"
نہال نے اس عشرت کو دیکھتے ہوئے کہا جبکہ فرحین نہال کی بات پر اس کو دیکھنے لگی دیکھ تو منال بھی اس کو رہی تھی آخری نہال نے اچانک شادی کیسے کرلی منال کو سمجھ میں نہیں آیا
"منال کے لیے کوئی لڑکوں کی کمی ہے کیا،، ہوجائے گی اس کی شادی میری بیٹی کی کونسی عمر نکلی جارہی ہے"
عشرت اتراتی ہوئی بولی،، اسے نہال کی گونگی بیوی ذرا اچھی نہیں لگی جو کب سے خاموش بیٹھی ہوئی تھی
"اللہ اب سب لڑکوں پر رحم کرے اپنا،، اوکے خالہ جانی ڈنر پر ملتے ہیں ابھی آفس سے آیا ہوں ذرا ریسٹ کرو گا،، فرحین ذرا روم میں آنا"
نہال عشرت کو بولتا ہوا ساتھ ہی فرحین کو بھی لے گیا کیوکہ وہ کافی دیر سے عشرت کے گھورنے اور باتوں پر نروس ہو رہی تھی
"چھوٹی بہو کہاں ہے آپ کی آپا۔۔۔ ذرا آداب نہیں سکھائے آپ نے اسے کہ گھر آئے مہمانوں کو سلام بھی کر لیا جاتا ہے"
نہال اور فرحین کے اٹھنے کے بعد عشرت کی توپوں کا رخ اب عنایہ کی طرف ہوگیا
"اس کو معلوم نہیں ہوگا عشرت ورنہ وہ سلام نہ کرے ایسا ممکن نہیں،، کچن میں مصروف ہو گی بچاری۔۔۔ آج صبح ہی نمیر ناشتے پر اس سے بریانی کھانے کی فرمائش کر رہا تھا"
ثروت کا جواب سن کر عشرت منہ بناتی ہوئی چپ ہو گئی جبکہ منال اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئی
****
Part B 3k like k bad post kiya jYe ga
🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Last episode (B)
"فرحین کچھ کہنا چاہ رہی ہو یا کوئی بات ہے تو بولو"
نہال ڈریس چینج کرکے نکلا تو فرحین ابھی تک سر جھکائے بیڈ پر بیٹھی، بیڈ شیٹ کے ڈیزائن پر انگلی پھیر رہی تھی نہال کی بات پر سر اٹھائے وہ اسے دیکھنے لگی
"تمہیں کیسے معلوم میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں"
فرحین نہال کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"ایک ہفتے میں تھوڑا بہت جاننے کی کوشش کی ہے ایک سال گزرے گا تو مجھے یقین ہے میں تمہارے دل کی میں چھپی بات خود سے کہہ دیا کروں گا"
نہال مسکراتا ہوا فرحین کو دیکھ کر بولنے لگا تب فرحین خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگی
"ابھی وہاں تم نے سب کے سامنے کہا دوسری بار منگنی یا مہندی کا چانس لیے بغیر جھٹ سے نکاح کرلیا مطلب تمھاری پہلے"
فرحین کچھ سوچتی ہوئی بولی پھر خاموش ہوگئی
"میری پہلے عنایہ سے شادی ہونے والی تھی پھر میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی شادی نمیر سے ہوگئی۔۔۔ ہوش میں آنے کے بعد مجھے سب کے ساتھ ساتھ خدا سے بھی شکوہ تھا مگر اب سمجھ میں آیا جو ہوا بہت اچھا ہوا یہ بات بالکل ٹھیک کہی جاتی ہے ہر کام میں خدا کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔۔۔ نمیر کی شادی عنایہ سے ہونا قسمت میں لکھا تھا کیوکہ تمہیں میری زندگی میں آنا تھا"
نہال دھیمے لہجے میں اسے بتا رہا تھا فرحین غور سے نہال کو دیکھنے لگی
"کیا ہوا یہی سوچ رہی ہوں کہ میں عنایہ کو پسند کرتا تھا۔۔۔ دیکھو میں ابھی سے تمہارے دل کی باتیں جاننے لگ گیا ہوں"
نہال مسکراتا ہوا فرحین سے بولا وہ خاموشی رہی۔۔۔ اس نے اقرار نہیں کیا نہال کی بات کا مگر وہ سچ میں یہی سوچ رہی تھی نہال نے فرحین کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا
"فرحین محبت کے بغیر زندگی گزاری جا سکتی ہے تمہیں بھی تو نمیر پسند تھا ناں مگر مجھے معلوم ہے وہ اب تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔۔ اس طرح ایک وقت آئے گا جب عنایہ کا تصور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا،، دو ایسے لوگ جن کو محبت نہ ملے وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے پاٹنر کی فیلینگز کو سمجھتے ہوئے زندگی گزار سکتے ہیں مجھے یقین ہے" نہال اس کا ہاتھ تھامے نرم لہجے میں سمجھا رہا تھا فرحین ابھی بھی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی
"مگر ہم دونوں یہ کوشش کریں گے کہ ہمارے بچے کو زندگی میں اس کی محبت ضرور ملے"
نہال اب شرارت سے فرحین کو دیکھتا ہوا کہنے لگا
"بچہ"
فرحین نہال کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالتی ہوئی حیرت سے بولی
"ہاں ہم دونوں کا بچہ"
نہال نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا وہ پریشان ہو کر نہال کو دیکھنے لگی
"اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں دس سال تک بھی انتظار کر سکتا ہوں"
نہال مسکراتا ہوں فرحین سے کہنے لگا تو فرحین سر جھکا گئی
****
"یار عنایہ میری بلیک شرٹ کہاں پر رکھ دی تم نے"
نمیر ابھی آفس سے گھر لوٹا تھا روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو وہ وارڈروب میں اپنی شرٹ دیکھتا ہوا عنایہ کو بولا مگر جب اس کی نظر دروازے پر پڑی
"تم"
نمیر کے تاثرات سنجیدہ ہوئے وہ وارڈروب کا دروازہ بند کرتا ہوا منال کو دیکھ کر بولا
"مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے نمیر"
منال اس کے قریب آتی ہوئی سنجیدگی سے بولی
"اوکے جو بھی بات کرنی ہے ڈرائنگ روم میں چلو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں" نمیر کو یوں منال کا اپنے بیڈ روم میں آنا اچھا نہیں لگا مگر وہ چہرے کے تاثرات نارمل رکھتا ہوا بولا
"ڈرائنگ روم میں نہیں یہاں اکیلے بات کرنی ہے مجھے، دیکھو میں جانتی ہوں میں تمہیں اپنی بیوقوفی سے کھو چکی ہوں مگر مجھے اب احساس ہوگیا ہے اپنی غلطی کا پلیز نمیر سب بھول جاؤ مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لو۔۔۔ ایسے تو نہیں ہے نا صرف میں نے تم سے محبت کی تھی بے شک اظہار پہلے میں نے کیا تھا مگر تم بھی تو چاہتے تھے نہ مجھے اور یہ دیکھو اس تصویر میں نہال نے کیسے عنایہ کا ہاتھ تھاما ہوا ہے عنایہ کے دل میں ابھی تک تمہارا بڑا بھائی بستا ہے جیسے ابھی تک تم میرے دل میں بستے ہو۔۔۔ نہال اگر شادی نہیں کرتا تو عنایہ خود تم سے علیحدگی لے کر"
منال اپنے موبائل میں ثبوت کے طور پر عنایہ اور نہال کی تصویر دکھانے لگی مگر نمیر کے پڑنے والے تھپڑ سے اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔۔۔ منال بے یقینی سے نمیر کو دیکھنے لگی
"میں نے تمہیں پہلے بھی بولا تھا، تم جو بھی بات کرنا بہت سوچ سمجھ کر کرنا ایک طرف میرا بھائی ہے دوسری طرف میری بیوی۔۔۔ تم ہوتی کون ہو عنایہ کے کردار کے بارے میں اتنی گھٹیا بات کرنے والی۔۔۔ عنایہ کس کردار کی مالک ہے یہ تمہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں تم سے زیادہ اچھی طریقے سے اپنی بیوی کو جانتا ہوں اور اب میں تمہیں بھی جان گیا ہوں۔۔۔ ہاں میں پہلے تمہیں چاہتا تھا مگر مجھے تب تک یہ اندازہ نہیں تھا کہ تم ایک گری ہوئی لڑکی ہوں اور آج کے بعد تو میں تمہاری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔۔۔ آئندہ اگر تم نے عنایہ کے خلاف میرے سامنے یا کسی کی بھی سامنے زہر اگلنے کی کوشش نہیں تو میں تمہیں ہرگز نہیں بخشوں گا"
نمیر اسے وارن کرتا ہوا بولا اور اپنے کمرے سے باہر جانے لگا تبھی منال نے اس کا ہاتھ پکڑا
"اوکے میں اب عنایہ کے بارے میں تم سے کچھ نہیں بولوں گی مگر میں گری ہوئی ہرگز نہیں ہوں پیار کرتی ہوں تم سے۔۔۔ ٹھیک ہے تم عنایہ کو بھی اپنی زندگی سے مت نکالو مگر مجھے اپنی زندگی میں شامل کرلو۔۔۔ میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر" منال روتی ہوئی نمیر سے کہنے لگی اور اچانک اس کے سینے سے لگ گئی اس سے پہلے وہ اسے خود سے پیچھے دور کرتا اسی لمحے کمرے کا دروازہ کھلا اور عنایہ اندر آئی وہ اندر کا منظر دیکھ کر وہی رک گئی۔۔۔ نمیر نے منال کو پیچھے دھکا دیا اب وہ عنایہ کو دیکھ رہا اور عنایہ چہرے سے آنسو صاف کرتی ہوئی منال کو
"کم از کم آپ میں اتنے ایٹی کیٹز تو ہونے چاہیے منال آپی کے یوں کسی میرڈ کزن کے بیڈروم میں اتنے دھڑلے سے نہیں آیا جاتا"
"مجھے یہاں نمیر نے میسج کرکے بلایا تھا"
منال کی بات سن کر نمیر کو آگ لگ گئی اس سے پہلے وہ منال کو اپنے بیڈ روم سے دھکا دے کر نکالتا
"ایک منٹ نمیر مجھے بات کرنے دیں منانا آپی سے" عنایہ نمیر کا غصہ دیکھ کر اس سے بولی
"اور کتنا گرائے گی آپ خود کو منال آپی میری نظروں میں،،، آپ کو شرم آنی چاہیے ایسی گھٹیا باتیں کرتے ہوئے ایک شوہر اور اس کی بیوی کے بیچ میں نااتفاقی پیدا کرتے ہوئے۔۔۔ یہ اونچی حرکتوں کرکے خدارا اپنے آپ کو میری اور نمیر کی نظر میں خود کو نہ گرائے۔۔۔۔آپ تو اپنے اپکو عورت کے معیار سے گرانے پر تل گئی ہیں۔۔۔ مجھے اپنے شوہر پر اپنے سے زیادہ بھروسہ ہے، آپ ان کے بارے میں کچھ بھی بول کر مجھے نمیر سے بدگمان نہیں کر سکتی"
عنایہ کی باتیں سن کر منال ایک پل کے لئے کچھ بھی نہیں بولی۔۔۔ وہ تو کبھی اس کے سامنے زبان تک نہیں چلاتی تھی اور آج کیسے اس کے سامنے بڑھ بڑھ کر بول رہی ہے یقیناً یہ نمیر کی محبتوں کا ہی اعجاز تھا اور اس کا فراہم کردہ اعتبار بھی
"میری جان جانے دو اسے، اپنی انرجی ویسٹ مت کرو،، یہ اپنی عادت سے مجبور ہے۔۔۔ نہیں جانتی کہ ہم دونوں کا رشتہ کتنا مضبوط ہے"
نمیر عنایہ کے پاس آکر اس کے کندھے کے گرد بازو حائل کر کے دوسرا ہاتھ عنایہ کے گال پر رکھتا ہوا بولا۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر منال کا اب ان کے بیڈروم میں ٹھہرنا بے مقصد تھا وہ بیڈروم سے جانے لگی
"منال دروازہ بند کرتی ہوئی جانا پلیز"
کمرے سے نکلتی ہوئی منال کو نمیر کی آواز آئی۔۔۔ اس نے دھندلی آنکھوں سے مڑ کر دیکھا۔۔۔ نمیر جھکا ہوا عنایہ کے کان میں شرارت سے کچھ کہہ رہا تھا جس پر عنایہ نے مسکرا کر اسے گھور کر دیکھا اب نمیر بھی عنایہ کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا منال بیڈروم کا دروازہ بند کر کے اپنے آنسو پوچھتی ہوئی وہاں سے نکل گئی
****
ایک سال بعد
وہ ڈیوٹی پر تھا جب فریدہ نے اسے کال کر کے بتایا کہ شانزے کی اچانک حالت بگڑ گئی ہے اور وہ اسے ہاسپٹل لے کے جا رہی ہے۔۔۔ نوفل خود بھی فوری طور پر اسپتال کے لئے روانہ ہوا مگر ٹریفک میں پھنسنے کے باعث اسے پہنچنے میں دیر ہو گئی۔۔۔ جب وہ ہسپتال پہنچا تو اسے خبر ملی وہ ایک پیارے سے بیٹے اور بیٹی کا باپ بن چکا ہے فریدہ نے اسپتال کے کوریڈور میں ہی اس کو خوشخبری سنائی تھی وہ دادی بن کر بے حد خوش تھی نوفل مسکراتا ہوا ہاسپٹل کے روم میں اپنی ظالم حسینہ کے پاس پہنچا
شانز بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اس کے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی جبکہ چہرے پر کافی سویلنگ تھی۔۔۔ ایمرجنسی میں اس کا سیزر کرنا پڑا اس وقت وہ نیم بے ہوش تھی جب اسے نوفل کے ہونٹوں کا لمس اپنی پیشانی پر محسوس ہوا شانزے نے آئستہ سے اپنی آنکھیں کھولی نوفل اس کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا
"تمہیں چنوں اور منوں چاہیے تھے۔۔۔۔ چنوں تو آگیا مگر منوں کی جگہ منی آگئی ہے"
شانزے نے نوفل کو دیکھ کر دھیمے لہجے میں بولا مگر نوفل اس کی بات سن کر مسکرا دیا
"میں ابھی بےبی نرسری میں دونوں کو دیکھ کر آیا ہوں اور مزے کی بات یہ ہے کہ منی ہمارے چنوں سے بھی زیادہ کیوٹ ہے۔۔۔ دل چاہ رہا تھا اسے انکیوپٹر سے نکال کر ڈھیر سارا پیار کرو"
نوفل کی بات سن کر شانزے آہستہ سے مسکرائی
"کیا ہوا زیادہ پین ہو رہا ہے نوفل بیڈ پر جھگا شانزے کا گال سہلاتا ہوا فکرمندی سے پوچھنے لگا
"اس سے تھوڑا کم جو تم پر گولی چلا کر محسوس ہوا تھا"
شانزے کو اپنے عمل پر شاید ابھی بھی شرمندگی تھی جبھی وہ یہ بات ابھی تک نہیں بھول پائی تھی
"اے میں نے منع کیا تھا نہ کہ اب ہمارے درمیان فضول قسم کی بات دوبارہ نہیں ہوگی۔۔۔ جب میں نے تم سے کوئی شکوہ نہیں کیا غصہ نہیں کیا تم پر۔۔۔ تو پھر تم یہ ٹاپک کیوں لاتی ہو ہمارے بیچ میں"
نوفل شانزے کو دیکھ کر سنجیدگی سے بولا
"تم اتنی اچھے کیوں ہو نوفل" شانزے نوفل کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی وہ نوفل کی محبت پر اپنی قسمت پر جتنا رشک کرتی کم تھا
"تم اتنی ظالم جو ہو"
نوفل اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا بولا
"اب کیا ظلم کر دیا میں نے اپنے ایس۔پی پر"
شانزے درد کے باوجود مسکراتی ہوئی پوچھنے لگی
"یہ بات یہاں پر نہیں گھر جا کر اپنے بیڈ روم میں بتاؤں گا"
نوفل ہاتھ کا پنچ بنا کرآئستہ سے شانزے کے گال پر لگاتا ہوا بولا
"امی کو بتا دیا تھا تم نے میرا"
شانزے نوفل سے نائلہ کا پوچھنے لگی
"تھوڑی دیر پہلے ہی بات ہوئی تھی رات کی فلائٹ سے پہنچ رہی ہیں وہ"
نوفل شانزے کو لگی ڈرپ کی اسپیڈ سلو کرتا ہوا اسے بتانے لگا
"آپی اور عنایہ کو بھی بتا دیا"
شانزے کو اب دوسری فکر دونوں دیورانی اور جھٹانی کی ہوئی جن کی آپس میں کافی زیادہ بنتی تھی
"بےفکر ہوجاؤ میں نے نمیر اوا نہال دونوں کو اطلاع دے دی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر میں سب یہاں آن دھمکے گے۔۔۔ ابھی تھوڑا سا ریسٹ کر لو"
نوفل شانزے کے خیال سے اسے دیکھتا ہوا بولا تو شانزے نے مسکرا کر اپنی دونوں آنکھیں بند کر لی
عنایہ اور فرحین کی آپس میں کافی اچھی انڈراسٹینڈنگ تھی بلکہ دو ماہ کا چھوٹا سا عالیان عنایہ سے زیادہ فرحین کی گود میں رہتا 2 ماہ پہلے عنایہ نے گول مٹول سے صحت مند بچے کو جنم دیا جو کہ اپنے ماں باپ کے علاوہ اپنی دادی تایا تائی گھر بھر کا لاڈلا تھا اس کی دیکھ بھال فرحین بغیر کسی کے کہے کرتی تھی۔۔۔ عالیان خود بیان عنایہ کی بانسبت فرحین سے مانوس تھا اور گھر میں زیادہ تر اسی کے پاس پایا جاتا
کیوکہ نمیر نے عنایہ کی ایک نہ سنتے ہوئے اس کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن کرادیا تھا ہر روز رات میں وہ اس کی کلاس لینے سے پہلے اسی ٹینشن دینا نہیں بھولتا
فرحین اب کافی حد تک نارمل ہو گئی تھی اور آہستہ آہستہ زندگی کی طرف بھی راغب ہو رہی تھی وہ اب باتیں کرتی تھی سب کی باتوں پر مسکراتی بھی تھی اس نے سارے گھر کی ذمہ داری کے ساتھ علیان کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھالی تھی۔۔۔ نہال اس کا بہت اچھے طریقے سے خیال رکھتا تھا ہر ممکن اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔۔۔ اب وہ اس کے دل کی ہر بات اس کے بولنے سے پہلے جان جاتا۔۔۔ عالیان کے ننھے سے وجود کو دیکھ کر فرحین کو بھی اپنے اندر ایک کمی کا احساس محسوس ہوتا جوکہ ماں بن کر پوری ہو سکتی تھی مگر اس سے بھی اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ سب اسے نہال سے کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔۔ نہال نے فرحین کی دلی آمادگی کو دیکھتے ہوئے اپنے اور فرحین کے رشتے کو اس کا اصل مقام دے دیا تھا۔۔۔ اب کی بار نہال کی قربت سے فرحین کو اپنے آپ سے گھن نہیں آئی بلکہ اسے اپنا آپ معتبر لگنے لگا
****
چھ سال بعد
"عالیان فوراً اندر آو ورنہ ابھی میں تمہارے ڈیڈ کو بلاتی ہوں"
گھر کے لان میں پانچ سالہ عالیان بارش میں کافی دیر سے بھیگ رہا تھا۔۔۔ عنایہ ہیوی ڈیل ڈول کے ساتھ شیلٹر کے نیچے کھڑی اپنے بیٹے کو دیکھتی ہوئی بولی اسکا نائنتھ منتھ اسٹارٹ تھا
"مما پلیز خود تو آپ بارش سے ڈرتی ہیں میرے کو ڈیڈ سے مت ڈرائے"
بارش میں بھیگتا ہوں عالیان عنایہ کو دیکھتا ہوا بولا
"میں بارش سے بالکل نہیں ڈرتی مگر مجھے یوں بے وقوفوں کی طرح بارش میں بھیگنا پسند نہیں لیکن تم اپنے ڈیڈ سے نہیں ڈرتے یہ بات میں ابھی جاکر نمیر کو بتاتی ہوں"
عنایہ کا ڈر اب بارش سے ختم ہوچکا تھا۔۔۔ وہ اب بارش میں نارمل ری ایکٹ کرتی تھی مگر برسات میں بھیگنا اسے ذرا بھی پسند نہیں تھا
"مما پلیز آپ ڈیڈ کا نام لے کر مجھے کیوں ڈرا رہی ہے ٹرسٹ می دس منٹ بعد خود آ جاؤں گا" نمیر کی دھمکی دینے پر عالیان ایک دم سیدھا ہوگیا کیوکہ ثروت، نہال، فرحین کے لاڈ پیار نے اسے کافی شیطان بنا دیا تھا وہ صرف نمیر کے آنکھیں دکھانے پر اپنے ڈیڈ سے ہی ڈرتا ورنہ سارا وقت شور شرابے اور شیطانیوں میں لگا رہتا
نوفل کے بیٹے ماز سے اس کی خوب بنتی کیوکہ وہ دونوں عادتوں میں ایک جیسے تھے پورے گھر کو سر پر اٹھانے والے۔۔۔ دونوں ہی مل کر آئزہ (نوفل کی بیٹی) کو بہت تنگ کرتے۔۔۔ جس کی صورت میں ان دونوں کو اپنے اپنے ڈیڈ سے خوب ڈانٹ بھی پڑتی
"نمیر ذرا جاکر عالیان کی خبر لیں،، مجھے بہت تنگ کرنے لگا ہے اب میں ڈانٹو گی تو فوراً بھابھی کے کمرے میں چلا جائے گا وہ ریسٹ کر رہی ہیں، ڈاکٹر نے انہیں ریسٹ کا بتایا ہے" عنایہ بیڈ روم میں آکر لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے نمیر کو دیکھ کر بولی
شادی کے 6 سال بعد فرحین کو بھی گڈ نیوز ملی تھی اس کا ففتھ منتھ اسٹارٹ ہو چکا تھا اور وہ ایک بیٹی کی ماں بننے والے تھی جس کا نہال کو بے صبری سے انتظار تھا
"لے لیتا ہو جا کر اس کی خبر بھی پہلے تم اپنی خبر تو دو۔۔۔ کیا کر رہی تھی کچن میں اتنی دیر سے"
نمیر لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پر رکھتا ہوا عنایہ کے پاس آیا اس کے بلکی فگر کو اپنی بانہوں میں لے کر اس کی سانسوں کی مہک اپنے اندر اتارنے لگا
"تم پیزا بیک کرنے گئی تھی یا کھانے" نمیر چیز کا ٹیسٹ محسوس کرتا ہوا شرارت سے پوچھنے لگا جس پر عنایہ نے اسے گھورا
"نمیر دوسرے بیٹے کی ڈیڈ بننے والے ہیں۔۔۔ اب آپ سیریس ہو جائیں" عنایہ اس کو گھورتی ہوئی وارڈروب سے عالیان کے کپڑے نکالنے لگی
"چندا میرے سیریس ہونے پر ہی تم سیکنڈ ٹائم اکسپیکٹ کر رہی ہو۔۔۔ چھوڑو یہ کپڑے، صبح سے تمہیں اِدھر سے اُدھر پھرتا ہوا دیکھ رہا ہوں،،، ڈاکٹر نے تمہیں بھی ریسٹ بولا ہے اب شرافت سے بیڈ پر لیٹ جاؤ"
نمیر نے عالیان کے کپڑے عنایہ کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹایا اور خود بھی اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اب وہ معمول کی طرح اپنے دوسرے بیٹے کو کس کر کے اس سے باتیں کرنے لگا
"مائی لٹل بوائے کب آنے کا ارادہ ہے اپنے ڈیڈ اور مما کے پاس،، تمہارے ڈیڈ کو تمہارا بےصبری سے انتظار ہے پلیز یار تم اپنے بھائی کی طرح افلاطون مت نکلنا،، بالکل اپنی نے مما پر جانا ایک دم کول اور باتونی"
آخری جملہ بولتے ہوئے نمیر نے عنایہ کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے آنکھ ماری جس پر عنایہ بھی مسکرانے لگی وہ اب بہت باتونی ہوگئی تھی
"اپنے بیٹے سے باتیں کرلی ہیں تو آپ میری بات بھی سن لیں۔۔۔ آج منال آپی کی بارات ہے نمیر، ہم دونوں جائے گے ناں"
عنایہ بیڈ پر لیٹی ہوئی نمیر سے پوچھنے لگی
منال نے 6 سالوں میں آنے والے ہر رشتے کو ریجیکٹ کیا۔۔۔ اب ایک رشتے پر وہ مانی تھی جس پر عشرت اپنا سر پکڑ کر رہ گئی جبکہ فرمان نے تو اپنی ہی اولاد کو اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ عدنان یعنی منال کا ہونے والا شوہر جو کہ پہلے سے شادی شدہ تھا اور دو بچوں کا باپ تھا منال سے ایک سال پہلے اسے دھواں دھار محبت ہوگئی اور اب منال اس سے ضد کر کے شادی کر رہی تھی
"یار ہفتے بھر کے بعد مجھے ایک چھٹی ملی ہے میں یہ دن ریلکس گزارنا چاہتا ہوں اور تمہاری خود کی کنڈیشن ایسی کہاں ہے جو تم جاسکو۔۔۔ میں نے صبح ہی نہال سے کہہ دیا تھا وہ اور ماما چلے جائیں گے۔۔۔ تم بس ریسٹ کرو اور مجھے ریلکس کرو اور اپنی افلاطون اولاد کو یہ کپڑے میں خود پہنا دوں گا مگر تھوڑی دیر بعد کیوکہ اگر وہ یہاں کمرے میں آ گیا تو مجھے تمہارے قریب رہنے کا موقع مشکل سے ہی ملے گا"
نمیر بولتا ہوا عنایہ کے چہرے پر جھکا
"ڈر تو نہیں لگ رہا" نمیر اپنی کہنی عنایہ کے تکیہ پر ٹکا کر دوسرا ہاتھ عنایہ کے پیٹ رکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا کیوکہ عالیان کی دفعہ میں وہ کافی ڈری ہوئی تھی
"زیادہ نہیں مگر تھوڑا تھوڑا"
عنایہ نمیر کے شولڈر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی
"تھوڑا تھوڑا بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں تمہارے پاس موجود ہوگا نہ اس ٹائم"
نمیر نے جیسے ہی اپنے ہونٹ عنایہ کی پیشانی پر رکھے ویسے ہی بیڈروم کا دروازہ کھلا عنایہ نے فوراً اپنا ہاتھ نمیر کے کندھے سے ہٹایا نمیر ایک دم پیچھے ہوا
"اُپس پرامس ڈیڈ میں نے کچھ نہیں دیکھا"
عالیان نے بولنے کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں کی جگہ ہونٹوں پر رکھ لئے
"کتنی بار کہا ہے تمہیں پہلے دروازہ ناک کرتے ہیں پھر کسی کے روم میں جاتے ہیں کب آئے گے تم میں مینرز معلوم نہیں تمہاری مما کو سہلا رہا تھا میں"
نمیر اپنے بیٹے کو ڈانٹنے کے ساتھ بات بناتا ہوا بولا
"رئیلی ڈیڈ میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے کچھ نہیں دیکھا" عالیان نے اپنے غصے میں بھرے ڈیڈ کو ریلیکس کرنا چاہا
"شیٹ اپ ڈیڈ کا بچہ،، اٹھاو اپنے یہ کپڑے دادو کے روم میں جاکر چینج کراو ان سے اور خبردار جو تم تائی کے روم میں گئے یہ پھر دوبارہ باہر نکلے"
نمیر دوبارہ اسے آنکھیں دکھا کر وارن کرنے لگا عالیان معصوم شکل بنا کر اپنے کپڑے اٹھاتا ہوا روم سے باہر نکل گیا جس پر عنایہ نمیر کو دیکھ کر مسکرانے لگی
"آنٹی مجھے بتاتی ہیں یا پورا آپ پر ہی گیا ہے"
عنایہ کی بات سن کر نمیر بھی مسکرا دیا
"غلط بولتی ہیں ماما۔۔ یہ مجھے اپنا بھی باپ لگتا ہے" نمیر کے بولنے پر عنایہ دوبارہ ہنس دی
The end
پوسٹ کو لائک کرئیے گا تاکہ میری محنت وصول ہو
Post a Comment
Post a Comment